Tafheem ul Quran

Surah 23 Al-Mu'minun, Ayat 51-77

يٰۤـاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوۡا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعۡمَلُوْا صَالِحًـا​ ؕ اِنِّىۡ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ عَلِيۡمٌ ؕ‏ ﴿23:51﴾ وَاِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمۡ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّاَنَا رَبُّكُمۡ فَاتَّقُوۡنِ‏  ﴿23:52﴾ فَتَقَطَّعُوۡۤا اَمۡرَهُمۡ بَيۡنَهُمۡ زُبُرًا​ ؕ كُلُّ حِزۡبٍۢ بِمَا لَدَيۡهِمۡ فَرِحُوۡنَ‏ ﴿23:53﴾ فَذَرۡهُمۡ فِىۡ غَمۡرَتِهِمۡ حَتّٰى حِيۡنٍ‏ ﴿23:54﴾ اَيَحۡسَبُوۡنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمۡ بِهٖ مِنۡ مَّالٍ وَّبَنِيۡنَۙ‏ ﴿23:55﴾ نُسَارِعُ لَهُمۡ فِى الۡخَيۡـرٰتِ​ ؕ بَلْ لَّا يَشۡعُرُوۡنَ‏ ﴿23:56﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ هُمۡ مِّنۡ خَشۡيَةِ رَبِّهِمۡ مُّشۡفِقُوۡنَۙ‏ ﴿23:57﴾ وَالَّذِيۡنَ هُمۡ بِاٰيٰتِ رَبِّهِمۡ يُؤۡمِنُوۡنَۙ‏ ﴿23:58﴾ وَالَّذِيۡنَ هُمۡ بِرَبِّهِمۡ لَا يُشۡرِكُوۡنَۙ‏ ﴿23:59﴾ وَالَّذِيۡنَ يُؤۡتُوۡنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوۡبُهُمۡ وَجِلَةٌ اَنَّهُمۡ اِلٰى رَبِّهِمۡ رٰجِعُوۡنَ ۙ‏ ﴿23:60﴾ اُولٰٓـئِكَ يُسَارِعُوۡنَ فِىۡ الۡخَيۡـرٰتِ وَهُمۡ لَهَا سٰبِقُوۡنَ‏  ﴿23:61﴾ وَلَا نُـكَلِّفُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَهَا​ وَلَدَيۡنَا كِتٰبٌ يَّـنۡطِقُ بِالۡحَـقِّ​ وَهُمۡ لَا يُظۡلَمُوۡنَ‏ ﴿23:62﴾ بَلۡ قُلُوۡبُهُمۡ فِىۡ غَمۡرَةٍ مِّنۡ هٰذَا وَلَهُمۡ اَعۡمَالٌ مِّنۡ دُوۡنِ ذٰلِكَ هُمۡ لَهَا عٰمِلُوۡنَ‏ ﴿23:63﴾ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَخَذۡنَا مُتۡـرَفِيۡهِمۡ بِالۡعَذَابِ اِذَا هُمۡ يَجۡـئَرُوۡنَؕ‏  ﴿23:64﴾ لَا تَجۡـئَرُوا الۡيَوۡمَ​ اِنَّكُمۡ مِّنَّا لَا تُنۡصَرُوۡنَ‏ ﴿23:65﴾ قَدۡ كَانَتۡ اٰيٰتِىۡ تُتۡلٰى عَلَيۡكُمۡ فَـكُنۡتُمۡ عَلٰٓى اَعۡقَابِكُمۡ تَـنۡكِصُوۡنَۙ‏ ﴿23:66﴾ مُسۡتَكۡبِرِيۡنَ ​ۖ  بِهٖ سٰمِرًا تَهۡجُرُوۡنَ‏ ﴿23:67﴾ اَفَلَمۡ يَدَّبَّرُوا الۡقَوۡلَ اَمۡ جَآءَهُمۡ مَّا لَمۡ يَاۡتِ اٰبَآءَهُمُ الۡاَوَّلِيۡنَ‏ ﴿23:68﴾ اَمۡ لَمۡ يَعۡرِفُوۡا رَسُوۡلَهُمۡ فَهُمۡ لَهٗ مُنۡكِرُوۡنَ‏ ﴿23:69﴾ اَمۡ يَـقُوۡلُوۡنَ بِهٖ جِنَّةٌ  ؕ بَلۡ جَآءَهُمۡ بِالۡحَـقِّ وَاَكۡثَرُهُمۡ لِلۡحَقِّ كٰرِهُوۡنَ‏ ﴿23:70﴾ وَلَوِ اتَّبَعَ الۡحَـقُّ اَهۡوَآءَهُمۡ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالۡاَرۡضُ وَمَنۡ فِيۡهِنَّ​ؕ بَلۡ اَتَيۡنٰهُمۡ بِذِكۡرِهِمۡ فَهُمۡ عَنۡ ذِكۡرِهِمۡ مُّعۡرِضُوۡنَؕ‏  ﴿23:71﴾ اَمۡ تَسۡـئَـلُهُمۡ خَرۡجًا فَخَرٰجُ رَبِّكَ خَيۡرٌ​ ​ۖ  وَّهُوَ خَيۡرُ الرّٰزِقِيۡنَ‏ ﴿23:72﴾ وَاِنَّكَ لَـتَدۡعُوۡهُمۡ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ‏ ﴿23:73﴾ وَاِنَّ الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَـنٰكِبُوۡنَ‏  ﴿23:74﴾ وَلَوۡ رَحِمۡنٰهُمۡ وَكَشَفۡنَا مَا بِهِمۡ مِّنۡ ضُرٍّ لَّـلَجُّوۡا فِىۡ طُغۡيَانِهِمۡ يَعۡمَهُوۡنَ‏ ﴿23:75﴾ وَلَقَدۡ اَخَذۡنٰهُمۡ بِالۡعَذَابِ فَمَا اسۡتَكَانُوۡا لِرَبِّهِمۡ وَمَا يَتَضَرَّعُوۡنَ‏  ﴿23:76﴾ حَتّٰٓى اِذَا فَتَحۡنَا عَلَيۡهِمۡ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِيۡدٍ اِذَا هُمۡ فِيۡهِ مُبۡلِسُوۡنَ‏ ﴿23:77﴾

51 - اے پیغمبرو، 45 کھاوٴ پاک چیزیں اور عمل کرو صالح، 46 تم جو کچھ بھی کرتے ہو، میں اس کو خُوب جانتا ہوں۔ 52 - اور یہ تمہاری اُمّت ایک ہی اُمّت ہے اور میں تمہارا ربّ ہوں ، پس مجھی سے ڈرو۔ 47 53 - مگر بعد میں لوگوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا۔ ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے اُسی میں وہ مگن ہے 48 54 - ۔۔۔۔ اچھا، تو چھوڑو انھیں، ڈوبے رہیں اپنی غفلت میں ایک وقتِ خاص تک۔49 55 - کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو اِنہیں مال اولاد سے مدد دیے جارہے ہیں 56 - تو گویا اِنہیں بھلائیاں دینے میں سرگرم ہیں؟ نہیں، اصل معاملے کا اِنہیں شعُور نہیں ہے۔ 50 57 - در حقیقت وہ لوگ جو اپنے ربّ کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں، 51 58 - جو اپنے ربّ کی آیات پر ایمان لاتے ہیں، 52 59 - جو اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے، 53 60 - اور جن کا حال یہ ہے کہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اور دل اُن کے اِس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے ربّ کی طرف پلٹنا ہے۔ 54 61 - یہی تو ہیں بھلائیوں کی طرف دوڑنے والے اور سبقت کر کے انہیں پالینے والے 50الف 62 - ہم کسی شخص کو 54الف اس کی مقدرت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، 55 اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے، جو (ہر ایک کا حال )ٹھیک ٹھیک بتا دینے والی ہے، 56 اور لوگوں پر ظلم بہرحال نہیں کیا جائے گا۔ 57 63 - مگر یہ لوگ اس معاملے سے بے خبر ہیں۔ 58 اور ان کے اعمال بھی اُس طریقے سے (جس کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے) مختلف ہیں۔ وہ اپنے یہ کرتُوت کیے چلے جائیں گے 64 - یہاں تک کہ جب ہم اُن کے عیّاشوں کو عذاب میں پکڑ لیں گے 59 تو پھر وہ ڈکرانا شروع کر دیں گے 60 65 - ۔۔۔۔ 61 اب بند کرو اپنی فریاد و فغاں، ہماری طرف سے اب کوئی مدد تمہیں نہیں ملنی۔ 66 - میری آیات سُنائی جاتی تھیں تو تُم (رسُول کی آواز سُنتے ہی)اُلٹے پاوٴں بھاگ نکلتے تھے، 62 67 - اپنے گھمنڈ میں اُس کو خاطر ہی میں نہ لاتے تھے، اپنی چوپالوں میں اُس پر باتیں چھانٹتے 63 اور بکواس کیا کرتے تھے۔ 68 - تو کیا اِن لوگوں نے کبھی اِس کلام پر غور نہیں کیا؟ 64 یا وہ کوئی ایسی بات لایا ہے جو کبھی ان کے اسلاف کے پاس نہ آئی تھی؟ 65 69 - یا یہ اپنے رسُول سے کبھی کے واقف نہ تھے کہ (اَن جانا آدمی ہونے کے باعث)اُس سے بِدَکتے ہیں؟ 66 70 - یا یہ اس بات کے قائل ہیں کہ وہ مجنُون ہے؟ 67 نہیں، بلکہ وہ حق لایا ہے اور حق ہی ان کی اکثریت کو ناگوار ہے 71 - ۔۔۔۔ اور حق اگر کہیں اِن کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو زمین اور آسمان اور ان کی ساری آبادی کا نظام درہم برہم ہو جاتا 68 ۔۔۔۔ نہیں، بلکہ ہم ان کا اپنا ہی ذکر اُن کے پاس لائے ہیں اور وہ اپنے ذکر سے منہ موڑ رہے ہیں۔ 69 72 - کیا تُو ان سے کچھ مانگ رہا ہے؟ تیرے لیے تیرے ربّ کا دیا ہی بہتر ہے اور وہ بہترین رازق ہے۔ 70 73 - تُو تو ان کو سیدھے راستے کی طرف بُلا رہا ہے۔ 74 - مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ راہِ راست سے ہٹ کر چلنا چاہتے ہیں۔ 71 75 - اگر ہم اِن پر رحم کریں اور وہ تکلیف جس میں آج کل یہ مُبتلا ہیں ، دُور کردیں تو یہ اپنی سرکشی میں بالکل ہی بہک جائیں گے۔ 72 76 - اِن کا حال تو یہ ہے کہ ہم نے اِنہیں تکلیف میں مبتلا کیا، پھر بھی یہ اپنے ربّ کے آگے نہ جھکے اور نہ عاجزی اختیار کرتے ہیں۔ 77 - البتہ جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ ہم اِن پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں تو یکایک تم دیکھو گے کہ اس حالت میں یہ ہر خیر سے مایوس ہیں۔ 73 ؏ ۴


