Tafheem ul Quran

Surah 21 Al-Anbya, Ayat 94-112

فَمَنۡ يَّعۡمَلۡ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَهُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَا كُفۡرَانَ لِسَعۡيِهٖ​ۚ وَاِنَّا لَهٗ كٰتِبُوۡنَ‏ ﴿21:94﴾ وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرۡيَةٍ اَهۡلَكۡنٰهَاۤ اَنَّهُمۡ لَا يَرۡجِعُوۡنَ‏ ﴿21:95﴾ حَتّٰٓى اِذَا فُتِحَتۡ يَاۡجُوۡجُ وَمَاۡجُوۡجُ وَهُمۡ مِّنۡ كُلِّ حَدَبٍ يَّنۡسِلُوۡنَ‏  ﴿21:96﴾ وَاقۡتَـرَبَ الۡوَعۡدُ الۡحَـقُّ فَاِذَا هِىَ شَاخِصَةٌ اَبۡصَارُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ؕ يٰوَيۡلَنَا قَدۡ كُنَّا فِىۡ غَفۡلَةٍ مِّنۡ هٰذَا بَلۡ كُـنَّا ظٰلِمِيۡنَ‏  ﴿21:97﴾ اِنَّكُمۡ وَمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَـنَّمَؕ اَنۡـتُمۡ لَهَا وَارِدُوۡنَ‏ ﴿21:98﴾ لَوۡ كَانَ هٰٓؤُلَاۤءِ اٰلِهَةً مَّا وَرَدُوۡهَا​ ؕ وَكُلٌّ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ‏  ﴿21:99﴾ لَهُمۡ فِيۡهَا زَفِيۡرٌ وَّهُمۡ فِيۡهَا لَا يَسۡمَعُوۡنَ‏ ﴿21:100﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ سَبَقَتۡ لَهُمۡ مِّنَّا الۡحُسۡنٰٓىۙ اُولٰٓـئِكَ عَنۡهَا مُبۡعَدُوۡنَۙ‏ ﴿21:101﴾ لَا يَسۡمَعُوۡنَ حَسِيۡسَهَا​ ۚ وَهُمۡ فِىۡ مَا اشۡتَهَتۡ اَنۡفُسُهُمۡ خٰلِدُوۡنَ​ ۚ‏ ﴿21:102﴾ لَا يَحۡزُنُهُمُ الۡـفَزَعُ الۡاَكۡبَرُ وَتَتَلَقّٰٮهُمُ الۡمَلٰٓـئِكَةُ ؕ هٰذَا يَوۡمُكُمُ الَّذِىۡ كُنۡـتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ‏ ﴿21:103﴾ يَوۡمَ نَـطۡوِىۡ السَّمَآءَ كَطَـىِّ السِّجِلِّ لِلۡكُتُبِ​ ؕ كَمَا بَدَاۡنَاۤ اَوَّلَ خَلۡقٍ نُّعِيۡدُهٗ​ ؕ وَعۡدًا عَلَيۡنَا​ ؕ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيۡنَ‏ ﴿21:104﴾ وَلَـقَدۡ كَتَبۡنَا فِى الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّكۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ الصّٰلِحُوۡنَ‏ ﴿21:105﴾ اِنَّ فِىۡ هٰذَا لَبَلٰغًا لّـِقَوۡمٍ عٰبِدِيۡنَؕ‏ ﴿21:106﴾ وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ اِلَّا رَحۡمَةً لِّـلۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿21:107﴾ قُلۡ اِنَّمَا يُوۡحٰۤى اِلَىَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمۡ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ​  ۚ فَهَلۡ اَنۡـتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ‏ ﴿21:108﴾ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُلۡ اٰذَنۡـتُكُمۡ عَلٰى سَوَآءٍ ​ؕ وَاِنۡ اَدۡرِىۡۤ اَقَرِيۡبٌ اَمۡ بَعِيۡدٌ مَّا تُوۡعَدُوۡنَ‏ ﴿21:109﴾ اِنَّهٗ يَعۡلَمُ الۡجَـهۡرَ مِنَ الۡقَوۡلِ وَيَعۡلَمُ مَا تَكۡتُمُوۡنَ‏  ﴿21:110﴾ وَاِنۡ اَدۡرِىۡ لَعَلَّهٗ فِتۡنَةٌ لَّـكُمۡ وَمَتَاعٌ اِلٰى حِيۡنٍ‏ ﴿21:111﴾ قٰلَ رَبِّ احۡكُمۡ بِالۡحَـقِّ​ؕ وَرَبُّنَا الرَّحۡمٰنُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوۡنَ‏ ﴿21:112﴾

