Tafheem ul Quran

Surah 25 Al-Furqan, Ayat 21-24

وَقَالَ الَّذِيۡنَ لَا يَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا لَوۡلَاۤ اُنۡزِلَ عَلَيۡنَا الۡمَلٰٓـئِكَةُ اَوۡ نَرٰى رَبَّنَا ؕ لَـقَدِ اسۡتَكۡبَرُوۡا فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ وَعَتَوۡ عُتُوًّا كَبِيۡرًا‏ ﴿25:21﴾ يَوۡمَ يَرَوۡنَ الۡمَلٰٓـئِكَةَ لَا بُشۡرٰى يَوۡمَـئِذٍ لِّـلۡمُجۡرِمِيۡنَ وَ يَقُوۡلُوۡنَ حِجۡرًا مَّحۡجُوۡرًا‏ ﴿25:22﴾ وَقَدِمۡنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوۡا مِنۡ عَمَلٍ فَجَعَلۡنٰهُ هَبَآءً مَّنۡثُوۡرًا‏  ﴿25:23﴾ اَصۡحٰبُ الۡجَنَّةِ يَوۡمَـئِذٍ خَيۡرٌ مُّسۡتَقَرًّا وَّاَحۡسَنُ مَقِيۡلًا‏  ﴿25:24﴾

21 - جو لوگ ہمارے حضور پیش ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں ”کیوں نہ فرشتے ہمارے پاس بھیجے  جائیں؟ 33 یا پھر ہم اپنے رب کو دیکھیں۔“ 34 بڑا گھمنڈ لے بیٹھے یہ اپنے نفس میں 35 اور حد سے گزر گئے یہ اپنی سر کشی میں۔ 22 -   جس روز یہ فرشتوں کو دیکھیں گے وہ مجرموں کے لیے کسی بشارت کا دن نہ ہو گا 36 ، چیخ اُٹھیں گے کہ پناہ بخدا، 23 - اور جو کچھ بھی ان کا کیا دھرا ہے اُسے لے کر ہم غبار کی طرح اُڑا دیں گے۔ 37 24 - بس وہی لوگ جو جنّت کے مستحق ہیں اُس دن اچھی جگہ ٹھہریں گے اور دوپہر گزارنے کو عمدہ مقام پائیں گے۔ 38


Notes

33. یعنی اگر واقعی خدا کا ارادہ یہ ہے کہ ہم تک اپنا پیغام پہنچائے تو ایک نبی کو واسطہ بنا کر صرف اس کے پاس فرشتہ بھیج دینا کافی نہیں ہے ، ہر شخص کے پاس ایک فرشتہ آنا چاہیے جو اسے بتائے کہ تیرا رب تجھے یہ ہدایت دیتا ہے ۔ یا فرشتوں کا ایک وفد مجمع عام میں ہم سب کے سامنے آ جائے اور خدا کا پیغام پہنچا دے ۔ سورہ اَنعام میں بھی ان کے اس اعتراض کو نقل کیا گیا ہے : وَاِذَ ا جَآءَ تْھُمْ اٰیَۃٌ قَا لُوْ ا لَنْ نُّؤْمِنَ حتّٰی نُؤْ تٰی مِثْلَ مَآ اَوْتِیَ رُسُلُ اللہِ ؕ اَللُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَا لَتَہٗ ۔ جب کوئی آیت ان کے سامنے پیش ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم ہر گز نہ مانیں گے جب تک کہ ہمیں وہی کچھ نہ دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا ہے ۔ حالانکہ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اپنا پیغام پہنچانے کا کیا انتظام کرے ‘‘(آیت 124) ۔

34. یعنی اللہ میاں خود تشریف لے آئیں اور فرمائیں کہ بندو ، میری تم سے یہ التماس ہے ۔

35. دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے : ’’بڑی چیز سمجھ لیا اپنی دانست میں انہوں نے اپنے آپ کو‘‘۔

36. یہی مضمون سورہ اَنعام آیت 8 اور سورہ حجر آیات 7۔8 اور آیات 51 تا 64 میں تفصیل کے ساتھ بیان ہو چکا ہے ۔ اس کے علاوہ ۔ سورہ بنی اسرائیل آیات 90 تا 95 میں بھی کفار کے بہت سے عجیب و غریب مطالبات کے ساتھ اس کا ذکر کر کے جواب دیا گیا ہے ۔

37. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم۔ ابراہیم، حواشی 25 ۔ 26۔

38. یعنی میدان حشر میں جنت کے مستحق لوگوں کے ساتھ مجرمین سے مختلف معاملہ ہو گا۔ وہ عزت کے ساتھ بٹھائے جائیں گے اور روز حشر کی سخت دوپہر گزارنے کے لیے ان کو آرام کی جگہ دی جائے گی۔ اس دن کی ساری سختیاں مجرموں کے لیے ہوں گی نہ کہ نیکو کاروں کے لیے ۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے ، حضورؐ نے فرمایا والذی نفسی بیدہ اِنّہٗ لیخفف علی المؤمن حتی یکون اخف علیہ من صلوۃ مکتوبۃ یصلیھا فی الدنیا’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، قیامت کا عظیم الشان اور خوفناک دن ایک مومن کے لیے بہت ہلکا کریا جائے گا، حتیٰ کہ اتنا ہلکا جتنا دنیا میں ایک فرض نماز پڑھنے کا وقت ہوتا ہے ‘‘۔ (مسند احمد بروایت ابی سعید خدری)۔