74. مطلب یہ ہے کہ بد نصیبو ، یہ آنکھ کان اور دل و دماغ تم کو کیا اس لیے دیے گئے تھے کہ ان سے بس و ہ کام لو جو حیوانات لیتے ہیں؟ کیا ان کا صرف یہی مصرف ہے کہ تم جانوروں کی طرح جسم اور نفس کے مطالبات پورے کرنے کے ذرائع ہی تلاش کرتے رہو اور ہر وقت اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے کی تدبیریں ہی سوچتے رہا کرو؟ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی ناشکری ہو سکتی ہے کہ تم بنائے تو گئے تھے انسان اور بن کر رہ گئے نرے حیوان؟ جن آنکھوں سے سب کچھ دیکھا جائے مگر حقیقت کی طرف رہنمائی کرنے والے نشانات ہی نہ دیکھے جائیں ، جن کانوں سے سب کچھ سُنا جائے مگر ایک سبق آموز بات ہی نہ سُنی جائے، اور جس دل و دماغ سے سب کچھ سوچا جا ئے مگر بس یہی نہ سوچا جائے کہ مجھے یہ وجود کیسے ملا ہے، کس لیےملا ہے اور کیا میری زندگی کی غایت ہے، حیف ہے اگر وہ پھر ایک بیل کے بجائے ایک انسان کے ڈھانچے میں ہوں۔
75. ”علم کے ذرائع (حواس اور قوتِ فکر) اور اُن کے مصرف ِ صحیح سے انسان کی غفلت پر متنبہ کرنے کے بعد اب اُن نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئِ ہے جن کا مشاہدہ اگر کھلی آنکھوں سے کیا جائے اور جن کی نشاندہی سے اگر صحیح طور پر استدلال کیا جائے، یا کُھلے کانوں سے کسی معقول استدلال کو سنا جائے ، تو آدمی حق تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ بھی معلوم کر سکتا ہے کہ یہ کارخانۂ ہستی بے خدا، یا بہت سے خداؤں کا ساختہ و پرداختہ نہیں ہے، بلکہ توحید کی اساس پر قائم ہے۔ اور یہ بھی جان سکتا ہے کہ یہ بے مقصد نہیں ہے، نِرا کھیل اور محض ایک بے معنی طلسم نہیں ہے، بلکہ ایک مبنی بر حکمت نظام ہے جس میں انسان جیسی ذی اختیار مخلوق کا غیر جوابدہ ہونا اور بس یونہی مرکر مٹی ہو جانا ممکن نہیں ہے۔
76. واضح رہے کہ یہاں توحید اور حیات بعد الموت ، دونوں پر ایک ساتھ استدلال کیا جا رہا ہے ، اور آگے تک جن نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اُن سے شرک کے ابطال اور انکارِ آخرت کے ابطال دونوں پر دلیل لائی جارہی ہے۔
77. خیال رہے کہ اُن کا آخرت کو مستبعد سمجھنا صرف آخرت ہی کا انکار نہ تھا، خدا کی قدرت اور حکمت کا بھی انکار تھا۔
78. یعنی کیوں یہ بات نہیں سمجھتے کہ پھراس کے سوا کوئی بندگی کا مستحق بھی نہیں ہے ، اور اس کے لیے زمین کی اس آبادی کو دوبارہ پیدا کردینا بھی مشکل نہیں ہے۔
79. اصل میں لفظ لِلّٰہ استعمال ہوا ہے ، یعنی”یہ سب چیزیں بھی اللہ کی ہیں“۔ ہم نے ترجمے میں محض اُردو زبان کے حُسنِ کلام کی خاطر وہ اسلوب اختیار کیا ہے۔
80. یعنی، پھر کیوں تمہیں اُس سے بغاوت کرتے اور اُس کے سوا دوسروں کی بندگی کرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا؟ اور کیوں تم کو یہ خوف لاحق نہیں ہوتا کہ آسمان و زمین کے فرمانروا نے اگر کبھی ہم سے حساب لیا تو ہم کیا جواب دیں گے؟
81. اصل میں لفظ مَلَکُوْت استعمال ہوا ہے جس میں مُلک (بادشاہی) اور مِلک (مالکیت) ، دونوں مفہوم شامل ہیں، اور اس کے ساتھ یہ انتہائی مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس تفصیل کے لحاظ سے آیت کے پیش کر دہ سوال کا پورا مطلب یہ ہےکہ ” ہر چیز پر کامل اقتدار کس کا ہے اور ہر چیز پر پورے پورے مالکانہ اختیارات کس کو حاصل ہیں“؟
