Tafheem ul Quran

Surah 25 Al-Furqan, Ayat 21-34

وَقَالَ الَّذِيۡنَ لَا يَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا لَوۡلَاۤ اُنۡزِلَ عَلَيۡنَا الۡمَلٰٓـئِكَةُ اَوۡ نَرٰى رَبَّنَا ؕ لَـقَدِ اسۡتَكۡبَرُوۡا فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ وَعَتَوۡ عُتُوًّا كَبِيۡرًا‏ ﴿25:21﴾ يَوۡمَ يَرَوۡنَ الۡمَلٰٓـئِكَةَ لَا بُشۡرٰى يَوۡمَـئِذٍ لِّـلۡمُجۡرِمِيۡنَ وَ يَقُوۡلُوۡنَ حِجۡرًا مَّحۡجُوۡرًا‏ ﴿25:22﴾ وَقَدِمۡنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوۡا مِنۡ عَمَلٍ فَجَعَلۡنٰهُ هَبَآءً مَّنۡثُوۡرًا‏  ﴿25:23﴾ اَصۡحٰبُ الۡجَنَّةِ يَوۡمَـئِذٍ خَيۡرٌ مُّسۡتَقَرًّا وَّاَحۡسَنُ مَقِيۡلًا‏  ﴿25:24﴾ وَيَوۡمَ تَشَقَّقُ السَّمَآءُ بِالۡـغَمَامِ وَنُزِّلَ الۡمَلٰٓـئِكَةُ تَنۡزِيۡلًا‏  ﴿25:25﴾ اَلۡمُلۡكُ يَوۡمَـئِذِ اۨلۡحَـقُّ لِلرَّحۡمٰنِ​ؕ وَكَانَ يَوۡمًا عَلَى الۡكٰفِرِيۡنَ عَسِيۡرًا‏ ﴿25:26﴾ وَيَوۡمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى يَدَيۡهِ يَقُوۡلُ يٰلَيۡتَنِى اتَّخَذۡتُ مَعَ الرَّسُوۡلِ سَبِيۡلًا‏ ﴿25:27﴾ يٰوَيۡلَتٰى لَيۡتَنِىۡ لَمۡ اَتَّخِذۡ فُلَانًا خَلِيۡلًا‏ ﴿25:28﴾ لَقَدۡ اَضَلَّنِىۡ عَنِ الذِّكۡرِ بَعۡدَ اِذۡ جَآءَنِىۡ​ ؕ وَكَانَ الشَّيۡطٰنُ لِلۡاِنۡسَانِ خَذُوۡلًا‏ ﴿25:29﴾ وَقَالَ الرَّسُوۡلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِى اتَّخَذُوۡا هٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَهۡجُوۡرًا‏  ﴿25:30﴾ وَكَذٰلِكَ جَعَلۡنَا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوًّا مِّنَ الۡمُجۡرِمِيۡنَ​ؕ وَكَفٰى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَّنَصِيۡرًا‏ ﴿25:31﴾ وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَوۡلَا نُزِّلَ عَلَيۡهِ الۡـقُرۡاٰنُ جُمۡلَةً وَّاحِدَةً​  ​ۛۚ كَذٰلِكَ ​ۛۚ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُـؤَادَكَ​ وَرَتَّلۡنٰهُ تَرۡتِيۡلًا‏  ﴿25:32﴾ وَلَا يَاۡتُوۡنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئۡنٰكَ بِالۡحَـقِّ وَاَحۡسَنَ تَفۡسِيۡرًا ؕ‏ ﴿25:33﴾ اَلَّذِيۡنَ يُحۡشَرُوۡنَ عَلٰى وُجُوۡهِهِمۡ اِلٰى جَهَـنَّمَۙ اُولٰٓـئِكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّاَضَلُّ سَبِيۡلًا‏ ﴿25:34﴾

