Tafheem ul Quran

Surah 24 An-Nur, Ayat 21-26

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّيۡطٰنِ​ ؕ وَمَنۡ يَّتَّبِعۡ خُطُوٰتِ الشَّيۡطٰنِ فَاِنَّهٗ يَاۡمُرُ بِالۡـفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡكَرِ​ ؕ وَلَوۡلَا فَضۡلُ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهٗ مَا زَكٰى مِنۡكُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰـكِنَّ اللّٰهَ يُزَكِّىۡ مَنۡ يَّشَآءُ​ ؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ‏  ﴿24:21﴾ وَلَا يَاۡتَلِ اُولُوا الۡـفَضۡلِ مِنۡكُمۡ وَالسَّعَةِ اَنۡ يُّؤۡتُوۡۤا اُولِى الۡقُرۡبٰى وَالۡمَسٰكِيۡنَ وَالۡمُهٰجِرِيۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ ​​ۖ  وَلۡيَـعۡفُوۡا وَلۡيَـصۡفَحُوۡا​ ؕ اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ يَّغۡفِرَ اللّٰهُ لَـكُمۡ​ ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿24:22﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ يَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ الۡغٰفِلٰتِ الۡمُؤۡمِنٰتِ لُعِنُوۡا فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ وَلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌۙ‏ ﴿24:23﴾ يَّوۡمَ تَشۡهَدُ عَلَيۡهِمۡ اَلۡسِنَـتُهُمۡ وَاَيۡدِيۡهِمۡ وَاَرۡجُلُهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿24:24﴾ يَوۡمَـئِذٍ يُّوَفِّيۡهِمُ اللّٰهُ دِيۡنَهُمُ الۡحَـقَّ وَيَعۡلَمُوۡنَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الۡحَـقُّ الۡمُبِيۡنُ‏ ﴿24:25﴾ اَلۡخَبِيۡثٰتُ لِلۡخَبِيۡثِيۡنَ وَالۡخَبِيۡثُوۡنَ لِلۡخَبِيۡثٰتِ​ۚ وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيۡنَ وَالطَّيِّبُوۡنَ لِلطَّيِّبٰتِ​ۚ اُولٰٓـئِكَ مُبَرَّءُوۡنَ مِمَّا يَقُوۡلُوۡنَ​ؕ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّرِزۡقٌ كَرِيۡمٌ‏ ﴿24:26﴾

21 - اے لوگو جو ایمان لائےہو، شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ تو اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کو ئی شخص پاک نہ ہو سکتا۔ 18 مگر اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے ، اور اللہ سُننے والا اور جاننے والا ہے۔ 19 22 - تم میں سے جو لوگ صاحبِ فضل اور صاحبِ مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار، مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے۔ انھیں معاف کر دینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے؟ اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفور و رحیم ہے۔ 20 23 - جو لوگ پاک دامن ، بے خبر، 21 مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دُنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔ 24 - وہ اس دن کو بھُول نہ جائیں جبکہ ان کی اپنی زبانیں اور ان کے  اپنے ہاتھ پاوٴں ان کے کرتُوتوں کی گواہی دیں گے۔ 21الف 25 - اس دن اللہ وہ بدلہ انہیں بھر پور دے دیگا جس کے وہ مستحق ہیں اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے سچ کو سچ کر دکھانے والا۔ 26 - خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے۔ پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے۔ ان کا دامن پاک ہے اُن باتوں سے جو بنانے والے بناتے ہیں، 22 ان کے لیے مغفرت ہے اور رزقِ کریم ۔  ؏ ۳


Notes

18. یعنی شیطان تو تمہیں برائی کی نجاستوں میں آلودہ کرنے کے لیے اس طرح تُلا بیٹھا ہے کہ اگر اللہ اپنے فضل و کرم سے تم کو نیک و بد کی تمیز نہ سمجھائے اور تم کو اصلاح کی تعلیم و توفیق سے نہ نوازے تو تم میں سے کوئی شخص بھی اپنے بل بوتے پر پاک نہ ہو سکے۔

