Tafheem ul Quran

Surah 24 An-Nur, Ayat 35-40

اَللّٰهُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ​ؕ مَثَلُ نُوۡرِهٖ كَمِشۡكٰوةٍ فِيۡهَا مِصۡبَاحٌ​ ؕ الۡمِصۡبَاحُ فِىۡ زُجَاجَةٍ​ ؕ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوۡكَبٌ دُرِّىٌّ يُّوۡقَدُ مِنۡ شَجَرَةٍ مُّبٰـرَكَةٍ زَيۡتُوۡنَةٍ لَّا شَرۡقِيَّةٍ وَّلَا غَرۡبِيَّةٍ ۙ يَّـكَادُ زَيۡتُهَا يُضِىۡٓءُ وَلَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡهُ نَارٌ​ ؕ نُوۡرٌ عَلٰى نُوۡرٍ​ ؕ يَهۡدِى اللّٰهُ لِنُوۡرِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ​ ؕ وَ يَضۡرِبُ اللّٰهُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ​ؕ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ ۙ‏ ﴿24:35﴾ فِىۡ بُيُوۡتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنۡ تُرۡفَعَ وَيُذۡكَرَ فِيۡهَا اسۡمُهٗۙ يُسَبِّحُ لَهٗ فِيۡهَا بِالۡغُدُوِّ وَالۡاٰصَالِۙ‏ ﴿24:36﴾ رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡهِيۡهِمۡ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيۡعٌ عَنۡ ذِكۡرِ اللّٰهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِيۡتَآءِ الزَّكٰوةِ​ ۙ يَخَافُوۡنَ يَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِيۡهِ الۡقُلُوۡبُ وَالۡاَبۡصَارُ ۙ‏ ﴿24:37﴾ لِيَجۡزِيَهُمُ اللّٰهُ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا وَيَزِيۡدَهُمۡ مِّنۡ فَضۡلِهٖ​ؕ وَاللّٰهُ يَرۡزُقُ مَنۡ يَّشَآءُ بِغَيۡرِ حِسَابٍ‏ ﴿24:38﴾ وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَعۡمَالُهُمۡ كَسَرَابٍۢ بِقِيۡعَةٍ يَّحۡسَبُهُ الظَّمۡاٰنُ مَآءً ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمۡ يَجِدۡهُ شَيۡـئًـا وَّ وَجَدَ اللّٰهَ عِنۡدَهٗ فَوَفّٰٮهُ حِسَابَهٗ​ ؕ وَاللّٰهُ سَرِيۡعُ الۡحِسَابِ ۙ‏ ﴿24:39﴾ اَوۡ كَظُلُمٰتٍ فِىۡ بَحۡرٍ لُّـجّـِىٍّ يَّغۡشٰٮهُ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِهٖ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِهٖ سَحَابٌ​ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُهَا فَوۡقَ بَعۡضٍؕ اِذَاۤ اَخۡرَجَ يَدَهٗ لَمۡ يَكَدۡ يَرٰٮهَا​ؕ وَمَنۡ لَّمۡ يَجۡعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوۡرًا فَمَا لَهٗ مِنۡ نُّوۡرٍ‏ ﴿24:40﴾

