Tafheem ul Quran

Surah 22 Al-Haj, Ayat 1-10

يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّكُمۡ​ۚ اِنَّ زَلۡزَلَةَ السَّاعَةِ شَىۡءٌ عَظِيۡمٌ‏ ﴿22:1﴾ يَوۡمَ تَرَوۡنَهَا تَذۡهَلُ كُلُّ مُرۡضِعَةٍ عَمَّاۤ اَرۡضَعَتۡ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمۡلٍ حَمۡلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰى وَمَا هُمۡ بِسُكٰرٰى وَلٰـكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِيۡدٌ‏ ﴿22:2﴾ وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يُّجَادِلُ فِى اللّٰهِ بِغَيۡرِ عِلۡمٍ وَّيَـتَّبِعُ كُلَّ شَيۡطٰنٍ مَّرِيۡدٍ ۙ‏ ﴿22:3﴾ كُتِبَ عَلَيۡهِ اَنَّهٗ مَنۡ تَوَلَّاهُ فَاَنَّهٗ يُضِلُّهٗ وَيَهۡدِيۡهِ اِلٰى عَذَابِ السَّعِيۡرِ‏ ﴿22:4﴾ يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ اِنۡ كُنۡـتُمۡ فِىۡ رَيۡبٍ مِّنَ الۡبَـعۡثِ فَاِنَّـا خَلَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّـطۡفَةٍ ثُمَّ مِنۡ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنۡ مُّضۡغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّغَيۡرِ مُخَلَّقَةٍ لِّـنُبَيِّنَ لَـكُمۡ​ ؕ وَنُقِرُّ فِى الۡاَرۡحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخۡرِجُكُمۡ طِفۡلًا ثُمَّ لِتَبۡلُغُوۡۤا اَشُدَّكُمۡ ​ۚ وَمِنۡكُمۡ مَّنۡ يُّتَوَفّٰى وَمِنۡكُمۡ مَّنۡ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرۡذَلِ الۡعُمُرِ لِكَيۡلَا يَعۡلَمَ مِنۡۢ بَعۡدِ عِلۡمٍ شَيۡـئًـا​ ؕ وَتَرَى الۡاَرۡضَ هَامِدَةً فَاِذَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَيۡهَا الۡمَآءَ اهۡتَزَّتۡ وَرَبَتۡ وَاَنۡۢبَـتَتۡ مِنۡ كُلِّ زَوۡجٍۢ بَهِيۡجٍ‏ ﴿22:5﴾ ذٰ لِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الۡحَـقُّ وَاَنَّهٗ يُحۡىِ الۡمَوۡتٰى وَاَنَّهٗ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ ۙ‏ ﴿22:6﴾ وَّاَنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ لَّا رَيۡبَ فِيۡهَا ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ يَـبۡعَثُ مَنۡ فِى الۡقُبُوۡرِ‏ ﴿22:7﴾ وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يُّجَادِلُ فِى اللّٰهِ بِغَيۡرِ عِلۡمٍ وَّلَا هُدًى وَلَا كِتٰبٍ مُّنِيۡرٍ ۙ‏ ﴿22:8﴾ ثَانِىَ عِطۡفِهٖ لِيُضِلَّ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ ​ؕ لَهٗ فِى الدُّنۡيَا خِزۡىٌ​ وَّنُذِيۡقُهٗ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ عَذَابَ الۡحَرِيۡقِ‏ ﴿22:9﴾ ذٰ لِكَ بِمَا قَدَّمَتۡ يَدٰكَ وَاَنَّ اللّٰهَ لَـيۡسَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِيۡدِ‏  ﴿22:10﴾