Notes

45. پچھلے دو رکوعوں میں متعدد انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد اب یٰٓاَ یُّھَا الرُّسُلُ کہہ کہ تمام پیغمبروں کو خطاب کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کہیں یہ سارے پیغمبر یک جا مو جود تھے اور ان سب کو خطاب کر کے یہ مضمون ارشاد فرمایا گیا ۔ بلکہ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہر زمانے میں مختلف قوموں اور مختلف ملکوں میں آنے والے انبیاء کو یہی ہدایت کی گئی تھی ، اور سب کے سب اختلاف زمانہ ومقام کے باوجود ایک ہی حکم کے مخاطب تھے ۔ بعد کی آیت میں چونکہ تمام انبیاء کو ایک اُمّت ، ایک جماعت، ا یک گروہ قرار دیا گیا ہے، اس لیے طرزِ بیان یہاں ایسا اختیار کیا گیا کہ نگاہوں کے سامنے ان سب کے ایک گروہ ہونے کا نقشہ کھنچ جائے گا۔ گویا وہ سارے کے سارے ایک جگہ جمع ہیں اور سب کو ایک ہی ہدایت دی جارہی ہے ۔ مگر اس طرزِ کلام کی لطافت اس دَور کے بعض کُند ذہن لوگوں کی سمجھ میں نہ آسکی اور وہ اس سے یہ نتیجہ نکال بیٹھے کہ یہ خطاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والے انبیاء کی طرف ہے اور اس سے حضور ؐ کے بعد بھی سلسلہ ٔنبوت کے جاری ہونے کا ثبوت ملتا ہے ۔ تعجب ہے ، جو لوگ زبان و ادب کےذوقِ لطیف سے اس قدر کورے ہیں وہ قرآن کی تفسیر کرنے کی جرأت کرتے ہیں۔

46. پاک چیزوں سے مراد ایسی چیزیں ہیں جو بجائے خود بھی پاکیزہ ہوں ، اور پھر حلال طریقے سے بھی حاصل ہوں۔ طیبات کھانے کی ہدایت کر کے رہبانیت اور دنیا پرستی کے درمیان اسلام کی راہِ اعتدال کی طرف اشارہ کیا گیا۔ مسلمان نہ تو راہب کی طرح اپنے آپ کو پاکیزہ رزق سے محروم کرتا ہے، اور نہ دنیا پرست کی طرح حرام و حلال کی تمیز کے بغیر ہر چیز پر منہ مار دیتا ہے۔

عملِ صالح سے پہلے طیبات کھانے کی ہدایت سے صاف اشارہ اس طرف نکلتا ہے کہ حرام خوری کے ساتھ عملِ صالح کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ صلاح کے لیے شرطِ اوّل یہ ہے کہ آدمی رزقِ حلال کھائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” لوگو، اللہ خود پاک ہے اس لیے پاک ہی چیز کو پسند کرتا ہے“۔ پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی اور اس کے بعد فرمایا الرجل یطیل السفر اشعت اغبر و مطعمہ حرام و مشربہ حرام و ملبسہ حرام و غذی بالحرام یمدیدیہ الی السماء یا رب یا رب فانی یستجاب الذالک۔ ”ایک شخس لمبا سفر کر کے غبار آلود و پراگندہ مُو آتا ہے اور آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر دعائیں مانگتا ہے، یارب ، یارب، مگر حال یہ ہوتا ہے کہ روٹی اس کی حرام ، کپڑے اس کے حرام، اورجسم اس کا حرام کی روٹیوں سےپلا ہوا۔ اب کس طرح ایسے شخص کی دعا قبول ہو“۔ (مسلم، ترمذی، احمد من حدیث ابی ہریرہ ؓ)۔

47. ”تمہاری اُمت ایک ہی اُمت ہے“، یعنی تم ایک ہی گروہ کے لوگ ہو۔”امت“ کا لفظ اُس مجموعہ افراد پر بولاجاتا ہے جو کسی اصلِ مشترک پر جمع ہو۔ انبیاء چونکہ اختلافِ زمانہ و مقام کے باوجود ایک عقیدے ، ایک دین اور ایک دعوت پر جمع تھے، اس لیے فرمایا گیا کہ ان سب کی ایک ہی اُمّت ہے۔ بعد کا فقرہ خود بتا رہا ہے کہ وہ اصل مشترک کیا تھی جس پر سب انبیاء جمع تھے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ، آیات ۱۳۰ تا ۱۳۳ – ۲۱۳۔ آل عمران، ۱۹ – ۲۰ – ۳۳ – ۳۴ – ۶۴ – ۷۹ تا ۸۵۔ النساء، ۱۵۰ تا ۱۵۲۔ الاعراف ۵۹ – ۶۵ – ۷۳ – ۸۵۔ یوسف، ۳۷ تا ۴۰۔ مریم، ۴۹ تا ۵۹۔ الانبیاء، ۷۱ تا ۹۳۔

48. یہ محض بیان واقعہ ہی نہیں ہے بلکہ اُس استدلال کی ایک کڑی بھی ہے جو آغازِ سورہ سے چلا آرہا ہے۔ دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جب نوح علیہ السّلام سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک تمام انبیاء یہی توحید اور عقیدہ ٔ آخرت کی تعلیم دیتے رہے ہیں، تو لا محالہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نوعِ انسانی کا اصل دین یہی اسلام ہے ، اور دوسرے تما م مذاہب جو آج پائے جاتے ہیں وہ اسی کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں جو اس کی بعض صداقتوں کو مسخ کر کے اور اس کے اند ر بعض من گھڑت باتوں کا اضافہ کر کے بنا لی گئی ہیں۔ اب اگر غلطی پر ہیں تو وہ لوگ ہیں جو اُن مذاہب کے گرویدہ ہو رہے ہیں ، نہ کہ وہ جو ان کو چھوڑ کر اصل دین کی طرف بلا رہا ہے۔