21 - جو لوگ ہمارے حضور پیش ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں ”کیوں نہ فرشتے ہمارے پاس بھیجے  جائیں؟ 33 یا پھر ہم اپنے رب کو دیکھیں۔“ 34 بڑا گھمنڈ لے بیٹھے یہ اپنے نفس میں 35 اور حد سے گزر گئے یہ اپنی سر کشی میں۔ 22 -   جس روز یہ فرشتوں کو دیکھیں گے وہ مجرموں کے لیے کسی بشارت کا دن نہ ہو گا 36 ، چیخ اُٹھیں گے کہ پناہ بخدا، 23 - اور جو کچھ بھی ان کا کیا دھرا ہے اُسے لے کر ہم غبار کی طرح اُڑا دیں گے۔ 37 24 - بس وہی لوگ جو جنّت کے مستحق ہیں اُس دن اچھی جگہ ٹھہریں گے اور دوپہر گزارنے کو عمدہ مقام پائیں گے۔ 38 25 - آسمان کو چیرتا ہوا ایک بادل اُس روز نمودار ہوگا اور فرشتوں کے پرے کے پرے اُتار دیے جائیں گے۔ 26 - اُس روز حقیقی بادشاہی صرف رحمٰن کی ہوگی۔ 39 اور وہ منکرین کے لیے بڑا سخت دن ہوگا۔ 27 - ظالم انسان اپنا ہاتھ چبائے گا اور کہے گا” کاش میں نے رسُولؐ کا ساتھ دیا ہوتا۔ 28 - ہائے میرے کم بختی، کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ 29 - اُس کے بہکائے میں آکر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی، شیطان انسان کے حق میں بڑا ہی بے وفا نِکلا۔“ 40 30 - اور رسُولؐ کہے گا کہ ”اے میرے ربّ، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانہٴ تضحیک 41 بنا لیا تھا۔“ 31 - اے محمدؐ، ہم نے تو اِسی طرح مجرموں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے 42 اور تمہارے لیے تمہارا ربّ ہی رہنمائی اور مدد کو کافی ہے۔ 43 32 - منکرین کہتے ہیں” اِس شخص پر سارا قرآن ایک ہی وقت میں کیوں نہ اُتار دیا گیا؟“ 44 ۔۔۔۔ ہاں، ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ اس کو اچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے رہیں 45 اور (اسی غرض کے لیے )ہم نے اس کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی ہے۔ 33 - اور (اس میں یہ مصلحت بھی ہے)کہ جب کبھی وہ تمہارے سامنے کوئی نرالی بات (یا عجیب سوال)لے کر آئے، اُس کا ٹھیک جواب بر وقت ہم نے تمہیں دے دیا اور بہترین طریقے سے بات کھول دی 46 34 - ۔۔۔۔ جو لوگ اوندھے منہ جہنّم کی طرف دھکیلے جانے والے ہیں ان کا موقف بہت بُرا اور ان کی راہ حد درجہ غلط ہے۔ 47    ؏ ۳


Notes

33. یعنی اگر واقعی خدا کا ارادہ یہ ہے کہ ہم تک اپنا پیغام پہنچائے تو ایک نبی کو واسطہ بنا کر صرف اس کے پاس فرشتہ بھیج دینا کافی نہیں ہے ، ہر شخص کے پاس ایک فرشتہ آنا چاہیے جو اسے بتائے کہ تیرا رب تجھے یہ ہدایت دیتا ہے ۔ یا فرشتوں کا ایک وفد مجمع عام میں ہم سب کے سامنے آ جائے اور خدا کا پیغام پہنچا دے ۔ سورہ اَنعام میں بھی ان کے اس اعتراض کو نقل کیا گیا ہے : وَاِذَ ا جَآءَ تْھُمْ اٰیَۃٌ قَا لُوْ ا لَنْ نُّؤْمِنَ حتّٰی نُؤْ تٰی مِثْلَ مَآ اَوْتِیَ رُسُلُ اللہِ ؕ اَللُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَا لَتَہٗ ۔ جب کوئی آیت ان کے سامنے پیش ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم ہر گز نہ مانیں گے جب تک کہ ہمیں وہی کچھ نہ دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا ہے ۔ حالانکہ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اپنا پیغام پہنچانے کا کیا انتظام کرے ‘‘(آیت 124) ۔

