Tafheem ul Quran

Surah 25 Al-Furqan, Ayat 1-9

تَبٰـرَكَ الَّذِىۡ نَزَّلَ الۡـفُرۡقَانَ عَلٰى عَبۡدِهٖ لِيَكُوۡنَ لِلۡعٰلَمِيۡنَ نَذِيۡرَا ۙ‏ ﴿25:1﴾ اۨلَّذِىۡ لَهٗ مُلۡكُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَلَمۡ يَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّلَمۡ يَكُنۡ لَّهٗ شَرِيۡكٌ فِى الۡمُلۡكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَىۡءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقۡدِيۡرًا‏  ﴿25:2﴾ وَاتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اٰلِهَةً لَّا يَخۡلُقُوۡنَ شَيۡـئًـا وَّهُمۡ يُخۡلَقُوۡنَ وَلَا يَمۡلِكُوۡنَ لِاَنۡفُسِهِمۡ ضَرًّا وَّلَا نَفۡعًا وَّلَا يَمۡلِكُوۡنَ مَوۡتًا وَّلَا حَيٰوةً وَّلَا نُشُوۡرًا‏ ﴿25:3﴾ وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفۡكٌ اۨفۡتَـرٰٮهُ وَاَعَانَهٗ عَلَيۡهِ قَوۡمٌ اٰخَرُوۡنَ​​ ۛۚ فَقَدۡ جَآءُوۡ ظُلۡمًا وَّزُوۡرًا ۛۚ‏ ﴿25:4﴾ وَقَالُوۡۤا اَسَاطِيۡرُ الۡاَوَّلِيۡنَ اكۡتَتَبَهَا فَهِىَ تُمۡلٰى عَلَيۡهِ بُكۡرَةً وَّاَصِيۡلًا‏ ﴿25:5﴾ قُلۡ اَنۡزَلَهُ الَّذِىۡ يَعۡلَمُ السِّرَّ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ​ؕ اِنَّهٗ كَانَ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا‏ ﴿25:6﴾ وَقَالُوۡا مَالِ هٰذَا الرَّسُوۡلِ يَاۡكُلُ الطَّعَامَ وَيَمۡشِىۡ فِى الۡاَسۡوَاقِ​ ؕ لَوۡلَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡهِ مَلَكٌ فَيَكُوۡنَ مَعَهٗ نَذِيۡرًا ۙ‏ ﴿25:7﴾ اَوۡ يُلۡقٰٓى اِلَيۡهِ كَنۡزٌ اَوۡ تَكُوۡنُ لَهٗ جَنَّةٌ يَّاۡكُلُ مِنۡهَا​ ؕ وَقَالَ الظّٰلِمُوۡنَ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا‏ ﴿25:8﴾ اُنْظُرۡ كَيۡفَ ضَرَبُوۡا لَـكَ الۡاَمۡثَالَ فَضَلُّوۡا فَلَا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَ سَبِيۡلاً‏ ﴿25:9﴾

1 - نہایت متبرک ہے 1 وہ جس نے یہ فرقان 2 اپنے بندے پر نازل کیا 3 تاکہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو 4 2 - ۔۔۔۔ وہ جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے 5 جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے 6 ، جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے 7 ، جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔ 8 3 - لوگوں نے اُسے چھوڑ کر ایسے معبُود بنا لیے جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں 9 ، جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، جو نہ مار سکتے ہیں نہ جِلا سکتے ہیں، نہ مَرے ہوئے کو پھر اُٹھا سکتے ہیں۔ 10 4 - جِن لوگوں نے نبی کی بات ماننے سے انکار کر دیا ہے  وہ کہتے ہیں کہ یہ فرقان ایک من گھڑت چیز ہے جسے اِس شخص نے آپ ہی گھڑ لیا ہے اور کچھ دُوسرے لوگوں نے اِس کام میں اس کی مدد کی ہے۔ بڑا ظلم 11 اور سخت جھُوٹ ہے جس پر یہ لوگ اُتر آئے ہیں۔ 5 - کہتے ہیں یہ پُرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اِسے صبح و شام سُنائی جاتی ہیں۔ 6 - اے محمدؐ ، ان سے کہو کہ ”اِسے نازل کیا ہے اُس نے جو زمین اور آسمانوں کا بھید جانتا ہے۔“ 12 حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔ 13 7 - کہتے ہیں ”یہ کیسا رسُول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے؟ 14 کیوں نہ اس کے پاس کوئی فرشتہ بھیجا گیا جو اس کے ساتھ رہتا اور (نہ ماننے والوں کو)دھمکاتا؟ 15 8 - یا اور کچھ نہیں تو اِس کے لیے کوئی خزانہ ہی اتار دیا جاتا، یااس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ (اطمینان کی )روزی حاصل کرتا۔ 16 “ اور ظالم کہتے ہیں” تم لوگ تو ایک سحر زدہ آدمی 17 کے پیچھے لگ گئے ہو۔“ 9 - دیکھو، کیسی کیسی عجیب حجتیں یہ لوگ تمہارے آگے پیش کر رہے ہیں، ایسے بہکے ہیں کہ کوئی ٹھکانے کی بات اِن کو نہیں سُوجھتی۔  18   ؏۱


