Tafheem ul Quran

Surah 24 An-Nur, Ayat 1-10

سُوۡرَةٌ اَنۡزَلۡنٰهَا وَفَرَضۡنٰهَا وَاَنۡزَلۡنَا فِيۡهَاۤ اٰيٰتٍۭ بَيِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ‏ ﴿24:1﴾ اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِىۡ فَاجۡلِدُوۡا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنۡهُمَا مِائَةَ جَلۡدَةٍ​وَّلَا تَاۡخُذۡكُمۡ بِهِمَا رَاۡفَةٌ فِىۡ دِيۡنِ اللّٰهِ اِنۡ كُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ​ۚ وَلۡيَشۡهَدۡ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏  ﴿24:2﴾ اَلزَّانِىۡ لَا يَنۡكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوۡ مُشۡرِكَةً  وَّ الزَّانِيَةُ لَا يَنۡكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوۡ مُشۡرِكٌ​ ۚ وَحُرِّمَ ذٰ لِكَ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏  ﴿24:3﴾ وَالَّذِيۡنَ يَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ ثُمَّ لَمۡ يَاۡتُوۡا بِاَرۡبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجۡلِدُوۡهُمۡ ثَمٰنِيۡنَ جَلۡدَةً وَّلَا تَقۡبَلُوۡا لَهُمۡ شَهَادَةً اَبَدًا​ ۚ وَاُولٰٓـئِكَ هُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ۙ‏ ﴿24:4﴾ اِلَّا الَّذِيۡنَ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِكَ وَاَصۡلَحُوۡا​ۚ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿24:5﴾ وَالَّذِيۡنَ يَرۡمُوۡنَ اَزۡوَاجَهُمۡ وَلَمۡ يَكُنۡ لَّهُمۡ شُهَدَآءُ اِلَّاۤ اَنۡفُسُهُمۡ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمۡ اَرۡبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ​ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيۡنَ‏ ﴿24:6﴾ وَالۡخَـامِسَةُ اَنَّ لَـعۡنَتَ اللّٰهِ عَلَيۡهِ اِنۡ كَانَ مِنَ الۡكٰذِبِيۡنَ‏  ﴿24:7﴾ وَيَدۡرَؤُا عَنۡهَا الۡعَذَابَ اَنۡ تَشۡهَدَ اَرۡبَعَ شَهٰدٰتٍۢ بِاللّٰهِ​ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الۡكٰذِبِيۡنَۙ‏ ﴿24:8﴾ وَالۡخَـامِسَةَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰهِ عَلَيۡهَاۤ اِنۡ كَانَ مِنَ الصّٰدِقِيۡنَ‏  ﴿24:9﴾ وَلَوۡلَا فَضۡلُ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهٗ وَاَنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿24:10﴾

1 - یہ ایک سُورت ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے، اور اسے ہم نے فرض کیا ہے، اور اس میں ہم نے صاف صاف ہدایات نازل کی ہیں، 1 شایک کہ تم سبق لو۔ 2 - زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔ 2 اور ان پر ترس کھانے کا  جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامنگیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور  روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ 3 اور ان کو سزا دیتے وقت اہلِ ایمان کا ایک گروہ موجود رہے۔ 4 3 - زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ۔ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یہ مشرک۔ اور یہ حرام کر دیا گیا ہے اہلِ ایمان پر۔ 5 4 - اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، ان کو اَسّی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو، اور وہ خود ہی فاسق ہیں، 5 - سوائے اُن لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہو جائیں اور اصلاح کر لیں کہ اللہ ضرور (اُن کے حق میں)غفورو رحیم ہے۔ 6
6 - اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے اپنے سوا  دُوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو اُن میں سے ایک شخص کی شہادت (یہ ہے کہ وہ)چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (اپنے الزام میں)سچا ہے 7 - اور پانچویں بار کہے کہ اُس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ ( اپنے الزام میں)جھوٹا ہو۔ 8 - اور عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ یہ شخص (اپنے الزام میں)جھُوٹا ہے 9 - اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اُس بندی پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر وہ (اپنے الزام میں)سچا ہو۔ 7 10 - تم لوگوں پر اللہ کا فضل اور اس کا رحم نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا التفات فرمانے والا اور حکیم ہے، تو (بیویوں پر الزام کا معاملہ تمہیں بڑی پیچیدگی میں ڈال دیتا)۔  ؏١


Notes

1. ان سب فقروں میں”ہم نے“ پر زور ہے۔ یعنی اس کا نازل کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ”ہم“ ہیں۔ اس لیے اسے کسی بے زور ناصح کے کلام کی طرح ایک ہلکی چیز نہ سمجھ بیٹھنا۔ خوب جان لو کہ اس کا نازل کرنے والا وہ ہے جس کے قبضے میں تمہاری جانیں اور قسمتیں ہیں، اور جس کی گرفت سے تم مر کر بھی نہیں چھوٹ سکتے۔

دوسرے فقرے میں بتایا گیا ہے کہ جو باتیں اس سورے میں کہی گئی ہیں وہ ”سفارشات“ نہیں ہیں کہ آپ کا جی چاہے تو مانیں ورنہ جو کچھ چاہیں کرتے رہیں، بلکہ یہ قطعی احکام ہیں جن کی پیروی کرنا لازم ہے۔ اگر مومن اور مسلم ہو تو تمہارا فرض ہے کہ ان کے مطابق عمل کرو۔

تیسرے فقرے میں بتایا گیا ہے کہ جو ہدایات اس سورے میں دی جارہی ہیں ان میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ صاف صاف اور کھلی کھلی ہدایات ہیں جن کے متعلق تم یہ عذر نہیں کر سکتے کہ فلاں بات ہماری سمجھ ہی میں نہیں آئی تھی تو ہم عمل کیسے کرتے۔

بس یہ اس فرمان ِ مبارک کی تمہید (preamble) ہے جس کے بعد احکام شروع ہو جاتے ہیں۔ اس تمہید کا اندازِ بیان خود بتارہا ہے کہ سورۂ نور کے احکام کو اللہ تعالیٰ کتنی اہمیت دے کر پیش فر ما رہا ہے ۔ کسی دوسری احکامی سورت کا دیباچہ اتنا پر زور نہیں ہے۔

2. اس مسئلے کے بہت سے قانونی، اخلاقی اور تاریخی پہلو تشریح طلب ہیں جن کو اگر تفصیل کے ساتھ بیان نہ کیا جائے تو موجودہ زمانے میں ایک آدمی کے لیے اس تشریعِ الہٰی کا سمجھنا مشکل ہے۔ اس لیے ذیل میں ہم اس کے مختلف پہلوؤں پر سلسلہ وار روشنی ڈالیں گے:

(۱) زنا کا عام مفہوم ، جس سے ہر شخص واقف ہے، یہ ہے ”ایک مرد اور ایک عورت ، بغیر اس کے کہ ان کے درمیان جائز رشتۂ زن و شو ہو، باہم مباشرت کا ارتکاب کریں“۔ اس فعل کا اخلاقًا برا ہونا، یا مذہبًا گناہ ہونا ، یا معاشرتی حیثیت سے معیوب اور قابلِ اعتراض ہونا ، ایک ایسی چیز ہے جس پر قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام انسانی معاشرے متفق رہے ہیں، اور اس میں بجز اُن متفرق لوگوں کے جنہوں نے اپنی عقل کو اپنی نفس پرستی کے تابع کر دیا ہے، یا جنہوں نے خبطی پن کی اُپچ کو فلسفہ طرازی سمجھ رکھا ہے ، کسی نے آج تک اختلاف نہیں کیا ہے۔ اس عالمگیر اتفاقِ رائے کی وجہ یہ ہے کہ انسانی فطرت خود زنا کی حرمت کا تقاضا کرتی ہے۔ نوع انسانی کا بقاء اور انسانی تمدّن کا قیام ، دونوں اس بات پر منحصر ہیں کہ عورت اور مرد محض لطف اور لذت کے لیے ملنے اور پھر الگ ہو جانے میں آزاد نہ ہوں، بلکہ ہر جوڑے کا باہمی تعلق ایک ایسے مستقل اور پائیدار عہد ِ وفا پر استوار ہو جو معاشرے میں معلوم و معروف بھی ہو اور جسے معاشرے کی ضمانت بھی حاصل ہو۔ اس کے بغیر انسانی نسل ایک دن کے لیے بھی نہیں چل سکتی کیونکہ انسان کا بچہ اپنی زندگی اور اپنے انسانی نشونما کے لیے کئی برس کی درد مند انہ نگہداشت اور تربیت کا محتاج ہوتا ہے ، اور تنہا عورت اس بار کو اُٹھانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ مرد اس کا ساتھ نہ دے جو اس بچے کے وجود میں آنے کا سبب بنا ہو۔ اسی طرح اس معاہدے کے بغیر انسانی تمدّن بھی برقرار نہیں رہ سکتا، کیونکہ تمدّن کی تو پیدائش ہی ایک مرد اور ایک عورت کے مل کر رہنے ، ایک گھر اور ایک خاندان وجود میں لانے، اور پھر خاندانوں کے درمیان رشتے اور رابطے پیدا ہونے سے ہوئی ہے۔ اگر عورت اور مرد گھر اور خاندان کی تخلیق سے قطع نظر کر کے محض لطف و لذت کے لیے آزاد انہ ملنے لگیں تو سارے انسان بکھر کر رہ جائیں، اجتماعی زندگی کی جڑ کٹ جائے ، اور وہ بنیاد ہی باقی نہ رہے جس پر تہذیب و تمدّن کی یہ عمارت اُٹھی ہے۔ ان وجوہ سے عورت اور مرد کا ایسا آزادانہ تعلق جو کسی معلوم و معروف اور مسلّم عہد و فا پر مبنی نہ ہو، انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ انہی وجوہ سے انسان اِس کو ہر زمانے میں ایک سخت عیب ، ایک بڑی بد اخلاقی ، اور مذہبی اصطلاح میں ایک شدید گناہ سمجھتا رہا ہے۔ اور انہی وجوہ سے ہر زمانے میں انسانی معاشروں نے نکاح کی ترویج کے ساتھ ساتھ زنا کے سدِّ باب کی بھی کسی نہ کسی طور پر ضرور کوشش کی ہے۔ البتہ اس کوشش کی شکلوں میں مختلف قوانین اور اخلاقی و تمدنی اور مذہبی نظاموں میں فرق رہا ہے، جس کی بنیاد دراصل اس فرق پر ہے کہ نوع اور تمدن کے لیے زنا کے نقصان دہ ہونے کا شعور کہیں کم ہے اور کہیں زیادہ، کہیں واضح ہے اور کہیں دوسرے مسائل سے اُلجھ کر رہ گیا ہے۔

(۲) زنا کی حُرمت پر متفق ہونے کے بعد اختلاف جس امر میں ہوا ہے وہ اس کے جرم ، یعنی قانونًا مستلزمِ سزا ہونے کا مسئلہ ہے، اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے اسلام اور دوسرے مذاہب اور قوانین کا اختلاف شروع ہوتا ہے۔ انسانی فطرت سے قریب جو معاشرے رہے ہیں ، انہوں نے ہمیشہ زنا، یعنی عورت اور مرد کے ناجائز تعلق کو بجائے خود ایک جرم سمجھا ہے اور اس کے لیے سخت سزائیں رکھی ہیں ۔ لیکن جوں جوں انسانی معاشروں کو تمدّن خراب کرتا گیا ہے، رویّہ نرم ہو تا چلا گیا ہے۔

اس معاملے میں اوّلین تساہُل ، جس کا ارتکاب بالعموم کیا گیا ، یہ تھا کہ ”محض زنا“(Fornication ) اور ”زنا بزنِ غیر“(Adultery ) میں فرق کر کے ، اول الذکر کو ایک معمولی سی غلطی ، اور صرف مؤخر الذکر کو جرم مستلزم سزا قرار دیا گیا۔

محض زنا کی تعریف جو مختلف قوانین میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ”کوئی مرد، خواہ وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ ، کسی ایسی عورت سے مباشرت کرے جو کسی دوسرے شخص کی بیوی نہ ہو“۔ اس تعریف میں اصل اعتبار مرد کی حالت کا نہیں، بلکہ عورت کی حالت کا کیا گیا ہے۔ عورت اگر بے شوہر ہے تو اس سے مباشرت محض زنا ہے، قطع نظر اس سے کہ مرد بیوی رکھتا ہو یا نہ ہو۔ قدیم مصر، بابِل، آشور(اسیریا) اور ہندوستان کے قوانین میں اس کی سزا بہت ہلکی تھی۔ اسی قاعدے کو یونان اور روم نے اختیار کیا ، اور اسی سے آخر کار یہودی بھی متاثر ہوگئے۔ بائیبل میں یہ صرف ایک ایسا قصور ہے جس سے مرد پر محض مالی تاوان واجب آتا ہے ۔ کتاب ”خروج“ میں اس کے متعلق جو حکم ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:

” اگر کوئی آدمی کسی کنواری کو ، جس کی نسبت (یعنی منگنی) نہ ہوئی ہو پھُسلا کر اس سے مباشرت کر لے تو وہ ضرور ہی اسے مہر دے کر اس سے بیاہ کرلے، لیکن اگر اس کا باپ ہر گز راضی نہ ہو کہ اس لڑکی کو اُسے دے ، تو وہ کنواریوں کے مہر کے موافق (یعنی جتنا مہر کسی کنواری لڑکی کو دیا جاتا ہو) اسے نقدی دے“۔ (باب ۲۲۔ آیت ۱۶ – ۱۷)۔

کتاب ”استثناء“ میں یہی حکم ذرا مختلف الفاظ میں بیان ہوا ہے ، اور پھر تصریح کی گئی ہے کہ مرد سے لڑکی کے باپ کو پچاس مثقال چاندی (تقریبًا ۵۵ روپے) تاوان دلوایا جائے(باب ۲۲۔ آیت ۲۸ – ۲۹) البتہ اگر کوئی شخص کاہن (یعنی پروہت،Priest ) کی بیٹی سے زنا کرے تو اس کے لیے یہودی قانون میں پھانسی کی سزا ہے، اور لڑکی کے لیے زندہ جلانے کی (Everyman’s Talmud, P. 319-20 )۔

”جو شخص اپنی ذات کی کنواری لڑکی سے اس کی رضامندی کے ساتھ زنا کرے وہ کسی سزا کا مستحق نہیں ہے۔ لڑکی کا باپ راضی ہو تو وہ اس کو معاوضہ دے کر شادی کر لے۔ البتہ اگر لڑکی اونچی ذات کی ہو اور مرد نیچ ذات کا تو لڑکی کو گھر سے نکال دینا چاہیے اور مرد کو قطع اعضا کی سزا دینی چاہیے“ (ادھیائے ۸ اشلوک ۳۶۵، ۳۶۶) اور یہ سزا زندہ جلادیے جانے کی سزا میں تبدیل کی جا سکتی ہے جبکہ لڑکی برہمن ہو (اشلوک ۳۷۷)۔

دراصل ان سب قوانین میں زنا بزنِ غیر ہی اصلی اور بڑا جرم تھا یعنی یہ کہ کوئی شخص (خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ) کسی ایسی عورت سے مباشرت کرے جو دوسرے شخص کی بیوی ہو۔ اس فعل کے جرم ہونے کی بنیاد یہ نہ تھی کہ ایک مرد اور عورت نے زنا کا ارتکاب کیا ہے ، بلکہ یہ تھی کہ اُن دونوں نے مل کر ایک شخص کو اس خطرے میں مبتلا کر دیا ہے کہ اسے کسی ایسے بچے کو پالنا پڑے جو اس کا نہیں ہے۔ گویا زنا نہیں بلکہ اختلاطِ نسب کا خطرہ اور ایک کے بچے کا دوسرے کے خر چ پر پلنا اور اس کا وارث ہونا اصل بنائے جرم تھا جس کی وجہ سے عورت اور مرد دونوں مجرم قرار پاتے تھے۔ مصریوں کے ہاں اس کی سزا یہ تھی کہ مرد کو لاٹھیوں سے خوب پیٹا جائے اور عورت کی ناک کاٹ دی جائے ۔ قریب قریب ایسی ہی سزائیں بابل، اشور، اور قدیم ایران میں بھی رائج تھیں۔ ہندووں کے ہاں عورت کی سزا یہ تھی کہ اس کو کتوں سے پھڑوا دیا جائے اور مرد کو یہ کہ اسے لوہے کے گرم پلنگ پر لٹا کر چاروں طرف آگ جلا دی جائے ۔ یونان اور روم میں ابتداءً ایک مرد کو یہ حق حاصل تھا کہ اگر وہ اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو زنا کرتے دیکھ لے تو اسے قتل کر دے، یا چاہے تو اس سے مالی تاوان حاصل کر لے۔ پھر پہلی صدی قبل مسیح میں قیصر آگسٹس نے یہ قانون مقرر کیا کہ مرد کی آدھی جائداد ضبط کر کے اسے جلا وطن کر دیا جائے ، اور عورت کا آدھا مہر ساقط اور اس کی ۱/۳ جائداد ضبط کر کے اُسے بھی مملکت کے کسی دور دراز حصّے میں بھیج دیا جائے۔ قسطنطین نے اس قانون کو بدل کر عورت اور مرد دونوں کے لیے سزائے موت مقرر کی۔ لیو (leo) اور مارسِیَن (marcian) کے دَور میں اِس سزا کو حبسِ دوام میں تبدیل کر دیا گیا۔ پھر قیصر جَسٹینِیَن نے اس میں مزید تخفیف کر کے یہ قاعدہ مقرر کر دیا کہ عورت کو کوڑوں سے پیٹ کر کسی راہب خانے میں ڈال دیا جائے اور اس کے شوہر کو یہ حق دیا جائے کہ چاہے تو دوسال کے اندر اسے نکلوا لے، ورنہ ساری عمر وہیں پڑا رہنے دے۔

یہودی قانون میں زنا بزنِ غیر کے متعلق جو احکام پائے جاتے ہیں وہ یہ ہیں:

”اگر کوئی کسی ایسی عورت سے صحبت کر ے جو لونڈی اور کسی شخص کی منگیتر ہو اور نہ تو اس کا فدیہ ہی دیا گیا ہو اور نہ وہ آزاد کی گئی ہو، تو ان دونوں کو سزا ملے، لیکن وہ جان سے نہ مارے جائیں اس لیے کہ عورت آزاد نہ تھی“۔ (احبار ۱۹ – ۲۰)۔

”جو شخص دوسرے کی بیوی سے ، یعنی اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے وہ زانی اور زانیہ دونوں ضرور جان سے مار دیے جائیں“۔ (احبار ۲۰ – ۱۰)۔

”اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے ہوئے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں“۔(استثناء ۲۲ – ۲۲)۔

”اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسُوب ہو گئی ہو۔ (یعنی اس کی منگنی ہو) اور کوئی دوسرا آدمی اسے شہر میں پا کر اس سے صحبت کرے تو تم اُن دونوں کو اس شہر کے پھاٹک پر نکال لانا اور ان کو تم سنگسار کر دینا کہ وہ مر جائیں۔ لڑکی کو اس لیے کہ وہ شہر میں ہوتے ہوئے نہ چلّائی اور مرد کو اس لیے کہ اس نے اپنے ہمسائے کی بیوی کو بے حرمت کیا۔ پر اگر اس آدمی کو وہی لڑکی جس کی نسبت ہو چکی ہو، کسی میدان یا کھیت میں مل جائے اور وہ آدمی جبرًا اس سے صحبت کرے تو فقط وہ آدمی ہی جس نے صحبت کی مار ڈالا جائے پر اس لڑکی سے کچھ نہ کرنا“۔ (استثناء ۲۲ – ۲۳ تا ۲۶)۔

لیکن حضرت عیسیٰ ؑ کے عہد سے بہت پہلے یہودی علماء ، فقہاء، امراء اور عوام ، سب اس قانون کو عملًا منسُوخ کر چکے تھے۔ یہ اگرچہ بائِبل میں لکھا ہوا تھا کہ خدائی حکم اسی کو سمجھا جاتا تھا ، مگر اسے عملًا نافذ کرنے کا کوئی روادار نہ تھا، حتیٰ کہ یہودیوں کی تاریخ میں ا س کی کوئی نظیر تک نہ پائی جاتی تھی کہ یہ حکم کبھی نافذ کیا گیا ہو۔ حضرت عیسیٰ ؑ جب دعوتِ حق لے کراُٹھے اور علماء یہود نے دیکھا کہ اس سیلاب کو روکنے کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو رہی ہے تو وہ ایک چال کے طور پر ایک زانیہ عورت کو آپ کے پاس پکڑ لائے اور کہا اس کا فیصلہ فرمائیے (یوحنا باب ۸ ، آیت ۱ – ۱۱) ۔ اس سے ان کا مقصود یہ تھا کہ حضرت عیسیٰؑ کو کنویں یا کھائی ، دونوں میں سے کسی ایک میں کودنے پر مجبور کردیں۔ اگر آپ رجم کے سوا کوئی اور سزا تجویز کریں تو آپ کو یہ کہہ کر بدنام کیا جائے کہ لیجیے، یہ نرالے پیغمبر صاحب تشریف لائے ہیں جنہوں نے دنیوی مصلحتوں کی خاطر خدائی قانون کو بدل ڈالا۔ اور اگر آپ رجم کا حکم دیں تو ایک طرف رومی قانون سے آپ کو ٹکرا دیا جائے اور دوسری طرف قوم سے کہا جائے کہ مانو ان پیغمبر صاحب کو، دیکھ لینا، اب توراۃ کی پوری شریعت تمہاری پیٹھوں اور جانوں پر برسے گی۔ لیکن حضرت عیسیٰؑ نے ایک ہی فقرے میں ان کی چال کو انہی پر اُلٹ دیا۔ آپ نے فرمایا تم میں سے جو خود پاک دامن ہو وہ آگے بڑھ کر اسے پتھر مارے ۔ یہ سُنتے ہی فقیہوں کی ساری بھیڑ چھٹ گئی ، ایک ایک منہ چھپا کر رخصت ہو گیا ور ”حاملانِ شرعِ متین “ کی اخلاقی حالت بالکل برہنہ ہو کر رہ گئی ۔ پھر جب عورت تنہا کھڑی رہ گئی تو آپ نے اسے نصیحت فرمائی اور توبہ کرا کے رخصت کر دیا، کیونکہ نہ آپ قاضی تھے کہ اس مقدمے کا فیصلہ کر تے، نہ اُس پر کوئی شہادت قائم ہو ئی تھی ،اور نہ کوئی اسلامی حکومت قانونِ الہٰی نافذ کرنے کے لیے موجود تھی۔

حضرت عیسیٰؑ کے اس واقعہ سے اور آپ کے چند اور متفرق اقوال سے جو مختلف مواقع پر آپ نے ارشاد فرمائے، عیسائیوں نے غلط استنباط کر کے زنا کے جرم کا ایک اور تصور قائم کر لیا۔ ان کے ہاں زنا اگر غیر شادی شدہ مرد، غیر شادی شدہ عورت سے کرے تو یہ گناہ توہے، مگر جرم مستلزم سزا نہیں ہے۔ اور اگر اس فعل کا کوئی ایک فریق ، خواہ وہ عورت ہو یا مرد، شادی شدہ ہو ، یا دونوں شادی شدہ ہوں ، تو یہ جرم ہے، مگر اس کو جرم بنانے والی چیز دراصل ”عہد شکنی“ ہے نہ کہ محض زنا۔ ان کے نزدیک جس نے بھی شادی شدہ ہو کر زنا کا ارتکاب کیا وہ اس لیے مجرم ہے کہ اُس نے اُس عہدِ وفا کو توڑ دیا جو قربان گاہ کے سامنے اس نے پادری کے توسط سے اپنی بیوی یا اپنے شوہر کے ساتھ باندھا تھا۔ مگر اس جرم کی کوئی سزا اس کے سوا نہیں ہے کہ زانی مرد کی بیوی اپنے شوہر کے خلاف بے وفائی کا دعویٰ کر کے تفریق کی ڈگری حاصل کر لے اور زانیہ عورت کا شوہر ایک طر ف اپنی بیوی پر دعویٰ کر کے تفریق کی ڈگری لے اور دوسری طرف اُس شخص سے بھی تاوان لینے کا حق دار ہو جس نے اس کی بیوی کو خراب کیا۔ بس یہ سزا ہے جو مسیحی قانون شادی شدہ زانیوں اور زانیات کو دیتا ہے ، اور غضب یہ ہے کہ یہ سزا بھی د و دھاری تلوار ہے۔ اگر ایک عورت اپنےشوہر کے خلاف”بے وفائی“ کا دعویٰ کر کے تفریق کی ڈگری حاصل کر لے تو وہ بے وفا شوہر سے تو نجات حاصل کر لے گی ،لیکن مسیحی قانون کی رو سے پھر وہ عمر بھر کوئی دوسرا نکاح نہ کر سکے گی۔ اور ایسا ہی حشر اُس مرد کا بھی ہو گا جو بیوی پر ”بے وفائی“ کا دعویٰ کر کے تفریق کی ڈگری لے، کیونکہ مسیحی قانون اس کو بھی نکاحِ ثانی کا حق نہیں دیتا۔ گویا زوجین میں سے جس کو بھی تمام عمر راہب بن کر رہنا ہو وہ اپنے شریکِ زندگی کی بے وفائی کا شکوہ مسیحی عدالت میں لے جائے۔

موجودہ زمانے کے مغربی قوانین، جن کی پیروی اب خود مسلمانوں کے بھی بیشتر ممالک کر رہے ہیں، انہی مختلف تصوّرات پر مبنی ہے۔ ان کے نزدیک زنا، عیب یا بد اخلاقی یا گناہ جو کچھ بھی ہو، جرم بہر حال نہیں ہے۔ اسے اگر کوئی چیز جرم بنا سکتی ہے تو وہ جبر ہے، جبکہ فریقِ ثانی کی مرضی کے خلاف زبر دستی اس سے مباشرت کی جائے۔ رہا کسی شادی شدہ مرد کا ارتکابِ زنا ، تو وہ اگر وجہ شکایت ہے تو اس کی بیوی کے لیےہے، وہ چاہے تو اس کا ثبوت دے کر طلاق حاصل کر لے۔ اور زنا کی مرتکب اگر شادی شدہ عورت ہے تو اس کے شوہر کو نہ صرف اس کے خلاف بلکہ زانی مرد کے خلاف بھی وجہ شکایت پیدا ہو تی ہے، اور دونوں پر دعویٰ کر کے وہ بیوی سے طلاق اور زانی مرد سے تاوان وصول کر سکتا ہے۔