34. یعنی اللہ میاں خود تشریف لے آئیں اور فرمائیں کہ بندو ، میری تم سے یہ التماس ہے ۔

35. دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے : ’’بڑی چیز سمجھ لیا اپنی دانست میں انہوں نے اپنے آپ کو‘‘۔

36. یہی مضمون سورہ اَنعام آیت 8 اور سورہ حجر آیات 7۔8 اور آیات 51 تا 64 میں تفصیل کے ساتھ بیان ہو چکا ہے ۔ اس کے علاوہ ۔ سورہ بنی اسرائیل آیات 90 تا 95 میں بھی کفار کے بہت سے عجیب و غریب مطالبات کے ساتھ اس کا ذکر کر کے جواب دیا گیا ہے ۔

37. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم۔ ابراہیم، حواشی 25 ۔ 26۔

38. یعنی میدان حشر میں جنت کے مستحق لوگوں کے ساتھ مجرمین سے مختلف معاملہ ہو گا۔ وہ عزت کے ساتھ بٹھائے جائیں گے اور روز حشر کی سخت دوپہر گزارنے کے لیے ان کو آرام کی جگہ دی جائے گی۔ اس دن کی ساری سختیاں مجرموں کے لیے ہوں گی نہ کہ نیکو کاروں کے لیے ۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے ، حضورؐ نے فرمایا والذی نفسی بیدہ اِنّہٗ لیخفف علی المؤمن حتی یکون اخف علیہ من صلوۃ مکتوبۃ یصلیھا فی الدنیا’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، قیامت کا عظیم الشان اور خوفناک دن ایک مومن کے لیے بہت ہلکا کریا جائے گا، حتیٰ کہ اتنا ہلکا جتنا دنیا میں ایک فرض نماز پڑھنے کا وقت ہوتا ہے ‘‘۔ (مسند احمد بروایت ابی سعید خدری)۔

39. یعنی وہ ساری مجازی بادشاہیاں اور ریاستیں ختم ہو جائیں گی جو دنیا میں انسان کو دھوکے میں ڈالتی ہیں ۔ وہاں صرف ایک بادشاہی باقی رہ جائے گی اور وہ وہی اللہ کی بادشاہی ہے جو اس کائنات کا حقیقی فرمانروا ہے ۔ سورہ مومن میں ارشاد ہوا ہے یَوْمَ ھُمْ بٰرِزُوْنَ لَا یَخْفٰی عَلَاللہِ مِنْہُمْ شَیْءٌ ، لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ، لِلہِ الوَاح،دِ الْقَھَّا رِ ۔’’ وہ دن جب کہ یہ سب لوگ بے نقاب ہوں گے ، اللہ سے ان کی کوئی چیز چھپی ہوئی نہ ہو گی۔ پوچھا جائے گا آج بادشاہی کس کی ہے ؟ ہر طرف سے جواب آئے گا اکیلے اللہ کی جو سب پر غالب ہے ‘‘ (آیت 16)۔ حدیث میں اس مضمون کو اور زیادہ کھول دیا گیا ہے ۔ حضورؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایک ہاتھ میں آسمانوں اور دوسرے ہاتھ میں زمین کو لے کر فرمائے گا : انا الملک، اناالدیان، این ملوک الارض؟ این المتکبرون؟ ’’ میں ہوں بادشاہ، میں ہوں فرمانروا، اب کہاں ہیں وہ زمین کے بادشاہ؟ کہاں ہیں وہ جبار؟ کہاں ہیں وہ متکبر لوگ ؟‘‘(یہ روایت مسند احمد، بخاری، مسلم، اور ابو داؤد میں تھوڑے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ بیان ہوئی ہے )۔

40. ہو سکتا ہے کہ یہ بھی کافر ہی کے قول کا ایک حصہ ہو۔ اور ہو سکتا ہے کہ یہ اس کے قول پر اللہ تعالیٰ کا اپنا ارشاد ہو۔ اس دوسری صورت میں مناسب ترجمہ یہ ہو گا‘‘ اور شیطان تو ہے ہی انسان کو عین وقت پر دغا دینے والا‘‘۔

