24. تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، آیات ۵۹ تا ۶۴۔ یونس ، آیات ۷۱ تا ۷۳۔ ہُود، آیات ۲۵ تا ۴۸۔ بنی اسرائیل، آیت ۳۔ الانبیاء، آیات ۷۶ و ۷۷۔
25. یعنی کیا تمہیں اپنے اصلی اور حقیقی خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی بندگی کرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا ؟ کیا تم اس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ جو تمہارا اور سارے جہان کا مالک و فرمانروا ہے اُس کی سلطنت میں رہ کر اس کے بجائے دوسروں کی بندگی و اطاعت کرنے اور دوسروں کی ربوبیت و خداوندی تسلیم کرنے کے کیا نتائج ہوں گے؟
26. یہ خیال تمام گمراہ لوگوں کی مشترک گمراہیوں میں سے ایک ہے کہ بشر نبی نہیں ہو سکتا اور نبی بشر نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے قرآن نے بار بار اس جاہلانہ تصوّر کا ذکر کر کے اس کی تردید کی ہے اور اس بات کو پورے زور کے ساتھ بیان کیا ہے کہ تمام انبیاء انسان تھے اور انسانوں کے لیے انسان ہی نبی ہونا چاہیے۔ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو ں الاعراف، آیات ۶۳ – ۶۹۔ یونس، آیت ۲۔ ہُود، ۲۷ – ۳۱۔ یوسف ۱۰۹۔ الرعد ۳۸۔ ابراہیم ۱۰ – ۱۱۔ النحل ۴۳۔ بنی اسرائیل ۹۴ – ۹۵۔ الکہف ۱۱۰۔ الانبیاء ۳ – ۳۴۔ المومنون ۳۳ – ۳۴ – ۴۷۔ الفرقان ۷ – ۲۰۔ الشعراء ۱۵۴ – ۱۸۶۔ یٰسین ۱۵۔ حٰم السجدہ ۶۔ مع حواشی)۔
27. یہ بھی مخالفین حق کا قدیم ترین حربہ ہے کہ جو شخص بھی اصلاح کے لیے کوشش کرنے اُٹھے اُس پر فورًا یہ الزام چسپاں کر دیتے ہیں کہ کچھ نہیں بس اقتدار کا بھوکا ہے۔ یہی الزام فرعون نے حضرت موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ پر لگایا تھا کہ تم اس لیے اُٹھے ہو کہ تمہیں ملک میں بڑائی حاصل ہو جائے، تکون لکما الکبر یا ء فی الارض (یونس آیت ۷۸)۔ یہی حضرت عیسیٰؑ پر لگایا گیا کہ یہ شخص یہودیوں کا بادشاہ بننا چاہتا ہے۔ اور اسی کا شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سردارانِ قریش کو تھا، چنانچہ کئی مرتبہ انہوں نے آپؐ سے یہ سودا کرنے کی کوشش کی کہ اگر اقتدار کے طالب ہو تو ”اپوزیشن“ چھوڑ کر ”حزبِ اقتدار“ میں شامل ہو جاؤ، تمہیں ہم بادشاہ بنائے لیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ ساری عمر دنیا اور اس کے مادّی فائدوں اور اس کی شان و شوکت ہی کے لیے اپنی جان کھپاتے رہتے ہیں اُن کے لیے یہ تصوّر کرنا بہت مشکل بلکہ نا ممکن ہوتا ہے کہ اسی دنیا میں کوئی انسان نیک نیتی اور بے غرضی کے ساتھ فلاحِ انسانیت کی خاطر بھی اپنی جان کھپا سکتا ہے۔ وہ خود چونکہ اپنا اثر و اقتدار جمانے کے لیے دلفریب نعرے اورا صلاح کے جھوٹے دعوے شب و روز استعمال کرتے رہتے ہیں، اس لیے یہ مکاری و فریب کاری ان کی نگاہ میں بالکل ایک فطری چیز ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اصلاح کا نام مکر و فریب کے سوا کسی صداقت اور خلوص کے ساتھ کبھی لیا ہی نہیں جا سکتا، یہ نام جو بھی لیتا ہے ضرور وہ ان کا اپنا ہم جنس ہی ہو گا۔ اور لطف یہ ہے کہ مصلحین کے خلاف”اقتدار کی بھوک“ کا یہ الزام ہمیشہ برسر اقتدار لوگ اور ان کے خوشامدی حاشیہ نشین ہی استعمال کرتے رہے ہیں۔ گویا خود انہیں اور ان کے آقایانِ نامدار کو جو اقتدار حاصل ہے وہ تو ان کا پیدائشی حق ہے، ا س کے حاصل کرنے اور اس پر قابض رہنے میں وہ کسی الزام کے مستحق نہیں ہیں، البتہ نہایت قابلِ ملامت ہے وہ جس کے لیے یہ ”غذا“ پیدائشی حق نہ تھی اور اب یہ لوگ اس کے اندر اس چیز کی”بھوک“ محسوس کر رہے ہیں۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۳۶)۔
