Tafheem ul Quran

Surah 24 An-Nur, Ayat 41-50

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُسَبِّحُ لَهٗ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَالطَّيۡرُ صٰٓفّٰتٍ​ؕ كُلٌّ قَدۡ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَتَسۡبِيۡحَهٗ​ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِمَا يَفۡعَلُوۡنَ‏ ﴿24:41﴾ وَلِلّٰهِ مُلۡكُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ​ۚ وَاِلَى اللّٰهِ الۡمَصِيۡرُ‏  ﴿24:42﴾ اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُزۡجِىۡ سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيۡنَهٗ ثُمَّ يَجۡعَلُهٗ رُكَامًا فَتَرَى الۡوَدۡقَ يَخۡرُجُ مِنۡ خِلٰلِهٖ​ۚ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ جِبَالٍ فِيۡهَا مِنۡۢ بَرَدٍ فَيُـصِيۡبُ بِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ وَ يَصۡرِفُهٗ عَنۡ مَّنۡ يَّشَآءُ​ ؕ يَكَادُ سَنَا بَرۡقِهٖ يَذۡهَبُ بِالۡاَبۡصَارِؕ‏  ﴿24:43﴾ يُقَلِّبُ اللّٰهُ الَّيۡلَ وَالنَّهَارَ​ ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَعِبۡرَةً لِّاُولِى الۡاَبۡصَارِ‏ ﴿24:44﴾ وَاللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَآبَّةٍ مِّنۡ مَّآءٍ ​ۚفَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّمۡشِىۡ عَلٰى بَطۡنِهٖ​ۚ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّمۡشِىۡ عَلٰى رِجۡلَيۡنِ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّمۡشِىۡ عَلٰٓى اَرۡبَعٍ​ؕ يَخۡلُقُ اللّٰهُ مَا يَشَآءُ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿24:45﴾ لَـقَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ​ؕ وَ اللّٰهُ يَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ‏ ﴿24:46﴾ وَيَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالرَّسُوۡلِ وَاَطَعۡنَا ثُمَّ يَتَوَلّٰى فَرِيۡقٌ مِّنۡهُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِكَ​ؕ وَمَاۤ اُولٰٓـئِكَ بِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏  ﴿24:47﴾ وَاِذَا دُعُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ لِيَحۡكُمَ بَيۡنَهُمۡ اِذَا فَرِيۡقٌ مِّنۡهُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ‏ ﴿24:48﴾ وَاِنۡ يَّكُنۡ لَّهُمُ الۡحَـقُّ يَاۡتُوۡۤا اِلَيۡهِ مُذۡعِنِيۡنَؕ‏ ﴿24:49﴾ اَفِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌ اَمِ ارۡتَابُوۡۤا اَمۡ يَخَافُوۡنَ اَنۡ يَّحِيۡفَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡ وَرَسُوۡلُهٗ​ؕ بَلۡ اُولٰٓـئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ‏ ﴿24:50﴾

41 - 74 کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ پرندے جو پر پھیلائے اُڑ رہے ہیں؟ ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے، اور یہ سب جو کچھ کرتے ہیں اللہ اس سے با خبر رہتا ہے۔ 42 - آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔ 43 - کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے، پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے ، پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف ابر بنا دیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے خول میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں۔ اور وہ آسمان سے ، اُن پہاڑوں کی بدولت جو اس میں  بلند ہیں، 75 اولے برساتا ہے، پھر جسے چاہتا ہے ان کا نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے۔ اُس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کیے دیتی ہے۔ 44 - رات اور دن کا اُلٹ پھیر وہی کر رہا ہے ۔ اِس میں ایک سبق ہے آنکھوں والوں کے لیے۔ 45 - اور اللہ نے ہر جاندار ایک طرح کے پانی سے پیدا کیا، کوئی پیٹ کے بل چل رہا ہے تو کوئی دو ٹانگوں پر اور کوئی چار ٹانگوں پر جو کچھ وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ 46 - ہم نے صاف صاف حقیقت بتانے والی آیات نازل کر دی ہیں، آگے صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت اللہ ہی جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ 47 - یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ اور رسُولؐ پر اور ہم نے اطاعت قبول کی، مگر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ (اطاعت سے)منہ موڑ جاتا ہے۔ ایسے لوگ ہرگز مومن نہیں ہیں۔ 76 48 - جب ان کو بُلایا جاتا ہے اللہ اور رسُول کی طرف، تاکہ رسُول ان کے آپس کے مقدمے کا فیصلہ کرے 77 تو ان میں سے ایک فریق کَترا جاتا ہے۔ 78 49 - البتہ اگر حق ان کی موافقت میں ہو تو رسُول کے پاس بڑے اطاعت کیش بن کر آجاتے ہیں۔ 79 50 - کیا اِن کے دلوں کو (منافقت کا )روگ لگا ہوا ہے؟ یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں ؟ یا ان کو یہ خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسُول ان پر ظلم کرے گا؟ اصل بات یہ ہے کہ ظالم تو یہ لوگ خود ہیں۔ 80   ؏ ٦