49. “پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک خلا ہے جسے بھرنے کے بجائے سامع کے تخیل پر چھوڑ دیا گیا ہے، کیونکہ اس کو تقریر کا پس منظر خود بھر رہا ہے۔ پس منظر یہ ہے کہ خدا کا ایک بندہ پانچ چھ سال سے لوگوں کو اصل دین کی طرف بلا رہا ہے ، دلائل سے بات سمجھا رہا ہے ، تاریخ سے نظیریں پیش کر رہا ہے، اس کی دعوت کے اثرات و نتائج عملًا نگاہوں کے سامنے آرہے ہیں ، اور پھر اس کا ذاتی کردار بھی اس امر کی ضمانت دے رہا ہے کہ وہ ایک قابلِ اعتماد آدمی ہے۔ مگر اس کے باوجود لوگ صرف یہی نہیں کہ اُس باطل میں مگن ہیں جو اُن کو باپ دادا سے ورثے میں ملا تھا، اور صرف اِس حد تک بھی نہیں کہ وہ اُس حق کو مان کر نہیں دیتے جو روشن دلائل کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے ، بلکہ وہ ہاتھ دھو کر اس داعیِ حق کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور ہٹ دھرمی، طعن ، ملامت، ‎ظلم، جھوٹ، غرض کوئی بُری سے بُری تدبیر بھی اس کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کرنے سے نہیں چُوکتے۔ اس صورت حال میں اصل دین حق کو وحدت ، اور بعد کے ایجاد کردہ مذاہب کی حقیقت بیان کرنے کے بعد یہ کہنا کہ ”چھوڑ و انہیں، ڈوبے رہیں اپنی غفلت میں“، خود بخود اس معنی پر دلالت کرتا ہے کہ ”اچھا، اگر یہ لوگ نہیں مانتے اور اپنی گمراہیوں ہی میں مگن رہنا چاہتے ہیں تو چھوڑو انہیں“۔ اس”چھوڑو“ کو بالکل لفظی معنوں میں لے کر یہ سمجھ بیٹھنا کہ”اب تبلیغ ہی نہ کرو“، کلام کے تیوروں سے ناآشنائی کا ثبوت ہو گا۔ ایسے مواقع پر یہ بات تبلیغ و تلقین سے روکنے کے لیے نہیں بلکہ غافلوں کو جھنجھوڑنے کے لیے کہی جایا کرتی ہے۔ پھر”ایک وقتِ خاص تک“ کے الفاظ میں ایک بڑی گہری تنبیہ ہے جو یہ بتا رہی ہے کہ غفلت کا یہ استغراق زیادہ دیر تک نہیں رہ سکے گا ، ایک وقت آنے والا ہے جب یہ چونک پڑیں گے اور انہیں پتہ چل جائے گا کہ بلانے والا جس چیز کی طرف بلا رہا تھا وہ کیا تھی اور یہ جس چیز میں مگن تھے وہ کیسی تھی۔

50. اس مقام پر آغازِ سورہ کی آیتوں پر پھر ایک نگاہ ڈال لیجیے۔ اُسی مضمون کو اب پھر ایک دوسرے انداز سے دُہرایا جا رہا ہے ۔ یہ لوگ”فلاح“ اور ”خیر“ اور ”خوشحالی“ کا ایک محدود مادّی تصور رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک جس نے اچھا کھانا، اچھا لباس، اچھا گھر پا لیا، جو مال و اولاد سے نوازا گیا ، اور جسے معاشرے میں نام و نمود اور رسُوخ و اثر حاصل ہو گیا، اس نے بس فلاح پائی۔ اور جو اس سے محروم رہ گیا وہ ناکام و نامراد رہا۔ اس بنیادی غلط فہمی سے وہ پھر ایک اور اس سے بھی زیادہ بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے، اور وہ یہ تھی کہ جسے اس معنی میں فلاح نصیب ہے وہ ضرور راہِ راست پر ہے ، بلکہ خدا کا محبوب ہے، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ اسے یہ کامیابیاں حاصل ہوتیں۔ اور اس کے برعکس جو اس فلاح سے ہم کو علانیہ محروم نظر آرہا ہے وہ یقیناً عقیدے اور عمل میں گمراہ اور خدا (یا خداؤں) کے غضب میں گرفتا ر ہے۔ اس غلط فہمی کو،جو در حقیقت مادّہ پرستانہ نقطۂ نظر رکھنے والوں کی ضلالت کے اہم ترین اسباب میں سے ہے ، قرآن میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے ، مختلف طریقوں سے اس کی تردید کی گئی ہے ، اور طرح طرح سے یہ بتایا گیا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ، آیت ۱۲۶، ۲۱۲۔ الاعراف ۳۲۔ التوبہ ۵۵ – ۶۹ – ۸۵۔ یونس ۱۷۔ ہُود ۳ – ۲۷ تا ۳۱ – ۳۹ ۔ الرعد ۲۶۔ الکہف ۲۸ – ۳۲ تا ۴۳۔ ۱۰۳ تا ۱۰۵۔ مریم ۷۷ تا ۸۰۔ طٰہٰ، ۱۳۱ تا ۱۳۲۔ الانبیاء ۴۴، مع حواشی)۔

اس سلسلے میں چند اہم حقیقتیں ایسی ہیں کہ جب تک آدمی ان کو اچھی طرح نہ سمجھ لے، اس کا ذہن کبھی صاف نہیں ہو سکتا۔

اوّل یہ کہ ”انسان کی فلاح“ اِس سے وسیع تر اور بلند تر چیز ہے کہ اسے کسی فرد یا گروہ یا قوم کی محص مادّی خوشحالی اور وقتی کامیابی کے معنی میں لے لیا جائے۔

دوم یہ کہ فلاح کو اس محدود معنی میں لینے کے بعد اگر اسی کو حق و باطل اور خیر و شر کا معیار قرار دے لیا جائے تو یہ ایک ایسی بنیادی گمراہی بن جاتی ہے جس سے نکلے بغیر ایک انسان کبھی عقیدہ و فکر اور اخلاق و سیرت میں راہِ راست پا ہی نہیں سکتا۔

سوم یہ کہ دنیا فی الاصل دارالجزاء نہیں بلکہ دارالامتحان ہے۔ یہاں اخلاقی جزا و سزا اگر ہے بھی تو بہت محدود پیمانے پر اور ناقص صورت میں ہے، اور امتحان کا پہلو خود اس میں بھی موجود ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز کر کے یہ سمجھ لینا کہ یہاں جس کو جو نعمت بھی مِل رہی ہے وہ ”انعام“ ہے اور اس کا ملنا انعام پانے والے کے برحق اور صالح اور محبوب ِ ربّ ہونے کا ثبوت ہے ، اور جس پر جو آفت بھی آرہی ہے وہ ”سزا“ ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ سزا پانے والا باطل پر ہے ، غیر صالح ہے ، اور مغضوبِ بارگاہِ خداوندی ہے ، یہ سب کچھ درحقیقت ایک بہت بڑی غلط فہمی بلکہ حماقت ہے جس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی دوسری چیز ہمارے تصورِ حق اور معیارِ اخلاق کو بگاڑ دینے والی ہو۔ ایک طالبِ حقیقت کو اوّ ل قدم پر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں بے شمار مختلف صورتوں سے افراد کا ، قوموں کا اور تمام انسانوں کا امتحان ہو رہا ہے۔ اس امتحان کے دوران میں جو مختلف حالات لوگوں کو پیش آتے ہیں وہ جزا و سزا کے آخری فیصلے نہیں ہیں کہ انہی کو نظریات ، اخلاق اور اعمال کی صحت اور غلطی کا معیار بنا لیا جائے، اور انہی کو خدا کے ہاں محبوب یا مغضوب ہو نے کی علامات قرار دے لیا جائے۔

چہارم یہ کہ فلاح کا دامن یقینًا حق اور نیکی کے ساتھ بندھا ہوا ہے ، اور بلاشک و ریب یہ ایک حقیقت ہے کہ باطل اور بدی کا انجام خسران ہے۔ لیکن اس دنیا میں چونکہ باطل اور بدی کے ساتھ عارضی و نمائشی فلاح، اور اسی طرح حق اور نیکی کے ساتھ ظاہری اور وقتی خسران ممکن ہے، اور اکثر و بیشتر یہ چیز دھوکہ دینے والی ثابت ہوتی ہے ، اس لیے حق و باطل اور خیر و شر کی جانچ کے لیے ایک مستقل کسوٹی کی ضرورت ہے جس میں دھوکے کا خطرہ نہ ہو۔ انبیاء علیہم السّلام کی تعلیمات اور آسمانی کتابیں ہم کو وہ کسوٹی بہم پہنچاتی ہیں ، انسانی عقلِ عام(common sense) اس کی صحت کی تصدیق کرتی ہے اور معروف و منکر کے متعلق نوعِ انسانی کے مشترک و جدانی تصوّرات اُس پر گواہی دیتے ہیں۔

