Tafheem ul Quran

Surah 22 Al-Haj, Ayat 58-64

وَالَّذِيۡنَ هَاجَرُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ ثُمَّ قُتِلُوۡۤا اَوۡ مَاتُوۡا لَيَرۡزُقَنَّهُمُ اللّٰهُ رِزۡقًا حَسَنًا​ؕ وَاِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ خَيۡرُ الرّٰزِقِيۡنَ‏  ﴿22:58﴾ لَيُدۡخِلَـنَّهُمۡ مُّدۡخَلًا يَّرۡضَوۡنَهٗ​ ؕ وَاِنَّ اللّٰهَ لَعَلِيۡمٌ حَلِيۡمٌ‏ ﴿22:59﴾ ذٰ لِكَ​ۚ وَمَنۡ عَاقَبَ بِمِثۡلِ مَا عُوۡقِبَ بِهٖ ثُمَّ بُغِىَ عَلَيۡهِ لَيَنۡصُرَنَّهُ اللّٰهُ ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوۡرٌ‏ ﴿22:60﴾ ذٰ لِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ يُوۡلِجُ الَّيۡلَ فِى النَّهَارِ وَيُوۡلِجُ النَّهَارَ فِى الَّيۡلِ وَاَنَّ اللّٰهَ سَمِيۡعٌۢ بَصِيۡرٌ‏ ﴿22:61﴾ ذٰ لِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الۡحَـقُّ وَاَنَّ مَا يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِهٖ هُوَ الۡبَاطِلُ وَاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الۡعَلِىُّ الۡكَبِيۡرُ‏ ﴿22:62﴾ اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً  فَتُصۡبِحُ الۡاَرۡضُ مُخۡضَرَّة ً  ؕاِنَّ اللّٰهَ لَطِيۡفٌ خَبِيۡرٌ​ ۚ‏ ﴿22:63﴾ لَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ​ ؕ وَاِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ الۡغَنِىُّ الۡحَمِيۡدُ‏ ﴿22:64﴾

58 - اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی، پھر قتل کر دیے گئے یا مر گئے، اللہ ان کو اچھا رزق دے گا۔ اور یقیناً اللہ ہی بہترین رازق ہے۔ 59 - وہ اُنہیں ایسی جگہ پہنچائے گا جس سے وہ خوش ہوجائیں گے۔ بے شک اللہ علیم اور حلیم ہے۔ 103 60 - یہ تو ہے اُن کا حال، اور جو کوئی بدلہ لے، ویسا ہی جیسا اُس کے ساتھ کیا گیا، اور پھر اس پر زیادتی بھی کی گئی ہو، تو اللہ اس کی مدد ضرور کرے گا۔ 104 اللہ معاف کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے۔ 105 61 - 106یہ اس لیے کہ رات سے دن اور دن سے رات نکالنے والا اللہ ہی ہے 107 اور وہ سمیع و بصیر ہے۔ 108 62 - یہ اِس لیے کہ اللہ ہی حق ہے اور سب باطل ہیں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں 109 اور اللہ ہی بالادست اور بزرگ ہے۔ 63 - کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور اس کی بدولت زمین سرسبز ہو جاتی ہے؟ 110 حقیقت یہ ہے کہ وہ لطیف و خبیر ہے۔ 111 64 - اُسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ بے شک وہی غنی و حمید ہے۔ 112 ؏ ۸


Notes

103. ”علیم“ ہے ، یعنی وہ جانتا ہے کہ کس نے فی الحقیقت اُسی کی راہ میں گھر بار چھوڑا ہے اور وہ کس انعام کا مستحق ہے۔ ”حلیم“ ہے یعنی ایسے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں اور کمزوریوں کی وجہ سے ان کی بڑی بڑی خدمات اور قربانیوں پر پانی پھیر دینے والا نہیں ہے۔ وہ ان سے درگزر فرمائے گا اور ان کے قصور معاف کر دے گا۔

104. پہلے ان مظلوموں کا ذکر تھا جو ظلم کے مقابلے میں کوئی جوابی کارروائی نہ کر سکے ہوں، اور یہاں اُن کا ذکر ہے جو ظالموں کے مقابلے میں قوت استعمال کریں۔

امام شافعیؒ نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ قصاص اُسی شکل میں لیا جائے گا جس شکل میں ظلم کیا گیا ہو۔ مثلًا کسی شخص نے اگر آدمی کو ڈبو کر مارا ہے تو اسے بھی ڈبو کر مارا جائے گا، اور کسی نے جلا کر مارا ہے تو اسے بھی جلا کر مارا جائے گا۔ لیکن حنفیہ اس بات کےقائل ہیں کہ قاتل نے قتل خواہ کسی طریقے سے کیا ہو، اس سے قصاص ایک ہی معروف طریقے پر لیا جائے گا۔

105. اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور غالبًا دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک یہ کہ ظلم کہ مقابلے میں جو کشت و خون کیا جائے وہ اللہ کےہاں معاف ہے، اگرچہ کشت و خون بجائے خود اچھی چیز نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ جس کے تم بندے ہو، عفو و درگزر کرنے والا ہے، اس لیے تم کو بھی ،جہاں تک بھی تمہارے بس میں ہو، عفو و درگزر سےکام لینا چاہیے۔ اہلِ ایمان کے اخلاق کا زیور یہی ہے کہ وہ حلیم، عالی ظرف اور متحمل ہوں۔ بدلہ لینے کا حق اُنہیں ضرور حاصل ہے ، مگر بالکل منتقمانہ ذہنیت اپنے اوپر طاری کر لینا ان کے لیے موزوں نہیں ہے۔