94 - پھر جو نیک عمل کرے گا، اِس حال میں کہ وہ مومن ہو، تو اس کے کام کی ناقدری نہ ہوگی، اور اُسے ہم لکھ رہے ہیں۔ 95 - اور ممکن نہیں ہے کہ جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا ہو وہ پلٹ سکے۔ 92 96 - یہاں تک کہ جب یاجُوج و ماجُوج کھول دیے جائیں گے اور ہر بلندی سے وہ نکل پڑیں گے 97 - اور وعدہٴِ بر حق کے پُورا ہونے کا وقت قریب آلگے گا 93 تو یکایک اُن لوگوں کے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جائیں گے جنہوں نے کُفر کیا تھا۔ کہیں گے ”ہائے ہماری کم بختی، ہم اِس چیز کی طرف سے غفلت میں پڑے ہوئے تھے، بلکہ ہم خطا کار تھے۔“ 94 98 - بے شک تم اور تمہارے وہ معبُود جنہیں تم پُوجتے ہو، جہنّم کا ایندھن ہیں، وہیں تم کو جانا ہے۔ 95 99 - اگر یہ واقعی خدا ہوتے تو وہاں نہ جاتے۔ اب سب کو ہمیشہ اسی میں رہنا ہے۔ 100 - وہاں وہ پھُنکارے ماریں گے 96 اور حال یہ ہوگا کہ اس میں کان پڑی آواز نہ سُنائی دے گی۔ 101 - رہے وہ لوگ جن کے لیے ہماری طرف سے بھلائی کا پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہو گا، تو وہ یقیناً اُس سے دُور رکھے جائیں گے، 97 102 - اُس کی سرسراہٹ تک نہ سُنیں گے۔ اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اپنی من بھاتی چیزوں کے درمیان رہیں گے۔ 103 - وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت اُن کو ذرا پریشان نہ کرے گا، 98 اور ملائکہ بڑھ کر اُن کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ ”یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔“ 104 - وہ دن جبکہ آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اُسی طرح ہم پھر اُس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذِمّے، اور یہ کام ہمیں بہرحال کرنا ہے۔ 105 - اور زَبُور میں ہم نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ 106 - اِس میں ایک بڑی خبر ہے عبادت گزار لوگوں کے لیے۔ 99 107 - اے محمدؐ ، ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔ 100 108 - اِن سے کہو ”میرے پاس جو وحی آتی ہے وہ یہ ہے کہ تمہارا صرف ایک خدا ہے، پھر کیا تم سرِ اطاعت جُھکاتے ہو؟“ 109 - اگر ہو منہ پھیریں تو کہہ دو کہ ”میں نے علی الاعلان تم کو خبردار کر دیا ہے۔ اب یہ میں نہیں جانتا کہ وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے 101 قریب ہے یا دُور۔ 110 - اللہ وہ باتیں بھی جانتا ہے جو بآوازِ بلند کہی جاتی ہیں اور وہ بھی جو تم چھُپا کر کرتے ہو۔ 102 111 - میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ شاید یہ (دیر)تمہارے لیے ایک فتنہ ہے 103 اور تمہیں ایک وقتِ خاص تک کے لیے مزے کرنے کا موقع دیا جارہا ہے۔“ 112 - (آخر کار)رسُولؐ نے کہا کہ ”اے میرے ربّ، حق کے ساتھ فیصلہ کر دے، اور لوگو، تم جو باتیں بناتے ہو اُن کے مقابلے میں ہمارا ربِّ رحمٰن ہی ہمارے لیے مدد کا سہارا ہے۔“ ؏ ۷


Notes

92. اس آیت کے تین مطلب ہیں:

ایک یہ کہ جس قوم پر ایک مرتبہ عذابِ الہٰی نازل ہو چکا ہو وہ پھر کبھی نہیں اُٹھ سکتی۔ اس کی نشأۃ ثانیہ اور اس کی حیاتِ نَو ممکن نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ ہلاک ہو جانے کے بعد پھر اِس دنیا میں اُس کا پلٹنا اور اسے دوبارہ امتحان کا موقع ملنا غیر ممکن ہے۔ پھر تو اللہ کی عدالت ہی میں اُس کی پیشی ہو گی۔

تیسرے یہ ہے جس قوم کی بدکاریاں اور زیادتیاں اور ہدایت ِ حق سے پیہم روگردانیاں اس حد تک بہنچ جاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی ہلاکت کا فیصلہ ہو جاتا ہے، اُسے پھر رجوع اور توبہ و انابت کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اُس کے لیے پھر یہ ممکن نہیں رہتا کہ ضلالت سے ہدایت کی طرف پلٹ سکے۔

93. ”یاجوج ماجوج کی تشریح سورۂ کہف حاشیہ ۶۲، ۶۹ میں کی جا چکی ہے۔ اُن کے کھول دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا پر اس طرح ٹُوٹ پڑیں گے جیسے کوئی شکاری درندہ یکایک پنجرے یا بندھن سے چھوڑ دیا گیا ہو۔ ”وعدۂ حق پورا ہونے کا وقت قریب آلگے گا“ کا اشارہ صاف طور پر اِس طرف ہے کہ یاجوج ماجوج کی یہ عالمگیر یورش آخری زمانہ میں ہو گی اور اس کے بعد جلدی ہی قیامت آجائے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد اس معنی کو اور زیادہ کھول دیتا ہے جو مسلم نے حُذَیفہ بن اَسِید الغِفَاری کی روایت سے نقل کیا ہے کہ ”قیامت قائم نہ ہوگی جب تک تم اس سے پہلے دس علامتیں نہ دیکھ لو: دُھواں، دجّال، داّبتہ الارض، مغرب سے سُورج کا طلوع، عیسیٰ ابن مریم کا نزول، یاجوج و ماجوج کی یورش، اور تین بڑے خسوف (زمین کا دھنسنا یا Landslide ) ایک مشرق میں ، دوسرا مغرب میں، اور تیسرا جزیرۃ العرب میں، پھر سب سے آخر میں یمن سے ایک سخت آگ اُٹھے گی جو لوگوں کو محشر کی طرف ہانکے گی (یعنی بس اس کے بعد قیامت آجائے گی )۔ ایک اور حدیث میں یاجوج ماجوج کی یورش کا ذکر کر کے حضور ؐ نے فرمایا اُس وقت قیامت اِس قدر قریب ہوگی جیسے پورے پیٹوں کی حاملہ کہ نہیں کہہ سکتے کہ کب وہ بچہ جن دے، رات کو یا دن کو (کالحا مل المتم لا یدری اھلھا متی تفجؤ ھم بولدھا لیلا اونھارًا)۔ لیکن قرآن مجید اور احادیث میں یاجوج ماجوج کے متعلق جو کچھ بیا ن کیا گیا ہے اس سے یہ مترشح نہیں ہوتا کہ یہ دونوں متحد ہوں گے اور مل کر دنیا پر ٹُوٹ پڑیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ قیامت کے قریب زمانے میں یہ دونوں آپس ہی میں لڑجائیں اور پھر ان کی لڑائی ایک عالمگیر فساد کی موجب بن جائے۔

94. ”غفلت“ میں پھر ایک طرح کی معذرت پائی جاتی ہے ، اس لیے وہ اپنی غفلت کا ذکر کرنے کے بعد پھر خود ہی صاف صاف اعتراف کریں گے کہ ہم کو انبیاء نے آکر اِس دن سے خبردار کیا تھا، لہٰذا درحقیقت ہم غافل و بے خبر نہ تھے بلکہ خطا کار تھے۔