35 - 61 اللہ آسمانوں اور زمین کا نُور ہے۔ 62 (کائنات میں)اس کے نُور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک  طاق میں چراغ رکھا ہُوا ہو، چراغ ایک فانُوس میں ہو، فانُوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت 63 کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی 64 ، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے، (اِس طرح)روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہوگئے ہوں 65 )۔ اللہ اپنے نُور کی طرف جس کی  چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے 66 ، وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے ، وہ ہر چیز سے خُوب واقف ہے۔ 67 36 - (اُس کے نُور کی طرف ہدایت پانے والے)اُن گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اِذن دیا ہے۔ 68 اُن میں ایسے لوگ صبح و شام اُس کی تسبیح کرتے ہیں 37 - جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامتِ نماز و ادائے زکوٰة سے غافل نہیں کر دیتی ۔ وہ اُس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل اُلٹنے اور دِیدے  پتھرا جانے کی نوبت آجائے گی، 38 - (اور وہ یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں )تاکہ ان کے بہترین اعمال کی جزا اُن کو دے اور مزید اپنے فضل سے نوازے، اللہ جسے چاہتا ہے  بے حساب دیتا ہے۔ 69 39 - (اسِ کے برعکس)جنہوں نے کُفر کیا 70 ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشتِ بے آب میں سراب کہ پیاسا اُس کو پانی سمجھے ہوئے تھا، مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا، بلکہ وہاں اس نے اللہ کو موجود پایا، جس نے اس کا پورا پورا حساب چکا دیا، اور اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی۔ 71 40 - یا پھر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا، کہ اُوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے، اُس پر ایک اور موج، اور اس کے اُوپر بادل، تاریکی مسلّط ہے، آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے۔  72 جسے اللہ نُور نہ بخشے اُس کے لیے پھر کوئی نُور نہیں۔  73 ؏ ۵


Notes

61. یہاں سے روئے سخن منافقین کی طرف پھرتا ہے جو اسلامی معاشرے میں فتنوں پر فتنے اٹھائے چلے جا رہے تھے اور اسلام، اسلامی تحریک اور اسلامی ریاست و جماعت کو زک دینے میں اسی طرح سرگرم تھے جس طرح باہر کے کھلے کھلے کا فر دشمن سرگرم تھے۔ یہ لوگ ایمان کے مدعی تھے ، مسلمانوں میں شامل تھے ، مسلمانوں کے ساتھ ، اور خصوصاً انصار کے ساتھ ، رشتہ و برادری کے تعلقات رکھتے تھے ، اسی لیے ان کو مسلمانوں میں اپنے فتنے پھیلانے کا زیادہ موقع ملتا تھا، اور بعض مخلص مسلمان تک اپنی سادہ لوحی یا کمزوری کی بنا پر ان کے آلۂ کار بن جاتے تھے اور پشت پناہ بھی۔ لیکن در حقیقت ان کی دنیا پرستی نے ان کی آنکھیں اندھی کر رکھی تھیں اور دعوائے ایمان کے باوجود وہ اس نور سے بالکل بے بہرہ تھے جو قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بدولت دنیا میں پھیل رہا تھا۔ اس موقع پر ان کو خطاب کیے بغیر ان کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا جا رہا ہے اس سے مقصود تین امور ہیں۔ اول یہ کہ ان کو فہمائش کی جائے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و ربوبیت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ جو بندہ بھی بہکا اور بھٹکا ہوا ہو اس کی تمام شرارتوں ور خباثتوں کے باوجود اسے آخر وقت تک سمجھانے کی کوشش کی جائے دوم یہ کہ ایمان اور نفاق کا فرق صاف صاف کھول کر بیان کر دیا جائے تاکہ کسی صاحب عقل و خرد انسان کے لیے مسلم معاشرے کے مومن اور منافق افراد کے درمیان تمیز کرنا مشکل نہ رہے ، اور اس توضیح و تصریح کے باوجود جو شخص منافقوں کے پھندے میں پھنسے یا ان کی پشت بانی کرے وہ اپنے اس فعل کا پوری طرح ذمہ دار ہو۔ سوم یہ کہ منافقین کو صاف صاف متنبہ کر دیا جائے کہ اللہ کے جو وعدے اہل ایمان کے لئے ہیں وہ انہی لوگوں کو پہنچتے ہیں جو سچے دل سے ایمان لے آئیں اور پھر اس ایمان کے تقاضے پورے کریں۔ یہ وعدے ان سب لوگوں کے لیے نہیں ہیں جو محض مسلمانوں کی مردم شماری میں شامل ہوں۔ لہٰذا منافقین اور فاسقین کو یہ امید نہ رکھنی چاہیے کہ وہ ان وعدوں میں سے کوئی حصہ پا سکیں گے۔

