Tafheem ul Quran

Surah 25 Al-Furqan, Ayat 10-20

تَبٰـرَكَ الَّذِىۡۤ اِنۡ شَآءَ جَعَلَ لَكَ خَيۡرًا مِّنۡ ذٰ لِكَ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ ۙ وَيَجۡعَلْ لَّكَ قُصُوۡرًا‏ ﴿25:10﴾ بَلۡ كَذَّبُوۡا بِالسَّاعَةِ​ وَاَعۡتَدۡنَا لِمَنۡ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِيۡرًا​ ۚ‏ ﴿25:11﴾ اِذَا رَاَتۡهُمۡ مِّنۡ مَّكَانٍۢ بَعِيۡدٍ سَمِعُوۡا لَهَا تَغَيُّظًا وَّزَفِيۡرًا‏  ﴿25:12﴾ وَاِذَاۤ اُلۡقُوۡا مِنۡهَا مَكَانًـا ضَيِّقًا مُّقَرَّنِيۡنَ دَعَوۡا هُنَالِكَ ثُبُوۡرًا ؕ‏ ﴿25:13﴾ لَا تَدۡعُوا الۡيَوۡمَ ثُبُوۡرًا وَّاحِدًا وَّادۡعُوۡا ثُبُوۡرًا كَثِيۡرًا‏  ﴿25:14﴾ قُلۡ اَذٰ لِكَ خَيۡرٌ اَمۡ جَنَّةُ الۡخُـلۡدِ الَّتِىۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ ​ؕ كَانَتۡ لَهُمۡ جَزَآءً وَّمَصِيۡرًا‏ ﴿25:15﴾ لَّهُمۡ فِيۡهَا مَا يَشَآءُوۡنَ خٰلِدِيۡنَ​ ؕ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ وَعۡدًا مَّسۡـُٔوۡلًا‏ ﴿25:16﴾ وَيَوۡمَ يَحۡشُرُهُمۡ وَمَا يَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ فَيَقُوۡلُ ءَاَنۡـتُمۡ اَضۡلَلۡـتُمۡ عِبَادِىۡ هٰٓؤُلَاۤءِ اَمۡ هُمۡ ضَلُّوا السَّبِيۡلَ ؕ‏ ﴿25:17﴾ قَالُوۡا سُبۡحٰنَكَ مَا كَانَ يَنۢۡبَغِىۡ لَنَاۤ اَنۡ نَّـتَّخِذَ مِنۡ دُوۡنِكَ مِنۡ اَوۡلِيَآءَ وَ لٰـكِنۡ مَّتَّعۡتَهُمۡ وَاٰبَآءَهُمۡ حَتّٰى نَسُوا الذِّكۡرَ​ۚ وَكَانُوۡا قَوۡمًۢا بُوۡرًا‏ ﴿25:18﴾ فَقَدۡ كَذَّبُوۡكُمۡ بِمَا تَقُوۡلُوۡنَۙ فَمَا تَسۡتَطِيۡعُوۡنَ صَرۡفًا وَّلَا نَـصۡرًا​ۚ وَمَنۡ يَّظۡلِمۡ مِّنۡكُمۡ نُذِقۡهُ عَذَابًا كَبِيۡرًا‏ ﴿25:19﴾ وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا قَبۡلَكَ مِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَ اِلَّاۤ اِنَّهُمۡ لَيَاۡكُلُوۡنَ الطَّعَامَ وَيَمۡشُوۡنَ فِى الۡاَسۡوَاقِ​ ؕ وَجَعَلۡنَا بَعۡضَكُمۡ لِبَعۡضٍ فِتۡنَةً  ؕ اَتَصۡبِرُوۡنَ​ۚ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيۡرًا‏ ﴿25:20﴾