95. روایات میں آیا ہے کہ اس آیت پر عبداللہ بن الزَّ بَعری نے اعتراض کیا کہ اس طرح تو صرف ہمارے ہی معبود نہیں، مسیح اور عُزیر اور ملائکہ بھی جہنم میں جائیں گے، کیونکہ دنیا میں ان کی بھی عبادت کی جاتی ہے ۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نعم ، کل من احبّ ان یعبد من دون اللہ فھو مع من عبدہٗ ، ”ہاں ، ہر وہ شخص جس نے پسند کیا کہ اللہ کے بجائے اُس کی بندگی کی جائے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جنہوں نے اس کی بندگی کی “۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے خلقِ خدا کو خدا پرستی کی تعلیم دی تھی اور لوگ انہی کو معبود بنا بیٹھے ، یا جو غریب اِس بات سے بالکل بے خبر ہیں کہ دنیا میں ان کی بندگی کی جا رہی ہے اور اس فعل میں ان کی خواہش اور مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے، ان کے جہنم میں جانے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ وہ اس شرک کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ البتہ جنہوں نے خود معبود بننے کی کوشش کی اور جن کا خلق خدا کے اِس شرک میں واقعی دخل ہے وہ سب اپنے عابدوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے۔ اِسی طرح وہ لوگ بھی جہنم میں جائیں گے جنہوں نے اپنی اغراض کے لیے غیر اللہ کو معبود بنوایا، کیونکہ اس صورت میں مشرکین کے اصلی معبود وہی قرار پائیں گے نہ کہ وہ جن کو اِن اَشرار نے بظاہر معبود بنوایا تھا ۔ شیطان بھی اسی ذیل میں آتا ہے، کیونکہ اُس کی تحریک پر جن ہستیوں کو معبود بنایا جاتا ہے، اصل معبود وہ نہیں بلکہ خود شیطان ہوتا ہے جس کے امر کی اطاعت میں یہ فعل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پتھر اور لکڑی کے بُتوں اور دوسرے سامانِ پرستش کو بھی مشرکین کے ساتھ جہنم میں داخل کیا جائے گا تاکہ وہ ان پر آتشِ جہنم کے اور زیادہ بھڑکنے کا سبب بنیں اور یہ دیکھ کر انہیں مزید تکلیف ہو کہ جن سے وہ شفاعت کی اُمیدیں لگائے بیٹھے تھے وہ اُن پر اُلٹے عذاب کی شدّت کے موجب بنے ہوئے ہیں۔

( ابنِ ہشام- جلد دوم-صفحہ ۱۶۵، طبع جدید)

96. اصل میں لفظ زَفِیْر استعمال ہوا ہے ۔ سخت گرمی ، محنت اور تکان کی حالت میں جب آدمی لمبا سانس لے کر اس کو ایک پھُنکار کی شکل میں نکالتا ہے تو اسے عربی میں زفیر کہتے ہیں۔

97. اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں نیکی اور سعادت کی راہ اختیار کی۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ پہلے ہی یہ وعدہ فرما چکا ہے کہ وہ اس کے عذاب سے محفوظ رہیں گے اور ان کو نجات دی جائے گی۔

98. یعنی روز ِ محشر اور خدا کے حضور پیشی کا وقت، جو عام لوگوں کے لیے انتہائی گھبراہٹ اور پریشانی کا وقت ہو گا، اس وقت نیک لوگوں پر ایک اطمینان کی کیفیت طاری رہے گی۔ اس لیے کہ سب کچھ اُن کی توقعات کے مطابق ہو رہا ہو گا۔ ایمان و عملِ صالح کی جو پونجی لیے ہوئے وہ دنیا سے رخصت ہوئے تھے وہ اُس وقت خدا کے فضل سے اُن کی ڈھارس بندھائے گی اور خوف و حزن کے بجائے ان کے دلوں میں اُمید پیدا کر ے گی کہ عنقریب وہ اپنی سعی کے نتائج خیر سے ہم کنار ہو نے والے ہیں۔