62. آسمانوں اور زمین کا لفظ قرآن مجید میں بالعموم ’’ کائنات ‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا دوسرے الفاظ میں آیت کا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ ساری کائنات کا نور ہے۔

نور سے مراد وہ چیز ہے جس کی بدولت اشیاء کا ظہور ہوتا ہے ، یعنی جو آپ سے آپ ظاہر ہو اور دوسری چیزوں کو ظاہر کرے۔ انسان کے ذہن میں نور اور روشنی کا اصل مفہوم یہی ہے۔ کچھ نہ سوجھنے کی کیفیت کا نام انسان نے اندھیرا اور تاریکی اور ظلمت رکھا ہے ، اور اس کے برعکس جب سب کچھ سجھائی دینے لگے اور ہر چیز ظاہر ہو جائے تو آدمی کہتا ہے کہ روشنی ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ کے یے لفظ ’’نور‘‘ کا استعمال اسی بنیادی مفہوم کے لحاظ سے کیا گیا ہے ، نہ اس معنی میں کہ معاذ اللہ وہ کوئی شعاع ہے جو ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتی ہے اور ہماری آنکھ کے پردے پر پڑ کر دماغ کے مرکز بینائی کو متأثر کرتی ہے۔ روشنی کی یہ مخصوص کیفیت اس معنی کی حقیقت میں شامل نہیں ہے جس کے لیے انسانی ذہن نے یہ لفظ اختراع کیا ہے ، بلکہ اس پر اس لفظ کا اطلاق ہم ان روشنیوں کے لحاظ سے کرتے ہیں جواس مادی دنیا کے اندر ہمارے تجربے میں آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لیے انسانی زبان کے جتنے الفاظ بھی بولے جاتے ہیں وہ اپنے اصل بنیادی مفہوم کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں نہ کہ ان کے مادی مدلولات کے اعتبار سے۔ مثلاً ہم اس کے لیے دیکھنے کا لفظ بولتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ انسان اور حیوان کی طرح آنکھ نامی ایک عضو کے ذریعہ سے دیکھتا ہے۔ ہم اس کے لیے سننے کا لفظ بولتے ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہو ہماری طرح کانوں کے ذریعہ سے سنتا ہے۔ اس کے لیے ہم پکڑ اور گرفت کے الفاظ بولتے ہیں۔ یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ وہ ہاتھ نام کے ایک آلہ سے پکڑتا ہے۔ یہ سب الفاظ اس کے لیے ہمیشہ ایک اطلاقی شان میں بولے جاتے ہیں اور صرف ایک کم عقل آدمی ہی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ سماعت اور بینائی اور گرفت کی کوئی دوسری صورت اس محدود اور مخصوص قسم کی سماعت و بینائی اور گرفت کے سوا ہونی غیر ممکن ہے جو ہمارے تجربے میں آتی ہے۔ اسی طرح ’’نور‘‘ کے متعلق بھی یہ خیال کرنا محض ایک تنگ خیالی ہے کہ اس کے معنی کا مصداق صرف اس شعاع ہی کی صورت میں پایا جا سکتا ہے جو کسی چمکنے والے جِرم سے نکل کر آنکھ کے پردے پر منعکس ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کا مصداق اس محدود معنی میں نہیں ہے بلکہ مطلق معنی میں ہے ، یعنی اس کائنات میں وہی ایک اصل ’’سبب ظہور‘‘ ہے ، باقی یہاں تاریکی اور ظلمت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دوسری روشنی دینے والی چیزیں بھی اسی کی بخشی ہوئی روشنی سے روشن اور روشن گر ہیں ، ورنہ ان کے پاس اپنا کچھ نہیں جس سے وہ یہ کرشمہ دکھا سکیں۔

نور کا لفظ علم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ، اور اس کے برعکس جہل کو تاریکی اور ظلمت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس معنی میں بھی کائنات کا نور ہے کہ یہاں حقائق کا علم اور راہ راست کا علم اگر مل سکتا ہے تو اسی سے مل سکتا ہے۔ اس سے فیض حاصل کیے بغیر جہالت کی تاریکی اور نتیجۃً ضلالت و گمراہی کے سوا اور کچھ ممکن نہیں ہے۔

