Tafheem ul Quran

Surah 22 Al-Haj, Ayat 39-48

اُذِنَ لِلَّذِيۡنَ يُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّهُمۡ ظُلِمُوۡا​ ؕ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَـصۡرِهِمۡ لَـقَدِيۡرُ ۙ‏ ﴿22:39﴾ اۨلَّذِيۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِيَارِهِمۡ بِغَيۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ يَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللّٰهُ​ ؕ وَلَوۡلَا دَ فۡعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعۡضَهُمۡ بِبَـعۡضٍ لَّهُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلٰوتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذۡكَرُ فِيۡهَا اسۡمُ اللّٰهِ كَثِيۡرًا​ ؕ وَلَيَنۡصُرَنَّ اللّٰهُ مَنۡ يَّنۡصُرُهٗ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِىٌّ عَزِيۡزٌ‏ ﴿22:40﴾ اَ لَّذِيۡنَ اِنۡ مَّكَّنّٰهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَنَهَوۡا عَنِ الۡمُنۡكَرِ​ ؕ وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الۡاُمُوۡرِ‏ ﴿22:41﴾ وَاِنۡ يُّكَذِّبُوۡكَ فَقَدۡ كَذَّبَتۡ قَبۡلَهُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ وَّعَادٌ وَّثَمُوۡدُ ۙ‏ ﴿22:42﴾ وَقَوۡمُ اِبۡرٰهِيۡمَ وَقَوۡمُ لُوۡطٍ ۙ‏ ﴿22:43﴾ وَّاَصۡحٰبُ مَدۡيَنَ​ۚ وَكُذِّبَ مُوۡسٰى فَاَمۡلَيۡتُ لِلۡكٰفِرِيۡنَ ثُمَّ اَخَذۡتُهُمۡ​ۚ فَكَيۡفَ كَانَ نَكِيۡرِ‏ ﴿22:44﴾ فَكَاَيِّنۡ مِّنۡ قَرۡيَةٍ اَهۡلَكۡنٰهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ فَهِىَ خَاوِيَةٌ عَلٰى عُرُوۡشِهَا وَبِئۡرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّقَصۡرٍ مَّشِيۡدٍ‏ ﴿22:45﴾ اَفَلَمۡ يَسِيۡرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ فَتَكُوۡنَ لَهُمۡ قُلُوۡبٌ يَّعۡقِلُوۡنَ بِهَاۤ اَوۡ اٰذَانٌ يَّسۡمَعُوۡنَ بِهَا​ ۚ فَاِنَّهَا لَا تَعۡمَى الۡاَبۡصَارُ وَلٰـكِنۡ تَعۡمَى الۡـقُلُوۡبُ الَّتِىۡ فِى الصُّدُوۡرِ‏ ﴿22:46﴾ وَيَسۡتَعۡجِلُوۡنَكَ بِالۡعَذَابِ وَلَنۡ يُّخۡلِفَ اللّٰهُ وَعۡدَهٗ​ ؕ وَاِنَّ يَوۡمًا عِنۡدَ رَبِّكَ كَاَ لۡفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ‏ ﴿22:47﴾ وَكَاَيِّنۡ مِّنۡ قَرۡيَةٍ اَمۡلَيۡتُ لَهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ اَخَذۡتُهَا​ۚ وَاِلَىَّ الۡمَصِيۡرُ‏ ﴿22:48﴾

