Tafheem ul Quran

Surah 22 Al-Haj, Ayat 73-78

يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسۡتَمِعُوۡا لَهٗ ؕ اِنَّ الَّذِيۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ لَنۡ يَّخۡلُقُوۡا ذُبَابًا وَّلَوِ اجۡتَمَعُوۡا لَهٗ​ ؕ وَاِنۡ يَّسۡلُبۡهُمُ الذُّبَابُ شَيۡـئًـا لَّا يَسۡتَـنۡـقِذُوۡهُ مِنۡهُ​ ؕ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالۡمَطۡلُوۡبُ‏ ﴿22:73﴾ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدۡرِهٖؕ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِىٌّ عَزِيۡزٌ‏ ﴿22:74﴾ اَللّٰهُ يَصۡطَفِىۡ مِنَ الۡمَلٰٓـئِكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيۡعٌۢ بَصِيۡرٌ ​ۚ‏ ﴿22:75﴾ يَعۡلَمُ مَا بَيۡنَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَمَا خَلۡفَهُمۡ​ؕ وَاِلَى اللّٰهِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ‏ ﴿22:76﴾ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ارۡكَعُوۡا وَاسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّكُمۡ وَافۡعَلُوۡا الۡخَيۡرَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۩ ۚ‏ ﴿22:77﴾ وَجَاهِدُوۡا فِى اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ​ؕ هُوَ اجۡتَبٰٮكُمۡ وَمَا جَعَلَ عَلَيۡكُمۡ فِى الدِّيۡنِ مِنۡ حَرَجٍ​ؕ مِلَّةَ اَبِيۡكُمۡ اِبۡرٰهِيۡمَ​ؕ هُوَ سَمّٰٮكُمُ الۡمُسۡلِمِيۡنَ ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَفِىۡ هٰذَا لِيَكُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَهِيۡدًا عَلَيۡكُمۡ وَتَكُوۡنُوۡا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ​ ​ۖۚ فَاَقِيۡمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاعۡتَصِمُوۡا بِاللّٰهِؕ هُوَ مَوۡلٰٮكُمۡ​ۚ فَنِعۡمَ الۡمَوۡلٰى وَنِعۡمَ النَّصِيۡرُ‏  ﴿22:78﴾

73 - لوگو، ایک مثال دی جاتی ہے، غور سے سُنو۔ جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھُڑا بھی نہیں سکتے۔ مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور۔ 123 74 - اِن لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیسا کہ اس کے پہچاننے کا حق ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قوت اور عزّت والا تو اللہ ہی ہی ہے۔ 75 - حقیقت یہ ہے کہ اللہ (اپنے فرامین کی ترسیل کے لیے )ملائکہ میں سے بھی پیغام رساں منتخب کرتا ہے، اور انسانوں میں سے بھی۔ 124 وہ سمیع اور بصیر ہے، 76 - جو کچھ ان کے سامنے ہے اُسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے اُس سے بھی وہ واقف ہے 125 ، اور سارے معاملات اُسی کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ 126 77 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو، رکوع اورسجدہ کرو، اپنے ربّ کی بندگی کرو، اور نیک کام کرو، شاید کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔ 127 78 - اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ 128 اُس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چُن لیا ہے 129 اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ 130 قائم ہو جاوٴ اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملّت پر 131 ۔ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام ”مسلم“ رکھا تھا اور اس (قرآن)میں بھی (تمہارا یہی نام ہے 132 )۔ تاکہ رسولؐ تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔ 133 پس نماز قائم کرو ، زکوٰة دو، اور اللہ سے وابستہ ہو جاوٴ۔ 134 وہ ہے تمہارا مولیٰ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار۔ ؏ ۱۰


Notes

123. یعنی مدد چاہنے والا تو اس لیے کسی بالاتر طاقت کی طرف استمداد کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے کہ وہ کمزور ہے۔ مگرا س غرض کے لیے یہ جن کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہیں ان کی کمزوری کا حال یہ ہے کہ وہ ایک مکھی سے بھی عہدہ برا نہیں ہوسکتے۔ اب غور کرو کہ اُن لوگوں کی کمزوری کا کیا حال ہو گا جو خود بھی کمزور ہوں اور ان کی امیدوں کے سہارے بھی کمزور۔