63. مبارک، یعنی کثیر المنافع، بہت سے فائدوں کا حامل۔

64. یعنی جو کھلے میدان میں یا اونچی جگہ واقع ہو ، جہاں صبح سے شام تک اس پر دھوپ پڑتی ہو۔ کسی آڑ میں نہ ہو کہ اس پر صرف صبح کی یا صرف شام کی دھوپ پڑے۔ زیتون کے ایسے درخت کا تیل زیادہ لطیف ہوتا ہے اور زیادہ تیز روشنی دیتا ہے۔ محض شرقی یا محض غربی رخ کے درخت نسبۃً غلیظ تیل دیتے ہیں اور چراغ میں ان کی روشنی ہلکی رہتی ہے۔

65. اس تمثیل میں چراغ سے اللہ تعالیٰ کی ذات کو اور طاق سے کائنات کو تشبیہ دی گئی ہے ، اور فانوس سے مراد وہ پردہ ہے جس میں حضرت حق نے اپنے آپ کو نگاہ خلق سے چھپا رکھا ہے۔ گویا یہ پردہ فی الحقیقت اخفا کا نہیں ، شدت ظہور کا پردہ ہے۔ نگاہ خلق جو اس کو دیکھنے سے عاجز ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ درمیان میں تاریکی حائل ہے ، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ درمیان کا پردہ شفاف ہے اور اس شفاف پردے سے گزر کر آنے والا نور ایسا شدید اور بسیط اور محیط ہے کہ محدود طاقت رکھنے والی بینائیاں اس کا ادراک کرنے سے عاجز رہ گئی ہیں ، یہ کمزور بینائیاں صرف ان محدود روشنیوں کا ادراک کر سکتی ہیں جن کے اندر کمی و بیشی ہوتی رہتی ہے ، جو کبھی زائل ہوتی ہیں اور کبھی پیدا ہو جاتی ہیں ،جن کے مقابلے میں کوئی تاریکی موجود ہوتی ہے اور اپنی ضد کے سامنے آ کر وہ نمایاں ہوتی ہیں۔ لیکن نور مطلق جس کا کوئی مد مقابل نہیں ، جو کبھی زائل نہیں ہوتا، جو سدا ایک ہی شان سے ہر طرف چھایا رہتا ہے ، اس کا ادراک ان کے بس سے باہر ہے۔

رہا یہ مضمون کہ ’’ چراغ ایک ایسے درخت زیتون کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی ‘‘، تو یہ صرف چراغ کی روشنی کے کمال اور اس کی شدت کا تصور دلانے کے لیے ہے۔ قدیم زمانے میں زیادہ سے زیادہ روشنی روغن زیتوں کے چراغوں سے حاصل کی جاتی تھی ، اور ان میں روشن ترین چراغ وہ ہوتا تھا جو بلند اور کھلی جگہ کے درخت سے نکالے ہوئے تیل کا ہو۔ تمثیل میں اس مضمون کا مدعا یہ نہیں ہے کہ اللہ کی ذات ، جسے چراغ سے تشبیہ دی گئی ہے ، کسی اور چیز سے طاقت (Energy) حاصل کر رہی ہے ، بلکہ مقصود یہ کہنا ہے کہ مثال میں معمولی چراغ نہیں بلکہ اس روشن ترین چراغ کا تصور کرو جو تمہارے مشاہدے میں آتا ہو۔ جس طرح ایسا چراغ سارے مکان کو جگمگا دیتا ہے اسی طرح اللہ کی ذات نے ساری کائنات کو بقعۂ نور بنا رکھا ہے۔