Notes

74. اوپر ذکر آ چکا ہے کہ اللہ ساری کائنات کا نور ہے مگر اس نور کے ادراک کی توفیق صرف صالح اہل ایمان ہی کو نصیب ہوتی ہے ، باقی سب لوگ اس نور کامل و شامل کے محیط ہوتے ہوئے بھی اندھوں کیطرح تاریکی میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ اب اس نور کی طرف رہنمائی کرنے والے بے شمار نشانات میں سے صرف چند کو بطور نمونہ پیش کیا جا رہا ہے کہ دل کی آنکھیں کھول کر کوئی انہیں دیکھے تو ہر وقت ہر طرف اللہ کو کام کرتے دیکھ سکتا ہے۔ مگر جو دل کے اندھے ہیں وہ اپنے سر کے دیدے پھاڑ پھاڑ کر بھی دیکھتے ہیں تو انہیں بیولوجی اور زولوجی اور طرح طرح کی دوسری لوجیاں تو اچھی خاصی کام کرتی نظر آتی ہیں مگر اللہ کہیں کام کرتا نظر نہیں آتا۔

75. اس سے مراد سردی سے جمے ہوئے بادل بھی ہو سکتے ہیں جنہیں مجازاً آسمان کے پہاڑ کہا گیا ہو۔ اور زمین کے پہاڑ بھی ہو سکتے ہیں جو آسمان میں بلند ہیں ، جن کی چوٹیوں پر جمی ہوئی برف کے اثر سے بسا اوقات ہوا اتنی سرد ہو جاتی ہے کہ بادلوں میں انجماد پیدا ہونے لگتا ہے اور اولوں کی شکل میں بارش ہونے لگتی ہے۔

76. یعنی اطاعت سے رو گردانی ان کے دعوائے ایمان کی خود تردید کر دیتی ہے ، اور اس حرکت سے یہ بات کھل کھل جاتی ہے کہ انہوں نے جھوٹ کہا جب کہا کہ ہم ایمان لائے اور ہم نے اطاعت قبول کی۔

77. یہ الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ رسول کا فیصلہ اللہ کا فیصلہ ہے اور اس کا حکم اللہ کا حکم ہے۔ رسول کی طرف بلایا جانا صرف رسول ہی کی طرف بلایا جانا نہیں بلکہ اللہ اور رسول دونوں کی طرف بلایا جانا ہے۔ نیز اس آیت اور اوپر والی آیت سے یہ بات بلا کسی اشتباہ کے بالکل واضح ہو جاتی ہے اللہ اور رسول کی اطاعت کے بغیر ایمان کا دعویٰ بے معنی ہے اور اطاعت خدا و رسول کا کوئی مطلب اس کے سوا نہیں ہے کہ مسلمان بحیثیت فرد اور بحیثیت قوم اس قانون کے آگے جھک جائیں جو اللہ اور اس کے رسول نے ان کو دیا ہے۔ یہ طرز عمل اگر وہ اختیار نہیں کرتے تو ان کا دعویٰ ایمان ایک منافقانہ دعویٰ ہے۔ (تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نساء آیات 59۔ 61۔ مع حواشی 89 تا 92 )۔