Notes

1. اصل میں لفظ تَبَارَکَ استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم کسی ایک لفظ تو در کنار ایک فقرے میں بھی ادا ہونا مشکل ہے ۔ اس کا مادہ ب ر ک ہے جس سے دو مصدر بَرَکَۃ اور بُرُ و ک نکلے ہیں ۔ بَرَکۃ میں افزونی ، فراوانی ، کثرت اور زیادتی کا تصور ہے اور بُرُوک میں ثبات ، بقاء اور لزوم کا تصور ۔ پھر جب اس مصدر سے تَبَارَکَ کا صیغہ بنایا جاتا ہے تو باب تفاعُل کی خصوصیت، مبالغہ اور اظہار کمال، اس میں اور شامل ہو جاتی ہے اور اس کا مفہوم انتہائی فراوانی، بڑھتی اور چڑھتی افزونی، اور کمال درجے کی پائیداری ہو جاتا ہے ۔ یہ لفظ مختلف مواقع پر مختلف حیثیتوں سے کسی چیز کی فراوانی کے لیے ، یا اس کے ثبات و دوام کی کیفیت بیان کرنے کے لیے بولا جاتا ہے ۔ مثلاً کبھی اس سے مراد بلندی میں بہت بڑھ جانا ہوتا ہے ۔ جیسے کہتے ہیں تبارکت النخلۃ یعنی فلاں کھجور کا درخت بہت اونچا ہو گیا ۔ اِصْمَعِی کہتا ہے کہ ایک بدو ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ گیا اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا تَبَارَکْتُ عَلَیْکُمْ ۔ ’’ میاں تم سے اونچا ہو گیا ہوں ‘‘۔ کبھی اسے عظمت اور بزرگی میں بڑھ جانے کے لیے بولتے ہیں ۔ کبھی اس کو فیض رسانی اور خیر اور بھلائی میں بڑھے ہوئے ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ کبھی اس سے پاکیزگی و تقدس کا کمال مراد ہوتا ہے ۔ اور یہی کیفیت اس کے معنی ثبوت و لزوم کی بھی ہے ۔ موقع و محل اور سیاق و سباق بتا دیتا ہے کہ کس جگہ اس لفظ کا استعمال کس غرض کے لیے کیا گیا ہے ۔ یہاں جو مضمون آگے چل کر بیان ہو رہا ہے اس کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ کے لیے تَبَارَکَ ایک معنی میں نہیں ، بہت سے معنوں میں استعمال ہوا ہے :

1: بڑا محسن اور نہایت با خیر، اس لیے کہ اس نے اپنے بندے کو فرقان کی عظیم الشان نعمت سے نواز کر دنیا بھر کو خبردار کرنے کا انتظام فرمایا ۔

2 : نہایت بزرگ و با عظمت ، اس لیے کہ زمین و آسمان کی بادشاہی اسی کی ہے ۔

3 : نہایت مقدس و منزَّہ ، اس لیے کہ اس کی ذات ہر شائبۂ شرک سے پاک ہے ۔ نہ اس کا کوئی ہم جنس کہ ذات خداوندی میں اس کا نظیر و مثیل ہو، اور نہ اس کے لیے فنا و تغیر کہ اسے جا نشینی کے لیے بیٹے کی حاجت ہو۔

4 : نہایت بلند و برتر، اس لیے کہ بادشاہی ساری کی ساری اسی کی ہے اور کسی دوسرے کا یہ مرتبہ نہیں کہ اس کے اختیارات میں اس کا شریک ہو سکے ۔

5 : کمال قدرت کے اعتبار سے برتر ، اس لیے کہ وہ کائنات کی ہر چیز کو پیدا کرنے والا اور ہر شے کی تقدیر مقرر کرنے والا ہے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، المومنون، حاشیہ 14 ۔ الفرقان، حاشیہ 19)۔

2. یعنی قرآن مجید ۔فرقان مصدر ہے مادہ ف ر ق سے ، جس کے معنی ہیں دو چیزوں کو الگ کرنا، یا ایک ہی چیز کے اجزاء کا الگ الگ ہونا ۔ قرآن مجید کے لیے اس لفظ کا استعمال یا تو فارِق کے معنی میں ہوا ہے ، یا مفروق کے معنی میں یا پھر اس سے مقصود مبالغہ ہے ، یعنی فرق کرنے کے معاملے میں اس کا کمال اتنا بڑھا ہوا ہے کہ گویا وہ خود ہی فرق ہے ۔ اگر اسے پہلے اور تیسرے معنی میں لیا جائے تو اس کا صحیح ترجمہ کسوٹی، اور فیصلہ کن چیز ، اور معیارِ فیصلہ ( Criterion) کے ہوں گے ۔ اور اگر دوسرے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب الگ الگ اجزاء پر مشتمل ، اور الگ الگ اوقات میں آنے والے اجزاء پر ، مشتمل ، چیز کے ہوں گے ، قرآن مجید کو ان دونوں ہی اعتبارات سے ’’ الفرقان‘‘ کہا گیا ہے ۔

3. اصل میں لفظ نَزَّلَ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں بتدریج، تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کرنا ۔ اس تمہیدی مضمون کی مناسبت آگے چل کر آیت 32 (رکوع3) کے مطالعہ سے معلوم ہو گی جہاں کفار مکہ کے اس اعتراض پر گفتگو کی گئی ہے کہ ’’ یہ قرآن پورا کا پورا ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتار دیا گیا ‘‘؟