82. اصل الفاظ ہیں اَنّٰی تُسْخَرُوْنَ، جن کا لفظی ترجمہ ہے”کہاں سے تم مسحور کیے جاتے ہو“۔ سحر اور جادو کی حقیقت یہ ہےکہ وہ ایک چیز کو اس کی اصل ماہیت اور صحیح صورت کے خلاف بنا کر دکھاتا ہے اور دیکھنے والے کے ذہن میں یہ غلط تاثر پیدا کرتا ہے کہ اُس شے کی اصلیت وہ ہے جو بناوٹی طور پر ساحر پیش کر رہاہے۔ پس آیت میں جو سوا ل کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کس نے تم پر یہ سحر کر دیا ہے کہ یہ سب باتیں جاننے کے باوجود حقیقت تمہاری سمجھ میں نہیں آتی؟ کس کا جادو تم پر چل گیا ہے کہ جو مالک نہیں ہیں وہ تمہیں مالک یا اس کے شریک نظر آتے ہیں اور جنہیں کوئی اقتدار حاصل نہیں ہے وہ اصل صاحبِ اقتدار کی طرح، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تم کو بندگی کے مستحق محسوس ہوتے ہیں؟ کس نے تمہاری آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے کہ جس خدا کے متعلق خود مانتے ہو کہ اس کے مقابلے میں کوئی پناہ دینے والا نہیں ہے اُس سے غدّاری و بے وفائی کرتے ہو اور پھر بھروسہ اُن کی پناہ پر کر رہے ہو جو اُس سے تم کو نہیں بچا سکتے؟ کس نے تم کو اس دھوکے میں ڈال دیا ہے کہ جو ہر چیز کا مالک ہے وہ تم سے کبھی نہ پوچھے گا کہ تم نے میری چیزوں کو کس طرح استعمال کیا، اور جو ساری کائنات کا بادشاہ ہے وہ کبھی تم سے اس کی باز پرس نہ کرے گا کہ میری بادشاہی میں تم اپنی بادشاہیاں چلانے یا دوسروں کی بادشاہیاں ماننے کے کیسے مجاز ہو گئے؟ سوا ل کی یہ نوعیت اور زیادہ معنی خیز ہو جاتی ہے جب یہ بات پیش نظر رہے کہ قریش کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کا الزام رکھتے تھے۔ اس طرح گویا سوال کے انہی الفاظ میں یہ مضمون بھی ادا ہو گیا کہ بیوقوفو! جو شخص تمہیں اصل حقیقت (وہ حقیقت جسے تمہارے اپنے اعترافات کے مطابق حقیقت ہونا چاہیے) بتاتا ہے وہ تو تم کو نظر آتا ہے جادوگر ، اور جو لوگ تمہیں رات دن حقیقت کے خلاف باتیں باور کراتے رہتے ہیں ، حتٰی کہ جنہوں نے تم کو صریح عقل اور منطق کے خلاف، تجربے اور مشاہدے کے خلاف، تمہاری اپنی اعتراف کردہ صداقتوں کے خلاف ، سراسر جھوٹی اور بے اصل باتوں کا معتقد بنا دیا ہے۔ ا ُن کے بارے میں کبھی تمہیں یہ شبہہ نہیں ہوتا کہ اصل جادوگر تو وہ ہیں۔
83. یعنی اپنے اس قول میں جھوٹے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو بھی الوہیت (خدائی کی صفات ، اختیارات اور حقوق، یا ان میں سے کوئی حصّہ) حاصل ہے۔ اور اپنے اس قول میں جھوٹے کہ زندگی بعد ِ موت ممکن نہیں ہے۔ اُن کا جھوٹ اُن کے اپنے اعترافات سے ثابت ہے۔ ایک طرف یہ ماننا کہ زمین و آسمان کا مالک اور کائنات کی ہر چیز کا مختار اللہ ہے، اور دوسری طرف یہ کہنا کہ خدائی تنہا اسی کی نہیں ہے بلکہ دوسروں کا بھی ( جولا محالہ اُس کے مملوک ہی ہوں گے) اُس میں کوئی حصّہ ہے، یہ دونوں باتیں صریح طور پر ایک دوسرے سے متناقض ہیں۔ اسی طرح ایک طرف یہ کہنا کہ ہم کو اور اِس عظیم الشان کائنات کو خدا نے پیدا کیا ہے، اور دوسری طرف یہ کہنا کہ خدا اپنی ہی پیدا کردہ مخلوق کو دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا، صریحًا خلافِ عقل ہے۔ لہٰذا ان کی اپنی مانی ہوئی صداقتوں سے یہ ثابت ہے کہ شرک اور انکارِ آخرت ، دونوں ہی جھوٹے عقیدے ہیں جو انہوں نے اختیار کر رکھے ہیں۔