پنجم یہ کہ جب کوئی شخص یا قوم ایک طرف تو حق سے منحرف اور فسق و فجور اور ظلم و طغیان میں مبتلا ہو ، اور دوسری طرف اس پر نعمتوں کی بارش ہو رہی ہو ، تو عقل اور قرآن دونوں کی رُو سے یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ خدا نے اس کو شدید تر آزمائش میں ڈال دیا ہے اور اس پر خدا کی رحمت نہیں بلکہ اس کا غضب مسلّط ہو گیا ہے۔ اسے غلطی پر چوٹ لگتی تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ خدا ابھی اس پر مہربان ہے ، اسے تنبیہ کر رہا ہے اور سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے ۔ لیکن غلطی پر ”انعام“ یہ معنی رکھتا ہے کہ اسے سخت سزا دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس کی کشتی اس لیے تیر رہی ہے کہ خوب بھر کر ڈوبے۔ اس کے بر عکس جہاں ایک طرف سچی خدا پرستی ہو، اخلاق کی پاکیزگی ہو، معاملات میں راستبازی ہو، خلقِ خدا کے ساتھ حسنِ سلوک اور رحمت و شفقت ہو، اور دوسری طرف مصائب اور شدائد اس پر موسلا دھار برس رہے ہوں اور چوٹوں پر چوٹیں اسے لگ رہی ہوں ، تو یہ خدا کے غضب کی نہیں اس کی رحمت ہی کی علامت ہے۔ سُنا ر اس سونے کو تپا رہا ہے تا کہ خوب نِکھر جائے اور دنیا پر اس کا کامل العیار ہونا ثابت ہو جائے۔ دینا کے بازار میں اس کی قیمت نہ بھی اُٹھے تو پروا نہیں۔ سنار خود اس کی قیمت دے گا، بلکہ اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا۔ اس کے مصائب اگر غضب کا پہلو رکھتے ہیں تو خود اس کے لیے نہیں بلکہ اس کے دشمنوں ہی کے لیے رکھتے ہیں، یا پھر اس سوسائیٹی کے لیے جس میں صالحین ستائے جائیں اور فساق نواز ے جائیں۔

51. یعنی وہ دنیا میں خدا سے بے خوف اور بے فکر ہو کر نہیں رہتے کہ جو دل چاہے کرتے رہیں اور کبھی نہ سوچیں کہ اوپر کوئی خدا بھی ہے جو ظلم اور زیادتی پرپکڑنے والا ہے، بلکہ ان کے دل میں ہر وقت اس کاخوف رہتا ہے اور وہی انہیں برائیوں سے روکتا رہتا ہے۔

52. آیات سے مراد دونوں طرح کی آیات ہیں، وہ بھی جو خدا کی طرف سے اس کے انبیاء پیش کرتے ہیں ، اور وہ بھی جو انسان کے اپنے نفس میں اور ہر طرف آفاق میں پھیلی ہوئی ہیں۔ آیاتِ کتاب پر ایمان لانا اُن کی تصدیق کر نا ہے، اور آیاتِ آفاق و اَنْفُس پر ایمان لانا اُن حقیقتوں پر ایمان لانا ہے جن پر وہ دلالت کر رہی ہیں۔

53. اگرچہ آیات پر ایمان سے خود ہی یہ لازم آتا ہے کہ انسان توحید کا قائل و معتقد ہو، لیکن اس کے باوجود شرک نہ کرنے کا ذکر الگ اس لیے کیا گیا ہے کہ بسا اوقات انسان آیات کو مان کر بھی کسی نہ کسی طور کے شرک میں مبتلا رہتا ہے ۔ مثلاً ریا، کہ وہ بھی ایک طرح کا شرک ہے۔ یا انبیاء اور اولیاء کی تعلیم میں ایسامبالغہ جو شرک تک پہنچا دے۔ یا غیراللہ سے دُعا اور استعانت ۔ یا برضا و رغبت اربابٌ مِن دُون اللہ کی بندگی و اطاعت اور غیر الہٰی قوانین کا اتباع ۔ پس ایمان بآ یات اللہ کے بعد شرک کی نفی کا الگ ذکر کرنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے لیے اپنی بندگی ، اطاعت، اور عبودیت کو بالکل خالص کر لیتے ہیں، اس کے ساتھ کسی اور کی بندگی کا شائبہ تک لگا نہیں رکھتے۔

54. عربی زبان میں ”دینے“ (ایتاء) کا لفظ صرف مال یا کوئی مادی چیز دینے ہی کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ معنوی چیزیں دینے کے معنی میں بھی بولا جا تا ہے۔ مثلاً کسی شخص کی اطاعت قبول کرلینے کے لیے کہتے ہیں کہ اٰتیتہٗ من نفسی القبول کسی شخص کی اطاعت سے انکار کر دینے لیے کہتے ہیں اٰتیتہ من نفسی الابا ئۃ۔ پس اِس دینے کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ وہ راہِ خدا میں مال دیتے ہیں ، بلکہ اس کا مطلب اللہ کے حضور طاعت و بندگی پیش کرنے پر بھی حاوی ہے۔

اس معنی کے لحاظ سے آیت کا پورا مفہوم یہ ہوا کہ وہ اللہ کی فرمانبرداری میں جو کچھ بھی نیکیاں کرتے ہیں، جو کچھ بھی خدمات انجام دیتے ہیں ، جو کچھ بھی قربانیاں کرتے ہیں ، ان پر وہ پھُولتے نہیں ہیں، غرورِ تقویٰ اور پندارِ خدا رسیدگی میں مبتلا نہیں ہوتے، بلکہ اپنے مقدور بھر سب کچھ کر کے بھی ڈرتے رہتے ہیں کہ خدا جانے یہ قبول ہو یا نہ ہو، ہمارے گناہوں کےمقابلے میں وزنی ثابت ہو یا نہ ہو، ہمارے ربّ کے ہاں ہماری مغفرت کے لیے کافی ہو یا نہ ہو۔ یہی مطلب ہےجس پر وہ حدیث روشنی ڈالتی ہے جو احمد ، ترمذی، ابن ماجہ، حاکم اور ابن جریر نے نقل کی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا ”یا رسول اللہ! کیا اس کا مطلب یہی ہے کہ ایک شخص چوری اور زنا اور شراب نوشی کرتے ہوئے اللہ سے ڈرے“؟ اس سوال سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ اسے یَاْ تُوْ نَ مَا اَتَوْ کے معنی میں لے رہی تھیں، یعنی”کرتے ہیں جو کچھ کرتے ہیں“۔ جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لا یا بنت الصدیق ولٰکنہ الذی یصلی و یصوم و یتصدق و ھو یخاف اللہ عزّو جلّ ، ”نہیں، اے صدیق کی بیٹی، اس سے مراد وہ شخص ہے جو نماز پڑھتا ہے ، روزے رکھتا ہے ، زکوٰۃ دیتا ہے اور پھر اللہ عزّو جلّ سے ڈرتا رہتا ہے۔“ اس جواب سے پتہ چلا کہ آیت کی صحیح قرأت یَاْتُوْنَ نہیں بلکہ یُؤْ تُوْنَ ہے، اور یہ یُؤْ تُوْنَ صرف مال دینے کے محدود معنی میں نہیں ہے بلکہ طاعت بجا لانے کے وسیع معنی میں ہے۔

یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک مومن کسی قلبی کیفیت کے ساتھ اللہ کی بندگی کرتا ہے۔ اس کی مکمل تصویر حضرت عمر ؓ کی وہ حالت ہے کہ عمر بھر کی بے نظیر خدمات کے بعد جب دنیا سے رخصت ہونے لگتے ہیں تو خدا کے محاسبے سےڈرتے ہوئے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آخرت میں برابر سرابر بھی چھوٹ جاؤں تو غنیمت ہے۔ حضرت حسن بصریؒ نے خوب کہا ہے کہ مومن طاعت کرتا ہے پھر بھی ڈرتا رہتا ہے ، اور منافق معصیت کرتا ہے پھر بھی بے خوف رہتا ہے۔

50. اس مقام پر آغازِ سورہ کی آیتوں پر پھر ایک نگاہ ڈال لیجیے۔ اُسی مضمون کو اب پھر ایک دوسرے انداز سے دُہرایا جا رہا ہے ۔ یہ لوگ”فلاح“ اور ”خیر“ اور ”خوشحالی“ کا ایک محدود مادّی تصور رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک جس نے اچھا کھانا، اچھا لباس، اچھا گھر پا لیا، جو مال و اولاد سے نوازا گیا ، اور جسے معاشرے میں نام و نمود اور رسُوخ و اثر حاصل ہو گیا، اس نے بس فلاح پائی۔ اور جو اس سے محروم رہ گیا وہ ناکام و نامراد رہا۔ اس بنیادی غلط فہمی سے وہ پھر ایک اور اس سے بھی زیادہ بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے، اور وہ یہ تھی کہ جسے اس معنی میں فلاح نصیب ہے وہ ضرور راہِ راست پر ہے ، بلکہ خدا کا محبوب ہے، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ اسے یہ کامیابیاں حاصل ہوتیں۔ اور اس کے برعکس جو اس فلاح سے ہم کو علانیہ محروم نظر آرہا ہے وہ یقیناً عقیدے اور عمل میں گمراہ اور خدا (یا خداؤں) کے غضب میں گرفتا ر ہے۔ اس غلط فہمی کو،جو در حقیقت مادّہ پرستانہ نقطۂ نظر رکھنے والوں کی ضلالت کے اہم ترین اسباب میں سے ہے ، قرآن میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے ، مختلف طریقوں سے اس کی تردید کی گئی ہے ، اور طرح طرح سے یہ بتایا گیا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ، آیت ۱۲۶، ۲۱۲۔ الاعراف ۳۲۔ التوبہ ۵۵ – ۶۹ – ۸۵۔ یونس ۱۷۔ ہُود ۳ – ۲۷ تا ۳۱ – ۳۹ ۔ الرعد ۲۶۔ الکہف ۲۸ – ۳۲ تا ۴۳۔ ۱۰۳ تا ۱۰۵۔ مریم ۷۷ تا ۸۰۔ طٰہٰ، ۱۳۱ تا ۱۳۲۔ الانبیاء ۴۴، مع حواشی)۔