(۳) اسلامی قانون ان سب تصورات کے برعکس زنا کو بجائے خود ایک جُرم مستلزم ِ سزا قرار دیتا ہے اور شادی شدہ ہو کر زنا کرنا اس کے نزدیک جرم کی شدت کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے، نہ اس بنا پر کہ مجرم نے کسی سے”عہد شکنی“ کی ، یا کسی دوسرے کے بستر پر دست درازی کی، بلکہ اس بنا پر کہ اس کے لیے اپنی خواہشات کو پورا کرنے کا ایک جائز ذریعہ موجود تھا اور پھر بھی اس نے ناجائز ذریعہ اختیار کیا۔ اسلامی قانون زنا کو اس نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے کہ یہ وہ فعل ہے کہ جس کی اگر آزادی ہو جائے تو ایک طرف نوعِ انسانی کی اور دوسری طرف تمدّنِ انسانی کی جڑ کٹ جائے۔ نوع کی بقا ء اور تمدّن کے قیام ، دونوں کے لیے ناگزیر ہے کہ عورت اور مرد کا تعلق صرف قانون کے مطابق قابلِ اعتماد رابطے تک محدود ہو۔ اور اسے محدود رکھنا ممکن نہیں ہے اگر اس کے ساتھ ساتھ آزادانہ تعلق کی بھی کھلی گنجائش موجود رہے۔ کیونکہ گھر اور خاندان کی ذمہ داریوں کا بوجھ سنبھالے بغیر جہاں لوگوں کو خواہشاتِ نفس کی تسکین کے مواقع حاصل رہیں ، وہاں ان سے توقع نہیں کی جاسکتی کہ اِنہی خواہشات کی تسکین کے لیے وہ پھر اِتنی بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانے پر آمادہ ہوں گے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ریل میں بیٹھنے کے لیے ٹکٹ کی شرط بے معنی ہے اگر بلا ٹکٹ سفر کرنے کی آزادی بھی لوگوں کو حاصل رہے۔ ٹکٹ کی شرط اگر ضروری ہے تو اسے مؤثر بنانے کے لیے بلا ٹکٹ سفر کو جرم ہونا چاہیے ۔ پھر اگر کوئی شخص پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے بے ٹکٹ سفر کرے تو کم درجے کا مجرم ہے، اور مالدار ہوتے ہوئے بھی یہ حرکت کرے تو جرم اور زیادہ سخت ہو جاتا ہے۔

(۴) اسلام انسانی معاشرے کو زنا کے خطرے سے بچانے کے لیے صرف قانونی تعزیر کے ہتھیار پر انحصار نہیں کر تا، بلکہ اس کے لیے وسیع پیمانے پر اصلاحی اور انسدادی تدابیر استعمال کرتا ہے ، اور یہ قانونی تعزیر اس نے محض ایک آخری چارہ ٔ کار کے طور پر تجویز کی ہے۔ اس کا منشا یہ نہیں ہے کہ لوگ اس جرم کا ارتکاب کرتے رہیں اور شب و روز ان پر کوڑے برسانے کے لیے ٹکٹکیاں لگی رہیں، بلکہ اس کا منشا یہ ہے کہ لوگ اس کا ارتکاب نہ کریں اور کسی کو اس پر سزا دینے کی نوبت ہی نہ آنے پائے۔ وہ سب سے پہلے آدمی کے نفس کی اصلاح کرتا ہے ، اس کے دل میں عالم الغیب اور ہمہ گیر طاقت کے مالک خدا کا خوف بٹھاتا ہے ، اُسے آخرت کی باز پرس کا احساس دلاتا ہے جس سے مر کر بھی پیچھا نہیں چھوٹ سکتا ، اُس میں قانونِ الہٰی کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرتا ہے جو ایمان کا لازمی تقاضا ہے ، اور پھر اسے بار بار متنبہ کرتا ہے کہ زنا اور بے عصمتی اُن بڑے گناہوں میں سے ہے جن پر اللہ تعالیٰ سخت باز پرس کرے گا۔ یہ مضمون سارے قرآن میں جگہ جگہ آپ کے سامنے آتا ہے ۔ اس کے بعد وہ آدمی کے لیے نکاح کی تمام ممکن آسانیاں پیدا کرتا ہے ۔ ایک بیوی سے تسکین نہ ہو تو چار چار تک سے جائز تعلق کا موقع دیتا ہے۔ دل نہ ملیں تو مرد کے لیے طلاق اور عورت کے لیے خلع کی سہولتیں بہم پہنچاتا ہے۔ اور ناموافقت کی صورت میں خاندانی پنچایت سے لے کر سرکاری عدالت تک سے رجوع کا راستہ کھول دیتا ہے تا کہ یا تو مصالحت ہو جائے، یا پھر زوجین ایک دوسرے سے آزاد ہو کر جہاں دل ملے نکاح کر لیں۔ یہ سب کچھ سورۂ بقرہ ، سورۂ نساء، اور سورۂ طلاق میں دیکھ سکتے ہیں۔ ااور اسی سورۂ نور میں آپ ابھی دیکھیں گے کہ مردوں اور عورتوں کے بن بیاہے بیٹھے رہنے کو ناپسند کیا گیا ہے اور صاف حکم دے دیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کے نکاح کر دیے جائیں، حتیٰ کہ لونڈیوں اور غلاموں کو بھی مجرد نہ چھوڑا جائے ۔ پھر وہ معاشرے سے اُن اسباب کا خاتمہ کرتا ہے جو زنا کی رغبت دلانے والے، اس کی تحریک کرنے والے، اور اس کے لیے مواقع پیدا کرنے والے ہو سکتے ہیں۔ زنا کی سزا بیان کرنے سے ایک سال پہلے سورۂ احزاب میں عورتوں کو حکم دے دیا گیا تھا کہ گھر سے نکلیں تو چادریں اوڑھ کر اور گھونگھٹ ڈال کر نکلیں، اور مسلمان عورتوں کے لیے جس نبی کا گھر نمونے کا گھر تھا اس کی عورتوں کو ہدایت کر دی گئی تھی کہ گھروں میں وقار و سکنیت کے ساتھ بیٹھو، اپنے حسن اور بناؤ سنگھار کی نمائش نہ کرو، اور باہر کے مرد تم سے کوئی چیز لیں تو پردے کے پیچھے سے لیں۔ یہ نمونہ دیکھتے دیکھتے اُن تمام صاحب ایمان عورتوں میں پھیل گیا جن کےنزدیک زمانۂ جاہلیت کی بے حیا عورتیں نہیں بلکہ نبیؐ کی بیویاں اور بیٹیاں تقلید کے لائق تھیں۔ اس طرح فوجداری قانون کی سزا مقرر کرنے سےپہلے عورتوں اور مردوں کی خلط ملط معاشرت بند کی گئی، بنی سنوری عورتوں کا باہر نکلنا بند کیا گیا، اور ان اسباب و ذرائع کا دروازہ بند کر دیا گیا جو زنا کے مواقع اور اس کی آسانیاں بہم پہنچاتے ہیں۔ ان سب کے بعد جب زنا کی فوجداری سزا مقرر کی گئی تو آپ دیکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ اسی سورۂ نور میں اشاعتِ فحش کو بھی روکا جا رہا ہے، قحبہ گری (Prostitution ) کی قانونی بندش بھی کی جا رہی ہے، عورتوں اور مردوں پر بدکاری کے بے ثبوت الزام لگانے اور ان کے چرچے کرنے کے لیے بھی سخت سزا تجویز کی جا رہی ہے ، غضِّ بصر کا حکم دے کر نگاہوں پر پہرے بھی بٹھائے جا رہے ہیں تا کہ دیدہ بازی سے حسن پرستی تک اور حسن پرستی سے عشق بازی تک نوبت نہ پہنچے، اور عورتوں کو یہ حکم بھی دیا جا رہا ہے کہ اپنے گھروں میں محرم اور غیر محرم رشتہ داروں کے درمیان تمیز کریں اور غیر محرموں کے سامنے بن سنور کر نہ آئیں۔ اس سے آپ اُس پوری اصلاحی اسکیم کو سمجھ سکتے ہیں جس کے ایک جُز کے طور پر زنا کی قانونی سزا مقرر کی گئی ہے۔ یہ سزا اس لیے ہے کہ تمام داخلی و خارجی تدابیرِ اصلاح کے باوجود جو شریر النفس لوگ کھلے ہوئے جائز مواقع کو چھوڑ کرنا جائز طریقے سے ہی اپنی خواہشِ نفس پوری کرنے پر اصرار کریں ان کی کھال اُدھیڑ دی جائے، اور ایک بدکار کو سزا دے کر معاشرے کے اُن بہت سے لوگوں کا نفسیاتی آپریشن کر دیا جائے جو اس طرح کے میلانات رکھتے ہوں۔ یہ سزا محض ایک مجرم کی عقوبت ہی نہیں ہے بلکہ اس امر کا بالفعل اعلان بھی ہے کہ مسلم معاشرہ بدکاروں کی تفریح گاہ نہیں ہے جس میں ذوّاقین اور ذوّاقات اخلاقی قیود سے آزاد ہو کر مزے لوٹتے پھریں۔ اس نقطۂ نظر سے کوئی شخص اسلام کی اس اصلاحی اسکیم کو سمجھے تو وہ بآسانی محسوس کرلے گا کہ اس پوری اسکیم کا ایک جُز بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جا سکتا ہے اور نہ کم و بیش کیاجا سکتا ہے۔ اس میں ردّو بدل کا خیال یا تو وہ نادان کر سکتا ہے جو اسے سمجھنے کی صلاحیت رکھے بغیر مُصلح بن بیٹھا ہو ، یا پھر وہ مفسد ایسا کر سکتا ہے جس کی اصل نیت اُس مقصد کو بدل دینے کی ہو جس کے لیے یہ اسکیم حکیمِ مطلق نے تجویز کی ہے۔

(۵) زنا کو قابلِ سزا فعل تو سن ۳ ھجری میں ہی قرار دے دیا گیا تھا، لیکن اُس وقت یہ ایک ”قانونی“ جرم نہ تھا جس پر ریاست کی پولیس اور عدالت کوئی کارروائی کرے، بلکہ اس کی حیثیت ایک ”معاشرتی“ یا”خاندانی“ جرم کی سی تھی جس پر اہلِ خاندان ہی کو بطورِ خود سزا دے لینے کا اختیار تھا۔ حکم یہ تھا کہ اگر چار گواہ اِس امر کی شہادت دے دیں کہ انہوں نے ایک مرد اور ایک عورت کو زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے تو دونوں کو مارا پیٹا جائے ، اور عورت کو گھر میں قید کر لیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ اشارہ بھی کر دیا گیا تھا کہ یہ قاعدہ”تا حکمِ ثانی“ ہے، اصل قانون بعد میں آنے والا ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اوّل ، صفحہ ۳۳۱)۔ اس کے ڈھائی تین سال بعد یہ حکم نازل ہوا جو آپ اس آیت میں پا رہے ہیں، اور اس نے حکمِ سابق کو منسوخ کر کے زنا کو ایک قانونی جرم قابلِ دست اندازیِ سرکار(Cognizable Offence ) قرار دے دیا۔

(۶) اس آیت میں زنا کی جو سزا مقرر کی گئی ہے وہ دراصل”محض زنا“ کی سزا ہے، زنا بعدِ احصان (یعنی شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کے ارتکاب) کی سزا نہیں ہے جو اسلامی قانون کی نگاہ میں سخت تر جرم ہے۔ یہ بات خود قرآن ہی کے ایک اشارے سے معلوم ہو تی ہے کہ وہ یہاں اُس زنا کی سزا بیان کر رہا ہے جس کے فریقین غیر شادی شدہ ہوں۔ سورۂ نساء میں پہلے ارشاد ہوا کہ:

وَالّٰتِیْ یَاتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآ ئِکُمْ ۔۔۔۔۔۔ اَوْ یَجْعَلَ اللہُ لَھُنَّ سَبِیْلًا o (آیت ۱۵)

تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو، اور اگر وہ گواہی دے دیں تو ان کو گھر وں میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آجائے یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔


وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْ مِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْ مِنٰتِ ۔۔۔۔۔۔ فَاِ ذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَا حِشَۃٍ فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَ ابِ (آیت ۲۵)

اور تم میں سے جو لوگ اتنی مقدرت نہ رکھتے ہوں کہ مومنوں میں سے مُحصَنٰت کے ساتھ نکاح کریں تو وہ تمہاری مومن لونڈیوں سے نکاح کر لیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اگر وہ (لونڈیاں) مُحْصَنَہ ہو جانے کے بعد کسی بد چلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو محصَنٰت کو (ایسے جرم پر ) دی جائے۔

ان میں سے پہلی آیت میں توقع دلائی گئی ہے کہ زانیہ عورتیں جن کو سردست قید کر نے کا حکم دیا جا رہا ہے ، اُن کے لیے اللہ تعالیٰ بعد میں کوئی سبیل پیدا کرے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سورۂ نور کا یہ دوسرا حکم وہی چیز ہے جس کا وعدہ سورۂ نساء کی مذکورۂ بالا آیت میں کیا گیا تھا۔ دوسری آیت میں شادی شدہ لونڈی کے ارتکابِ زنا کی سزا بیان کی گئی ہے ۔ یہاں ایک ہی آیت اور ایک ہی سلسلہ ٔ بیان میں دو جگہ محصَنات کا لفظ استعمال ہوا ہے اور لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ دونوں جگہ اس کے ایک ہی معنی ہیں۔۔ اب آغاز کے فقرے کو دیکھیے تو وہاں کہا جا رہا ہے کہ جو لوگ”محصَنات سے نکاح کرنے کی مقدرت نہ رکھتے ہوں“۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد شادی شدہ عورت نہیں ہو سکتی بلکہ ایک آزاد خاندان کی بن بیاہی عورت ہی ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد اختتام کے فقرے میں فرمایا جاتا ہے کہ لونڈی منکوحہ ہونے کے بعد اگر زنا کرے تو اس کو اُس سزا سے آدھی سزا دی جائے جو محصَنات کو اس جرم پر ملنی چاہیے۔ سیاق و عبارت صاف بتاتا ہے کہ اس فقرے میں بھی محصنات کے معنی وہی ہیں جو پہلے فقرے میں تھے، یعنی شادی شدہ عورت نہیں بلکہ آزاد خاندان کی حفاظت میں رہنے والی بن بیاہی عورت۔ اس طرح سورۂ نساء کی یہ دونوں آیتیں مل کر اس امر کی طرف اشارہ کردیتی ہیں کہ سورۂ نور کا یہ حکم ،جس کا وہاں وعدہ کیا گیا تھا، غیر شادی شدہ لوگوں کے ارتکابِ زنا کی سزا بیان کرتا ہے (مزید توضیح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، النساء، حاشیہ ۴۶)۔

(۷) یہ امر کہ زنا بعدِ احصان کی سزا کیا ہے ، قرآن مجید نہیں بتاتا بلکہ اس کا علم ہمیں حدیث سے حاصل ہوتا ہے ۔ بکثرت معتبر روایات سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف قولًا اس کی سزا رجم (سنگساری) بیان فرمائی ہے ، بلکہ عملًا آپ نے متعدد مقدمات میں یہی سزا نافذ بھی کی ہے ۔ پھر آپ کے بعد چاروں خلفائے راشدین نے اپنے اپنے دَور میں یہی سزا نافذ کی اور اسی کے قانونی سزا ہونے کا بار بار اعلان کیا۔ صحابۂ کرام اور تابعین میں یہ مسئلہ بالکل متفق علیہ تھا۔ کسی ایک شخص کا بھی کوئی قول ایسا موجود نہیں ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکے کہ قرنِ اوّل میں کسی کو اس کے ایک ثابت شدہ حکم شرعی ہونے میں کوئی شک تھا۔ ان کے بعد تما م زمانوں اور ملکوں کے فقہائے اسلام اس بات پر متفق رہے ہیں کہ یہ ایک سنتِ ثابتہ ہے ، کیونکہ اس کی صحت کے اتنے متواتر اور قوی ثبوت موجود ہیں جن کے ہوتے کوئی صاحب ِ علم اس سے انکار نہیں کر سکتا ۔ امت کی پوری تاریخ میں بجز خوارج اور بعض معتزلہ کے کسی نے بھی اس سے انکار نہیں کیا ہے، اور ان کے انکار کی بنیاد بھی یہ نہیں تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حکم کے ثبوت میں وہ کسی کمزوری کی نشان دہی کر سکے ہوں ، بلکہ وہ اسے ”قرآن کے خلاف“ قرار دیتے تھے۔ حالانکہ یہ ان کے اپنے فہم قرآن کا قصور تھا۔ وہ کہتے تھے کہ قرآن الزّانی والزّانیۃ کے مطلق الفاظ استعمال کر کے اس کی سزا سو کوڑے بیان کرتا ہے ، لہٰذا قرآن کی رو سے ہر قسم کے زانی اور زانیہ کی سزا یہی ہے اور اس سے زانی مُحْصِن کو الگ کر کے اس کی کوئی اور سزا تجویز کرنا قانونِ خداوند کی خلاف ورزی ہے ۔ مگر انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ قرآن کے الفاظ جو قانونی وزن رکھتے ہیں وہی قانونی وزن ان کی اُس تشریح کا بھی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہو، بشرطیکہ وہ آپ ؐ سے ثابت ہو۔ قرآن نے ایسے ہی مطلق الفاظ میں السّارق والسّارقۃ کا حکم بھی قطع ید بیان کیا ہے۔ اس حکم کو اگر ان تشریحات سے مقید نہ کیا جائے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں تو اس کے الفاظ کی عمومیت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ایک سوئی یا ایک بیر کی چوری پر بھی آدمی کو سارق قرار دیں اور پھر پکڑ کر اس کا ہاتھ شانے کے پاس سے کاٹ دیں۔ دوسری طرف لاکھوں روپے کی چوری والا بھی اگر گرفتار ہو تے ہی کہہ دے کہ میں انے اپنے نفس کی اصلاح کر لی ہے اور اب میں چوری سے توبہ کرتا ہوں تو آپ کو اسے چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ قرآن کہتا ہے فَمَنْ تَابَ مِن بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللہَ یَتُوْبُ عَلَیْہِ (المائدہ ۔ آیت ۳۹)۔اسی طرح قرآن صرف رضاعی ماں اور رضاعی بہن کی حرمت بیان کرتا ہے، رضاعی بیٹی کی حرمت اس استدلال کی رو سے قرآن کےخلا ف ہونی چاہیے ۔ قرآن صرف دو بہنوں کے جمع کرنے سے منع کرتا ہے۔ خالہ اور بھانجی ، اور پھوپھی اور بھتیجی کے جمع کرنے کو جو شخص حرام کہے اس پر قرآن کے خلاف حکم لگانے کا الزام عائد ہونا چاہیے۔ قرآن صرف اُ س حالت میں سوتیلی بیٹی کو حرام کرتا ہے جبکہ اُ س نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہو۔ مطلقًا اس کی حرمت خلاف قرآن قرار پانی چاہیے۔ قرآن صرف اُس وقت رہن کی اجازت دیتا ہے جب کہ آدمی سفر میں ہو اور قرض کی دستاویز لکھنے والا کاتب میسر نہ آئے۔ حضر میں ، اور کاتب کے قابل حصول ہونے کی صورت میں رہن کا جواز قرآن کے خلاف ہو نا چاہیے۔ قرآن عام لفظوں میں حکم دیتا ہے وَاَشْھَدُوْآ اِذَا تَبَا یَعْتُمْ (گواہ بناؤ جب کہ آپس میں خرید و فروخت کرو)۔ اب وہ تمام خرید وفروخت ناجائز ہونی چاہیے جو رات دن ہماری دکانوں پر گواہی کے بغیر ہو رہی ہے۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں جن پر ایک نگاہ ڈال لینے سے ہی ان لوگوں کے استدلال کی غلطی معلوم ہو جاتی ہے جو رجم کے حکم کو خلافِ قرآن کہتے ہیں۔ نظامِ شریعت میں نبی کا یہ منصب ناقابلِ انکار ہے کہ وہ خدا کا حکم پہنچانے کے بعد ہمیں بتائے کہ اس حکم کا منشا کیا ہے، اُس پر عمل کرنے کا طریقہ کیا ہے ، کن معاملات پر اس کا اطلاق ہو گا، اور کن معاملات کے لیے دوسرا حکم ہے۔ اس منصب کا انکار صرف اصولِ دین ہی کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس سے اتنی عملی قباحتیں لازم آتی ہیں کہ ان کا شمار نہیں ہو سکتا۔

(۸) زنا کی قانونی تعریف میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ حنفیہ اس کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ ”ایک مرد کا کسی ایسی عورت سے قُبُل میں مباشرت کرنا جو نہ تو اس کےنکاح یا ملک یمین میں ہو اور نہ اس امر کے شبہ کی کوئی معقول وجہ ہو کہ اس نے منکوحہ یا مملوکہ سمجھتے ہوئے اس سے مباشرت کی ہے“۔ اس تعریف کی رو سے وطی فی الدُبُر، عملِ قومِ لوط، بہائم سے مجامعت وغیرہ، ماہیتِ زنا سے خارج ہو جاتے ہیں اور صرف عورت سے قُبُل میں مباشرت ہی پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جب کہ شرعی حق یا اس کے شبہ کے بغیر یہ فعل کیا گیا ہو۔ بخلاف اس کے شافعیہ اس کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں ”شرمگاہ کو ایسی شرمگاہ میں داخل کرنا جو شرعًا حرام ہو مگر طبعًا جس کی طرف رغبت کی جا سکتی ہو“۔ اور مالکیہ کے نزدیک اس کی تعریف یہ ہے کہ ”شرعی یا اس کے شبہ کے بغیر قُبُل یا دُبُر میں مرد یا عورت سے وطی کرنا“۔ ان دونوں تعریفوں کی رو سے عمل قوم ِ لوط بھی زنا میں شمار ہو جاتا ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ دونوں تعریفیں لفظ زنا کے معروف معنوں سے ہٹی ہوئی ہیں۔ قرآن مجید ہمیشہ الفاظ کو اُن کے معروف اور عام فہم معنی میں استعمال کرتا ہے ، الّا یہ کہ وہ کسی لفظ کو اپنی اصطلاحِ خاص بنا رہا ہو، اور اصطلاِح خاص بنانے کی صورت میں وہ خود اپنے مفہوم ِ خاص کو ظاہر کر دیتا ہے ۔ یہاں ایسا کوئی قرینہ نہیں ہے کہ لفظ زنا کو کسی مخصوص معنی میں استعمال کیا گیا ہو، لہٰذا اسے معروف معنی ہی میں لیا جائےگا، اور وہ عورت سے فطری مگر ناجائز تعلق تک ہی محدود ہے، شہوت رانی کی دوسری صورتوں تک وسیع نہیں ہوتا۔ علاوہ بریں یہ بات معلوم ہے کہ عملِ قوم ِ لوط کی سزا کے بارے میں صحابہ ٔ کرام کے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ اگر اس فعل کا شمار بھی اسلامی اصطلاح کی رو سے زنا میں ہوتا تو ظاہر ہے کہ اختلافِ رائے کی کوئی وجہ نہ تھی۔

(۹)قانونًا ایک فعلِ زنا کو مستلزمِ سزا قرار دینے کے لیے صرف اِدخالِ حشفہ کافی ہے۔ پوراا دخال یا تکمیلِ فعل اس کے لیے ضرور ی نہیں ہے ۔ اس کے برعکس اگر ادخال حشفہ نہ ہوتو محض ایک بستر پر یکجا پایا جانا، یا ملاعبت کرتے ہوئے دیکھا جانا ، یا برہنہ پایا جانا کسی کو زانی قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اور اسلامی شریعت اس حد تک بھی نہیں جاتی کہ کوئی جوڑا ایسی حالت میں پایا جائے تو اس کا ڈاکٹری معائنہ کرا کے زنا کا ثبوت بہم پہنچایا جائے اور پھر اس پر حدِّ زنا جاری کی جائے۔ جو لوگ اس طرح کی بے حیائی میں مبتلا پائے جائیں ان پر صرف تعزیر ہے جس کا فیصلہ حالات کے لحاظ سے حاکمِ عدالت خود کرے گا ، یا جس کے لیے اسلامی حکومت کی مجلس شوریٰ کوئی سزا تجویز کرنے کی مجاز ہو گی۔ یہ تعزیر اگر کوڑوں کی شکل میں ہو تو د س کوڑوں سے زیادہ نہیں لگائے جا سکتے ، کیونکہ حدیث میں تصریح ہے کہ لا یجلد فوق عشر جلداتٍ اِلَّا فی حدٍّ من حدود اللہ”اللہ کی مقرر کردہ حدود کے سوا کسی اور جرم میں دس کوڑوں سے زیادہ نہ مارے جائیں“(بخاری ، مسلم ، ابو داؤد)۔ اور اگر کوئی شخص پکڑا نہ گیا ہو بلکہ خود نادم ہو کر ایسے کسی قصور کا اعتراف کرے تو اس کے لیے صرف توبہ کی تلقین کافی ہے۔ عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے حاضر ہو عرض کیا کہ”شہر کے باہر میں ایک عورت سے سب کچھ کر گزرا بجز جماع کے۔ اب حضور جو چاہیں مجھے سزا دیں“۔ حضرت عمرؓ نے کہا”جب خدا نے پردہ ڈال دیا تھا تو تُو بھی پردہ پڑا رہنے دیتا“۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور وہ شخص چلا گیا۔ پھر آپؐ نے اسے واپس بلایا اور یہ آیت پڑھی اَقِمِ الصَّلوٰ ۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ ط اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ط ”نماز قائم کر دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر ، نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں“ (ہُود، آیت ۱۱۴)۔ ایک شخص نے پوچھا ”کیا یہ اسی کے لیے خاص ہے “؟ حضورؐ نے فرمایا”نہیں، سب کے لیے ہے۔“(مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی)۔ یہی نہیں بلکہ شریعت اس کو بھی جائز نہیں رکھتی کہ کوئی شخص اگر جرم کی تصریح کے بغیر اپنے مجرم ہونے کا اعتراف کرے تو کھوج لگا کر اس سے پوچھا جائے کہ تُو نے کون سا جرم کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا”یا رسول اللہ میں حد کا مستحق ہو گیا ہوں ، مجھ پر حد جاری فرمائیے“۔ مگر آپؐ نے اس سے نہیں پوچھا کہ تُو کس حد کا مستحق ہوا ہے۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر وہ شخص پھر اُٹھا اور کہنے لگا کہ میں مجرم ہوں مجھے سزا دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا”کیا تُو نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی“؟ اس نے عرض کیا ”جی ہاں“۔ فرمایا ”بس تو اللہ نے تیرا قصور معاف کر دیا“۔ (بخاری، مسلم ، احمد)۔

(۱۰) کسی شخص (مرد یا عورت) کو مجرم قرار دینے کے لیے صرف یہ امر کافی نہیں ہے کہ اس سے فعل زنا صادر ہوا ہے ، بلکہ اس کے لیے مجرم میں کچھ شرطیں پائی جانی چاہییں۔ یہ شرطیں زنا ئے محض کے معاملے میں اور ہیں ، اور زنا بعد احصان کے معاملہ میں اَور۔