19. یعنی اللہ کی یہ مشیت کہ وہ کسے پاکیزگی بخشے ، اندھا دھند نہیں ہے بلکہ علم کی بنا پر ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ کس میں بھلائی کی طلب موجود ہے اور کون برائی کی رغبت رکھتا ہے۔ ہر شخص اپنی خلوتوں میں جو باتیں کرتا ہے انہیں اللہ سن رہا ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنے دل میں بھی جو کچھ سوچا کرتا ہے ، اللہ اس سے بے خبر نہیں رہتا۔ اسی براہ راست علم کی بنا پر اللہ فیصلہ کرتا ہے کہ کسے پاکیزگی بخشے اور کسے نہ بخشے۔

20. حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مذکورہ بالا آیتوں میں جب اللہ تعالیٰ نے میری برأت نازل فرما دی تو حضرت ابو بکر نے قسم کھا لی کہ وہ آئندہ کے لیے مسطح بن اُثاثہ کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں گے ، کیونکہ انہوں نے نہ رشتہ داری کا کوئی لحاظ کیا اور نہ ان احسانات ہی کی کچھ شرم کی جو وہ ساری عمر ان پر اور ان کے خاندان پر کرتے رہے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس کو سنتے ہی حضرت ابو بکر نے فوراً کہا :بلیٰ واللہ انانحب ان تغفرلنا یا ربنا، ’’واللہ ضرور ہم چاہتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو ہماری خطائیں معاف فرمائے ‘‘۔ چنانچہ آپ نے پھر مسطح کی مدد شروع کر دی اور پہلے سے زیادہ ان پر احسان کرنے لگے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے کہ یہ قسم حضرت ابو بکر کے علاوہ بعض اور صحابہ نے بھی کھالی تھی کہ جن جن لوگوں نے اس بہتان میں حصہ لیا ہے ان کی وہ کوئی مدد نہ کریں گے۔ اس آیت کے نزول کے بعد ان سب نے اپنے عہد سے رجوع کر لیا۔ اس طرح وہ تلخی آناً فاناً دور ہو گئی جو اس فتنے نے پھیلا دی تھی۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بات کی قسم کھا لے ، پھر بعد میں اسے معلوم ہو کہ اس میں بھلائی نہیں ہے اور وہ اس سے رجوع کر کے وہ بات اختیار کر لے جس میں بھلائی ہے تو آیا اسے قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرنا چاہیے یا نہیں۔ فقہاء کا ایک گروہ کہتا ہے کہ بھلائی کو اختیار کر لینا ہی قسم کا کفارہ ہے ، اس کے سوا کسی اور کفارے کی ضرورت نہیں یہ لوگ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر کو قسم توڑ دینے کا حکم دیا اور کفارہ ادا کرنے کی ہدایت نہیں فرمائی۔ اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کو بھی وہ دلیل میں پیش کرتے ہیں کہ : من حلف علیٰ یمین فرأی غیر ھا خیرا منھا فلیات الذی ھو خیر و ذٰلک کفارتہٗ۔ (جو شخص کسی بات کی قسم کھا لے ، پھر اسے معلوم ہو کہ دوسری بات اس سے بہتر ہے تو اسے وہی بات کرنی چاہیے جو بہتر ہے اور یہ بہتر بات کو اختیار کر لینا ہی اس کا کفارہ ہے )۔ دوسرا گروہ کہتا ہے قسم توڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ایک صاف اور مطلق حکم نازل فرما چکا ہے (البقرہ، آیت 225 المائدہ، آیت 89) جسے اس آیت نے نہ تو منسوخ ہی کیا ہے اور نہ صاف الفاظ میں اس کے اندر کوئی ترمیم ہی کی ہے۔ اس لیے وہ حکم اپنی جگہ باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں حضرت ابوبکرؓ کو قسم توڑ دینے کے لیے تو ضرور فرمایا ہے مگر یہ نہیں فرمایا کہ تم پر کوئی کفارہ واجب نہیں ہے۔ رہا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ایک غلط یا نا مناسب بات کی قسم کھا لینے سے جو گناہ ہوتا ہے وہ مناسب بات اختیار کر لینے سے دھل جاتا ہے۔ اس ارشاد کا مقصد کفارہ قسم کو ساقط کر دینا نہیں ہے ، چنانچہ دوسری حدیث اس کی توجیہہ کر دیتی ہے جس میں حضورؐ نے فرمایا ہے :من حلف الیٰ یمین فراٴی غیرھا خیر منھافلیات الذی ھو خیر و لیکفر عن یمینہٖ (جس نے کسی بات کی قسم کھا لی ہو، پھر اسے معلوم ہو کہ دوسری بات اس سے بہتر ہے ، اسے چاہیے کہ وہی بات کرے جو بہتر ہے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے )۔ اس سے معلوم ہوا کہ قسم توڑنے کا کفارہ اور چیز ہے اور بھلائی نہ کرنے کے گناہ کا کفارہ اور چیز۔ ایک چیز کا کفارہ بھائی کو اختیار کر لینا ہے اور دوسری چیز کا کفارہ وہ ہے جو قرآن نے خود مقرر کر دیا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہم القرآن ، جلد چہارم، تفسیر سورہ ص ، حاشیہ 46)