10 - بڑا بابرکت ہے 19 وہ جو اگر چاہے تو ان کی تجویز کر دہ چیزوں سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر تم کو دے سکتا ہے ، (ایک نہیں)بہت سے باغ جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں ، اور بڑے بڑے محل۔ 11 - اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ”اُس گھڑی“ 20 کو جھُٹلا چکے ہیں 21 ۔۔۔۔ اور جو اُس گھڑی کو جھُٹلائے اس کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیّا کر رکھی ہے۔ 12 - وہ جب دُور سے اِن کو دیکھے گی 22 تو یہ اُس کے غضب اور جوش کی آوازیں سُن لیں گے۔ 13 - اور جب یہ دست و پا بستہ اُس میں ایک تنگ جگہ ٹھونسے جائیں گے تو اپنی موت کو پکارنے لگیں گے۔ 14 - (اُس وقت ان سے کہا جائے گا کہ)آج ایک موت کو نہیں بہت سی مَوتوں کو پکارو۔ 15 - اِن سے پوچھو، یہ انجام اچھا ہے یا وہ اَبدی جنّت جس کا وعدہ خدا ترس پرہیزگاروں سے کیا گیا ہے؟ جو اُن کے عمل کی جزا اور اُن کے سفر کی آخری منزل ہوگی، 16 - جس میں اُن کی ہر خواہش پُوری ہوگی، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، جس کا عطا کرنا تمہارے ربّ کے ذمّے ایک واجب الادا وعدہ ہے۔ 23 17 - اور وہی دن ہوگا جب کہ (تمہارا ربّ)اِن لوگوں کو بھی گھیر لائے گا اور ان کے اُن معبُودوں 24 کو بھی بُلالے گا جنہیں آج یہ اللہ کو چھوڑ کر پُوج رہے ہیں، پھر وہ اُن سے پُوچھے گا ”کیا تم نے میرے اِن بندوں کو گمراہ کیا تھا؟ یا یہ خود راہِ راست سے بھٹک گئے تھے؟“ 25 18 - وہ عرض کریں گے” پاک ہے آپ کی ذات، ہماری تو یہ بھی مجال نہ تھی کہ آپ کے سوا کسی کو اپنا مولیٰ بنائیں۔ مگر آپ نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو خوب سامانِ زندگی دیا حتٰی کہ یہ سبق بھُول گئے اور شامت زدہ ہو کر رہے۔“ 26 19 - یُوں جھُٹلا دیں گے وہ (تمہارے معبُود)تمہاری اُن باتوں کو جو آج تم کہہ رہے ہو 27 ، پھر تم نہ اپنی شامت کو ٹال سکو گے نہ کہیں سے مدد پا سکو گے اور جو بھی تم میں سے ظلم کرے 28 اُسے ہم سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ 20 - اے محمدؐ ، تم سے پہلے جو رسُول بھی ہم نے بھیجے تھے وہ سب بھی کھانا کھانے والے اور بازاروں میں چلنے پھرنے والے لوگ ہی تھے۔ 29 دراصل ہم نے تم لوگوں کو ایک دُوسرے کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ 30 کیا تم صبر کرتے ہو؟ 31 تمہارا ربّ سب کچھ دیکھتا ہے۔ 32 ؏ ۲


Notes

19. یہاں پھر وہی تبارک کا لفظ استعمال ہوا ہے اور بعد کا مضمون بتا رہا ہے کہ اس جگہ اس کے معنی ہیں ’’ بڑے وسیع ذرائع کا مالک ہے ‘‘۔ ‘’ غیر محدود قدرت رکھنے والا ہے ‘‘ ۔ ‘‘اس سے بالا تر ہے کہ کسی کے حق میں کوئی بھلائی کرنا چاہے اور نہ کر سکے ‘‘۔

20. اصل میں لفظ ’’ السّاعۃ ‘‘ استعمال ہوا ہے ۔ ساعت کے معنی گھڑی اور وقت کے ہیں اور ال اس پر عہد کا ہے ، یعنی وہ مخصوص گھڑی جو آنے والی ہے ، جس کے متعلق ہم پہلے تم کو خبر دے چکے ہیں ۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ لفظ ایک اصطلاح کے طور پر اس وقت خاص کے لیے بولا گیا ہے جب کہ قیامت قائم ہو گی، تمام اولین و آخرین از سر نو زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ، سب کو اکٹھا کر کے اللہ تعالیٰ حساب لے گا، اور ہر ایک کو اس کے عقیدہ و عمل کے لحاظ سے جزا یا سز ادے گا۔