106. اس پیراگراف کا تعلق اوپر کے پورے پیراگراف سے ہے نہ کہ صرف قریب کے آخری فقرے سے ۔ یعنی کفر و ظلم کی روش اختیار کرنے والوں پر عذاب نازل کرنا، مومن و صالح بندوں کو انعام دینا، مظلوم اہلِ حق کی داد رسی کرنا، اور طاقت سے ظلم کا مقابلہ کرنے والے اہلِ حق کی نصرت فرمانا، یہ سب کس وجہ سے ہے؟ اس لیے کہ اللہ کی صفات یہ اور یہ ہیں۔

107. یعنی تمام نظامِ کائنات پر وہی حاکم ہے اور گردشِ لیل ونہار اُسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اس ظاہری معنی کے ساتھ اِس فقرے میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جو خدا رات کی تاریکی میں سے دن کی روشنی نکال لاتا ہے اور چمکتے ہوئے دن پر رات کی ظلمت طاری کر دیتا ہے، وہی خدا اس پر بھی قادر ہے کہ آج جن کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر ہے اُن کے زوال و غروب کا منظر بھی دنیا کو جلدی ہی دکھا دے، اور کفر وجہالت کی جو تاریکی اِس وقت حق و صداقت کی فجر کا راستہ روک رہی ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے اُس کے حکم سے چھَٹ جائے اور وہ دن نِکل آئے جس میں راستی اور علم و معرفت کے نُور سے دنیا روشن ہو جائے۔

108. یعنی وہ دیکھنے اور سننے والا خدا ہے، اندھا بہرا نہیں ہے۔

109. یعنی حقیقی اختیارات کا مالک اور واقعی ربّ وہی ہے، اس لیے اس کی بندگی کرنے والے خائب و خاسر نہیں رہ سکتے۔ اور دوسرے تمام معبود سراسر بے حقیقت ہیں ، ان کو جن صفات اور اختیارات کا مالک سمجھ لیا گیا ہے اُن کی سرے سے کوئی اصلیت نہیں ہے ، اس لیے خدا سے منہ موڑ کر اُن کے اعتماد پر جینے والے کبھی فلاح و کامرانی سے ہم کنار نہیں ہو سکتے۔

110. یہاں پھر ظاہر مفہوم کے پیچھے ایک لطیف اشارہ چھپا ہوا ہے۔ ظاہر مفہوم تو محض اللہ کی قدرت کا بیان ہے ۔مگر لطیف اشارہ اس میں یہ ہے کہ جس طرح خدا کی برسائی ہوئی بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی تم دیکھتے ہو کہ سوکھی پڑی ہوئی زمین یکایک لہلہا اُٹھتی ہے ، اسی طرح یہ وحی کا بارانِ رحمت جو آج ہو رہا ہے، عنقریب تم کو یہ منظر دکھانے والا ہے کہ یہی عرب کا بنجر ریگستان علم اور اخلاق اور تہذیب صالح کا وہ گلزار بن جائے گا جو چشمِ فلک نے کبھی نہ دیکھا تھا۔

111. ”لطیف“ ہے ، یعنی غیر محسوس طریقوں سے اپنے ارادے پورے کرنے والا ہے۔ اس کی تدبیریں ایسی ہوتی ہیں کہ لوگ اُن کے آغاز میں کبھی اُن کے انجام کا تصوّر تک نہیں کر سکتے۔ لاکھوں بچے دنیا میں پیدا ہوتے ہیں، کون جان سکتا ہے کہ ان میں سے کون ابراہیم ہے جو تین چوتھائی دنیا کا روحانی پیشوا ہو گا اور کون چنگیز ہے جو ایشیا اور یورپ کو تہ و بالا کر ڈالے گا۔ خوردبین جب ایجاد ہوئی تھی اس وقت کون تصور کر سکتا تھا کہ یہ ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم تک نوبت پہنچائے گی۔ کولمبس جب سفر کو نکل رہا تھا تو کسے معلوم تھا کہ یہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی بنا ڈالی جا رہی ہے۔ غرض خدا کے منصوبے ایسے ایسے دقیق اور ناقابلِ ادراک طریقوں سے پورے ہوتے ہیں کہ جب تک وہ تکمیل کو نہ پہنچ جائیں کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ یہ کس چیز کے لیے کام ہو رہا ہے۔

”خبیر“ہے ، یعنی وہ اپنی دنیا کے حالات، مصالح اور ضروریات سے باخبر ہے، اور جانتا ہے کہ اپنی خدائی کا کام کس طرح کرے۔

112. وہی”غنی“ ہے ، یعنی صرف اسی کی ذات ایسی ہے جو کسی کی محتاج نہیں۔ اور وہی”حمید“ ہے، یعنی تعریف اور حمد اسی کے لیے ہے اور وہ اپنی ذات میں آپ محمود ہے، خواہ کوئی حمد کرے یا نہ کرے۔