Tafheem ul Quran

Surah 24 An-Nur, Ayat 62-64

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَاِذَا كَانُوۡا مَعَهٗ عَلٰٓى اَمۡرٍ جَامِعٍ لَّمۡ يَذۡهَبُوۡا حَتّٰى يَسۡتَاۡذِنُوۡهُ​ ؕ اِنَّ الَّذِيۡنَ يَسۡتَـاْذِنُوۡنَكَ اُولٰٓـئِكَ الَّذِيۡنَ يُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ​ ۚ فَاِذَا اسۡتَاْذَنُوۡكَ لِبَعۡضِ شَاۡنِهِمۡ فَاۡذَنۡ لِّمَنۡ شِئۡتَ مِنۡهُمۡ وَاسۡتَغۡفِرۡ لَهُمُ اللّٰهَ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿24:62﴾ لَا تَجۡعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَيۡنَكُمۡ كَدُعَآءِ بَعۡضِكُمۡ بَعۡضًا​ ؕ قَدۡ يَعۡلَمُ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ يَتَسَلَّلُوۡنَ مِنۡكُمۡ لِوَاذًا​ ۚ فَلۡيَحۡذَرِ الَّذِيۡنَ يُخَالِفُوۡنَ عَنۡ اَمۡرِهٖۤ اَنۡ تُصِيۡبَهُمۡ فِتۡنَةٌ اَوۡ يُصِيۡبَهُمۡ عَذَابٌ اَ لِيۡمٌ‏ ﴿24:63﴾ اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ​ؕ قَدۡ يَعۡلَمُ مَاۤ اَنۡـتُمۡ عَلَيۡهِؕ وَيَوۡمَ يُرۡجَعُوۡنَ اِلَيۡهِ فَيُنَـبِّـئُـهُمۡ بِمَا عَمِلُوۡا ​ؕ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ‏ ﴿24:64﴾

62 - 97 مومن تو اصل میں وہی ہیں جو اللہ اور اُس کے رسُولؐ کو دل سے مانیں اور جب کسی اجتماعی کام کے موقع پر رسُولؐ کے ساتھ ہوں تو اُس سے اجازت لیے بغیر نہ جائیں۔ 98 جو لوگ تم سے اجازت مانگتے ہیں وہی اللہ اور رسُولؐ کے ماننے والے ہیں، پس جب وہ اپنے کسی کام سے اجازت مانگیں 99 تو جسے تم چاہو اجازت دے دیا کرو 100 اور ایسے لوگوں کے حق میں اللہ سے دُعائے مغفرت کیا کرو، 101 اللہ یقیناً غفور و رحیم ہے۔ 63 - مسلمانو، اپنے درمیان رسُولؐ کے بُلانے کو آپس میں ایک دُوسرے کا سا بُلانا نہ سمجھ بیٹھو۔ 102 اللہ اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں ایسے ہیں کہ ایک دُوسرے کی آڑ لیتے ہوئے چُپکے سے سَٹک جاتے ہیں۔ 103 رسُولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں 104 یا ان پر دردناک عذاب نہ آجائے۔ 64 - خبردار رہو، آسمان و زمین جو کچھ  ہے اللہ کا ہے۔ تم جس روِش پر بھی ہو اللہ اُس کو جانتا ہے ۔ جس روز تم اُس کی طرف پلٹو گے وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کچھ کر کے آئے ہو۔ وہ ہر چیز کا عِلم رکھتا ہے۔  ؏ ۹


Notes

97. یہ آخری ہدایات ہیں جو مسلمانوں کی جماعت کانظم و ضبط پہلے سے زیادہ کَس دینے کے لیے دی جا رہی ہیں۔

98. یہی حکم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد آپ کے جانشینوں اور اسلامی نظام جماعت کے امراء کا بھی ہے۔ جب کسی اجتماعی مقصد کے لیے مسلمانوں کو جمع کیا جائے ، قطع نظر اس سے کہ جنگ کا موقع ہو یا حالت امن کا ، بہر حال ان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ امیر کی اجازت کے بغیر واپس چلے جائیں یا منتشر ہو جائیں۔

99. اس میں یہ تنبیہ ہے کہ کسی واقعی ضرورت کے بغیر اجازت طلب کرنا تو سرے سے ہی نا جائز ہے۔ جواز کا پہلو صرف اس صورت میں نکلتا ہے جبکہ جانے کے لیے کوئی حقیقی ضرورت لاحق ہو۔