21. یعنی جو باتیں یہ کر رہے ہیں ان کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کو واقعی کسی قابل لحاظ بنیاد پر قرآن کے جعلی کلام ہونے کا شبہ ہے ، یا ان کو در حقیقت یہ گمان ہے کہ جن آزاد کردہ غلاموں کے یہ نام لیتے ہیں وہی تم کو سکھاتے پڑھاتے ہیں ، یا انہیں تمہاری رسالت پر ایمان لانے سے بس اس چیز نے روک رکھا ہے کہ تم کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے پھرتے ہو، یا وہ تمہاری تعلیم حق کو مان لینے کے لیے تیار تھے مگر صرف اس لیے رک گئے کہ نہ کوئی فرشتہ تمہاری اردلی میں تھا اور نہ تمہارے لیے کوئی خزانہ اتارا گیا تھا۔ اصل وجہ ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے بلکہ آخرت کا انکار ہے جس نے ان کو حق اور باطل کے معاملے میں بالکل غیر سنجیدہ بنا دیا ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ سرے سے کسی غور و فکر اور تحقیق و جستجو کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے ، اور تمہاری معقول دعوت کو رد کرنے کے لیے ایسی ایسی مضحکہ انگیز حجتیں پیش کرنے لگتے ہیں ۔ ان کے ذہن اس تخیل سے خالی ہیں کہ اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی بھی ہے جس میں انہیں خدا کے سامنے جا کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس چار دن کی زندگی کے بعد مر کر سب کو مٹی ہو جانا ہے ۔ بت پرست بھی مٹی ہو جائے گا اور خدا پرست بھی اور منکر خدا بھی۔ نتیجہ کسی چیز کا بھی کچھ نہیں نکلنا ہے ۔ پھر کیا فرق پڑ جاتا ہے ۔ مشرک ہو کر مرنے اور موحد یا ملحد ہو کر مرنے میں ۔ صحیح اور غلط کے امتیاز کی اگر ان کے نزدیک کوئی ضرورت ہے تو اس دنیا کی کامیابی و ناکامی کے لحاظ سے ہے ۔ اور یہاں وہ دیکھتے ہیں کہ کسی عقیدے یا اخلاقی اصول کا بھی کوئی متعین نتیجہ نہیں ہے جو پوری یکسانی کے ساتھ ہر شخص اور ہر رویے کے معاملے میں نکلتا ہو۔ دہریے آتش پرست ، عیسائی، موسائی ، ستارہ پرست ، بت پرست، سب اچھے اور برے دونوں ہی طرح کے حالات سے دوچار ہوتے ہیں ۔ کوئی ایک عقیدہ نہیں جس کے متعلق تجربہ بتاتا ہو کہ اسے اختیار کرنے والا ، یا رد کر دینے والا اس دنیا میں لازماً خوش حال یا لازماً بد حال رہتا ہو۔ بد کار اور نیکو کار بھی یہاں ہمیشہ اپنے اعمال کا ایک ہی مقرر نتیجہ نہیں دیکھتے ۔ ایک بد کار مزے کر رہا ہے اور دوسرا سزا پا رہا ہے ۔ ایک نیکو کار مصیبت جھیل رہا ہے تو دوسرا معزز و محترم بنا ہوا ہے ۔ لہٰذا دنیوی نتائج کے اعتبار سے کسی مخصوص اخلاقی رویے کے متعلق بھی منکرین آخرت اس بات پر مطمئن نہیں ہو سکتے کہ وہ خیر ہے یا شر ہے ۔ اس صورت حال میں جب کوئی شخص ان کو ایک عقیدے اور ایک اخلاقی ضابطے کی طرف دعوت دیتا ہے تو خواہ وہ کیسے ہی سنجیدہ اور معقول دلائل کے ساتھ اپنی دعوت پیش کرے ، ایک منکر آخرت کبھی سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور نہیں کرے گا بلکہ طفلانہ اعتراضات کر کے اسے ٹال دے گا۔

22. آگ کا کسی کو دیکھنا ممکن ہے کہ استعارے کے طور پر ہو، جیسے ہم کہتے ہیں ، وہ جامع مسجد کے مینار تم کو دیکھ رہے ہیں ، اور ممکن ہے ، حقیقی معنوں میں ہو، یعنی جہنم کی آگ دنیا کی آگ کی طرح بے شعور نہ ہو بلکہ دیکھ بھال کر جلانے والی ہو۔

23. اصل الفاظ ہیں ’’ وعد امسئولا‘‘، یعنی ایسا وعدہ جس کے پورا کرنے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے ۔

