Tafheem ul Quran

Surah 24 An-Nur, Ayat 11-20

اِنَّ الَّذِيۡنَ جَآءُوۡ بِالۡاِفۡكِ عُصۡبَةٌ مِّنۡكُمۡ​ ؕ لَا تَحۡسَبُوۡهُ شَرًّا لَّـكُمۡ​ ؕ بَلۡ هُوَ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ​ ؕ لِكُلِّ امۡرِىٴٍ مِّنۡهُمۡ مَّا اكۡتَسَبَ مِنَ الۡاِثۡمِ​ ۚ وَالَّذِىۡ تَوَلّٰى كِبۡرَهٗ مِنۡهُمۡ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ‏  ﴿24:11﴾ لَوۡلَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡهُ ظَنَّ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتُ بِاَنۡفُسِهِمۡ خَيۡرًاۙ وَّقَالُوۡا هٰذَاۤ اِفۡكٌ مُّبِيۡنٌ‏ ﴿24:12﴾ لَوۡلَا جَآءُوۡ عَلَيۡهِ بِاَرۡبَعَةِ شُهَدَآءَ​ ۚ فَاِذۡ لَمۡ يَاۡتُوۡا بِالشُّهَدَآءِ فَاُولٰٓـئِكَ عِنۡدَ اللّٰهِ هُمُ الۡـكٰذِبُوۡنَ‏ ﴿24:13﴾ وَلَوۡلَا فَضۡلُ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهٗ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ لَمَسَّكُمۡ فِىۡ مَاۤ اَفَضۡتُمۡ فِيۡهِ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ​ ۖ​ ۚ‏ ﴿24:14﴾ اِذۡ تَلَـقَّوۡنَهٗ بِاَ لۡسِنَتِكُمۡ وَتَقُوۡلُوۡنَ بِاَ فۡوَاهِكُمۡ مَّا لَـيۡسَ لَـكُمۡ بِهٖ عِلۡمٌ وَّتَحۡسَبُوۡنَهٗ هَيِّنًا ​ ۖ  وَّهُوَ عِنۡدَ اللّٰهِ عَظِيۡمٌ‏ ﴿24:15﴾ وَ لَوۡلَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡهُ قُلۡتُمۡ مَّا يَكُوۡنُ لَـنَاۤ اَنۡ نَّـتَكَلَّمَ بِهٰذَ ا ​ۖ  سُبۡحٰنَكَ هٰذَا بُهۡتَانٌ عَظِيۡمٌ‏ ﴿24:16﴾ يَعِظُكُمُ اللّٰهُ اَنۡ تَعُوۡدُوۡا لِمِثۡلِهٖۤ اَبَدًا اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ​ۚ‏  ﴿24:17﴾ وَيُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ​ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿24:18﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ يُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِيۡعَ الۡفَاحِشَةُ فِى الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌۙ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ​ؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ وَاَنۡـتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿24:19﴾ وَلَوۡلَا فَضۡلُ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهٗ وَاَنَّ اللّٰهَ رَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿24:20﴾

11 - جو لوگ یہ بہتان گھڑ لائے ہیں8 وہ تمہارے ہی اندر کا ایک ٹولہ ہیں۔ 9 اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو بلکہ یہ بھی تمہارے لیے خیر ہی ہے۔ 10 جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا، اور جس شخص نے اِس  کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا 11 اس کے لیے عذابِ عظیم ہے۔ 12 - جس وقت تم لوگوں نے اسے سُنا تھا اُسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا 12 اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے؟ 13 13 -   وہ لوگ (اپنے الزام کے ثبوت میں )چار گواہ کیوں نہ لائے؟ اب کہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں، اللہ کے نزدیک وہی جھُوٹے ہیں۔ 14 14 - اگر تم لوگوں پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور رحم و کرم نہ ہوتا تو جن باتوں میں تم پڑ گئے تھے ان کی پاداش میں بڑا عذاب تمہیں آلیتا۔ 15 - (ذرا غور تو کرو، اُس وقت تم کیسی سخت غلطی کر رہے تھے)جبکہ تمہاری ایک زبان سے دُوسری زبان اس جھوٹ کو لیتی چلی جا رہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جا رہے تھے جس کی متعلق تمہیں کوئی علم نہ تھا۔ تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے، حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات تھی۔ 16 - کیوں نہ اُسے سُنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ”ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سُبحان اللہ، یہ تو ایک بہتانِ عظیم ہے۔“ 17 - اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا اگر تم مومن ہو۔ 18 - اللہ تمہیں صاف صاف ہدایات دیتا ہے اور رہ علیم و حکیم ہے۔ 15 19 - جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں، 16 اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ 17 20 - اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا اور یہ بات نہ  ہوتی کہ اللہ بڑا شفیق و رحیم ہے ،(تو یہ چیز جو ابھی تمہارے اندر پھیلائی گئی تھی بدترین نتائج دکھا دیتی)۔ ؏ ۲


