Tafheem ul Quran

Surah 25 Al-Furqan, Ayat 10-16

تَبٰـرَكَ الَّذِىۡۤ اِنۡ شَآءَ جَعَلَ لَكَ خَيۡرًا مِّنۡ ذٰ لِكَ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ ۙ وَيَجۡعَلْ لَّكَ قُصُوۡرًا‏ ﴿25:10﴾ بَلۡ كَذَّبُوۡا بِالسَّاعَةِ​ وَاَعۡتَدۡنَا لِمَنۡ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِيۡرًا​ ۚ‏ ﴿25:11﴾ اِذَا رَاَتۡهُمۡ مِّنۡ مَّكَانٍۢ بَعِيۡدٍ سَمِعُوۡا لَهَا تَغَيُّظًا وَّزَفِيۡرًا‏  ﴿25:12﴾ وَاِذَاۤ اُلۡقُوۡا مِنۡهَا مَكَانًـا ضَيِّقًا مُّقَرَّنِيۡنَ دَعَوۡا هُنَالِكَ ثُبُوۡرًا ؕ‏ ﴿25:13﴾ لَا تَدۡعُوا الۡيَوۡمَ ثُبُوۡرًا وَّاحِدًا وَّادۡعُوۡا ثُبُوۡرًا كَثِيۡرًا‏  ﴿25:14﴾ قُلۡ اَذٰ لِكَ خَيۡرٌ اَمۡ جَنَّةُ الۡخُـلۡدِ الَّتِىۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ ​ؕ كَانَتۡ لَهُمۡ جَزَآءً وَّمَصِيۡرًا‏ ﴿25:15﴾ لَّهُمۡ فِيۡهَا مَا يَشَآءُوۡنَ خٰلِدِيۡنَ​ ؕ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ وَعۡدًا مَّسۡـُٔوۡلًا‏ ﴿25:16﴾

10 - بڑا بابرکت ہے 19 وہ جو اگر چاہے تو ان کی تجویز کر دہ چیزوں سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر تم کو دے سکتا ہے ، (ایک نہیں)بہت سے باغ جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں ، اور بڑے بڑے محل۔ 11 - اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ”اُس گھڑی“ 20 کو جھُٹلا چکے ہیں 21 ۔۔۔۔ اور جو اُس گھڑی کو جھُٹلائے اس کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیّا کر رکھی ہے۔ 12 - وہ جب دُور سے اِن کو دیکھے گی 22 تو یہ اُس کے غضب اور جوش کی آوازیں سُن لیں گے۔ 13 - اور جب یہ دست و پا بستہ اُس میں ایک تنگ جگہ ٹھونسے جائیں گے تو اپنی موت کو پکارنے لگیں گے۔ 14 - (اُس وقت ان سے کہا جائے گا کہ)آج ایک موت کو نہیں بہت سی مَوتوں کو پکارو۔ 15 - اِن سے پوچھو، یہ انجام اچھا ہے یا وہ اَبدی جنّت جس کا وعدہ خدا ترس پرہیزگاروں سے کیا گیا ہے؟ جو اُن کے عمل کی جزا اور اُن کے سفر کی آخری منزل ہوگی، 16 - جس میں اُن کی ہر خواہش پُوری ہوگی، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، جس کا عطا کرنا تمہارے ربّ کے ذمّے ایک واجب الادا وعدہ ہے۔ 23


Notes

19. یہاں پھر وہی تبارک کا لفظ استعمال ہوا ہے اور بعد کا مضمون بتا رہا ہے کہ اس جگہ اس کے معنی ہیں ’’ بڑے وسیع ذرائع کا مالک ہے ‘‘۔ ‘’ غیر محدود قدرت رکھنے والا ہے ‘‘ ۔ ‘‘اس سے بالا تر ہے کہ کسی کے حق میں کوئی بھلائی کرنا چاہے اور نہ کر سکے ‘‘۔