4. یعنی خبر دار کرنے والا ، متنبہ کرنے والا، غفلت اور گمراہی کے برے نتائج سے ڈرانے والا ۔ اس سے مراد فرقان بھی ہو سکتا ہے ، اور وہ ’’بندہ‘‘ بھی جس پر فرقان نازل کیا گیا۔ الفاظ ایسے جامع ہیں کہ دونوں ہی مراد ہو سکتے ہیں ، اور حقیقت کے اعتبار سے چونکہ دونوں ایک ہیں ، اور ایک ہی کام کے لیے بھیجے گئے ہیں ، اس لیے کہنا چاہیے کہ دونوں ہی مراد ہیں ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو، تو اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی دعوت اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کسی ایک ملک کے لیے نہیں ، پوری دنیا کے لیے ہے ، اور اپنے ہی زمانے کے لیے نہیں ، آنے والے تمام زمانوں کے لیے ہے ۔ یہ مضمون متعدد مقامات پر قرآن مجید میں بیان ہوا ہے ۔ مثلاً فرمایا : یٰٓاَ یُّھَالنَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً، ’’ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ‘‘ (الاعراف، آیت 158) ۔ وَاُوْ حِیَ اِلَیَّ ھٰذَالْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْم بَلَغَ ، ’’ میری طرف یہ قرآن بھیجا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے میں تم کو خبردار کروں اور جس جس کو بھی یہ پہنچے ‘‘ (الانعام آیت 19) وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَّ نَذِیْراً ، ’’ ہم نے تم کو سارے ہی انسانوں کے لیے بشارت دینے والا اور خبر دار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ‘‘ (سبا آیت 28) وَمَآ اَرْسَلْنٰکَاِالَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ، ’’ اور ہم نے تم کو تمام دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے ‘‘ (الانبیاء، آیت 107 ) اور اسی مضمون کو خوب کھول کھول کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے احادیث میں بار بار بیان فرمایا ہے کہ بُعثت الی الاحمر والا سود ، ’’ میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجا گیا ہوں ‘‘۔ اور کان النبی یبعث الیٰ قومہ خاصۃ و بعثت الی الناس عامۃ ، ’’ پہلے ایک نبی خاص طور پر اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا ، اور میں عام طور پر تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں ‘‘ (بخاری و مسلم) اور و ارسلت الی الخلق کافۃ و خُتِم َبی النبیون، ’’ میں ساری خلقت کی طرف بھیجا گیا ہوں اور ختم کر دیے گئے میری آمد پر انبیاء‘‘(مسلم) ۔

5. دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کے لیے ہے ‘‘ ، یعنی وہی اس کا حق دار ہے اور اسی کے لیے وہ مخصوص ہے، کسی دوسرے کو نہ اس کا حق پہنچتا ہے اور نہ کسی دوسرے کا اس میں کوئی حصہ ہے ۔

6. یعنی نہ تو کسی سے اس کا کوئی نسبی تعلق ہے ، اور نہ کسی کو اس نے اپنا متبنیٰ بنایا ہے ۔ کوئی ہستی کائنات میں ایسی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے نسلی تعلق یا تبنیت کے تعلق کی بنا پر اس کو معبودیت کا استحقاق پہنچتا ہو۔ اس کی ذات یکتائے محض ہے ، کوئی اس کا ہم جنس نہیں ، اور کوئی خدائی خاندان نہیں ہے کہ معاذ اللہ، ایک خدا سے کوئی نسل چلی ہو اور بہت سے خدا پیدا ہوتے چلے گئے ہوں ۔ اس لیے وہ تمام مشرکین سراسر جاہل و گمراہ ہیں جنہوں نے فرشتوں ، یا جنوں ، یا بعض انسانوں کو خدا کی اولاد سمجھا اور اس بنا پر انہیں دیوتا اور معبود قرار دے لیا ۔ اسی طرح وہ لوگ بھی نری جہالت و گمراہی میں مبتلا ہیں جنہوں نے نسلی تعلق کی بنا پر نہ سہی ، کسی خصوصیت کی بنا پر ہی سہی ، اپنی جگہ یہ سمجھ لیا کہ خداوند عالم نے کسی شخص کو اپنا بیٹا بنا لیا ہے ۔ ’’ بیٹا بنا لینے ‘‘ کے اس تصور کو جس پہلو سے بھی دیکھا جائے یہ سخت غیر معقول نظر آتا ہے، کجا کہ یہ ایک امر واقعہ ہو۔ جن لوگوں نے یہ تصور ایجاد یا اختیار کیا ان کے گھٹیا ذہن ذات الہٰی کی بر تری کا تصور کرنے سے عاجز تھے ۔ انہوں نے اس ذات بے ہمتا و بے نیاز کو انسانوں پر قیاس کیا جو یا تو تنہائی سے گھبرا کر کسی دوسرے کے بچے کو گود لے لیتے ہیں ، یا جذبات محبت کے وفور سے کسی کو بیٹا بنا لیتے ہیں ، یا متبنّیٰ بنانے کی اس لیے ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی تو ان کا وارث اور ان کے نام اور کام کو زندہ رکھنے والا ہو۔ یہی تین وجوہ ہیں جن کی بنا پر انسانی ذہن میں تَبْنِیت کا خیال پیدا ہوتا ہے ، اور ان میں سے جس وجہ کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جائے ، سخت جہالت اور گستاخی اور کم عقلی ہے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ۔ یونس ، حواشی 66 تا 68 ) ۔