Notes

8. اشارہ ہے اس الزام کی طرف جو حضرت عائشہ پر لگایا گیا تھا۔ اس کو افک کے لفظ سے تعبیر کرنا خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس الزام کی مکمل تردید ہے۔ اِفک کے معنی ہیں بات کو الٹ دینا، حقیقت کے خلاف کچھ سے کچھ بنا دینا۔ اسی مفہوم کے اعتبار سے یہ لفظ قطعی جھوٹ اور افترا کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اور اگر کسی الزام کے لیے بولا جائے تواس کے معنی سراسر بہتان کے ہیں۔ '

یہاں سے اس واقعے پر کلام شروع ہوتا ہے جو اس سورے کے نزول کا اصل سبب تھا۔ دیباچے میں ہم اس کا ابتدائی قصہ خود حضرت عائشہ کی روایت سے نقل کر آئے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سخت اذیت میں مبتلا رہے۔ میں روتی رہی۔ میرے والدین انتہائی پریشانی اور رنج و غم میں مبتلا رہے۔ آخر کار ایک روز حضورؐ تشریف لائے اور میرے پاس بیٹھے۔ اس پوری مدت میں کبھی میرے پاس نہ بیٹھے تھے۔ حضرت ابو بکر اور ام رومان (حضرت عائشہ کی والدہ) نے محسوس کیا کہ آج کوئی فیصلہ کن بات ہونے والی ہے۔ اس لیے وہ دونوں بھی پاس آ کر بیٹھ گئے۔ حضور نے فرمایا عائشہ،مجھے تمہارے متعلق یہ خبریں پہنچی ہیں۔ اگر تم بے گناہ ہو تو امید ہے کہ اللہ تمہاری برأت ظاہر فرما دے گا۔ اور اگر واقعی تم کسی گناہ میں مبتلا ہوئی ہو تو اللہ سے توبہ کرو اور معافی مانگو، بندہ جب اپنے گناہ کا معترف ہو کر توبہ کرتا ہے تو اللہ معاف کر دیتا ہے۔ یہ بات سن کر میرے آنسو خشک ہو گئے۔ میں نے اپنے والد سے عرض کیا آپ رسول اللہ کی بات کا جواب دیں۔ انہوں نے فرمایا بیٹی، میری کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہوں۔ میں نے اپنی والدہ سے کہا آپ ہی کچھ کہیں۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں حیران ہوں ، کیا کہوں۔ اس پر میں بولی آپ لوگوں کے کانوں میں ایک بات پڑ گئی ہے اور دلوں میں بیٹھ چکی ہے ، اب اگر میں کہوں کہ میں بے گناہ ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ گواہ ہے کہ میں بے گناہ ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو آپ لوگ نہ مانیں گے ، اور اگر خواہ مخواہ ایک ایسی بات کا اعتراف کروں جو میں نے نہیں کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ جانتا ہے کہ میں نے نہیں کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو آپ لوگ مان لیں گے۔ میں نے اس وقت حضرت یعقوبؑ کا نام یاد کرنے کی کوشش کی مگر نہ یاد آیا۔ آخر میں نے کہا اس حالت میں میرے لیے اس کے سوا اور کیا چارہ ہے کہ وہی بات کہوں جو حضرت یوسفؑ کے والد نے کہی تھی فَصَبْرٌ جَمِیْل (اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جب کہ حضرت یعقوبؑ کے سامنے ان کے بیٹے بن یمین پر چوری کا الزام بیان کیا گیا تھا۔ سورہ یوسف، رکوع 10 میں اس کا ذکر گزر چکا ہے ) یہ کہہ کر میں لیٹ گئی اور دوسری طرف کروٹ لے لی۔ میں اس وقت اپنے دل میں کہہ رہی تھی کہ اللہ میری بے گناہی سے واقف ہے اور وہ ضرور حقیقت کھول دے گا۔ اگرچہ یہ بات تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ میرے حق میں وحی نازل ہو گی جو قیامت تک پڑھی جائے گی۔ میں اپنی ہستی کو اس سے کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ خود میری طرف سے بولے۔ مگر میرا یہ گمان تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کوئی خواب دیکھیں گے جس میں اللہ تعالیٰ میری برأت ظاہر فرما دے گا۔ اتنے میں یکایک حضورؐ پر وہ کیفیت طاری ہو گئی جو وحی نازل ہوتے وقت ہوا کرتی تھی ، حتیٰ کہ سخت جاڑے کے زمانے میں بھی موتی کی طرح آپ کے چہرے سے پسینے کے قطرے ٹپکنے لگتے تھے۔ ہم سب خاموش ہو گئے۔ میں تو بالکل بے خوف تھی۔ مگر میرے والدین کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ وہ ڈر رہے تھے کہ دیکھیے اللہ کیا حقیقت کھولتا ہے۔ جب وہ کیفیت دور ہوئی تو حضورؐ بے حد خوش تھے۔ آپ نے ہنستے ہوئے پہلی بات جو فرمائی وہ یہ تھی کہ مبارک ہو عائشہ ، اللہ نے تمہاری براءت نازل فرما دی۔ اور اس کے بعد حضورؐ نے دس آیتیں سنائیں (یعنی آیت نمبر 11 سے نمبر 21 تک)۔ میری والدہ نے کہا کہ اٹھو اور رسول اللہ کا شکریہ ادا کرو۔ میں نے کہا میں نہ ان کا شکریہ ادا کروں گی نہ آپ دونوں کا، بلکہ اللہ کا شکر کرتی ہوں جس نے میری براءت نازل فرمائی۔ آپ لوگوں نے تو اس بہتان کا انکار تک نہ کیا‘‘۔ (واضح رہے کہ یہ کسی ایک روایت کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں جتنی روایتیں حضرت عائشہ سے اس سلسلے میں مروی ہیں ان سب کو جمع کر کے ہم نے ان کا خلاصہ نکال لیا ہے )۔

