35. یہ خصوصیات لائقِ غور ہیں۔ پیغمبر کی مخالفت کے لیے اُٹھنے والے اصل لوگ وہ تھے جنہیں قوم کی سرداری حاصل تھی۔ ان سب کی مشترک گمراہی یہ تھی کہ وہ آخرت کے منکر تھے ، اس لیے خدا کے سامنے کسی ذمہ داری و جواب دِہی کا انہیں اندیشہ نہ تھا ، اور اسی لیے وہ دنیا کی اِس زندگی پر فریفتہ تھے اور ”مادّی فلاح و بہبُود“ سے بلند تر کسی قدر کے قائل نہ تھے۔ پھر اس گمراہی میں جس چیز نے ان کو بالکل ہی غرق کر دیا تھا وہ خوشحالی و آسودگی تھی جسے وہ اپنے برحق ہونے کی دلیل سمجھتے تھے اور یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ وہ عقیدہ، وہ نظامِ اخلاق ، اور وہ طرزِ زندگی غلط بھی ہو سکتا ہے جس پر چل کر انہیں دنیا میں یہ کچھ کامیابیاں نصیب ہو رہی ہیں۔ انسانی تاریخ بار بار اس حقیقت کو دُہراتی رہی ہے کہ دعوتِ حق کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ اِنہی تین خصوصیات کے حامل لوگ ہوئے ہیں۔ اور یہی اُس وقت کا منظر بھی تھا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکّے میں اصلاح کی سعی فرما رہے تھے۔
36. یہ الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کےیہ لوگ بھی منکر نہ تھے، ان کی بھی اصل گمراہی شرک ہی تھی۔ دوسرے مقامات پر بھی قرآن مجید میں اس قوم کا یہی جرم بیان کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو الاعراف ، آیت ۷۰۔ ہُود، آیات ۵۳ – ۵۴۔ حمٰ السجدہ، آیت ۱۴۔ الاحقاف، آیات ۲۱ -۲۲۔
36. یہ الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کےیہ لوگ بھی منکر نہ تھے، ان کی بھی اصل گمراہی شرک ہی تھی۔ دوسرے مقامات پر بھی قرآن مجید میں اس قوم کا یہی جرم بیان کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو الاعراف ، آیت ۷۰۔ ہُود، آیات ۵۳ – ۵۴۔ حمٰ السجدہ، آیت ۱۴۔ الاحقاف، آیات ۲۱ -۲۲۔
37. اصل میں لفظ غُثَاء استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں وہ کوڑا کرکٹ جو سیلاب کے ساتھ بہتا ہوا آتا ہے اور پھر کناروں پر لگ لگ کر پڑا سڑتا رہتا ہے۔
38. یا بالفاظِ دیگر پیغمبروں کی بات نہیں مانتے۔
39. ”نشانیوں“ کےبعد”کھلی سند“ سے مراد یا تو یہ ہے کہ ان نشانیوں کا اُن کے ساتھ ہونا ہی اس بات کی کھلی سند تھا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں۔ یا پھر نشانیوں سے مراد عصا کے سوا دوسرے وہ تمام معجزات ہیں جو مصر میں دکھائے گئے تھے، اور کھلی سند سے مراد عصا ہے ، کیونکہ اس کے ذریعہ سے جو معجزے رونما ہوئے اُن کے بعد تو یہ بات بالکل ہی واضح ہو گئی تھی کہ یہ دونوں بھائی مامور من اللہ ہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الزخرف حواشی ۴۳ – ۴۴)۔
40. اصل میں وَکَانُوْ ا قَوْمًا عَالِیْنَ کے الفاظ ہیں ، جن کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ بڑے گھمنڈی ، ظالم اور دراز دست تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ بڑے اُونچے بنے اور انہوں نے بڑی دوں کی لی۔
40. اصل میں وَکَانُوْ ا قَوْمًا عَالِیْنَ کے الفاظ ہیں ، جن کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ بڑے گھمنڈی ، ظالم اور دراز دست تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ بڑے اُونچے بنے اور انہوں نے بڑی دوں کی لی۔