7. اصل میں لفظ مُلک استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں بادشاہی ، اقتدار اعلیٰ، اور حاکمیت (Sovereignty) کے لیے بولا جاتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ساری کائنات کا مختار مطلق ہے اور فرمانروائی کے اختیارات میں ذرہ برابر بھی کسی کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ یہ چیز آپ سے آپ اس بات کو مستلزم ہے کہ پھر معبود بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہے ۔ اس لیے کہ انسان جس کو بھی معبود بناتا ہے یہ سمجھ کر بناتا ہے کہ اس کے پاس کوئی طاقت ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیں کسی قسم کا نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے اور ہماری قسمتوں پر اچھا یا برا اثر ڈال سکتا ہے ۔ بے زور اور بے اثر ہستیوں کو ملجا و ماویٰ بنانے کے لیے کوئی احمق سے احمق انسان بھی کبھی تیار نہیں ہو سکتا۔ اب اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ جل شانہ کے سوا اس کائنات میں کسی کے پاس بھی کوئی زور نہیں ہے ، تو پھر نہ کوئی گردن اس کے سوا کسی کے آگے اظہار عجز و نیاز کے لیے جھکے گی، نہ کوئی ہاتھ اس کے سوا کسی کے آگے نذر پیش کرنے کے لیے بڑھے گا ل، نہ کوئی زبان اس کے سوا کسی کی حمد کے ترانے گائے گی یا دعا و التجا کے لیے کھلے گی، اور نہ دنیا کے کسی نادان سے نادان آدمی سے بھی کبھی یہ حماقت سرزد ہو سکے گی کہ وہ اپنے حقیقی خدا کے سوا کسی اور کی طاعت و بندگی بجا لائے ، یا کسی کو بذات خود حکم چلانے کا حق دار مانے ۔ اس مضمون کو مزید تقویت اوپر کے اس فقرے سے پہنچتی ہے کہ ’’آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور اسی کے لیے ہے ‘‘ ۔

8. دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ ہر چیز کو ایک اندازۂ خاص پر رکھا ‘‘، ’’ یا ہر چیز کے لیے ٹھیک ٹھیک پیمانہ مقرر کیا‘‘۔ لیکن خواہ کوئی ترجمہ بھی کیا جائے ، بہر حال اس سے پورا مطلب ادا نہیں ہوتا۔ پورا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کہ کائنات کی ہر چیز کو وجود بخشا ہے ، بلکہ وہی ہے جس نے ایک ایک چیز کے لیے صورت، جسامت ، قوت و استعداد، اوصاف و خصائص ، کام اور کام کا طریق ، بقاء کی مدت، عروج و ارتقاء کی حد، اور دوسری وہ تمام تفصیلات مقرر کی ہیں جو اس چیز کی ذات سے متعلق ہیں ، اور پھر اسی نے عالم وجود میں وہ اسباب و وسائل اور مواقع پیدا کیے ہیں جن کی بدولت ہر چیز یہاں اپنے اپنے دائرے میں اپنے حصے کا کام کر رہی ہے ۔

اس ایک آیت میں توحید کی پوری تعلیم سمیٹ دی گئی ہے ۔ قرآن مجید کی جامع آیات میں سے یہ ایک عظیم الشان آیت ہے جس کے چند الفاظ میں اتنا بڑا مضمون سمو دیا گیا ہے کہ ایک پوری کتاب بھی اس کی وسعتوں کا احاطہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتی ۔ حدیث میں آتا ہے کہ : کان النبی صلی اللہ علیہ و سلم اذا افصح الغلام من بنی عبدالمطلب علمہ ھٰذہ الاٰیۃ ،’’ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ قاعدہ تھا کہ حضور کے خاندان میں جس کسی بچے کی زبان کھل جاتی تھی تو آپ یہ آیت اسے سکھاتے تھے ‘‘(مُصَنَّفْ عبدالرزاق و مُصَنَّفِ ابن ابی شَیبہ ، بروایت عمر و بن شعیب عن ابیہ عن جدہٖ)۔ اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کے ذہن میں توحید کا پورا تصور بٹھانے کے لیے یہ آیت ایک بہترین ذریعہ ہے ۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس کے بچے جب ہو شیار ہونے لگیں تو آغاز ہی میں ان کے ذہن پر یہ نقش ثبت کر دے ۔

9. جامع الفاظ ہیں جو ہر قسم کے جعلی معبودوں پر حاوی ہیں ۔ وہ بھی جن کو خدا نے پیدا کیا اور انسان ان کو معبود مان بیٹھا، مثلاً فرشتے ، جِن،انبیاء، اولیاء، سورج، چاند، سیارے ، درخت ، دریا، جانور وغیرہ ۔ اور وہ بھی جن کو انسان خود بناتا ہے اور خود ہی معبود جا لیتا ہے ، مثلاً پتھر اور لکڑی کے بُت ۔

10. حاصل کلام یہ ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ایک بندے پر فرقان اس لیے نازل کیا کہ حقیقت تو تھی وہ اور لوگ اس سے غافل ہو کر پڑ گئے اس گمراہی میں ، لہٰذا ایک بندہ نذیر بنا کر اٹھایا گیا ہے تاکہ لوگوں کو اس حماقت کے برے نتائج سے خبردار کرے ، اور اس پر بتدریج یہ فرقان نازل کرنا شروع کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے وہ حق کو باطل سے اور کھرے کو کھوٹے سے الگ کر کے دکھا دے ۔