اس سلسلے میں چند اہم حقیقتیں ایسی ہیں کہ جب تک آدمی ان کو اچھی طرح نہ سمجھ لے، اس کا ذہن کبھی صاف نہیں ہو سکتا۔

اوّل یہ کہ ”انسان کی فلاح“ اِس سے وسیع تر اور بلند تر چیز ہے کہ اسے کسی فرد یا گروہ یا قوم کی محص مادّی خوشحالی اور وقتی کامیابی کے معنی میں لے لیا جائے۔

دوم یہ کہ فلاح کو اس محدود معنی میں لینے کے بعد اگر اسی کو حق و باطل اور خیر و شر کا معیار قرار دے لیا جائے تو یہ ایک ایسی بنیادی گمراہی بن جاتی ہے جس سے نکلے بغیر ایک انسان کبھی عقیدہ و فکر اور اخلاق و سیرت میں راہِ راست پا ہی نہیں سکتا۔

سوم یہ کہ دنیا فی الاصل دارالجزاء نہیں بلکہ دارالامتحان ہے۔ یہاں اخلاقی جزا و سزا اگر ہے بھی تو بہت محدود پیمانے پر اور ناقص صورت میں ہے، اور امتحان کا پہلو خود اس میں بھی موجود ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز کر کے یہ سمجھ لینا کہ یہاں جس کو جو نعمت بھی مِل رہی ہے وہ ”انعام“ ہے اور اس کا ملنا انعام پانے والے کے برحق اور صالح اور محبوب ِ ربّ ہونے کا ثبوت ہے ، اور جس پر جو آفت بھی آرہی ہے وہ ”سزا“ ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ سزا پانے والا باطل پر ہے ، غیر صالح ہے ، اور مغضوبِ بارگاہِ خداوندی ہے ، یہ سب کچھ درحقیقت ایک بہت بڑی غلط فہمی بلکہ حماقت ہے جس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی دوسری چیز ہمارے تصورِ حق اور معیارِ اخلاق کو بگاڑ دینے والی ہو۔ ایک طالبِ حقیقت کو اوّ ل قدم پر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں بے شمار مختلف صورتوں سے افراد کا ، قوموں کا اور تمام انسانوں کا امتحان ہو رہا ہے۔ اس امتحان کے دوران میں جو مختلف حالات لوگوں کو پیش آتے ہیں وہ جزا و سزا کے آخری فیصلے نہیں ہیں کہ انہی کو نظریات ، اخلاق اور اعمال کی صحت اور غلطی کا معیار بنا لیا جائے، اور انہی کو خدا کے ہاں محبوب یا مغضوب ہو نے کی علامات قرار دے لیا جائے۔

چہارم یہ کہ فلاح کا دامن یقینًا حق اور نیکی کے ساتھ بندھا ہوا ہے ، اور بلاشک و ریب یہ ایک حقیقت ہے کہ باطل اور بدی کا انجام خسران ہے۔ لیکن اس دنیا میں چونکہ باطل اور بدی کے ساتھ عارضی و نمائشی فلاح، اور اسی طرح حق اور نیکی کے ساتھ ظاہری اور وقتی خسران ممکن ہے، اور اکثر و بیشتر یہ چیز دھوکہ دینے والی ثابت ہوتی ہے ، اس لیے حق و باطل اور خیر و شر کی جانچ کے لیے ایک مستقل کسوٹی کی ضرورت ہے جس میں دھوکے کا خطرہ نہ ہو۔ انبیاء علیہم السّلام کی تعلیمات اور آسمانی کتابیں ہم کو وہ کسوٹی بہم پہنچاتی ہیں ، انسانی عقلِ عام(common sense) اس کی صحت کی تصدیق کرتی ہے اور معروف و منکر کے متعلق نوعِ انسانی کے مشترک و جدانی تصوّرات اُس پر گواہی دیتے ہیں۔

پنجم یہ کہ جب کوئی شخص یا قوم ایک طرف تو حق سے منحرف اور فسق و فجور اور ظلم و طغیان میں مبتلا ہو ، اور دوسری طرف اس پر نعمتوں کی بارش ہو رہی ہو ، تو عقل اور قرآن دونوں کی رُو سے یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ خدا نے اس کو شدید تر آزمائش میں ڈال دیا ہے اور اس پر خدا کی رحمت نہیں بلکہ اس کا غضب مسلّط ہو گیا ہے۔ اسے غلطی پر چوٹ لگتی تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ خدا ابھی اس پر مہربان ہے ، اسے تنبیہ کر رہا ہے اور سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے ۔ لیکن غلطی پر ”انعام“ یہ معنی رکھتا ہے کہ اسے سخت سزا دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس کی کشتی اس لیے تیر رہی ہے کہ خوب بھر کر ڈوبے۔ اس کے بر عکس جہاں ایک طرف سچی خدا پرستی ہو، اخلاق کی پاکیزگی ہو، معاملات میں راستبازی ہو، خلقِ خدا کے ساتھ حسنِ سلوک اور رحمت و شفقت ہو، اور دوسری طرف مصائب اور شدائد اس پر موسلا دھار برس رہے ہوں اور چوٹوں پر چوٹیں اسے لگ رہی ہوں ، تو یہ خدا کے غضب کی نہیں اس کی رحمت ہی کی علامت ہے۔ سُنا ر اس سونے کو تپا رہا ہے تا کہ خوب نِکھر جائے اور دنیا پر اس کا کامل العیار ہونا ثابت ہو جائے۔ دینا کے بازار میں اس کی قیمت نہ بھی اُٹھے تو پروا نہیں۔ سنار خود اس کی قیمت دے گا، بلکہ اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا۔ اس کے مصائب اگر غضب کا پہلو رکھتے ہیں تو خود اس کے لیے نہیں بلکہ اس کے دشمنوں ہی کے لیے رکھتے ہیں، یا پھر اس سوسائیٹی کے لیے جس میں صالحین ستائے جائیں اور فساق نواز ے جائیں۔

54. عربی زبان میں ”دینے“ (ایتاء) کا لفظ صرف مال یا کوئی مادی چیز دینے ہی کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ معنوی چیزیں دینے کے معنی میں بھی بولا جا تا ہے۔ مثلاً کسی شخص کی اطاعت قبول کرلینے کے لیے کہتے ہیں کہ اٰتیتہٗ من نفسی القبول کسی شخص کی اطاعت سے انکار کر دینے لیے کہتے ہیں اٰتیتہ من نفسی الابا ئۃ۔ پس اِس دینے کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ وہ راہِ خدا میں مال دیتے ہیں ، بلکہ اس کا مطلب اللہ کے حضور طاعت و بندگی پیش کرنے پر بھی حاوی ہے۔

