Tafheem ul Quran

Surah 22 Al-Haj, Ayat 34-38

وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَكًا لِّيَذۡكُرُوا اسۡمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمۡ مِّنۡۢ بَهِيۡمَةِ الۡاَنۡعَامِ ؕ فَاِلٰهُكُمۡ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗۤ اَسۡلِمُوۡا​ ؕ وَبَشِّرِ الۡمُخۡبِتِيۡنَ ۙ‏ ﴿22:34﴾ الَّذِيۡنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُهُمۡ وَالصّٰبِرِيۡنَ عَلٰى مَاۤ اَصَابَهُمۡ وَالۡمُقِيۡمِى الصَّلٰوةِ ۙ وَمِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ يُنۡفِقُوۡنَ‏  ﴿22:35﴾ وَالۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰهَا لَـكُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللّٰهِ لَـكُمۡ فِيۡهَا خَيۡرٌ​ ​ۖ  فَاذۡكُرُوا اسۡمَ اللّٰهِ عَلَيۡهَا صَوَآفَّ​ ۚ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُهَا فَكُلُوۡا مِنۡهَا وَاَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَالۡمُعۡتَـرَّ ​ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرۡنٰهَا لَـكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿22:36﴾ لَنۡ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُـوۡمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـكِنۡ يَّنَالُهُ التَّقۡوٰى مِنۡكُمۡ​ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَـكُمۡ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰٮكُمۡ​ؕ وَبَشِّرِ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿22:37﴾ اِنَّ اللّٰهَ يُدٰفِعُ عَنِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡٓا​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوۡرٍ‏ ﴿22:38﴾

34 - ہر اُمّت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے تاکہ (اُس اُمّت کے )لوگ اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے ان کو بخشے ہیں۔ 64 (اِن مختلف طریقوں کے اندر مقصد ایک ہی ہے)پس تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے اور اُسی کے تم مطیعِ فرمان بنو۔ اور اے نبیؐ ، بشارت دے دے عاجزانہ روِش اختیار کرنے والوں کو، 65 35 - جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سُنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اُٹھتے ہیں، جو مصیبت بھی اُن پر آتی ہے اُس پر صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ رزق ہم نے اُن کو دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ 66 36 - اور (قربانی کے )اُونٹوں 67 کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے ، تمہارے لیے اُن میں بھلائی ہے، 68 پس انھیں کھڑا کر کے 69 ان پر اللہ کا نام لو، 70 اور جب (قربانی کے بعد)ان کی پیٹھیں زمین پر ٹِک جائیں 71 تو اُن میں سے خود بھی کھاوٴ اور اُن کو بھی کھِلاوٴ جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور اُن کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں۔ اِن جانوروں کو ہم نے اِس طرح تمہارے لیے مسخّر کیا تاکہ تم شکریہ ادا کرو۔ 72 37 - نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ 73 اُس نے ان کو تمہارے لیے اِس طرح مسخّر کیا ہے تاکہ اُس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اُس کی تکبیر کرو۔ 74 اور اے نبیؐ ، بشارت دے دے نیکو کار لوگوں کو۔ 38 - 75 یقیناً اللہ مدافعت کرتا ہے اُن لوگوں کی طرف سے جو ایمان لائے ہیں۔ 76 یقیناً اللہ کسی خائن کافرِ نعمت کو پسند نہیں کرتا۔ 77 ؏ ۵


Notes

64. اس آیت سے دوباتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ قربانی تمام شرائع الہٰیہ کے نظامِ عبادت کا ایک لازمی جز رہی ہے۔ توحید فی العبادت کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان نے جن جن صورتوں سے غیراللہ کی بندگی کی ہے ان سب کو غیر اللہ کے لیے ممنوع کر کے صرف اللہ کے لیے مختص کر دیا جائے۔ مثلاً انسان نے غیر اللہ کے آگے رکوع و سجود کیا ہے۔ شرائع الہٰیہ نے اسے اللہ کے لیے خاص کر دیا۔ انسان نے غیر اللہ کے آگے مالی نذرانے پیش کیے ہیں ۔ شرائع الہٰیہ نے انہیں ممنوع کر کے زکوٰۃ و صدقہ اللہ کے لیے واجب کر دیا۔ انسان نے معبود انِ باطل کی تیرتھ یا تراکی ہے۔ شرائع الہٰیہ نے کسی نہ کسی مقام کو مَقْدِس یا بیت اللہ قرار دے کر اس کی زیارت اور طواف کا حکم دے دیا۔ انسان نے غیر اللہ کے نام کے روزے رکھے ہیں۔ شرائع الہٰیہ نے انہیں بھی اللہ کے لیے مختص کر دیا۔ ٹھیک اسی طرح انسان اپنے خود ساختہ معبُودوں کے لیے جانوروں کی قربانی بھی کرتا رہا ہے اور شرائع الہٰیہ نے ان کو بھی غیر کے لیے قطعًا حرام اور اللہ کے لیے واجب کر دیا۔

دوسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ اصل چیز اللہ کے نام پر قربانی ہے نہ کہ اس قاعدے کی یہ تفصیلات کہ قربانی کب کی جائے اور کہاں کی جائے اور کس طرح کی جائے۔ ان تفصیلات میں مختلف زمانوں اور مختلف قوموں اور ملکوں کے انبیاء کی شریعتوں میں حالات کے لحاظ سے اختلافات رہے ہیں ، مگر سب کی رُوح اور سب کا مقصد ایک ہی رہا ہے۔

65. اصل میں لفظ ”مُخْبِتِیْن“ استعمال کیا گیا ہے جس کا مفہوم کسی ایک لفظ سے پوری طرح ادا نہیں ہوتا۔ اس میں تین مفہومات شامل ہیں۔ استکبار اور غرور نفس چھوڑ کر اللہ کے مقابلے میں عجز اختیار کرنا۔ اُس کی بندگی و غلامی پر مطمئن ہو جانا اس کےفیصلوں پر راضی ہو جانا۔

66. اس سے پہلے ہم اس امر کی تصریح کی چکے ہیں کہ اللہ نے کبھی حرام و ناپاک مال کو اپنا رزق نہیں فرمایا ہے۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو پاک رزق ہم نے انہیں بخچا ہے اور جو حلال کمائیاں ان کو عطا کی ہیں ان میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ پھر خرچ سے مراد بھی ہر طرح کا خرچ نہیں ہے بلکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جائز ضروریات پوری کرنا، رشتہ داروں اور ہمسایوں اور حاجت مند لوگوں کی مدد کرنا، رفاہِ عام کے کاموں میں حصّہ لینا، اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے مالی ایثار کرنا مراد ہے۔ بے جا خرچ، اور عیش و عشرت کے خرچ، اور ریاکارانہ خرچ وہ چیز نہیں ہے جسے قرآن”انفاق“ قرار دیتا ہو، بلکہ یہ اس کی اصطلاح میں اسراف اور تبذیر ہے۔ اسی طرح کنجوسی اور تنگ دلی کے ساتھ جو خرچ کیا جائے، کہ آدمی اپنے اہل و عیال کو بھی تنگ رکھے، اور خود بھی اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ضرورتیں پوری نہ کرے، اور خلق خدا کی مدد بھی اپنی استطاعت کے مطابق کرنے سے جی چُرائے ، تو اس صورت میں اگرچہ آدمی خرچ تو کچھ نہ کچھ کرتا ہے، مگر قرآن کی زبان میں اس خرچ کا نام ”اِنفاق“ نہیں ہے۔ وہ اس کو ”بخل“ اور” شحِّ نفس“ کہتا ہے۔

67. اصل میں لفظ”بدُن“ استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں اونٹوں کے لیے مخصوص ہے۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے حکم میں گائے کو بھی اُونٹوں کے ساتھ شامل فرما دیا ہے۔ جس طرح ایک اونٹ کی قربانی سات آدمیوں کے لیے کافی ہوتی ہے ، اسی طرح ایک گائے کی قربانی بھی سات آدمی مل کر کرسکتے ہیں۔ مسلم میں جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ امر نا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نشترک فی الا ضاحی البدنۃ عن سبعۃ والبقرۃ عن سبعۃ،”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ ہم قربانیوں میں شریک ہو جایا کریں، اونٹ سات آدمیوں کے لیے اور گائے سات آدمیوں کے لیے“۔