1 - لوگو، اپنے ربّ کے غضب سے بچو ، حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی( ہولناک)چیز ہے۔ 1 2 - جس روز تم اُسے دیکھو گے، حال یہ ہوگا کہ ہر دُودھ پلانے والی اپنے دُودھ پیتے بچے سے غافل ہو جائے گی، 2 ہر حاملہ کا حمل گِر جائے گا، اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہوگا۔ 3 3 - بعض لوگ ایسے ہیں جو عِلم کے بغیر اللہ کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں 4 اور ہر شیطانِ سرکش کی پیروی کرنے لگتے ہیں، 4 - حالانکہ اُس کے تو نصیب ہی میں یہ لکھا ہے کہ جو اس کو دوست بنائے گا اسے وہ گمراہ کر کے چھوڑے گا اور عذابِ جہنّم کا راستہ دکھائے گا۔ 5 - لوگو، اگر تمہیں زندگی بعدِ موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے 5 ، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ 6 (یہ ہم اِس لیے بتا رہے ہیں)تاکہ تم پر حقیقت واضح کریں۔ ہم جس (نطفے)کو چاہتے ہیں ایک وقتِ خاص تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں، پھر تم کو ایک بچے کی صُورت میں نکال لاتے ہیں( پھر تمہیں پرورش کرتے ہیں)تاکہ تم اپنی پُوری جوانی کو پہنچو۔ اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بُلا لیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔ 7 اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سُوکھی پڑی ہے، پھر جہاں ہم نے اُس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پَھبک اُٹھی اور پُھول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش منظر نباتات اُگلنی شروع کر دی۔ 6 - یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی حق ہے، 8 اور وہ مُردوں کو زندہ کرتا ہے ، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، 7 - اور یہ ( اِس بات کی دلیل ہے )کہ قیامت کی گھڑی آکر رہے گی، اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، اور اللہ ضرور اُن لوگوں کو اُٹھائے گا جو قبروں میں جاچکے ہیں۔ 9 8 - بعض اور لوگ ایسے ہیں کہ کسی علم 10 اور ہدایت 11 اور روشنی بخشنے والی کتاب 12 کے بغیر، 13 خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں 9 - گردن اکڑائے ہوئے، تاکہ لوگوں کو راہِ خدا سے بھٹکا دیں۔ 14 ایسے شخص کے لیے دنیا میں رُسوائی ہے اور قیامت کے روز اُس کو ہم آگ کے عذاب کا مزا چکھائیں گے 10 - ۔۔۔۔ یہ ہے تیرا وہ مستقبل جو تیرے اپنے ہاتھوں نے تیرے لیے تیار کیا ہے ورنہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔؏ ١


Notes

1. یہ زلزلہ قیامت کی ابتدائی کیفیات میں سے ہے اور اغلب یہ ہے کہ اس کا وقت وہ ہو گا جب کہ زمین یکایک اُلٹی پھر نی شروع ہو جائے گی اور سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو گا ۔ یہی بات قدیم مفسرین میں سے عَلْقَمَہ اور شَعْبِی نے بیا ن کی ہے کہ یکون ذلک عند طلوعِ الشمس من مغربھا۔ اور یہی بات اُس طویل حدیث سے معلوم ہوتی ہے کہ نفخِ صور کے تین مواقع ہیں۔ ایک نفخِ فَزَع ، دوسرا نفخِ صَعْق اور تیسرا نفخِ قیام لربّ العالمین ۔ یعنی پہلا نفخِ عام سراسیمگی پیدا کرے گا ، دوسرے نفخ پر سب مر کر گر جائیں گے اور تیسرے نفخ پر سب لوگ زندہ ہو کر خدا کے حضور پیش ہو جائیں گے۔ پھر پہلے نفخ کی تفصیلی کیفیت بیان کرتے ہوئے آپ بتاتے ہیں کہ اُس وقت زمین کی حالت اُس کشتی کی سی ہو گی جو موجوں کے تھپیڑے کھا کر ڈگمگا رہی ہو، یا اُس معلق قندیل کی سی جس کو ہوا کے جھونکے بُری طرح جھنجھوڑرہے ہوں۔ اُس وقت زمین کی آبادی پر جو کچھ گزرے گی اُس کا نقشہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کھینچا گیا ہے۔ مثلاً:

فَاِذَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَ ۃً وَحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَّاحِدَ ۃً فَیَوْ مَئِذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ۔ (الحاقہ)

پس جب صور میں ایک پھونک مار دی جائے گی اور زمین اور پہاڑ اُٹھا کر ایک ہی چوٹ میں توڑ دیے جائیں گے تو وہ واقعہ ٔ عظیم پیش آجائے گا۔

اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا، وَ اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَھَا، وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَھَا۔ (الزلزال)

جبکہ زمین پوری کی پوری ہلا ماری جائے گی، اور وہ اپنے پیٹ کے بوجھ نکال پھینکے گی ، اور انسان کہے گا کہ یہ اس کوکیا ہو رہا ہے۔

یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَۃُ تَتْبَعُھَا الرَّادِفَۃ، قُلُوْبٌ یُّوْمَئِذٍ وَّاجِفَہ، اَبْصَارُ ھَا خَاشِعَۃٌ ۔(النازعات )

جس روز ہلا مارے گا زلزلے کا ایک جھٹکا اور اس کے بعد دوسرا جھٹکا، اس دن دل کانپ رہے ہوں گے اور نگاہیں خوف زدہ ہوں گی۔

اَذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا وَّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا فَکَانَتْ ھَبَآءً مَّنْبَثًّا ۔(الواقعہ)

جس روز زمین جھنجھوڑ ڈالی جائے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر غبار کی طرح اُڑنے لگیں گے۔

فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِن ْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَا نِ السَّمَآ ءُ مُنْفَطِرٌ بِہٖ ۔(الزلزال)

اگر تم نے پیغمبر کی بات نہ مانی تو کیسے بچو گے اُس دن کی آفت سے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور جس کی شدت سے آسمان پھٹا پڑتا ہو گا۔

اگرچہ بعض مفسرین نے اس زلزلے کا وقت وہ بتایا ہے جبکہ مُردے زندہ ہو کر اپنے ربّ کے حضور پیش ہوں گے ، اور اس کی تائید میں متعدّد احادیث بھی نقل کی ہیں، لیکن قرآن کا صریح بیان ان روایات کو قبول کرنے میں مانع ہے ۔ قرآن اِس کا وقت وہ بتا رہا ہے جبکہ مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے پلاتے چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوں گی ، اور پیٹ والیوں کے پیٹ گر جائیں گے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ آخرت کی زندگی میں نہ کوئی عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہوگی اور نہ کسی حاملہ کے وضع حمل یا اسقاط کا کوئی موقع ہو گا، کیونکہ قرآن کی واضح تصریحات کی رو سے وہاں سب رشتے منقطع ہو چکے ہوں گے اور ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت سے خدا کے سامنے حساب دینے کے لیے کھڑا ہو گا۔ لہٰذا قابل ترجیح وہی روایت ہے جو ہم نے پہلے نقل کی ہے۔ اگرچہ اس کی سند ضعیف ہے مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کود ُور کر دیتی ہے۔ اور یہ دوسری روایات گو سند اً قوی تر ہیں ، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدمِ مطابقت ان کو ضعیف کر دیتی ہے۔

2. آیت میں مُرْضِع کے بجائے مُرْ ضِعَہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ عربیت کے لحاظ سے دونوں میں فرق یہ ہے کہ مُرضِعْ اُس عورت کو کہتے ہیں جو دودھ پلانے والی ہو، اور مُرْضِعَہ اُس حالت میں بولتے ہیں جبکہ وہ بالفعل دودھ پلا رہی ہو اور بچہ اس کی چھاتی منہ میں لیے ہوئے ہو۔ پس یہاں نقشہ یہ کھینچا گیا ہے کہ جب وہ قیامت کا زلزلہ آئے گا تو مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے پلاتے چھوڑ کر بھاگ نکلیں گی اور کسی ماں کو یہ ہوش نہ رہے گا کہ اس کے لاڈلے پر کیا گزری۔