100. یعنی ضرورت بیان کرنے پر بھی اجازت دینا یا نہ دینا رسول کی ، اور رسول کے بعد امیر جماعت کی مرضی پر موقوف ہے اگر وہ سمجھتا ہو کہ اجتماعی ضرورت اس شخص کی انفرادی ضرورت کی بہ نسبت زیادہ اہم ہے تو وہ پورا حق رکھتا ہے کہ اجازت نہ دے ، اور اس صورت میں ایک مومن کو اس سے کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔

101. اس میں پھر تنبیہ ہے کہ اجازت طلب کرنے میں اگر ذرا سی بہانہ بازی کا بھی دخل ہو، یا اجتماعی ضروریات پر انفرادی ضروریات کو مقدم رکھنے کا جذبہ کار فرما ہو تو یہ ایک گناہ ہے۔ لہٰذا رسول اور اس کے جانشین کو صرف اجازت دینے ہی پر اکتفا نہ کرنا چاہیے بلکہ جسے بھی اجازت دے ، ساتھ کے ساتھ یہ بھی کہہ دے کہ خدا تمہیں معاف کرے۔

102. اصل میں لفظ دُعَآء استعمال ہوا ہے جس کے معنی بُلانے کے بھی ہیں اور دعا کرنے اور پکارنے کے بھی۔ نیز دُعَآءَ الرَّسُوْلِ کے معنی رسول کا بلا نا یا دُعاء کرنا بھی ہو سکتا ہے اور رسول کو پکارنا بھی۔ ان مختلف معنوں کے لحاظ سے آیت کے تین مطلب ہو سکتے ہیں اور تینوں ہی صحیح و معقول ہیں :

اول یہ کہ ’’ رسول کے بُلانے کو عام آدمیوں میں سے کسی کے بلانے کی طرح نہ سمجھو‘‘ یعنی رسول کا بلاوا غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے۔ دوسرا کوئی بلائے اور تم لبیک نہ کہو تو تمہیں آزادی ہے ، لیکن رسول بلائے اور تم نہ جاؤ ، یا دل میں ذرہ برابر بھی تنگی محسوس کرو تو ایمان کا خطرہ ہے۔

دوم یہ کہ ’’ رسول کی دعا کو عام آدمیوں کی سی دعا نہ سمجھو‘‘ وہ تم سے خوش ہو کر دعا دیں تو تمہارے لیے اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں ، اور ناراض ہو کر بد دعا دے دیں تو تمہاری اس سے بڑھ کر کوئی بد نصیبی نہیں۔

سوم یہ کہ ’’ رسول کا پکارنا عام آدمیوں کے ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح نہ ہونا چاہیے ‘‘۔ یعنی تم عام آدمیوں کو جس طرح ان کے نام لے کر بآواز بلند پکارتے ہو اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نہ پکارا کرو۔ اس معاملے میں ان کا انتہائی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے ، کیونکہ ذرا سی بے ادبی بھی اللہ کے ہاں مواخذے سے نہ بچ سکے گی۔

یہ تینوں مطلب اگرچہ معنی کے لحاظ سے صحیح ہیں اور قرآن کے الفاظ تینوں کو شامل ہیں ، لیکن بعد کے مضمون سے پہلا مطلب ہی مناسبت رکھتا ہے۔

103. یہ منافقین کی ایک اور علامت بتائی گئی ہے کہ اسلام کی اجتماعی خدمات کے لیے جب بلایا جاتا ہے تو وہ آ تو جاتے ہیں ، کیونکہ مسلمانوں میں کسی نہ کسی وجہ سے شامل رہنا چاہتے ہیں ، لیکن یہ حاضری ان کو سخت نا گوار ہوتی ہے اور کسی نہ کسی طرح چھپ چھپا کر نکل بھاگتے ہیں۔

104. امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فتنے کا مطلب ’’ظالموں کا تسلط‘‘ لیا ہے۔ یعنی اگر مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام کی خلاف ورزی کریں گے تو ان پر جابر و ظالم حکمراں مسلط کر دیے جائیں گے۔ بہرحال فتنے کی یہ بھی ایک صورت ہو سکتی ہے اور اس کے سوا دوسری بے شمار صورتیں بھی ممکن ہیں۔ مثلاً آپس کے تفرقے اور خانہ جنگیاں ، اخلاقی زوال ، نظام جماعت کی پراگندگی ، داخلی انتشار ، سیاسی اور مادی طاقت کا ٹوٹ جانا، غیروں کا محکوم ہو جانا وغیرہ۔