39 - اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں ، 78 اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔ 79 40 - یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے 80 صرف اِس قصُور پر کہ وہ کہتے تھے ”ہمارا ربّ اللہ ہے۔“ 81 اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد 82 اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مِسمار کر ڈالی جائیں۔ 83 اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔ 84 اللہ بڑا طاقتور اور زبر دست ہے۔ 41 - یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰة دیں گے، معرُوف کا حکم دیں گے اور مُنکَر سے منع کریں گے۔ 85 اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ 86 42 - اے نبیؐ ، اگر وہ تمہیں جھُٹلاتے ہیں 87 تو اُن سے پہلے جھُٹلا چکے ہیں قومِ نوحؐ اور عاد اور ثمود 43 - اور قومِ ابراہیمؐ اور قومِ لوطؑ 44 - اور اہلِ مَدیَن بھی، اور موسیٰؑ بھی جھٹلائے جا چکے ہیں۔ ان سب منکرینِ حق کو میں نے پہلے مہلت دی، پھر پکڑ لیا۔ 88 اب دیکھ لو کہ میری عقوبت کیسی تھی۔ 89 45 - کتنی ہی خطا کار بستیاں ہیں جن کو ہم نے تباہ کیا ہے اور آج وہ اپنی چھتوں پر اُلٹی پڑی ہیں، کتنے ہی کنوئیں 90 بے کار اور کتنے ہی قصر کھنڈر بنے ہوئے ہیں۔ 46 - کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِن کے دل سمجھنے والے اور اِن کے کان سُننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ 91 47 - یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں۔ 92 اللہ ہر گز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا، مگر تیرے ربّ کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہوا کرتا ہے۔ 93 48 - کتنی ہی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں، میں نے ان کو پہلے مہلت دی، پھر پکڑ لیا۔ اور سب کو واپس تو میرے ہی پاس آنا ہے۔ ؏ ٦


Notes

78. “جیسا کہ دیباچے میں بیان کیا جا چکا ہے ، یہ قتال فی سبیل اللہ کے بارے میں اوّلین آیت ہے جو نازل ہوئی۔ اس آیت میں صرف اجازت دی گئی تھی۔ بعد میں سورۂ بقرہ کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں جنگ کا حکم دے دیا گیا، یعنی وَقَاتِلُوْ ا فِیْ سِبِیْلِ اللہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْ نَکُمْ، (آیت ۱۹۰) اور وَاقْتُلُوْ ھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْ ھُمْ وَاَ خْرِ جُوْ ھُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْ کُمْ (آیت ۱۹۱) اور وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ (آیت ۱۹۳) اور کُتِبَ عَلَیْکُمْ الْقِتَالُ وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ (آیت ۲۱۶) اور وَقَاتِلُوْ ا فِیْ سِبِیْلِ اللّٰہِ وَا عْلَمُوْآ اَنَّ اللہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (آیت ۲۴۴)۔

اجازت اور حکم میں صرف چند مہینوں کا فصل ہے۔ اجازت ہماری تحقیق کے مطابق ذی الحجہ سن ۱ ھ میں نازل ہوئی ، اور حکم جنگ ِ بدر سے کچھ پہلے رجب یا شعبان سن ۲ ھ میں نازل ہوا۔

79. یعنی اس کے باوجود کہ یہ چند مٹھی بھر آدمی ہیں ، اللہ ان کو تمام مشرکین ِ عرب پر غالب کر سکتا ہے ۔ یہ بات نگا ہ میں رہے کہ جس وقت تلوار اُٹھانے کی یہ اجازت دی جا رہی تھی ، مسلمانوں کی ساری طاقت صرف مدینے کے ایک معمولی قصبے تک محدود تھی اور مہاجرین و انصار مل کر بھی ایک ہزار کی تعداد تک نہ پہنچتے تھے۔ او ر اس حالت میں چیلنج دیا جارہا تھا قریش کو جو تنہا نہ تھے بلکہ عرب کے دوسرے مشرک قبائل بھی ان کی پشت پر تھے اور بعد میں یہودی بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ اس موقع پر یہ ارشاد ہو اکہ ”اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے“ نہایت بر محل تھا۔ اس سے ان مسلمانوں کی بھی ڈھارس بند ھائی گئی جنہیں پورے عرب کی طاقت کے مقابلے میں تلوار لے اُٹھ کھڑے ہونے کے لیے اًُبھارا جا رہا تھا، اور کفارِ کو بھی متنبہ کر دیا گیا کہ تمہارا مقابلہ دراصل ان مٹھی بھر مسلمانوں سےنہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اس کے مقابلے کی ہمت ہوتو سامنے آجاؤ۔

80. یہ آیت تصریح کرتی ہے کہ سورۂ حج کا یہ حصّہ لازمًا ہجرت کے بعد نازل ہوا ہے۔

81. جس ظلم کے ساتھ یہ لوگ نکالے گئے اس کا اندازہ کرنے کے لیے ذیل کے چند واقعات ملاحظہ ہوں:

حضرت صُہَیب رومی جب ہجرت کرنے لگے تو کفار ِ قریش نے ان سے کہا کہ تم یہاں خالی ہاتھ آئے تھے اور اب خوب مال دار ہوگئے ہو۔ تم جانا چاہو تو خالی ہاتھ ہی جا سکتے ہو۔ اپنا مال نہیں لے جا سکتے۔ حالانکہ انہوں نے جو کچھ کمایا تھا اپنے ہاتھ کی محنت سے کمایا تھا، کسی کا دیا نہیں کھاتے تھے۔ آخر وہ غریب دامن جھاڑ کر کھڑے ہو گئے اور سب کچھ ظالموں کے حوالے کر کے اس حال میں مدینے پہنچے کہ تن کے کپڑوں کے سوا اُن کے پاس کچھ نہ تھا۔

حضرت اُمِ سَلَمہ اور ان کے شوہر ابو سَلَمہ اپنے دودھ پیتے بچے کو لے کر ہجرت کے لیے نکلے۔ بنی مَغِیرہ (اُم سَلَمہ کےخاندان) نے راستہ روک لیااور ابو سلمہ سے کہا کہ تمہار اجہاں جی چاہے پھرتے رہو ، مگر ہماری لڑکی کو لے کر نہیں جا سکتے۔ مجبورًا بے چارے بیوی کو چھوڑ کر چلے گئے۔ پھر بنی عبدالاسد (ابو سَلَمہ کے خاندان والے) آگے بڑھے اور انہوں نے کہا کہ بچہ ہمارے قبیلے کا ہے ، اسے ہمارے حوالے کر دو۔ اس طرح بچہ بھی ماں اور باپ دونوں سے چھین لیا گیا۔ تقریبًا ایک سال تک حضرت اُم سلمہ بچے اور شوہر کے غم میں تڑپتی رہیں ، اور آخر بڑی مصیبت سے اپنے بچے کو حاصل کر کے مکّے سے اس حال میں نکلیں کہ اکیلی عورت گود میں بچہ لیے اونٹ پر سوار تھی اور ان راستوں پر جا رہی تھی جن سے مسلح قبائل بھی گزرتے ہوئے ڈرتے تھے۔

عیّاش بن رَبِیعہ، ابوجہل کے ماں جائے بھائی تھے۔ حضرت عمرؓ کے ساتھ ہجرت کر کے مدینے پہنچ گئے۔ پیچھے پیچھے ابو جہل اپنے ایک بھائی کو ساتھ لے کر جا پہنچا اور بات بنائی کہ امّاں جان نے قسم کھا لی ہے کہ جب تک عیاش کی صورت نہ دیکھ لوں گی نہ دھوپ سے سائے میں جاؤں گی اور نہ سرمیں کنگھی کروں گی۔ اس لیے تم بس چل کر اُنہیں صورت دکھا دو، پھر واپس آجانا۔ وہ بیچارے ماں کی محبت میں ساتھ ہو لیے ۔ راستے میں دونوں بھائیوں نے ان کو قید کر لیا اور مکّے میں انہیں لے کر اس طرح داخل ہوئے کہ وہ رسیوں میں جکڑے ہوئے تھے اور دونوں بھائی پکارتے جا رہے تھے کہ”اے اہلِ مکّہ، اپنے اپنے نالائق لونڈوں کو یوں سیدھا کرو جس طرح ہم نے کیا ہے“۔ کافی مدّت تک بیچارے قیدرہے اورآخر کار ایک جانباز مسلمان ان کو نکال لانے میں کامیاب ہوا۔

اس طرح کے مظالم سے قریب قریب ہر اس شخص کو سابقہ پیش آیا جس نے مکّے سے مدینے کی طرف ہجرت کی۔ ظالموں نے گھر بار چھوڑتے وقت بھی ان غریبوں کو خیریت سے نہ نکلنے دیا۔