زنائے محض کے معاملے میں شرط یہ ہے کہ مجرم عاقل و بالغ ہو ۔ اگر کسی مجنون یا کسی بچے سے یہ فعل سرزد ہو تو وہ حدِ زنا کا مستحق نہیں ہے۔

اور زنا بعد اِحصان کے لیے عقل اور بلوغ کے علاوہ چند مزید شرطیں بھی ہیں جن کو ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں:

پہلی شرط یہ ہے کہ مجرم آزاد ہو۔ اس شرط پر سب کا اتفاق ہے ،کیونکہ قرآن خود اشارہ کرتا ہے کہ غلام کو رجم کی سزا نہیں دی جا ئے گی۔ ابھی یہ بات گزر چکی ہے کہ لونڈی اگر نکاح کے بعد زنا کی مرتکب ہو تو اسے غیر شادی شدہ آزاد عورت کی بہ نسبت آدھی سزا دینی چاہیے۔ فقہاء نے تسلیم کیا ہے کہ قرآن کا یہی قانون غلام پر بھی نافذ ہو گا۔

دوسری شرط یہ ہے کہ مجرم باقاعدہ شادی شدہ ہو ۔ یہ شرط بھی متفق علیہ ہے، اور اس شرط کی رو سے کوئی ایسا شخص جو ملک یمین کی بنا پر تمتع کر چکا ہو ، یا جس کا نکاح کسی فاسد طریقے سے ہوا ہو، شادی شدہ قرار نہیں دیا جا ئے گا یعنی اُس سے اگر زنا کاصدور ہو تو اس کو رجم کی نہیں بلکہ کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔

تیسری شرط یہ ہے کہ اس کا محض نکاح ہی نہ ہوا ہو بلکہ نکاح کے بعد خلوتِ صحیحہ بھی ہو چکی ہو۔ صرف عقدِ نکاح کسی مرد کو مُحصِن ، یا عورت کو مُحصنَہ نہیں بنا دیتا کہ زنا کے ارتکاب کی صورت میں اس کو رجم کر دیا جائے۔ اس شرط پر بھی اکثر فقہا متفق ہیں ۔ مگر امام ابو حنیفہ اور امام محمد اس میں اتنا اضافہ اور کرتے ہیں کہ ایک مرد یا ایک عورت کو محصن صرف اسی صورت میں قرار دیا جائے گا جب کہ نکاح اور خلوت صحیحہ کے وقت زوجین آزاد ، بالغ اور عاقل ہوں۔ اس مزید شرط سے جوفرق واقع ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک مرد کا نکاح ایسی عورت سے ہُوا ہو جو لونڈی ہو، یا نابالغ ہو، یا مجنون ہو، تو خواہ وہ اس حالت میں اپنی بیوی سے لذت اندوز ہو بھی چکا ہو، پھر بھی وہ مرتکبِ زنا ہونے کی صورت میں رجم کا مستحق نہ ہو گا ۔ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے کہ اگر اس کو اپنے نابالغ یا مجنون یا غلام شوہر سےلذت اندوز ہونے کا موقع مل چکا ہو، پھر بھی وہ مرتکبِ زنا ہونے کی صورت میں رجم کی مستحق نہ ہوگی۔ غور کیاجائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی معقول اضافہ ہے جو ان دونوں بالغ النظر بزرگوں نے کیا ہے۔

چوتھی شرط یہ ہے کہ مجرم مسلمان ہو۔ اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شافعی ، امام ابو یوسف اور اما م احمد اس کو نہیں مانتے ۔ ان کے نزدیک ذِمّی بھی اگر زنا بعد اِحصان کا مرتکب ہو گا تو رجم کیا جا ئے گا۔ لیکن امام ابو حنیفہ اور امام مالک اس امر پر متفق ہیں کہ زنا بعد احصان کی سزا رجم صرف مسلمان کے لیےہے۔ اس کےدلائل میں سے سب سے زیادہ معقول اور وزنی دلیل یہ ہے کہ ایک آدمی کو سنگسار جیسی خوفناک سزا دینے کےلیے ضروری ہے کہ وہ مکمل ”احصان“ کی حالت میں ہو اور پھر بھی زنا کے ارتکاب سے باز نہ آئے۔ احصان کا مطلب ہے ”اخلاقی قلعہ بندی“، اور اس کی تکمیل تین حصاروں سے ہوتی ہے۔ اوّلیں حصار یہ ہے کہ آدمی خدا پر ایمان رکھتا ہو، آخرت کی جواب دہی کا قائل ہو اور شریعت خداوندی کو تسلیم کرتا ہو۔ دوسرا حصار یہ ہے کہ وہ معاشرے کا آزاد فرد ہو ، کسی دوسرے کی غلامی میں نہ ہو جس کی پابندیاں اسے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے جائز تدابیر اختیار کرنے میں مانع ہوتی ہیں ، اور لاچاری و مجبوری اس سے گناہ کرا سکتی ہے، اور کوئی خاندان اسے اپنے اخلاق اور اپنی عزت کی حفاظت میں مدد دینے والا نہیں ہوتا۔ تیسرا حصار یہ ہے کہ اس کا نکاح ہو چکا ہو اور اسے تسکینِ نفس کا جائز ذریعہ حاصل ہو۔ یہ تینوں حصار جب پائے جاتے ہوں تب ”قلعہ بندی“ مکمل ہوتی ہے اور تب ہی وہ شخص بڑا حصار، یعنی خدا اور آخرت اور قانونِ خداوندی پر ایمان ہی موجود نہ ہو وہاں یقینًا قلعہ بندی مکمل نہیں ہے اور اس بنا پر فجور کا جرم بھی اُس شدت کو پہنچا ہوا نہیں ہے جو اسے انتہائی سزا کا مستحق بنا دے۔ اسی دلیل کی تائید ابن عمر کی وہ روایت کرتی ہے جسے اسحاق بن راہَوَیہ نے اپنی مُسنَد میں اور دار قُطنی نے اپنی سُنَن میں نقل کیا ہے کہ من اشرک باللہ فلیس بمحصن ” جس نے خدا کے ساتھ شرک کیا وہ محصن نہیں ہے“۔ اگر چہ اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا ابن عمر نے اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نقل کیا ہے یا یہ ان کا اپنا فتویٰ ہے ۔ لیکن اس کمزوری کے باوجود اس کا مضمون اپنے معنی کے لحاظ سے نہایت قوی ہے ۔ اس کے جواب میں اگر یہودیوں کے اُس مقدمے سے استدلال کیا جائے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کا حکم نافذ فرمایا تھا، تو ہم کہیں گے کہ یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ اُس مقدمے کے متعلق تمام معتبر روایات کو جمع کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن پر اسلام کا ملکی قانون(Law of the Land ) نہیں بلکہ ان کا اپنا مذہبی قانون (Personal Law ) نافذ فرمایا تھا۔ بخاری و مسلم کی متفقہ روایت ہے کہ جب یہ مقدمہ آپ کے پاس لایا گیا تو آپ نے یہودیوں سے پوچھا کہ ما تجدون فی التوراۃ فی شان الرجم یا ما تجدون فی کتابکم، یعنی” تمہاری کتاب توراۃ میں اس کا کیا حکم ہے“؟ پھر جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ ان کے ہاں رجم کا حکم ہے تو حضور ؐ نے فرمایا فانی احکم بما فی التوراۃ ”میں وہی فیصلہ کرتا ہوں جو توراۃ میں ہے“۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے اس مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا اللھم انی اول من احیا امرک اذا ما توہ، ”خدا وندا، میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا جب کہ انہوں نے اسے مردہ کر دیا تھا“۔(مسلم، ابوداؤد، احمد)

(۱۱) فعلِ زنا کے مرتکب کو مجرم قرار دینے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس نے اپنی آزاد مرضی سے یہ فعل کیا ہو۔ جبر و اکراہ سے اگر کسی شخص کو اس فعل کے ارتکاب پر مجبور کیا گیا ہو تو وہ نہ مجرم ہے نہ سزا کا مستحق۔ اس معاملے پر شریعت کا صرف یہ عام قاعدہ ہی منطبق نہیں ہوتا کہ ”آدمی جبرًا کرائے ہوئے کاموں کی ذمہ داری سے بری ہے“، بلکہ آگے چل کر اِسی سُورے میں خود قرآن اُن عورتوں کی معافی کا اعلان کرتا ہے جن کو زنا پر مجبور کیا گیا ہو۔ نیز متعدد احادیث میں تصریح ہے کہ زنا بالجبر کی صورت میں صرف زانی ٔ جابر کو سزا دی گئی اور جس پر جبر کیا گیا تھا اسے چھوڑ دیا گیا۔ ترمذی و ابو داؤد کی روایت ہے کہ ایک عورت اندھیرے میں نماز کے لیے نکلی۔ راستے میں ایک شخص نے اس کو گرا لیا اور زبردستی اس کی عصمت دری کر دی۔ اس کے شور مچانے پر لوگ آگئے اور زانی پکڑا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو رجم کر ا دیا اور عورت کو چھوڑ دیا۔ بخاری کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ کے زمانۂ خلافت میں ایک شخص نے ایک لڑکی سے زنا بالجبر کا ارتکاب کیا۔ آپ نے اسے کوڑ ے لگوائے اور لڑکی کو چھوڑ دیا۔ ان دلائل کی بنا پر عورت کے معاملہ میں تو قانون متفق علیہ ہے۔ لیکن اختلاف اس امر میں ہوا ہے کہ آیا مرد کے معاملے میں بھی جبر و اکراہ معتبر ہے یا نہیں۔ امام ابو یوسف ؒ، امام محمدؒ، امام شافعیؒ اور امام حسنؒ بن صالح کہتے ہیں کہ مرد بھی اگر زنا کرنے پر مجبور کیا گیا ہوتو معاف کیا جائے گا۔ امام زُفَر ؒ کہتے ہیں کہ اسے معاف نہیں کیا جائے گا، کیونکہ وہ انتشارِ عضو کے بغیر اس فعل کا ارتکاب نہیں کر سکتا، اور انتشارِ عضو اس امر کی دلیل ہے کہ اس کی اپنی شہوت اس کی محرک ہوئی تھی۔ امام ابو حنیفہؒ کہتے ہیں کہ اگر حکومت یا اس کے کسی حاکم نے آدمی کو زنا پر مجبور کیا ہو تو سزا نہیں دی جائے گی ، کیونکہ جب خود حکومت ہی جرم پر مجبور کرنے والی ہو تواُسے سزا دینے کا حق نہیں رہتا۔ لیکن اگر حکومت کے سوا کسی اور نے مجبُور کیا ہو تو زانی کو سزا دی جائے گی، کیونکہ ارتکابِ زنا بہر حال وہ اپنی شہوت کے بغیر نہ کر سکتا تھا اور شہوت جبراً پیدا نہیں کی جا سکتی۔ ان تینوں اقوال میں سے پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ انتشارِ عضو چاہے شہوت کی دلیل ہو مگر رضا ؤ رغبت کی لازمی دلیل نہیں ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک ظالم کسی شریف آدمی کو زبر دستی پکڑ کر قید کر دیتا ہے اور اس کے ساتھ ایک جوان ، خوبصورت عورت کو بھی برہنہ کر کے ایک کمرے میں بند رکھتا ہے اور اسے اس وقت تک رہا نہیں کرتا جبتک کہ وہ زنا کا مرتکب نہ ہو جائے۔ اس حالت میں اگر یہ دونوں زنا کے مرتکب ہو جائیں اور وہ ظالم اس کے چار گواہ بنا کر انہیں عدالت میں پیش کر دے تو کیا یہ انصاف ہو گا کہ ان کے حالات کو نظر انداز کر کے انہیں سنگسار کر دیا جائے یا ان پر کوڑے برسائے جائیں؟ اس طرح کے حالات عقلاً یا عادتاً ممکن ہیں جن میں شہوت لاحق ہو سکتی ہے، بغیر اس کے کہ اس میں آدمی کی رضا و رغبت کا دخل ہو۔ اگر کسی شخص کو قید کرکے شراب کے سوا پینے کو کچھ نہ دیا جائے ، اور اس حالت میں وہ شراب پی لے تو کیا محض اس دلیل سے اس کو سزا دی جا سکتی ہے کہ حالات تو واقعی اُس کے لیے مجبوری کے تھے مگر حلق سے شراب کا گھونٹ وہ اپنے ارادے کے بغیر نہ اتار سکتا تھا؟ جرم کے متحقق ہونے کے لیے محض ارادے کا پایا جانا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے آزاد ارادہ ضروری ہے۔ جو شخص زبر دستی ایسے حالات میں مبتلا کیا گیا ہو کہ وہ جرم کا ارادہ کرنے پر مجبور ہو جائے وہ بعض صورتوں میں تو قطعی مجرم نہیں ہو تا، اور بعض صورتوں میں اس کا جرم بہت ہلکا ہو جاتا ہے۔

(۱۲) اسلامی قانون حکومت کے سوا کسی کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ زانی اور زانیہ کے خلاف کارروائی کرے اور عدالت کے سوا کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اس پر سزا دے۔ اس امر پر تمام امت کے فقہاء کا اتفاق ہے کہ آیت ِ زیر بحث میں حکم فاجلدوا (ان کو کوڑے مارو) کے مخاطب عوام نہیں ہیں بلکہ اسلامی حکومت کے حکام اور قاضی ہیں۔ البتہ غلام کے معاملے میں اختلاف ہے کہ اس پر اس کا آقا حد جاری کرنے کا مجاز ہے یا نہیں ۔ مذہب حنفی کے تمام ائمہ اس پر متفق ہیں کہ وہ اس کا مجاز نہیں ہے۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ مجاز ہے۔ اورمالکیہ کہتے ہیں کہ آقا کو سرقہ میں ہاتھ کاٹنے کا تو حق نہیں ہے مگر زنا ، قذف اور شراب نوشی پر وہ حد جاری کر سکتا ہے ۔

(۱۳) اسلامی قانون زنا کی سزا کو قانونِ مملکت کا ایک حصہ قرار دیتاہے اس لیے مملکت کی تمام رعایا پر یہ حکم جاری ہو گا خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ اس سے امام مالک کے سوا غالبًا ائمہ میں سے کسی نے اختلاف نہیں کیا ہے۔ رجم کی سزا غیر مسلموں پر جاری کرنے میں امام ابوحنیفہ کا اختلاف اس بنیاد پر نہیں ہے کہ یہ قانونِ مملکت نہیں ہے ، بلکہ اس بنیاد پر ہے کہ ان کے نزدیک رجم کو شرائط میں سے ایک شرط زانی کا پورا محصِن ہونا ہے اور احصان کی تکمیل اسلام کے بغیر نہیں ہوتی ، اس وجہ سے وہ غیر مسلم زانی کو رجم کی سزا سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔ بخلاف اس کے امام مالک کے نزدیک اس حکم کے مخاطب مسلمان ہیں نہ کے کافر، اس لیے وہ حدِّ زنا کو مسلمانوں کے شخصی قانون (پرسنل لا) کا ایک جز قرار دیتے ہیں۔ رہا مستامن (جو کسی دوسرے ملک سے دارالاسلام میں اجازت لے کر آیا ہو) تو امام شافعیؒ اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک وہ بھی اگر دارالاسلام میں زنا کرے تو اس پر حد جاری کی جائے گی۔ لیکن امام ابو حنیفہ اور امام محمد کہتے ہیں کہ ہم اُس پر حد جاری نہیں کر سکتے۔

(۱۴) اسلامی قانون یہ لازم نہیں کرتا کہ کوئی شخص اپنے جرم کا خود اقرار کرے، یا جو لوگ کسی شخص کے جرم زنا پر مطلع ہوں وہ ضرور ہی اس کی خبر حکام تک پہنچائیں۔ البتہ جب حکام اس پر مطلع ہو جائیں تو پھر اس جرم کے لیے معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من اتی شیئا من ھٰذہ القاذو رات فلیستتربستر اللہ فان بدیٰ لنا صفحتہ اقمنا علیہ کتاب اللہ (احکام القرآن ، للجصاص)۔” تم میں سے جو شخص اِن گندے کاموں میں سے کسی کر مرتکب ہو جائے تو اللہ کے ڈالے ہوئے پردے میں چھُپا رہے۔ لیکن اگر وہ ہمارے سامنے اپنا پردہ کھولے گا تو ہم اس پر کتاب اللہ کا قانون نافذ کر کے چھوڑیں گے“۔ ابوداؤد میں ہے کہ ماعزِبن مالک اسلمی سے جب زنا کا جرم سرزد ہو گیا تو ہزّال بن نُعَیم نے ان سے کہا کہ جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے اس جرم کا اقرار کرو۔ چنانچہ انہوں نے جا کر حضورؐ سے اپنا جرم بیان کر دیا۔ اس پر حضورؐ نے ایک طرف تو انہیں رجم کی سزا دی اور دوسری طرف ہزّال سے فرمایا لو ستر تہ بثوبک کان خیرًا لک”کاش تم اس کا پردہ ڈھانک دیتے تو تمہارے لیے زیادہ اچھا تھا“۔ ابوداؤد اور نَسائی میں ایک اور حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا تعافو االحدود فی مابینکم فما بلغنی من حد فقد وجب ”حدود کو آپس ہی میں معاف کر دیا کرو۔ مگر جس حد (یعنی جرم مستلزمِ حد) کا معاملہ مجھ تک پہنچ جائے گا پھر وہ واجب ہوجائے گی“۔

(۱۵) اسلامی قانون میں یہ جرم قابلِ راضی نامہ نہیں ہے ۔ قریب قریب تمام کتبِ حدیث میں یہ واقعہ موجود ہے کہ ایک لڑکا ایک شخص کے ہاں اُجرت پر کام کرتا تھا اور وہ اس کی بیوی سے زناکا مرتکب ہو گیا۔ لڑکے کے باپ نے سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر اس شخص کو راضی کیا۔ مگر جب یہ مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپؐ نے فرمایا اما غنمک و جاریتک فردٌّ علیک”تیری بکریاں اور تیری لونڈی تجھی کو واپس“، اور پھر آپؐ نے زانی اور زانیہ دونوں پر حد جاری فرما دی۔ اس سے صرف یہی نہیں معلوم ہوتا کہ اس جرم میں راضی نامہ کی کوئی گنجائش نہیں، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی قانون میں عصمتوں کا معاوضہ مالی تاوانوں کی شکل میں نہیں دلوایا جا سکتا۔ آبرو کی قیمت کا یہ دیّوثانہ تصوّر مغربی قوانین ہی کو مبارک رہے۔

(۱۶) اسلامی حکومت کسی شخص کے خلاف زنا کے جرم میں کوئی کارروائی نہ کرے گی جب تک کہ اس کے جرم کا ثبوت نہ مل جائے۔ ثبوت جرم کے بغیر کسی کی بدکاری خواہ کتنے ہی ذرائع سے حکام کے علم میں ہو، وہ بہر حال اس پر حد جاری نہیں کر سکتے۔ مدینے میں ایک عورت تھی جس کے متعلق روایات ہیں کہ وہ کھلی کھلی فاحشہ تھی۔ بخاری کی ایک روایت میں ہے کانت تظھر فی الاسلام السوء۔ دوسری روایت میں ہے کانت قد اعلنت فی الاسلام۔ ابن ماجہ کی روایت ہے فقد ظھر منھا الرّبیۃ فیْ منطقہا و ھیئتھا و من یدخل علیھا ۔ لیکن چونکہ اس کے خلاف بدکاری کا ثبوت نہ تھا اس لیے اسے کوئی سزا نہ دی گئی ، حالانکہ اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ تک نکل گئے تھے کہ لو کنت راجمًا احدًا بغیر بینۃ لرجمتھا،” اگر میں ثبوت کے بغیر رجم کرنے والا ہوتا تو اس عورت کو ضرور رجم کرادیتا“۔

(۱۷) جرمِ زنا کا پہلا ممکن ثبوت یہ ہےکہ شہادت اس پر قائم ہو۔ اس کے متعلق قانون کے اہم اجزاء یہ ہیں:

الف۔قرآن تصریح کرتا ہے کہ زنا کے لیے کم سے کم چار عینی شاہد ہونے چاہییں۔ اس کی صراحت سورۂ نساء آیت ۱۵ میں بھی گزر چکی ہے اور آگے اسی سورۂ نور میں بھی دو جگہ آرہی ہے۔ شہادت کے بغیر قاضی محض اپنے علم کی بنا پر فیصلہ نہیں کر سکتا خواہ وہ اپنی آنکھوں سے ارتکاب جرم ہوتے دیکھ چکا ہو۔

ب۔گواہ ایسے لوگ ہونے چاہییں جو اسلامی قانون شہادت کی رو سے قابل اعتماد ہوں۔ مثلاً یہ کہ وہ پہلے کسی مقدمے میں جھوٹے گواہ ثابت نہ ہو چکے ہوں، خائن نہ ہوں، پہلے کے سزا یافتہ نہ ہوں، ملزم سے ان کی دشمنی ثابت نہ ہو ، وغیرہ۔ بہر حال ناقابلِ اعتماد شہادت کی بنا پر نہ تو کسی کو رجم کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی کی پیٹھ پر کوڑے برسائے جا سکتے ہیں۔

ج۔گواہوں کو اس بات کی شہادت دینی چاہیے کہ انہوں نے ملزم اور ملزمہ کو عین حالتِ مباشرت میں دیکھا ہے، یعنی کالمیل فی المکحلۃ والرشاء فی البئر (اس طرح جیسے سرمہ دانی میں سلائی اور کنوئیں میں رسّی)۔

د۔ گواہوں کو اس امر میں متفق ہونا چاہیے کہ انہوں نے کب، کہاں، کس کو ، کس سے زنا کرتے دیکھا ہے۔ ان بنیادی امور میں اختلاف ان کی شہادت کو ساقط کر دیتا ہے۔

شہادت کی یہ شرائط خود ظاہر کر رہی ہیں کہ اسلامی قانون کا منشا یہ نہیں ہے کہ ٹکٹکیاں لگی ہوں اور روز لوگوں کی پیٹھوں پر کوڑے برستے رہیں۔ بلکہ وہ ایسی حالت ہی میں یہ سخت سزا دیتا ہے کہ جبکہ تمام اصلاحی اور انسدادی تدابیر کے باوجود اسلامی معاشرے میں کوئی جوڑا ایسا بے حیا ہو کہ چار چار آدمی اس کو جرم کرتے دیکھ لیں۔

(۱۸) اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا محض حمل کا پایا جانا ، جبکہ عورت کو کوئی شوہر ، یا لونڈی کا کوئی آقا معلوم و معروف نہ ہو، ثابت زنا کے لیے کافی شہادت بالقرینہ ہے یا نہیں ۔حضرت عمرؓ کی رائے یہ ہے کہ یہ کافی شہادت ہے اور اسی کو مالکیہ نے اختیار کیا ہے۔ مگر جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ محض حمل اتنا مضبوط قرینہ نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر کسی کو رجم کر دیا جائے یا کسی کی پیٹھ پر سو کوڑے برسا دیے جائیں۔ اتنی بڑی سزا کے لیے ناگزیر ہے کہ یا تو شہادت موجود ہو، یا پھر اقرار۔ اسلامی قانون کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ شبہ سزا دینے کےلیے نہیں بلکہ معاف کرنے کے لیے محرک ہونا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ادفعوا الحدود ما وجدتم لھا مدفعا، ”سزاؤں کو دفع کرو جہاں تک بھی ان کو دفع کرنے کی گنجائش پاؤ“(ابن ماجہ)۔ ایک دوسری حدیث میں ہے ادرؤ ا الحدود عن المسلمین ما استطعتم فان کان لہٗ مخرجٌ اسبیلہ، فان الامام ان یخطیٔ فی العفو خیر من ان یخطیٔ فی العقوبۃ، ”مسلمانوں سے سزاؤں کو دور رکھو جہاں تک بھی ممکن ہو۔ اگر کسی ملزم کے لیے سزا سے بچنے کا کوئی راستہ نکلتا ہے تو اسے چھوڑ دو۔ کیونکہ حاکم کا معاف کر دینے میں غلطی کر جانا اس سے بہتر ہے کہ وہ سزا دینے میں غلطی کر جائے“(ترمذی)۔ اس قاعدے کے لحاظ سے حمل کی موجودگی ، چاہے شبہ کے لیے کتنی ہی قوی بنیاد ہو، زنا کا یقینی ثبوت بہر حال نہیں ہے، اس لیے کہ لاکھ میں ایک درجے کی حد تک اس خفیف شبہ کا امکان بھی اس کے لیے کافی ہونا چاہیے کہ ملزمہ کو زنا کی ہولناک سزا سے معاف رکھا جائے۔