21. اصل میں لفظ ’’غافلات ‘‘ استعمال ہوا ہے جس سے مراد ہے جس سے مراد ہیں وہ سیدھی سادھی شریف عورتیں جو چھل بٹے نہیں جانتیں ، جن کے دل پاک ہیں ، جنہیں کچھ خبر نہیں کہ بد چلنی کیا ہوتی ہے اور کیسے کی جاتی ہے ، جن کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ اندیشہ نہیں گزرتا کہ کبھی کوئی ان پر بھی الزام لگا بیٹھے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا ان سات کبیرہ گناہوں میں سے ہے جو ’’ موبقات‘‘(تباہ کن) ہیں۔ اور طبرانی میں حضرت حذیفہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا قذف المحصنۃ یھدم عمل مأۃ سَنَۃ،’’ ایک پاک دامن عورت پر تہمت لگانا سو برس کے اعمال کو غارت کر دینے کے لیے کافی ہے ‘‘۔

21. اصل میں لفظ ’’غافلات ‘‘ استعمال ہوا ہے جس سے مراد ہے جس سے مراد ہیں وہ سیدھی سادھی شریف عورتیں جو چھل بٹے نہیں جانتیں ، جن کے دل پاک ہیں ، جنہیں کچھ خبر نہیں کہ بد چلنی کیا ہوتی ہے اور کیسے کی جاتی ہے ، جن کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ اندیشہ نہیں گزرتا کہ کبھی کوئی ان پر بھی الزام لگا بیٹھے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا ان سات کبیرہ گناہوں میں سے ہے جو ’’ موبقات‘‘(تباہ کن) ہیں۔ اور طبرانی میں حضرت حذیفہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا قذف المحصنۃ یھدم عمل مأۃ سَنَۃ،’’ ایک پاک دامن عورت پر تہمت لگانا سو برس کے اعمال کو غارت کر دینے کے لیے کافی ہے ‘‘۔