3. واضح رہے کہ یہاں اصل مقصودِ کلام قیامت کا حال بیان کر نا نہیں ہے بلکہ خدا کے عذاب کا خوف دلا کر اُن باتوں سے بچنے کی تلقین کرنا ہے جو اس کے غضب کی موجب ہوتی ہیں۔ لہٰذا قیامت کی اِس مختصر کیفیت کے بعد آگے اصل مقصود پر گفتگو شروع ہوتی ہے۔

4. آگے کی تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اللہ کے بارے میں ان کے جس جھگڑے پر گفتگو کی جارہی ہے وہ اللہ کی ہستی اور اس کے وجود کے بارے میں نہیں بلکہ اس کے حقوق اور اختیارات اور اس کی بھیجی ہوئی تعلیمات کے بارے میں تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُن سے توحید اور آخرت منوانا چاہتے تھے ، اور اسی پر وہ آپ سے جھگڑ تے تھے۔ ان دونوں عقیدوں پر جھگڑا آخر کار جس چیز پر جا کر ٹھیرتا تھا وہ یہی تھی کہ خدا کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں کر سکتا ، اور یہ کہ کائنات میں آیا خدائی صرف ایک خدا ہی کی ہے یا کچھ دوسری ہستیوں کی بھی۔

5. اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ ہر انسان اُن مادّوں سے پیدا کیا جاتا ہے جو سب کے سب زمین سے حاصل ہوتے ہیں اور اِس تخلیق کی ابتدا نطفے سے ہوتی ہے۔ یا یہ کہ نوعِ انسانی کا آغاز آدم علیہ السّلام سے کیا گیا جو براہِ راست مٹی سے بنائے گئے تھے ، اور پھر آگے نسلِ انسانی کا سلسلہ نطفے سے چلا، جیسا کہ سُورۂ سجدہ میں فرمایا وَبَدَ ءَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ، ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّھِیْنٍ۔ (آیات ۷ – ۸)” انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی، پھر اس کی نسل ایک سَت سے چلائی جو حقیر پانی کی شکل میں نکلتا ہے“۔

6. یہ اشارہ ہے اُن مختلف ادوار کی طرف جن سے ماں کے پیٹ میں بچہ گزرتا ہے۔ ان کی وہ تفصیلات بیان نہیں کی گئی جو آج کل صرف طاقت ور خور دبینوں ہی سے نظر آ سکتی ہیں، بلکہ ان بڑے بڑے نمایاں تغیرات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اُس زمانے کے عام بدّو بھی واقف تھے۔ یعنی نطفہ قرار پانے کے بعد ابتداءً جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا سا ہوتا ہے، پھر وہ گوشت کی ایک بوٹی میں تبدیل ہو تا ہے جس میں پہلے شکل صورت کچھ نہیں ہوتی اور آگے چل کر انسانی شکل نمایاں ہوتی چلی جاتی ہے ۔ اِسقاطِ حمل کی مختلف حالتوں میں چونکہ تخلیق انسانی کے یہ سب مراحل لوگوں کے مشاہدے میں آتے تھے، اس لیے انہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ اس کو سمجھنے کے لیے علم الجنین کی تفصیلی تحقیقات کی نہ اُس وقت ضرورت تھی نہ آج ہے۔

7. یعنی بڑھاپے کی وہ حالت جس میں آدمی کو اپنے تن بدن کا ہوش بھی نہیں رہتا ۔ وہی شخص جو دوسروں کو عقل بتاتا تھا ، بوڑھا ہو کر اُس حالت کو پہنچ جاتا ہے جو بچے کی حالت سے مشابہ ہوتی ہے۔ جس علم و واقفیت اور تجربہ کاری و جہاں دیدگی پر اس کو ناز تھا وہ ایسی بے خبری میں تبدیل ہو جاتی ہے کہ بچے تک اس کی باتوں پر ہنسنے لگتے ہیں۔