99. ”اِس آیت کا مطلب سمجھنے میں بعض لوگوں نے سخت ٹھوکر کھائی ہے اور اس سے ایک ایسا مطلب نکال لیا ہے جو پورے قرآن کی تردید اور پورے نظام ِ دین کی بیخ کنی کر دیتا ہے۔ وہ آیت کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ دنیا کی موجودہ زندگی میں زمین کی وراثت (یعنی حکومت و فرمانروائی اور زمین کے وسائل پر تصرف) صرف صالحین کو ملا کرتی ہے اور انہی کو اللہ تعالیٰ اس نعمت سے نوازتا ہے۔ پھر اس قاعدۂ کلیہ سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ صالح اور غیر صالح کے فرق و امتیاز کا معیار یہی وراثت ِ زمین ہے، جس کو یہ وراثت ملے وہ صالح ہے اور جس کو نہ ملے وہ غیر صالح۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھ کر اُن قوموں پر نگاہ ڈالتے ہیں جو دُنیا میں پہلےوارثِ زمین رہی ہیں اور آج اس وراثت کی مالک بنی ہوئی ہیں ۔ یہاں وہ دیکھتے ہیں کہ کافر، مشرک، دہریے، فاسق ، فاجر، سب یہ وراثت پہلے بھی پاتے رہے ہیں اور آج بھی پا رہے ہیں۔ جن قوموں میں وہ تمام اوصاف پائے گئے ہیں اور آج پائے جاتے ہیں جنہیں قرآن صاف الفاظ میں کفر، فسق ، فجور، معصیت اور بدی سے تعبیر کرتا ہے، وہ اس وراثت سے محروم نہیں ہوئیں بلکہ نوازی گئیں اور آج بھی نوازی جا رہی ہیں ۔ فرعون و نمرود سے لے کر اس زمانے کے کمیونسٹ فرمانرواؤں تک کتنے ہی ہیں جو کھلم کھلا خدا کے منکر ، مخالف ، بلکہ مدِّ مقابل بنے ہیں اور پھر بھی وارثِ زمین ہوئے ہیں۔ اِس منظر کو دیکھ کر وہ یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ قرآن کا بیان کر دہ قاعدۂ کلیہ تو غلط نہیں ہو سکتا، اب لامحالہ غلطی جو کچھ ہے وہ ”صالح“ کے مفہوم میں ہے جو اب تک مسلمان سمجھتے رہے ہیں۔ چنانچہ وہ صلاح کا ایک نیا تصوّر تلاش کرتے ہیں جس کے مطابق زمین کے وارث ہونے والے سب لوگ یکساں”صالح“ قرار پا سکیں ، قطع نظر اس سے کہ وہ ابو بکر صدیق اور عمر فاروق ہوں یا چنگیز اور ہلاکو۔ اس نئے تصوّر کی تلاش میں ڈارو ن کا نظریہ ٔ ارتقاء ان کی رہنمائی کرتا ہے اور وہ قرآن کے تصوّرِ ”اصلاح“ کوڈار دینی تصوّرِ ”صلاحیت“ (Fitness ) سے لے جا کر ملا دیتے ہیں۔

اس نئی تفسیر کی رو سے آیت زیرِ بحث کے معنی یہ قرار پاتے ہیں کہ جو شخص اور گروہ بھی ممالک کو فتح کرنے اور اُن پر زورو قوت کے ساتھ اپنی حکومت چلانے اور زمین کے وسائل کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے کی قابلیت رکھتا ہو وہی ”خدا کا صالح بندہ“ ہے اور اس کا یہ فعل تمام ”عابد“ انسانوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ ”عبادت“ اِس چیز کا نام ہے جو یہ شخص اور گروہ کر رہا ہے ، اگر یہ عبادت تم نہیں کرتے اور نتیجہ میں وراثتِ زمین سے محرُوم رہ جاتے ہو تو نہ تمہارا شمار صالحین میں ہو سکتا ہے اور نہ تم کو خدا کا عبادت گزار بندہ کہا جا سکتا ہے۔