124. مطلب یہ ہے کہ مشرکین نے مخلوقات میں سے جن جن ہستیوں کو معبود بنایا ہے ان میں افضل ترین مخلوق یا ملائکہ ہیں یا انبیاء۔ اور ان کی حیثیت بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ وہ اللہ کے احکام پہنچانے کا ذریعہ ہیں جن کو اس نے اس خدمت کے لیے چُن لیا ہے ۔ محض یہ فضیلت ان کو خدا، یا خدائی میں اللہ کا شریک تو نہیں بنا دیتی۔

125. یہ فقرہ قرآن مجید میں بالعموم شفاعت کے مشرکانہ عقیدے کی تردید کے لیے آیا کرتا ہے۔ لہٰذا اس مقام پر پچھلے فقرے کے بعد اسے ارشاد فرمانے کا مطلب یہ ہوا کہ ملائکہ اور انبیاء و صلحاء کو بذاتِ خود حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر نہ سہی، اللہ کے ہاں سفارشی سمجھ کر بھی اگر تم پوجتے ہو تو یہ غلط ہے۔ کیونکہ سب کچھ دیکھنے اور سُننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے ، ہر شخص کے ظاہر اور مخفی حالات وہی جانتا ہے، دنیا کے کھلے اور چھپے مصالح سے بھی وہی واقف ہے، ملائکہ اور انبیاء سمیت کسی مخلوق کو بھی ٹھیک معلوم نہیں ہے کہ کس وقت کیا کرنا مناسب ہے اورکیا مناسب نہیں ہے ، لہٰذا اللہ نے اپنی مقرب ترین مخلوق کو بھی یہ حق نہیں دیا ہے کہ وہ اس کے اذن کے بغیر جو سفارش چاہیں کر بیٹھیں اور ان کی سفارش قبول ہو جائے۔

126. یعنی تدبیرِ امر بالکل اس کے اختیار میں ہے ۔ کائنات کے کسی چھوٹے یا بڑے معاملے کا مرجع کوئی دوسرا نہیں ہے کہ اس کے پاس تم اپنی درخواستیں لے جاؤ۔ ہر معاملہ اسی کے آگے فیصلے کے لیے پیش ہوتا ہے۔ لہٰذا دست طلب بڑھانا ہے تواس کی طرف بڑھاؤ۔ ان بے اختیار ہستیوں سے کیا مانگتے ہو جو خود اپنی بھی کوئی حاجت آپ پوری کرلینے پر قادر نہیں ہیں۔

127. یعنی فلاح کی توقع اگر کی جا سکتی ہے تو یہی روش اختیار کرنے سے کی جا سکتی ہے ۔ لیکن جو شخص بھی یہ روش اختیار کرے اُسے اپنے عمل پر گھمنڈ نہ ہونا چاہیے کہ میں جب ایسا عبادت گزار اور نیکو کار ہوں تو ضرورفلاح پاؤں گا ، بلکہ اسے اللہ کے فضل کا امیدوار رہنا چاہیے اور اسی کی رحمت سے توقعات وابستہ کرنی چاہییں۔ وہ فلاح دے تب ہی کوئی شخص فلاح پاسکتا ہے ۔ خود فلاح حاصل کر لینا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔

”شاید کہ تم کو فلاح نصیب ہو“ یہ فقرہ ارشاد فرمانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس طرح فلاح نصیب ہونا مشکوک ہے ۔ بلکہ دراصل یہ شاہانہ اندازِ بیان ہے۔ بادشاہ اگر اپنے کسی ملازم سے یہ کہے کہ فلاں کام کرو، شاید کہ تمہیں فلاں منصب مل جائے ، تو ملازم کے گھر شادیانے بج جاتے ہیں کیونکہ یہ اشارۃً ایک وعدہ ہے اورایک مہربان آقا سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ کسی خدمت پر ایک صلے کی امید وہ خود دلائے اور پھر اپنے وفادار خادم کو مایوس کرے۔