اس موقع پر یہ نکتۂ لطیف بھی سمجھ لینا چاہیے کہ حضرت عائشہ کی برأت بیان کرنے سے پہلے پورے ایک رکوع میں زنا اور قذف اور لعان کے احکام بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے در اصل اس حقیقت پر متنبہ فرمایا ہے کہ زنا کے الزام کا معاملہ کوئی تفریحی مشغلہ نہیں ہے جسے نُقل محفل کے طور پر استعمال کیا جائے۔ یہ ایک نہایت سنگین بات ہے۔ الزام لگانے والے کا الزام اگر سچا ہے تو وہ گواہی لائے۔ زانی اور زانیہ کو انتہائی ہولناک سزا دی جائے گی۔ اگر جھوٹا ہے تو الزام لگانے والا اس لائق ہے کہ اس کی پیٹھ پر 80 کوڑے برسا دیے جائیں تاکہ آئندہ وہ یا کوئی اور ایسی جرأت نہ کرے۔ اور یہ الزام اگر شوہر لگائے تو عدالت میں لعان کر کے اسے معاملہ صاف کرنا ہو گا۔ اس بات کو زبان سے نکال کر کوئی شخص بھی خیریت سے بیٹھا نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کہ یہ مسلم معاشرہ ہے جسے دنیا میں بھلائی قائم کرنے کے لیے بر پا کیا گیا ہے۔ اس میں نہ زنا ہی تفریح بن سکتی ہے اور نہ اس کے چرچے ہی خوش باشی اور دل لگی کے موضوع قرار پا سکتے ہیں۔

9. روایات میں صرف چند آدمیوں کے نام ملتے ہیں جو یہ افواہیں پھیلا رہے تھے۔ عبد اللہ بن ابی۔ زید بن رفاعہ(جو غالباً رفاعہ بن زید یہودی منافق کا بیٹا تھا)۔ مِسْطَح بن اُثاثہ۔ حسّان بن ثابت اور حمْنہ بنت جحش۔ ان میں سے پہلے دو منافق تھے اور باقی تین مومن تھے جو غلطی اور کمزوری سے اس فتنے میں پڑ گئے تھے۔ ان کے سوا اور جو لوگ اس گناہ میں کم و بیش مبتلا ہوئے ان کا ذکر حدیث و سیرت کی کتابوں میں نظر سے نہیں گزرا۔