اس معنی کے لحاظ سے آیت کا پورا مفہوم یہ ہوا کہ وہ اللہ کی فرمانبرداری میں جو کچھ بھی نیکیاں کرتے ہیں، جو کچھ بھی خدمات انجام دیتے ہیں ، جو کچھ بھی قربانیاں کرتے ہیں ، ان پر وہ پھُولتے نہیں ہیں، غرورِ تقویٰ اور پندارِ خدا رسیدگی میں مبتلا نہیں ہوتے، بلکہ اپنے مقدور بھر سب کچھ کر کے بھی ڈرتے رہتے ہیں کہ خدا جانے یہ قبول ہو یا نہ ہو، ہمارے گناہوں کےمقابلے میں وزنی ثابت ہو یا نہ ہو، ہمارے ربّ کے ہاں ہماری مغفرت کے لیے کافی ہو یا نہ ہو۔ یہی مطلب ہےجس پر وہ حدیث روشنی ڈالتی ہے جو احمد ، ترمذی، ابن ماجہ، حاکم اور ابن جریر نے نقل کی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا ”یا رسول اللہ! کیا اس کا مطلب یہی ہے کہ ایک شخص چوری اور زنا اور شراب نوشی کرتے ہوئے اللہ سے ڈرے“؟ اس سوال سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ اسے یَاْ تُوْ نَ مَا اَتَوْ کے معنی میں لے رہی تھیں، یعنی”کرتے ہیں جو کچھ کرتے ہیں“۔ جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لا یا بنت الصدیق ولٰکنہ الذی یصلی و یصوم و یتصدق و ھو یخاف اللہ عزّو جلّ ، ”نہیں، اے صدیق کی بیٹی، اس سے مراد وہ شخص ہے جو نماز پڑھتا ہے ، روزے رکھتا ہے ، زکوٰۃ دیتا ہے اور پھر اللہ عزّو جلّ سے ڈرتا رہتا ہے۔“ اس جواب سے پتہ چلا کہ آیت کی صحیح قرأت یَاْتُوْنَ نہیں بلکہ یُؤْ تُوْنَ ہے، اور یہ یُؤْ تُوْنَ صرف مال دینے کے محدود معنی میں نہیں ہے بلکہ طاعت بجا لانے کے وسیع معنی میں ہے۔

یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک مومن کسی قلبی کیفیت کے ساتھ اللہ کی بندگی کرتا ہے۔ اس کی مکمل تصویر حضرت عمر ؓ کی وہ حالت ہے کہ عمر بھر کی بے نظیر خدمات کے بعد جب دنیا سے رخصت ہونے لگتے ہیں تو خدا کے محاسبے سےڈرتے ہوئے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آخرت میں برابر سرابر بھی چھوٹ جاؤں تو غنیمت ہے۔ حضرت حسن بصریؒ نے خوب کہا ہے کہ مومن طاعت کرتا ہے پھر بھی ڈرتا رہتا ہے ، اور منافق معصیت کرتا ہے پھر بھی بے خوف رہتا ہے۔

55. اس سیاق و سباق میں یہ فقرہ اپنے اندر بڑی گہری معنویت رکھتا ہے جسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ پچھلی آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ بھلائیاں لوٹنے والے اور سبقت کر کے انہیں پا لینے والے دراصل کون لوگ ہیں اور ان کی صفات کیا ہیں۔ اس مضمون کے بعد فوراً ہی یہ فرمایا کہ ہم کسی کو اس کی مقدرت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ سیرت، یہ اخلاق اور یہ کردار کوئی فوق البشری چیز نہیں ہے ۔ تم ہی جیسے گوشت پوست کے انسان اس روش پر چل کر دکھا رہے ہیں۔ لہٰذا تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم سے کسی ایسی چیز کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جو انسانی مقدرت سے باہر ہے۔ انسان کو تو مقدرت اُس رویّے کی بھی حاصل ہے جس پر تم چل رہے ہو ، اور اُس کی بھی حاصل ہے جس پر تمہاری اپنی قوم کے چند اہلِ ایمان چل رہے ہیں۔ اب فیصلہ جس چیز پر ہے وہ صرف یہ ہے کہ ان دونوں امکانی رویّوں میں سے کون کس کا انتخاب کرتا ہے۔ اس انتخاب میں غلطی کر کے اگر آج تم اپنی ساری محنتیں اور کوششیں برائیاں سمیٹنے میں صرف کر دیتے ہو اور بھلائیوں سے محروم رہ جاتے ہو، تو کل اپنی اس حماقت کا خمیازہ بھگتنے سے تم کو یہ جھوٹی معذرت نہیں بچا سکے گی کہ بھلائیوں تک پہنچنے کا راستہ ہماری مقدرت سے باہر تھا۔ اُس وقت یہ عذر پیش کرو گے تو تم سے پوچھا جائے گا کہ اگر یہ راستہ انسانی مقدرت سے باہر تھا تو تم ہی جیسے بہت سے انسان اس پر چلنے میں کیسے کامیاب ہو گئے۔

56. کتاب سے مراد ہے نامۂ اعمال جو ہر ایک شخص کا الگ الگ مرتب ہو رہا ہے ، جس میں اُس کی ایک ایک بات، ایک ایک حرکت، حتٰی کہ خیالات اور ارادوں تک کی ایک ایک حالت ثبت کی جارہی ہے۔ اسی کے متعلق سورۂ کہف میں فرمایا گیا ہے کہ وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَ ی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ھٰذَا لْکِتٰبِ لَا یُغَادِ رُ صَغِیْرَ ۃً وَّلَا کَبِیْرَ ۃً اِلَّآ اَحْصٰھَا ج وَوَ جَدُوْا مَا عَمِلُوْ ا حَاضِرًا ط وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا o ”اور نامۂ اعمال سامنے رکھ دیا جا ئے گا ، پھر تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اُس کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری کم بختی ، یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی یا بڑی حرکت ایسی نہیں رہ گئی جو اس میں درج نہ ہو۔ جو جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے ، اور تیرا ربّ کسی پر ظلم کرنے والا نہیں ہے “۔ (آیت ۴۹)۔ بعض لوگوں نے یہاں کتاب سے مراد قرآن لے کر آیت کا مطلب خبط کر دیا ہے۔

57. یعنی نہ تو کسی کے ذمے کوئی ایسا الزام تھوپا جائے گا جس کا وہ در حقیقت قصور وار نہ ہو، نہ کسی کی کوئی ایسی نیکی ماری جائے گی جس کے صلے کا وہ فی الواقع مستحق ہو، نہ کسی کو بے جا سزا دی جائے گی اور نہ کسی کو حق کے مطابق بجا انعام سے محروم رکھا جائے گا۔

58. یعنی اس امر سے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں ، کہہ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں، یہ سب کچھ کہیں درج ہو رہا ہے اور کبھی اس کا حساب ہونے والا ہے۔

59. ”عیّاش“ یہاں”مُتْرَ فِیْنَ“ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ”مترفین“ اصل میں اُن لوگوں کو کہتے ہیں جو دُنیوی مال و دولت کو پاکر مزے کر رہے ہوں اور خدا و خلق کے حقوق سے غافل ہوں۔ اس لفظ کا صحیح مفہوم لفظ عیّاش سے ادا ہو جاتا ہے، بشرطیکہ اسے صرف شہوت رانی کے معنی میں نہ لیا جائے بلکہ عیش کوشی کے وسیع تر معنوں میں لیا جائے۔

عذاب سے مراد یہاں غالبًا آخرت کا عذاب نہیں ہے بلکہ دنیا کا عذاب ہے جو اِسی زندگی میں ظالموں کو دیکھنا پڑے۔

60. ”اصل میں لفظ ”جُؤَار“ استعمال کیا گیا ہے جو بیل کی اُس آواز کو کہتے ہیں جو سخت تکلیف کے وقت وہ نکالتا ہے ۔ یہ لفظ یہاں محض فریاد وہ فغاں کے معنی میں نہیں بلکہ اُس شخص کی فریاد و فغاں کے معنی میں بولا گیا ہے جو کسی رحم کا مستحق نہ ہو۔ اس میں تحقیر اور طنز کا انداز چھپا ہو ا ہے۔ اس کے اندر یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ ”اچھا“ ، اب جو اپنے کرتُوتوں کا مزا چکھنے کی نوبت آئی تو بلبلانے لگے۔“

61. یعنی اُس وقت ان سے یہ کہا جائے گا۔

62. یعنی اس کی بات سننا تک تمہیں گوارا نہ تھا ۔ یہ تک برداشت نہ کرتے تھے کہ اس کی آواز کان میں پڑے۔

63. اصل میں لفظ ”سٰمِرًا“ استعمال کیا گیا ہے ۔ سمر کے معنی ہیں رات کے وقت بات چیت کرنا۔ گپیں ہانکنا، قصّے کہانیاں کہنا۔ دیہاتی اور قصباتی زندگی میں یہ راتوں کی گپیں عمومًا چوپالوں میں ہوا کرتی ہیں۔ اور یہی اہلِ مکّہ کا بھی دستور تھا۔

64. یعنی کیا ان کے اس رویے کی وجہ یہ ہے کہ اس کلام کو انہوں نے سمجھا ہی نہیں اس لیے وہ اسے نہیں مانتے؟ ظاہر ہے کہ یہ وجہ نہیں ہے ۔ قرآن کوئی چیستان نہیں ہے، کسی ناقابلِ فہم زبان میں نہیں ہے ۔ کسی ایسے مضمون اور موضوع ِ کلام پر مشتمل نہیں ہے جو آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہو۔ وہ اس کی ایک ایک بات اچھی طرح سمجھتے ہیں اور مخالفت اس لیےکرتے ہیں کہ جو کچھ وہ پیش کر رہا ہے اسے نہیں ماننا چاہتے، نہ اس لیے کہ انہوں نے سمجھنے کی کوشش کی اور سمجھ میں نہ آیا۔

