87. اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کہ معاذاللہ اُس عذاب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبتلا ہو جانے کا فی الواقع کوئی خطرہ تھا، یا یہ کہ اگر آپ یہ دعا مانگتے تو اس میں مبتلا ہو جاتے۔ بلکہ اس طرح کا انداز بیان یہ تصور دلانے کے اختیار کیا گیا ہے کہ خدا کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق چیز۔ وہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا مطالبہ کیا جائے، اور اگر اللہ اپنی رحمت اور اپنے حلم کی وجہ سے اس کے لانے میں دیر کر ے تو اطمینان کے ساتھ شرارتوں اور نافرمانیوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ درحقیقت وہ ایسی خوفناک چیز ہے کہ گناہ گاروں ہی کو نہیں، نیکوکاروں کو بھی اپنی ساری نیکیوں کے باوجود اس سے پناہ مانگنی چاہیے۔ علاوہ بریں اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اجتماعی گناہوں کی پاداش میں جب عذاب کی چکّی چلتی ہے تو صرف بُرے لوگ ہی اس میں نہیں پِستے ، بلکہ ان کے ساتھ ساتھ بھلے لوگ بھی بسا اوقات لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ لہٰذا ایک گمراہ اور بدکار معاشرے میں رہنے والے ہر نیک آدمی کو ہر وقت خدا کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے ۔ کچھ خبر نہیں کہ کس صورت میں ظالموں پر قہر الہٰی کا کوڑا برسنا شروع ہو جائے اور کون اس کی زد میں آجائے۔
88. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول، الانعام، حواشی ۷۱، ۷۲۔ جلد دوم، الاعراف، حواشی ۱۳۸ – ۱۵۰ تا ۱۵۳۔ یونس، حاشیہ ۳۹۔ الحجر، حاشیہ ۴۸۔ النحل، حواشی ۱۲۲ تا ۱۲۴۔ بنی اسرائیل، حواشی ۵۸ تا ۶۳۔ حٰم السجدہ، حواشی ۳۶ تا ۴۱۔
89. اصل میں رَبِّ ارْجِعُوْنِ کے الفاظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو خطاب کر کے جمع کے صیغے میں درخواست کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ یہ تعظیم کے لیے ہو، جیسا کہ تمام زبانوں میں طریقہ ہے۔ اور دوسری وجہ بعض لوگوں نے یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ لفظ تکرارِ دُعا کا تصوّر دلانے کےلیے ہے، یعنی وہ اِرْجِعْنِیْ اِرْجِعْنِیْ (مجھے واپس بھیج دے، مجھے واپس بھیج دے) کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض مفسرین نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ رَبِّ کا خطاب اللہ تعالیٰ سے ہے اور ارْجِعُوْنِ کا خطاب اُن فرشتوں سے جو اس مجرم روح کو گرفتار کر کے لیے جا رہے ہوں گے ۔ یعنی بات یوں ہے : ”ہائے میرے ربّ ، مجھ کو واپس کر دو“۔
90. یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے کہ مجرمین موت کی سرحد میں داخل ہونے کے وقت سے لے کر آخرت میں واصل بجہنم ہونے تک ، بلکہ اس کے بعد بھی، بار بار یہی درخواستیں کرتے رہیں گے کہ ہمیں بس ایک دفعہ دنیا میں اور بھیج دیاجائے، اب ہماری توبہ ہے، اب ہم کبھی نافرمانی نہیں کریں گے، اب ہم سیدھی را ہ چلیں گے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الانعام، آیات ۲۷، ۲۸۔ الاعراف، ۵۳۔ ابراہیم ، ۴۴، ۴۵۔ المومنون، ۱۰۵ تا ۱۱۵۔ الشعراء، ۱۰۲۔ السجدہ، ۱۲ تا ۱۴۔ فاطر، ۳۷۔ الزمر، ۵۸ – ۵۹۔ المومن، ۱۰ تا ۱۲۔ الشوریٰ، ۴۴۔ مع حواشی)۔
91. یعنی اس کو واپس نہیں بھیجا جائے گا ۔ از سرِ نو عمل کرنے کے لیے کوئی دوسرا موقع اب اسے نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں دوبارہ امتحان کے لیے آدمی کو اگر واپس بھیجا جائے تو لا محالہ دو صورتوں میں سے ایک ہی صورت اختیار کرنی ہو گی۔ یا تو اس کے حافظے اور شعور میں وہ سب مشاہدے محفوظ ہوں جو مرنے کے بعد اس نے کیے۔ یا ان سب کو محو کر کے اسے پھر ویسا ہی خالی الذ ہن پیدا کیا جائے جیسا وہ پہلی زندگی میں تھا۔ اول الذکر صورت میں امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا ہے ۔