امام شافعی، امام احمد، عبداللہ بن مبارک اور اسحاق بن راھَوَیہ کے نزدیک سورۂ حج کی یہ آیت بھی آیت ِ سجدہ ہے۔ مگر امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، حسن بصری ، سعید بن المسیَّب، سعید بن جُبَیر، ابراہیم نَخعی اور سُفیان ثَوری اس جگہ سجدہ ٔ تلاوت کے قائل نہیں ہیں۔ دونوں طرف کے دلائل ہم مختصرًا یہاں نقل کر دیتے ہیں۔

پہلے گروہ کا اوّلین استدلال ظاہر آیت سے ہے کہ اس میں سجدے کا حکم ہے۔ دوسری دلیل عُقْبہؓ بن عامر کی وہ روایت ہے جسے احمد، ابوداؤد، ترمذی، ابن مردُویَہ اور بیہقی نے نقل کیا ہے کہ قلت یا رسُول اللہ افضلت سورۃ الحج علیٰ سائر القراٰن بسجد تین؟ قال نعم فمن لم یسجد ھما فلا یقر أ ھما۔” میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ، کیا سورۂ حج کو سارے قرآن پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں ، پس جو اُن پر سجدہ نہ کرے وہ انہیں نہ پڑھے“۔ تیسری دلیل ابو داؤد اور ابن ماجہ کی وہ روایت ہے جس میں عمرؓ و بن عاص کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سورۂ حج میں دو سجدے سکھائے تھے۔ چوتھی دلیل یہ ہے کہ حضرات عمرؓ ، علیؓ، عثمانؓ، ابن عمرؓ، ابن عباسؓ، ابوالدرداؓء، ابو موسیٰؓ اشعری اور عمّارؓ بن یاسِر سے یہ بات منقول ہے کہ سورۂ حج میں دو سجدے ہیں۔

دوسرے گروہ کا استدلال یہ ہے کہ آیت میں محض سجدے کا حکم نہیں ہے بلکہ رکوع اور سجدے کا ایک ساتھ ہے اور قرآن میں رکوع وسجود ملا کر جب بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نماز ہی ہوتی ہے ۔ نیز رکوع و سجود کا اجتماع نماز ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ عُقْبہ بن عامر کی روایت کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کو ابن لہیعہ ابو المصعب بصری سے روایت کرتا ہے اور یہ دونوں ضعیف راوی ہیں۔ خاص کر ابو المصعب تو وہ شخص ہے جو حجاج بن یوسف کے ساتھ کعبے پر منجنیق سے پتھر برسانے والوں میں شامل تھا۔ عمر و بن عاص والی روایت کو بھی وہ پایۂ اعتبار سے ساقط قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کو سعید العتقی عبداللہ بن مُنَین الکلابی سے روایت کرتا ہے اور دونوں مجہول ہیں، کچھ پتہ نہیں کہ کون تھے اور کس پایہ کے آدمی تھے۔ اقوالِ صحابہ کے سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ ابن عباس نے سورۂ حج میں دو سجدے ہونے کا یہ مطلب صاف بتاتا ہے کہ الاولیٰ عزمۃ و الاخرۃ تعلیم ، یعنی پہلا سجدہ لازمی ہے ، اور دوسرا سجدہ تعلیمی۔