اور یہ جو فرمایا کہ ’’ اس کا تیل آپ سے آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے ‘‘، اس سے بھی چراغ کی روشنی کے زیادہ سے زیادہ تیز ہونے کا تصور دلانا مقصود ہے۔ یعنی مثال میں اس انتہائی تیز روشنی کے چراغ کا تصور کرو جس میں ایسا لطیف اور ایسا سخت اشتعال پذیر تیل پڑا ہوا ہو۔ یہ تینوں چیزیں ، یعنی زیتون، اور اس کا غیر شرقی و غربی ہونا، اور اسکے تیل کا آگ لگے بغیر ہی آپ سے آپ بھڑکا پڑنا، مستقل اجزائے تمثیل نہیں ہیں بلکہ پہلے جزء تمثیل یعنی چراغ کے ضمنی متعلقات ہیں اصل اجزائے تمثیل تین ہیں ، چراغ ، طاق، اور فانوسِ شفاف۔

آیت کا یہ فقرہ بھی لائق توجہ ہے کہ ’’ اس کے نور کی مثال ایسی ہے ‘‘۔ اس سے وہ غلط فہمی رفع ہو جاتی ہے جو ’’ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ‘‘ کے الفاظ سے کسی کو ہو سکتی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کو ’’ نور‘‘ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ اس کی حقیقت ہی بس ’’نور ‘‘ ہونا ہے۔ حقیقت میں تو وہ ایک ذات کامل و اکمل ہے جو صاحب علم، صاحب قدرت، صاحب حکمت وغیرہ ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب نور بھی ہے۔ لیکن خود اس کو نور محض اس کے کمال نورانیت کی کی وجہ سے کہا گیا ہے جیسے کسی کے کمال فیاضی کا حال بیان کرنے کے لیے اس کو خود فیض کہ دیا جائے ، یا اس کے کمال خوبصورتی کا وصف بیان کرنے کے لیے خود اسی کو حسن کے لفظ سے تعبیر کر دیا جائے۔

66. یعنی اگر چہ اللہ کا یہ نور مطلق سارے جہان کو منور کر رہا ہے ، مگر اس کا ادراک ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا۔ اس کے ادراک کی توفیق، اور اس کے فیض سے مستفیض ہونے کی نعمت اللہ ہی جس کو چاہتا ہے بخشتا ہے۔ ورنہ جس طرح اندھے کے لیے دن اور رات برابر ہیں ، اسی طرح بے بصیرت انسان کے لیے بجلی اور سورج اور چاند اور تاروں کی روشنی تو روشنی ہے مگر اللہ کا نور اس کو سجھائی نہیں دیتا۔ اس پہلو سے اس بد نصیب کے لیے کائنات میں ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہے۔ آنکھوں کا اندھا اپنے پاس کی چیز نہیں دیکھ سکتا، یہاں تک کہ جب اس سے ٹکرا کر چوٹ کھاتا ہے تب اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ چیز یہاں موجود تھی۔ اسی طرح بصیرت کا اندھا ان حقیقتوں کو بھی نہیں دیکھ سکتا جو عین اس کے پہلو میں اللہ کے نور سے جگمگا رہی ہوں۔ اسے ان کا پتہ صرف اس وقت چلتا ہے جب وہ ان سے ٹکرا کر اپنی شامت میں گرفتار ہو چکا ہوتا ہے۔

67. اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ وہ جانتا ہے کس حقیقت کو کس مثال سے بہترین طریقہ پر سمجھایا جا سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ جانتا ہے کون اس نعمت کا مستحق ہے اور کون نہیں ہے۔ جو شخص نور حق کا طالب ہی نہ ہو اور ہمہ تن اپنی دنیوی اغراض ہی میں گم اور مادی لذتوں اور منفعتوں ہی کی جستجو میں منہمک ہو ، اسے زبردستی نور حق دکھانے کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس عطیے کا مستحق تو وہی ہے جسے اللہ جانتا ہے کہ وہ اس کا طالب اور مخلص طالب ہے۔