68. یعنی تم ان سے بکثرت فائدے اُٹھاتے ہو۔ یہ اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ تمہیں ان کی قربانی کیوں کرنی چاہیے۔ آدمی خدا کی بخشی ہوئی جن جن چیزوں سے فائدہ اُٹھاتا ہے ان میں سے ہر ایک کی قربانی اس کو اللہ کے نام پر کرنی چاہیے، نہ صرف شکرِ نعمت کے لیے ، بلکہ اللہ کی برتری اور مالکیت تسلیم کر نے کے لیے بھی ، تاکہ آدمی دل میں بھی اور عمل سے بھی اس امر کا اعتراف کرے کہ یہ سب کچھ خدا کا ہے جو اُس نے ہمیں عطا کیا ہے ۔ ایمان اور اسلام نفس کی قربانی ہے۔ نماز او ر روزہ جسم اور اس کی طاقتوں کی قربانی ہے۔ زکوٰۃ اُن اموال کی قربانی ہے جو مختلف شکلوں میں ہم کو اللہ نے دیے ہیں۔ جہاد وقت اور ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کی قربانی ہے۔ قتال فی سبیل اللہ جان کی قربانی ہے ۔ یہ سب ایک ایک طرح کی نعمت اور ایک ایک عطیے کے شکریّے ہیں۔ اسی طرح جانوروں کی قربانی بھی ہم پر عائد کی گئی ہے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی اِس عظیم الشان نعمت پر اُس کا شکر ادا کریں اور اس کی بڑائی مانیں کہ اس نے اپنے پیدا کیے ہوئے بکثرت جانوروں کو ہمارے لیے مسخر فرمایا جن پر ہم سوا ہوتے ہیں جن سے کھیتی باڑی اور بار برداری کی خدمت لیتے ہیں ، جن کے گوشت کھاتے ہیں ، جن کے دودھ پیتے ہیں، جن کی کھالوں اور بالوں اور خون اور ہڈی، غرض ایک ایک چیز سے بے حساب فائدے اُٹھاتے ہیں۔

69. “واضح رہے کہ اُونٹ کی قربانی اس کو کھڑا کر کے کی جاتی ہے۔ اُس کا ایک پاؤں باندھ دیا جاتا ہے ، پھر اس کے حلقوم میں زور سے نیزہ مارا جاتا ہے جس سے خون کا ایک فوارہ نکل پڑتا ہے ،پھر جب کافی خون نکل جاتا ہے تب اُونٹ زمین پر گر پڑتا ہے۔ یہی مفہوم ہے صَوَافّ کا ۔ ابن عباس ، مجاہد، ضحّاک وغیرہ نے اس کی یہی تشریح کی ہے۔ بلکہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی منقول ہے۔ چنانچہ مسلم اور بخاری میں روایت ہے کہ ابنِ عمر نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے اونٹ کو بٹھا کر قربانی کر رہا تھا۔ اس پر انہوں نے فرمایا العثھا قیاما مقیدۃ سنۃ ابی القاسم صلی اللہ علیہ وسلم۔” اس کو پاؤں باندھ کر کھڑا کر، یہ ہے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت“۔ ابوداؤد میں جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ اونٹ کا بایاں پاؤں باندھ کر باقی تین پاؤوں پر اُسے کھڑا کرتے تھے، پھر اس کو نحر کرتے تھے۔ اِسی مفہوم کی طرف خود قرآن بھی اشارہ کر رہا ہے: اِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا، ”جب ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں“۔ اُسی صورت میں بولیں گے جبکہ جانور کھڑا ہواور پھر زمین پر گرے۔ ورنہ لٹا کر قربانی کرنے کی صورت میں تو پیٹھ ویسے ہی ٹکی ہوئی ہوتی ہے۔

70. یہ الفاظ پھر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ کا نام لیے بغیر ذبح کرنے سے کوئی جانور حلال نہیں ہوتا، اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو ”ذبح کرو“ کہنے کے بجائے”ان پر اللہ کا نام لو“ فرما رہا ہے، اور مطلب اس کا جانوروں کو ذبح کرنا ہے۔ اس سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ اسلامی شریعت میں جانور کے ذبح کرنے کا کوئی تصوّر اللہ کا نام لے کر ذبح کرنے کے سوا نہیں ہے۔

ذبح کرتے وقت بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَر کہنے کا طریقہ بھی اسی مقام سے ماخوذ ہے۔ آیت ۳۶ میں فرمایا فَا ذْ کُرُو اا سْمَ اللہِ عَلَیْھَا، ”ان پر اللہ کا نام لو“۔ اور آیت ۳۷ میں فرمایا لِتُکَبِّرُوْ االلہَ عَلیٰ مَا ھَدٰ کُمْ ”تا کہ اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو“۔