20. اصل میں لفظ ’’ السّاعۃ ‘‘ استعمال ہوا ہے ۔ ساعت کے معنی گھڑی اور وقت کے ہیں اور ال اس پر عہد کا ہے ، یعنی وہ مخصوص گھڑی جو آنے والی ہے ، جس کے متعلق ہم پہلے تم کو خبر دے چکے ہیں ۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ لفظ ایک اصطلاح کے طور پر اس وقت خاص کے لیے بولا گیا ہے جب کہ قیامت قائم ہو گی، تمام اولین و آخرین از سر نو زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ، سب کو اکٹھا کر کے اللہ تعالیٰ حساب لے گا، اور ہر ایک کو اس کے عقیدہ و عمل کے لحاظ سے جزا یا سز ادے گا۔

21. یعنی جو باتیں یہ کر رہے ہیں ان کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کو واقعی کسی قابل لحاظ بنیاد پر قرآن کے جعلی کلام ہونے کا شبہ ہے ، یا ان کو در حقیقت یہ گمان ہے کہ جن آزاد کردہ غلاموں کے یہ نام لیتے ہیں وہی تم کو سکھاتے پڑھاتے ہیں ، یا انہیں تمہاری رسالت پر ایمان لانے سے بس اس چیز نے روک رکھا ہے کہ تم کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے پھرتے ہو، یا وہ تمہاری تعلیم حق کو مان لینے کے لیے تیار تھے مگر صرف اس لیے رک گئے کہ نہ کوئی فرشتہ تمہاری اردلی میں تھا اور نہ تمہارے لیے کوئی خزانہ اتارا گیا تھا۔ اصل وجہ ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے بلکہ آخرت کا انکار ہے جس نے ان کو حق اور باطل کے معاملے میں بالکل غیر سنجیدہ بنا دیا ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ سرے سے کسی غور و فکر اور تحقیق و جستجو کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے ، اور تمہاری معقول دعوت کو رد کرنے کے لیے ایسی ایسی مضحکہ انگیز حجتیں پیش کرنے لگتے ہیں ۔ ان کے ذہن اس تخیل سے خالی ہیں کہ اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی بھی ہے جس میں انہیں خدا کے سامنے جا کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس چار دن کی زندگی کے بعد مر کر سب کو مٹی ہو جانا ہے ۔ بت پرست بھی مٹی ہو جائے گا اور خدا پرست بھی اور منکر خدا بھی۔ نتیجہ کسی چیز کا بھی کچھ نہیں نکلنا ہے ۔ پھر کیا فرق پڑ جاتا ہے ۔ مشرک ہو کر مرنے اور موحد یا ملحد ہو کر مرنے میں ۔ صحیح اور غلط کے امتیاز کی اگر ان کے نزدیک کوئی ضرورت ہے تو اس دنیا کی کامیابی و ناکامی کے لحاظ سے ہے ۔ اور یہاں وہ دیکھتے ہیں کہ کسی عقیدے یا اخلاقی اصول کا بھی کوئی متعین نتیجہ نہیں ہے جو پوری یکسانی کے ساتھ ہر شخص اور ہر رویے کے معاملے میں نکلتا ہو۔ دہریے آتش پرست ، عیسائی، موسائی ، ستارہ پرست ، بت پرست، سب اچھے اور برے دونوں ہی طرح کے حالات سے دوچار ہوتے ہیں ۔ کوئی ایک عقیدہ نہیں جس کے متعلق تجربہ بتاتا ہو کہ اسے اختیار کرنے والا ، یا رد کر دینے والا اس دنیا میں لازماً خوش حال یا لازماً بد حال رہتا ہو۔ بد کار اور نیکو کار بھی یہاں ہمیشہ اپنے اعمال کا ایک ہی مقرر نتیجہ نہیں دیکھتے ۔ ایک بد کار مزے کر رہا ہے اور دوسرا سزا پا رہا ہے ۔ ایک نیکو کار مصیبت جھیل رہا ہے تو دوسرا معزز و محترم بنا ہوا ہے ۔ لہٰذا دنیوی نتائج کے اعتبار سے کسی مخصوص اخلاقی رویے کے متعلق بھی منکرین آخرت اس بات پر مطمئن نہیں ہو سکتے کہ وہ خیر ہے یا شر ہے ۔ اس صورت حال میں جب کوئی شخص ان کو ایک عقیدے اور ایک اخلاقی ضابطے کی طرف دعوت دیتا ہے تو خواہ وہ کیسے ہی سنجیدہ اور معقول دلائل کے ساتھ اپنی دعوت پیش کرے ، ایک منکر آخرت کبھی سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور نہیں کرے گا بلکہ طفلانہ اعتراضات کر کے اسے ٹال دے گا۔