65. یعنی کیا ان کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک نرالی بات پیش کر رہا ہے جس سے انسانی کان کبھی آشنا ہی نہ ہوئے تھے؟ ظاہر ہے کہ یہ وجہ بھی نہیں ہے۔ خدا کی طرف سے انبیاء کا آنا ، کتابیں لے کر آنا، توحید کی دعوت دینا، آخرت کی باز پرس سے ڈرانا، اور اخلاق کی معروف بھلائیاں پیش کرنا ، اِن میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو تاریخ میں آج پہلی مرتبہ رونما ہوئی ہو، اور اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہ سُنا گیا ہو۔ ان کے گردو پیش عراق، شام اور مصر میں انبیاء پر انبیاء آئے ہیں جنہوں نے یہی باتیں پیش کی ہیں اور یہ لوگ اس سے ناواقف نہیں ہیں ۔ خود ان کی اپنی سرزمین میں ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام آئے ، ہُود اور صالح اور شعیب علیہم السلام آئے، ان کے نام آج تک ان کی زبانوں پر ہیں، ان کو یہ خود فرستادۂ الہٰی مانتے ہیں، اور ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ مشرک نہ تھے بلکہ خدائے واحد کی بندگی سکھاتے تھے۔ اس لیے در حقیقت اِن کے انکار کی یہ وجہ بھی نہیں ہے کہ ایک بالکل ہی انوکھی بات سُن رہے ہیں جو کبھی نہ سُنی گئی تھی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الفرقان، حاشیہ نمبر ۸۴، السجدہ حاشیہ نمبر ۵، سباء، حاشیہ نمبر ۳۵)۔

66. یعنی کیا ان کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ ایک بالکل اجنبی آدمی جس سے یہ کبھی کے واقف نہ تھے ، اچانک ان کے درمیان آکھڑا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے مان لو۔ ظاہر ہے کہ یہ بات بھی نہیں ہے۔ جو شخص یہ دعوت پیش کر رہا ہے وہ ان کی اپنی برادری کا آدمی ہے ۔ ا س کی نسبی شرافت ان سے مخفی نہیں۔ اس کی ذاتی زندگی ان سے چھپی ہوئی نہیں ۔ بچپن سےجوانی اور جوانی سے بڑھاپے کی سرحد تک وہ ان کے سامنے پہنچا ہے۔ اس کی صداقت سے ، اس کی راستبازی سے، اس کی امانت سے ، اس کی بے داغ سیرت سےیہ خوب واقف ہیں۔ اس کو خود امین کہتے رہے ہیں۔ اس کی دیانت پر ان کی ساری برادری بھروسہ کرتی رہی ہے۔ ا س کےبدترین دشمن تک یہ مانتے ہیں کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا ہے۔ اس کی پوری جوانی عفت اور پاکدامنی کے ساتھ گزری ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ وہ نہایت شریف اور نہایت نیک آدمی ہے۔ حلیم ہے، حق پسند ہے۔ امن پسند ہے۔ جھگڑوں سے کنارہ کش ہے۔ معاملے میں کھرا ہے ۔ قول و قرار کا پکا ہے۔ ظلم نہ خود کرتا ہے نہ ظالموں کا ساتھ دیتا ہے۔ کسی حق دار کا حق ادا کرنے میں اُس نے کبھی کوتاہی نہیں کی ہے۔ ہر مصیبت زدہ، بے کس ، حاجت مند کے لیے اس کا دروازہ ایک رحیم و شفیق ہمدرد کا دروازہ ہے۔ پھر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ نبوّت کے دعوے سے ایک دن پہلے تک بھی کسی نے اس کی زبان سے کوئی ایسی بات نہ سنی تھی جس سے یہ شبہہ کیا جا سکتا ہو کہ کسی دعوے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اور جس روز اس نے دعویٰ کیا اس کے بعد سے آ ج تک وہ ایک ہی بات کہتا رہا ہے ۔ کوئی پلٹی اُس نے نہیں کھائی ہے۔ کوئی ردو بدل اپنے دعوے اور دعوت میں اس نے نہیں کیا ہے۔ کوئی تدریجی ارتقاء اس کے دعووں میں نظر نہیں آتا کہ کوئی یہ گمان کر سکے کہ آہستہ آہستہ قدم جما جما کر دعووں کی وادی میں پیش قدمی کی جا رہی ہے۔ پھر اس کی زندگی اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جو کچھ اس نے دوسروں سے کہا ہے وہ پہلے خود کر کے دکھایا ہے۔ اس کےقول اور عمل میں تضاد نہیں ہے۔ ا س کے پاس ہاتھی کے دانت نہیں ہیں کہ دکھانے کے اور ہوں اور چبانے کے اور ۔ وہ دینے کے باٹ الگ اور لینے کے باٹ الگ نہیں رکھتا۔ ایسے جانے بوجھے اور جانچے پرکھے آدمی کے متعلق وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ”صاحب دودھ کاجلا چھاچھ کو پھونک پھونک کر پیتا ہے ، بڑے بڑے فریبی آتے ہیں اور دل موہ لینے والی باتیں کر کے اوّل اوّل اعتبار جما لیتے ہیں، بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ سب محض چکمہ ہی چکمہ تھا، یہ صاحب بھی کیا خبر اصل میں کیا ہوں اور بناوٹ کا ملمع اترنے کے بعد کیا کچھ ان کے اندر سے نِکل آئے، ا س لیے ان کومانتے ہوئے ہمارا تو ماتھا ٹھنکتا ہے“۔ (اس سلسلے میں مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، الانعام، حاشیہ نمبر ۲۱۔ یونس ، حاشیہ نمبر ۲۱، بنی اسرائیل ، حاشیہ نمبر ۱۰۵)۔

67. یعنی کیا اِن کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ واقعی وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مجنون سمجھتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ ابھی اصل وجہ نہیں ہے، کیونکہ زبان سے چاہے وہ کچھ ہی کہتے رہیں ، دلوں میں تو اُن کی دانائی وزیر کی کے قائل ہیں۔ علاوہ بریں ایک پاگل اور ایک ہوشمند آدمی کا فرق کوئی ایسا چھپا ہوا تو نہیں ہوتا کہ دونوں میں تمیز کرنا مشکل ہو۔ آخر ایک ہٹ دھرم ، اور بے حیا آدمی کے سوا کون اِس کلام کو سُن کر یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ کسی دیوانے کا کلام ہے، اور اس شخص کی زندگی کو دیکھ کر یہ رائے ظاہر کر سکتا ہے کہ یہ کسی مخبوط الحواس آدمی کی زندگی ہے؟ بڑا ہی عجیب ہے وہ جنون (یا مستشرقینِ مغرب کی بکواس کے مطابق مرگی کا دَورہ) جس میں آدمی کی زبان سے قرآن جیسا کلام نکلے اور جس میں آدمی ایک تحریک کی ایسی کامیاب راہ نمائی کر ے کہ اپنے ہی ملک کی نہیں، دنیا بھر کی قسمت بدل ڈالے۔

68. اس مختصر سے جملے میں ایک بڑی بات کہی گئی ہے جسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ دنیا میں نادان لوگوں کی بالعموم یہ روش ہوتی ہے کہ جو شخص ان سے حق بات کہتا ہے وہ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ گویا اِن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بات وہ کہی جائے جو ان کی خواہش کے مطابق ہو، نہ کہ وہ جو حقیقت اور واقعہ کے مطابق ہو۔ حالانکہ حقیقت بہر حال حقیقت ہی رہتی ہے خواہ وہ کسی کو پسند ہو یا نا پسند۔ تمام دنیا کی متفقہ خواہش بھی کسی واقعہ کو غیر واقعہ اور کسی امرِ حق کو غیر حق نہیں بنا سکتی ،کجا کہ حقائق اور واقعات ایک ایک شخص کی خواہشات کے مطابق ڈھیلا کریں اور ہرآن بے شمار متضاد خواہشوں سے ہم آہنگ ہوتے رہیں۔ حماقت مآب ذہن کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ حقیقت اور ان کی خواہش کے درمیان اگر اختلاف ہے تو یہ قصور حقیقت کا نہیں بلکہ ان کے اپنے نفس کا ہے۔ وہ اس کی مخالفت کر کے اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے ، اپنا ہی کچھ بگاڑ لیں گے۔ کائنات کا یہ عظیم الشان نظام جن اٹل حقائق اور قوانین پر مبنی ہے ان کے زیرِ سایہ رہتے ہوئے انسان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ اپنے خیالات ، خواہشات اور طرزِ عمل کو حقیقت کے مطابق بنائے ، اور اس غرض کے لیےہر وقت دلیل، تجربے اور مشاہدے سے یہ جاننے کی کوشش کرتا رہے کہ حقیقت نفس الامری کیا ہے ۔ صرف ایک بے وقوف ہی یہاں یہ طرزِ عمل اختیار کر سکتا ہے کہ جو کچھ وہ سمجھ بیٹھا ہے، یا جو کچھ اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ، یا جو کچھ اپنے تعصبات کی بنا پر وہ فرض کر چکا ہے کہ ہےیا ہونا چاہیے ، اُس پر جم کر رہ جائے اور اس کے خلاف کسی کی مضبوط سے مضبوط اور معقول سے معقول دلیل کو بھی سننا گوارا نہ کرے۔