(۱۹) اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ اگر زنا کے گواہوں میں اختلاف ہو جائے، یا اور کسی وجہ سے ان کی شہادتوں سے جرم ثابت نہ ہو تو کیا اُلٹے گواہ جھوٹے الزام کی سزا پائیں گے؟ فقہاء کا ایک گروہ کہتا ہے کہ اس صورت میں وہ قاذف قرار پائیں گے اور انہیں ۸۰ کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ ان کو سزا نہیں دی جائے گی کیونکہ وہ گواہ کی حیثیت سے آئے ہیں نہ کہ مدّعی کی حیثیت سے ۔ اور اگر اس طرح گواہوں کو سزا دی جائے تو پھر زنا کی شہادت بہم پہنچانے کا دروازہ ہی بند ہو جائے گا۔ آخر کس کی شامت نے دھکا دیا ہے کہ سزا کا خطرہ مول لے کر شہادت دینے آئے جبکہ اس امر کا یقین کسی کو بھی نہیں ہو سکتا کہ چاروں گواہوں میں سے کوئی ٹُوٹ نہ جائے گا۔ ہمارے نزدیک یہی دُوسری رائے معقول ہے ، کیونکہ شبہ کا فائدہ جس طرح ملزم کو ملنا چاہیے، اسی طرح گواہوں کو بھی ملنا چاہیے۔ اگر ان کی شہادت کی کمزوری اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ ملزم کو زنا کی خوفناک سزا دے ڈالی جائے، تو اسے اس بات کے لیے بھی کافی نہ ہونا چاہیے کہ گواہوں پر قذف کی خوفناک سزا بر سا دی جائے، اِلّا یہ کہ ان کا صریح جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے ۔ پہلے قول کی تائید میں دو بڑی دلیلیں دی جاتی ہیں۔ اوّل یہ کہ قرآن زنا کی جھوٹی تہمت کو مستوجبِ سزا قرار دیتا ہے ۔ لیکن یہ دلیل اس لیے غلط ہے کہ قرآن خود قاذف (تہمت لگانے والے) اور شاہد کے درمیان فرق کر رہا ہے ، اور شاہد محض اس پنا پر قاذف قرار نہیں پا سکتا کہ عدالت نے اس کی شہادت کو ثبوتِ جرم کے لیے کافی نہیں پایا۔ دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ مُغِیرَہ بن شُعبَہ کے مقدمے میں حضرت عمرؓ نے ابوبَکرَہ اور ان کے دو ساتھی شاہدوں کو قذف کی سزا دی تھی۔ لیکن اس مقدمے کی پوری تفصیلات دیکھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ نظیر ہر اُس مقدمے پر چسپاں نہیں ہوتی جس میں ثبوت جرم کے لیے شہادتیں ناکافی پائی جائیں ۔ مقدمے کے واقعات یہ ہیں کہ بصرے کے گورنر مُغیرَہ بن شُعبہ سے ابوبکرہ کے تعلقات پہلے سے خراب تھے۔ دونوں کے مکان ایک ہی سڑک پر آمنے سامنے واقع تھے۔ ایک روز یکایک ہوا کے زور سے دونوں کے کمروں کی کھڑکیاں کھل گئیں۔ ابوبکرہ اپنی کھڑکی بند کر نے کے لیے اُٹھے تو ان کی نگاہ سامنے کے کمرے پر پڑی اور انہوں نے حضرت مغیرہ کو مباشرت میں مشغول دیکھا۔ ابوبکرہ کے پاس ان کے تین دوست (نافع بن کَلَدَہ ، زیاد، اور شِبل بن مَعبَد ) بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آؤ، دیکھو اور گواہ رہو کہ مغیرہ کیا کر رہے ہیں۔ دوستوں نے پوچھا یہ عورت کون ہے۔ ابوبکرہ نے کہا اُمِّ جمیل۔ دوسرے روز اس کی شکایت حضرت عمرؓ کی پاس بھیجی گئی۔ انہوں نے فورًا حضرت مغیرہ کو معطّل کر کے حضرت ابوموسیٰ اَشعَری کو بصرے کا گورنر مقرر کیا اور ملزم کو گواہوں سمیت مدینے طلب کر لیا۔ پیشی پر ابوبکرہ اور دو گواہوں نے کہا کہ ہم نے مغیرہ کو اُمِّ جمیل کے ساتھ بالفعل مباشرت کرتے دیکھا۔ مگر زیاد نے کہا کہ عورت صاف نظر نہیں آتی تھی اور میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ امِّ جمیل تھی۔ مغیر ہ بن شعبہ نے جرح میں یہ ثابت کر دیا کہ جس رُخ سے یہ لوگ اُنہیں دیکھ رہے تھے اس سے دیکھنے والا عورت کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا تھا۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ ان کی بیوی اور اُمِّ جمیل باہم بہت مشابہ ہیں۔ قرائن خود بتا رہے تھے کہ حضرت عمرؓ کی حکومت میں ایک صوبے کا گورنر ، خود اپنے سرکاری مکان میں، جہاں اس کی بیوی اس کے ساتھ رہتی تھی ، ایک غیر عورت کو بُلا کر زنا نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے ابوبکرہ اور ان کے ساتھیوں کا یہ سمجھنا کہ مغیرہ اپنے گھر میں اپنی بیوی کے بجائے امِ جمیل سے مباشرت کر رہے ہیں، ایک نہایت بے جا بد گمانی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے صرف ملزم کو بری کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ابوبکرہ ، نافع اور شِبل پر حدِّ قذف بھی جاری فرمائی۔ یہ فیصلہ اس مقدمے کے مخصوص حالات کی بنا پر تھا نہ کہ اس قاعدہ کلیہ کی بنا پر کہ جب کبھی شہادتوں سے جرمِ زنا ثابت نہ ہوتو گواہ ضرور پیٹ ڈالے جائیں۔ (مقدمے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو احکام القرآن ابن العربی ، جلد ۲، صفحہ ۸۸ – ۸۹)۔

(۲۰) شہادت کےسوا دوسری چیز جس سےجرمِ زنا ثابت ہو سکتا ہے وہ مجرم کا اپنا اقرار ہے۔ یہ اقرار صاف اور صریح الفاظ میں فعلِ زنا کے ارتکاب کا ہونا چاہیے، یعنی اسے یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ اس نے ایک ایسی عورت سے جو اس کے لیے حرام تھی کالمیل فی المکحلۃ یہ فعل کیا ہے۔ اور عدالت کو پوری طرح یہ اطمینان کر لینا چاہیے کہ مجرم کسی خارجی دباؤ کے بغیر بطورِ خود بحالتِ ہوش و حواس یہ اقرار کر رہا ہے۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ ایک اقرار کافی نہیں ہے بلکہ مجرم کو چار مرتبہ الگ الگ اقرار کرنا چاہیے(یہ امام ابو حنیفہ، امام احمد، ابن ابی لیلیٰ، اسحاق بن راہَوَیہ اور حسن بن صالح کا مسلک ہے)۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ایک ہی اقرار کافی ہے( امام مالک، امام شافعی، عثمان البتّی اور حسن بصری وغیرہ اس کے قائل ہیں)۔ پھر ایسی صورت میں جب کہ کسی دوسرے تائیدی ثبوت کے بغیر صرف مجرم کے اپنے ہی اقرار پر فیصلہ کیا گیا ہو اگر عین سزا کے دَوران میں بھی مجرم اپنے اقرار سے پھر جائے تو سزا کو روک دینا چاہیے، خوا ہ یہ بات صریحًا ہی کیوں نہ ظاہر ہو رہی ہو کہ وہ مار کی تکلیف سے بچنے کے لیے اقرار سے رجوع کر رہا ہے۔ اِس پورے قانون کا ماخذ وہ نظائر ہیں جو زنا کے مقدمات کے متعلق احادیث میں پائے جاتے ہیں۔ سب سے بڑا مقدمہ ماعِز بن مالک اسلمی کا ہے جسے متعدّد صحابہ سے بکثرت راویوں نے نقل کیا ہے اور قریب قریب تمام کتب حدیث میں اس کی روایات موجود ہیں۔ یہ شخص قبیلۂ اسلم کا ایک یتیم لڑکا تھا جس نے حضرت ہزال بن نُعیَم کے ہاں پرورش پائی تھی۔ یہاں وہ ایک آزاد کر دہ لونڈی سے زنا کر بیٹھا۔ حضرت ہزّال نے کہا کہ جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اس گناہ کی خبر دے ، شاید کہ آپ تیری لیے دعائے مغفرت فرمادیں۔ اس نے جا کر مسجد نبوی میں حضورؐ سے کہا یا رسول اللہ، مجھے پاک کر دیجیے ، میں نے زنا کی ہے۔ آپؐ نے منہ پھیر لیا اور فرمایا ویحک ارجع فاستغفر اللہ وتب الیہ۔”ارے، چلا جا اور اللہ سے توبہ و استغفار کر“۔ مگر اس نے پھر سامنے آکر وہی بات کہی اور آپؐ نے پھر منہ پھیر لیا۔ اس نے تیسری بار وہی بات کہی اور آپؐ نے پھر منہ پھیر لیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس کو متنبہ کیا کہ دیکھ، اب چوتھی بار اگر تُو نے اقرار کیا تو رسول اللہ تجھے رجم کرا دیں گے۔ مگر وہ نہ مانا اور پھر اس نے اپنی بات دُہرائی۔ اب حضورؐ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس فرمایا لعلک قبلت او غمزت او نظرت،”شاید تُو نے بوس و کنار کیا ہوگا یا چھیڑ چھاڑ کی ہوگی یا نظرِ بد ڈالی ہوگی“ (اور تُو سمجھ بیٹھا ہو گا کہ یہ زنا کا ارتکاب ہے)۔ اس نے کہا نہیں۔ آپؐ نے پوچھا”کیا تُو اُس سے ہم بستر ہُوا؟ “ اس نے کہا ہاں۔ پھرپوچھا”کیا تُو نے اس سے مباشرت کی؟“ اُس نے کہا ہاں۔ پھر پوچھا”کیا تُونے اس سے مجامعت کی؟“ اس نےکہا ہاں۔ پھر آپؐ نے وہ لفظ استعمال کیا جو عربی زبان میں خاص فعلِ مباشرت ہی کے لیےبولا جاتا ہے، اور یہ فحش لفظ حضورؐ کی زبان سے نہ پہلے کبھی سنا گیا نہ اس کے بعد کسی نے سُنا۔ اگر ایک شخص کی جان کا معاملہ نہ ہوتا تو زبان مبارک سے کبھی ایسا لفظ نہ نکل سکتا تھا۔ مگر اس نے اس کے جواب میں بھی ہاں کہہ دیا۔ آپؐ نےپوچھا حتیٰ غاب ذٰلک منک فی ذٰلک منھا (کیا اس حد تک کہ تیری وہ چیز اس کی اُس چیز میں غائب ہو گئی؟) ۔ اس نے کہا ہاں۔ پھر ، پوچھا کما یغیب المیل فی المکحلۃ والرشاء فی البئر (کیا اس طرح غائب ہوگئی جیسے سُرمہ دانی میں سلائی اور کنوئیں میں رسّی؟) اس نے کہا ہاں ۔ پوچھا ”کیا تُو جانتا ہے کہ زنا کسے کہتے ہیں؟“ اس نے کہا ” جی ہاں ، میں نے اس کے ساتھ حرام طریقے سے وہ کام کیا جو شوہر حلال طریقے سے اپنی بیوی کے ساتھ کرتا ہے“۔ آپؐ نے پوچھا” کیا تیری شادی ہو چکی ہے؟“ اس نے کہا”جی ہاں۔“ آپؐ نے پوچھا”تُو نے شراب تو نہیں پی لی ہے؟“ اس نے کہا نہیں۔ ایک شخص نے اُٹھ کر اس کا منہ سُونگھا اور تصدیق کی۔ پھر آپؐ نے اس کے محلہ والوں سے دریافت کیا کہ یہ دیوانہ تو نہیں ہے؟ انہوں نے کہا ہم نے اس کی عقل میں کوئی خرابی نہیں دیکھی۔ آپؐ نے ہزّال سے فرمایا لو سترتہ بثوبک کان خیر الک، کاش تم نے اس کا پردہ ڈھانک دیا ہوتا تو تمہارے لیے اچھا تھا۔ پھر آپؐ نے ماعز کو رجم کرنے کا فیصلہ صادر فرمادیا اور اسے شہر کے باہر لے جا کر سنگسار کر دیا گیا۔ جب پتھر پڑنے شروع ہوئے تو ماعِز بھاگا اور اس نے کہا ”لوگو، مجھے رسول اللہ کے پاس واپس لے چلو، میرے قبیلے کے لوگوں نے مجھے مروا دیا۔ انہوں نے مجھے دھوکا دیا کہ رسول اللہ مجھے قتل نہیں کرائیں گے“۔ مگر مارنے والوں نے اسے مار ڈالا۔ بعد میں جب حضورؐ کو اس کی اطلاع دی گئی تو آپؐ نے فرمایا ”تم لوگوں نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا ، میرے پاس لے آئے ہوتے ، شاید وہ توبہ کر تا اور اللہ اس کی توبہ قبول کر لیتا“۔

دوسرا واقعہ غامِدِیّہ کا ہے جو قبیلہ غامِد (قبیلۂ جُہَینَہ کی ایک شاخ ) کی عورت تھی۔ اُس نے بھی آکر چار مرتبہ اقرار کیا کہ وہ زنا کی مرتکب ہوئی ہے اور اسے ناجائز حمل ہے۔ آپؐ نے اُس سے بھی پہلے اقرار پر فرمایا ویحک ارجعی فاستغفری الی اللہ و توبی الیہ (”اری چلی جا، اللہ سے معافی مانگ اور توبہ کر“)۔ مگر اس نے کہا ”یا رسول اللہ کیا آپ نے مجھے ماعز کی طرح ٹالنا چاہتے ہیں۔ میں زنا سے حاملہ ہوں“۔ یہاں چونکہ اقرار کے ساتھ حمل بھی موجود تھا ، اس لیے آپؐ نے اُس قدر مفصّل جرح نہ فرمائی جو ماعز کے ساتھ کی تھی۔ آپؐ نے فرمایا”اچھا، نہیں مانتی تو جا، وضعِ حمل کے بعد آئیو“۔ وضعِ حمل کے بعد وہ بچے کے لے کرآئی اور کہا اب مجھے پاک کر دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا ”جا اور اس کو دودھ پلا۔ دودھ چھوٹنے کے بعد آئیو“۔ پھر وہ دودھ چھٹانے کے بعد آئی اور ساتھ روٹی کا ایک ٹکڑا بھی لیتی آئی ۔ بچے کو روٹی کا ٹکڑا کھلا کر حضور کو دکھایا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ اب اس کا دودھ چھوٹ گیا ہے اور دیکھیے یہ روٹی کھانے لگا ہے ۔ تب آپؐ نے بچے کو پرورش کے لیے ایک شخص کے حوالے کیا اور اس کے رجم کا حکم دیا۔

ان دونوں واقعات میں بصر احت چار اقراروں کا ذکر ہے۔ اور ابوداؤد میں حضرت بُرَیدَہ کی روایت ہے کہ صحابۂ کرام کا عام خیال یہی تھا کہ اگر ماعز اور غامدیہ چار مرتبہ اقرار نہ کرتے تو انہیں رجم نہ کیا جاتا ۔ البتہ تیسرا واقعہ (جس کا ذکر ہم اوپر نمبر ۱۵ میں کر چکے ہیں) اس میں صرف یہ الفاظ ملتے ہیں کہ ” جا کر اس کی بیوی سے پوچھ ، اور اگر وہ اعتراف کرے تو اسے رجم کر دے“۔ اس میں چار اعترافوں کا ذکر نہیں ہے ، اور اسی سے فقہاء کے ایک گروہ نے استدلال کیا ہے کہ ایک ہی اعتراف کافی ہے۔

(۲۱) اوپر ہم نے جن تین مقدمات کی نظیریں پیش کی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ اقراری مجرم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ اس نے کس سے زنا کا ارتکاب کیا ہے ، کیونکہ اس طرح ایک کے بجائے دو کو سزا دینی پڑے گی، اور شریعت لوگوں کو سزائیں دینے کے لیے بے چین نہیں ہے۔ البتہ اگر مجرم خود یہ بتائے کہ اس فعل کا فریقِ ثانی فلاں ہے تو اس سے پوچھا جائے گا۔ اگر وہ بھی اعتراف کرے تو اسے سزا دی جائے گی۔ لیکن اگر وہ انکار کر دے تو صرف اقراری مجرم ہی حد کا مستحق ہو گا۔ اس امر میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ اِس دوسری صورت میں(یعنی جبکہ فریقِ ثانی اس کے ساتھ مرتکب زنا ہونے کو تسلیم نہ کرے) اُس پر آیا حدِّ زنا جاری کی جائے گی یا حدِّ قذف۔ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک وہ حدِّ زنا کا مستوجب ہے، کیونکہ اسی جرم کا اس نے اقرار کیا ہے ۔ امام ابوحنیفہ اور امام اوزاعی کی رائے میں اس پر حدِّ قذف جاری کی جائے گی، کیونکہ فریقِ ثانی کے انکار نے اس کے جرم ِ زنا کو مشکوک کر دیا ہے، البتہ اس کا جرمِ قذف بہرحال ثابت ہے ۔ اور امام محمد کا فتویٰ یہ ہے ( امام شافعی کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے) کہ اسے زنا کی سزا بھی دی جائے گی اور قذف کی بھی، کیونکہ اپنے جرمِ زنا کا وہ خود معترف ہے، اور فریقِ ثانی پر اپنا الزام وہ ثابت نہیں کر سکا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں اس قسم کا ایک مقدمہ آیا تھا۔ اس کی ایک روایت جو مُسنَد احمد اور ابوداؤد میں سَہل بن سعد سے منقول ہے اس میں یہ الفاظ ہیں:” ایک شخص نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اقرار کیا کہ وہ فلاں عورت سے زنا کا مرتکب ہوا ہے۔ آپؐ نے عورت کو بلا کر پوچھا۔ اس نے انکار کیا۔ آپؐ نے اس پر حد جاری کی اور عورت کو چھوڑ دیا“۔ اس روایت میں یہ تصریح نہیں ہے کہ کونسی حد جاری کی۔ دوسری روایت ابوداؤد اور نَسَائی نے ابن عباس سے نقل کی ہے اور اس میں یہ ہے کہ پہلے اس کے اقرار پر آپؐ نے حدِّ زنا جاری کی ، پھر عورت سے پوچھا اور اس کے انکار پر اس شخص کو حدِّ قذف کے کوڑے لگوائے۔ لیکن یہ روایت سند کے لحاظ سے بھی ضعیف ہے ، کیونکہ اس کے ایک راوی قاسم بن فیاض کو متعدد محدثین نے ساقط الاعتبار ٹھیرایا ہے، اور قیاس کے بھی خلاف ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ آپؐ نے اسے کوڑے لگوا نے کے بعد عورت سے پوچھا ہوگا۔ صریح عقل اور انصاف کا تقاضا ، جسے حضُورؐ نظر انداز نہیں فرما سکتے تھے، یہ تھا کہ جب اس نے عورت کا نام لے دیا تھا تو عورت سے پوچھے بغیر اس کے مقدمے کا فیصلہ نہ کیا جاتا۔ اسی کی تائید سہل بن سعد والی روایت بھی کر رہی ہے۔ لہٰذا دوسری روایت لائق اعتماد نہیں ہے۔

(۲۲) ثبوت جرم کے بعد زانی اور زانیہ کو کیا سزا دی جائے گی، اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہو گیا ہے ، مختلف فقہاء کے مسلک اس باب میں حسب ذیل ہیں:



شادی شدہ مرد و عورت کے لیے زنا کی سزا :



-----امام احمد ،داؤد ظاہر اور اسحاق بن راہویہ کے نزدیک سو کوڑے لگانا اور اس کے بعد سنگسار کرنا ہے۔

-----باقی تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی سزا صرف سنگساری ہے۔ رجم اور سزائے تازیانہ کو جمع نہیں کیا جائے گا۔

غیر شادی شدہ کی سزا :

------امام شافعی ، امام احمد ، اسحاق ، داؤد ظاہری ، سفیان ثوری ، ابن ابی لیلیٰ اور حسن بن صالح کے نزدیک سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ، مرد عورت ہر دو کے لیے۔

------امام مالک اور اوزاعی کے نزدیک مرد کے لئے ١۰۰ کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی۔ اور عورت کے لئے صرف سو کوڑے۔

(جلا وطنی سے مراد ان سب کے نزدیک یہ ہے کہ مجرم کو اس کی بستی سے نکال کر کم از کم اتنے فاصلے پر بھیج دیا جائے جس پر نماز میں قصر واجب ہوتا ہے۔ مگر زید بن علی اور امام جعفر صادق کے نزدیک قید کر دینے سے بھی جلا وطنی کا مقصد پورا ہو جاتا ہے)

----- امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگرد امام ابو یوسف، امام زُفَر اور امام محمد کہتے ہیں کہ اس صورت میں حد زنا مرد اور عورت دونوں کے لیے صرف سو کوڑے ہے۔ اس پر کسی اور سزا، مثلاً قید یا جلا وطنی کا اضافہ حد نہیں بلکہ تعزیر ہے۔ قاضی اگر یہ دیکھے کہ مجرم بد چلن ہے ، یا مجرم اور مجرمہ کے تعلقات بہت گہرے ہیں تو حسب ضرورت وہ انہیں خارج البلد بھی کر سکتا ہے اور قید بھی کر سکتا ہے۔

(حد اور تعزیر میں فرق اس سزا کو کہتے ہیں جو قانون میں بلحاظ مقدار و نوعیت بالکل مقرر نہ کر دی گئی ہو، بلکہ جس میں عدالت حالات مقدمہ کے لحاظ سے کم بیشی کر سکتی ہو)

ان مختلف مسالک میں سے ہر ایک نے مختلف احادیث کا سہارا لیا ہے جن کو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں :

حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ، جسے مسلم، ابو داؤد ، ابن ماجہ، ترمذی اور امام احمد نے نقل کیا ہے۔ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : خذو ا عنی خذو اعنی، قد جعل اللہ لھن سبیلا، البکر بالبکر جلد ماۃ و تعریب عام و الثیب بالثیب جلد مأۃ والرجم(اور می بالحجارۃ۔ او رجم با لحجارۃ) ’’ مجھ سے لو، مجھ سے لو، اللہ نے زانیہ عورتوں کے لیے طریقہ مقرر کر دیا۔ غیر شادی شدہ مرد کی غیر شادی شدہ عورت سے بد کاری کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی، اور شادی شدہ عورت سے بد کاری کے لیے سو کوڑے اور سنگساری‘‘(یہ حدیث اگر چہ سنداً صحیح ہے ، مگر روایات صحیحہ کا ایک جم غفیر ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ اس پر نہ عہد نبوی میں کبھی عمل ہوا ، نہ عہد خلفائے راشدین میں ، اور نہ فقہاء میں سے کسی نے ٹھیک اس کے مضمون کے مطابق فتویٰ دیا۔ فقہ اسلامی میں جو بات متفق علیہ ہے وہ یہ ہے کہ زانی اور زانیہ کے محصن اور غیر محصن ہونے کا الگ الگ اعتبار کیا جائے گا۔ غیر شادی شدہ مرد خواہ شادی شدہ عورت سے زنا کرے یا غیر شادی شدہ ہر دو حالتوں میں اس کو ایک ہی سزا دی جائے گی۔ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے۔ وہ شادی شدہ ہو تو ہر حالت میں ایک ہی سزا پائے گی خواہ اس سے زنا کرنے والا مرد شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اور باکرہ ہونے کی صورت میں بھی اس کے لیے ایک ہی سزا ہے بلا اس لحاظ کے کہ اس کے ساتھ زنا کرنے والا محصن ہے یا غیر محصن)،

حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت زید بن خالد جہنی کی روایت ، جسے بخاری ، مسلم ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی، ابن ماجہ اور امام احمد نے نقل کیا ہے۔ اس میں یہ ہے کہ دو اعرابی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مقدمہ لائے۔ ایک نے کہا کہ میرا بیٹا اس شخص کے ہاں اجرت پر کام کرتا تھا۔ وہ اس کی بیوی سے ملوث ہو گیا۔ میں نے اس کو سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر راضی کیا۔ مگر اہل علم نے بتایا کہ یہ کتاب اللہ کے خلاف ہے۔ آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرما دیں اور دوسرے نے بھی کہا کہ آپ کتاب اللہ مطابق فیصلہ فرما دیں۔ حضورؐ نے فرمایا میں کتاب اللہ ہی کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ بکریاں اور لونڈی تجھی کو واپس۔ تیرے بیٹے کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی۔ پھر آپ نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص سے فرمایا اے انیس ، تو جا کر اس کی بیوی سے پوچھ۔ اگر وہ اعتراف کرے تو اسے رجم کر دے۔ چنانچہ اس نے اعتراف کیا اور رجم کر دی گئی۔ (اس میں رجم سے پہلے کوڑے لگانے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اور غیر شادی شدہ مرد کو شادی شدہ عورت سے بدکاری کرنے پر تازیانے اور جلا وطنی کی سزا دی گئی ہے )۔ ماعز اور غامدیہ کے مقدمات کی جتنی رودادیں احادیث کی مختلف کتابوں میں مروی ہیں ان میں سے کسی میں بھی یہ نہیں ملتا کہ حضور نے رجم کرانے سے پہلے ان کو سو کوڑے بھی لگوائے ہوں۔

کوئی روایت کسی حدیث میں نہیں ملتی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی مقدمے میں رجم کے ساتھ سزائے تازیانہ کا بھی فیصلہ فرمایا ہو۔ زنا بعد احصان کے تمام مقدمات میں آپ نے صرف رجم کی سزا دی ہے۔

حضرت عمرؓ کا مشہور خطبہ جس میں انہوں نے پورے زور سے ساتھ زنا بعد احصان کی سزا رجم بیان کی ہے ، بخاری و مسلم اور ترمذی و نسائی نے مختلف سندوں سے نقل کیا ہے اور امام احمد نے بھی اس کی متعدد روایتیں لی ہیں ، مگر اس کی کسی روایت میں بھی رجم مع سزائے تازیانہ کا ذکر نہیں ہے۔

خلفائے راشدین میں سے صرف حضرت علیؓ نے سزائے تازیانہ اور سنگساری کو ایک سزا میں جمع کیا ہے۔ امام احمد اور بخاری عمر شعبی سے یہ واقعہ نقل کر تے ہیں کہ ایک عورت شراحَہ نامی نے نا جائز حمل کا اعتراف کیا، حضرت علیؓ نے جمعرات کے روز اسے کوڑے لگوائے اور جمعہ کے روز اس کو رجم کرایا، اور فرمایا ہم نے اسے کتاب اللہ کے مطابق کوڑے لگائے ہیں اور سنت رسول اللہ کے مطابق سنگسار کرتے ہیں۔ اس ایک واقعہ کے سوا عہد خلافت راشدہ کا کوئی دوسرا واقعہ رجم مع تازیانہ کے حق میں نہیں ملتا۔

جابر بن عبداللہ کی ایک روایت ، جسے ابو داؤد اور نسائی نے نقل کیا ہے ، یہ بتاتی ہے کہ ایک شخص زنا کا مرتکب ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو صرف سزا ئے تازیانہ دی ، پھر معلوم ہوا کہ وہ شادی شدہ تھا، تب آپ نے اسے رجم کرایا، اس کے علاوہ متعدد روایات ہم پہلےنقل کرآئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر شادی شدہ زانیوں کو آپ نے صرف سزائے تازیانہ دی، مثلاً وہ شخص جس نے نماز کے لیے جاتی ہوئی عورت سے زنا بالجبر کی تھی، اور وہ شخص جس نے زنا کا اعتراف کیا اور عورت نے انکار کیا۔

حضرت عمرؓ نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کو شراب نوشی کے جرم میں جلا وطن کیا اور وہ بھاگ کر رومیوں سے جا ملا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ آئندہ میں کسی کو جلا وطنی کی سزا نہیں دوں گا۔ اسی طرح حضرت علیؓ نے غیر شادی شدہ مرد و عورت کو زنا کے جرم میں جلا وطن کرنے سے نکار کر دیا، اور فرمایا کہ اس میں فتنے کا اندیشہ ہے (احکام القرآن ، جصاص ، جلد3، صضحہ 315 )۔

ان تمام روایات پر مجموعی نظر ڈالنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہؓ اور ان کے اصحاب کا مسلک ہی صحیح ہے ، یعنی زنا بعد احصان کی حد صرف رجم ہے ، اور محض زنا کی حد صرف 100 کوڑے۔ تازیانے اور رجم کو جمع کرنے پر تو عہد نبوی سے لے کر عہد عثمانی تک کبھی عمل ہی نہیں ہوا۔ رہا تازیانے اور جلا وطنی کو جمع کرنا ، تو اس پر کبھی عمل ہوا ہے اور کبھی نہیں ہوا۔ اس سے مسلک حنفی کی صحت صاف ثابت ہو جاتی ہے۔