یہاں ایک شخص یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ جنت کا یہ وعدہ اور دوزخ کا یہ ڈراوا کسی ایسے شخص پر کیا اثر انداز ہو سکتا ہے ۔ جو قیامت اور حشر و نشر اور جنت و دوزخ کا پہلے ہی منکر ہو ؟ اس لحاظ سے تو یہ بظاہر ایک بے محل کلام محسوس ہوتا ہے ، لیکن تھوڑا سا غور کیا جائے تو بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے ۔ اگر معاملہ یہ ہو کہ میں ایک بات منوانا چاہتا ہوں اور دوسرا نہیں ماننا چاہتا تو بحث و حجت کا انداز کچھ اور ہوتا ہے ۔ لیکن اگر میں اپنے مخاطب سے اس انداز میں گفتگو کر رہا ہوں کہ زیر بحث مسئلہ میری بات ماننے یا نہ ماننے کا نہیں بلکہ تمہارے اپنے مفاد کا ہے ، تو مخاطب چاہے کیسا ہی ہٹ دھرم ہو، ایک دفعہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہاں کلام کا طرز یہی دوسرا ہے۔اس صورت میں مخاطب کوخود اپنی بھلائی کے نقطۂ نظر سے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ دوسری زندگی کے ہونے کا چاہے ثبوت موجود نہ ہو، مگر بہرحال اس کے نہ ہونے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے ،اور امکان دونوں ہی کا ہے ۔ اب اگر دوسری زندگی نہیں ہے ، جیسا کہ ہم سمجھ رہے ہیں ، تو ہمیں بھی مر کر مٹی ہو جاتا ہے اور آخرت کے قائل کو بھی ۔ اس صورت میں دونوں برابر رہیں گے ۔ لیکن اگر کہیں بات وہی حق نکلی جو یہ شخص کہہ رہا ہے تو یقیناً پھر ہماری خیر نہیں ہے ۔ اس طرح یہ طرز کلام مخاطب کی ہٹ دھرمی میں ایک شگاف ڈال دیتا ہے ، اور شگاف میں مزید وسعت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب قیامت ، حشر ، حساب اور جنت و دوزخ کا ایسا تفصیلی نقشہ پیش کیا جانے لگتا ہے کہ جیسے کوئی وہاں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، حٰم السجدہ، آیت 52 حاشیہ 69 ۔ الاحقاف، آیت 10) ۔

24. آگے کا مضمون خود ظاہر کر رہا ہے کہ یہاں معبودوں سے مراد بت نہیں ہیں بلکہ فرشتے ، انبیاء، اولیاء، شہداء اور صالحین ہیں جنہیں مختلف قوموں کے مشرکین معبود بنا بیٹھے ہیں ۔ بظاہر ایک شخص وَمَایَعْبُدُوْنَ کے الفاظ پڑھ کر یہ گمان کرتا ہے کہ اس سے مراد بت ہیں ، کیونکہ عربی زبان میں عموماً مَا غیر ذوی العقول کے لیے بولا جاتا ہے ،اورمَنْ ذوی العقول کے لیے بولتے ہیں۔ جیسے ہم اردو زبان میں ’’کیا ہے ‘‘ غیر ذوی العقول اور ’’ کون ہے ‘‘ ذوی العقول کے لیے بولتے ہیں ۔ مگر اردو کی طرح عربی میں بھی یہ الفاظ بالکل ان معنوں کے لیے مخصوص نہیں ہیں ۔ بسا اوقات ہم اردو میں کسی انسان کے متعلق تحقیر کے طور پر کہتے ہیں ’’ وہ کیا ہے ‘‘ اور مرد یہ ہوتی ہے کہ اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے ۔ وہ کوئی بڑی ہستی نہیں ہے ۔ ایسا ہی حال عربی زبان کا بھی ہے ۔ چونکہ معاملہ اللہ کے مقابلے میں اس کی مخلوق کو معبود بنانے کا ہے ، اس لیے خواہ فرشتوں اور بزرگ انسانوں کی حیثیت بجائے خود بہت بلند ہو مگر اللہ کے مقابلے میں تو گویا کچھ بھی نہیں ہے ۔ اسی لیے موقع و محل کی مناسبت سے ان کے لیے من کے بجائے مَا کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔

25. یہ مضمون متعدد مقامات پر قرآن مجید میں آیا ہے ۔ مثلاً سورہ سبا میں ہے : وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ جَمِیْعاً ثُمَّ یَقُوْلُ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اَھٰٓؤُ لَآ ءِاِیَّا کُمْ کَا نُوْ یَعْبُدُوْنَ ہ قَلُوْ ا سُبْحٰنَکَ اَنْتَ وَلِیُّنَا مِنْ دُوْ نِہِمْ ۚ بَلْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ الْجِنَّۚ اَکْثَرُ ھُمْ بِہِمْ مُآْ مِنُوْنَ ’’ جس روز وہ ان سب کو جمع کرے گا، پھر فرشتوں سے پوچھے گا کیا یہ لوگ تمہاری ہی بندگی کر رہے تھے ؟ وہ کہیں گے پاک ہے آپ کی ذات، ہمارا تعلق تو آپ سے ہے نہ کہ ان سے ۔ یہ لوگ تو جِنوں (یعنی شیاطین) کی بندگی کر رہے تھے ۔ ان میں سے اکثر انہی کے مومن تھے ‘‘ (آیات 40 ۔ 41 ) اسی طرح سورۂ مائدہ کے آخری رکوع میں ہے : وَاِذْ قَالَ اللہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ءَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمَّیَ اِلٰھُیْنِ مِنْ دُونِاللہِ ؕ قَالَ سُبْحٰنَکَ مَایَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ ؕ ....... مَا قُلْتُ لَہُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْ تَنِیْ بِہٖٓ اَنِ اعْبُدُ وا اللہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ ۚ ’’ اور جب اللہ پوچھے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ ، کیا تو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو؟ وہ عرض کرے گا پاک ہے آپ کی ذات، میرے لیے یہ کب زیبا تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا۔ ..... میں نے تو ان سے بس وہی کچھ کہا تھا جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا، یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی‘‘۔

26. یعنی یہ کم ظرف اور کمینے لوگ تھے ۔ آپ نے رزق دیا تھا کہ شکر کریں ۔ یہ کھا پی کر نمک حرام ہو گئے اور وہ سب نصیحتیں بھلا بیٹھے جو آپ کے بھیجے ہوئے انبیاء نے ان کو کی تھیں ۔

27. یعنی تمہارا یہ مذہب ، جس کو تم حق سمجھے بیٹھے ہو، بالکل بے اصل ثابت ہو گا، اور تمہارے وہ معبود جن پر تمہیں بھروسہ ہے کہ یہ خدا کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ، اُلٹے تم کو خطا کار ٹھیرا کر بری الذمہ ہو جائیں گے ۔ تم نے جو کچھ بھی اپنے معبودوں کو قرار دے رکھا ہے ، بطور خود ہی قرار دے رکھا ہے ۔ ان میں سے کسی نے بھی تم سے یہ نہ کہا تھا کہ ہمیں یہ کچھ مانو، اور اس طرح ہماری نذر و نیاز کیا کرو، اور ہم خدا کے ہاں تمہاری سفارش کرنے کا ذمہ لیتے ہیں ۔ ایسا کوئی قول کسی فرشتے یا کسی بزرگ کی طرف سے نہ یہاں تمہارے پاس موجود ہے ، نہ قیامت میں تم اسے ثابت کر سکو گے ، بلکہ وہ سب کے سب خود تمہاری آنکھوں کے سامنے ان باتوں کی تردید کریں گے اور تم اپنے کانوں سے ان کی تردید سن لو گے ۔

28. یہاں ظلم سے مراد حقیقت اور صداقت پر ظلم ہے، یعنی کفر و شرک۔ سیاق و سباق خود ظاہر کررہا ہے کہ نبی کو نہ ماننے والے اور خدا کے بجائے دوسروں کو معبود بنا بیٹھنے والے اور آخرت کا انکار کرنے والے "ظلم" کے مرتکب قرار دیے جارہے ہیں۔

29. یہ جواب ہے کفار مکہ کی اس بات کا جو وہ کہتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ اس موقع پر یہ بات ذہن میں رہے کہ کفار مکہ حضرت نوحؐ ، حضرت ابراہیمؐ ، حضرت موسیٰؐ اور بہت سے دوسرے انبیاء سے نہ صرف واقف تھے ، بلکہ ان کی رسالت بھی تسلیم کرتے تھے ۔ اس لیے فرمایا گیا کہ آخر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں یہ نرالا اعتراض کیوں اٹھا رہے ہو ؟ پہلے کونسا نبی ایسا آیا ہے جو کھانا نہ کھاتا ہو اور بازاروں میں نہ چلتا پھرتا ہو؟ اور تو اور ، خود عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ، جن کو عیسائیوں نے خدا کا بیٹا بنا رکھا ہے (اور جن کا مجسمہ کفار مکہ نے بھی کعبہ میں رکھ چھوڑا تھا ) انجیلوں کے اپنے بیان کے مطابق کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے بھی تھے ۔