یہ معنی اختیار کرنے کے بعد ان حضرات کے سامنے یہ سوال آیا کہااگر”صلاح“ اور”عبادت“ کا تصوّر یہ ہے تو پھر وہ ایمان (ایمان باللہ ، ایمان بالیوم الآخر، ایمان بالرُّسل اور ایمان بالکُتُب) کیا ہے جس کے بغیر، خود اِسی قرآن کی رُو سے ، خدا کے ہاں کوئی عملِ صالح مقبول نہیں ؟ اور پھر قرآن کی اِس دعوت کے کیا معنی ہیں کہ اُس نظامِ اخلاق اور قانون ِ زندگی کی پیروی کرو جو خدا نے اپنے رسول کے ذریعہ بھیجا ہے؟ اور پھر قرآن کا بار بار یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ جو رسول کو نہ مانے اور خدا کےنازل کردہ احکام کا اتباع نہ کرے وہ کافر، فاسق ، عذاب کا مستحق اور مغضُوب ِ بارگاہِ خداوندی ہے؟ یہ سوالات ایسے تھے کہ اگر یہ لوگ ان پر ایمانداری کے ساتھ غور کرتے تو محسوس کر لیتے کہ ان سے اس آیت کا مطلب سمجھنے اور صلاح کا ایک نیا تصور قائم کرنے میں غلطی ہوئی ہے۔ لیکن انہوں نے اپنی غلطی محسوس کرنے کے بجائے پوری جسارت کے ساتھ ایمان، اسلام ، توحید ، آخرت ، رسالت ، ہرچیز کے معنی بدل ڈالے تاکہ وہ سب اُن کی اِس ایک آیت کی تفسیر کے مطابق ہو جائیں۔ اور اس ایک چیز کو ٹھیک بٹھانے کی خاطر انہوں نے قرآن کی ساری تعلیمات کو اُلٹ پلٹ کر ڈالا۔ اس پر لطیفہ یہ ہے کہ جو لوگ ان کی اس مرمّتِ دین سے اختلاف کرتے ہیں اُن کو یہ اُلٹا الزام دیتے ہیں کہ ”خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں“۔ یہ دراصل مادّی ترقی کی خواہش کا ہیضہ ہے جو بعض لوگوں کو اس بُری طرح لاحق ہو گیا ہے کہ وہ قرآن کی معنوی تحریف کرنے میں بھی تامل نہیں کرتے۔

ان کی اس تفسیر میں پہلی بنیادی غلطی یہ ہے کہ یہ لوگ ایک آیت کی ایسی تفسیر کرتے ہیں جو قرآن کی مجموعی تعلیمات کی خلاف پڑتی ہے، حالانکہ اصولًا قرآن کی ہر آیت کی وہی تفسیر صحیح ہو سکتی ہے جو اس کے دوسرے بیانات اور اس کے مجموعی نظامِ فکر سے مطابقت رکھتی ہو۔ کوئی شخص جس نے کبھی قرآن کو ایک دفعہ بھی سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کی ہے ، اس بات سے ناواقف نہیں رہ سکتا کہ قرآن جس چیز کو نیکی اور تقویٰ اور بھلائی کہتا ہے وہ ”مادّی ترقی اور حکمرانی کی صلاحیت“ کی ہم معنی نہیں ہے، اور ”صالح “ کو اگر”صاحبِ صلاحیت“ کے معنی میں لے لیا جائے تو یہ ایک آیت پورے قرآن سے ٹکرا جاتی ہے۔

دوسرا سبب، جو اس غلطی کا موجب ہوا ہے ، یہ ہے کہ یہ لوگ ایک آیت کو اس کے سیاق و سباق سے الگ کر کے بے تکلّف جو معنی چاہتے ہیں اس کے الفاظ سے نکال لیتے ہیں ، حالانکہ ہر آیت کے صحیح معنی صرف وہی ہو سکتے ہیں جو سیاق و سباق سے مناسبت رکھتے ہوں۔ اگر یہ غلطی نہ کی جاتی تو آسانی کے ساتھ دیکھا جا سکتا تھا کہ اوپر سے جو مضمون مسلسل چلا آرہا ہے وہ عالمِ آخرت میں مومنین صالحین اور کفار و مشرکین کے انجام سے بحث کرتا ہے۔ اس مضمون میں یکایک اس مضمون کے بیان کرنے کا آخر کونسا موقع تھا کہ دنیا میں وراثت زمین کا انتظام کس قاعدے پر ہو رہا ہے۔