۲۳) :ضرب تازیانہ کی کیفیت کے متعلق پہلا اشارہ خود قرآن کے لفظ : فَاجْلِدوْا میں ملتا ہے۔ جَلد کا لفظ جِلد(یعنی کھال ) سے ماخوذ ہے۔ اس سے تمام اہل لغت اور علمائے تفسیر نے یہی معنی لیے ہیں کہ مار ایسی ہونی چاہیے جس کا اثر جِلد تک رہے ، گوشت تک نہ پہنچے۔ ایسی ضرب تازیانہ جس سے گوشت کے ٹکڑے اڑ جائیں ، یا کھال پھٹ کر اندر تک زخم پڑ جائے ، قرآن کے خلاف ہے۔

مار کے لیے خواہ کوڑا استعمال کیا جائے یا بید، دونوں صورتوں میں وہ اوسط درجے کا ہونا چاہیے۔ نہ بہت موٹا اور سخت۔ اور نہ بہت پتلا اور نرم۔ مؤطّا میں امام مالکؒ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ضرب تازیانہ کے لیے کوڑا طلب کیا اور وہ کثرت استعمال سے بہت کمزور ہو چکا تھا۔ آپ نے فرمایا : فوق ھٰذا (اس سے زیادہ سخت لاؤ)۔ پھر ایک نیا کوڑا لایا گیا ، جو ابھی استعمال سے نرم نہیں پڑا تھا۔ آپ نے فرمایا دونوں کے درمیان۔ پھر ایسا کوڑا لایا گیا جو سواری میں استعمال ہو چکا تھا / اس سے آپ نے ضرب لگوائی۔ اسی مضمون سے ملتی جلتی روایت ابو عثمان الجہدی نے حضرت عمرؓ کے متعلق بھی بیان کی ہے کہ وہ اوسط درجے کا کوڑا استعمال کرتے تھے۔ (احکام القرآن جصاص۔ ج 3۔ ص 322 )۔ گرہ لگا ہوا کوڑا یا دوشاخہ سہ شاخہ کوڑا بھی استعمال کرنا ممنوع ہے۔

ماربھی اوسط درجے کی ہونی چاہیے۔ حضرت عمرؓ مار نے والے کو ہدایت کرتے تھے کہ : لا ترفع (یا لا تخرج) ابطک۔ ’’ اسطرح مار کہ تیری بغل نہ کھلے ‘‘۔ یعنی پوری طاقت سے ہاتھ کو تان کر نہ مار(احکام القرآن ابن عربی۔ ج 2 ص 84۔ احکام القرآن جصاص ، ج 3۔ ص 322)۔ تمام فقہاء اس پر متفق ہیں کہ ضرب مبرح نہیں ہونی چاہیے ، یعنی زخم ڈال دینے والی۔ ایک ہی جگہ نہیں مارنا چاہی بلکہ تمام جسم پر مار کو پھیلا دینا چاہیے۔ صرف منہ اور شرم گاہ کو (اور حنفیہ کے نزدیک سر کو بھی) بچا لینا چاہیے ، باقی ہر عضو پر کچھ نہ کچھ مار پڑنی چاہیے۔ حضرت علیؓ نے ایک شخص کو کوڑے لگواتے وقت فرمایا ’’ ہر عضو کو اس کا حق دے اور صرف منہ اور شرمگاہ کو بچا لے ‘‘۔ دوسری روایت میں ہے ’’ صرف سر اور شرمگاہ کو بچالے ‘‘(احکام القرآن جصاص ، ج 3۔ ص 321)۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے اذا ضرب احد کم فلیتق لوجہ۔ ’’جب تم میں سے کوئی مارے تو منہ پر نہ مارے ‘‘(ابو داؤد)۔

مرد کو کھڑا کر کے مارنا چاہیے اور عورت کو بٹھا کر۔ امام ابو حنیفہ کے زمانے میں کوفے کے قاضی ابن ابی لیلی نے ایک عورت کو کھڑا کر کے پٹوایا۔ اس پر امام ابو حنیفہ نے سخت گرفت کی اور علانیہ ان کے فیصلے کو غلط ٹھیرایا (اس سے قانون توہین عدالت کے معاملے میں بھی امام صاحب کے مسلک پر روشنی پڑتی ہے )۔ ضرب تازیانہ کے وقت عورت اپنے پورے کپڑے پہنے رہے گی ، بلکہ اس کے کپڑے اچھی طرح باندھ دیے جائیں گے تاکہ اس کا جسم کھل نہ جائے صرف موٹے کپڑے اتروا دیے جائیں گے۔ مرد کے معاملے میں اختلاف ہے۔ بعض فقہا کہتے ہیں وہ صرف پاجامہ پہنے رہے گا، اور بعض کہتے ہیں کہ قمیض بھی نہ اُتروایا جائے گا۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے ایک زانی کو سزائے تازیانہ کا حکم دیا اس نے کہا ’’ اس گناہ گار جسم کو اچھی طرح مار کھانی چاہیے ‘‘ ، اور یہ کہ کر وہ قمیص اتارنے لگا۔ حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا’’ اسے قمیص نہ اتارنے دو‘‘۔ (احکام القرآن جصاص ، ج 3۔ ص 322)۔ حضرت علی کے زمانے میں ایک شخص کو کوڑے لگوائے گئے اور وہ چادر اوڑھے ہوئے تھا۔

سخت سردی اور سخت گرمی کے وقت مارنا ممنوع ہے۔ جاڑے میں گرم وقت اور گرمی میں ٹھنڈے وقت مارنے کا حکم ہے۔

باندھ کر مارنے کی بھی اجازت نہیں ہے ، الا یہ کہ مجرم بھاگنے کی کوشش کرے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرمانے ہیں لا یحل فی ھٰذہ الا مۃ تضرید ولا مدّ۔ ‘‘اس امت میں ننگا کر کے اور ٹکٹکی پر باندھ کر مارنا حلال نہیں ہے۔

فقہاء نے اس کو جائز رکھا ہے کہ روزانہ کم از کم بیس بیس کوڑے مارے جائیں۔ لیکن اولیٰ یہی ہے کہ بیک وقت پوری سزا دے دی جائے۔

مار کا کام اجڈ جلادوں سے نہیں لینا چاہیے بلکہ صاحب علم و بصیرت آدمیوں کو یہ خدمت انجام دینی چاہیے جو جانتے ہوں کہ شریعت کا تقاضا پورا کرنے کے لیے کس طرح مارنا منا سب ہے۔ ابن قیم نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں حضرت علی، حضرت زبیر ، مقداد بن عمرو، محمد بن مسلمہ، عاصم بن ثابت اور ضحاک بن سفیان جیسے صلحاءو معززین سے جلادی کی خدمت لی جاتی تھی(ج 1۔ ص 44۔ 45)۔

اگر مجرم مریض ہو، اور اس کے صحت یاب ہونے کی امید نہ ہو، یا بہت بوڑھا ہو تو سو شاخوں والی ایک ٹہنی ، یا سوتیلیوں والی ایک جھاڑو لے کر صرف ایک دفعہ مار دینا چاہے تاکہ قانون کا تقاضا پورا کر دیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ایک بوڑھا مریض زنا کے جرم میں پکڑا گیا تھا اور آپ نے اس کے لیے یہی سزا تجویز فرمائی تھی (احمد، ابو داؤد ، نسائی، ابن ماجہ)۔ حاملہ عورت کو سزا ئے تازیانہ دینی ہو تو وضع حمل کے بعد نفاس کا زمانہ گزر جانے تک انتظار کرنا ہوگا۔ اور رجم کرنا ہو تو جب تک اس کے بچے کا دودھ نہ چھوٹ جائے ، سزا نہیں دی جا سکتی۔

اگر زنا شہادتوں سے ثابت ہو تو گواہ ضرب کی ابتدا کریں گے ، اور اگر اقرار کی بنا پر سزا دی جا رہی ہو تو قاضی خود ابتدا کرے گا، تاکہ گواہ اپنی گواہی کو اور جج اپنے فیصلوں کو کھیل نہ سمجھ بیٹھیں۔ شراحہ کے مقدمے میں جب حضرت علیؓ نے رجم کا فیصلہ کیا تو فرمایا’’ اگر اس کے جرم کا کوئی گواہ ہوتا تو اسی کو مار کی ابتدا کرنی چاہیے تھی ، مگر اس کو اقرار کی بنا پر سزا دی جا رہی ہے، اس لیے میں خود ابتدا کروں گا‘‘۔ حنیفہ کے نزدیک ایسا کرنا واجب ہے۔ شافعیہ اس کو واجب نہیں مانتے ، مگر سب کے نزدیک اولیٰ یہی ہے۔

ضرب تازیانہ کے قانون کی ان تفصیلات کو دیکھیے اور پھر ان لوگوں کی جرأت کی داد دیجیے جو اسے تو وحشیانہ سزا کہتے ہیں ، مگر وہ سزائے تازیانہ ان کے نزدیک بڑی مہذب سزا ہے جو آج جیلوں میں دی جا رہی ہے۔ موجودہ قانون کی رو سے صرف عدالت ہی نہیں ، جیل کا ایک معمولی سپرنٹنڈنٹ بھی ایک قیدی کو حکم عدولی یا گستاخی کے قصور میں 30 ضرب بید تک کی سزا دینے کا مجاز ہے۔ یہ بید لگانے کے لیے ایک آدمی خاص طور پر تیار کیا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ اس کی مشق کرتا رہتا ہے۔ اس غرض کے لیے بید بھی خاص طور پر بھگو بھگو کر تیار کیے جاتے ہیں تاکہ جسم کو چھری کی طرح کاٹ دیں۔ مجرم کو ننگا کر کے ٹکٹکی سے باندھ دیا جاتا ہے تاکہ وہ تڑپ بھی نہ سکے۔ صرف ایک پتلا سا کپڑا اس کے ستر کو چھپانے کے لیے رہنے دیا جاتا ہے اور وہ ٹنکچر آیوڈین سے بھگو دیا جاتا ہے۔ جلاد دور سے بھاگتا ہوا آتا ہے اور پوری طاقت سے مارتا ہے ضرب ایک ہی مخصوص حصہ جسم (یعنی سُرین) پر مسلسل لگائی جاتی ہے یہاں تک کہ گوشت قیمہ ہو کر اڑتا چلا جاتا ہے اور بسا اوقات ہڈی نظر آنے لگتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ طاقت ور سے طاقت ور آدمی بھی پورے تیس بید کھانے سے پہلے ہی بے ہوش ہو جاتا ہے اور اس کے زخم بھرنے میں ایک مدت لگ جاتی ہے۔ اس ’’مہذب‘‘ سزا کو جو لوگ آج جیلوں میں خود نافذ کر رہے ہیں ان کا یہ منہ ہے کہ اسلام کی مقرر کی ہوئی سزائے تازیانہ کو ’’وحشیانہ‘‘ سزا کے نام سے یاد فرمائیں ، پھر ان کی پولیس ثابت شدہ مجرموں کو نہیں بلکہ محض مشتبہ لوگوں کو تفتیش کی خاطر (خصوصاً سیاسی جرائم کے شبہات میں )جیسے جیسے عذاب دیتی ہے وہ آج کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔

۲۴) : رجم کی سزا میں جب مجرم مر جائے تو پھر اس سے پوری طرح مسلمانوں کا سا معاملہ کیا جائے گا۔ اس کی تجہیز و تکفین کی جائے گی۔ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ اس کو عزت کے ساتھ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔ اس کے حق میں دعائے مغفرت کی جائے گی اور کسی کے لیے جائز نہ ہو گا کہ اس کا ذکر برائی کے ساتھ کرے۔ بخاری میں جابر بن عبداللہ انصاری کی روایت ہے کہ جب رجم سے ماعز بن مالک کی موت واقع ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو خیر سے یاد فرمایا اور اس کی نماز جنازہ خود پڑھائی‘‘۔ مسلم میں حضرت بریدہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: اسْتغفرو ا لما عزبن مالک۔ ۔ لقد تاب توبۃ لو قسمت بین امۃ لو سعتھم،’’ ماعزبن مالک کے حق میں دعائے مغفرت کرو، اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ایک پوری امت پر تقسیم کر دی جائے تو سب کے لیے کافی ہو‘‘۔ اسی روایت میں یہ بھی ذکر ہے کہ غامدیہ جب رجم سے مر گئی تو حضورؐ نے خود اس کی نماز جنازہ پڑھائی، اور جب حضرت خالد بن ولید نے اس کا ذکر برائی سے کیا تو آپ نے فرمایا : مھلا یا خالد، فوالزی نفسی بیدہٖ لقد تابت توبۃ لو تابھا صاحب مکس الغفرلہ ’’ خالد اپنی زبان روکو، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، اس نے ایسی توبہ کی تھی کہ اگر ظالمانہ محصول وصول کرنے والا بھی وہ توبہ کرتا تو بخش دیا جاتا‘‘۔ ابوداؤد میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ماعز کے واقعہ کے بعد ایک روز حضورؐ راستے سے گزر رہے تھے۔ آپ نے دو شخصوں کو ماعز کا ذکر برائی سے کرتے سنا۔ چند قدم آگے جا کر ایک گدھے کی لاش پڑی نظر آئی۔ حضورؐ ٹھیر گئے اور ان دونوں آدمیوں سے کہا ’’ آپ حضرات اس میں سے کچھ نوش جان فرمائیں ‘‘۔ انہوں نے عرض کیا ’’ یا نبی اللہ اسے کون کھا سکتا ہے ‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’ اپنے بھائی کی آبرو سے جو کچھ آپ ابھی تناول فرما رہے تھے وہ اسے کھانے کی بہ نسبت بدر تر چیز تھی‘‘۔ مسلم میں عمران بن حصین کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے غامدیہ کی نماز جنازہ کے موقع پر عرض کیا یا رسول اللہ، کیا اب اس زانیہ کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی؟ آپ نے فرمایا : لقد تابت توبۃ لو قسمت بین اھل المدینہ لو سعتھم، ’’ اس نے وہ توبہ کی ہے کہ اگر تمام اہل مدینہ پر تقسیم کر دی جائے تو سب کے لیے کافی ہو‘‘۔ بخاری میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص کو شراب نوشی کے جرم میں سزا دی جا رہی تھی۔ کسی کی زبان سے نکلا ’’ خدا تجھے رسوا کرے ‘‘۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ اس طرح نہ کہو ، اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو‘‘۔ ابو داؤد میں اس پر اتنا اور اضافہ ہے حضورؐ نے فرمایا’’ بلکہ یوں کہ : اللہمَّ اغفرلہ ، اللہمَّ ارحمہ۔ ’’ خدایا اسے معاف کر دے ، خدایا اس پر رحم کر‘‘۔ یہ ہے اسلام میں سزا کی اصل روح۔ اسلام کسی بڑے سے بڑے مجرم کو بھی دشمنی کے جذبے سے سزا نہیں دیتا بلکہ خیر خواہی کے جذبے سے دیتا ہے ، اور جب سزا دے چکتا ہے تو پھر اسے رحمت و شفقت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ کم ظرفی صرف موجودہ تہذیب نے پیدا کی ہے کہ حکومت کی فوج یا پولیس جسے مار دے ، اور کوئی عدالتی تحقیقات جس کے مارنے کو جائز ٹھیرا دے ، اس کے متعلق یہ تک گوارا نہیں کیا جاتا کہ کوئی اس کا جنازہ اٹھائے یا کسی کی زبان سے اس کا ذکر خیر سنا جائے۔ اس پر اخلاقی جرأت ( یہ موجودہ تہذیب میں ڈھٹائی کا مہذب نام ہے ) کا یہ عالم ہے کہ دنیا کو رواداری کے وعظ سنائے جاتے ہیں۔

۲۵) : محرمات سے زنا کے متعلق شریعت کا قانون تفہیم القرآن جلد اول صفحہ 336 پر ، اور عمل قوم لوط کے متعلق شرعی فیصلہ تفہیم القرآن جلد دوم صفحہ 51۔ 54 پر بیان کیا جا چکا ہے۔ رہا جانور سے فعل بد، تو بعض فقہاء اس کو بھی زنا کے حکم میں شمار کرتے ہیں اور اس کے مرتکب کو حد زنا کا مستحق ٹھیراتے ہیں ، مگر امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام زفر امام مالک اور امام شافعی کہتے ہیں کہ یہ زنا نہیں ہے اس لیے اس کا مرتکب تعزیر کا مستحق ہے کہ حد زنا کا۔ تعزیر کے متعلق ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ اس کا فیصلہ قاضی کی رائے پر چھوڑ ا گیا ہے ، یا مملکت کی مجلد شوریٰ ضرورت سمجھے تو اس کے لیے کوئی منا سب شکل خود تجویز کر سکتی ہے۔

3. اولین چیز جو اس آیت میں قابل توجہ ہے وہ یہ کہ یہاں فوجداری قانون کو ’’ دین اللہ‘‘ فر مایا جا رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ صرف نماز اور روزہ اور حج و زکوٰۃ ہی دین نہیں ہیں ، مملکت کا قانون بھی دین ہے۔ دین کو قائم کرنے کا مطلب صرف نماز ہی قائم کرنا نہیں ہے بلکہ اللہ کا قانون اور نظام شریعت قائم کرنا بھی ہے۔ جہاں یہ چیز قائم نہ ہو وہاں نماز اگر قائم ہو بھی تو گویا ادھورا دین قائم ہوا۔ جہاں اس کو رد کر کے دوسرا کوئی قانون اختیار کیا جائے وہاں کچھ اور نہیں خود دین اللہ رد کر دیا گیا۔

دوسری چیز جو اس میں قابل توجہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی یہ تنبیہ ہے کہ زانی اور زانیہ پر میری تجویز کردہ سزا نافذ کرنے میں مجرم کے لیے رحم اور شفقت کا جذبہ تمہارا ہاتھ نہ پکڑے۔ اس بات کو اور زیادہ کھول کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حدیث میں بیان فرمایا : یؤتیٰ بوالٍ نقص من الحد سو طافیقال لہ لِمَ فعلت ذٰلک ؟ فیقول رحمۃ لعبادک فیال لہ انت ارحم بہم منی؟ فیومر بہٖ الی النار۔ و یؤتیٰ بمن زاد سو طافیقال لہ لم فعلت ذاک؟ فیقول لینتھوا عن معاصیک۔ فیقول انت احکم بہم منی؟ فیومربہٖ الی النار۔ ’’ قیامت کے روز ایک حاکم لایا جائے گا جس نے حد میں سے ایک کوڑا کم کر دیا تھا۔ پوچھا جائے گا یہ حرکت تو نے کیوں کی تھی؟ وہ عرض کرے گا آپ کے بندوں پر رحم کھا کر۔ ارشاد ہو گا اچھا، تو ان کے حق میں مجھ سے زیادہ رحیم تھا ! پھر حکم ہو گا لے جاؤ اسے دوزخ میں۔ ایک اور حاکم لایا جائے گا جس نے حد پر ایک کوڑے کا اضافہ کر دیا تھا۔ پوچھا جائے گا تو نے یہ کس لیے کیا تھا ؟ وہ عرض کرے گا تاکہ لوگ آپ کی نافرمانیوں سے باز رہیں۔ ارشاد ہو گا اچھا، تو ان کے معاملے میں مجھ سے زیادہ حکیم تھا ! پھر حکم ہو گا لے جاؤ اسے دوزخ میں ‘‘ (تفسیر کبیر۔ ج 6۔ ص 225) یہ تو اس صورت میں ہے جب کہ کمی بیشی کا عمل رحم یا مصلحت کی بنا پر ہو۔ لیکن اگر کہیں احکام میں رد و بدل مجرموں کے مرتبے کی بنا پر ہونے لگے تو پھر یہ ایک بد ترین جرم ہے۔ صحیحین میں سے حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خبطہ میں فرمایا ’’ لوگو، تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں وہ ہلاک ہو گئیں اس لیے کہ جب ان میں کوئی عزت والا چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے تھے ‘‘ ایک اور روایت میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’ایک حد جاری کرنا اہل زمین کے لیے چالیس دن کی بارش سے زیادہ مفید ہے ‘‘ (نسائی و ابن ماجہ)۔

بعض مفسرین نے اس آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ مجرم کو جرم ثابت ہونے کے بعد چھوڑ نہ دیا جائے اور نہ سزا میں کمی کی جائے ، بلکہ پورے سو کوڑے مارے جائیں۔ اور بعض نے یہ مطلب لیا ہے کہ ہلکی مار نہ ماری جائے جس کی کوئی تکلیف ہی مجرم محسوس نہ کرے۔ آیت کے الفاظ دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں ، بلکہ حق یہ ہے کہ دونوں ہی مراد معلوم ہوتے ہیں۔ اور مزید براں یہ مراد بھی ہے کہ زانی کو وہی سزا دی جائے جو اللہ نے تجویز فرمائی ہے ، اسے کسی اور سزا سے نہ بدل دیا جائے۔ کوڑوں کے بجائے کوئی اور سزا دینا اگر رحم اور شفقت کی بنا پر ہو تو معصیت ہے ، اور اگر اس خیال کی بنا پر ہو کہ کوڑوں کی سزا یک وحشیانہ سزا ہے تو یہ قطعی کفر ہے جو ایک لمحہ کے لیے بھی ایمان کے ساتھ ایک سینے میں جمع نہیں ہو سکتا۔ خدا کو خدا بھی ماننا اور اس کو معاذ اللہ وحشی بھی کہنا صرف ان ہی لوگوں کے لیے ممکن ہے جو ذلیل ترین قسم کے منافق ہیں۔

4. یعنی سزا علی الاعلان عام لوگوں کے سامنے دی جائے ، تاکہ ایک طرف مجرم کو فضیحت ہو اور دوسری طرف عوام الناس کو نصیحت۔ اس سے اسلام کے نظریہ سزا پر واضح روشنی پڑتی ہے۔ سورہ مائدہ میں چوری کی سزا بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا : جَزَآءًمبِمَا کَسَبَا نَکَا لًامِّنَ اللہِ۔ ’’ ان کے کیے کا بدلا اور اللہ کی طرف سے جرم کو روکنے والی سزا‘‘(آیت 38) اور اب یہاں ہدایت کی جار ہی ہے کہ زانی کو علانیہ لوگوں کے سامنے عذاب دیا جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی قانون میں سزا کے تین مقصد ہیں۔ اول یہ کہ مجرم سے اس زیادتی کا بدلہ لیا جائے اور اس کو اس برائی کا مزا چکھایا جائے جواس نے کسی دوسرے شخص یا معاشرے کے ساتھ کی تھی۔ دوم یہ کہ اسے اعادہ جرم سے باز رکھا جائے۔ سوم یہ کہ اس کی سزا کو ایک عبرت بنا دیا جائے تاکہ معاشرے میں جو دوسرے لوگ برے میلانات رکھنے والے ہوں ان کے دماغ کا آپریشن ہو جائے اور وہ اس طرح کے کسی جرم کی جرأت نہ کر سکیں۔ اس کے علاوہ علانیہ سزا دینے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس صورت میں حکام سزا دینے میں بے جا رعایت یا بے جا سختی کرنے کی کم ہی جرأت کر سکتے ہیں۔

5. یعنی زانی غیر تائب کے لیے اگر موزوں ہے تو زانیہ ہی موزوں ہے ، یا پھر مشرکہ۔ کسی مومنہ صالحہ کے لیے وہ موزوں نہیں ہے ، اور حرام ہے اہل ایمان کے لیے کہ وہ جانتے بوجھتے اپنی لڑکیاں ایسے فاجروں کو دیں۔ اسی طرح زانیہ (غیر تائبہ) عورتوں کے لیے اگر موزوں ہیں تو ان ہی جیسے زانی یا پھر مشرک۔ کسی مومن صالح کے لیے وہ موزوں نہیں ہیں ، اور حرام ہے مومنوں کے لیے کہ جن عورتوں کی بد چلنی کا حال انہیں معلوم ہو ان سے وہ دانستہ نکاح کریں۔ اس حکم کا اطلاق صرف ان ہی مردوں اور عورتوں پر ہوتا ہے جو اپنی بری روش پر قائم ہوں۔ جو لوگ توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لیں ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا ، کیونکہ توبہ و اصلاح کے بعد ’’ زانی‘‘ ہونے کی صفت ان کے ساتھ لگی نہیں رہتی۔

زانی کے ساتھ نکاح کے حرام ہونے کا مطلب امام احمد بن حنبل نے یہ لیا ہے کہ سرے نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ اس سے مراد محض ممانعت ہے ، نہ یہ کہ اس کی ممانعت کے خلاف اگر کوئی نکاح کرے تو وہ قانوناً نکاح ہی نہ ہو اور اس نکاح کے باوجود فریقین زانی شمار کیے جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بات ایک قاعدہ کلیہ کے طور پر ارشاد فرمائی ہے کہ الحرام لا یحرم الحلال، ’’ حرام حلال کو حرام نہیں کر دیتا‘‘(طبرانی، دارقطنی) یعنی ایک غیر قانونی فعل کسی دوسرے قانونی فعل کو غیر قانونی نہیں بنا دیتا لہٰذا کسی شخص کا ارتکاب زنا اس بات کا موجب نہیں ہو سکتا کہ وہ نکاح بھی کرے تو اس کا شمار زنا ہی میں ہو اور معاہدہ نکاح کا دوسرا فریق جو بد کار نہیں ہے ، وہ بھی بد کار قرار پائے۔ اصولاً بغاوت کے سوا کوئی غیر قانونی فعل اپنے مرتکب کو خارج از حدود قانون (Out law) نہیں بنا دیتا ہے کہ پھر اس کا کوئی فعل بھی قانونی نہ ہو سکے۔ اس چیز کو نگاہ میں رکھ کر اگر آیت پر غور کیا جائے تو اصل منشا صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کی بد کاری جانی بوجھی ہو ان کو نکاح کے لیے منتخب کرنا ایک گناہ ہے جس سے اہل ایمان کو پرہیز کرنا چاہیے ، کیونکہ اس سے بد کاروں کی ہمت افزائی ہوتی ہے ، حالانکہ شریعت انہیں معاشرے کا ایک مکروہ اور قابل نفرت عنصر قرار دینا چاہتی ہے۔

اسی طرح اس آیت سے یہ نتیجہ بھی نہیں نکلتا کہ زانی مسلم کا نکاح مشرک عورت سے ، اور زانیہ مسلمہ کا نکاح مشرک مرد سے صحیح ہے۔ آیت کا منشا در اصل یہ بتانا ہے کہ زنا ایسا سخت قبیح فعل ہے کہ جو شخص مسلمان ہوتے ہوئے اس کا ارتکاب کرے وہ اس قابل نہیں رہتا کہ مسلم معاشرے کے پاک اور صالح لوگوں سے اس کا رشتہ ہو۔ اسے یا تو اپنے ہی جیسے زانیوں میں جانا چاہیے ، یا پھر ان مشرکوں میں جو سرے سے احکام الٰہی پر اعتقاد ہی نہیں رکھتے۔

