Tafheem ul Quran

Surah 24 An-Nur, Ayat 58-61

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لِيَسۡتَـاْذِنۡكُمُ الَّذِيۡنَ مَلَكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ وَالَّذِيۡنَ لَمۡ يَـبۡلُغُوا الۡحُـلُمَ مِنۡكُمۡ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ​ؕ مِنۡ قَبۡلِ صَلٰوةِ الۡفَجۡرِ وَحِيۡنَ تَضَعُوۡنَ ثِيَابَكُمۡ مِّنَ الظَّهِيۡرَةِ وَمِنۡۢ بَعۡدِ صَلٰوةِ الۡعِشَآءِ ​ؕ  ثَلٰثُ عَوۡرٰتٍ لَّـكُمۡ​ ؕ لَـيۡسَ عَلَيۡكُمۡ وَ لَا عَلَيۡهِمۡ جُنَاحٌۢ بَعۡدَهُنَّ​ ؕ طَوّٰفُوۡنَ عَلَيۡكُمۡ بَعۡضُكُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ​ ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ​ ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ‏  ﴿24:58﴾ وَاِذَا بَلَغَ الۡاَطۡفَالُ مِنۡكُمُ الۡحُـلُمَ فَلۡيَسۡتَـاْذِنُوۡا كَمَا اسۡتَـاْذَنَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ​ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمۡ اٰيٰتِهٖ​ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿24:59﴾ وَالۡـقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ الّٰتِىۡ لَا يَرۡجُوۡنَ نِكَاحًا فَلَيۡسَ عَلَيۡهِنَّ جُنَاحٌ اَنۡ يَّضَعۡنَ ثِيَابَهُنَّ غَيۡرَ مُتَبَـرِّجٰتٍ ۭ بِزِيۡنَةٍ​ ؕ وَاَنۡ يَّسۡتَعۡفِفۡنَ خَيۡرٌ لَّهُنَّ​ ؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ‏ ﴿24:60﴾ لَـيۡسَ عَلَى الۡاَعۡمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الۡاَعۡرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الۡمَرِيۡضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلٰٓى اَنۡفُسِكُمۡ اَنۡ تَاۡكُلُوۡا مِنۡۢ بُيُوۡتِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اٰبَآئِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اُمَّهٰتِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اِخۡوَانِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اَخَوٰتِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اَعۡمَامِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ عَمّٰتِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اَخۡوَالِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ خٰلٰتِكُمۡ اَوۡ مَا مَلَكۡتُمۡ مَّفَاتِحَهٗۤ اَوۡ صَدِيۡقِكُمۡ​ؕ لَـيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَاۡكُلُوۡا جَمِيۡعًا اَوۡ اَشۡتَاتًا​ ؕ فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُيُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰٓى اَنۡفُسِكُمۡ تَحِيَّةً مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَيِّبَةً​  ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ لَعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿24:61﴾

58 - 85 اے لوگو جو ایمان لائے ہو، لازم ہے کہ تمہارے مملوک 86 اور تمہارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں 87 ، تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آیا کریں:صبح کی نماز سے پہلے، اور دوپہر کو جبکہ تم کپڑے اُتار کر رکھ دیتے ہو، اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین وقت تمہارے لیے پردے کے وقت ہیں۔ 88 اِن کے بعد وہ بلا اجازت آئیں تو  نہ تم  پر کوئی گناہ ہے نہ اُن پر، 89 تمہیں ایک دُوسرے کے پاس بار بار آنا ہی ہوتا ہے۔ 90 اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنے ارشادات کی توضیح کرتا ہے،  اور وہ علیم و حکیم ہے۔ 59 - اور جب تمہارے بچے عقل کی حد کو پہنچ جائیں 91 تو چاہیے کہ اُسی طرح اجازت لیکر آیا کریں جس طرح اُن کے بڑے اجازت لیتے رہے ہیں۔ اِس طرح اللہ اپنی آیات تمہارے سامنے کھولتا ہے، اور وہ علیم و حکیم ہے۔ 60 - اور جو عورتیں جوانی سے گزری بیٹھی ہوں 92 ، نکاح کی اُمیدوار نہ ہوں، وہ اگر اپنی چادریں اُتار کر رکھ دیں 93 تو اُن پر کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں۔ 94 تاہم وہ بھی حیاداری ہی برتیں تو اُن کے حق میں اچھا ہے، اور اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ 61 - کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا ، یا لنگڑا، یا مریض(کسی کے گھر سے کھا لے)اور نہ تمہارے اُوپر اِس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھاوٴ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے ، یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے ، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچاوٴں کے گھروں سے، یا اپنی پھُوپھیوں کے گھروں سے ، یا اپنے مامووٴں کے گھروں سے، یا اپنی خالاوٴں کے گھروں سے، یا اُن گھروں سے جن کی کُنجیاں تمہاری سُپردگی میں ہوں، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے۔ 95 اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھاوٴ یا الگ الگ۔ 96 البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دُعائے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فرمائی ہوئی، بڑی با برکت اور پاکیزہ۔ اِس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے آیات بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ تم سمجھ بُوجھ سے کام لو گے۔  ؏ ۸