تفسیر کے صحیح اصولوں کو ملحوظ رکھ کر دیکھا جائے تو آیت کا مطلب صاف ہے کہ دوسری تخلیق میں ، جس کا ذکر اس سے پہلے کی آیت میں ہوا ہے ، زمین کے وارث صرف صالح لوگ ہوں گے اور اُس ابدی زندگی کے نظام میں موجودہ عارضی نظامِ زندگی کی سی کیفیت برقرار نہ رہے گی کہ زمین پر فاسقوں اور ظالموں کو بھی تسلط حاصل ہو جاتا ہے ۔ یہ مضمون سورۂ مومنون آیات ۱۰ – ۱۱ میں بھی ارشاد ہوا ہے اور اس سے زیادہ صریح الفاظ میں سورۂ زُمَر کے خاتمہ پر بیان کیا گیا ہے جہاں اللہ تعالیٰ قیامت اور نفخِ صورِ اوّل و ثانی کا ذکر کرنے کے بعد اپنی عدالت کا ذکر فرماتا ہے ، پھر کفر کا انجام بیان کر کے نیک لوگوں کا انجام یہ بتاتا ہے کہ وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْ ا رَبَّہُمْ اِلَی الْجَنَّۃِ زُمَرًا ط حَتّٰی اِذَا جَآ ءُ وْ ھَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُھَا وَقَالَ لَھُمْ خَزَنَتُھَا سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَا دْخُلُوْ ھَا خٰلِدِیْنَ o وَقَالُوْ ا الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ وَاَوْرَ ثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّ اُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآ ءُ ج فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ o ”اور جن لوگوں نے اپنے رب کے خوف سے تقویٰ اختیار کیا تھا وہ جنت کی طرف گروہ در گروہ لے جائے جائیں گے یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور ان کے منتظم ان سے کہیں گے کہ سلام ہو تم کو، تم بہت اچھے رہے ، آؤ اب اس میں ہمیشہ رہنے کے لیے داخل ہو جاؤ ۔ اور وہ کہیں گے کہ حمد ہے اُس خدا کی جس نے ہم سے اپنا وعدہ پورا کیا اور ہم کو زمین کا وارث کر دیا، اب ہم جنت میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے “۔ دیکھیے، یہ دونوں آیتیں ایک ہی مضمون بیان کر رہی ہیں ، اور دونوں جگہ وراثتِ زمین کا تعلق عالمِ آخرت سے ہے نہ کہ اس دنیا سے۔

اب زَبُور کو لیجیے جس کا حوالہ آیت زیرِ بحث میں دیا گیا ہے۔ اگرچہ ہمارے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ بائیبل کے مجموعۂ کتب مقدسہ میں زبور کے نام سے جو کتاب اِس وقت پائی جاتی ہے یہ اپنی اصلی غیر محَرّف صورت میں ہے یا نہیں ۔ کیونکہ اس میں مزامیر داوٗ د کے علاوہ دوسرے لوگوں کے مزامیر بھی خلط ملط ہوگئے ہیں اور اصلی زبور کا نسخہ کہیں موجود نہیں ہے۔ تاہم جو زبور اس وقت موجود ہے اس میں بھی نیکی اور راستبازی اور توکّل کی نصیحت کے بعد ارشاد ہوتا ہے:

”کیونکہ بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے لیکن جن کو خدا وند کی آس ہے ملک کے وارث ہوں گے ۔ کیونکہ تھوڑی دیر میں شریر نابود ہو جائے گا، تُو اُس کی جگہ کو غور سے دیکھے گا پر وہ نہ ہوگا، لیکن حلیم ملک کے وارث ہوں گے اور سلامتی کی فراوانی سے شادماں رہیں گے ۔۔۔۔۔۔ ان کی میراث ہمیشہ کے لیے ہوگی ۔۔۔۔۔۔ صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے “ (۳۷ داؤد کا مزمور۔ آیات ۹ – ۱۰ – ۱۱ – ۱۸ – ۲۹)۔

دیکھیے، یہاں راستباز لوگوں کے لیے زمین کی دائمی وراثت کا ذکر ہے، اور ظاہر ہے کہ آسمانی کتابوں کی رو سے خلود اور ابدی زندگی کا تعلق آخرت سے ہے نہ کہ اِس دنیا کی زندگی سے۔