22. آگ کا کسی کو دیکھنا ممکن ہے کہ استعارے کے طور پر ہو، جیسے ہم کہتے ہیں ، وہ جامع مسجد کے مینار تم کو دیکھ رہے ہیں ، اور ممکن ہے ، حقیقی معنوں میں ہو، یعنی جہنم کی آگ دنیا کی آگ کی طرح بے شعور نہ ہو بلکہ دیکھ بھال کر جلانے والی ہو۔

23. اصل الفاظ ہیں ’’ وعد امسئولا‘‘، یعنی ایسا وعدہ جس کے پورا کرنے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے ۔

یہاں ایک شخص یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ جنت کا یہ وعدہ اور دوزخ کا یہ ڈراوا کسی ایسے شخص پر کیا اثر انداز ہو سکتا ہے ۔ جو قیامت اور حشر و نشر اور جنت و دوزخ کا پہلے ہی منکر ہو ؟ اس لحاظ سے تو یہ بظاہر ایک بے محل کلام محسوس ہوتا ہے ، لیکن تھوڑا سا غور کیا جائے تو بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے ۔ اگر معاملہ یہ ہو کہ میں ایک بات منوانا چاہتا ہوں اور دوسرا نہیں ماننا چاہتا تو بحث و حجت کا انداز کچھ اور ہوتا ہے ۔ لیکن اگر میں اپنے مخاطب سے اس انداز میں گفتگو کر رہا ہوں کہ زیر بحث مسئلہ میری بات ماننے یا نہ ماننے کا نہیں بلکہ تمہارے اپنے مفاد کا ہے ، تو مخاطب چاہے کیسا ہی ہٹ دھرم ہو، ایک دفعہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہاں کلام کا طرز یہی دوسرا ہے۔اس صورت میں مخاطب کوخود اپنی بھلائی کے نقطۂ نظر سے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ دوسری زندگی کے ہونے کا چاہے ثبوت موجود نہ ہو، مگر بہرحال اس کے نہ ہونے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے ،اور امکان دونوں ہی کا ہے ۔ اب اگر دوسری زندگی نہیں ہے ، جیسا کہ ہم سمجھ رہے ہیں ، تو ہمیں بھی مر کر مٹی ہو جاتا ہے اور آخرت کے قائل کو بھی ۔ اس صورت میں دونوں برابر رہیں گے ۔ لیکن اگر کہیں بات وہی حق نکلی جو یہ شخص کہہ رہا ہے تو یقیناً پھر ہماری خیر نہیں ہے ۔ اس طرح یہ طرز کلام مخاطب کی ہٹ دھرمی میں ایک شگاف ڈال دیتا ہے ، اور شگاف میں مزید وسعت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب قیامت ، حشر ، حساب اور جنت و دوزخ کا ایسا تفصیلی نقشہ پیش کیا جانے لگتا ہے کہ جیسے کوئی وہاں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، حٰم السجدہ، آیت 52 حاشیہ 69 ۔ الاحقاف، آیت 10) ۔