Notes

85. یہاں سے پھر احکام معاشرت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ بعید نہیں کہ سورہ نور کا یہ حصہ اوپر کی تقریر کے کچھ مدت بعد نازل ہوا ہو۔

86. جمہور مفسرین و فقہاء کے نزدیک اس سے مراد لونڈیاں اور غلام دونوں ہیں ، کیونکہ لفظ عام استعمال کیا گیا ہے۔ مگر ابن عمر اور مجاہد اس آیت میں مملوکوں سے مراد صرف غلام لیتے ہیں اور لونڈیوں کو اس سے مستثنیٰ کرتے ہیں۔ حالانکہ آگے جو حکم بیان کیا گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اس تخصیص کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ تخلیہ کے اوقات میں جس طرح خود اپنے بچوں کا اچانک آ جانا مناسب نہیں اسی طرح خادمہ کا بھی آ جانا غیر مناسب ہے۔

یہ امر متفق علیہ ہے کہ اس آیت کا حکم بالغ و نا بالغ دونوں قسم کے مملوکوں کے لیے عام ہے۔

87. دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بالغوں کا سا خواب دیکھنے کی عمر کو نہیں پہنچے ہیں۔ اسی سے فقہاء نے لڑکوں کے معاملے میں احتلام کو بلوغ کا آغاز مانا ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے۔ لیکن جو ترجمہ ہم نے متن میں اختیار کیا ہے وہ اس بنا پر قابل ترجیح ہے کہ یہ حکم لڑکوں اور لڑکیوں ، دونوں کے لیے ہے ، اور احتلام کو علامت بلوغ قرار دینے کے بعد حکم صرف لڑکوں کے لیے خاص ہو جاتا ہے ، کیونکہ لڑکی کے معاملہ میں ایام ماہواری کا آغاز علامت بلوغ ہے نہ کہ احتلام۔ لہٰذا ہمارے نزدیک حکم کا منشا یہ ہے کہ جب تک گھر کے بچے اس عمر کو نہ پہنچیں جس میں ان کے اندر صنفی شعور بیدار ہوا کرتا ہے ، اور اس قاعدے کی پابندی کریں ، اور جب اس عمر کو پہنچ جائیں تو پھر ان کے لیے وہ حکم ہے جو آگے آرہا ہے۔

88. اصل میں لفظ عورات استعمال ہوا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ ’’ یہ تین وقت تمہارے لیے عورات ہیں ‘‘۔ عورت اردو میں تو صنف اُناث کے لیے بولا جاتا ہے مگر عربی میں اس کے معنی خلل اور خطرے کی جگہ کے ہیں ، اور اس چیز کے لیے بھی بولا جاتا ہے جس کا کھل جانا آدمی کے لیے باعث شرم ہو، یا جس کا ظاہر ہو جانا اس کو ناگوار ہو، نیز اس معنی میں بھی یہ مستعمل ہے کہ کوئی چیز غیر محفوظ ہو۔ یہ سب معنی باہم قریبی مناسبت رکھتے ہیں اور آیت کے مفہوم میں کسی نہ کسی حد تک سبھی شامل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان اوقات میں تم لوگ تنہا، یا اپنی بیویوں کے ساتھ ایسی حالتوں میں ہوتے ہو جن میں گھر کے بچوں اور خادموں کا اچانک تمہارے پاس آ جانا مناسب نہیں ہے ، لہٰذا ان کو یہ ہدایت کرو کہ ان تین وقتوں میں جب وہ تمہاری خلوت کی جگہ آنے لگیں تو پہلے اجازت لے لیا کریں۔