8. اس سلسلۂ کلام میں یہ فقرہ تین معنی دے رہا ہے۔ ایک یہ کہ اللہ ہی سچا ہے اور تمہارا یہ گمان محض باطل ہے کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی کا کوئی امکان نہیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ کا وجود محض ایک خیالی اور فرضی وجود نہیں ہے جسے بعض عقلی مشکلات رفع کرنے کی خاطر مان لیا گیا ہو۔ وہ نرا فلسفیوں کے خیال کا آفریدہ ، واجب الوجود اور علّت العلل (First Cause ) ہی نہیں ہے بلکہ وہ حقیقی فاعلِ مختار ہے جو ہر آن اپنی قدرت ، اپنے ارادے ، اپنے علم اور اپنی حکمت سے پوری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کی تدبیر کر رہا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ کھلنڈرا نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے کھلونے بنائے اور پھر یونہی توڑ پھوڑ کر خاک میں ملا دے۔ وہ حق ہے، اس کے سب کام سنجیدہ اور با مقصد اور پُر حکمت ہیں۔

9. اِن آیات میں انسان کی پیدائش کے مختلف اطوار، زمین پر بارش کے اثرات ، اور نباتات کی پیداوار کو پانچ حقیقتوں کی نشان دہی کرنے والے دلائل قرار دیا گیا ہے:

(۱)یہ کہ اللہ ہی حق ہے،

(۲) یہ کہ وہ مُردوں کو زندہ کر تا ہے،

(۳) یہ کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے،

(۴) یہ کہ قیامت کی گھڑی آکر رہے گی، اور

(۵) یہ کہ اللہ ضرور اُن سب لوگوں کو زندہ کر کے اُٹھائے گا جو مر چکے ہیں۔

اب دیکھیے کہ یہ آثار ان پانچوں حقیقتوں کی کس طرح نشان دہی کرتے ہیں۔

پورے نظامِ کائنات کو چھوڑ کر آدمی صرف اپنی ہی پیدائش پر غور کرے تو معلوم ہو جائے کہ ایک ایک انسان کی ہستی میں اللہ کی حقیقی اور واقعی تدبیر ہر وقت بالفعل کا ر فرما ہے اور ہر ایک کے وجود اور نشونما کا ایک ایک مرحلہ اس کے ارادی فیصلے پر ہی طے ہوتا ہے ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک لگے بندھے قانون پر ہو رہا ہے جس کو ایک اندھی بہری بے علم و بے ارادہ فطرت چلا رہی ہے۔ لیکن وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آئے کہ ایک ایک فرد انسانی جس طرح وجود میں آتا ہے اور پھر جس طرح وہ وجود کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے اس میں ایک حکیم و قادرِ مطلق ہستی کا ارادی فیصلہ کس شان سے کام کر رہا ہے۔ آدمی جو غذا کھاتا ہے اس میں کہیں انسانی تخم موجود نہیں ہوتا، نہ اُس میں کوئی چیز ایسی ہوتی ہے جو نفسِ انسانی کے خواص پیدا کرتی ہو۔ یہ غذا جسم میں جا کر کہیں بال، کہیں گوشت اور کہیں ہڈی بنتی ہے ، اور ایک خاص مقام پر پہنچ کر یہی اُس نطفے میں تبدیل ہو جاتی ہے جس کے اندر انسان بننے کی استعداد رکھنے والے تخم موجود ہوتے ہیں ۔ ان تخموں کی کثرت کا حال یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک مرد سے جتنا نطفہ خارج ہوتا ہے اُس کے اندر کئی کروڑ تخم پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک بیضۂ انثٰی سے مِل کر انسان بن جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر یہ کسی حکیم و قدیر اور حاکمِ مطلق کا فیصلہ ہے جو ان بے شمار امیدواروں میں سے کسی ایک کو کسی خاص وقت پر چھانٹ کر بیضۂ انثٰی سے ملنے کا موقع دیتا ہے اور اس طرح استقرارِ حمل رونما ہوتا ہے ۔ پھر استقرار کے وقت مرد کے تخم اور عورت کے بیضی خلیے (Egg cell) کے ملنے سے جو چیز ابتداءً بنتی ہے وہ اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ خوردبین کے بغیر نہیں دیکھی جا سکتی ۔ یہ حقیر سی چیز ۹ مہینے اور چند روز میں رحم کے اندر پرورش پا کر جن بے شمار مرحلوں سے گزرتی ہوئی ایک جیتے جاگتے انسان کی شکل اختیار کرتی ہے اُن میں سے ہر مرحلے پر غور کرو تو تمہارا دل گواہی دے گا کہ یہاں ہر آن ایک حکیمِ فعّال کا ارادی فیصلہ کام کرتا رہا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کسے تکمیل کو پہنچانا ہے اور کسے خون کے لوتھڑے ، یا گوشت کی بوٹی، یا نا تمام بچے کی شکل میں ساقط کر دینا ہے ۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو زندہ نکالنا ہے اور کس کو مردہ۔ کس کو معمولی انسان کی صورت و ہیئت میں نکالنا ہے اور کسے اَن گنت غیر معمولی صورتوں میں سے کوئی صورت دے دینی ہے۔ کس کو صحیح و سالم نکالنا ہے اور کسے اندھا، بہرا، گُونگا یا ٹُنڈا اور لُنجا بنا کر پھینک دینا ہے۔ کس کو خوبصورت بنانا ہے اور کسے بدصورت ۔ کس کو مرد بنانا ہے اور کس کو عورت۔ کس کو اعلیٰ درجے کی قوتیں اور صلاحیتیں دے کر بھیجنا ہے اور کسے کوَدن اورکُند ذہن پیدا کرنا ہے۔ یہ تخلیق و تشکیل کا عمل، جو ہر روز کروڑوں عورتوں کے رحموں میں ہو رہا ہے ، اِس کے دَوران میں کسی وقت کسی مرحلے پر بھی ایک خدا کے سوا دنیا کی کوئی طاقت ذرّہ برابر اثر انداز نہیں ہو سکتی، بلکہ کسی کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کس پیٹ میں کیا چیز بن رہی ہے اور کیا بن کر نکلنے والی ہے۔ حالانکہ انسانی آبادیوں کی قسمت کے کم از کم ۹۰ فیصدی فیصلے انہی مراحل میں ہوجاتے ہیں اور یہیں افراد ہی کے نہیں ، قوموں کے ، بلکہ پوری نوع ِ انسانی کے مستقبل کی شکل بنائی اور بگاڑی جاتی ہے۔ اس کے بعد جو بچے دنیا میں آتے ہیں ، ان میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ کسے زندگی کا پہلا سانس لیتے ہی ختم ہو جانا ہے، کسے بڑھ کر جوان ہونا ہے ، اور کس کو قیامت کے بوریے سمیٹنے ہیں؟ یہاں بھی ایک غالب ارادہ کار فرما نظر آتا ہے اور غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اُس کی کارفرمائی کسی عالمگیر تدبیر و حکمت پر مبنی ہے جس کے مطابق وہ افراد ہی کی نہیں، قوموں اور ملکوں کی قسمت کے بھی فیصلے کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگر کسی کو اس امر میں شک ہے کہ اللہ”حق “ہے اور صرف اللہ ہی ”حق“ ہے تو بے شک وہ عقل کا اندھا ہے۔