10. مطلب یہ ہے کہ گھبراؤ نہیں ، منافقین نے اپنی دانست میں تو یہ بڑے زور کا وار تم پر کیا ہے مگر ان شاء اللہ یہ ان ہی پر الٹا پڑے گا اور تمہارے لیے مفید ثابت ہو گا۔ جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں ، منافقین نے یہ شو شہ اس لیے چھوڑا تھا کہ مسلمانوں کو اس میدان میں شکست دین جو ان کے تفوق کا اصل میدان تھا، یعنی اخلاق جس میں فائق ہونے ہی کی وجہ سے وہ ہر میدان میں اپنے حریفوں سے بازی لیے جا رہے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی مسلمانوں کے لیے سبب خیر بنا دیا۔ اس موقع پر ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ، دوسری طرف حضرت ابو بکر اور ان کے خاندان والوں نے ، اور تیسری طرف عام اہل ایمان نے جو طرز عمل اختیار کیا اس سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہو گئی کہ یہ لوگ برائی سے کس قدر پاک، کیسے ضابط و متحمل ، کیسے انصاف پسند اور کس درجہ کریم النفس واقع ہوئے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک اشارہ ان لوگوں کی گردنیں اڑا دینے کے لیے کافی تھا جنہوں نے آپ کی عزت پر یہ حملہ کیا تھا ، مگر مہینہ بھر تک آپ صبر سے سب کچھ برداشت کرتے رہے ، اور جب اللہ کا حکم آگیا تو صرف ان تین مسلمانوں کو ، جن پر جرم قذف ثابت تھا، حد لگوا دی، منافقین کو پھر بھی کچھ نہ کہا۔ حضرت ابو بکر کا اپنا رشتہ دار ، جس کی اور جس کے گھر بھر کی وہ کفالت بھی فرماتے تھے ، ان کے دل و جگر پر یہ تیر چلاتا رہا، مگر اللہ کے اس نیک بندے نے اس پر ابھی نہ برادری کا تعلق منقطع کیا، نہ اس کی اور اس کے خاندان کی مدد ہی بند کی۔ ازواج مطہرات میں سے کسی نے بھی سوکن کی بد نامی میں ذرہ برابر حصہ نہ لیا، بلکہ کسی نے اس پر ادنیٰ درجے میں بھی اپنی رضا اور پسند کا ، یا کم از کم قبولیت کا اظہار تک نہ کیا۔ حتیٰ کہ حضرت زینب کی سگی بہن حمنہ بنت جحش محض ان کی خاطر ان کی سوکن کو بدنام کر رہی تھیں ، مگر خود انہوں نے سوکن کے حق میں کلمہ خیر ہی کہا۔ حضرت عائشہ کی اپنی روایت ہے کہ ازواج رسول اللہ میں سب سے زیادہ زینب ہی سے میرا مقابلہ رہتا تھا، مگر واقعہ افک کے سلسلے میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ عائشہ کے متعلق تم کیا جانتی ہو تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ، خدا کی قسم، میں اس کے اندر بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں جانتی۔ حضرت عائشہ کی اپنی شرافت نفس کا حال یہ تھا کہ حضرت حسان بن ثابت نے انہیں بد نام کرنے میں نمایاں حصہ لیا، مگر وہ ہمیشہ ان کے ساتھ عزت اور تواضع ہی سے پیش آتی رہیں۔ لوگوں نے یاد دلایا کہ یہ تو وہ شخص ہے جس نے آپ کو بد نام کیا تھا تو یہ جواب دے کر ان کا منہ بند کر دیا کہ یہ وہ شخص ہے جو دشمن اسلام شعراء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اسلام کی طرف سے منہ توڑ جواب دیا کرتا تھا۔ یہ تھا ان لوگوں کا حال جن کا اس معاملے سے براہ راست تعلق تھا۔ اور عام مسلمانوں کی پاکیزہ نفسی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری سے ان کی بیوی نے جب ان افواہوں کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے ’’ ایوب کی ماں ‘‘ اگر تم عائشہ کی جگہ اس موقع پر ہوتیں تو کیا ایسا فعل کرتیں ‘‘؟ وہ بولیں ‘‘ خدا کی قسم میں یہ حرکت ہر گز نہ کرتی‘‘۔ حضرت ابو ایوب نے کہا’’ تو عائشہ تم سے بدر جہا بہتر ہیں۔ اور میں کہتا ہوں کہ اگر صفوان کی جگہ میں ہوتا تو اس طرح کا خیال تک نہ کر سکتا تھا، صفوان تو مجھ سے اچھا مسلمان ہے ‘‘۔ اس طرح منافقین جو کچھ چاہتے تھے ، نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا اور مسلمانوں کا اخلاقی تفوق پہلے سے زیادہ نمایاں ہو گیا۔