41. اصل میں لفظ مھجور استعمال ہوا ہے جس کے کئی معنی ہیں ۔ اگر اسے ھَجْر سے مشتق مانا جائے تو معنی ہوں گے متروک ، یعنی ان لوگوں نے قرآن کو قابل التفات ہی نہ سمجھا، نہ اسے قبول کیا اور نہ اس سے کوئی اثر لیا ۔ اور اگر ھُجْر سے مشتق مانا جائے تو اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ انہوں نے اسے ہذیان اور بکواس سمجھا۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے اسے اپنے ہذیان اور اپنی بکواس کا ہدف بنا لیا اور اس پر طرح طرح کی باتیں چھانٹتے رہے ۔

42. یعنی آج جو دشمنی تمہارے ساتھ کی جا رہی ہے ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ جب کوئی نبی حق اور راستی کی دعوت دینے اٹھا تو وقت کے سارے جرائم پیشہ لوگ ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئے ۔ یہ مضمون سورہ اَنعام آیات 112۔ 113 میں بھی گزر چکا ہے ۔

اور یہ جو فرمایا کہ ہم نے ان کو دشمن بنایا ہے ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا قانون فطرت یہی کچھ ہے ، لہٰذا ہماری اس مشیت پر صبر کرو، اور قانون فطرت کے تحت جن حالات سے دو چار ہونا نا گزیر ہے ان کا مقابلہ ٹھنڈے دل اور مضبوط عزم کے ساتھ کرتے چلے چاؤ ۔ اس بات کی امید نہ رکھو کہ ادھر تم نے حق پیش کیا اور ادھر ایک دنیا کی دنیا اسے قبول کرنے کے لیے امنڈ آئے گی اور سارے غلط کار اپنی اپنی غلط کاریوں سے تائب ہو کر اسے ہاتھوں ہاتھ لینے لگیں گے ۔

43. رہنمائی سے مراد صرف علم حق عطا کرنا ہی نہیں ہے ، بلکہ تحریک اسلامی کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے ، اور دشمنوں کی چالوں کو شکست دینے کے لیے بر وقت صحیح تدبیریں سمجھانا بھی ہے ۔ اور مدد سے مراد ہر قسم کی مدد ہے ۔ حق اور باطل کی کشمکش میں جتنے محاذ بھی کھلیں ، ہر ایک پر اہل حق کی تائید میں کمک پہنچانا اللہ کا کام ہے ۔ دلیل کی لڑائی ہو تو وہی اہل حق کو حجت بالغہ عطا کرتا ہے ۔ اخلاق کی لڑائی ہو تو وہی ہر پہلو سے اہل حق کو اخلاقی برتری عطا فرماتا ہے ۔ تنظیم کا مقابلہ ہو تو وہی باطل پرستوں کے دل پھاڑتا اور اہل حق کے دل جوڑتا ہے ۔ مادّی وسائل کی ضرورت ہو، تو وہی اہل حق کے تھوڑے مال و اسباب میں وہ برکت دیتا ہے کہ اہل باطل کے وسائل کی فراوانی ان کے مقابلے میں محض دھوکے کی ٹٹی ثابت ہوتی ہے ۔ غرض کوئی پہلو مدد اور راہ نمائی کا ایسا نہیں ہے جس میں اہل حق کے لیے اللہ کافی نہ ہو اور انہیں کسی دوسرے سہارے کی حاجت ہو، بشرطیکہ وہ اللہ کی کفایت پر ایمان و اعتماد رکھیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں بلکہ سر گرمی کے ساتھ باطل کے مقابلے میں حق کی سر بلندی کے لیے جانیں لڑائیں ۔