84. یہاں کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ ارشاد محض عیسائیت کی تردید میں ہے۔ نہیں ، مشرکین عرب بھی اپنے معبودوں کو خدا کی اولاد قرار دیتے تھے ، اور دنیا کے اکثر مشرکین اس گمراہی ہیں ان کے شریک حال رہے ہیں۔ چونکہ عیسائیوں کا عقیدۂ ”ابن اللہ“ زیادہ مشہور ہو گیا ہے ا س لیے بعض اکابر مفسرین تک کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی کہ یہ آیت اسی کی تردید میں وارد ہوئی ہے۔ حالانکہ ابتدا سے روئے سخن کفارِ مکّہ کی طرف ہے اور آخر تک ساری تقریر کے مخاطب وہی ہیں۔ اس سیاق و سباق میں یکایک عیسائیوں کی طرف کلام کا رُخ پھر جانا بے معنی ہے۔ البتہ ضمنًا اس میں اُن تمام لوگوں کے عقائد کی تردید ہو گئی ہے جو خد ا سے اپنے معبودوں یا پیشواؤں کا نسب ملاتے ہیں، خواہ وہ عیسائی ہوں یا مشرکین ِ عرب یا کوئی اور۔
85. یعنی یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ کائنات کی مختلف قوتوں اور مختلف حصوں کے خالق اور مالک الگ الگ خدا ہوتے اور پھر ان کے درمیان ایسا مکمل تعاون ہوتا جیسا کہ تم اس پورے نظامِ عالم کی بے شمار قوتوں اور بے حدو حساب چیزوں میں ، اَن گنت تاروں اور سیّاروں میں پا رہے ہو۔ نظام کی باقاعدگی اور اجزائے نظا م کی ہم آہنگی اقتدار کی مرکزیت و وحدت پر خود دلالت کر رہی ہے۔ اگر اقتدار بٹا ہوا ہو تا تو اصحابِ اقتدار میں اختلاف رونما ہو نا یقینًا ناگزیر تھا۔ اور یہ اختلاف ان کے درمیان جنگ اور تصادم تک پہنچے بغیر نہ رہ سکتا تھا ۔ یہی مضمون سورۂ انبیاء میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ لَوْ کَانَ فِیْھِمَآ اٰلِھَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا، (آیت ۲۲) ” اگر زمین اور آسمان میں اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو دونوں کا نظام بگڑ جاتا“۔ اور یہی استدلال سُورۂ بنی اسرائیل میں گزر چکا ہے کہ لَوْ کَانَ مَعَہٗ اٰلِھَۃٌ کَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّا بْتَغَوْ ا اِلٰی ذِی الْعَرْ شِ سَبِیْلًا o (آیت ۴۲) ”اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے ،جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں، تو ضرور وہ مالکِ عرش کے مقام پر پہنچنے کی کوشش کرتے“۔ ( تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جدل دوم ، بنی اسرائیل، حاشیہ نمبر ۴۷۔ جلد سوم، الانبیاء ، حاشیہ نمبر ۲۲)۔
86. اس میں ایک لطیف اشارہ ہے اُس خاص قسم کے شرک کی طر ف جس نے پہلے شفاعت کے مشرکانہ عقیدے کی ، اور پھر غیر اللہ کے لیے علمِ غیب (علم ما کان و مایکون) کے اثبات کی شکل اختیار کر لی ۔ یہ آیت اِس شرک کے دونوں پہلوؤں کی تردید کر دیتی ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم ، طٰہٰ ،حواشی ۸۵ – ۸۶۔ الانبیاء ، حاشیہ ۲۷)۔