پھر اس میں خیر کا ایک اور پہلو بھی تھا، اور وہ یہ کہ یہ واقعہ اسلام کے قوانین و احکام اور تمدنی ضوابط میں بڑے اہم اضافوں کا موجب بن گیا۔ اس کی بدولت مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی ہدایات حاصل ہوئیں جن پر عمل کر کے مسلم معاشرے کو ہمیشہ کے لیے برائیوں کی پیداوار اور ان کی اشاعت سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے ، اور پیدا ہو جائیں تو ان کا بر وقت تدارک کیا جا سکتا ہے۔

مزید برآں اس میں خیر کا پہلو یہ بھی تھا کہ تمام مسلمانوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم غیب داں نہیں ہیں ، جو کچھ اللہ بتاتا ہے وہی کچھ جانتے ہیں ، اس کے ماسوا آپ کا علم اتنا ہی کچھ ہے جتنا ایک بشر کا ہو سکتا ہے ، ایک مہینے تک آپ حضرت عائشہؓ کے معاملے میں سخت پریشان رہے۔ کبھی خادمہ سے پوچھتے تھے ، کبھی ازواج مطہرات سے ، کبھی حضرت علیؓ سے اور کبھی حضرت اسامہؓ سے۔ آخر کار حضرت عائشہؓ سے فرمایا تو یہ فرمایا کہ اگر تم نے یہ گناہ کیا ہے تو توبہ کرو اور نہیں کیا تو امید ہے کہ اللہ تمہاری بے گناہی ثابت کر دے گا۔ اگر آپ عالم الغیب ہوتے تو یہ پریشانی اور یہ پوچھ گچھ اور یہ تلقین توبہ کیوں ہوتی؟ البتہ جب وحی خداوندی نے حقیقت بتا دی تو آپ کو وہ علم حاصل ہو گیا جو مہینہ بھر تک حاصل نہ تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے براہ راست تجربے اور مشاہدے کے ذریعہ سے مسلمانوں کو اس غلو اور مبالغے سے بچا نے کا انتظام فرما دیا جس میں عقیدت کا اندھا جوش بالعموم اپنے پیشواؤں کے معاملے میں لوگوں کو مبتلا کر دیتا ہے۔ بعید نہیں کہ مہینہ بھر تک وحی نہ بھیجنے میں اللہ تعالیٰ کے پیش نظر یہ بھی ایک مصلحت رہی ہو۔ اول روز ہی وحی آ جاتی تو یہ فائدہ حاصل نہ ہو سکتا۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم، صفحہ 595 تا 598)۔

11. یعنی عبد اللہ بن ابی جو اس الزام کا اصل مصنف اور فتنے کا اصل بانی تھا۔ بعض روایات میں غلطی سے حضرت حسان بن ثابت کو اس آیت کا مصداق بتایا گیا ہے ، مگر یہ راویوں کی اپنی ہی غلط فہمی ہے ورنہ حضرت حسان کی کمزوری اس سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ وہ منافقوں کے پھیلائے ہوئے اس فتنہ میں مبتلا ہو گئے۔ حافظ ابن کثیر نے صحیح کہا ہے کہ اگر یہ روایت بخاری میں نہ ہوتی تو قابل ذکر تک نہ تھی۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا جھوٹ ، بلکہ بہتان یہ ہے کہ بنی امیہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس آیت کا مصداق قرار دیا۔ بخاری، طبرانی، اور بیہقی میں ہشام بن عبدالملک اُمَوی کا یہ قول ،منقول ہے کہ : الذی تو تیٰ کبرہٗ کے مصداق علی بن ابی طالب ہیں۔ حالانکہ حضرت علیؓ کا سرے سے اس فتنے میں کوئی حصہ ہی نہ تھا۔ بات صرف اتنی تھی کہ انہوں نے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت پریشان دیکھا تو حضورؐ کے مشورہ لینے پر عرض کر دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں آپ پر کوئی تنگی تو نہیں رکھی ہے۔ عورتیں بہت ہیں۔ آپ چاہیں تو عائشہ کو طلاق دے کر دوسرا نکاح کر سکتے ہیں۔ اس کے یہ معنی ہر گز نہ تھے کہ حضرت علیؓ نے اس الزام کی تصدیق فرمائی تھی جو حضرت عائشہ پر لگایا جا رہا تھا۔ ان کا مقصد صرف آں حضرتؐ کی پریشانی کو رفع کرنا تھا۔

12. دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے لوگوں ،یا اپنی ملت اور اپنے معاشرے کے لوگوں سے نیک گمان کیوں نہ کیا۔ آیت کے الفاظ دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں ، اور اس ذو معنی فقرے کے استعمال میں ایک لطیف نکتہ ہے جسے خوب سمجھ لینا چاہیے۔ جو صورت معاملہ حضرت عائشہ اور صفوان بن معطل کے ساتھ پیش آئی تھی وہ یہی تو تھی کہ قافلے کی ایک خاتون(قطع نظر اس سے کہ وہ رسول کی بیوی تھیں ) اتفاق سے پیچھے رہ گئی تھیں اور قافلے ہی کا ایک آدمی جو خود اتفاق سے پیچھے رہ گیا تھا، انہیں دیکھ کر اپنے اونٹ پر ان کو بٹھا لایا۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ معاذ اللہ یہ دونوں تنہا ایک دوسرے کو پاکر گناہ میں مبتلا ہو گئے تو اس کا یہ کہنا اپنے ظاہر الفاظ کے پیچھے دو اور مفروضے بھی رکھتا ہے۔ ایک یہ کہ قائل (خواہ وہ مرد ہو یا عورت) اگر خود اس جگہ ہوتا تو کبھی گناہ کیے بغیر نہ رہتا، کیونکہ وہ اگر گناہ سے رکا ہوا ہے تو صرف اس لیے کہ اسے صنف مقابل کا کوئی فرد اس طرح تنہائی میں ہاتھ نہ آگیا، ورنہ ایسے نادر موقع کو وہ چھوڑنے والا نہ تھا۔ دوسرے یہ کہ جس معاشرے سے وہ تعلق رکھتا ہے اس کی اخلاقی حالت کے متعلق اس کا گمان یہ ہے کہ یہاں کوئی عورت بھی ایسی نہیں ہے اور نہ کوئی مرد ایسا ہے جسے اس طرح کا کوئی موقع پیش آ جائے اور وہ گناہ سے باز رہ جائے۔ یہ تو اس صورت میں ہے جب کہ معاملہ محض ایک مرد اور ایک عورت کا ہو۔ اور بالفرض اگر وہ مرد اور عورت دونوں ایک ہی جگہ کے رہنے والے ہوں ، اور عورت جو اتفاقاً قافلے سے بچھڑ گئی تھی، اس مرد کے کسی دوست یا رشتہ دار یا ہمسائے یا واقف کار کی بیوی بہن ، یا بیٹی ہو تو معاملہ اور بھی زیادہ سخت ہو جاتا ہے۔ اس کے معنی پھر یہ ہو جاتے ہیں کہ کہنے والا خود اپنی ذات کے متعلق بھی اور اپنے معاشرے کے متعلق بھی ایسا سخت گھناؤنا تصور رکھتا ہے جسے شرافت سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ کون بھلا آدمی یہ سوچ سکتا ہے کہ اس کے کسی دوست یا ہمسائے یا واقف کار کے گھر کی کوئی عورت اگر اتفاق سے کہیں بھولی بھٹکی اسے راستے میں مل جائے تو وہ پہلا کام بس اس کی عزت پر ہاتھ ڈالنے ہی کا کرے گا، پھر کہیں اسے گھر پہنچانے کی تدبیر سوچے گا۔ لیکن یہاں تو معاملہ اس سے ہزار گنا زیادہ سخت تھا۔ خاتون کوئی اور نہ تھیں ، رسولؐ اللہ کی بیوی تھیں جنہیں ہر مسلمان اپنی ماں سے بڑھ کر احترام کے لائق سمجھتا تھا،جنہیں اللہ نے خود ہر مسلمان پر ماں کی طرح حرام قرار دیا تھا۔ مرد نہ صرف یہ کہ اسی قافلے کا ایک آدمی، اسی فوج کا ایک سپاہی اور اسی شہر کا ایک باشندہ تھا، بلکہ وہ مسلمان تھا، ان خاتون کے شوہر کو اللہ کا رسول اور اپنا ہادی و پیشوا مانتا تھا، اور ان کے فرمان پر جان قربان کرنے کے لیے جنگ بدر جیسے خطرناک معرکے میں شریک ہو چکا تھا۔ اس صورت حال میں تو اس قول کا ذہنی پس منظر گھناؤنے پن کی اس انتہا کو پہنچ جاتا ہے جس سے بڑھ کر کسی گندے تخیل کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ مسلم معاشرے کے جن افراد نے یہ بات زبان سے نکالی یا اسے کم از کم شک کے قابل خیال کیا انہوں نے خود اپنے نفس کا بھی بہت برا تصور قائم کیا اور اپنے معاشرے کے لوگوں کو بھی بڑے ذلیل اخلاق و کردار کا مالک سمجھا۔