آیت کے منشا کی صحیح ترجمانی وہ احادیث کرتی ہیں جو اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہیں۔ مسند احمد اور نسائی میں عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ ایک عورت ام مہزول نامی تھی جو قحبہ گری کا پیشہ کرتی تھی۔ ایک مسلمان نے اس سے نکاح کرنا چاہا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت طلب کی۔ آپ نے منع فرمایا اور یہی آیت پڑھی۔ ترمذی اور ابو داؤد میں ہے کہ مرثد بن ابی مرثد ایک صحابی تھے جن کے زمانہ جاہلیت میں مکے کی ایک بد کار عورت عناق سے ناجائز تعلقات رہ چکے تھے۔ بعد میں انہوں نے چاہا کہ اس سے نکاح کر لیں اور حضور سے اجازت مانگی۔ دو دفعہ پوچھنے پر آپ خاموش رہے۔ تیسری دفعہ پھر پوچھا تو آپ نے فرمایا : یا مرثد، الزانی لا ینکح الازانیۃ او مشرکۃ فلا تنکحھا۔ اس کے علاوہ متعدد روایات حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عمار بن یاسر سے منقول ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا’’ جو شخص دیوث ہو( یعنی جسے معلوم ہو کہ اس کی بیوی بد کار ہے اور یہ جان کر بھی وہ اس کا شوہر بنا رہے ) وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا‘‘۔ (احمد ، نسائی ، ابو داؤد اور طیالِسی)۔ شیخین، ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ جو غیر شادی شدہ مرد و عورت زنا کے الزام میں گرفتار ہوتے ان کو وہ پہلے سزائے تازیانہ دیتے تھے اور پھر ان ہی کا آپس میں نکاح کر دیتے تھے۔ ابن عمر کی روایت ہے کہ ایک روز ایک شخص بڑی پریشانی کی حالت میں حضرت ابو بکرؓ کے پاس آیا اور کچھ اس طرح بات کرنے لگا کہ اس کی زبان پوری طرح کھلتی نہ تھی۔ حضرت ابو بکرؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ اسے الگ لے جا کر معاملہ پوچھو۔ حضرت عمرؓ کے دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ ایک شخص اس کے ہاں مہمان کے طور پر آیا تھا، وہ اس کی لڑکی سے ملوث ہو گیا۔ حضرت عمرؓ نے کہا : قبحک اللہ ، الا سترت علی ابنتک، ’’ تیرا برا ہو ، تو نے اپنی لڑکی کا پردہ ڈھانک نہ دیا‘‘؟ آخر کار لڑکے اور لڑکی پر مقدمہ قائم ہوا ، دونوں پر حد جاری کی گئی اور پھر ان دونوں کا باہم نکاح کر کے حضرت ابو بکرؓ نے ایک سال کے لیے ان کو شہر بدر کر دیا۔ ایسے اور چند واقعات قاضی ابو بکر ابن العربی نے اپنی کتاب احکام القرآن میں نقل کیے ہیں (جلد 2۔ ص 86)۔

6. اس حکم کا منشا یہ ہے کہ معاشرے میں لوگوں کی آشنائیوں اور ناجائز تعلقات کے چرچے قطعی طور پر بند کر دیے جائیں ، کیونکہ اس سے بے شمار برائیاں پھیلتی ہیں ، اور ان میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ اس طرح غیر محسوس طریقے پر ایک عام زنا کارانہ ماحول بنتا چلا جاتا ہے۔ ایک شخص مزے لے لے کر کسی کے صحیح یا غلط گندے واقعات دوسروں کے سامنے بیان کرتا ہے۔ دوسرے اس میں نمک مرچ لگا کر اور لوگوں تک انہیں پہنچاتے ہیں ، اور ساتھ ساتھ کچھ مزید لوگوں کے متعلق بھی اپنی معلومات یا بد گمانیاں بیان کر دیتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ شہوانی جذبات کی ایک عام رو چل پڑتی ہے ، بلکہ برے میلانات رکھنے والے مردوں اور عورتوں کو یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ معاشرے میں کہاں کہاں ان کے لیے قسمت آزمائی کے مواقع موجود ہیں۔ شریعت اس چیز کا سد باب پہلے ہی قدم پر کر دینا چاہتی ہے۔ ایک طرف وہ حکم دیتی ہے کہ اگر کوئی زنا کرے اور شہادتوں سے اس کاجرم ثابت ہو جائے تو اس کو وہ انتہائی سزا دو جو کسی اور جرم پر نہیں دی جاتی۔ اورع دوسری طرف وہ فیصلہ کرتی ہے کہ جو شخص کسی پر زنا کا الزام لگائے وہ یا تو شہادتوں سے اپنا الزام ثابت کرے ، ورنہ اس پر اسّی کوڑے برسا دو تاکہ آئندہ کبھی وہ اپنی زبان سے ایسی بات بلا ثبوت نکالنے کی جرأت نہ کرے۔ بالفرض اگر الزام لگانے والے نے کسی کو اپنی آنکھوں سے بھی بد کاری کرتے دیکھ لیا ہو تب بھی اسے خاموش رہنا چاہیے اور دوسروں تک اسے نہ پہنچانا چاہیے ، تاکہ گندگی جہاں ہے وہیں پڑی رہے ، آگے نہ پھیل سکے۔ البتہ اگر اس کے پاس گواہ موجود ہیں تو معاشرے میں بیہودہ چرچے کرنے کے بجائے معاملہ حکام کے پاس لے جائے اور عدالت میں ملزم کا جرم ثابت کر کے اسے سزا دلوا دے۔

اس قانون کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تفصیلات نگاہ میں رہیں۔ اس لیے ہم ذیل میں ان کو نمبر وار بیان کرتے ہیں :

۱: آیت میں الفاظ ’’ وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْ نَ ‘‘ استعمال ہوئے ہیں جن کے معنی ہیں ’’ وہ لوگ جو الزام لگائیں ‘‘۔ لیکن سیاق و سباق یہ بتاتا ہے کہ یہاں الزام سے مراد ہر قسم کا الزام نہیں ، بلکہ مخصوص طور پر زنا کا الزام ہے۔ پہلے زنا کا حکم بیان ہوا ہے اور آگے لعِان کا حکم آ رہا ہے ، ان دونوں کے درمیان اس حکم کا آنا صاف اشارہ کر رہا ہے کہ یہاں ’’الزام‘‘ سے مراد کس نوعیت کا الزام ہے۔ پھر الفاظ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ (الزام لگائیں پاک دامن عورتوں پر) سے بھی یہ اشارہ نکلتا ہے کہ مراد وہ الزام ہے جو پاک دامنی کے خلاف ہو۔ اس پر مزید یہ کہ الزام لگانے والوں سے اپنے الزام کے ثبوت میں چار گواہ لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو پورے قانون اسلامی میں صرف زنا کا نصاب شہادت ہے۔ ان قرائن کی بنا پر تمام امت کے علماء کا اجماع ہے کہ اس آیت میں صرف الزام زنا کا حکم بیان ہوا ہے ، جس کے لیے علماء نے ’قَذْف‘‘ کی مستقل اصطلاح مقرر کر دی ہے تاکہ دوسری تہمت تراشیاں (مثلاً کسی کو چور، یا شرابی، یا سود خوار ، یا کافر کہہ دینا) اس حکم کی زد میں نہ آئیں۔ ’’ قذف‘‘ کے سوا دوسری تہمتوں کی سزا قاضی خود تجویز کر سکتا ہے ، یا مملکت کی مجلس شوریٰ حسبِ ضرورت ان کے لیے توہین اور ازالہ حیثیت عرفی کا کوئی عام قانون بنا سکتی ہے۔

۲ : آیت میں اگرچہ الفاظ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتُ (پاک دامن عورتوں پر الزام لگائیں ) استعمال ہوئے ہیں ، لیکن فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ حکم صرف عورتوں ہی پر الزام لگانے تک محدود نہیں ہے بلکہ پاک دامن مردوں پر بھی الزام لگانے کا یہی حکم ہے۔ اسی طرح اگرچہ الزام لگانے والوں کے لیے اَلَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ، لیکن یہ صرف مردوں ہی کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اگر جرم قذف کی مرتکب ہوں تو وہ اسی حکم کی سزاوار ہوں گی۔ کیونکہ جرم کی شناخت میں قاذِف یا مقذوف کے مرد یا عورت ہونے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ لہٰذا قانون کی شکل یہ ہو گی کہ جو مرد یا عورت بھی کسی پاک دامن مرد یا عورت پر زنا کا الزام لگائے اس کا یہ حکم ہے۔ (واضح رہے کہ یہاں محصن اور محصنہ سے مراد شادی شدہ مرد و عورت نہیں بلکہ پاک دامن مرد و عورت ہیں )۔

۳ : یہ حکم صرف اسی صورت میں نافذ ہو گا جب کہ الزام لگانے والے نے محصنین یا محصنات پر الزام لگایا ہو کسی غیر محصن پر الزام لگانے کی صورت میں اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ غیر محصن اگر بد کاری میں معروف ہو تب تو اس پر ’’ الزام‘‘ لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن اگر وہ ایسا نہ ہو تو اس کے خلاف بلا ثبوت الزام لگانے والے کے لیے قاضی خود سزا تجویز کر سکتا ہے ، یا ایسی صورتوں کے لیے مجلس شوریٰ حسب ضرورت قانون بنا سکتی ہے۔

۴ : کسی فعل قذف کے مستلزم سزا ہونے کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ کسی نے کسی پر بد کاری کا بلا ثبوت الزام لگایا ہے ، بلکہ اس کے لیے کچھ شرطیں قاذف (الزام لگانے والے ) میں اور کچھ مقذوف (الزام کے ہدف بنائے جانے والے ) میں ، اور کچھ خود فعل قذف میں پائی جانی ضروری ہیں۔

قاذف میں جو شرطیں پائی جانی چاہییں وہ یہ ہیں : اول یہ کہ وہ بالغ ہو۔ بچہ اگر قذف کا مرتکب ہوتو اسے تعزیر دی جا سکتی ہے مگر اس پر حد جاری نہیں کی جا سکتی۔ دوم یہ کہ وہ عاقل ہو۔ مجنون پر حد قذف جاری نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح حرام نشے کے سوا کسی دوسری نوعیت کے نشے کی حالت میں ، مثلاً کلوروفارم کے زیر اثر الزام لگانے والے کو بھی مجرم نہیں ٹھیرایا جا سکتا۔ سوم یہ کہ اس نے اپنے آزاد ارادے سے (فقہاء کی اصطلاح میں طائعاً ) یہ حرکت کی ہو۔ کسی کے جبر سے قذف کا ارتکاب کرنے والا مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ چہارم یہ کہ وہ مقذوف کا اپنا باپ یا دادا نہ ہو، کیونکہ ان پر حد قذف جاری نہیں کی جا سکتی۔ ان کے علاوہ حنفیہ کے نزدیک ایک پانچویں شرط یہ بھی ہے کہ ناطق ہو، گونگا اگر اشاروں میں الزام لگائے تو وہ حد قذف کا مستوجب نہ ہو گا۔ لیکن امام شافعی کو اس سے اختلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر گونگے کا اشارہ بالکل صاف اور صریح ہو جسے دیکھ کر ہر شخص سمجھ لے کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے تو وہ قاذف ہے ، کیونکہ اس کا اشارہ ایک شخص کو بد نام و رسوا کر دینے میں تصریح بالقول سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اس کے برعکس حنفیہ کے نزدیک محض اشارے کی صراحت اتنی قوی نہیں ہے کہ اس کی بنا پر ایک آدمی کو 80 کوڑوں کی سزا دے ڈالی جائے۔ وہ اس پر صرف تعزیر دیتے ہیں۔

مقذوف میں جو شرطیں پائی جانی چاہییں وہ یہ ہیں : پہلی شرط یہ کہ وہ عاقل ہو ، یعنی اس پر بحالت عقل زنا کرنے کا الزام لگایا گیا ہو۔ مجنون پر (خواہ وہ بعد میں عاقل ہو گیا ہو یا نہ ہوا ہو) الزام لگانے والا حد قذف کا مستحق نہیں ہے۔ کیونکہ مجنون اپنی عصمت کے تحفظ کا اہتمام نہیں کر سکتا ، اور اس پر اگر زنا کی شہادت قائم بھی ہو جائے تو نہ وہ حد زنا کا مستحق ہوتا ہے نہ اس کی عزت پر حرف آتا ہے۔ لہٰذا اس پر الزام لگانے والا بھی حد قذف کا مستحق نہ ہونا چاہیے۔ لیکن امام مالک اور امام لیث بن سعد کہتے ہیں کہ مجنون کا قاذف حد کا مستحق ہے کیونکہ بہر حال وہ ایک بے ثبوت الزام لگا رہا ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ بالغ ہو۔ یعنی اس پر بحالت بلوغ زنا کے ارتکاب کا الزام لگایا گیا ہو بچے پر الزام لگانا ، یا جوان پر اس امر کا الزام لگانا کہ وہ بچپن میں اس فعل کا مرتکب ہوا تھا، حد قذف کا موجب نہیں ہے ، کیونکہ مجنون کی طرح بچہ بھی اپنی عصمت کے تحفظ کا اہتمام نہیں کر سکتا، نہ وہ حد زنا کا مستوجب ہوتا ہے ، اور نہ اس کی عزت مجروح ہوتی ہے۔ لیکن امام مالک کہتے ہیں کہ سن بلوغ کے قریب عمر کے لڑکے پر اگر زنا کے ارتکاب کا الزام لگایا جائے تب تو قاذف حد کا مستحق نہیں ہے ، لیکن اگر ایسی عمر کی لڑکی پر زنا کرانے کا الزام لگایا جائے جس کے ساتھ مباشرت ممکن ہو، تو اس کا قاذف حد کا مستحق ہے ، کیونکہ اس سے نہ صرف لڑکی بلکہ اس کے خاندان تک کی عزت مجروح ہو جاتی ہے اور لڑکی کا مستقبل خراب ہو جاتا ہے۔ تیسری شرط یہ ہے کہ وہ مسلمان ہو، یعنی اس پر بحالت اسلام زنا کرنے کا الزام لگایا گیا ہو، کافر پر الزام، یا مسلم پریہ الزام کہ وہ بحالت غلامی اس کا مرتکب ہوا تھا، موجب حد نہیں ہے ، کیونکہ غلام کی بے بسی اور کمزوری یہ امکان پیدا کر دیتی ہے کہ وہ اپنی عصمت کا اہتمام نہ کر سکے۔ خود قرآن میں بھی غلامی کی حالت کو اِحصان کی حالت قرار نہیں دیا گیا ہے ، چنانچہ سورہ نساء میں مُحْصَنَات کا لفظ لونڈی کے بالمقابل استعمال ہوا ہے۔ لیکن داؤد ظاہری اس دلیل کو نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ لونڈی اور غلام کا قاذف بھی حد کا مستحق ہے۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ وہ عفیف ہو، یعنی اس کا دامن زنا اور شبہ زنا سے پاک ہو۔ زنا سے پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر پہلے کبھی جرم زنا ثابت نہ ہو چکا ہو۔ شبہ زنا سے پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نکاح فاسد، یا خفیہ نکاح، یا مشتبہ ملکیت، یا شبہ نکاح میں مباشرت نہ کر چکا ہو، نہ اس کے حالات زندگی ایسے ہوں جن میں اس پر بد چلنی اور آبرو باختگی کا الزام چسپاں ہو سکتا ہو، اور نہ زنا سے کم تر درجہ کی بد اخلاقیوں کا الزام اس پر پہلے کبھی ثابت ہو چکا ہو، کیونکہ ان سب صورتوں میں اس کی عفت مجروح ہو جاتی ہے ، اور ایسی مجروح عفت پر الزام لگانے والا 80 کوڑوں کی سزا کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ حتیٰ کہ اگر حد قذف جاری ہونے سے پہلے مقذوف کے خلاف کسی جرم زنا کی شہادت قائم ہو جائے ، تب بھی قاذف چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ وہ شخص پاک دامن نہ رہا جس پر اس نے الزام لگایا تھا۔

مگر ان پانچوں صورتوں میں حد نہ ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ مجنون، یا بچے ، یا کافر، یا غلام، یا غیر عفیف آدمی پر بلا ثبوت الزام زنا لگا دینے والا مستحق تعزیر بھی نہیں ہے۔

اب وہ شرطیں لیجیے جو خود فعل قذف میں پائی جانی چاہییں۔ ایک الزام کو دو چیزوں میں سے کوئی ایک چیز قذف بنا سکتی ہے۔ یا تو قاذف نے مقذوف پر ایسی وطی کا الزام لگایا ہو جو اگر شہادتوں سے ثابت ہو جائے تو مقذوف پر حد واجب ہو جائے۔ یا پھر اس نے مقذوف کو ولد الزنا قرار دیا ہو۔ لیکن دونوں صورتوں میں الزام صاف اور صریح ہونا چاہیے۔ کنایات کا اعتبار نہیں ہے جن سے زنا یا طعن فی النسب مراد ہونے کا انحصار قاذف کی نیت پر ہے۔ مثلاً کسی کو فاسق فاجر ، بد کار ، بد چلن وغیرہ الفاظ سے یاد کرنا۔ یا کسی عورت کو رنڈی ، کسبن، یا چھنال کہنا، یا کسی سید کو پٹھان کہہ دینا کنایہ ہے جس سے صریح قذف لازم نہیں آتا۔اسی طرح جو الفاظ محض گالی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، مثلاً حرامی یا حرام زادہ وغیرہ، ان کو بھی صریح قذف نہیں قرار دیا جا سکتا۔ البتہ تعریض کے معاملے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا وہ بھی قذف ہے یا نہیں۔ مثلاً کہنے والا کسی کو مخاطب کر کے یوں کہے کہ ’’ہاں ، مگر میں تو زانی نہیں ہوں ‘‘، یا ’’میری ماں نے تو زنا کرا کے مجھے نہیں جنا ہے ‘‘ امام مالک کہتے ہیں کہ اس طرح کی تعریض جس سے صاف سمجھ میں آ جائے کہ قائل کی مراد مخاطب کو زانی یا ولد الزنا قرار دینا ہے ، قذف ہے جس پر حد واجب ہو جاتی ہے۔ لیکن امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب ، اور امام شافعی، سفیان ثوری، ابن شبرمَہ ، اور حسن بن صالح اس بات کے قائل ہیں کہ تعریض میں بہر حال شک کی گنجائش ہے ، اور شک کے ساتھ حد جاری نہیں کی جا سکتی۔ امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ تعریض اگر لڑائی جھگڑے میں ہو تو قذف ہے اور ہنسی مذاق میں ہو تو قذف نہیں ہے۔ خلفاء میں سے حضرت عمر اور حضرت علی نے تعریض پر حد جاری کی ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں دو آدمیوں کے درمیان گالم گلوچ ہو گئی۔ ایک نے دوسرے سے کہا ’’ نہ میرا باپ زانی تھا نہ میری ماں زانیہ تھی ‘‘۔ معاملہ حضرت عمرؓ کے پاس آیا۔ آپ نے حاضرین سے پوچھا آپ لوگ اس سے کیا سمجھتے ہیں ؟ کچھ لوگوں نے کہا اس نے اپنے باپ اور ماں کی تعریف کی ہے ، اس کے ماں باپ پر تو حملہ نہیں کیا۔ کچھ دوسرے لوگوں نے کہا اس کے لیے اپنے ماں باپ کی تعریف کرنے کے لیے کیا یہی الفاظ رہ گئے تھے ؟ ان خاص الفاظ کو اس موقع پر استعمال کرنے سے صاف مراد یہی ہے کہ اس کے ماں باپ زانی تھے۔ حضرت عمرؓ نے دوسرے گروہ سے اتفاق کیا اور حد جاری کر دی (جصاص ج3 ، ص 330)۔ اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ کسی پر عمل قوم لوطؑ کے ارتکاب کا الزام لگانا قذف ہے یا نہیں۔ امام ابو حنیفہؒ اس کو قذف نہیں مانتے۔ امام ابو یوسف ، امام محمد، امام مالک اور امام شافعی اسے قذف قرار دیتے ہیں اور حد کا حکم لگاتے ہیں۔

۵: جرم قذف قابل دست اندازی سرکار ) (Cognizable Offene ہے یا نہیں ،اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ یہ حقُّ اللہ ہے اس لیے قاذف پر بہر حال حد جاری کی جائے گی خواہ مقذوف مطالبہ کرے یا نہ کرے۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کے نزدیک یہ اس معنی میں تو حقُّ اللہ ضرور ہے کہ جب جرم ثابت ہو جائے تو حد جاری کرنا واجب ہے ،لیکن اس پر مقدمہ چلانا مقذوف کے مطالبے پر موقوف ہے ، اور اس لحاظ سے یہ حق آدمی ہے۔ یہی رائے امام شافعی اور امام اَوزاعی کی بھی ہے۔ امام مالک کے نزدیک اس میں تفصیل ہے۔ اگر حاکم کے سامنے قذف کا ارتکاب کیا جائے تو یہ جرم قابل دست اندازی سرکار ہے ، ورنہ اس پر کار روائی کرنا مقذوف کے مطالبے پر منحصر ہے۔

۶ : جرمِ قذف قابل راضی نامہ (Compoundable Offence) نہیں ہے۔ مقذوف عدالت میں دعویٰ لے کر نہ آئے تو یہ دوسری بات ہے لیکن عدالت میں معاملہ آ جانے کے بعد قاذف کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنا الزام ثابت کرے ، اور ثابت نہ ہونے کی صورت میں اس پر حد جاری کی جائے گی۔ نہ عدالت اس کو معاف کر سکتی ہے اور نہ خود مقذوف ، نہ کسی مالی تاوان پر معاملہ ختم ہو سکتا ہے۔ نہ توبہ کر کے یا معافی مانگ کر وہ سزا سے بچ سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد پہلے گزر چکا ہے کہ : تعافوا الحد ود فیما بینکم فما بلغنی من حدٍّ فقد وجب۔ ’’ حدود کو آپس ہی میں معاف کر دو، مگر جس حد کا معاملہ میرے پاس پہنچ گیا وہ پھر واجب ہو گئی ‘‘۔

۷ : حنفیہ کے نزدیک حد قذف کا مطالبہ یا تو خود مقذوف کر سکتا ہے ، یا پھر وہ جس کے نسب پر اس سے حرف آتا ہو اور مطالبہ کرنے کے لیے خود مقذوف موجود نہ ہو، مثلاً باپ، ماں ، اولاد اور اولاد کی اولاد۔ مگر امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک یہ حق قابل توریث ہے۔ مقذوف مر جائے تو اس کا ہر شرعی وارث حد کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ البتہ یہ عجیب بات ہے کہ امام شافعی بیوی اور شوہر کو اس سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں اور دلیل یہ ہے کہ موت کے ساتھ رشتہ زوجیت ختم ہو جاتا ہے اور بیوی یا شوہر میں سے کسی ایک پر الزام آنے سے دوسرے کے نسب پر کوئی حرف نہیں آتا۔ حالانکہ یہ دونوں ہی دلیلیں کمزور ہیں۔ مطالبہ حد کو قابل توریث ماننے کے بعد یہ کہنا کہ یہ حق بیوی اور شوہر کو اس لیے نہیں پہنچتا کہ موت کے ساتھ رشتہ زوجیت ختم ہو جاتا ہے خود قرآن کے خلاف ہے ، کیونکہ قرآن نے ایک کے مرنے کے بعد دوسرے کو اس کا وارث قرار دیا ہے۔ رہی یہ بات کہ زوجین میں سے کسی ایک پر الزام آنے سے دوسرے کے نسب پر کوئی حرف نہیں آتا ، تو یہ شوہر کے معاملہ میں چاہے صحیح ہو مگر بیوی کے معاملے میں تو قطعاً غلط ہے۔ جس کی بیوی پر الزام رکھا جائے اس کی تو پوری اولاد کا نسب مشتبہ ہو جاتا ہے۔ علاوہ بریں یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے کہ حد قذف صرف نسب پر حرف آنے کی وجہ سے واجب قرار دی گئی ہے۔ نسب کے ساتھ عزت پر حرف آنا بھی اسکی ایک اہم وجہ ہے ، اور ایک شریف مرد یا عورت کے لیے یہ کچھ کم بے عزتی نہیں ہے کہ اس کی بیوی یا اس کے شوہر کو بد کار قرار دیا جائے۔ لہٰذا اگر حد قذف کا مطالبہ قابل توریث ہو تو زوجین کو اس سے مستثنیٰ کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔

۸: یہ بات ثابت ہو جانے کے بعد کہ ایک شخص نے قذف کا ارتکاب کیا ہے ، جو چیز اسے حد سے بچا سکتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ وہ چار گواہ ایسے لائے جو عدالت میں یہ شہادت دیں کہ انہوں نے مقذوف کو فلاں مرد یا عورت کے ساتھ بالفعل زنا کرتے دیکھا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک یہ چاروں گواہ بیک وقت عدالت میں آنے چاہییں اور انہیں بیک وقت شہادت دینی چاہیے ، کیونکہ اگر وہ یکے بعد دیگرے آئیں تو ان میں سے ہر ایک قاذف ہوتا چلا جائے گا اور اس کے لیے پھر چار گواہوں کی ضرورت ہو گی۔ لیکن یہ ایک کمزور بات ہے۔ صحیح بات وہی ہے جو امام شافعی اور عثمان البتّی نے کہی ہے کہ گواہوں کے بیک وقت آنے اور یکے بعد دیگرے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ دوسرے مقدمات کی طرح گواہ ایک کے بعد ایک آئے اور شہادت دے۔ حنفیہ کے نزدیک ان گواہوں کا عادل ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر قاذف چار فاسق گواہ بھی لے آئے تو وہ حد قذف سے بچ جائے گا، اور ساتھ ہی مقذوف بھی حد زنا سے محفوظ رہے گا کیونکہ گواہ عادل نہیں ہیں۔ البتہ کافر ، یا اندھے ، یا غلام، یا قذف کے جرم میں پہلے کے سزا یافتہ گواہ پیش کر کے قاذف سزا سے نہیں بچ سکتا۔ مگر امام شافعی کہتے ہیں کہ قاذف اگر فاسق گواہ پیش کرے تو وہ اور اس کے گواہ سب حد کے مستحق ہوں گے۔ اور یہی رائے امام مالک کی بھی ہے۔ اس معاملے میں حنفیہ کا مسلک ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے۔ گواہ اگر عادل ہوں تو قاذف جرم قذف سے بری ہو جائے گا اور مقذوف پر جرم زنا ثابت ہو جائے گا۔ لیکن اگر گواہ عادل نہ ہوں تو قاذف کا قذف ، اور مقذوف کا فعل زنا، اور گواہوں کا صدق و کذب ، ساری ہی چیزیں مشکوک قرار پائیں گی اور شک کی بنا پر کسی کو بھی حد کا مستوجب قرار نہ دیا جا سکے گا۔