82. اصل میں صَوَ امِعُ اور بِیَعٌ اور صَلَواتٌ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ صومعہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں راہب اور سنیاسی اور تارک الدنیا فقیر رہتے ہوں۔ بِیعہ کا لفظ عربی زبان میں عیسائیوں کی عبادت گاہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ صَلَوات سے مراد یہودیوں کے نماز پڑھنے کی جگہ ہے۔ یہودیوں کے ہاں اس کا نام صلوتا تھا جو آرامی زبان کا لفظ ہے۔ بعید نہیں کہ انگریزی لفظ (Salute ) اور (Salutation ) اسی سے نِکل کر لاطینی میں اور پھر انگریزی میں پہنچا ہو۔

83. یعنی یہ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ اس نے کسی ایک گروہ یا قوم کو دائمی اقتدار کا پٹہ لکھ کر نہیں دے دیا، بلکہ وہ وقتًا فوقتًا دنیا میں ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعہ سے دفع کر تا رہتا ہے۔ ورنہ اگر ایک ہی گروہ کو کہیں پٹہ مل گیا ہوتا تو قلعے اور قصر اور ایوان سیاست اور صنعت و تجارت کے مرکز ہی تباہ نہ کر دیے جاتے بلکہ عبادت گاہیں تک دست درازیوں سے نہ بچتیں۔ سورہ بقرہ میں اس مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے وَلَوْ لَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضُھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰکِنَّ اللہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ،”اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا رہتا تو زمین میں فساد مچ جاتا ۔ مگر اللہ دنیا والوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے“۔ (آیت ۲۵۱)۔

84. یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے کہ جو لوگ خلقِ خدا کو توحید کی طرف بلانے اور دینِ حق کو قائم کرنے اور شر کی جگہ خیر کو فروغ دینے کی سعی و جہد کرتے ہیں وہ دراصل اللہ کے مددگار ہیں، کیونکہ یہ اللہ کا کام ہے جسے انجام دینے میں وہ اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، آلِ عمران، حاشیہ نمبر ۵۰)۔

85. یعنی اللہ کے مددگار اوراُس کی تائید و نصرت کے مستحق لوگوں کی صفات یہ ہیں کہ اگر دنیا میں انہیں حکومت و فرمانروائی بخشی جائے تو ان کا ذاتی کردار فسق و فجور اور کبر و غرور کے بجائے اقامتِ صلوٰۃ ہو، اُن کی دولت عیاشیوں اور نفس پرستیوں کے بجائے ایتائے زکوٰۃ میں صرف ہو، ان کی حکومت نیکی کو دبانے کے بجائے اُسے فروغ دینے کی خدمت انجام دے، اور ان کی طاقت بدیوں کو پھیلانے کے بجائے اُن کے دبانے میں استعمال ہو۔ اس ایک فقرے میں اسلامی حکومت کے نصب العین اور اس کے کارکنوں اور کارفرماؤں کی خصوصیات کا جو ہر نکال کر رکھ دیا گیا ہے۔ کوئی سمجھنا چاہے تو اسی ایک فقرے سے سمجھ سکتا ہے کہ اسلامی حکومت فی الواقع کس چیز کا نام ہے۔

86. یعنی یہ فیصلہ کہ زمین کا انتظام کس وقت کسے سونپا جائے دراصل اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ مغرور بندے اس غلط فہمی میں ہیں کہ زمین اور اس کے بسنے والوں کی قسمتوں کے فیصلے کرنے والے وہ خود ہیں ۔ مگر جو طاقت ایک ذرا سے بیج کو تنا ور درخت بنا دیتی ہے اور ایک تناور درخت کو ہیزم سوختنی میں تبدیل کر دیتی ہے ، اسی کو یہ قدرت حاصل ہے کہ جن کے دبدبے کو دیکھ کر لوگ خیال کرتے ہوں کہ بھلا ان کو کون ہلا سکے گا اُنہیں ایسا گرائے کہ دنیا کے لیے نمونہ ٔ عبرت بن جائیں، اور جنہیں دیکھ کر کوئی گمان بھی نہ کر سکتا ہو کہ یہ کبھی اُٹھ سکیں گے اُنہیں ایسا سربلند کرے کہ دنیا میں اُن کی عظمت و بزرگی کے ڈنکے بج جائیں۔