89. یعنی ان تین وقتوں کے سوا دوسرے اوقات میں نا بالغ بچے اور گھر کے مملوک ہر وقت عورتوں اور مردوں کے پاس ان کے کمرے میں یا ان کے تخلیے کی جگہ میں بلا اجازت آ سکتے ہیں۔ اس صورت میں اگر تم کسی نا مناسب حالت میں ہو اور وہ بلا اجازت آ جائیں تو تمہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنے کا حق نہیں ہے ، کیونکہ پھر یہ تمہاری اپنی حماقت ہو گی کہ کام کاج کے اوقات میں اپنے آپ کو ایسی نامناسب حالت میں رکھو۔ البتہ اگر تخلیے کے مذکورۂ بالا تین اوقات میں وہ بلا اجازت آ جائیں ، تو وہ قصور وار ہیں اگر تمہاری تربیت و تعلیم کے باوجود یہ حرکت کریں ، ورنہ تم خود گناہ گار ہو اگر تم نے اپنے بچوں اور مملوکوں کو یہ تہذیب نہیں سکھائی۔

90. یہ وجہ ہے اس اجازت عام کی جو تین اوقات مذکورہ کے سوا دوسرے تمام اوقات میں بچوں اور مملوکوں کو بلا اجازت آنے کے لیے دی گئی ہے۔ اس سے اصول فقہ کے اس مسئلے پر روشنی پڑتی ہے کہ شریعت کے احکام مصلحت پر مبنی ہیں ، اور ہر حکم کی کوئی نہ کوئی علت ضرور ہے ، خواہ وہ بیان کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو۔

91. یعنی بالغ ہو جائیں۔ جیسا کہ اوپر حاشیہ نمبر 87 میں بیان کیا جا چکا ہے لڑکوں کے معاملے میں احتلام اور لڑکیوں کے معاملے میں ایام ماہواری کا آغاز علامت بلوغ ہے۔ لیکن جو لڑکے اور لڑکیاں کسی وجہ سے دیر تک ان جسمانی تغیرات سے خالی رہ جائیں ان کے معاملہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شافعی ، امام ابویوسف ، امام محمد، اور امام احمد کے نزدیک اس صورت میں 15 برس کے لڑکے اور لڑکی کو بالغ سمجھا جائے گا، اور امام ابو حنیفہ کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے۔ لیکن امام اعظم کا مشہور قول یہ ہے کہ اس صورت میں 17 برس کی لڑکی اور 18 برس کے لڑکے کو بالغ قرار دیا جائے گا۔ یہ دونوں قول کسی نص پر نہیں بلکہ فقیہانہ اجتہاد پر مبنی ہیں ، لہٰذا ضروری نہیں ہے کہ تمام دنیا میں ہمیشہ 15 یا 18 برس کی عمر ہی کو غیر محتلم لڑکوں اور غیر حائضہ لڑکیوں کے معاملے میں حد بلوغ مانا جائے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں ، اور مختلف زمانوں میں جسمانی نشو نما کے حالات مختلف ہوا کرتے ہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ عموماً کسی ملک میں جن عمروں کے لڑکوں اور لڑکیوں کو احتلام اور ایام ماہواری ہونے شروع ہوتے ہوں ان کا اوسط فرق نکال لیا جائے ، اور پھر جن لڑکوں اور لڑکیوں میں کسی غیر معمولی وجہ سے یہ علامات اپنے مُعتاد وقت پر نہ ظاہر ہوں ان کے لیے زیادہ سے زیادہ معتاد عمر پر اس اوسط کا اضافہ کر کے اسے بلوغ کی عمر قرار دے دیا جائے۔ مثلاً کسی ملک میں بالعموم کم سے کم 12 اور زیادہ سے زیادہ 15 برس کے لڑکے کو احتلام ہوا کرتا ہو، تو اوسط فرق ڈیڑھ سال ہو گا، اور غیر معمولی قسم کے لڑکوں کے یے ہم ساڑھے سولہ برس کی عمر کو سن بلوغ قرار دے سکیں گے۔ اسی قاعدے پر مختلف ممالک کے اہل قانون اپنے ہاں کے حالات کا لحاظ کرتے ہوئے ایک حد مقرر کر سکتے ہیں۔