اس جگہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص بھی رائج الوقت نظامِ زندگی کی خرابیوں کو دُور کرنے کے لیے اُٹھے گا اوار اس کے مقابلے میں اصلاحی نظر یہ و نظام پیش کرے گا ، اس کے لیے بہر حال یہ بات نا گزیر ہو گی کہ اصلا ح کی راہ میں جو طاقتیں بھی سدِّ راہ ہوں انہیں ہٹانے کی کوشش کرے اور اُن طاقتوں کو برسرِ اقتدار لائے جو اصلاحی نظریہ و نظام کو عملًا نافذ کر سکیں۔ نیز ایسے شخص کی دعوت جب بھی کامیاب ہوگی ، ا س کا قدرتی نتیجہ یہی ہو گا کہ وہ لوگوں کا مقتدا و پیشوا بن جائے گا اور نئے نظام میں اقتدار کی باگیں یا تو اس کے اپنے ہی ہاتھوں میں ہوں گی، یا اس کے حامیوں اور پیرووں کے ہاتھ ان پر قابض ہو ں گے۔ آخر انبیاء اور مصلحینِ عالم میں سے کون ہے جس کی کوششوں کا مقصد اپنی دعوت کو عملًا نافذ کرنا نہ تھا ، ا ور کون ہے جس کی دعوت کی کامیابی نے فی الواقع اس کو پیشوا نہیں بنا دیا؟ پھر کیا یہ امر واقعی کسی پر یہ الزام چسپاں کردینے کے لییے کافی ہے کہ وہ دراصل اقتدار کا بھوکا تھا، اور اس کی اصل غرض وہی پیشوائی تھی جو اس نے حاصل کر لی؟ ظاہر ہے کہ بدطینت دشمنانِ حق کے سوا اس سوال کا جواب کوئی بھی اثبات میں نہ دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے بجائے خود مطلوب ہونے اور کسی مقصد خیر کے لیے مطلوب ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے، اتنا ہی بڑا فرق جتنا ڈاکو کے خنجر اور ڈاکٹر کے نشتر میں ہے۔ اگر کوئی شخص صرف اس بنا پر ڈاکو اور ڈاکٹر کو ایک کردے کہ دونوں با لارادہ جسم چیرتے ہیں اور نتیجہ میں مال دونوں کے ہاتھ آتا ہے ، تو یہ صرف اس کے اپنے ہی دماغ یا دل کا قصور ہے۔ ورنہ دونوں کی نیت، دونوں کے طریق کا ر اور دونوں کے مجموعی کردار میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ کوئی صاحبِ عقل آدمی ڈاکو کو ڈاکو اور ڈاکٹر کو ڈاکٹر سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔
28. یعنی میری طرف سے اس تکذیب کا بدلہ لے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا: فَدَعَا رَبَّہٗ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَا نْتَصِرْ، ”پس نوح نے اپنے ربّ کو پکارا کہ میں دبا لیا گیا ہوں ، اب تُو ان سے بدلہ لے“ (القمر آیت ۱۰)۔ اور سُورہ ٔ نوح میں فرمایا: وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِٖ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا o اِنَّکَ اِنْ تَذَرْ ھُمْ یُضِلُّوْ ا عِبَادَ کَ وَلَا یَلِدُوْ آ اِلَّا فَا جِرًا کَفَّارًا۔” اور نوح نے کہا، اے میرے پروردگار، اس زمین پر کافروں میں سے ایک بسنے والا بھی نہ چھوڑ، اگر تُو نے ان کو رہنے دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کر دیں گے اور ان کی نسل سے بدکار منکرینِ حق ہی پیدا ہوں گے“(آیت ۲۶)۔
28. یعنی میری طرف سے اس تکذیب کا بدلہ لے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا: فَدَعَا رَبَّہٗ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَا نْتَصِرْ، ”پس نوح نے اپنے ربّ کو پکارا کہ میں دبا لیا گیا ہوں ، اب تُو ان سے بدلہ لے“ (القمر آیت ۱۰)۔ اور سُورہ ٔ نوح میں فرمایا: وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِٖ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا o اِنَّکَ اِنْ تَذَرْ ھُمْ یُضِلُّوْ ا عِبَادَ کَ وَلَا یَلِدُوْ آ اِلَّا فَا جِرًا کَفَّارًا۔” اور نوح نے کہا، اے میرے پروردگار، اس زمین پر کافروں میں سے ایک بسنے والا بھی نہ چھوڑ، اگر تُو نے ان کو رہنے دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کر دیں گے اور ان کی نسل سے بدکار منکرینِ حق ہی پیدا ہوں گے“(آیت ۲۶)۔