13. یعنی یہ بات تو قابل غور تک نہ تھی۔ اسے تو سنتے ہی ہر مسلمان کو سراسر جھوٹ اور کذب و افتراء کہہ دینا چاہیے تھا۔ ممکن ہے کوئی شخص یہاں یہ سوال کرے کہ جب یہ بات تھی تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر صدیق نے اسے کیوں نہ اول روز ہی جھٹلا دیا اور کیوں انہوں نے اسے اتنی اہمیت دی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شوہر اور باپ کی پوزیشن عام آدمیوں سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اگر چہ ایک شوہر سے بڑھ کر کوئی اپنی بیوی کو نہیں جان سکتا اور ایک شریف و صالح بیوی کے متعلق کوئی صحیح الدماغ شوہر لوگوں کے بہتانوں پر فی الواقع بد گمان نہیں ہو سکتا، لیکن اگر اسی کی بیوی پر الزام لگا دیا جائے تو وہ اس مشکل میں پڑ جاتا ہے کہ اسے بہتان کہہ کر رد کر بھی دے تو کہنے والوں کی زبان نہ رکے گی، بلکہ وہ اس پر ایک اور ردّا یہ چڑھائیں گے کہ بیوی نے میاں صاحب کی عقل پر کیسا پردہ ڈال رکھا ہے ، سب کچھ کر رہی ہے اور میاں یہ سمجھتے ہیں کہ میری بیوی بڑی پاک دامن ہے۔ ایسی ہی مشکل ماں باپ کو پیش آتی ہے۔ وہ غریب اپنی بیٹی کی عصمت پر صریح جھوٹے الزام کی تردید میں اگر زبان کھولیں بھی تو بیٹی کی پوزیشن صاف نہیں ہوتی۔ کہنے والے یہ کہیں گے کہ ماں باپ ہیں ،اپنی بیٹی کی حمایت نہ کریں گے تو اور کیا کریں گے۔ یہ چیز تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر اور ام رومان کو اندر ہی اندر غم سے گھلائے دے رہی تھی۔ ورنہ حقیقت میں کوئی شک ان کو لاحق نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو خطبے ہی میں صاف فرما دیا تھا کہ میں نے نہ اپنی بیوی میں کوئی برائی دیکھی ہے اور نہ اس شخص میں جس کے متعلق یہ الزام لگایا جا رہا ہے۔

14. ’’اللہ کے نزدیک ‘‘ یعنی اللہ کے قانون میں ، اللہ کے قانون کے مطابق۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اللہ کے علم میں تو الزام بجائے خود جھوٹا تھا ، اس کا جھوٹ ہونا اس بات پر مبنی نہ تھا کہ یہ لوگ گواہ نہیں لائے ہیں۔