قربانی کرتے وقت اللہ کا نام لینے کی مختلف صورتیں احادیث میں منقول ہیں ۔ مثلاً (۱) بِسْمِ اللہِ وَ اللہُ اَکْبَر ، اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ”اللہ کے نام کے ساتھ، اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے“۔ (۲) اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ الّٰھُمّ منک ولک،”اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے“۔ (۳) اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o اِنَّ صَلوٰ تِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمیْنَ ، اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ،”میں نے یکسُو ہو کر اپنا رُخ اس ذات کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بیشک میری نماز اور قربانی اور میرا مرنا اور میرا جینا سب اللہ ربّ العالمین کےلیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سرِ اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے“۔

71. ٹِکنے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ زمین پر گر جائیں، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ گِر کر ٹھیر جائیں ، یعنی تڑپنا بند کر دیں اور جان پوری طرح نِکل جائے۔ ابوداؤد، ترمذی اور مُسْنَد احمد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ ما قُطع (اَومابان) من البھیمۃ وھی حیۃ فھو میتۃ، یعنی”جانور سے جو گوشت اس حالت میں کاٹا جائے کہ ابھی وہ زندہ ہو وہ مردار ہے“۔

72. یہاں پھر اشارہ ہے اِس مضمون کی طرف کہ قربانی کا حکم کیوں دیا گیا ہے۔ فرمایا، اس لیے کہ یہ شکریہ ہے اُس عظیم الشان نعمت کا جو اللہ نے مویشی جانوروں کو تمہارے لیے مسخّر کر کے تمہیں بخشی ہے۔

73. جاہلیت کے زمانے میں اہلِ عرب جس طرح بتوں کی قربانی کا گوشت بتوں پر لے کا چڑھاتے تھے، اُسی طرح اللہ کے نام کی قربانی کا گوشت کعبہ کے سامنے لا کر رکھتے اور خون اس کی دیواروں پر لتھیڑتے تھے ۔ اُن کے نزدیک یہ قربانی گویا اس لیے کی جاتی تھی کہ اللہ کے حضور اس کا خون اور گوشت پیش کیا جائے۔ اس جہالت کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ اصل چیز جو اللہ کے حضور پیش ہوتی ہے وہ جانور کا خون یا گوشت نہیں ، بلکہ تمہارا تقویٰ ہے۔ اگر تم شکرِ نعمت کے جذبے کی بنا پر خالص نیت کے ساتھ صرف اللہ کے لیے قربانی کرو گے تو اس جذبے اور نیت اور خلوص کا نذرانہ اس کے حضور پہنچ جائے گا، ورنہ خون اور گوشت یہیں دھرا رہ جائے گا ۔یہی بات ہے جو حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپؐ نے فرمایا ان اللہ لا ینظر الیٰ صورکم و لا الیٰ الوانکم ولکن ینظر الیٰ قلوبکم و اعمالکم ،”اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دل اور اعمال دیکھتا ہے“۔

74. یعنی دل سے اس کی بڑائی اور برتری مانو اور عمل سے اس کا اعلان و اظہار کرو۔ یہ پھر حکم قربانی کی غرض اور علت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ قربانی صرف اسی لیے واجب نہیں کی گئی ہے کہ یہ تسخیر ِ حیوانات کی نعمت پر اللہ کا شکریہ ہے ، بلکہ اس لیے بھی واجب کی گئی ہے کہ جس کے یہ جانور ہیں ، اور جس نے انہیں ہمارے لیے مسخر کیا ہے ، اس کے حقوقِ مالکانہ کا ہم دل سے بھی اور عملًا بھی اعتراف کریں ، تاکہ ہمیں کبھی یہ بھول لاحق نہ ہو جائے کہ یہ سب کچھ ہمارا اپنا مال ہے ۔ اسی مضمون کو وہ فقرہ ادا کرتا ہے جو قربانی کرتے وقت کہا جا تا ہے کہ اللھم منک ولک، ”خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرےہی لیے حاضر ہے“۔