15 برس کی حد کے حق میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے ، اور وہ ابن عمر کی یہ روایت ہے کہ میں 14 سال کا تھا جب غزوۂ احد موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہو ا اور آپ نے مجھے شریک جنگ ہونے کی اجازت نہ دی، پھر غزوۂ خندق کے موقع پر ، جبکہ میں 15 سال کا تھا ، مجھے دوبارہ پیش کیا گیا اور آپ نے مجھ کو اجازت دے دی (صحاح ستہ و مسند احمد)۔ لیکن یہ روایت دو وجوہ سے قابل استدلال نہیں ہے۔ اول یہ کہ غزوہ احد شوال 3 ھ کا واقعہ ہے اور غزوہ خندق بقول محمد بن اسحاق شوال 5 ھ میں اور بقول ابن سعد ذی القعدہ 5 میں پیش آیا۔ دونوں واقعات کے درمیان پورے دو سال یا اس سے زیادہ کا فرق ہے۔ اب اگر غزوہ احد کے زمانے میں ابن عمر 14 سال کے تھے تو کس طرح ممکن ہے کہ غزوہ خندق کے زمانے میں وہ صرف 15 سال کے ہوں ؟ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے 12 سال 11 مہینے کی عمر کو 14 سال، اور 15 برس 11 مہینے کی عمر کا 15 سال کہ ہ دیا ہو۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لڑائی کے لیے بالغ ہونا اور چیز ہے اور معاشرتی معاملات میں قانوناً نا بالغ ہونا اور چیز۔ ان دونوں میں کوئی لازمی تعلق نہیں ہے کہ ایک کو دوسرے کے لیے دلیل بنایا جا سکتے۔ لہٰذا صحیح یہ ہے کہ غیر محتلم لڑکے کے لیے 15 برس کی عمر مقرر کرنا ایک قیاسی و اجتہادی حکم ہے ، کوئی منصوص حکم نہیں ہے۔

92. اصل میں لفظ قواعد من النسآء کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، یعنی ’’عورتوں میں سے جو بیٹھ چکی ہوں ‘‘ یا ’’بیٹھی ہوئی عورتیں ‘‘۔ اس سے مراد ہے سن یاس، یعنی عورت کا اس عمر کو پہنچ جانا جس میں وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ رہے ، اس کی اپنی خواہشات بھی مر چکی ہوں اس کو دیکھ کر مردوں میں بھی کوئی صنفی جذبہ نہ پیدا ہو سکتا ہو۔ اسی معنی کی طرف بعد کا فقرہ اشارہ کر رہا ہے۔

93. اصل الفاظ ہیں یَضَعْنَ ثَیَابَھُنَّ ، ’’ اپنے کپڑے اتار دیں ‘‘۔ مگر ظاہر ہے کہ اس سے مراد سارے کپڑے اتار کر برہنہ ہو جانا تو نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے تمام فقہاء اور مفسرین نے بالاتفاق اس سے مراد وہ چادریں لی ہیں جن سے زینت کو چھپانے کا حکم سور احزاب کی آیت یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْھِنَّ میں دیا گیا تھا۔

94. اصل الفاظ ہیں غَیرَمُتَبَرِّ جٰتٍ م بِزِیْنَۃٍ ، ’’ زینت کے ساتھ تَبرُّج کرنے والی نہ ہوں ‘‘۔ تَبَرُّج کے معنی ہیں اظہار و نمائش کے۔ بارج اس کھلی کشتی یا جہاز کو کہتے ہیں جس پر چھت نہ ہو۔ اسی معنی میں عورت کے لیے یہ لفظ اس وقت بولتے ہیں جب کہ وہ مردوں کے سامنے اپنے حسن اور اپنی آرائش کا اظہار کرے۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ چادر اتار دینے کی یہ اجازت ان بوڑھی عورتوں کو دی جا رہی ہے جن کے اندر بن ٹھن کر رہنے کا شوق باقی نہ رہا ہو اور جن کے صنفی جذبات سرد پڑ چکے ہوں۔ لیکن اگر اس آگ میں کوئی چنگاری ابھی باقی ہو اور وہ نمائش زینت کی شکل اختیار کر رہی ہو تو پھر اس اجازت سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔

95. اس آیت کو سمجھنے کے لیے تین باتوں کا سمجھ لینا ضروری ہے۔ اول یہ کہ آیت کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ بیمار، لنگڑے ، اندھے اور اسی طرح دوسرے معذور لوگوں کے بارے میں ہے ، اور دوسرا عام لوگوں کے بارے میں۔ دوم یہ کہ قرآن کی اخلاقی تعلیمات سے اہل عرب کی ذہنیت میں جو زبردست انقلاب واقع ہوا تھا اس کی وجہ سے حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی تمیز کے معاملے میں ان کی حس انتہائی نازک ہو گئی تھی۔ ابن عباس کے بقول، اللہ تعالیٰ نے جب ان کو حکم دیا کہ لَا تَأ کُلُوْآ اَمْوَا لَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ (ایک دوسرے کے مال نا جائز طریقوں سے نہ کھاؤ) تو لوگ ایک دوسرے کے ہاں کھانا کھانے میں بھی سخت احتیاط برتنے لگے تھے ، حتیٰ کہ بالکل قانونی شرطوں کے مطابق صاحب خانہ کی دعوت و اجازت جب تک نہ ہو ، وہ سمجھتے تھے کہ کسی عزیز یا دوست کے ہاں کھانا بھی نا جائز ہے۔ سوم یہ کہ اس میں اپنے گھروں سے کھانے کا جو ذکر ہے وہ اجازت دینے کے لیے نہیں بلکہ یہ ذہن نشین کرنے کے لیے ہے کہ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ہاں کھانا بھی ایسا ہی ہے جیسے اپنے ہاں کھانا، ورنہ ظاہر ہے کہ اپنے گھر سے کھانے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہ تھی۔ ان تین باتوں کو سمجھ لینے کے بعد آیت کا یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ جہاں تک معذور آدمی کا تعلق ہے ، وہ اپنی بھوک رفع کرنے کے لیے ہر گھر اور ہر جگہ سے کھا سکتا ہے ، اس کی معذوری بجائے خود سارے معاشرے پر اس کا حق قائم کر دیتی ہے۔ اس لیے جہاں سے بھی اس کو کھانے کے لیے ملے وہ اس کے لیے جائز ہے۔ رہے عام آدمی ، تو ان کے لیے ان کے اپنے گھر اور ان لوگوں کے گھر جن کا ذکر کیا گیا ہے ، یکساں ہیں۔ ان میں سے کسی کے ہاں کھانے کے لیے اس طرح کی شرطوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ صاحب خانہ باقاعدہ اجازت دے تو کھائیں ورنہ خیانت ہو گی۔ آدمی اگر ان میں سے کسی کے ہاں جائے اور گھر کا مالک موجود نہ ہو اور اس کے بیوی بچے کھانے کو کچھ پیش کریں تو بے تکلف کھا یا جا سکتا ہے۔

جن رشتہ داروں کے نام یہاں لیے گئے ہیں ان میں اولاد کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ آدمی کی اولاد کا گھر اس کا اپنا ہی گھر ہے۔

دوستوں کے معاملے میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ان سے مراد بے تکلف اور جگری دوست ہیں جن کی غیر موجودگی میں اگر یار لوگ ان کا حلوا اُڑا جائیں تو نا گوار گزرنا تو درکنار انہیں اس پر الٹی خوشی ہو۔

96. قدیم زمانے کے اہل عرب میں بعض قبیلوں کی تہذیب یہ تھی کہ ہر ایک الگ الگ کھانا لے کر بیٹھے اور کھائے۔ وہ مل کر ایک ہی جگہ کھانا برا سمجھتے تھے ، جیسا کہ ہندوؤں کے ہاں آج بھی برا سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس بعض قبیلے تنہا کھانے کو برا جانتے تھے ، حتیٰ کہ فاقہ کر جاتے تھے اگر کوئی ساتھ کھانے والا نہ ہو۔ یہ آیت اسی طرح کی پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے ہے۔