78. واضح رہے کہ یہ معاملہ صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی ہی کے لیے نہ تھا ، بلکہ آپ کے بعد جو بھی اسلامی حکومت کے منصب قضا پر ہو اور کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کے مطابق فیصلے کرے اس کی عدالت کا سمن در اصل اللہ اور رسول کی عدالت کا سمن ہے ، اور اس سے منہ موڑنے والا در حقیقت اس سے نہیں بلکہ اللہ اور رسول سے منہ موڑنے والا ہے۔ اس مضمون کی یہ تشریح خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک مرسل حدیث میں مروی ہے جسے حسن بصری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ : من دُعِیَ الیٰ حاکم من حکام المسلمین فلم یجب فھو ظالم لا حق لہ ’’ جو شخص مسلمانوں کے حکام عدالت میں سے کسی حاکم کی طرف بلایا جائے اور وہ حاضر نہ ہو تو وہ ظالم ہے۔ اس کا کوئی حق نہیں ہے ‘‘ (احکام القرآن جصاص ج 3 ، ص 405 )۔ بالفاظ دیگر ایسا شخص سزا کا بھی مستحق ہے ، اور مزید براں اس کا بھی مستحق ہے کہ اسے برسر باطل فرض کر کے اس کے خلاف یک طرفہ فیصلہ دے دیا جائے۔

79. یہ آیت اس حقیقت کو صاف صاف کھول کر بیان کر رہی ہے کہ جو شخص شریعت کی مفید مطلب باتوں کو خوشی سے لپک کر لے لے ، مگر جو کچھ خدا کی شریعت میں اس کی اغراض و خواہشات کے خلاف ہو اسے رد کر دے ، اور اس کے مقابلے میں دنیا کے دوسرے قوانین کو ترجیح دے وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے۔ اس کا دعوائے ایمان جھوٹا ہے ، کیونکہ وہ ایمان خدا اور رسول پر نہیں ، اپنی اغراض اور خواہشات پر رکھتا ہے۔ اس رویے کے ساتھ خدا کی شریعت کے کسی جز کو اگر وہ مان بھی رہا ہے تو خدا کی نگاہ میں اس طرح کے ماننے کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔

80. یعنی اس طرز عمل کی تین ہی وجہیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی سرے سے ایمان ہی نہ لایا ہو اور منافقانہ طریقے پر محض دھوکا دینے اور مسلم معاشرے میں شرکت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے مسلمان ہو گیا ہو۔ دوسرے یہ کہ ایمان لے آنے کے باوجود اسے اس امر میں ابھی تک شک ہو کہ رسول خدا کا رسول ہے یا نہیں ، اور قرآن خدا کی کتاب ہے یا نہیں ، آخرت واقعی آنے والی ہے بھی یا یہ محض ایک افسانہ تراشیدہ ہے ،بلکہ خدا بھی حقیقت میں موجود ہے یا یہ بھی ایک خیال ہے جو کسی مصلحت سے گھڑ لیا گیا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ خدا کو خدا اور رسول کو رسول مان کر بھی ان سے ظلم کا اندیشہ رکھتا ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ خدا کی کتاب نے فلاں حکم دے کر تو ہمیں مصیبت میں ڈال دیا اور خدا کے رسول کا فلاں ارشاد یا فلاں طریقہ تو ہمارے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو ایسے لوگوں کے ظالم ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اس طرح کے خیالات رکھ کر جو شخص مسلمانوں میں شامل ہوتا ہے ، ایمان کا دعویٰ کرتا ہے ، اور مسلم معاشرے کا ایک رکن بن کر مختلف قسم کے ناجائز فائدے اس معاشرے سے حاصل کرتا ہے ، وہ بہت بڑا دغا باز ، خائن اور جعل ساز ہے۔ وہ اپنے نفس پر بھی ظلم کرتا ہے کہ اسے شب و روز کے جھوٹ سے ذلیل ترین خصائل کا پیکر بناتا چلا جاتا ہے۔ اور ان مسلمانوں پر بھی ظلم کرتا ہے جو اس کے ظاہری کلمہ شہادت پر اعتماد کر کے اسے اپنی ملت کا ایک جز مان لیتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ طرح طرح کے معاشرتی، تمدنی، سیاسی اور اخلاقی تعلقات قائم کر لیتے ہیں۔