اس مقام پر یہ جان لینا چاہیے کہ اس پیراگراف میں قربانی کا جوحکم دیا گیا ہے وہ صرف حاجیوں کے لیے ہی نہیں ہے، اور صرف مکّے میں حج ہی کے موقع پر ادا کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ تمام ذی استطاعت مسلمانوں کے لیے عام ہے، جہاں بھی وہ ہوں، تاکہ وہ تسخیرِ حیوانات کی نعمت پر شکریہ اور تکبیر کا فرض بھی اداکریں اور ساتھ ساتھ اپنے اپنے مقامات پر حاجیوں کے شریک حال بھی ہو جائیں۔ حج کی سعادت میسر نہ آئی نہ سہی، کم از کم حج کے دنوں میں ساری دنیا کے مسلمان وہ کام تو کر رہے ہوں جو حاجی جوارِ بیت اللہ میں کریں۔ اس مضمون کی تصریح متعدد صحیح احادیث میں وارد ہوئی ہے، اور بکثرت معتبر روایات سے بھی ثابت ہوُا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود مدینۂ طیّبہ کے پورے زمانۂ قیام میں ہر سال بقر عید کے موقع پر قربانی کرتے رہے اور مسلمانوں میں آپؐ ہی کی سنت سے یہ طریقہ جاری ہوا۔ مُسند احمد اور ابن ماجہ میں ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

من وجد سعۃ فلم یُضَحِّ فلا یقربن مصَلّانا۔

جو شخص استطاعت رکھتا ہو، پھر قربانی نہ کرے ، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔

اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ محدثین میں صرف اس امر پر اختلاف ہے کہ یہ مرفوع روایت ہے یا موقوف۔

ترمذی میں ابنِ عمرؓ کی روایت ہے :

اقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالمدینۃ عشر سنین یُضَحِّی۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال رہے اور ہرسال قربانی کرتے رہے۔

بخاری میں حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے روز فرمایا:

من کان ذبح قبل الصلوٰۃ فلیعُد و من ذبح بعد الصلوٰۃ فقد تم نسکہ و اصاب سنۃ المسلمین۔

جس نے عید کی نماز سے پہلے ذبح کر لیا اسے دوبارہ قربانی کر نی چاہیے، اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پو ری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کا طریقہ پا لیا۔

اور یہ معلوم ہے کہ یوم النحر کو مکّے میں کوئی نماز ایسی نہیں ہوتی جس سے پہلے قربانی کرنا سنت مسلمین کے خلاف ہو اور بعد کرنا اس کے مطابق۔ لہٰذا لا محالہ یہ ارشاد مدینے ہی میں ہوا ہے نہ کہ حج کے موقع پر مکے میں۔

مسلم میں جابر ؓ بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں بقر عید کی نماز پڑھائی اور بعض لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ آپ قربانی کر چکے ہیں، اپنی اپنی قربانیاں کر لیں۔ اس پر آپؐ نے حکم دیا کہ مجھ سے پہلے جن لوگوں نے قربانی کر لی ہے وہ پھرا عادہ کریں۔

پس یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ بقر عید کے روز جو قربانی عام مسلمان دنیا بھر میں کرتے ہیں، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی جاری کی ہوئی سنت ہے۔ البتہ اگر اختلاف ہے تو اس امر میں ہے کہ آیا یہ واجب ہے یا صرف سنت ۔ ابراہیم نخعی ، امام ابو حنیفہ، امام مالک ، امام محمد اور ایک روایت کے مطابق امام ابو یوسف بھی ، اس کو واجب مانتے ہیں۔ مگر امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک یہ صرف سنتِ مسلمین ہے، اور سُفیان ثَوری بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی نہ کرے تو مضائقہ نہیں ۔ تاہم علماء امت میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ اگر تمام مسلمان متفق ہو کر اسے چھوڑ دیں تب بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ نئی اُپچ صرف ہمارے زمانے کے بعض لوگوں کو سُوجھی ہے جن کے لیے ان کا نفس ہی قرآن بھی ہے اور سنت بھی۔