دنیا میں زمین کی عارضی وراثت جس قاعدے پر تقسیم ہوتی ہے اسے سورۂ اعراف میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ یُوْرِثُھَا مَنْ یَّشَآ ءُ مِنْ عَبَادِ ہٖ ۔ (آیت ۱۲۸)”زمین اللہ کی ہے ، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے“۔ مشیت الہٰی کے تحت یہ وراثت مومن اور کافر ، صالح اور فاسق ، فرماں بردار اور نافرمان ، سب کو ملتی ہے ، مگر جزائے اعمال کے طور پر نہیں بلکہ امتحان کے طور پر ، جیسا کہ اِسی آیت کے بعد دوسری آیت میں فرمایا وَ یَسْتَخْلِفَنَّکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْلَمُوْنَ o (آیت ۱۲۹)”اور وہ تم کو زمین میں خلیفہ بنائے گا پھر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو“۔ اس وراثت میں دوام اور ہمیشگی نہیں ہے ۔ یہ مستقل اور دائمی بندوبست نہیں ہے۔ یہ محض ایک امتحان کا موقع ہے جو خدا کے ایک ضابطے کے مطابق دنیا میں مختلف قوموں کو باری باری دیا جاتا ہے ۔ اِس کے برعکس آخرت میں اِسی زمین کا دوامی بندوبست ہوگا، اور قرآن کے متعدّد واضح ارشادات کی روشنی میں وہ اِس قاعدے پر ہوگا کہ ”زمین اللہ کی ہے اور وہ اپنے بندوں میں سے صرف مومنینِ صالحین کو اس کا وارث بنائے گا ، امتحان کے طور پر نہیں ، بلکہ اُس نیک رویّے کی ابدی جزاء کے طور پر جو انہوں نے دنیا میں اختیار کیا“۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، النور، حاشیہ نمبر ۸۳)۔

100. دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ” ہم نے تم کو دنیا والوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے “۔ دونوں صورتوں میں مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت دراصل نوع انسانی کے لیے خدا کی رحمت اور مہربانی ہے ، کیونکہ آپ نے آکر غفلت میں پڑی ہوئی دنیا کو چونکا یا ہے، اور اسے وہ علم دیا ہے جو حق اور باطل کا فرق واضح کرتا ہے ، اور اس کو بالکل غیر مشتبہ طریقہ سے بتا دیا ہے کہ اس کے لیے تباہی کی راہ کونسی ہے اور سلامتی کی راہ کونسی ۔ کفارِ مکّہ حضور ؐ کی بعثت کو اپنے لیے زحمت اور مصیبت سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اس شخص نےہماری قوم میں پھُوٹ ڈال دی ہے، ناخُن سے گوشت جدا کر کے رکھ دیا ہے۔ اس پر فرمایا گیا کہ نادانو، تم جسے زحمت سمجھ رہے ہو یہ درحقیقت تمہارے لیے خدا کی رحمت ہے۔

101. یعنی خدا کی پکڑ جو دعوتِ رسالت کو رد کردینے کی صورت میں آئے گی، خواہ کسی نوعیت کے عذاب کی شکل میں آئے۔

102. اشارہ ہے اُن مخالفانہ باتوں اور سازشوں اور سرگوشیوں کی طرف جن کا آغاز ِ سورہ میں ذکر کیا گیا تھا۔ وہاں بھی رسول کی زبان سے اِن کا یہی جواب دلوایا گیا تھا کہ جو باتیں تم بنا رہے ہو وہ سب خدا سُن رہا ہے اور جانتا ہے۔ یعنی اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ یہ ہوا میں اُڑ گئیں اور کبھی ان کی باز پرس نہ ہو گی۔

103. یعنی تم اس تاخیر کی وجہ سے فتنے میں پڑ گئے ہو۔ تاخیر تو اس لیے کی جا رہی ہے کہ تمہیں سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دی جائے اور جلد بازی کر کے فوراً ہی نہ پکڑ لیا جائے۔ مگر تم اِس سے اِس غلط فہمی میں پڑ گئے ہو کہ نبی کی سب باتیں جھوٹی ہیں ورنہ اگر یہ سچا نبی ہوتا اور خدا ہی کی طرف سے آیا ہوتا تو اس کو جھٹلا دینے کے بعد ہم کبھی کے دھر لیے گئے ہوتے۔