اس جگہ کسی شخص کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہاں الزام کے غلط ہونے کی دلیل اور بنیاد محض گواہوں کی غیر موجودگی کو ٹھیرایا جا رہا ہے۔ اور مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ تم بھی صرف اس وجہ سے اس کو صریح بہتان قرار دو کہ الزام لگانے والے چار گواہ نہیں لائے ہیں۔ یہ غلط فہمی اس صورت واقعہ کو نگاہ میں نہ رکھنے سے پیدا ہوتی ہے جو فی الواقع وہاں پیش آئی تھی۔ الزام لگانے والوں نے الزام اس وجہ سے نہیں لگایا تھا کہ انہوں نے ، یا ان میں سے کسی شخص نے وہ بات دیکھی تھی جو وہ زبان سے نکال رہے تھے ، بلکہ صرف اس بنیاد پر اتنا بڑ الزام تصنیف کر ڈالا تھا کہ حضرت عائشہؓ قافلے سے پیچھے رہ گئی تھیں اور صفوان بعد میں ان کو اپنے اونٹ پر سوار کر کے قافلے میں لے آئے۔ کوئی صاحب عقل آدمی بھی اس موقع پر یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ حضرت عائشہ کا اس طرح پیچھے رہ جانا، معاذ اللہ کسی ساز باز کا نتیجہ تھا۔ ساز باز کرنے والے اس طریقہ سے تو ساز باز نہیں کیا کرتے کہ سالار لشکر کی بیوی چپکے سے قافلے کے پیچھے ایک شخص کے ساتھ رہ جائے اور پھر وہی شخص اس کو اپنے اونٹ پر بٹھا کر دن دہاڑے ، ٹھیک دوپہر کے وقت لیے ہوئے علانیہ لشکر کے پڑاؤ پر پہنچے۔ یہ صورت حال خود ہی ان دونوں کی معصومیت پر دلالت کر رہی تھی۔ اس حالت میں اگر الزام لگایا جا سکتا تھا تو صرف اس بنیاد پر ہی لگایا جا سکتا تھا کہ کہنے والوں نے اپنی آنکھوں سے کوئی معاملہ دیکھا ہو۔ ورنہ قرائن ، جن پر ظالموں نے الزام کی بنا رکھی تھی ، کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رکھتے تھے۔

15. ان آیات سے ، اور خصوصاً اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے کہ ’’ مومن مردوں اور عورتوں نے اپنے گروہ کے لوگوں سے نیک گمان کیوں نہ کیا‘‘ یہ قاعدہ کلیہ نکلتا ہے کہ مسلم معاشرے میں تمام معاملات کی بنا حسنِ ظن پر ہونی چاہیے ، اور سوءِ ظن صرف اس حالت میں کیا جانا چاہیے جب کہ اس کے لیے کوئی ثبوتی و ایجابی بنیاد ہو۔ اصول یہ ہے کہ ہر شخص بے گناہ ہے جب تک کہ اس کے مجرم ہونے یا اس پر جرم کا شبہ کرنے کے لیے کوئی معقول وجہ موجود نہ ہو۔ اور ہر شخص اپنی بات میں سچا ہے جب تک کہ اس کے ساقط الاعتبار ہونے کی کوئی دلیل نہ ہو۔

16. موقع و محل کے لحاظ سے تو آیت کا براہ راست مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ اس طرح کے الزامات گھڑ کر اور انہیں اشاعت دے کر مسلم معاشرے میں بد اخلاقی پھیلانے اور امت مسلمہ کے اخلاق پر دھبہ لگانے کی کوششیں کر رہے ہیں وہ سزا کے مستحق ہیں۔ لیکن آیت کے الفاظ فحش پھیلانے کی تمام صورتوں پر حاوی ہیں۔ ان کا اطلاق عملاً بد کاری کے اڈے قائم کرنے پر بھی ہوتا ہے اور بد اخلاقی کی ترغیب دینے والے اور اس کے لیے جذبات کو اکسانے والے قصوں ، اشعار، گانوں ، تصویروں اور کھیل تماشوں پربھی۔ نیز وہ کلب اور ہوٹل اور دوسرے ادارے بھی ان کی زد میں آ جاتے ہیں جن میں مخلوط رقص اور مخلوط تفریحات کا انتظام کیا جاتا ہے۔ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ یہ سب لوگ مجرم ہیں۔ صرف آخرت ہی میں نہیں دنیا میں بھی ان کو سزا ملنی چاہیے۔ لہٰذا ایک اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ اشاعت فحش کے ان تمام ذرائع و وسائل کا سد باب کرے۔ اس کے قانون تعزیرات میں ان تمام افعال کو مستلزم سزا، قابل دست اندازی پولیس ہونا چاہیے جن کو قرآن یہاں پبلک کے خلاف جرائم قرار دے رہا ہے اور فیصلہ کر رہا ہے کہ ان کا ارتکاب کرنے والے سزا کے مستحق ہیں۔

17. یعنی تم لوگ نہیں جانتے کہ اس طرح کی ایک ایک حرکت کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں ، کتنے افراد کو متاثر کرتے ہیں اور مجموعی طور پر ان کا کس قدر نقصان اجتماعی زندگی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس چیز کو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ لہٰذا اللہ پر اعتماد کرو اور جن برائیوں کی وہ نشان دہی کر رہا ہے انہیں پوری قوت سے مٹانے اور دبانے کی کوشش کرو۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں ہیں جن کے ساتھ رواداری برتی جائے۔ در اصل یہ بڑی باتیں ہیں جن کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا ملنی چاہیے۔