68. بعض مفسرین نے ان ’’ گھروں ‘‘ سے مراد مساجد لی ہیں ، اور ان کو بلند کرنے سے مراد ان کو تعمیر کرنا اور ان کی تعظیم و تکریم کرنا لیا ہے۔ اور بعض دوسرے مفسرین ان سے مراد اہل ایمان کے گھر لیتے ہیں اور انہیں بلند کرنے کا مطلب ان کے نزدیک انہیں اخلاقی حیثیت سے بلند کرنا ہے۔ ’’ ان مین اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے ‘‘ ، یہ الفاظ بظاہر مسجد والی تفسیر کے زیادہ مؤید نظر آتے ہیں ، مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوسری تفسیر کے بھی اتنے ہی مؤید ہیں جتنے پہلی تفسیر کے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ کی شریعت کہانت زدہ مذاہب کی طرح عبادت کو صرف معبدوں تک ہی محدود نہیں رکھتی جہاں کاہن یا پو جاری طبقے کے کسی فرد کی پیشوائی کے بغیر مراسم بندگی ادا نہیں کیے جا سکتے ، بلکہ یہاں مسجد کی طرح گھر بھی عبادت گاہ ہے اور ہر شخص اپنا پروہت آپ ہے۔ چونکہ اس سورے میں تمام تر خانگی زندگی کو اعلیٰ و ارفع بنانے کے لیے ہدایات دی گئی ہیں ، اس لیے دوسری تفسیر ہم کو موقع و محل کے لحاظ سے زیادہ لگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ، اگر چہ پہلی تفسیر کو بھی رد کر دینے کے لیے کوئی معقول دلیل نہیں ہے۔ کیا مضائقہ ہے اگر اس سے مراد مومنوں کے گھر اور ان کی مسجدیں ، دونوں ہی ہوں۔

69. یہاں ان صفات کی تشریح کر دی گئی جو اللہ کے نور مطلق کا ادراک کرنے اور اس کے فیض سے بہرہ مند ہونے کے لیے درکار ہیں۔ اللہ کی بانٹ اندھی بانٹ نہیں ہے کہ یونہی جسے چاہا مالا مال کر دیا اور جسے چاہا دھتکار دیا۔ وہ جسے دیتا ہے کچھ دیکھ کر ہی دیتا ہے ، اور نعمت حق دینے کے معاملے میں جو کچھ وہ دیکھتا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کے دل میں اس کی محبت ، اور اس سے دلچسپی، اور اس کا خوف ، اور اس کے انعام کی طلب ، اور اس کے غضب سے بچنے کی خواہش موجود ہے۔ وہ دنیا پرستی ہیں گم نہیں ہے۔ بلکہ ساری مصروفیتوں کے باوجود اس کے دل میں اپنے خدا کی یاد بسی رہتی ہے۔ وہ پستیوں میں پڑا نہیں رہنا چاہتا بلکہ اس بلندی کو عملاً اختیار کرتا ہے جس کی طرف اس کا مالک اس کی رہنمائی کرے۔ وہ اسی حیات چند روزہ کے فائدوں کا طلبگار نہیں ہے بلکہ اس کی نگاہ آخرت کی ابدی زندگی پر جمی ہوئی ہے۔ یہی کچھ دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آدمی کو اللہ کے نور سے بہرہ اندوز ہونے کی توفیق بخشی جائے۔ پھر جب اللہ دینے پر آتا ہے تو اتنا دیتا ہے کہ آدمی کا اپنا دامن ہی تنگ ہو تو دوسری بات ہے ، ورنہ اس کی دین کے لیے کوئی حد و نہایت نہیں ہے۔

70. یعنی اس تعلیم حق کو بصدق دل قبول کرنے سے انکار کر دیا جو اللہ کی طرف سے اس کے پیغمبروں نے دی ہے اور جو اس وقت اللہ کے پیغمبر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم دے رہے تھے۔ اوپر کی آیات خود بتا رہی ہیں کہ اللہ کا نور پانے والوں سے مراد سچے اور صالح مومن ہیں۔ اس لیے اب ان کے مقابلے میں ان لوگوں کی حالت بتائی جا رہی ہے جو اس نور کو پانے کے اصلی اور واحد ذریعے ، یعنی رسول ہی کا ماننے اور اس کا اتباع کرنے سے انکار کر دیں ، خواہ دل سے انکار کریں اور محض زبان سے اقراری ہوں یا دل اور زبان دونوں ہی سے انکاری ہوں۔