69. یہاں لفظ ذکر کے تین معنی ممکن ہیں اور تینوں ہی صحیح بیٹھتے ہیں:

(۱) ذکر بمعنی بیانِ فطرت۔ اس لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم کسی دوسرے عالَم کی باتیں نہیں کر رہے ہیں بلکہ ان کی اپنی ہی حقیقت اور فطرت اور اس کے مقتضیات ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں ، تا کہ وہ اپنے اِس بھُولے ہوئے سبق کو یاد کریں، مگر وہ اسے قبول کرنے سے کترا رہے ہیں۔ ان کا یہ فرار کسی غیر متعلق چیز سے نہیں بلکہ اپنے ہی ذکر سے ہے۔

(۲) ذکر بمعنیٰ نصیحت۔ اس کی رُو سے آیت کی تفسیر یہ ہو گی کہ جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے یہ انہی کے بھلے کے لیے ایک نصیحت ہے، اور ان کا یہ فرار کسی اور چیز سے نہیں اپنی ہی بھلائی کی بات سے ہے۔

(۳) ذکر بمعنیٰ شرف و اعزاز۔ اِس معنی کو اختیار کیا جائے تو آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ ہم وہ چیز ان کے پاس لائے ہیں جسے یہ قبول کریں تو انہی کو عزت اور سرفرازی نصیب ہوگی۔ اس سے ان کی یہ روگردانی کسی اَور چیز سے نہیں، اپنی ہی ترقی اور اپنے ہی اُٹھان کے ایک زرین موقع سے روگردانی ہے۔

70. یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے حق میں ایک اور دلیل ہے ۔ یعنی یہ کہ آپ اپنے اس کام میں بالکل بے لوث ہیں۔ کوئی شخص ایمانداری کے ساتھ یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ آپ یہ سارے پاپڑ اس لیے بیل رہےہیں کہ کوئی نفسانی غرض آپ کے پیشِ نظر ہے۔ اچھی خاصی تجارت چمک رہی تھی، اب افلاس میں مبتلا ہوگئے۔ قوم میں عزت کے ساتھ دیکھے جاتے تھے۔ ہر شخص ہاتھوں ہاتھ لیتا تھا۔ اب گالیاں اور پتھر کھا رہے ہیں، بلکہ جان تک کے لالے پڑے ہیں۔ چین سے اپنے بیوی بچوں میں ہنسی خوشی دن گزار رہے تھے۔ اب ایک ایسی سخت کشمکش میں پڑ گئے ہیں جو کسی دم قرار نہیں لینے دیتی۔ اس پر مزید یہ کہ بات وہ لے کر اُٹھے ہیں جس کی بدولت سارا ملک دشمن ہو گیا ہے ، حتٰی کہ خود اپنے ہی بھائی بند خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک خود غرض آدمی کے کرنے کا کام ہے؟ خود غرض آدمی اپنی قوم اور قبیلے کے تعصبات کا عَلَم بردار بن کر اپنی قابلیت اور جوڑ توڑ سے سرداری حاصل کرنے کی کوشش کرتا ، نہ کہ وہ بات لے کر اُٹھتا جو صرف یہی نہیں کہ تمام قومی تعصبات کے خلاف ایک چیلنج ہے، بلکہ سرے سے اُس چیز کی جڑ ہی کاٹ دیتی ہے جس پر مشرکینِ عرب میں اس کے قبیلے کی چودھراہٹ قائم ہے۔ یہ وہ دلیل ہے جس کو قرآن میں نہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی، بلکہ بالعموم تمام انبیاء علیہم السّلام کی صداقت کے ثبوت میں بار بار پیش کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو الانعام، آیت ۹۰۔ یونس ۷۲۔ ہُود، ۲۹ – ۵۱۔ یوسف ۱۰۴۔ الفرقان، ۵۷۔ اشعراء، ۱۰۹ – ۱۲۷ – ۱۴۵ – ۱۶۴ – ۱۸۰۔ سباء، ۴۷۔ یٰسین، ۲۱۔ ص، ۸۶۔ الشوریٰ، ۲۳۔ النجم ۴۰ مع حواشی۔

71. یعنی آخرت کے انکار نے ان کو غیر ذمہ دار ، اور احساس ذمہ داری کے فقدان نے ان کو بے فکر بنا کر رکھ دیا ہے۔ جب وہ سرے سے یہی نہیں سمجھتے کہ ان کی اس زندگی کا کوئی مآل اور نتیجہ بھی ہے اور کسی کے سامنے اپنے اس پورے کارنامۂ حیات کا حساب بھی دینا ہے، تو پھر انہیں اس کی کیا فکر ہو سکتی ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا۔ جانوروں کی طرح ان کی بھی غایتِ مقصود بس یہ ہے کہ ضروریات ِ نفس و جسم خوب اچھی طرح پوری ہوتی رہیں۔ یہ مقصود حاصل ہو تو پھر حق و باطل کی بحث ان کے لیے محض لا یعنی ہے۔ اور اس مقصد کے حصول میں کوئی خرابی رونما ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ وہ جو کچھ سوچیں گے وہ صرف یہ کہ اُس خرابی کا سبب کیا ہے اور اسے کس طرح دُور کیا جا سکتا ہے ۔ راہِ راست اس ذہنیت کے لوگ نہ چاہ سکتے ہیں نہ پا سکتے ہیں۔

72. اشارہ ہے اُس تکلیف و مصیبت کی طرف جس میں وہ قحط کی بدولت پڑے ہوئے تھے ۔ اس قحط کے متعلق روایات نقل کرتے ہوئے بعض لوگوں نے دو قحطوں کے قصوں کو خلط ملط کر دیا ہے جس کی وجہ سے آدمی کو یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے یا بعد کا۔ اصل معاملہ یہ ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں اہلِ مکہ کو دو مرتبہ قحط سے سابقہ پیش آیا ہے۔ ایک نبوت کے آغاز سے کچھ مدت بعد۔ دوسرا ہجرت کے کئی سال بعد جبکہ ثُمامہ بن اُثال نے یَمامہ سے مکّے کی طرف غلّے کی بر آمد روک دی تھی۔ یہاں ذکر دوسرے قحط کا نہیں بلکہ پہلے قحط کا ہے۔ اس کے متعلق صحیحین میں ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ جب قریش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے سے پیہم انکار کیا اور سخت مزاحمت شروع کر دی تو حضور ؐ نے دعا کہ کہ اللھم اعنی علیہم بسبع کسبع یوسف ، ”خدایا، ان کے مقابلے میں میری مدد یوسف کے ہفت سالہ قحط جیسے سات برسوں سے کر“۔ چنانچہ ایسا سخت قحط شروع ہوا کہ مردار تک کھانے کی نوبت آگئی۔ اس قحط کی طرف مکی سورتوں میں بکثرت اشارات ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الانعام، ۴۲ تا ۴۴۔ الاعراف ۹۴ تا ۹۹۔ یُونس، ۱۱ – ۱۲ – ۲۱۔ النحل ، ۱۱۲ – ۱۱۳۔ الدخان، ۱۰ تا ۱۶ مع حواشی۔

73. اصل میں لفظ مُبْلِسُوْن استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم مایوسی سے ادا نہیں ہوتا۔ بَلَس اور اِبْلَاس کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ حیرت کی وجہ سے دنگ ہو کر رہ جانا۔ خوف اور دہشت کے مارے دم بخود ہو جانا۔ رنج و غم کے مارے دل شکستہ ہو جانا۔ ہر طرف سے نا اُمید ہو کر ہمت توڑ بیٹھنا۔ اور اسی کا ایک پہلو مایوسی و نامرادی کی وجہ سے برافروختہ (Desperate ) ہوجانا بھی ہے جس کی بنا پر شیطان کا نام ابلیس رکھا گیا ہے۔ اس نام میں یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ یاس اور نامرادی (Frustration ) کی بنا پر اُس کا زخمی تکبّر اس قدر بر انگیختہ ہو گیا ہے کہ اب وہ جان سے ہاتھ دھو کر ہر بازی کھیل جانے اور ہر جرم کا ارتکاب کر گزرنے پر تُلا ہوا ہے۔