75. یہاں سے تقریر کا رُخ ایک دوسرے مضمون کی طرف پھرتا ہے ۔ سلسلۂ کلام کو سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ یہ تقریر اس وقت کی ہے جب ہجرت کے بعد پہلی مرتبہ حج کا موسم آیا تھا۔ اس وقت ایک طرف تو مہاجرین اور انصار مدینہ، دونوں کو یہ بات سخت شاق گزر رہی تھی کہ وہ حج کی نعمت سے محروم کر دیے گئے ہیں اور ان پر زیارتِ حرم کا راستہ زبردستی بند کر دیا گیا ہے۔ اور دوسری طرف مسلمانوں کے دلوں پر نہ صرف اُس ظلم کے داغ تازہ تھے جو مکّے میں ان پر کے گئے تھے بلکہ اس بات پر بھی وہ سخت رنجیدہ تھے کہ گھر بار چھوڑ کر جب وہ مکّے سے نِکل گئے تو اب مدینے میں بھی ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر جو تقریر فرمائی گئی اس کے پہلے حصّے میں کعبے کی تعمیر، اور حج کے ادارے اور قربانی کے طریقے پر مفصل گفتگو کر کے بتایا گیا کہ ان سب چیزوں کا اصل مقصد کیا تھا اور جاہلیت نے ان کو بگاڑ کر کیا سے کیا کردیا ہے۔ اس طرح مسلمانوں میں یہ جذبہ پدیا کر دیا گیا کہ انتقام کی نیت سے نہیں بلکہ اصلاح کی نیت سے اِس صورت ِ حال کو بدلنے کے لیے اُٹھیں ۔ نیز اس کے ساتھ مدینے میں قربانی کا طریقہ جاری کر کے مسلمانوں کو یہ موقع بھی فراہم کر دیا گیا کہ حج کے زمانے میں اپنے اپنے گھروں پر ہی قربانی کر کے اس سعادت میں حصّہ لے سکیں جس سے دشمنوں نے ان کو محروم کرنے کی کوشش کی ہے، اور حج سے الگ ایک مستقل سنت کی حیثیت سے قربانی جاری کر دی تا کہ جو حج کا موقع نہ پائے وہ بھی اللہ کی نعمت کے شکر اور اس کی تکبیر کا حق ادا کر سکے۔ اس کے بعد اب دوسرے حصّے میں مسلمانوں کو اس ظلم کے خلا ف تلوار اُٹھانے کی اجازت دی جا رہی ہے جو ان پر کیا گیا تھا اور کیا جا رہا تھا۔

76. “مدافعت دفع سے ہے جس کے اصل معنی کسی چیز کو ہٹانے اور دُور کرنے کے ہیں۔ مگر جب دفع کرنے کے بجائے مدافعت کرنا بولیں گے تو اس میں دو مفہوم اور شامل ہو جائیں گے۔ ایک یہ کہ کوئی دشمن طاقت ہے جو حملہ آور ہو رہی ہے اور مدافعت کرنے والا اس کا مقابلہ کر رہا ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہ مقابلہ بس ایک دفعہ ہی ہو کر نہیں رہ گیا بلکہ جب بھی وہ حملہ کرتا ہے یہ اس کو دفع کرتا ہے۔ ان دو مفہومات کو نگا ہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو اہلِ ایمان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی مدافعت کرنے کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ کفر اور ایمان کی کشمکش میں اہلِ ایمان یکہ و تنہا نہیں ہوتے بلکہ اللہ خود ان کے ساتھ ایک فریق ہوتا ہے۔ وہ ان کی تائید اور حمایت فرماتا ہے، ان کے خلاف دشمنوں کی چالوں کا توڑ کرتا ہے اور موذیوں کے ضرر کو اُن سے دفع کرتا رہتا ہے ۔ پس یہ آیت حقیقت میں اہلِ حق کے لیے ایک بہت بڑی بشارت ہے جس سے بڑھ کر ان کا دل مضبوط کرنے والی کوئی دوسری چیز نہیں ہو سکتی۔

77. یہ وجہ ہے ا س بات کی کہ اِس کشمکش میں اللہ کیوں اہلِ حق کے ساتھ ایک فریق بنتا ہے۔ اس لیے کہ حق کے خلاف کشمکش کرنے والا دوسرا فریق خائن ہے، اور کافرِ نعمت ہے۔ وہ ہر اس امانت میں خیانت کر رہا ہے جو اللہ نے اس کے سپرد کی ہے، اور ہر اس نعمت کا جواب نا شکری اور کفران اور نمک حرامی سے دے رہا ہے جو اللہ نے اس کو بخشی ہے ۔ لہٰذا اللہ اس کو ناپسند فرماتا ہے اور اس کے خلاف جدوجہد کرنے والے حق پرستوں کی تائید کرتا ہے۔