11. دوسرا ترجمہ ’’بڑی بے انصافی کی بات ‘‘ بھی ہو سکتا ہے ۔

12. یہ وہی اعتراض ہے جو اس زمانے کے مستشرقین مغرب قرآن مجید کے خلاف پیش کرتے ہیں ۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہم عصر دشمنوں میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ تم بچپن میں بحیرا راہب سے جب ملے تھے اس وقت یہ سارے مضامین تم نے سیکھ لیے تھے ۔ اور نہ یہ کہا کہ جوانی میں جن تجارتی سفروں کے سلسلے میں تم باہر جایا کرتے تھے اس زمانے میں تم نے عیسائی راہبوں اور یہودی ربّیوں سے یہ معلومات حاصل کی تھیں ۔ اس لیے کہ ان سارے سفروں کا حال ان کو معلوم تھا۔ یہ سفر اکیلے نہیں ہوئے تھے ، ان کے اپنے قافلوں کے ساتھ ہوئے تھے اور وہ جانتے تھے کہ ان میں کچھ سیکھ آنے کا الزام ہم لگائیں گے تو ہمارے اپنے ہی شہر میں سیکڑوں زبانیں ہم کو جھٹلا دیں گی۔ اس کے علاوہ مکے کا ہر عام آدمی پوچھے گا کہ اگر یہ معلومات اس شخص کو بارہ تیرہ برس کی عمر ہی میں بحیر اسے حاصل ہو گئی تھیں ، یا 25 برس کی عمر سے ، جب کہ اس نے تجارتی سفر شروع کیے تھے ، حاصل ہونی شروع ہو گئی تھیں ، تو آخر یہ شخص کہیں باہر تو نہیں رہتا تھا، ہمارے ہی درمیان رہتا بستا تھا، کیا وجہ ہے کہ چالیس برس کی عمر تک اس کا یہ سارا علم چھپا رہا اور کبھی ایک لفظ بھی اس کی زبان سے ایسا نہ نکلا جو اس علم کی غمازی کرتا؟ یہی وجہ ہے کہ کفار مکہ نے اتنے سفید جھوٹ کی جرأت نہ کی اور اسے بعد کے زیادہ بے حیا لوگوں کے لیے چھوڑ دیا ۔ وہ جو بات کہتے تھے وہ نبوت سے پہلے کے متعلق نہیں بلکہ دعوائے نبوت کے زمانے کے متعلق تھی ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ شخص ان پڑھ ہے ۔ خود مطالعہ کر کے نئی معلومات حاصل کر نہیں سکتا ۔ پہلے اس نے کچھ سیکھا نہ تھا۔ چالیس برس کی عمر تک ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نہ جانتا تھا جو آج اس کی زبان سے نکل رہی ہیں ۔ اب آخر یہ معلومات آ کہاں سے رہی ہیں ؟ ان کا سرچشمہ لامحالہ کچھ اگلے لوگوں کی کتابیں ہیں جن کے اقتباسات راتوں کو چپکے چپکے ترجمہ اور نقل کرائے جاتے ہیں ، انہیں کسی سے یہ شخص پڑھوا کر سنتا ہے ، اور پھر انہیں یاد کر کے ہمیں دن کو سنا تا ہے ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں وہ چند آدمیوں کے نام بھی لیتے تھے جو اہل کتاب تھے ، پڑھے لکھے تھے ، اور مکہ میں رہتے تھے ، یعنی عدّ اس (حُوَیطِب بن عبد العزّیٰ کا آزاد کر دہ غلام) یَسَار (علاء بن الحضرمی کا آزاد کردہ غلام) اور جَبرْ (عامر بن ربیعہ کا آزاد کر دہ غلام ) ۔

بہ ظاہر بڑا وزنی اعتراض معلوم ہوتا ہے ۔ وحی کے دعوے کو رد کرنے کے لیے نبی کے مآخذِ علم کی نشان دہی کر دینے سے بڑھ کر اور کونسا اعتراض وزنی ہو سکتا ہے ۔ مگر آدمی پہلی ہی نظر میں یہ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے کہ جواب میں سے کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی، بلکہ صرف یہ کہہ کر بات ختم کر دی گئی کہ تم صداقت پر ظلم کر رہے ہو، صریح بے انصافی کی بات کہہ رہے ہو، سخت جھوٹ کا طوفان اُٹھا رہے ہو، یہ تو اس خدا کا کلام ہے جو آسمان و زمین کا بھید جانتا ہے ۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ سخت مخالفت کے ماحول میں ایسا زوردار اعتراض پیش کیا جائے اور اس کو یوں حقارت سے رد کر دیا جائے ؟ کیا واقعی یہ ایسا ہی پوچ اور بے وزن اعتراض تھا ، کہ اس کے جواب میں بس ’’جھوٹ اور ظلم‘‘ کہہ دینا کافی تھا؟ آخر وجہ کیا ہے کہ اس مختصر سے جواب کے بعد نہ عوام نے کسی تفصیلی اور واضح جواب کا مطالبہ کیا، نہ نئے نئے ایمان لانے والوں کے دلوں میں کوئی شک پیدا ہوا، اور نہ مخالفین ہی میں سے کسی کو یہ کہنے کی ہمت ہوئی کہ دیکھو، ہمارے اس وزنی اعتراض کا جواب بن نہیں پڑ رہا ہے اور محض جھوٹ اور ظلم کہہ کر بات ٹالی جا رہی ہے ؟۔

اس گتھی کا حل ہمیں اسی ماحول سے مل جاتا ہے جس میں مخالفین اسلام نے یہ اعتراض کیا تھا:

پہلی بات یہ تھی کہ مکے کے وہ ظالم سردار جو ایک ایک مسلمان کو مارتے کوٹتے اور تنگ کرتے پھر رہے تھے ، ان کے لیے یہ بات کچھ بھی مشکل نہ تھی کہ جن جن لوگوں کے متعلق وہ کہتے تھے کہ یہ پرانی پرانی کتابوں کے ترجمے کر کر کے محمدؐ کو یاد کرایا کرتے ہیں ، ان کے گھروں پر اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر پر چھاپے مارتے اور وہ سارا ذخیرہ برآمد کر کے پبلک کے سامنے لا رکھتے جو ان کے زعم میں اس کام کے لیے فراہم کیا گیا تھا۔ وہ عین اس وقت چھاپا مار سکتے تھے جب کہ یہ کام کیا جا رہا ہو اور ایک مجمع کو دکھا سکتے تھے کہ لو دیکھو، یہ نبوت کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ بلالؓ کو تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹنے والوں کے لیے ایسا کرنے میں کوئی آئین و ضابطہ مانع نہ تھا، اور ایسا کر کے وہ ہمیشہ کے لیے نبوت محمدی کے خطرے کو مٹا سکتے تھے ۔ مگر وہ بس زبانی اعتراض ہی کرتے رہے اور ایک دن بھی یہ فیصلہ کن قدم اٹھا کر انہوں نے نہ دکھایا ۔

دوسری بات یہ تھی کہ اس سلسلے میں وہ جن لوگوں کے نام لیتے تھے وہ کہیں باہر کے نہ تھے ، اسی شہر مکہ کے رہنے والے تھے ۔ ان کی قابلیتیں کسی سے چھپی ہوئی نہ تھیں ۔ ہر شخص جو تھوڑی سی عقل بھی رکھتا تھا، یہ دیکھ سکتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جو چیز پیش کر رہے ہیں وہ کس پائے کی ہے ، کس شان کی زبان ہے ، کس مرتبے کا ادب ہے ، کیا زور کلام ہے ، کیسے بلند خیالات اور مضامین ہیں ، اور وہ کس درجے کے لوگ ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ محمدؐ ان سے یہ سب کچھ حاصل کر کر کے لا رہے ہیں ۔ اسی وجہ سے کسی نے بھی اس اعتراض کو کوئی وزن نہ دیا ۔ ہر شخص سمجھتا تھا کہ ان باتوں سے بس دل کے جلے پھپھولے پھوڑے جا رہے ہیں ورنہ اس قول میں کسی شبہ کے قابل بھی جان نہیں ہے ۔ جو لوگ ان اشخاص سے واقف نہ تھے وہ بھی آخر اتنی ذرا سی بات تو سوچ سکتے کہ اگر یہ لوگ ایسی ہی قابلیت رکھتے تھے تو آخر انہوں نے خود اپنا چراغ کیوں نہ جلایا؟ ایک دوسرے شخص کے چراغ کو تیل مہیا کرنے کی انہیں ضرورت کیا پڑی تھی؟ اور وہ بھی چپکے چپکے کہ اس کام کی شہرت کا ذرا سا حصہ بھی ان کو نہ ملے ؟

تیسری بات یہ تھی کہ وہ سب اشخاص ، جن کا اس سلسلے میں نام لیا جا رہا تھا، بیرونی ممالک سے آئے ہوئے غلام تھے جن کو ان کے مالکوں نے آزاد کر دیا تھا۔ عرب کی قبائلی زندگی میں کوئی شخص بھی کسی طاقت ور قبیلے کی حمایت کے بغیر نہ جی سکتا تھا۔ آزاد ہو جانے پر بھی غلام اپنے سابق مالکوں کے وِلاء (سرپرستی) میں رہتے تھے اور ان کی حمایت ہی معاشرے میں ان کے لیے زندگی کا سہارا ہوتی تھی۔ اب یہ ظاہر بات تھی کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم ان لوگوں کی بدولت ، معاذ اللہ، ایک جھوٹی نبوت کی دکان چلا رہے تھے تو یہ لوگ کسی خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ تو اس سازش میں آپ کے شریک نہ ہو سکتے تھے ۔ آخر ایسے شخص کے وہ مخلص رفیق کار اور سچے عقیدت مند کیسے ہو سکتے تھے جو رات کو انہی سے کچھ باتیں سیکھتا ہو اور دن کو دنیا بھر کے سامنے یہ کہہ کر پیش کرتا ہو کہ یہ خدا کی طرف سے مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے ۔ اس لیے ان کی شرکت کسی لالچ اور کسی غرض ہی کی بنا پر ہو سکتی تھی۔ مگر کون صاحب عقل و ہوش آدمی یہ باور کر سکتا تھا کہ یہ لوگ خود اپنے سر پرستوں کو ناراض کر کے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اس سازش میں شریک ہوگئے ہوں گے؟ آخر کیا لالچ ہو سکتا تھا جس کی بنا پر وہ ساری قوم کے مغضوب و مطعون اور ساری قوم کی دشمنی کے ہدف آدمی کے ساتھ مل جاتے اور اپنے سرپرستوں سے کٹ جانے کے نقصان کو ایسے مصیبت زدہ آدمی سے حاصل ہونے والے کسی فائدے کی امید پر گوارا کر لیتے ؟ پھر یہ بھی سوچنے کی بات تھی کہ انکے سرپرستوں کو یہ موقع تو آخر حاصل ہی تھا کہ مار کوٹ کر ان سے سازش کا اقبال کرا لیں ۔ اس موقع سے انہوں نے کیوں نہ فائدہ اٹھایا اور کیوں نہ ساری قوم کے سامنے خود انہی سے یہ اعتراف کروا لیا کہ ہم سے سیکھ سیکھ کر یہ نبوت کی دکان چمکائی جا رہی ہے ؟