کیونکہ اس دنیا میں تو آدمی کا امتحان ہے ہی اس بات کا کہ وہ حقیقت کا مشاہدہ کیے بغیر اپنی عقل سے حق کو پہچان کر اسے مانتا ہے کہ نہیں ، اور طاعت و معصیت کی آزادی رکھتے ہوئے ان دونوں راہوں میں سے کس راہ کو انتخاب کرتا ہے۔ اب اگر اسے حقیقت کا مشاہدہ بھی کرا دیا جائے اور معصیت کا انجام عملًا دکھا کر معصیت کے انتخاب کی راہ بھی اس پر بند کر دی جائے تو پھر امتحان گاہ میں اسے بھیجنا فضول ہے۔ ا س کے بعد کون ایمان نہ لائے گا اور کون طاعت سے منہ موڑ سکے گا۔ رہی دوسری صورت، تو یہ آزمودہ را آزمودن کا ہم معنی ہے ۔ جو شخص ایک دفعہ اسی امتحان میں ناکام ہوچکا ہے اُسے پھر بعینہٖ ویسا ہی ایک اور امتحان دینے لیے بھیجنا لا حاصل ہے، کیونکہ وہ پھر وہی کچھ کرے گا جیسا پہلے کر چکا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ ۲۲۸۔ الانعام، حواشی ۶ – ۱۳۹ – ۱۴۰۔ جلد دوم، یونس، حاشیہ ۲۶)۔
92. یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ ”یہ تو اب اسے کہنا ہی ہے“۔ مطلب یہ ہےکہ اس کی یہ بات قابلِ التفات نہیں ہے۔ شامت آجانے کے بعد اب وہ یہ نہ کہے گا تو اور کیاکہے گا۔ مگر یہ محض کہنے کی بات ہے۔ پلٹے گا تو پھر وہی کچھ کرے گا جو کر کے آیا ہے۔ لہٰذا اِسے بکنے دو۔ واپسی کا دروازہ اس پر نہیں کھولا جا سکتا۔
93. ”برزخ“ فارسی لفظ” پردہ“ کا معرّب ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اب اِن کے اور دنیا کے درمیان ایک روک ہے جو انہیں واپس جانے نہیں دے گی، اور قیامت تک یہ دنیا اور آخرت کے درمیان کی اِس حد ِ فاصل میں ٹھیرے رہیں گے۔
94. اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ باپ باپ نہ رہے گا اور بیٹا بیٹا ہ رہے گا۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ اُس وقت نہ باپ بیٹے کے کام آئے گا نہ بیٹا باپ کے۔ ہر ایک اپنے حال میں کچھ اس طرح گرفتار ہو گا کہ دوسرے کو پوچھنے تک کا ہوش نہ ہوگا کجا کہ اس کے ساتھ کوئی ہمدردی یا اُس کی کوئی مدد کر سکے۔ دوسرے مقامات پر اس مضمون کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ وَلَا یَسْئَلُ حَمِیْمٌ حَمِیْمًا، ”کوئی جگری دوست اپنے دوست کو نہ پوچھے گا“۔ (المعارج ، آیت ۱۰) اور یَوَدُّ الْمُجْرِ مُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْ مَئِذٍم بِبَنِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَاَ خِیْہِ وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُؤْ وِیْہِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَّ یُنْجِیْہِ،”اس روز مجرم کا جی چاہے گا کہ اپنی اولاد اور بیوی اور بھائی اور اپنی حمایت کرنے والے قریب ترین کنبے اور دنیا بھر کے سب لوگوں کو فدیے میں دے دے اور اپنے آپ کو عذاب سے بچا لے“ (المعارج آیات ۱۱ تا ۱۴) اور یَوْ مَ یَفِرُّ الْمَرْ ءُ مِنْ اَخِیْہِ وَ اُمِّہٖ وَ اَبِیْہِ وَ صَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ لِکُلِّ امْرِ ئِ مِّنْھُمْ یَوْمَئِذٍ شَانٌ یُّغْنِیْہِ، ”وہ دن کہ آدمی اپنے بھائی اور ماں باپ اور بیوی اور اولاد سے بھاگے گا ۔ اس روز ہر شخص اپنے حال میں ایسا مبتلا ہو گا کہ اسے کسی کا ہوش نہ رہے گا“ (عبس، آیات ۳۴ تا ۳۷)۔
95. یعنی جن کے قابلِ قدر اعمال وزنی ہوں گے ۔ جن کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے سے زیادہ بھاری ہوگا۔
96. آغاز سورہ میں ، اور پھر چوتھے رکوع میں فلاح اور خسران کا جو معیار پیش کیا جا چکا ہے اسے ذہن میں پھر تازہ کر لیجیے۔
97. اصل میں لفظ کَا لِحُوْنَ استعمال کیا گیا ہے۔ کالح عربی زبان میں اس چہرے کو کہتے ہیں جس کی کھال الگ ہو گئی ہو اور دانت باہر آگئے ہوں جیسے بکرے کی بھُنی ہوئی سری ۔ عبد اللہ بن مسعودؓ سے کسی نے کالح کے معنی پوچھے تو انہوں نے کہا اَلَمْ تَرَ اِلَی الرأ س المشیط؟” کیا تم نے بھُنی ہوئی سری نہیں دیکھی“؟