128. جہاد سے مراد محض ”قتال“(جنگ) نہیں ہے، بلکہ یہ لفظ جدوجہد اور کشمکش اور انتہائی سعی و کوشش کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر جہاد اور مجاہد میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ مزاحمت کرنے والی کچھ طاقتیں ہیں جن کے مقابلے میں یہ جدوجہد مطلوب ہے۔ اس اس کے ساتھ فی اللہ کی قید یہ متعین کر دیتی ہے کہ مزاحمت کرنے والی طاقتیں وہ ہیں جو اللہ کی بندگی اور اس کی رضا جوئی میں ، اور اس کی راہ پر چلنے میں مانع ہیں، اور جدوجہد کا مقصُود یہ ہے کہ ان کی مزاحمت کو شکست دے کر آدمی خود بھی اللہ کی ٹھیک ٹھیک بندگی کرے اور دنیا میں بھی اس کا کلمہ بلند اور کفر و الحاد کے کلمے پست کر دینے لیے جان لڑا دے۔ اس مجاہدے کا اوّلین ہدف آدمی کا اپنا نفس امّارہ ہے جو ہر وقت خدا سے بغاوت کرنے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے اور آدمی کو ایمان و طاعت کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ جب تک اس کو مسخر نہ کر لیا جائے، باہر کسی مجاہدے کا امکان نہیں ہے۔ اسی لیے ایک جنگ سے واپس آنے والے غازیوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قد متم خیر مقدم من الجھاد الاصغر الی الجھاد الاکبر۔”تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آگئے ہو“۔ عرض کیا گیا وہ بڑا جہاد کیا ہے؟ فرمایا مجاھدۃ العبد ھواہ۔”آدمی کی خود اپنی خواہشِ نفس کےخلاف جدوجہد“۔ اس کے بعد جہاد کا وسیع تر میدان پوری دنیا ہے جس میں کام کرنے والی تمام بغاوت کیش اور بغاوت آموز اور بغاوت انگیز طاقتوں کے خلاف دل اور دماغ اور جسم اور مال کی ساری قوتوں کے ساتھ سعی و جہد کرنا و ہ حقِ جہاد ہے جسے ادا کرنے کا یہاں مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

129. یعنی تمام نوعِ انسانی میں سے تم لوگ اُس خدمت کے لیے منتخب کر لیے گئے ہو جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اس مضمون کو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلًا سورۂ بقرہ میں فرمایا جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (آیت ۱۴۳)۔ اور سورۂ آل ِ عمران میں فرمایا کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِ جَتْ لِلنَّاسِ (آیت ۱۱۰)۔ یہاں اس امر پر بھی متنبہ کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت منجملہ اُن آیات کے ہے جو صحابہ کرام کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں اور اُن لوگوں کی غلطی ثابت کرتی ہیں جو صحابہ پر زبان طعن دراز کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس آیت کے براہِ راست مخاطب صحابہ ہی ہیں۔ دوسرے لوگوں کو اس کا خطاب بالتبع پہنچتا ہے۔

130. یعنی تمہاری زندگی کو ان تمام بے جا قیود سے آزاد کر دیا گیا ہے جو پچھلی اُمتوں کے فقہیوں او فریسیوں اور پاپاؤں نے عائد کر دی تھیں۔ نہ یہاں فکر و خیال پر وہ پابندیاں ہیں جو علمی ترقی میں مانع ہوں اور نہ عملی زندگی پر وہ پابندیاں ہیں جو تمدّن اور معاشرے کی ترقی میں رکاوٹ بنیں۔ ایک سادہ سہل عقیدہ و قانون تم کو دیا گیا ہے جس کو لے کر تم جتنا آگے چاہو بڑھ سکتے ہو۔ یہاں جس مضمون کو ثبوتی و ایجابی انداز میں بیان کیا گیا ہے وہی ایک دوسری جگہ سلبی انداز میں ارشاد ہوا ہے کہ یَاْ مُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَ ھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ، ”یہ رسول ان کو جانی پہچانی نیکیوں کا حکم دیتا ہے ، اور ان بُرائیوں سے روکتا ہے جن سے فطرتِ انسانی انکار کرتی ہے، اور وہ چیزیں حلال کرتا ہے جو پاکیزہ ہیں اور وہ چیزیں حرام کرتا ہے جو گندی ہیں اور ان پر سے وہ بھاری بوجھ اتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ زنجیریں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے“ (اعراف۔ آیت ۱۵۷)۔