۹ : جو شخص ایسی شہادت پیش نہ کر سکے جو اسے جرم قذف سے بری کر سکتی ہو،اس کے لیے قرآن نے تین حکم ثابت کیے ہیں : ایک یہ کہ 80 کوڑے لگائے جائیں۔ دوسرے یہ کہ اس کی شہادت کبھی قبول نہ کی جائے۔ تیسرے یہ کہ وہ فاسق ہے۔ اس کے بعد قرآن کہتا ہے : اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْ ا مِنْ م بَعْدِ ذٰلِکَ وَاصلَحُوْا فَاِنَّ اللہَ غفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (سوائے ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کریں اور اصلاح کریں کہ اللہ غفور اور رحیم ہے )۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس فقرے میں توبہ اور اصلاح سے جس معافی کا ذکر کیا گیا ہے اس کا تعلق ان تینوں احکام میں سے کس کے ساتھ ہے۔ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ پہلے حکم سے اس کا تعلق نہیں ، یعنی توبہ سے حد ساقط نہ ہو گی اور مجرم کو سزائے تازیانہ بہر حال دی جائے گی۔ فقہاء اس پر بھی متفق ہیں کہ اس معافی کا تعلق آخری حکم سے ہے ، یعنی توبہ اور اصلاح کے بعد مجرم فاسق نہ رہے گا اور اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے گا۔ (اس میں اختلاف صرف اس پہلو سے ہے کہ آیا مجرم نفس قذف سے فاسق ہوتا ہے یا عدالتی فیصلہ صادر ہونے کے بعد فاسق قرار پاتا ہے۔ امام شافعی اور لیث بن سعد کے نزدیک وہ نفس قذف سے فاسق ہو جاتا ہے اس لیے وہ اسی وقت سے اس کو مردود الشہادت قرار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام مالک کہتے ہیں کہ وہ عدالتی فیصلہ نافذ ہو جانے کے بعد فاسق ہوتا ہے ، اس لیے وہ نفاذ حکم سے پہلے تک اس کو مقبول الشہادت سمجھتے ہیں۔ لیکن حق یہ ہے کہ مجرم کا عند اللہ فاسق ہونا نفس قذف کا نتیجہ ہے اور عند الناس فاسق ہونا اس پر موقوف ہے کہ عدالت میں اس کا جرم ثابت ہو اور وہ سزا پا جائے )۔ اب رہ جاتا ہے بیچ کا حکم، یعنی یہ کہ ’’ قاذف کی شہادت کبھی قبول نہ کی جائے ‘‘۔ فقہاء کے درمیان اس پر بڑا اختلاف واقع ہو گیا ہے کہ آیا : اِلَّا الَّذِیْنَ تَا بُوْا کے فقرے کا تعلق اس حکم سے بھی ہے یا نہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اس فقرے کا تعلق صرف آخری حکم سے ہے ، یعنی جو شخص توبہ اور اصلاح کر لے گا وہ عند اللہ اور عند الناس فاسق نہ رہے گا، لیکن پہلے دونوں حکم اس کے باوجود بر قرار رہیں گے ، یعنی مجرم پر حد جاری کی جائے گی اور وہ ہمیشہ کے لیے مردود الشہادت بھی رہے گا۔ اس گروہ میں قاضی شُریح، سَعید بن مُسَّٰیب ،سعید بن جبیر، حسن بصری، ابراہیم نخعی، ابن سیرین، مکْحول ، عبدالرحمٰن بن زید، ابو حنیفہ ، ابو یوسف، زُفَر ، محمد ، سُفْیان ثوری اور حسن بن صالح جیسے اکابر شامل ہیں۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ : اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا کا تعلق پہلے حکم سے تو نہیں ہے مگر آخری دونوں حکموں سے ہے ، یعنی توبہ کے بعد قذف کے سزا یافتہ مجرم کی شہادت بھی قبول کی جائے گی اور وہ فاسق بھی نہ شمار ہو گا۔ اس گروہ میں عطاء، طاؤس ، مجاہد، شعبِی، قاسم بن محمد ، سالم، زُہری ، عِکْرِمَہ ، عمر بن العزیز، ابن ابی نجیح ، سلیمان بن یَسار، مُسْرُوق، ضحاک، مالک بن اَنَس ، عثمان البتّی ، لیث بن سعد، شافعی، احمد بن حنبل اور ابن جریر طبری جیسے بزرگ شامل ہیں۔ یہ لوگ اپنی تائید میں دوسرے دلائل کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کو بھی پیش کرتے ہیں جو انہوں نے مغیرہ بن شعبہ کے مقدمے میں کیا تھا ، کیونکہ اس کی بعض روایت میں یہ ذکر ہے کہ حد جاری کرنے کے بعد حضرت عمرؓ نے ابو بکرہ اور ان کے دونوں ساتھیوں سے کہا اگر تم توبہ کر لو (یا ’’اپنے جھوٹ کا اقرار کر لو‘‘) تو میں آئندہ تمہاری شہادت قبول کروں گا ورنہ نہیں۔ دونوں ساتھیوں نے اقرار کر لیا، مگر ابو بکرہ اپنے قول پر قائم رہے۔ بظاہر یہ ایک بڑی قوی تائید معلوم ہوتی ہے ، لیکن مغیرہ بن شعبہ کے مقدمے کی جو روداد ہم پہلے درج کر چکے ہیں اس پر غور کرنے سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس نظیر سے اس مسئلے میں استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ وہاں نفس فعل متفق علیہ تھا اور خود مغیرہ بن شعبہ کو بھی اس سے انکار نہ تھا۔ بحث اس میں تھی کہ عورت کون تھی۔ مغیرہ بن شعبہ کہتے تھے کہ وہ ان کی اپنی بیوی تھیں جنہیں یہ لوگ ام جمیل سمجھ بیٹھے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ثابت ہو گئی تھی کہ حضرت مغیرہ کی بیوی اور ام جمیل باہم اس حد تک مشابہ تھیں کہ واقعہ جتنی روشنی میں جتنے فاصلے سے دیکھا گیا اس میں یہ غلط فہمی ہو سکتی تھی کہ عورت ام جمیل ہے۔ مگر قرائن سارے کے سارے مغیرہ بن شعبہ کے حق میں تھے اور خود استغاثے کا بھی ایک گواہ اقرار کر چکا تھا کہ عورت صاف نظر نہ آتی تھی۔ اسی بنا پر حضرت عمرؓ نے مغیرہ بن شعبہ کے حق میں فیصلہ دیا اور ابو بکرہ کو سزا دینے کے بعد وہ بات کہی جو مذکورہ بالا روایتوں میں منقول ہوئی ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کا منشا در اصل یہ تھا کہ تم لوگ مان لو کہ تم نے بے جا بدگمانی کی تھی اور آئندہ کے لیے ایسی بد گمانیوں کی بنا پر لوگوں کے خلاف الزامات عائد کرنے سے توبہ کرو، ورنہ آئندہ تمہاری شہادت کبھی قبول نہ کی جائے گی۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ جو شخص صریح جھوٹا ثابت ہو جائے وہ بھی حضرت عمرؓ کے نزدیک توبہ کر کے مقبول الشہادت ہو سکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے میں پہلے گروہ ہی کی رائے زیادہ وزنی ہے۔ آدمی کی توبہ کا حال خدا کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ ہمارے سامنے جو شخص توبہ کرے گا ہم اسے اس حد تک تو رعایت دے سکتے ہیں کہ اسے فاسق کے نام سے یاد نہ کریں ، لیکن اس حد تک رعایت نہیں دے سکتے کہ جس کی زبان کا اعتبار ایک دفعہ جاتا رہا ہے اس پر پھر محض اس لیے اعتبار کرنے لگیں کہ وہ ہمارے سامنے توبہ کر رہا ہے۔ علاوہ بریں خود قرآن کی عبارت کا انداز بیان بھی یہی بتا رہا ہے کہ : اِلَّذِیْنَ تَابُوْ ا کا تعلق صرف اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ سے ہے۔ اس لیے کہ عبارت میں پہلی وہ باتیں حکم کے الفاظ میں فرمائی گئی ہیں : ان کو اسی کوڑے مارو‘‘، ’’اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو‘‘۔ اور تیسری بات خبر کے الفاظ میں ارشاد ہوئی ہے : ’’ وہ خود ہی فاسق ہیں ‘‘۔ اس تیسری بات کے بعد متصلاً یہ فرمانا کہ ’’ سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کر لیں ‘‘، خود ظاہر کر دیتا ہے کہ یہ استثناء آخری فقرہ خبر یہ سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ پہلے دو محکمی فقروں سے۔ تاہم اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ استثناء آخری فقرے تک محدود نہیں ہے ، تو پھر کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ ’’شہادت قبول نہ کرو‘‘ کے فقرے تک پہنچ کر رک کیسے گیا،’’ اسّی کوڑے مارو‘‘ کے فقرے تک بھی کیوں نہ پہنچ گیا۔

۱۰ : سوال کیا جا سکتا ہے کہ اِلَّا الَّذِیْنَ تَا بُوا کا استثنا ء آخر پہلے حکم سے بھی متعلق کیوں نہ مان لیا جائے ؟ قذف آخر ایک قسم کی توہین ہی تو ہے۔ ایک آدمی اس کے بعد اپنا قصور مان لے ، مقذوف سے معافی مانگ لے اور آئندہ کے لیے اس حرکت سے توبہ کر لے تو آخر کیوں نہ اسے چھوڑ دیا جائے جب کہ اللہ تعالیٰ خود حکم بیان کرنے کے بعد فرما رہا ہے اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا ...... فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرُرَّ حِیْمُ۔ یہ تو ایک عجیب بات ہو گی کہ خدا معاف کر دے اور بندے معاف نہ کریں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ توبہ در اصل ت و ب ۃ کے تلفظ کا نام نہیں ہے بلکہ دل کے احساس ندامت اور عزم اصلاح اور رجوع الی الخیر کا نام ہے اور اس چیز کا حال اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے توبہ سے دنیوی سزائیں معاف نہیں ہوتیں بلکہ صرف اخروی سزا معاف ہوتی ہے ، اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ اگر وہ توبہ کر لیں تو تم انہیں چھوڑ دو، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ جو لوگ توبہ کر لیں گے میں ان کے حق میں غفور و رحیم ہوں۔ اگر توبہ سے دنیوی سزائیں بھی معاف ہونے لگیں تو آخر وہ کونسا مجرم ہے جو سزا سے بچنے کے لیے توبہ نہ کرے گا؟

۱۱ : یہ بھی سوال کیا جا سکتا ہے کہ ایک شخص کا اپنے الزام کے ثبوت میں شہادت نہ لا سکنا لازماً یہی معنی تو نہیں رکھتا کہ وہ جھوٹا ہو۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کا الزام واقعی صحیح ہو اور وہ ثبوت مہیا کرنے میں ناکام رہے ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ اسے صرف ثبوت نہ دے سکنے کی بنا پر فاسق ٹھیرایا جائے ، اور وہ بھی عند الناس ہی نہیں عند اللہ بھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک شخص نے اگر اپنی آنکھوں سے بھی کسی کو بد کاری کرتے دیکھ لیا ہو پھر بھی وہ اس کا چرچا کرنے اور شہادت کے بغیر اس پر الزام عائد کرنے میں گنہ گار ہے شریعت الٰہی یہ نہیں چاہتی ایک شخص اگر ایک گوشے میں نجاست کی موجودگی کا اگر اس کو علم ہے تو اس کے لیے دو ہی راستے ہیں۔ یا اس کو جہاں وہ پڑی ہے وہیں پڑا رہنے دے ، یا پھر اس کی موجودگی کا ثبوت دے تاکہ حکومت اسلامی کے حکام اسے صاف کر دیں۔ ان دو راستوں کے سوا کوئی تیسرا راستہ اس کے لیے نہیں ہے۔ اگر وہ پبلک میں چرچا کرے گا تو محدود گندگی کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کا مجرم ہو گا۔ اور اگر وہ قابل اطمینان شہادت کے بغیر حکام تک معاملہ لے جائے گا تو حکام اس گندگی کو صاف نہ کر سکیں گے۔ نتیجہ اس کا یہ ہو گاکہ اس مقدمے کی ناکامی گندگی کی اشاعت کا سبب بھی بنے گی اور بد کاروں میں جرأت بھی پیدا کر دے گی۔ اسی لیے ثبوت اور شہادت کے بغیر قذف کا ارتکاب کرنے والا بہر حال فاسق ہے خواہ وہ اپنی جگہ سچا ہی کیوں نہ ہو۔

۱۲ : حد قذف کے بارے میں فقہائے حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ قاذف کو زانی کی بہ نسبت ہلکی مار ماری جائے۔ یعنی تازیانے تو 80 ہی ہوں ،مگر ضرب اتنی سخت نہ ہونی چاہیے جتنی زانی کو لگائی جاتی ہے۔ اس لیے کہ جس الزام کے قصور میں اسے سزا دی جا رہی ہے اس میں اس کا جھوٹا ہونا بہر حال یقینی نہیں ہے۔

۱۳ : تکرار قذف کے بارے میں حنفیہ اور جمہور فقہاءکا مسلک یہ ہے کہ قاذف نے سزا پانے سے پہلے یا سزا کے دوران میں خواہ کتنی ہی مرتبہ ایک شخص پر الزام لگایا ہو، اس پر ایک ہی حد جاری کی جائے گی۔ اور اگر اجرائے حد کے بعد وہ اپنے سابق الزام ہی کی تکرار کرتا رہے تو جو حد اسے لگائی جا چکی ہے وہی کافی ہوگی۔ البتہ اگر اجرائے حد کے بعد وہ اس شخص پرایک نیا الزام زنا عائد کر دے تو پھر نئے سرے سے مقدمہ قائم کیا جائے گا۔ مغیرہ بن شعبہ کے مقدمہ میں سزا پانے کے بعد ابو بکرہ کھلے بندوں کہتے رہے کہ ’’ میں شہادت دیتا ہوں کہ مغیرہ نے زنا کا ارتکاب کیا تھا‘‘۔ حضرت عمرؓ نے ارادہ کیا کہ ان پر پھر مقدمہ قائم کریں۔ مگر چونکہ وہ سابق الزام ہی کو دوہرا رہے تھے اس لیے حضرت علیؓ نے رائے دی کہ اس پر دوسرا مقدمہ نہیں لایا جا سکتا، اور حضرت عمرؓ نے ان کی رائے قبول کر لی۔ اس کے بعد فقہاء میں اس بات پر قریب قریب اتفاق ہو گیا کہ سزا یافتہ قاذف کو صرف نئے الزام ہی پر پکڑا جا سکتا ہے ، سابق الزام کے اعادے پر نہیں۔

۱۴ : قذف جماعت کے معاملہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر ایک شخص بہت سے لوگوں پربھی الزام لگائے ، خواہ ایک لفظ میں یا الگ الگ الفاظ میں ، اس پر ایک ہی حد لگائی جائے گی الّا یہ کہ حد لگنے کے بعد وہ پھر کسی نئے قذف کا ارتکاب کرے۔ اس لیے کہ آیت کے الفاظ یہ ہیں ’’ جو لوگ پاک دامن عورتوں پر الزام لگائیں ‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ایک فرد ہی نہیں ایک جماعت پر الزام لگانے والا بھی صرف ایک ہی حد کا مستحق ہوتا ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ زنا کا کوئی الزام ایسا نہیں ہو سکتا جو کم از کم دو شخصوں پر نہ لگتا ہو۔ مگر اس کے باوجود شارع نے ایک ہی حد کا حکم دیا، عورت پر الزام کے لیے الگ اور مرد پر الزام کے لیے الگ حد کا حکم نہیں دیا۔ بخلاف اس کے امام شافعی کہتے ہیں کہ ایک جماعت پر الزام لگانے والا خواہ ایک لفظ میں الزام لگائے یا الگ الگ الفاظ میں ، اس پر ہر شخص کے لیے الگ الگ پوری حد لگائی جائے گی۔ یہ رائے عثمان البتّی کی بھی ہے۔ اور ابن ابی لیلیٰ کا قول،جس میں شعبی اور اَوزاعی بھی ان کے ہم نوا ہیں یہ ہے کہ ایک لفظ میں پوری جماعت کو زانی کہنے والا ایک حد کا مستحق ہے اور الگ الگ الفاظ میں ہر ایک کو کہنے والا ہر ایک کے لیے الگ حد کا مستحق۔

7. یہ آیات پچھلی آیات کے کچھ مدت بعد نازل ہوئی ہیں۔ حد قذف کا حکم جب نازل ہوا تو لوگوں میں یہ سوال پیدا ہو گیا کہ غیر مرد اور عورت کی بد چلنی دیکھ کر تو آدمی صبر کر سکتا ہے ، گواہ موجود نہ ہوں تو زبان پر قفل چڑھا لے اور معاملے کو نظر انداز کر دے۔ لیکن اگر وہ خود اپنی بیوی کی بد چلنی دیکھ لے تو کیا کرے ؟ قتل کر دے تو الٹا سزا کا مستوجب ہو۔ گواہ ڈھونڈنے جائے تو ان کے آنے تک مجرم کب ٹھیرا رہے گا۔ صبر کرے تو آخر کیسے کرے۔ طلاق دے کر عورت کو رخصت کر سکتا ہے ، مگر نہ اس عورت کو کسی قسم کی مادی یا اخلاقی سزا ملی نہ اس کے آشنا کو۔ اور اگر اسے ناجائز حمل ہو تو غیر کا بچہ الگ گلے پڑا۔ یہ سوال ابتداءً تو حضرت سعد بن عبادہ نے ایک فرضی سوال کی حیثیت میں پیش کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ میں اگر خدا نخواستہ اپنے گھر میں یہ معاملہ دیکھوں تو گواہوں کی تلاش میں نہیں جاؤں گا بلکہ تلوار سے اسی وقت معاملہ طے کر دوں گا (بخاری و مسلم)۔ لیکن تھوڑی ہی مدت گزری تھی کہ بعض ایسے مقدمات عملاً پیش آ گئے جن میں شوہروں نے اپنی آنکھوں سے یہ معاملہ دیکھا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اس کی شکایت لے گئے۔ عبد اللہ بن مسعود اور ابن عمرؓ کی روایات ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص (غالباً عویمیر عجلانی) نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ، اگر ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو پائے اور منہ سے بات نکالے تو آپ حد قذف جاری کر دیں گے ، قتل کر دے تو آپ اسے قتل کر دیں گے ، چپ رہے تو غیظ میں مبتلا رہے۔ آخر وہ کیا کرے ؟ اس پر حضورؐ نے دعا کی کہ خدایا، اس مسئلے کا فیصلہ فرما (مسلم ، بخاری، ابو داؤد ، احمد، نسائی)۔ ابن عباس کی روایات ہے کہ ہلال بن امیہ نے آ کر اپنی بیوی کا معاملہ پیش کیا جسے انہوں نے بچشم خود ملوث دیکھا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ثبوت لاؤ، ورنہ تم پر حد قذف جاری ہو گی‘‘۔ صحابہ میں اس پر عام پریشانی پھیل گئی، اور ہلال نے کہا اس خدا کی قسم جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے ، میں بالکل صحیح واقعہ عرض کر رہا ہوں جسے میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے معاملے میں ایسا حکم نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ بچا دے گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (بخاری ، احمد ، ابو داؤد)۔ اس میں جو طریق تصفیہ تجویز کیا گیا ہے اسے اسلامی قانون کی اصطلاح میں ’’لِعان‘‘ کہا جاتا ہے۔

یہ حکم آ جانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جن مقدمات کا فیصلہ فرمایا ان کی مفصل رودادیں کتب حدیث میں منقول ہیں اور وہی لِعان کے مفصل قانون اور ضابطہ کار روائی کا ماخذ ہیں۔

ہلال بن امیہ کے مقدمے کی جو تفصیلات صحاح ستہ اور مسند احمد اور تفسیر ابن جریر میں ابن عباس اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے منقول ہوئی ہیں ان میں بیان کیا گیا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد ہلال اور ان کی بیوی ، دونوں عدالت نبوی میں حاضر کیے گئے۔ حضورؐ نے پہلے حکم خداوندی سنایا۔ پھر فرمایا ’’خوب سمجھ لو کہ آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے زیادہ سخت چیز ہے ‘‘۔ ہلال نے عرض کیا میں نے اس پر بالکل صحیح الزام لگایا ہے۔ عورت نے کہا یہ بالکل جھوٹ ہے۔ حضورؐ نے فرمایا ’’ اچھا، تو ان دونوں میں ملاعَنَت کرائی جائے ‘‘۔ چنانچہ پہلے ہلال اٹھے اور انہوں نے حکم قرآنی کے مطابق قسمیں کھائی ............ نبی صلی اللہ الیہ و سلم اس دوران میں بار بار فرماتے رہے ‘‘ اللہ کو معلوم ہے کہ تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے ، پھر کیا تم میں سے کوئی توبہ کرے گا؟ ‘‘ پانچویں قسم سے پہلے حاضرین نے ہلال سے کہا ’’خدا سے ڈرو، دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے۔ یہ پانچویں قسم تم پر عذاب واجب کر دے گی‘‘۔ مگر ہلال نے کہا جس خدا نے یہاں میری پیٹھ بچائی ہے وہ آخرت میں بھی مجھے عذاب نہیں دے گا۔ یہ کہہ کر انہوں نے پانچویں قسم بھی کھا لی۔ پھر عورت اٹھی اور اس نے بھی قسمیں کھانی شروع کیں۔ پانچویں قسم سے پہلے اسے بھی روک کر کہا گیا کہ ’’ خدا سے ڈر، آخرت کے عذاب کی بہ نسبت دنیا کا عذاب برداشت کر لینا آسان ہے۔ یہ آخری قسم تجھ پر عذاب الٰہی کو واجب کر دے گی‘‘۔ یہ سن کر وہ کچھ دیر رکتی اور جھجکتی رہی۔ لوگوں نے سمجھا اعتراف کرنا چاہتی ہے مگر پھر کہنے لگی’’ میں ہمیشہ کے لیے اپنے قبیلے کو رسوا نہیں کروں گی‘‘ اور پانچویں قسم بھی کھا گئی۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں کے درمیان تفریق کرا دی اور فیصلہ فرمایا کہ اس کا بچہ (جو اس وقت پیٹ میں تھا) ماں کی طرف منسوب ہو گا، باپ کا نہیں پکارا جائے گا ، کسی کو اس پر یا اس کے بچے پر الزام لگانے کا حق نہ ہو گا، جو اس پر یا اس کے بچے پر الزام لگائے گا وہ حد قذف کا مستحق ہو گا، اور اس کو زمانۂ عدت کے نفقے اور سکونت کا کوئی حق ہلال پر حاصل نہیں ہے کیونکہ یہ طلاق یا وفات کے بغیر شوہر سے جدا کی جا رہی ہے۔ پھر آپ نے لوگوں سے کہا کہ اس کے ہاں جب بچہ ہو تو دیکھو، وہ کس پر گیا ہے۔ اگر اس اس شکل کا ہو تو ہلال کا ہے ، اور اگر اس صورت کا ہو تو اس شخص کا ہے جس کے بارے میں اس پر الزام لگایا گیا ہے۔ وضع حمل کے بعد دیکھا گیا کہ وہ مؤخر الذکر صورت کا تھا، اس پر حضورؐ نے فرمایا لولاالاُیمان (یا بہ روایت دیگر لو لا مضیٰ من کتاب اللہ) لکان لی ولھا شان ، یعنی اگر قسمیں نہ ہوتیں (یا خدا کی کتاب پہلے ہی فیصلہ نہ کر چکی ہوتی)تو میں اس عورت سے بری طرح پیش آتا۔

عویمر عجلانی کے مقدمے کی روداد سہل بن سعد ساعِدی اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بخاری، مسلم، ابو داؤد ، نسائی ابن ماجہ اور مسند احمد میں ملتی ہے۔ اس میں بیان ہوا ہے کہ عویمر اور ان کی بیوی، دونوں مسجد نبوی میں بلائے گئے۔ مُلاعَنَت سے پہلے حضورؐ نے ان کو بھی تنبیہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا’’ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے۔ پھر کیا تم میں سے کوئی توبہ کرے گا‘‘؟ جب کسی نے توبہ نہ کی تو دونوں میں ملاعنت کرائی گئی۔ اس کے بعد عویمر نے کہا ’’ یا رسول اللہ اب اگر میں اس عورت کو رکھوں تو جھوٹا ہوں ‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے تین طلاقیں دے دیں بغیر اس کے کہ حضورؐ نے ان کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہوتا۔ سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ان طلاقوں کو حضورؐ نے نافذ فرما دیا اور ان کے درمیان تفریق کرا دی اور فرمایا کہ ’’ یہ تفریق ہے ہر ایسے جوڑے کے معاملے میں جو باہم لعان کرے ‘‘۔ اور سنت یہ قائم ہو گئی کہ لعان کرنے والے زوجین کو جدا کر دیا جائے ، پھر وہ دونوں کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ مگر ابن عمر صرف اتنا بیان کرتے ہیں کہ حضورؐ نے ان کے درمیان تفریق کرا دی۔ سہل بن سعد یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ عورت حاملہ تھی اور عویمر نے کہا کہ یہ حمل میرا نہیں ہے۔ اس بنا پر بچہ ماں کی طرف منسوب کیا گیا اور سنت یہ جاری ہوئی کہ اس طرح کا بچہ ماں سے میراث پائے گا اور ماں ہی اس سے میراث پائے گی۔

ان دو مقدموں کے علاوہ متعدد روایات ہم کو کتب حدیث میں ایسی بھی ملتی ہیں جن میں یہ تصریح نہیں ہے کہ یہ کن اشخاص کے مقدموں کی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بعض ان ہی دونوں مقدموں سے تعلق رکھتی ہوں ، مگر بعض میں کچھ دوسرے مقدمات کا بھی ذکر ہے اور ان سے قانون لعان کے بعض اہم نکات پر روشنی پڑتی ہے۔