71. اس مثال میں ان لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جو کفر و نفاق کے باوجود بظاہر کچھ نیک اعمال بھی کرتے ہوں اور فی الجملہ آخرت کے بھی قائل ہوں ، اور اس خیال خام میں مبتلا ہوں کہ ایمان صادق اور صفات اہل ایمان ، اور اطاعت و اتباع رسول کے بغیر ان کے یہ اعمال آخرت میں ان کے لیے کچھ مفید ہوں گے۔ مثال کے پیرایے میں ان کو بتایا جا رہا ہے کہ تم اپنے جن ظاہری و نمائشی اعمال خیر سے آخرت میں فائدے کی امید رکھتے ہوں ان کی حقیقت سراب سے زیادہ نہیں ہے۔ ریگستان میں چمکتی ہوئی ریت کو دور سے دیکھ کر جس طرح پیاسا یہ سمجھتا ہے کہ پانی کا ایک تالاب موجیں مار رہا ہے اور منہ اٹھائے اس کی طرف پیاس بجھانے کی امید لیے ہوئے دوڑتا چلا جاتا ہے ،اسی طرح تم ان اعمال کے جھوٹے بھروسے پر موت کی منزل کا سفر طے کرتے چلے جا رہے ہو۔ مگر جس طرح سراب کی طرف دوڑنے والا جب اس جگہ پہنچتا ہے جہاں اسے تالاب نظر آ رہا تھا تو کچھ نہیں پاتا، اسی طرح جب تم منزل موت میں داخل ہو جاؤ گے تو تمہیں پتہ چل جائے گا کہ یہاں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے جس کا تم کوئی فائدہ اٹھا سکو ، بلکہ اس کے برعکس اللہ تمہارے کفر و نفاق کا ، اور ان بد اعمالیوں کا جو تم ان نمائشی نیکیوں کے ساتھ کر رہے تھے۔ حساب لینے اور پورا پورا بدلہ دینے کے لیے موجود ہے۔

72. اس مثال میں تمام کفار و منافقین کی حالت بیان کی گئی ہے جن میں نمائشی نیکیاں کرنے والے بھی شامل ہیں۔ ان سب کے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی قطعی اور کامل جہالت کی حالت میں بسر کر رہے ہیں ، خواہ وہ دنیا کی اصطلاحوں میں علامہ دہر اور علوم و فنون کے استاذ الاساتذہ ہی کیوں نہ ہوں۔ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی جگہ پھنسا ہوا ہو جہاں مکمل تاریکی ہو، روشنی کی ایک کرن تک نہ پہنچ سکتی ہو۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایٹم بم اور ہائڈروجن بم اور آواز سے تیز رفتار طیارے ، اور چاند تک پہنچنے والی ہوائیاں بنا لینے کا نام علم ہے۔ ان کے نزدیک معاشیات اور مالیات اور قانون اور فلسفے میں مہارت کا نام علم ہے۔ مگر حقیقی علم ایک اور چیز ہے ، اور اس کی ان کو ہوا تک نہیں لگی ہے۔ اس علم کے اعتبار سے وہ جاہل محض ہیں ، اور ایک ان پڑھ دیہاتی ذی علم ہے اگر وہ معرفت حق سے بہرہ مند ہو۔

73. یہاں پہنچ کر وہ اصل مدعا کھول دیا گیا ہے جس کی تمہید : اَللہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کے مضمون سے اٹھائی گئی تھی۔ جب کائنات میں کوئی نور در حقیقت اللہ کے نور کے سوا نہیں ہے ، اور سارا ظہور حقائق اسی نور کی بدولت ہو رہا ہے ، تو جو شخص اللہ سے نور نہ پائے وہ اگر کامل تاریکی میں مبتلا نہ ہو گا تو اور کیا ہو گا۔ کہیں اور تو روشنی موجود ہی نہیں ہے کہ اس سے ایک کرن بھی وہ پا سکے۔