سب سے عجیب بات یہ تھی کہ وہ سب محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائے اور اس ضرب المثل عقیدت میں شامل ہوئے جو صحابہ کرام آنحضورؐ کی ذات مقدس سے رکھتے تھے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ بناؤٹی اور سازشی نبوت پر خود وہی لوگ ایمان لائیں اور گہری عقیدت کے ساتھ ایمان لائیں جنہوں نے اس کے بنانے کی سازش میں خود حصہ لیا ہو؟ اور بالفرض اگر یہ ممکن بھی تھا تو ان لوگوں کو اہل ایمان کی جماعت میں کوئی نمایاں مرتبہ تو ملا ہوتا ۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ نبوت کا کاروبار تو چلے عَدّاس اور یَسار اور جبر کے بل بوتے پر، اور نبی کے دست بنیں ابوبکر ور عمر اور ابو عبیدہ۔

اسی طرح یہ بات بھی بڑی تعجب انگیز تھی کہ اگر چند آدمیوں کی مدد سے راتوں کو بیٹھ بیٹھ کر نبوت کے اس کاروبار کا مواد تیار کیا جاتا تھا تو وہ زید بن حارثہ، علی بن ابی طالب، ابو بکر صدیق اور دوسرے ان لوگوں سے کس طرح چھپ سکتا تھا جو شب و روز محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ لگے رہتے تھے ؟ اس الزام میں برائے نام بھی شائبہ صداقت ہوتا تو کیسے ممکن تھا کہ یہ لوگ اس قدر خلوص کے ساتھ حضور پر ایمان لاتے اور آپ کی حمایت میں ہر طرح کے خطرات و نطصانات برداشت کرتے؟یہ وجوہ تھے جن کی بنا پر ہر سننے والے کی نگاہ میں یہ اعتراض آپ ہی بے وزن تھا۔ اس لیے قرآن میں اس کو کسی وزنی اعتراض کی حیثیت سے ، جواب دینے کی خاطر نقل نہیں کیا گیا ہے ، بلکہ یہ بتانے کی خاطر اس کا ذکر کیا گیا بلکہ یہ بتانے کی خاطر اس کا ذکر کیا گیا ہے کہ دیکھو، حق کی دشمنی میں یہ لوگ کیسے اندھے ہو گئے ہیں، اور کس قدر صریح جھوٹ اور بے انصافی پر اتر آئے ہیں ۔

13. اس جگہ یہ فقرہ بڑا معنی خیز ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ کیا شان ہے خدا کی رحیمی و غفاری کی، جو لوگ حق کو نیچا دکھانے کے لیے ایسے ایسے جھوٹ کے طوفان اٹھاتے ہیں ان کو بھی وہ مہلت دیتا ہے اور سنتے ہی عذاب کا کوڑا نہیں برسا دیتا ۔ اس تنبیہ کے ساتھ اس میں ایک پہلو تلقین کا بھی ہے کہ ظالمو، اب بھی اگر اپنے عناد سے باز آ جاؤ اور حق بات کو سیدھے طرح مان لو تو جو کچھ آج تک کرتے رہے ہو وہ سب معاف ہو سکتا ہے ۔

14. یعنی اول تو انسان کا رسول ہونا ہی عجیب بات ہے ۔ خدا کا پیغام لے کر آتا تو کوئی فرشتہ آتا نہ کہ ایک گوشت پوست کا آدمی جو زندہ رہنے کے لیے غذا کا محتاج ہو ۔ تا ہم اگر آدمی ہی رسول بنایا گیا تھا تو کم از کم وہ بادشاہوں اور دنیا کے بڑے لوگوں کی طرح ایک بلند پایہ ہستی ہونا چاہیے تھا جسے دیکھنے کے لیے آنکھیں ترستیں اور جس کے حضور باریابی کا شرف بڑی کوششوں سے کسی کو نصیب ہوتا، نہ یہ کہ ایک ایسا عامی آدمی خداوند، عالم کا پیغمبر بنا دیا جائے جو بازاروں میں جوتیاں چٹخاتا پھرتا ہو۔ بھلا اس آدمی کو کون خاطر میں لائے گا جسے ہر راہ چلتا روز دیکھتا ہو اور کسی پہلو سے بھی اس کے اندر کوئی غیر معمولی پن نہ پاتا ہو۔ بالفاظ دیگر، ان کی رائے میں رسول کی ضرورت اگر تھی تو عوام الناس کو ہدایت دینے کے لیے نہیں بلکہ عجوبہ دکھانے یا ٹھاٹھ باٹ سے دھونس جمانے کے لیے تھی ۔( تشریح کے لئے ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن ، جلد سوم، المومنون، حاشیہ۲٦ )

15. یعنی اگر آدمی ہی کو نبی بنایا گیا تھا تو ایک فرشتہ اس کے ساتھ کر دیا جاتا جو ہر وقت کوڑا ہاتھ میں لیے رہتا اور لوگوں سے کہتا کہ مانو اس کی بات، ورنہ ابھی خدا کا عذاب برسا دیتا ہوں ۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ کائنات کا مالک ایک شخص کو نبوت کا جلیل القدر منصب عطا کر کے بس یونہی اکیلا چھوڑ دے اور وہ لوگوں سے گالیاں اور پتھر کھاتا پھرے ۔