ابن عمر ایک مقدمے کی رو داد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زوجین جب لعان کر چکے تو بنی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے درمیان تفریق کر دی (بخاری ، مسلم ، نسائی، احمد ، ابن جریر)۔ ابن عمر کی ایک اور روایت ہے کہ ایک شخص اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرایا گیا۔ پھر اس نے حمل سے انکار کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے درمیان تفریق کر دی اور فیصلہ فرمایا کہ بچہ صرف ماں کا ہو گا (صحاح ستّہ اور احمد)۔ ابن عمر ہی کی ایک اور روایت ہے کہ ملاعنت کے بعد حضورؐ نے فرمایا ’’ تمہارا حساب اب اللہ کے ذمہ ہے ، تم میں سے ایک بہر حال جھوٹا ہے ‘‘۔ پھر آپ نے مرد سے فرمایا: لا سبیل لک علیھا (یعنی اب یہ تیری نہیں رہی۔ نہ تو اس پر کوئی حق جتا سکتا ہے ، نہ کسی قسم کی دست درازی یا دوسری منتقمانہ حرکت اس کے خلاف کرنے کا مجاز ہے )۔ مرد نے کہا یا رسول اللہ اور میرا مال (یعنی وہ مہر تو مجھے دلوائیے جو میں نے اسے دیا تھا )۔ فرمایا : لا مال لک، ان کنت صدقت علیھا فھو بما استحلت من فرجھا و ان کنت کذبت علیھا فذاک ابعد و ابعد لک منھا (یعنی مال واپس لینے کا تجھے کوئی حق نہیں ہے ، اگر تو نے اس پر سچا الزام لگایا ہے تو وہ مال اس لذت کا بدل ہے جو تو نے حلال کر کے اس سے اٹھائی، اور اگر تو نے اس پر جھوٹا الزام لگایا ہے تو مال تجھ سے اور بھی زیادہ دور چلا گیا، وہ اس کی بہ نسبت تجھ سے زیادہ دور ہے ) بخاری، مسلم، ابو داؤد۔

دارقطنی نے علی بن ابی طالب اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے : ’’ سنت یہ مقرر ہو چکی ہے کہ لعان کرنے والے زوجین پھر کبھی باہم جمع نہیں ہو سکتے ‘‘ (یعنی ان کا دوبارہ نکاح پھر کبھی نہیں ہو سکتا)۔ اور دارقطنی ہی حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود فرمایا ہے کہ یہ دونوں پھر کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔

قبیصہ بن ذؤَیب کی روایت ہے کہ حضرت عمر کے زمانے میں ایک شخص نے اپنی بیوی کے حمل کو نا جائز قرار دیا، پھر اعتراف کر لیا کہ یہ حمل اس کا اپنا ہے ، پھر وضع حمل کے بعد کہنے لگا کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے۔ معاملہ حضرت عمر کی عدالت میں پیش ہوا۔ آپ نے اس پر حد قذف جاری کی اور فیصلہ کیا کہ بچہ اسی کی طرف منسوب ہو گا (دار قطنی، بیہقی)۔

ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا میری ایک بیوی ہے جو مجھے بہت محبوب ہے۔ مگر اس کا حال یہ ہے کہ کسی ہاتھ لگانے والے کا ہاتھ نہیں جھٹکتی (واضح رہے کہ یہ کنایہ تھا جس کے معنی زنا کے بھی ہو سکتے ہیں اور زنا سے کم تر درجے کی اخلاقی کمزوری کے بھی)۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا طلاق دیدے۔ اس نے کہا مگر میں اس کے بغیر رہ نہیں سکتا۔ فرمایا تو اسے رکھے رہ (یعنی آپ نے اس سے اس کنایے کی تشریح نہیں کرائی اور اس کے قول کو الزام زنا پر محمول کر کے لعان کا حکم نہیں دیا)۔ نسائی۔

ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی نے حاضر ہو کر عرض کیا میری بیوی نے کالا لڑکا جنا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ میرا ہے (یعنی محض لڑکے کے رنگ نے اسے شبہ میں ڈالا تھا ورنہ بیوی پر زنا کا الزام لگانے کے لیے اس کے پاس کوئی اور وجہ نہ تھی)۔ آپ نے پوچھا تیرے پاس کچھ اونٹ تو ہوں گے۔ اس نے عرض کیا ہاں۔ آپ نے پوچھا ان کے رنگ کیا ہیں ؟ کہنے لگا سرخ۔ آپ نے پوچھا ان میں کوئی خاکستری بھی ہے ؟ کہنے لگا جی ہاں ، بعض ایسے بھی ہیں۔ آپ نے پوچھا یہ رنگ کہاں سے آیا ؟ کہنے لگا شاید کوئی رگ کھینچ لے گئی (یعنی ان کے باپ دادا میں سے کوئی اس رنگ کا ہو گا اور اسی کا اثر ان میں آگیا)۔ فرمایا ’’شاید اس بچے کو بھی کوئی رگ کھینچ لے گئی ‘‘ اور آپ نے اسے نفی وَلَد (بچے کے نسب سے انکار ) کی اجازت نہ دی (بخاری، مسلم ، احمد، ابو داؤد)۔

ابو ہریرہؓ کی ایک اور روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے آیت لعان پر کلام کرتے ہوئے فرمایا ’’جو عورت کسی خاندان میں ایسا بچہ گُھسا لائے جو اس خاندان کا نہیں ہے (یعنی حرام کا پیٹ رکھوا کر شوہر کے سر منڈھ دے ) اس کا اللہ سے کچھ واسطہ نہیں ، اللہ اس کو جنت میں ہر گز داخل نہ کرے گا۔ اور جو مرد اپنے بچے کے نسب سے انکار کرے حالانکہ بچہ اس کو دیکھ رہا ہو، اللہ قیامت کے روز اس سے پردہ کرے گا اور اسے تمام اگلی پچھلی خلق کے سامنے رسوا کر دے گا (ابو داؤد، نسائی، دارمی)۔

آیت لعان اور یہ روایات و نظائر اور شریعت کے اصول عامّہ اسلام میں قانون لعان کے وہ مآخذ ہیں جن کی روشنی میں فقہاء نے لعان کا مفصل ضابطہ بنا یا ہے۔ اس ضابطے کی اہم دفعات یہ ہیں :

۱): جو شخص بیوی کی بد کاری دیکھے اور لعان کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے قتل کا مرتکب ہو جائے اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اسے قتل کیا جائے گا کیونکہ اس کو بطور خود حد جاری کرنے کا حق نہ تھا۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے فعل پر کوئی مواخذہ ہو گا بہ شرط یہ کہ اس کی صداقت ثابت ہو جائے (یعنی یہ کہ فی الواقع اس نے زنا ہی کے ارتکاب پر یہ فعل کیا)۔ امام احمد اور اسحاق بن راہَوَیہ کہتے ہیں کہ اسے اس امر کے دو گواہ لانے ہوں گے کہ قتل کا سبب یہی تھا۔ مالکیہ میں سے ابن القاسم اور ابن حبیب اس پر مزید شرط یہ لگاتے ہیں کہ زانی جسے قتل کیا گیا وہ شادی شدہ ہو، ورنہ کنوارے زانی کو قتل کرنے پر اس سے قصاص لیا جائے گا۔ مگر جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ اس کو قصاص سے صرف اس صورت میں معاف کیا جائے گا جب کہ وہ زنا کے چار گواہ پیش کرے ، یا مقتول مرنے سے پہلے خود اس امر کا اعتراف کر چکا ہو کہ وہ اس کی بیوی سے زنا کر رہا تھا، اور مزید یہ کہ مقتول شادی شدہ ہو (نیل الاوطار ، ج 6 ، ص 228)۔

۲) : لعان گھر بیٹھے آپس ہی میں نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے عدالت میں جانا ضروری ہے۔

۳) : لعان کے مطالبے کا حق صرف مرد ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ عورت بھی عدالت میں اس کا مطالبہ کر سکتی ہے جب کہ شوہر اس پر بد کاری کا الزام لگائے یا اس کے بچے کا نسب تسلیم کرنے سے انکار کرے۔

۴): کیا لعان ہر زوج اور زوجہ کے درمیان ہو سکتا ہے یا اس کے لیے دونوں میں کچھ شرائط ہیں ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ جس کی قسم قانونی حیثیت سے معتبر ہو اور جس کو طلاق دینے کا اختیار ہو وہ لعان کر سکتا ہے۔ گویا ان کے نزدیک صرف عاقل اور بالغ ہونا اہلیت لعان کے لیے کافی ہے خواہ زوجین مسلم ہوں یا کافر، غلام ہوں یا آزاد، مقبول الشہادت ہوں یا نہ ہوں ، اور مسلم شوہر کی بیوی مسلمان ہو یا ذمی۔ قریب قریب یہی رائے امام مالک اور امام احمد کی بھی ہے۔ مگر حنفیہ کہتے ہیں کہ لعان صرف ایسے آزاد مسلمان زوجین ہی میں ہو سکتا ہے جو قذف کے جرم میں سزا یافتہ نہ ہوں۔ اگر عورت اور مرد دونوں کافر ہوں ، یا غلام ہوں ، یا قذف کے جرم میں پہلے کے سزا یافتہ ہوں تو ان کے درمیان لعان نہیں ہو سکتا۔ مزید براں اگر عورت کبھی اس سے پہلے حرام یا مشتبہ طریقے پرکسی مرد سے ملوث ہو چکی ہو تب بھی لعان درست نہ ہو گا۔ یہ شرطیں حنفیہ نے اس بنا پر لگائی ہیں کہ ان کے نزدیک لعان کے قانون اور قذف کے قانون میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہے کہ غیر آدمی اگر قذف کا مرتکب ہو تو اس کے لیے حد ہے اور شوہر اس کا ارتکاب کرے تو وہ لعان کر کے چھوٹ سکتا ہے۔ باقی تمام حیثیتوں سے لعان اور قذف ایک ہی چیز ہے۔ علاوہ بریں حنفیہ کے نزدیک چونکہ لعان کی قسمیں شہادت کی حیثیت رکھتی ہیں ، اس لیے وہ کسی ایسے شخص کو اس کی اجازت نہیں دیتے جو شہادت کا اہل نہ ہو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے میں حنفیہ کا مسلک کمزور ہے اور صحیح بات وہی ہے جو امام شافعی نے فرمائی ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ قرآن نے قذف زوجہ کے مسئلے کو آیت قذف کا ایک جز نہیں بنایا ہے بلکہ اس کے لیے الگ قانون بیان کیا ہے ، اس لیے اس کو قانون قذف کے ضمن میں لا کر وہ تمام شرائط اس میں شامل نہیں کی جا سکتیں جو قذف کے لیے مقرر کی گئی ہیں۔ آیت لعان ہی سے اخذ کرنا چاہیے نہ کہ آیت قذف سے۔ مثلاً آیت قذف میں سزا کا مستحق وہ شخص ہے جو پاک دامن عورتوں (محصنات) پر الزام لگائے۔ لیکن آیت لعان میں پاک دامن بیوی کی شرط کہیں نہیں ہے۔ ایک عورت چاہے کبھی گناہ گار بھی رہی ہو، اگر بعد میں وہ توبہ کر کے کسی شخص سے نکاح کر لے اور پھر اس کا شوہر اس پر ناحق الزام لگائے تو آیت لعان یہ نہیں کہتی کہ اس عورت پر تہمت رکھنے کی یا اس کی اولاد کے نسب سے انکار کر دینے کی شوہر کو کھلی چھٹی دے دو کیونکہ اس کی زندگی کبھی داغ دار رہ چکی ہے۔ دوسری اور اتنی ہی اہم وجہ یہ ہے کہ قذف زوجہ اور قذف اجنبیہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے ، ان دونوں کے بارے میں قانون کا مزاج ایک نہیں ہو سکتا۔ غیر عورت سے آدمی کا کوئی واسطہ نہیں۔نہ جذبات کا، نہ عزت کا، نہ معاشرت کا،نہ حقوق کا، اور نہ نسل و نسب کا۔اس کے چال چلن سے اگر ایک آدمی کو کوئی بڑی سے بڑی با وقعت دلچسپی ہو سکتی ہے تو بس یہ کہ معاشرے کو بد اخلاقی سے پاک دیکھنے کا جوش اسے لاحق ہو۔ اس کے بر عکس اپنی بیوی سے آدمی کا تعلق ایک طرح کا نہیں کئی طرح کا ہے اور بہت گہرا ہے۔ وہ اس کے نسب اور اس کے مال اور اس کے گھر کی امانت دار ہے۔ اس کی زندگی کی شریک ہے۔ اس کے رازوں کی امین ہے۔ اس کے نہایت گہرے اور نازک جذبات اس سے وابستہ ہیں۔ اس کی بد چلنی سے آدمی کی غیرت اور عزت پر، اس کے مفاد پر ، اور اس کی آئندہ نسل پر سخت چوٹ لگتی ہے۔ یہ دونوں معاملے آخر ایک کس حیثیت سے ہیں کہ دونوں کے لیے قانون کا مزاج ایک ہی ہو۔ کیا ایک ذمی ، یا ایک غلام، یا ایک سزا یافتہ آدمی کے یے اس کی بیوی کا معاملہ کسی آزاد اہل شہادت مسلمان کے معاملے سے کچھ بھی مختلف یا اہمیت اور نتائج میں کچھ بھی کم ہے ؟ اگر وہ اپنی آنکھوں سے کسی کے ساتھ اپنی بیوی کو ملوث دیکھ لے ، یا اس کو یقین ہو کہ اس کی بیوی غیر سے حاملہ ہے تو کون سی معقول وجہ ہے کہ اسے لعان کا حق نہ دیا جائے ؟ اور یہ حق اس سے سلب کرنے کے بعد ہمارے قانون میں اس کے لیے اور کیا چارہ کار ہے ؟ قرآن مجید کا منشا تو صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ شادی شدہ جوڑوں کو اس پیچیدگی سے نکالنے کی ایک صورت پیدا کرنا چاہتا ہے جس میں بیوی کی حقیقی بد کاری یا ناجائز حمل سے ایک شوہر، اور شوہر کے جھوٹے الزام یا اولاد کے نسب سے بے جا انکار کی بدولت ایک بیوی مبتلا ہو جائے۔ یہ ضرورت صرف اہل شہادت آزاد مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں ہے ، اور قرآن کے الفاظ میں بھی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کو صرف ان ہی تک محدود کرنے والی ہو۔ رہا یہ استدلال کہ قرآن نے لعان کی قسموں کو شہادت قرار دیا ہے اس لیے شہادت کی شرائط یہاں عائد ہوں گی، تو اس کا تقاضا پھر یہ ہے کہ اگر عادل مقبول الشہادت شوہر قسمیں کھا لے اور عورت قسم کھانے سے پہلو تہی کرے تو عورت کو رجم کر دیا جائے ، کیونکہ اس کی بد کاری پر شہادت قائم ہو چکی ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اس صورت میں حنفیہ رجم کا حکم نہیں لگا تے۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ وہ خود بھی ان قسموں کو بعینہ شہادت کی حیثیت نہیں دیتے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ خود قرآن بھی ان قسموں کو شہادت کے لفظ سے تعبیر کرنے کے باوجود شہادت نہیں قرار دیتا ورنہ عورت کو چار کے بجائے آٹھ قسمیں کھانے کا حکم دیتا۔

۵): لعان محض کنایے اور استعارے یا اظہار شک و شبہ پر لازم نہیں آتا ، بلکہ صرف اس صورت میں لازم آتا ہے جب کہ شوہر صریح طور پر زنا کا الزام عائد کرے یا صاف الفاظ میں بچے کو اپنا بچہ تسلیم کرنے سے نکار کر دے۔ امام مالک اور لَیث بن سعد اس پر یہ مزید شرط بڑھاتے ہیں کہ قسم کھاتے وقت شوہر کو یہ کہنا چاہیے کہ اس نے اپنی آنکھوں سے بیوی کو زنا میں مبتلا دیکھا ہے۔ لیکن یہ قید بے بنیاد ہے۔ اس کی کوئی اصل نہ قرآن میں ہے اور نہ حدیث میں۔

۶) : اگر الزام لگانے کے بعد شوہر قسم کھانے سے پہلو تہی کرے تو امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ اسے قید کر دیا جائے گا اور جب تک وہ لعان نہ کرے یا اپنے الزام کا جھوٹا ہونا نہ مان لے ، اسے نہ چھوڑا جائے گا، اور جھوٹ مان لینے کی صورت میں اس کو حد قذف لگائی جائے گی۔ اس کے برعکس امام مالک، شافعی، حسن بن صالح اور لَیث بن سعد کی رائے یہ ہے کہ لعان سے پہلو تہی کرنا خود ہی اقرار کذب ہے اس لیے حد قذف واجب آ جاتی ہے۔

۷): اگر شوہر کے قسم کھا چکنے کے بعد عورت لعان سے پہلو تہی کرے تو حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ اسے قید کر دیا جائے اور اس وقت تک نہ چھوڑا جائے جب تک وہ لعان نہ کرے ، یا پھر زنا کا اقرار نہ کر لے۔ دوسری طرف مذکورہ بالا ائمہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں اسے رجم کر دیا جائے گا۔ ان کا استدلال قرآن کے اس ارشاد سے ہے کہ عورت سے عذاب صرف اس صورت میں دفع ہو گا جب کہ وہ بھی قسم کھا لے۔ اب چونکہ وہ قسم نہیں کھاتی اس لیے لا محالہ وہ عذاب کی مستحق ہے۔ لیکن اس دلیل میں کمزوری یہ ہے کہ قرآن یہاں ’’ عذاب‘‘ کی نوعیت تجویز نہیں کرتا بلکہ مطلقاً سزا کا ذکر کرتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ سزا سے مراد یہاں زنا ہی کی سزا ہو سکتی ہے تو اسکا جواب یہ ہے کہ زنا کی سزا کے لیے قرآن نے صاف الفاظ میں چار گواہوں کی شرط لگائی ہے۔ اس شرط کو محض ایک شخص کی چار قسمیں پورا نہیں کر دیتیں۔ شوہر کی قسمیں اس بات کے لیے تو کافی ہیں کہ وہ خود قذف کی سزا سے بچ جائے اور عورت پر لعان کے احکام مترتب ہو سکیں ، مگر اس بات کے لیے کافی نہیں ہیں کہ ان سے عورت پر زنا کا الزام ثابت ہو جائے۔ عورت کا جوابی قسمیں کھانے سے انکار شبہ ضرور پیدا کرتا ہے اور بڑا قوی شبہ پیدا کر دیتا ہے ، لیکن شبہات پر حدود جاری نہیں کی جا سکتیں۔ اس معاملہ کو مرد کی حد قذف پر قیاس نہیں کرنا چاہیے ، کیونکہ اس کا قذف تو ثابت ہے ، جبھی تو اس کو لعان پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مگر اس کے برعکس عورت پر زنا کا الزام ثابت نہیں ہے کیونکہ وہ اس کے اپنے اقرار یا چار عینی شہادتوں کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتا۔

۸) : اگر لعان کے وقت عورت حاملہ ہو تو امام احمد کے نزدیک لعان بجائے خود اس بات کے لیے کافی ہے کہ مرد اس حمل سے بری الذمہ ہو جائے اور بچہ اس کا قرار نہ پائے قطع نظر اس سے کہ مرد نے حمل کو قبول کرنے سے انکار کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ مرد کا الزام زنا اور نفی حمل دونوں ایک چیز نہیں ہیں ، اس لیے مرد جب تک حمل کی ذمہ داری قبول کرنے سے صریح طور پر انکار نہ کرے وہ الزام زنا کے باوجود اسی کا قرار پائے گا کیونکہ عورت کے زانیہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کو حمل بھی زنا ہی کا ہو۔

۹) : امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد دوران حمل میں مرد کو نفی حمل کی اجازت دیتے ہیں اور اس بنیاد پر لعان کو جائز رکھتے ہیں۔ مگر امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ اگر مرد کے الزام کی بنیاد زنانہ ہو بلکہ صرف یہ ہو کہ اس نے عورت کو ایسی حالت میں حاملہ پایا ہے جب کہ اس کے خیال میں حمل اس کا نہیں ہو سکتا تو اس صورت میں لعان کے معاملے کو وضع حمل تک ملتوی کر دینا چاہیے ، کیونکہ بسا اوقات کوئی بیماری حمل کا شبہ پیدا کر دیتی ہے اور در حقیقت حمل ہوتا نہیں ہے۔

۱۰) : اگر باپ بچے کے نسب سے انکار کرے تو بالاتفاق لعان لازماً آتا ہے۔ اور اس امر میں بھی اتفاق ہے کہ ایک دفعہ بچے کو قبول کر لینے کے بعد (خواہ یہ قبول کر لینا صریح الفاظ میں ہو یا قبولیت پر دلالت کرنے والے افعال ، مثلاً پیدائش پر مبارک باد لینے یا بچے کے ساتھ پدرانہ شفقت برتنے اور اس کی پرورش سے دلچسپی لینے کی صورت میں ) پھر باپ کو انکار نسب کا حق نہیں رہتا،اور اگر کرے تو حد قذف کا مستحق ہو جاتا ہے۔ مگر اس امر میں اختلاف ہے کہ باپ کو کس وقت تک انکار نسب کا حق حاصل ہے۔ امام مالک کے نزدیک اگر شوہر اس زمانے میں گھر پر موجود رہا ہے جب کہ بیوی حاملہ تھی تو زمانہ حمل سے لے کر وضع حمل تک اس کے لیے انکار کا موقع ہے ، اس کے بعد وہ انکار کا حق نہیں رکھتا۔ البتہ اگر وہ غائب تھا اور اس کے پیچھے ولادت ہوئی تو جس وقت اسے علم ہو وہ انکار کر سکتا ہے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک اگر پیدائش کے بعد ایک دو روز کے اندر وہ انکار کرے تو لعان کر کے وہ بچے کی ذمہ داری سے بری ہو جائے گا، لیکن اگر سال دو سال بعد انکار کرے تو لعان ہو گا مگر وہ بچے کی ذمہ داری سے بری نہ ہو سکے گا۔ امام ابو یوسف کے نزدیک ولادت کے بعد، یا ولادت کا علم ہونے کے بعد چالیس دن کے اندر اندر باپ کو انکار نسب کا حق ہے ، اس کے بعد یہ حق ساقط ہو جائے گا۔ مگر یہ چالیس دن کی قید بے معنی ہے۔ صحیح بات وہی ہے جو امام ابو حنیفہ نے فرمائی ہے کہ ولادت کے بعد یا اس کا علم ہونے کے بعد ایک دو روز کے اندر ہی انکار نسب کیا جا سکتا ہے ، الا یہ کہ اس میں کوئی ایسی ہو جسے معقول رکاوٹ تسلیم کیا جا سکے۔

۱۱) : اگر شوہر طلاق دینے کے بعد مطلقہ بیوی پر زنا کا الزام لگائے تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک لعان نہیں ہو گا بلکہ اس پر قذف کا مقدمہ قائم کیا جائے گا، کیونکہ لعان زوجین کے لیے ہے اور مطلقہ عورت اس کی بیوی نہیں ہے۔ الا یہ کہ طلاق رجعی ہو اور مدت رجوع کے اندر وہ الزام لگائے۔ مگر امام مالک کے نزدیک یہ قذف صرف اس صورت میں ہے جب کہ کسی حمل یا بچے کا نسب قبول کرنے یا نہ کرنے کا مسئلہ درمیان میں نہ ہو۔ ورنہ مرد کو طلاق بائن کے بعد بھی لعان کا حق حاصل ہے کیونکہ وہ عورت کو بد نام کرنے کے لیے نہیں بلکہ خود ایک ایسے بچے کی ذمہ داری سے بچنے کے لیے لعان کر رہا ہے جسے وہ اپنا نہیں سمجھتا۔ قریب قریب یہی رائے امام شافعی کی بھی ہے۔

۱۲): لعان کے قانونی نتائج میں سے بعض متفق علیہ ہیں ، اور بعض میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔

متفق علیہ نتائج یہ ہیں : عورت اور مرد دونوں کسی سزا کے مستحق نہیں رہتے۔ مرد بچے کے نسب کا منکر ہو تو بچہ صرف ماں کا قرار پائے گا، نہ باپ کی طرف منسوب ہو گا نہ اس سے میراث پائے گا، ماں اس کی وارث ہو گی اور وہ ماں کا وارث ہو گا۔ عورت کو زانیہ اور اس کے بچے کو ولد الزنا کہنے کا کسی کو حق نہ ہو گا، خواہ لعان کے وقت اس کے حالات ایسے ہی کیوں نہ ہوں کہ لوگوں کو اس کے زانیہ ہونے میں شک نہ رہے۔ جو شخص لعان کے بعد اس پر یا اس کے بچے پر سابق الزام کا اعادہ کرے گا وہ حد کا مستحق ہو گا۔ عورت کا مہر ساقط نہ ہو گا۔ عورت دوران عدت میں مرد سے نفقہ اور مسکن پانے کی حق دار نہ ہو گی۔ عورت اس مرد کے لیے حرام ہو جائے گی۔

اختلاف دو مسئلوں میں ہے۔ ایک یہ کہ لعان کے بعد عورت اور مرد کی علیٰحدگی کیسے ہو گی؟ دوسرے یہ کہ لعان کی بنا پر علیٰحدہ ہو جانے کے بعد کیا ان دونوں کا پھر مل جانا ممکن ہے ؟ پہلے مسئلے میں امام شافعی کہتے ہیں کہ جس وقت مرد لعان سے فارغ ہو جائے اسی وقت فرقت آپ سے آپ واقع ہو جاتی ہے خواہ عورت جوابی لعان کرے نہ کرے۔ امام مالک ، لیث بن سعد اور زفر کہتے ہیں کہ مرد اور عورت دونوں جب لعان سے فارغ ہوں تب فرقت واقع ہوتی ہے۔ اور امام ابو حنیفہ ، ابو یوسف اور محمد کہتے ہیں کہ لعان سے فرقت آپ ہی آپ واقع نہیں ہو جاتی بلکہ عدالت کے تفریق کرانے سے ہوتی ہے۔ اگر شوہر خود طلاق دے دے تو بہتر، ورنہ حاکم عدالت ان کے درمیان تفریق کا اعلان کرے گا۔ دوسرے مسئلے میں امام مالک ، ابو یوسف ،زمر ، سفیان ثوری، اسحاق بن راہویہ ، شافعی، احمد بن حنبل اور حسن بن زیاد کہتے ہیں کہ لعان سے جو زوجین جدا ہوئے ہوں وہ پھر ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے پر حرام ہو جاتے ہیں ، دوبارہ وہ باہم نکاح کرنا بھی چاہیں تو کسی حال میں نہیں کر سکتے۔ یہی رائے حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کی بھی ہے۔ بخلاف اس کے سعید بن مسیب ، ابراہیم نخعی، شعبی، سعید بن جبیر ، ابو حنیفہ اور محمد رحمہم اللہ کی رائے یہ ہے کہ اگر شوہر اپنا جھوٹ مان لے اور اس پر حد قذف جاری ہو جائے تو پھر ان دونوں کے درمیان دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو ایک دوسرے کے لیے حرام کرنے والی چیز لعان ہے۔ جب تک وہ اس پر قائم رہیں ، حرمت بھی قائم رہے گی۔ مگر جب شوہر اپنا جھوٹ مان کر سزا پا گیا تو لعان ختم ہو گیا اور حرمت بھی اٹھ گئی۔