113. آسمان سے مراد یہاں پورا عالمِ بالا ہے جس کی ہر چیز اپنی اپنی جگہ تھمی ہوئی ہے۔
114. یعنی یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اُس حقیقت کا انکار کیے جاتا ہے جسے انبیاء علیہم السّلام نے پیش کیا ہے۔
115. یعنی ہر نبی کی اُمّت۔
116. یہاں مَنْسَک کا لفظ قربانی کے معنی میں نہیں بلکہ پورے نظامِ عبادت کےمعنی میں ہے۔ اس سے پہلے اسی لفظ کا ترجمہ”قربانی کا قاعدہ“ کیا گیا تھا، کیونکہ وہاں بعد کا فقرہ”تاکہ لوگ اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں“ اس کے وسیع معانی میں سے صرف قربانی مراد ہونے کی تصریح کر رہا تھا۔ لیکن یہاں اسے محض ”قربانی“ کے معنی میں لینے کی کو ئی وجہ نہیں ہے۔ بلکہ عبادت کو بھی اگر”پرستش“ کے بجائے”بندگی“ کے وسیع تر مفہوم میں لیا جائے تو مدعا سے قریب تر ہو گا۔ اس طرح منسک (طریقِ زندگی) کے وہی معنی ہوجائیں گے جو شریعت اور منہاج کے معنی ہیں، اور یہ اسی مضمون کا اعادہ ہو گا جو سورۂ مائدہ میں فرمایا گیا ہے کہ لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْ عَتً وَّمِنْھَاجًا، ”ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی“ (آیت ۴۸)۔
117. یعنی جس طرح پہلے انبیاء اپنے اپنے دَور کی اُمتوں کے لیے ایک”منسک“ لائے تھے، اسی طرح اس دَور کی اُمت کے لیے تم ایک منسک لائے ہو۔ اب کسی کو تم سے نزاع کرنے کا حق حاصل نہیں ہے ،کیونکہ اس دور کے لیے یہی منسک ِ حق ہے۔ سُورۂ جاثیہ میں اِس مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا ہے: ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلیٰ شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَا تَّبِعْھَا وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَ آءَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ (آیت ۱۸) ”پھر (انبیاء بنی اسرائیل کے بعد) اَے محمدؐ ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک شریعت (طریقے) پر قائم کیا ، پس تم اسی کی پیروی کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے“۔ (مفصل تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم، الشوریٰ ، حاشیہ نمبر ۲۰)۔
118. یہ فقرہ اس مطلب کو پوری طرح واضح کر رہا ہے جو پچھلے فقرے کی تفسیر میں ابھی ہم بیان کر آئے ہیں۔
119. سلسلۂ کلام سے اس پیراگراف کا تعلق سمجھنے کے لیے اس سُورے کی آیات ۵۵ تا ۵۷ نگاہ میں رہنی چاہییں۔
120. یعنی نہ توخدا کی کسی کتاب میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے فلاں فلاں کو اپنے ساتھ خدائی میں شریک کیا ہے لہٰذا ہمارے ساتھ تم ان کی بھی عبادت کیا کرو، اور نہ ان کو کسی علمی ذریعہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ واقعی الوہیت میں حصّہ دار ہیں اور اس بنا پر ان کو عبادت کا حق پہنچتا ہے۔ اب یہ جو طرح طرح کے معبود گھڑے گئے ہیں، اور ان کی صفات اور اختیارات کے متعلق قسم قسم کے عقائد تصنیف کر لیے گئے ہیں، اور ان کے آستانوں پر جَبہ سائیاں ہو رہی ہیں ، دعائیں مانگی جارہی ہیں ، چڑھاوے چڑھ رہے ہیں، نیازیں دی جارہی ہیں، طواف کیے جارہے ہیں اور اعتکاف ہو رہے ہیں،یہ سب جاہلانہ گمان کی پیروی کے سوا آخر اور کیا ہے۔
121. یعنی یہ احمق لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ معبود دنیا اور آخر ت میں ان کے مددگار ہیں، حالانکہ حقیقت میں ان کا کوئی بھی مددگار نہیں ہے۔ نہ یہ معبود ، کیونکہ ان کےپاس مدد کی کوئی طاقت نہیں، اور نہ اللہ، کیونکہ اس سے یہ بغاوت اختیار کر چکے ہیں۔ لہٰذا اپنی اس حماقت سے یہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کر رہے ہیں۔
122. یعنی کلامِ الہٰی کی آیات سُن کر جو غصے کی جلن تم کو لاحق ہوتی ہے اس سے شدید تر چیز ، یا یہ کہ ان آیات کو سنانے والوں کے ساتھ جو زیادہ سے زیادہ برائی تم کر سکتے ہو اس سے زیادہ بدتر چیز ، جس سے تمہیں سابقہ پیش آنے والا ہے۔