16. یہ گویا بدرجہ آخر ان کا مطالبہ تھا کہ اللہ میاں کم از کم اتنا تو کرتے کہ اپنے رسول کے لیے معاش کا کوئی اچھا انتظام کر دیتے ۔ یہ کیا ماجرا ہے کہ خدا کا رسول ہمارے معمولی رئیسوں سے بھی گیا گزرا ہو۔ نہ خرچ کے لیے مال میسر، نہ پھر کھانے کو کوئی باغ نصیب، اور دعویٰ یہ کہ ہم اللہ رب العالمین کے پیغمبر ہیں ۔

17. یعنی دیوانہ ۔ اہل عرب کے نزدیک دیوانگی کے دو ہی وجوہ تھے ۔یا تو کسی پر جن کا سایہ ہو گیا ہو۔ یا کسی دشمن نے جادو کر کے پاگل بنا دیا ہو ۔ ایک تیسری وجہ ان کے نزدیک اور بھی تھی، اور وہ یہ کہ کسی دیوی، یا دیوتا کی شان میں آدمی کوئی گستاخی کر بیٹھا ہو اور اس کی مار پڑ گئی ہو۔ کفار مکہ وقتاً فوقتاً یہ تینوں وجوہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق بیان کرتے تھے ۔ کبھی کہتے اس شخص پر کسی جن کا تسلط ہو گیا ۔ کچھ کہتے کسی دشمن نے بیچارے پر جادو کر دیا۔ اور کبھی کہتے کہ ہمارے دیوتاؤں میں سے کسی کی بے ادبی کرنے کا خمیازہ ہے جو غریب بھگت رہا ہے ۔ لیکن ساتھ ہی اتنا ہوشیار بھی مانتے تھے کہ ایک دار الترجمہ اس شخص نے قائم کر رکھا ہے اور پرانی پرانی کتابوں کے اقتباسات نکلوا نکلوا کر یاد کرتا ہے ۔مزید براں وہ آپ کو ساحر اور جادو گر بھی کہتے تھے ، گویا آپ ان کے نزدیک مسحور بھی تھے اور ساحر بھی۔ اس پر ایک اور ردّا شاعر ہونے کی تہمت کا بھی تھا ۔

18. یہ اعتراضات بھی جواب دینے کے یے نہیں بلکہ یہ بتانے کے لیے نقل کیے جا رہے ہیں کہ معترضین کس قدر عناد اور تعصب میں اندھے ہو چکے ہیں ۔ ان کی جو باتیں اوپر نقل کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی اس لائق نہیں ہے کہ اس پر سنجیدگی کے ساتھ بحث کی جائے ۔ ان کا بس ذکر کر دینا ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ مخالفین کا دامن معقول دلائل سے کس قدر خالی ہے اور وہ کیسی لچر اور پوچ باتوں سے ایک مدلل اصولی دعوت کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ ایک شخص کہتا ہے لوگو، یہ شرک جس پر تمہارے مذہب و تمدن کی بنیاد قائم ہے ، ایک غلط عقیدہ ہے اور اس کے غلط ہونے کے یہ اور یہ دلائل ہیں ۔ جواب میں شرک کے بر حق ہونے پر کوئی دلیل قائم نہیں کی جاتی، بس آوازہ کس دیا جاتا ہے کہ یہ جادو کا مارا ہوا آدمی ہے ۔ وہ کہتا ہے کائنات کا سارا نظام توحید پر چل رہا ہے اور یہ یہ حقائق ہیں جو اس کی شہادت دیتے ہیں ۔ جواب میں شور بلند ہوتا ہے جادو گر ہے ۔ وہ کہتا ہے تم دنیا میں شتر بے مہار بنا کر نہیں چھوڑ دیے گئے ہو، تمہیں اپنے رب کے پاس پلٹ کر جانا ہے ، دوسری زندگی میں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ، اور اس حقیقت پر یہ اخلاقی اور یہ تاریخی اوریہ علمی و عقلی امور دلالت کر رہے ہیں ۔ جواب میں کہا جاتا ہے شاعر ہے ۔ وہ کہتا ہے میں خدا کی طرف سے تمہارے لیے تعلیم حق لے کر آیا ہوں اور یہ ہے وہ تعلیم۔ جواب میں اس تعلیم پر کوئی بحث و تنقید نہیں ہوتی ، بس بلا ثبوت ایک الزام چسپاں کر دیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ کہیں سے نقل کر لیا گیا ہے ۔ وہ اپنی رسالت کے ثبوت میں خدا کے معجزانہ کلام کو پیش کرتا ہے ، خود اپنی زندگی اور اپنی سیرت و کردار کو پیش کرتا ہے ، اور اس اخلاقی انقلاب کو پیش کرتا ہے جو اس کے اثر سے اس کے پیروؤں کی زندگی میں ہو رہا تھا۔ مگر مخالفت کرنے والے ان میں سے کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتے ۔ پوچھتے ہیں تو یہ پوچھتے ہیں کہ تم کھاتے کیوں ہو ؟ بازاروں میں کیوں چلتے پھرتے ہو؟ تمہاری اردل میں کوئی فرشتہ کیوں نہیں ہے؟ تمہارے پاس کوئی خزانہ یا باغ کیوں نہیں ہے؟ یہ باتیں خود بتارہیں تھیں کہ فریقین میں سے حق پر کون ہے اور کون اس کے مقابلے میں عاجز ہو کر بے تکی ہانک رہا ہے ۔