41. اصل الفاظ ہیں”جن کی قوم ہماری عابد ہے“۔ عربی زبان میں کسی کا ”مطیع ِ فرمان“ ہونا اور”اس کا عبادت گزار“ ہونا ، دونوں تقریبًا ہم معنی الفاظ ہیں۔ جو کسی کی بندگی و اطاعت کرتا ہے وہ گویا اس کی عبادت کرتا ہے۔ اس سے بڑی اہم روشنی پڑتی ہے لفظ”عبادت“ کے معنی پر اور انبیاء علیہم السّلام کی اِس دعوت پر کہ صرف اللہ کی عبادت کرنے اور اس کے سوا ہر ایک کی عباد ت چھوڑ دینے کی تلقین جو وہ کرتے تھے اس کا پورا مفہوم کیا تھا۔ ”عبادت“ ان کے نزدیک صرف”پوجا“ نہ تھی۔ ان کی دعوت یہ نہیں تھی کہ صرف پوجا اللہ کی کرو، باقی بندگی و اطاعت جس کی چاہو کرتے رہو۔ بلکہ وہ انسان کو اللہ کا پرستار بھی بنانا چاہتے تھے اور مطیع فرمان بھی، اور ان دونوں معنوں کے لحاظ سے دوسروں کی عبادت کو غلط ٹھیراتے تھے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الکہف حاشیہ ۵۰)۔
42. قصّۂ موسیٰؑ و فرعون کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ ، آیات ۴۹ – ۵۰۔ الاعراف، آیات ۱۰۳ تا ۱۳۶۔ یونس آیات ۷۵ تا ۹۶۔ ہُود آیات ۹۶ تا ۹۹۔ بنی اسرائیل آیات ۱۰۱ تا ۱۰۴۔ طٰہٰ آیات ۹ تا ۸۰۔
43. یہ نہیں فرمایا کہ ایک نشانی ابن مریم تھے اور ایک نشانی خود مریم۔ اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ ابن مریم اور اس کی ماں کو دو نشانیاں بنایا۔ بلکہ فرمایا یہ کہ وہ دونوں مل کر ایک نشانی بنائے گئے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہےکہ باپ کے بغیر ابنِ مریمؑ کا پیدا ہونا ، اور مرد کی صحبت کے بغیر مریم ؑ کا حاملہ ہونا ہی وہ چیز ہے جو ان دونوں کو ایک نشانی بناتا ہے۔ جو لوگ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش ِ بے پدر کے منکر ہیں وہ ماں اور بیٹے کے ایک آیت ہونے کی کیا توجیہ کریں گے؟ (مزید تفصیل کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، آل عمران ، حواشی ۴۴ – ۵۳۔ النساء، حواشی ۱۹۰ – ۲۱۲ – ۲۱۳۔ جلد سوم، مریم، حواشی ۱۵ تا ۲۲ ۔ الانبیاء ، حواشی ۸۹ – ۹۰)۔ یہاں دوباتیں اور بھی قابل توجہ ہیں ۔ اوّل یہ کہ حضرت عیسیٰؑ اور ان کی والدہ ٔ ماجدہ کا معاملہ جاہل انسانوں کی ایک دوسری کمزوری کی نشان دہی کرتا ہے۔ اوپر جن انبیاء کا ذکر تھا اُن پر تو ایمان لانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ تم بشر ہو، بھلا بشر بھی کہیں نبی ہو سکتا ہے ۔ مگر حضرت عیسیٰؑ اور ان کی والدہ کے جب لوگ معتقد ہوئے تو پھر ایسے ہوئے کہ انہیں بشریت کے مقام سے اُٹھا کر خدائی کے مرتبے تک پہنچا دیا۔ دوم یہ کہ جن لوگوں نے حضرت عیسیٰؑ کی معجزانہ پیدائش ، اور ان کی گہوارے والی تقریر سے اس کے معجزہ ہونے کا کھُلا کھُلا ثبوت دیکھ لینے کے باوجود ایمان لانے سے انکار کیا اور حضرت مریم پر تہمت لگائی اُن کو پھر سزا بھی ایسی دی گئی کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دنیا کے سامنے ایک نمونۂ عبرت بن گئی۔
44. مختلف لوگوں نے اس سے مختلف مقامات مراد لیے ہیں۔ کوئی دمشق کہتا ہے، کوئی الرَّ مْلَہ ، کوئی بیت المَقدِس، اور کوئی مصر مسیحی روایات کے مطابق حضرت مریم ؑ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے بعد ان کی حفاظت کے لیے دو مرتبہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئیں۔ پہلے ہیرودیس بادشاہ کے عہد میں وہ انہیں مصر لے گئیں اور اس کی موت تک وہیں رہیں۔ پھر اَرْخِلاؤس کے عہدِ حکومت میں ان کو گلیل کے شہر ناصرہ میں پناہ لینی پڑی (متی ۲ – ۱۳ تا ۲۳ ) ۔ اب یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ قرآن کا اشارہ کس مقام کی طرف ہے لغت میں رَبْوَہ اس بلند زمین کو کہتے ہیں جو ہموار ہواور اپنے گردوپیش کےعلاقے سے اُونچی ہو۔ ذاتِ قرار سے مراد یہ ہے کہ اس جگہ ضرورت کی سب چیزیں پائی جاتی ہوں اور رہنے والا وہاں بفراغت زندگی بسر کر سکتا ہو۔ اور مَعیِن سے مراد ہے بہتا ہُوا پانی یا چشمہ ٔ جاری۔