39. یعنی وہ ساری مجازی بادشاہیاں اور ریاستیں ختم ہو جائیں گی جو دنیا میں انسان کو دھوکے میں ڈالتی ہیں ۔ وہاں صرف ایک بادشاہی باقی رہ جائے گی اور وہ وہی اللہ کی بادشاہی ہے جو اس کائنات کا حقیقی فرمانروا ہے ۔ سورہ مومن میں ارشاد ہوا ہے یَوْمَ ھُمْ بٰرِزُوْنَ لَا یَخْفٰی عَلَاللہِ مِنْہُمْ شَیْءٌ ، لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ، لِلہِ الوَاح،دِ الْقَھَّا رِ ۔’’ وہ دن جب کہ یہ سب لوگ بے نقاب ہوں گے ، اللہ سے ان کی کوئی چیز چھپی ہوئی نہ ہو گی۔ پوچھا جائے گا آج بادشاہی کس کی ہے ؟ ہر طرف سے جواب آئے گا اکیلے اللہ کی جو سب پر غالب ہے ‘‘ (آیت 16)۔ حدیث میں اس مضمون کو اور زیادہ کھول دیا گیا ہے ۔ حضورؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایک ہاتھ میں آسمانوں اور دوسرے ہاتھ میں زمین کو لے کر فرمائے گا : انا الملک، اناالدیان، این ملوک الارض؟ این المتکبرون؟ ’’ میں ہوں بادشاہ، میں ہوں فرمانروا، اب کہاں ہیں وہ زمین کے بادشاہ؟ کہاں ہیں وہ جبار؟ کہاں ہیں وہ متکبر لوگ ؟‘‘(یہ روایت مسند احمد، بخاری، مسلم، اور ابو داؤد میں تھوڑے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ بیان ہوئی ہے )۔
40. ہو سکتا ہے کہ یہ بھی کافر ہی کے قول کا ایک حصہ ہو۔ اور ہو سکتا ہے کہ یہ اس کے قول پر اللہ تعالیٰ کا اپنا ارشاد ہو۔ اس دوسری صورت میں مناسب ترجمہ یہ ہو گا‘‘ اور شیطان تو ہے ہی انسان کو عین وقت پر دغا دینے والا‘‘۔
41. اصل میں لفظ مھجور استعمال ہوا ہے جس کے کئی معنی ہیں ۔ اگر اسے ھَجْر سے مشتق مانا جائے تو معنی ہوں گے متروک ، یعنی ان لوگوں نے قرآن کو قابل التفات ہی نہ سمجھا، نہ اسے قبول کیا اور نہ اس سے کوئی اثر لیا ۔ اور اگر ھُجْر سے مشتق مانا جائے تو اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ انہوں نے اسے ہذیان اور بکواس سمجھا۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے اسے اپنے ہذیان اور اپنی بکواس کا ہدف بنا لیا اور اس پر طرح طرح کی باتیں چھانٹتے رہے ۔
42. یعنی آج جو دشمنی تمہارے ساتھ کی جا رہی ہے ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ جب کوئی نبی حق اور راستی کی دعوت دینے اٹھا تو وقت کے سارے جرائم پیشہ لوگ ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئے ۔ یہ مضمون سورہ اَنعام آیات 112۔ 113 میں بھی گزر چکا ہے ۔
اور یہ جو فرمایا کہ ہم نے ان کو دشمن بنایا ہے ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا قانون فطرت یہی کچھ ہے ، لہٰذا ہماری اس مشیت پر صبر کرو، اور قانون فطرت کے تحت جن حالات سے دو چار ہونا نا گزیر ہے ان کا مقابلہ ٹھنڈے دل اور مضبوط عزم کے ساتھ کرتے چلے چاؤ ۔ اس بات کی امید نہ رکھو کہ ادھر تم نے حق پیش کیا اور ادھر ایک دنیا کی دنیا اسے قبول کرنے کے لیے امنڈ آئے گی اور سارے غلط کار اپنی اپنی غلط کاریوں سے تائب ہو کر اسے ہاتھوں ہاتھ لینے لگیں گے ۔
43. رہنمائی سے مراد صرف علم حق عطا کرنا ہی نہیں ہے ، بلکہ تحریک اسلامی کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے ، اور دشمنوں کی چالوں کو شکست دینے کے لیے بر وقت صحیح تدبیریں سمجھانا بھی ہے ۔ اور مدد سے مراد ہر قسم کی مدد ہے ۔ حق اور باطل کی کشمکش میں جتنے محاذ بھی کھلیں ، ہر ایک پر اہل حق کی تائید میں کمک پہنچانا اللہ کا کام ہے ۔ دلیل کی لڑائی ہو تو وہی اہل حق کو حجت بالغہ عطا کرتا ہے ۔ اخلاق کی لڑائی ہو تو وہی ہر پہلو سے اہل حق کو اخلاقی برتری عطا فرماتا ہے ۔ تنظیم کا مقابلہ ہو تو وہی باطل پرستوں کے دل پھاڑتا اور اہل حق کے دل جوڑتا ہے ۔ مادّی وسائل کی ضرورت ہو، تو وہی اہل حق کے تھوڑے مال و اسباب میں وہ برکت دیتا ہے کہ اہل باطل کے وسائل کی فراوانی ان کے مقابلے میں محض دھوکے کی ٹٹی ثابت ہوتی ہے ۔ غرض کوئی پہلو مدد اور راہ نمائی کا ایسا نہیں ہے جس میں اہل حق کے لیے اللہ کافی نہ ہو اور انہیں کسی دوسرے سہارے کی حاجت ہو، بشرطیکہ وہ اللہ کی کفایت پر ایمان و اعتماد رکھیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں بلکہ سر گرمی کے ساتھ باطل کے مقابلے میں حق کی سر بلندی کے لیے جانیں لڑائیں ۔
یہ بات نگاہ میں رہے کہ آیت کا یہ دوسرا حصہ نہ ہوتا تو پہلا حصہ انتہائی دل شکن تھا ۔ اس سے بڑھ کر ہمت توڑ دینے والی چیز اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک شخص کو یہ خبر دی جائے کہ ہم نے جان بوجھ کر تیرے سپرد ایک ایسا کام کیا ہے جسے شروع کرتے ہی دنیا بھر کے کتّے اور بھیڑیے تجھے لپٹ جائیں گے ۔ لیکن اس اطلاع کی ساری خوفناکی یہ حرف تسلی سن کر دور ہو جاتی ہے کہ اس جاں گُسِل کشمکش کے میدان میں اتار کر ہم نے تجھے اکیلا نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ ہم خود تیری حمیت کو موجود ہیں ۔ ایمان دل میں ہو تو اس سے بڑھ کر ہمت دلانے والی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ خدا وند عالم آپ ہماری مدد اور رہنمائی کا ذمہ لے رہا ہے ۔ اس کے بعد تو صرف ایک کم اعتقاد بزدل ہی میدان میں آگے بڑھنے سے ہچکچا سکتا ہے ۔