131. اگرچہ اسلام کو مِلّت نوح، ملّتِ موسیٰ، ملّتِ عیسیٰ بھی اسی طرح کہا جا سکتا ہے جس طرح ملّتِ ابراہیم۔ لیکن قرآن مجید میں اس کو بار بار ملّتِ ابراہیم کہہ کر اس کے اتباع کی دعوت تین وجوہ سے دی گئی ہے۔ ایک یہ کہ قرآن کےاوّلین مخاطب اہلِ عرب تھے اور وہ حضرت ابراہیم سے جس طرح مانوس تھے کسی اور سے نہ تھے۔ ان کی تاریخ ، روایات اور معتقدات میں جس شخصیت کا رسُوخ و اثر رچا ہوا تھا وہ حضرت ابراہیم ہی کی شخصیت تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ہی وہ شخص تھے جن کی بزرگی پر یہودی، عیسائی، مسلمان ، مشرکینِ عرب ، اور شرق اوسط کے صابِئی، سب متفق تھے۔ انبیاء میں کوئی دوسرا ایسا نہ تھا اور نہ ہے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ان سب ملّتوں کی پیدائش سےپہلے گزرے ہیں۔ یہودیت، عیسائیت اور صابِئیت کے متعلق تو معلوم ہی ہے کہ سب بعد کی پیداوار ہیں۔ رہے مشرکینِ عرب ، تو وہ بھی یہ مانتے تھے کہ ان کے ہاں بُت پرستی کا رواج عَمرو بن لُحَیّ سے شروع ہوا جو بنی خُزاعہ کا سردار تھا اور مُآب (موآب) کے علاقہ سے ہُبل نامی بت لے آیا تھا۔ اُس کا زمانہ زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سو سال قبل مسیح کا ہے۔ لہٰذا یہ مِلّت بھی حضرت ابراہیمؑ کے صدیوں بعد پیدا ہوئی۔ اس صورت حال میں قرآن جب کہتا ہے کہ ان ملّتوں کے بجائے مِلّت ابراہیم ؑ کو اختیار کرو ، تو وہ دراصل اس حقیقت پر متنبہ کرتا ہے کہ اگر حضرت ابراہیم ؑ برحق اور برسرِ ہدایت تھے ، اور ان ملتوں میں سے کسی کے پیرو نہ تھے ، تو لامحالہ پھر وہی ملّت اصل مِلّتِ حق ہے نہ کہ یہ بعد کی مِلّتیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اُسی مِلّت کی طرح ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، البقرہ، حواشی ۱۳۴ – ۱۳۵۔ آل عمران ، حواشی ۵۸ – ۷۹۔ جلد دوم، النحل، حاشیہ ۱۲۰۔

132. ”تمہارا“ کا خطاب مخصوص طور پر صرف اُنہی اہلِ ایمان کی طرف نہیں ہے جو اِس آیت کے نزول کے وقت موجود تھے ، یا اس کے بعد اہلِ ایمان کی صف میں داخل ہوئے، بلکہ اس کے مخاطب تمام وہ لوگ ہیں جو آغازِ تاریخِ انسانی سے توحید ، آخرت، رسالت اور کتبِ الہٰی کے ماننے والے رہے ہیں۔ مدّعا یہ ہےکہ اِس ملّتِ حق کے ماننے والے پہلے بھی ”نوحی“،”ابراہیمی“،”موسوی“،”مسیحی“ وغیرہ نہیں کہلاتے تھے بلکہ ان کا نام”مسلم“(اللہ کا تابع فرمان) تھا، اور آج بھی وہ ”محمدی“ نہیں بلکہ”مسلم“ ہیں۔ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں کے لیےیہ سوال معمّا بن گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرووں کا نام قرآن سے پہلے کس کتاب میں مسلم رکھا گیا تھا۔

133. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ ۱۴۴۔ اس سے زیادہ شرح و بسط کے ساتھ اِس مضمون پر ہم نے اپنے رسالۂ ”شہادت حق“ میں روشنی ڈالی ہے۔

134. یا دوسرے الفاظ میں اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔ ہدایت اور قانونِ زندگی بھی اسی سے لو، اطاعت بھی اسی کی کرو، خوف بھی اسی کا رکھو، امیدیں بھی اسی سے وابستہ کرو ، مدد کے لیے بھی اسی کے آگے ہاتھ پھیلاؤ، اور اپنے توکل و اعتماد کا سہارا بھی اسی کی ذات کو بناؤ۔