98. یعنی اپنی رہائی کے لیے کوئی عرض معروض نہ کرو۔ اپنی معذرتیں پیش نہ کرو۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیشہ کے لیے بالکل چپ ہو جاؤ۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ ان کا آخری کلام ہو گا جس کے بعد ان کی زبانیں ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گی۔ مگر یہ بات بظاہر قرآن کے خلاف پڑتی ہے کیونکہ آگے خود قرآن ہی ان کی اور اللہ تعالیٰ کی گفتگونقل کر رہا ہے۔ لہٰذا یا تو یہ روایات غلط ہیں، یا پھر ان کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد وہ رہائی کے لیے کوئی عرض معروض نہ کر سکیں گے۔
99. پھر اسی مضمون کا اعادہ ہے کہ فلاح کا مستحق کون ہے اور خسران کا مستحق کون۔
100. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، طٰہٰ، حاشیہ نمبر ۸۰۔
101. یعنی دنیا میں ہمارے نبی تم کو بتاتے رہے کہ یہ دنیا کی زندگی محض امتحان کی چند گنی چنی ساعتیں ہیں، اِنہی کو اصل زندگی اور بس ایک ہی زندگی نہ سمجھ بیٹھو۔ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے جہاں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ یہاں کے وقتی فائدوں اور عارضی لذتوں کی خاطر وہ کام نہ کرو جو آخرت کی ابدی زندگی میں تمہارے مستقبل کو برباد کر دینے والے ہوں۔ مگر اُس وقت تم نے ان کی بات سن کر نہ دی۔ تم اِس عالم ِ آخرت کا انکار کرتے رہے ۔ تم نے زندگی بعدِ موت کو ایک من گھڑت افسانہ سمجھا۔ تم اپنے اِس خیال پر مُصِر رہے کہ جینا اور مرنا جو کچھ ہے بس سی دنیا میں ہے، اور جو کچھ مزے لوٹنے ہیں یہیں لوٹ لینے چاہییں۔ اب پچھتانے سے کیا ہوتا ہے۔ ہوش آنے کا وقت تو وہ تھا جب تم دنیا کی چند روزہ زندگی کے لطف پر یہاں کی ابدی زندگی کے فائدوں کو قربان کر رہےتھے۔
102. اصل میں عَبَثًا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، جس کا ایک مطلب تو ہے”کھیل کے طور پر“۔ اور دوسرا مطلب ہے”کھیل کے لیے“۔ پہلی صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے،”کیا تم نے یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہیں یونہی بطور ِ تفریح بنا دیا ہے ، تمہاری تخلیق کی کوئی غرض و غایت نہیں ہے، محض ایک بے مقصد مخلوق بنا کر پھیلا دی گئی ہے“۔ دوسری صورت میں مطلب یہ ہوگا ،”کیا تم یہ سمجھتے تھے کہ تم بس کھیل کود اور تفریح اور ایسی لاحاصل مصروفیتوں کے لیے پیدا کیے گئے ہو جن کا کبھی کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے“۔
103. یعنی بالا و برتر ہے اِس سے کہ فعل ِ عبث کا ارتکاب اس سے ہو، اور بالا و برتر ہے اِس سے کہ اس کے بندے اور مملوک اس کی خدائی میں اس کے شریک ہوں۔
104. دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ”جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے اُس کے لیے اپنے اس فعل کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے“۔
105. یعنی وہ محاسبے اور باز پرس سے بچ نہیں سکتا۔
106. یہ پھر اسی مضمون کا اعادہ ہے کہ اصل میں فلاح پانے والے کون ہیں اور اس سے محروم رہنے والے کون۔
107. یہاں اِس دعا کی لطیف معنویت نگاہ میں رہے۔ ابھی چند سطر اوپر یہ ذکر آچکا ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ٔ کرام کے دشمنوں کو معاف کرنے سے یہ کہہ کر انکار فرمائے گا کہ میرے جو بندے یہ دعا مانگتے تھے، تم ان کا مذاق اُڑا تے تھے۔ اس کے بعد اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (اور ضمنًا صحابہ کرام کو بھی ) یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ تم ٹھیک وہی دعا مانگو جس کا ہم ابھی ذکر کر آئے ہیں۔ ہماری صاف تنبیہ کے باوجود اب اگر یہ تمہارا مذاق اُڑائیں تو آخرت میں اپنے خلاف گویا خود ہی ایک مضبوط مقدمہ تیار کر دیں گے۔