30. یعنی رسول اور اہل ایمان کے لیے منکرین آزمائش ہیں اور منکرین کے لیے رسول اور اہل ایمان۔ منکرین نے ظلم و ستم اور جاہلانہ عداوت کی جو بھٹی گرم کر رکھی ہے وہی تو وہ ذریعہ ہے جس سے ثابت ہو گا کہ رسول اور اس کے صادق الایمان پیرو کھرا سونا ہیں ۔ کھوٹ جس میں بھی ہو گی وہ اس بھٹی سے بخیریت نہ گزر سکے گا، اور اس طرح خالص اہل ایمان کا ایک چیدہ گروہ چھٹ کر نکل آئے گا جس کے مقابلے میں پھر دنیا کی کوئی طاقت نہ ٹھیر سکے گی ۔ یہ بھٹی گرم نہ ہو تو ہر طرح کے کھوٹے اور کھرے آدمی نبی کے گرد جمع ہو جائیں گے ، اور دین کی ابتدا ہی ایک خام جماعت سے ہو گی۔ دوسری طرف منکرین کے لیے بھی رسول اور اصحاب رسول ایک سخت آزمائش ہیں ۔ ایک عام انسان کا اپنی ہی برادری کے درمیان سے یکایک نبی بنا کر اُٹھا دیا جانا، اس کے پاس کوئی فوج فرّا اور مال و دولت نہ ہونا ، اس کے ساتھ کلام الہٰی اور پاکیزہ سیرت کے سوا کوئی عجوبہ چیز نہ ہونا، اس کے ابتدائی پیروؤں میں زیادہ تر غریبوں ، غلاموں اور نو عمر لوگوں کا شامل ہونا اور اللہ تعالیٰ کا ان چند مٹھی بھر انسانوں کو گویا بھیڑیوں کے درمیان بے سہارا چھوڑ دینا، یہی وہ چھلنی ہے جو غلط قسم کے آدمیوں کو دین کی طرف آنے سے روکتی ہے اور صرف ایسے ہی لوگوں کو چھان چھان کر آگے گزارتی ہے جو حق کو پہچاننے والے اور راستی کو ماننے والے ہوں ۔ یہ چھلنی اگر نہ لگائی جاتی اور رسول بڑی شان و شوکت کے ساتھ آ کر تختِ فرماں روائی پر جلوہ گر ہوتا، خزانوں کے منہ اس کے ماننے والوں کے لیے کھول دیے جاتے ، اور سب سے پہلے بڑے بڑے رئیس آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ پر بیعت کرتے ، تو آخر کونسا دنیا پرست اور بندہ غرض انسان اتنا احمق ہو سکتا تھا کہ اس پر ایمان لانے والوں میں شامل نہ ہو جاتا ۔ اس صورت میں تو راستی پسند لوگ سب سے پیچھے رہ جاتے اور دنیا کے طالب بازی لے جاتے ۔

31. یعنی اس مصلحت کو سمجھ لینے کے بعد کیا اب تم کو صبر آگیا کہ آزمائش کی یہ حالت اس مقصد خیر کے لیے نہایت ضروری ہے جس کے لیے تم کام کر رہے ہو؟ کیا اب تم وہ چوٹیں کھانے پر راضی ہو جو اس آزمائش کے دور میں لگنی ناگزیر ہیں ؟

32. اس کے دو معنی ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد ہیں ۔ ایک یہ کہ تمہارا رب جو کچھ کر رہا ہے کچھ دیکھ کر ہی کر رہا ہے ، اس کی نگری اندھیر نگری نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ جس خلوص اور راست بازی کے ساتھ اس کٹھن خدمت کو تم انجام دے رہے ہو وہ بھی تمہارے رب کی نگاہ میں ہے ۔اور تمہاری مساعی خیر کا مقابلہ جن زیادتیوں اور بے ایمانیوں سے کیا جا رہا ہے وہ بھی اس سے کچھ چھپا ہوا نہیں ہے ۔ لہٰذا پورا اطمینان رکھو کہ نہ تم اپنی خدمات کی قدر سے محروم رہو گے اور نہ وہ اپنی زیادتیوں کے وبال سے بچے رہ جائیں گے ۔