22. اس آیت میں ایک اصولی بات سمجھائی گئی ہے کہ خبیثوں کا جوڑ خبیثوں ہی سے لگتا ہے ، اور پاکیزہ لوگ پاکیزہ لوگوں ہی سے طبعی مناسبت رکھتے ہیں۔ ایک بد کار آدمی صرف ایک ہی برائی نہیں کیا کرتا ہے کہ اور تو سب حیثیتوں سے وہ بالکل ٹھیک ہو مگر بس ایک برائی میں مبتلا ہو۔ اس کے تو اطوار، عادات، خصائل ہر چیز میں بہت سی برائیاں ہوتی ہیں جو اس کی ایک بڑی برائی کو سہارا دیتی اور پرورش کرتی ہیں۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ایک آدمی میں یکایک کوئی ایک برائی کسی از غیبی گولے کی طرح پھٹ پڑے جس کی کوئی علامت اس کے چال چلن میں اور اس کے رنگ ڈھنگ میں نہ پائی جاتی ہو، یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے جس کا تم ہر وقت انسانی زندگیوں میں مشاہدہ کرتے رہتے ہو۔ اب کس طرح تمہاری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ ایک پاکیزہ انسان جس کی ساری زندگی سے تم واقف ہو، کسی ایسی عورت سے نباہ کر لے اور برسوں نہایت محبت کے ساتھ نباہ کیے چلا جاتا رہے جو زنا کار ہو۔ کیا تم تصور کر سکتے ہو کہ کوئی عورت ایسی بھی ہو سکتی ہے جو بد کار بھی ہو اور پھر اس کی رفتار ، گفتار، انداز، اطوار ، کسی چیز سے بھی اس کے برے لچھن ظاہر نہ ہوتے ہوں ؟ یا ایک شخص پاکیزہ نفس اور بلند اخلاق بھی ہو اور پھر ایسی عورت سے خوش بھی رہے جس کے یہ لچھن ہوں ؟ یہ بات یہاں اس لیے سمجھائی جا رہی ہے کہ آئندہ اگر کسی پر کوئی الزام لگایا جائے تو لوگ اندھوں کی طرح اسے بس سنتے ہی نہ مان لیا کریں بلکہ آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ کس پر الزام لگایا جا رہا ہے ، کیا الزام لگایا جا رہا ہے ، اور وہ کسی طرح وہاں چسپاں بھی ہو تا ہے یا نہیں ؟ بات لگتی ہوئی ہو تو آدمی ایک حد تک اسے مان سکتا ہے ، یا کم از کم ممکن اور متوقع سمجھ سکتا ہے۔ مگر ایک انوکھی بات جس کی صداقت کی تائید کرنے والے آثار کہیں نہ پائے جاتے ہوں صرف اس لیے کیسے مان لی جائے کہ کسی احمق یا خبیث نے اسے منہ سے خارج کر دیا ہے۔

بعض مفسرین نے اس آیت کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ بری باتیں برے لوگوں کے لیے ہیں (یعنی وہ ان کے مستحق ہیں ) اور بھلی باتیں بھلے لوگوں کے لیے ہیں اور بھلے لوگ اس سے پاک ہیں کہ وہ باتیں ان پر چسپاں ہوں جو بد گو اشخاص ان کے بارے میں کہتے ہیں۔ بعض دوسرے لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ برے اعمال برے ہی لوگوں کو سجتے ہیں اور نیک اعمال نیک ہی لوگوں کو سزاوار ہیں نیک لوگ اس سے پاک ہیں کہ وہ برے اعمال ان پر چسپاں ہوں جو منسوب کرنے والے ان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ کچھ اور لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ بری باتیں برے ہی لوگوں کے کرنے کی ہیں اور بھلے لوگ بھلی باتیں ہی کیا کرتے ہیں۔ بھلے لوگ اس سے پاک ہیں کہ وہ اس طرح کی باتیں کریں جیسی یہ افترا پرواز لوگ کر رہے ہیں۔ آیت کے الفاظ میں ان سب تفسیروں کی گنجائش ہے۔ لیکن ان الفاظ کو پڑھ کر پہلا مفہوم جو ذہن میں آتا ہے وہ وہی ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں اور موقع و محل کے لحاظ سے بھی جو معنویت اس میں ہے وہ ان دوسرے مفہومات میں نہیں ہے۔