یہ بات نگاہ میں رہے کہ آیت کا یہ دوسرا حصہ نہ ہوتا تو پہلا حصہ انتہائی دل شکن تھا ۔ اس سے بڑھ کر ہمت توڑ دینے والی چیز اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک شخص کو یہ خبر دی جائے کہ ہم نے جان بوجھ کر تیرے سپرد ایک ایسا کام کیا ہے جسے شروع کرتے ہی دنیا بھر کے کتّے اور بھیڑیے تجھے لپٹ جائیں گے ۔ لیکن اس اطلاع کی ساری خوفناکی یہ حرف تسلی سن کر دور ہو جاتی ہے کہ اس جاں گُسِل کشمکش کے میدان میں اتار کر ہم نے تجھے اکیلا نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ ہم خود تیری حمیت کو موجود ہیں ۔ ایمان دل میں ہو تو اس سے بڑھ کر ہمت دلانے والی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ خدا وند عالم آپ ہماری مدد اور رہنمائی کا ذمہ لے رہا ہے ۔ اس کے بعد تو صرف ایک کم اعتقاد بزدل ہی میدان میں آگے بڑھنے سے ہچکچا سکتا ہے ۔

44. یہ کفار مکہ کا بڑا دل پسند اعتراض تھا جسے وہ اپنے نزدیک نہایت زور دار اعتراض سمجھ کر بار بار دہراتے تھے ، اور قرآن میں بھی اس کو متعدد مقامات پر نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے (تفہیم القرآن، جلد دوم، النحل حواشی 101 تا 106 بنی اسرائیل ، حاشیہ 119) ان کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ اگر یہ شخص خود سوچ سوچ کر ، یا کسی سے پوچھ پوچھ کر اور کتابوں میں سے نقل کر کر کے یہ مضامین نہیں لا رہا ہے ، بلکہ یہ واقعی خدا کی کتاب ہے تو پوری کتاب اکٹھی ایک وقت میں کیوں نہیں آ جاتی۔ خدا تو جانتا ہے کہ پوری بات کیا ہے جو وہ فرمانا چاہتا ہے ۔ وہ نازل کرنے والا ہوتا تو سب کچھ بیک وقت فرما دیتا ۔ یہ جو سوچ سوچ کر کبھی کچھ مضمون لایا جاتا ہے اور کبھی کچھ، یہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ وحی اوپر سے نہیں آتی، یہیں کہیں سے حاصل کی جاتی ہے ، یا خود گھڑ گھڑ کر لائی جاتی ہے ۔

45. دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ اس کے ذریعہ سے ہم تمہارا دل مضبوط کرتے رہیں ‘‘ یا ’’تمہاری ہمت بندھاتے رہیں ‘‘۔ الفاظ دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں اور دونوں ہی مراد بھی ہیں ۔ اس طرح ایک ہی فقرے میں قرآن کو بتدریج نازل کرنے کی بہت سی حکمتیں بیان کر دی گئی ہیں :

1: وہ لفظ بلفظ حافظہ میں محفوظ ہو سکے ، کیونکہ اس کی تبلیغ و اشاعت تحریری صورت میں نہیں بلکہ ایک اَن پڑھ نبی کے ذریعہ سے ان پڑھ قوم میں زبانی تقریر کی شکل میں ہو رہی ہے ۔

2 : اس کی تعلیمات اچھی طرح ذہن نشین ہو سکیں ۔اس کے لیے ٹھیر ٹھیر کر تھوڑی تھوڑی بات کہنا اور ایک ہی بات کو مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے بیان کر زیادہ مفید ہے ۔

3: اس کے بتائے ہوئے طریق زندگی پر دل جمتا جائے ۔ اس کے لیے احکام و ہدایات کا بتدریج نازل کرنا زیادہ مبنی پر حکمت ہے ، ورنہ اگر سارا قانون اور پورا نظام حیات بیک وقت بیان کر کے اسے قائم کرنے کا حکم دے دیا جائے تو ہوش پراگندہ ہو جائیں ۔ علاوہ بریں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر حکم اگر مناسب موقع پر دیا جائے تو اس کی حکمت اور روح زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے ، بہ نسبت اس کے کہ تمام احکام دفعہ وار مرتب کر کے بیک وقت دے دیے گئے ہوں ۔