87. یعنی کفارِ مکّہ۔

88. ”یعنی ان میں سے کسی قوم کو بھی نبی کی تکذیب کرتے ہی فورًا نہیں پکڑ لیا گیا تھا، بلکہ ہر ایک کو سوچنے سمجھنے کے لیے کافی وقت دیا گیا اور گرفت اُس وقت کی گئی جبکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو چکے تھے۔ اسی طرح کفارِ مکّہ بھی یہ نہ سمجھیں کہ ان کی شامت آنے میں جو دیر لگ رہی ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ نبی کی تنبیہات محض خالی خولی دھمکیاں ہیں ۔ درحقیقت یہ مہلتِ غوروفکر جو اللہ اپنے قاعدے کے مطابق ان کو دے رہا ہے اور اس مہلت سے اگر انہوں نے فائدہ نہ اُٹھایا تو ان کا انجام بھی وہی ہو کر رہنا ہے جو ان کے پیش روؤں کا ہو چکا ہے۔

89. اصل میں لفظ نکیر استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم عقوبت یا کسی دوسرے لفظ سے ادا نہیں ہوتا۔ یہ لفظ دو معنی دیتا ہے۔ ایک یہ کہ کسی شخص کی بُری روش پر ناخوشی کا اظہار کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اُس کو ایسی سزا دی جائےء جو اس کی حالت دگر گوں کر دے۔ اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا جائے۔ کوئی دیکھے تو پہچان نہ سکے کہ یہ وہی شخص ہے ۔ ان دونوں مفہومات کے لحاظ سے اس فقرے کا پورا مطلب یہ ہے کہ ” اب دیکھ لو کہ ان کی اس روش پر جب میرا غضب بھڑکا تو پھر میں نے ان کی حالت کیسی دگرگوں کر دی“۔

90. عرب میں کُنواں اور بستی قریب قریب ایک دوسرے کے ہم معنی ہیں۔ کسی قبیلے کی بستی کا نام لینا ہو تو کہتے ہیں ماء بنی فلان یعنی فلاں قبیلے کا کنواں۔ ایک عرب کے سامنے جب یہ کہا جائے گا کہ کنوئیں بیکار پڑے ہیں تو اس کے ذہن میں اس کا یہ مطلب آئے گا کہ بستیاں اُجڑی پڑی ہیں۔

91. خیال رہے کہ قرآن سائنس کی زبان میں نہیں بلکہ ادب کی زبان میں کلام کرتا ہے ۔ یہاں خواہ مخواہ ذہن اس سوال میں نہ اُلجھ جائے کہ سینے والا دل کب سوچا کرتا ہے۔ ادبی زبان میں احساسات ، جذبات ، خیالات ، بلکہ قریب قریب تمام ہی افعالِ دماغ سینے اور دل ہی کی طرف منسُوب کیے جاتے ہیں۔ حتٰی کہ کسی چیز کے ”یاد ہونے“ کو بھی یوں کہتے ہیں کہ ”وہ تو میرے سینے میں محفوظ ہے“۔

92. یعنی بار بار چیلنج کر رہے ہیں کہ میاں اگر تم سچے نبی ہو تو کیوں نہیں آجاتا ہم پر وہ عذاب جو خدا کے بھیجے ہوئے نبی بر حق کے جھٹلانے پر آنا چاہیے ، اور جس کی دھمکیاں بھی تم بار ہا ہم کو دے چکے ہو۔

93. یعنی انسانی تاریخ میں خدا کے فیصلے تمہاری گھڑیوں اور جنتریوں کے لحاظ سے نہیں ہوتے کہ آج ایک صحیح یا غلط روش اختیار کی اور کل اس کے اچھے یا بُرے نتائج ظاہر ہوگئے۔ کسی قوم سے اگر یہ کہا جائے کہ فلاں طرزِ عمل اختیار کرنے کا انجام تمہاری تباہی کی صورت میں نکلے گا تو وہ بڑی ہی احمق ہو گی اگر جواب میں یہ استدلال کرے کہ جناب اس طرزِ عمل کو اختیار کیے ہمیں دس، بیس یا پچاس برس ہو چکے ہیں ، ابھی تک تو ہمارا کچھ بگڑا نہیں۔ تاریخی نتائج کے لیے دن اور مہینےاور سال تو درکنار صدیاں بھی کوئی بڑی چیز نہیں ہیں۔