دوسری بات جو پیش کردہ آثار سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ”اللہ مُردوں کو زندہ کرتا ہے“۔ لوگوں کو تو یہ سُن کر اچنبھا ہوتا ہے کہ اللہ کسی وقت مُردوں کو زندہ کرے گا ، مگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آئے کہ وہ تو ہر وقت مُردے جِلا رہا ہے۔ جن مادّوں سے آپ کا جسم بنا ہے اورجن غذاؤں سے وہ پرورش پاتا ہے اُن کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے۔ کوئلہ، لوہا، چونا، کچھ نمکیات، کچھ ہوائیں، اور ایسی ہی چند چیزیں اور ہیں۔ ان میں سے کسی چیز میں بھی حیات اور نفسِ انسانی کے خواص موجود نہیں ہیں۔ مگر انہی مردہ ، اور بے جان مادوں کو جمع کرکے آپ کو جیتا جاگتا وجود بنا دیا گیا ہے۔ پھر انہی مادّوں کی غذا آپ کے جسم میں جاتی ہے اور وہاں اس سے مَردوں میں وہ تخم اور عورتوں میں وہ بیضی خلیے بنتے ہیں جن کے ملنے سے آپ ہی جیسے جیتے جاگتے انسان روز بن بن کر نکل رہے ہیں۔ اس کے بعد ذرا اپنے گردو پیش کی زمین پر نظر ڈالیے۔ بے شمار مختلف چیزوں کے بیج تھے جن کو ہواؤں اور پرندوں نے جگہ جگہ پھیلا دیا تھا، اور بے شمار مختلف چیزوں کی جڑیں تھیں جو جگہ جگہ پیوندِ خاک ہوئی پڑی تھیں۔ ان میں کہیں بھی نباتی زندگی کا کوئی ظہور موجود نہ تھا۔ آپ کے گردوپیش کی سوکھی زمین ان لاکھوں مُردوں کی قبر بنی ہوئی تھی۔ مگر جونہی کہ پانی کا ایک چھینٹا پڑا، ہر طرف زندگی لہلہانے لگی، ہر مُردہ جڑ اپنی قبر سے جی اُٹھی، اور ہر بے جان بیج ایک زندہ پودے کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ احیائے اموات کا عمل ہر برسات میں آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔

تیسری چیز جو ان مشاہدات سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ”اللہ ہر چیز پر قادر ہے“۔ ساری کائنات کو چھوڑ کر صرف اپنی اِسی زمین کو لے لیجیے ، اور زمین کے بھی تمام حقائق و اقعات کو چھوڑ کر صرف انسان اور نباتات ہی کی زندگی پر نظر ڈال کر دیکھ لیجیے۔ یہاں اُس کی قدرت کے جو کرشمے آپ کو نظر آتے ہیں کیا انہیں دیکھ کر کوئی صاحبِ عقل آدمی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ خدابس وہی کچھ کر سکتا ہے جو آج ہم اسے کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور کل اگر وہ کچھ اور کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا؟ خدا تو خیر بہت بلند و برتر ہستی ہے ، انسان کے متعلق پچھلی صدی تک لوگوں کے یہ اندازے تھے کہ یہ صرف زمین ہی پر چلنے والی گاڑی بنا سکتا ہے ، ہوا پر اڑنے والی گاڑیاں بنانا اس کی قدرت میں نہیں ہے۔ مگر آج کے ہوائی جہازوں نے بتا دیا ہے کہ انسان کے”امکانات“ کی حدیں تجویز کرنے میں ان کے اندازے کتنے غلط تھے۔ اب اگر کوئی شخص خدا کے لیے اُس کے صرف آج کے کام دیکھ کر امکانات کی کچھ حدیں تجویز کردیتا ہے اورکہتا ہے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے اس کے سوا وہ کچھ نہیں کر سکتا ، تو وہ صرف اپنے ہی ذہن کی تنگی کا ثبوت دیتا ہے، خد ا کی قدرت بہر حال اس کی باندھی ہوئی حدوں میں بند نہیں ہو سکتی۔