4: تحریک اسلامی کے دوران میں جب کہ حق اور باطل کی مسلسل کشمکش چل رہی ہو، نبی اور اس کے پیروؤں کی ہمت بندھائی جاتی رہے اس کے لیے خدا کی طرف سے بار بار، وقتاً فوقتاً ، موقع بموقع پیغام آنا زیادہ کار گر ہے بہ نسبت اس کے کہ بس ایک دفعہ ایک لمبا چوڑا ہدایت نامہ دے کر عمر بھر کے لیے دنیا بھر کی مزاحمتوں کا مقابلہ کرنے کو یونہی چھوڑ دیا جائے ۔ پہلی صورت میں آدمی محسوس کرتا ہے کہ جس خدا نے اس کام پر مامور کیا ہے ، وہ اس کی طرف متوجہ ہے ، اس کے کام سے دلچسپی لے رہا ہے ، اس کے حالات پر نگاہ رکھتا ہے ، اس کی مشکلات میں رہنمائی کر رہا ہے ، اور ہر ضرورت کے موقع پر اسے شرفِ بار یابی و مخاطبت عطا فرما کر اس کے ساتھ اپنے تعلق کو تازہ کرتا رہتا ہے ۔ یہ چیز حوصلہ بڑھانے والی اور عزم کو مضبوط رکھنے والی ہے دوسری صورت میں آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بس وہ ہے اور طوفان کی موجیں ۔

46. یہ نزول قرآن میں تدریج کا طریقہ اختیار کرنے کی ایک اور حکمت ہے ۔ قرآن مجید کی شان نزول یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ’’ہدایت‘‘ کے موضوع پر ایک کتاب تصنیف کرنا چاہتا ہے اور اس کی اشاعت کے لیے اس نے نبی کو ایجنٹ بنایا ہے ۔ بات اگر یہی ہوتی تو یہ مطالبہ بجا ہوتا کہ پوری کتاب تصنیف کر کے بیک وقت ایجنٹ کے حوالے کر دی جائے ۔ لیکن در اصل اس کی شان نزول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کفر اور جاہلیت اور فسق کے مقابلہ میں ایمان و اسلام اور اطاعت و تقویٰ کی ایک تحریک برپا کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے اس نے ایک نبی کو داعی و قائد بنا کر اٹھایا ہے ۔ اس تحریک کے دوران میں اگر ایک طرف قائد اور اس کے پیروؤں کو حسب ضرورت تعلیم اور ہدایت دینا اس نے اپنے ذمہ لیا ہے تو دوسری طرف یہ کام بھی اپنے ہی ذمہ رکھا ہے کہ مخالفین جب کبھی کوئی اعتراض یا شبہہ یا الجھن پیش کریں اسے وہ صاف کر دے ۔ اور جب بھی وہ کسی بات کو غلط معنی پہنائیں وہ اس کی صحیح تشریح و تفسیر کر دے ۔ ان مختلف ضروریات کے لیے جو تقریریں اللہ کی طرف سے نازل ہو رہی ہیں ان کے مجموعے کا نام قرآن ہے ، اور یہ ایک کتاب آئین یا کتاب اخلاق و فلسفہ نہیں بلکہ کتاب تحریک ہے جس کے معرض وجود میں آنے کی صحیح فطری صورت یہی ہے کہ تحریک کے اول لمحہ آغاز کے ساتھ شروع ہو اور آخری لمحات تک جیسے جیسے تحریک چلتی رہے یہ بھی ساتھ ساتھ حسب موقع و ضرورت نازل ہوتی رہے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، صفحہ 13 تا 25) ۔

47. یعنی جو لوگ سیدھی بات کو الٹی طرح سوچتے ہیں اور الٹے نتائج نکالتے ہیں ان کی عقل اوندھی ہے ۔ اسی وجہ سے وہ قرآن کی حقانیت پر دلالت کرنے والی حقیقتوں کو اس کے بطلان پر دلیل قرار دے رہے ہیں ، اور اسی وجہ سے وہ اوندھے منہ جہنم کی طرف گھسیٹے جائیں گے ۔