29. بعض لوگوں نے تنور سے مراد زمین لی ہے، بعض نے زمین کا بلند ترین حصّہ مراد لیا ہے، بعض کہتے ہیں کہ فَار َ التَّنُّور کا مطلب طلوعِ فجر ہے، اور بعض کی رائے میں یہ حمی الوطیس کی طرح ایک استعارہ ہے”ہنگامہ گرم ہو جانے“ کے معنی میں۔ لیکن کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ قرآن کے الفاظ کو بغیر کسی قرینے کے مجازی معنوں میں لیا جائے جبکہ ظاہری مفہوم لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ یہ الفاظ پڑھ کر ابتداءً جو مفہوم ذہن میں آتا ہے وہ یہی ہے کہ کوئی خاص تنور پہلے سے نامزد کر دیا گیا تھا کہ طوفان کا آغاز اس کے نیچے سے پانی اُبلنے پر ہو گا۔ دوسرے کوئی معنی سوچنے کی ضرورت اُس وقت پیش آتی ہے کہ جبکہ آدمی یہ ماننے کے لیے تیار نہ ہوں کہ اتنا بڑا طوفان ایک تنور کے نیچے سے پانی اُبل پڑنے پر شروع ہوا ہو گا۔ مگر خدا کے معاملات عجیب ہیں۔ وہ جب کسی قوم کی شامت لاتا ہے تو ایسے رُخ سے لاتا ہے جدھر اس کا وھم و گمان بھی نہیں جا سکتا۔
30. یہ کسی قوم کی انتہائی بد اطواری اور خباثت و شرارت کا ثبوت ہے کہ اس کی تباہی پر شکر ادا کرنے کا حکم دیا جائے۔
31. ”اتارنے“ سے مراد محض اتارنا ہی نہیں ہے ، بلکہ عربی محاورے کے مطابق اِس میں”میزبانی“ کا مفہوم بھی شامل ہے۔ گویا اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ خدا یا اب ہم تیرے مہمان ہیں اور تُو ہی ہمارا میزبان ہے۔
32. یعنی عبرت آموز سبق ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ توحید کی دعوت دینے والے انبیاء حق پر تھے اور شرک پر اصرار کرنے والے کفار باطل پر ، اور یہ کہ آج وہی صورتِ حال مکّہ میں درپیش ہے جو کسی وقت حضرت نوحؑ اور ان کی قوم کے درمیان تھی اور اس کا انجام بھی کچھ اُس سے مختلف ہونے والا نہیں ہے ، اور یہ کہ خدا کے فیصلے میں چاہے دیر کتنی ہی لگے مگر فیصلہ آخر کار ہو کر رہتا ہے اور وہ لازمًا اہلِ حق کے حق میں اور اہلِ باطل کے خلاف ہوتا ہے۔
33. دوسرا ترجہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ”آزمائش تو ہمیں کرنی ہی تھی“ یا”آزمائش تو ہمیں کرنی ہی ہے“۔ تینوں صورتوں میں مدّعا اس حقیقت پر خبردار کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو بھی اپنی زمین اور اس کی بے شمار چیزوں پر اقتدار عطا کر کے بس یونہی اس کے حال پر نہیں چھوڑ دیتا ، بلکہ اس کی آزمائش کرتا ہے اور دیکھتا رہتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو کس طرح استعمال کر رہے ہیں۔ قومِ نوح کے ساتھ جو کچھ ہُوا اسی قانون کے مطابق ہُوا، اور دوسری کوئی قوم بھی اللہ کی ایسی چہیتی نہیں ہے کہ وہ بس اسے خوانِ یغما پر ہاتھ مارنے کے لیے آزاد چھوڑ دے۔ اس معاملے سے ہر ایک کو لازمًا سابقہ پیش آنا ہے۔
34. بعض لوگوں نے اس سے مراد قوم ثمود لی ہے، کیونکہ آگے چل کر ذکر آرہا ہے کہ یہ قوم صَیْحَہ کے عذاب سے تباہ کی گئی ، اور دوسرے مقامات پر قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ثمود و ہ قوم ہے جس پر یہ عذاب آیا، (ہُود، ۶۷۔الحجر، ۸۳۔القمر، ۳۱)۔ بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ یہ ذکر دراصل قوم عاد کا ہے، کیونکہ قرآن کی رُو سے قومِ نوح کے بعد یہی قوم اُٹھا ئی گئی تھی، وَاذْ کُرُوْ آ اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآ ءَ مِنْ م بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ (اعراف، آیت ۶۹)۔ صحیح بات یہی دوسری معلوم ہوتی ہے کہ ، کیونکہ ”قومِ نوح کے بعد“ کا اشارہ اسی طرح رہنمائی کرتا ہے۔ رہا صَیْحَہ (چیخ ، آوازہ، شور، ہنگامۂ عظیم) تو محض اس کی مناسبت اس قوم کو ثمود قرار دینے کےلیے کافی نہیں ہے، اس لیے کہ یہ لفظ جس طرح اُس آوازۂ تند کے لیے استعمال ہوتا ہے جو ہلاکتِ عام کی موجب ہو، اُسی طرح اُس شورو ہنگامہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو ہلاکتِ عام کے وقت برپا ہوا کرتا ہے خواہ سببِ ہلاکت کچھ بھی ہو۔