چوتھی اور پانچویں بات، یعنی یہ کہ ”قیامت کی گھڑی آکر رہے گی“ اور یہ کہ ”اللہ ضرور ان سب لوگوں کو زندہ کر کے اُٹھائے گا جو مر چکے ہیں“،اُن تین مقدمات کا عقلی نتیجہ ہے جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔ اللہ کے کاموں کو اس کی قدرت کے پہلو سے دیکھیے تو دل گواہی دےگا کہ وہ جب چاہے قیامت بر پا کر سکتا ہے اور جب چاہے اُن سب مرنے والوں کو پھر سے زندہ کر سکتا ہے جن کو پہلے وہ عدم سے وجود میں لایا تھا۔ اور اگر اُس کے کاموں کو اس کی حکمت کے پہلو سے دیکھیے تو عقل شہادت دے گی کہ دونوں کام بھی وہ ضرور کر کے رہے گا کیونکہ ان کے بغیر حکمت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے اور ایک حکیم سے یہ بعید ہے کہ وہ ان تقاضوں کو پور ا نہ کرے۔ جو محدود سی حکمت و دانائی انسان کو حاصل ہے اس کا یہ نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی اپنا مال یا جائداد یا کاروبار جس کے سپرد بھی کرتا ہے اس سے کسی نہ کسی وقت حساب ضرور لیتا ہے۔ گویا امانت اور محاسبے کے درمیان ایک لازمی عقلی رابطہ ہے جس کو انسان کی محدود حکمت بھی کسی حال میں نظر انداز نہیں کرتی۔ پھرا سی حکمت کی بنا پر آدمی اِرادی اور غیر اِرادی افعال کے درمیان فرق کرتا ہے ، اِرادی افعال کے ساتھ اخلاقی ذمہ داری کا تصوّر وابستہ کرتا ہے، افعال میں نیک اور بد کی تمیز کرتا ہے ، اچھے افعال کا نتیجہ تحسین اور انعام کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے ، اور بُرے افعال پر سزا کا تقاضا کرتا ہے ، حتٰی کہ خود ایک نظام ِ عدالت اِس غرض کے لیے وجود میں لاتا ہے۔ یہ حکمت جس خالق نے انسان میں پیدا کی ہے ، کیا باور کیا جا سکتا ہے کہ وہ خود اس حکمت سے عاری ہو گا؟ کیا مانا جا سکتا ہے کہ اپنی اتنی بڑی دنیا اتنے سروسامان اور اس قدر اختیارات کے ساتھ انسان کے سپرد کر کے وہ بھُول گیا ہے، اس کا حساب وہ کبھی نہ لے گا؟ کیا کسی صحیح الدماغ آدمی کی عقل یہ گواہی دے سکتی ہے کہ انسان کے جو بُرے اعمال سزا سے بچ نکلے ہیں ، یا جن برائیوں کی متناسب سزا اسے نہیں مل سکی ہے ان کی باز پرس کے لیے کبھی عدالت قائم نہ ہوگی ، اور جو بھلائیاں اپنے منصفانہ انعام سے محروم رہ گئی ہیں وہ ہمیشہ محروم ہی رہیں گی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو قیامت اور زندگی بعدِ موت خدائے حکیم کی حکمت کا ایک لازمی تقاضا ہے جس کا پورا ہونا نہیں بلکہ نہ ہونا سراسر بعید از عقل ہے۔

10. یعنی وہ ذاتی واقفیت جو براہِ راست مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہوئی ہو۔

11. یعنی وہ واقفیت جو کسی دلیل سے حاصل ہوئی ہو یا کسی علم رکھنے والے کی رہنمائی سے۔

12. یعنی وہ واقفیت جو خد ا کی نازل کردہ کتاب سے حاصل ہو ئی ہو۔

13. اس میں تین کیفیتیں شامل ہیں: جاہلانہ ضد اور ہٹ دھرمی ۔ تکبر اور غرور ِ نفس۔ اور کسی سمجھانے والے کی بات کی طرف التفات نہ کرنا۔

14. پہلے ان لوگوں کا ذکر تھا جو خود گمراہ ہیں۔ اور اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو خود ہی گمراہ نہیں ہیں بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