48. یہاں کتاب سے مراد غالباً وہ کتاب نہیں جو توراۃ کے نام سے معروف ہے اور مصر سے نکلنے کے بعد حضرت موسیٰؑ کو دی گئی تھی، بلکہ اس سے مراد وہ ہدایات ہیں جو نبوت کے منصب پر مامور ہونے کے وقت سے لے کر خروج تک حضرت موسیٰؑ کو دی جاتی رہیں ۔ ان میں وہ خطبے بھی شامل ہیں جو حضرت موسیٰ نے فرعون کے دربار میں دیے ، اور وہ ہدایات بھی شامل ہیں جو فرعون کے خلاف جدوجہد کے دوران میں آپ کو دی جاتی رہیں ۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ ان چیزوں کا ذکر ہے ، مگر اغلب یہ ہے کہ یہ چیزیں توراۃ میں شامل نہیں کی گئیں ۔ توراۃ کا آغاز ان احکام عشر سے ہوتا ہے جو خروج کے بعد طور سینا پر سنگین کتبوں کی شکل میں آپ کو دیے گئے تھے ۔
49. یعنی ان آیات کو جو حضرت یعقوب اور یوسف علیہم السلام کے ذریعے سے ان کو پہنچی تھیں ، اور جن کی تبلیغ بعد میں ایک مدت تک بنی اسرائیل کے صلحاء کرتے رہے ۔
50. چونکہ انہوں نے سرے سے یہی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ بشر کبھی رسول بن کر آ سکتا ہے ، اس لیے ان کی تکذیب تنہا حضرت نوح کی تکذیب ہی نہ تھی بلکہ بجائے خود منصب نبوت کی تکذیب تھی۔
51. یعنی آخرت کا عذاب۔
52. اصحاب الرس کے متعلق تحقیق نہ ہو سکا کہ یہ کون لوگ تھے ۔ مفسرین نے مختلف روایات بیان کی ہیں مگر ان میں کوئی چیز قابل اطمینان نہیں ہے ۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہا جا سکتا ہے وہ یہی ہے کہ یہ ایک ایسی قوم تھی جس نے اپنے پیغمبر کو کنوئیں میں پھینک کر یا لٹکا کر مارا تھا۔ رَس عربی زبان میں پرانے کنوئیں یا اندھے کنوئیں کو کہتے ہیں ۔
53. یعنی قوم لوط کی بستی۔ بدترین بارش سے مراد پتھروں کی بارش ہے جس کا ذکر کئی جگہ قرآن مجید میں آیا ہے۔ اہل حجاز کے قافلے فلسطین و شام جاتے ہوئے اس علاقے سے گزرتے تھے اور نہ صرف تباہی کے آثار دیکھتے تھے بلکہ آس پاس کے باشندوں سے قوم لوط کی عبرت ناک داستانیں بھی سنتے رہتے تھے ۔
54. یعنی چونکہ یہ آخرت کے قائل نہیں ہیں اس لیے ان آثار قدیمہ کا مشاہدہ انہوں نے محض ایک تماشائی کی حیثیت سے کیا، ان سے کوئی عبرت حاصل نہ کی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کے قائل کی نگاہ اور اس کے منکر کی نگاہ میں کتنا بڑا فرق ہوتا ہے ۔ ایک تماشا دیکھتا ہے ، یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ تاریخ مرتب کرتا ہے ۔ دوسرا انہی چیزوں سے اخلاقی سبق لیتا ہے اور زندگی سے ماوراء حقیقتوں تک رسائی حاصل کرتا ہے ۔
55. کفار کی یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے متضاد ہیں ۔ پہلی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کو حقیر سمجھ رہے ہیں اور مذاق اڑا کر آپ کی قدر گرانا چاہتے ہیں ، گویا ان کے نزدیک آنحضرت نے اپنی حیثیت سے بہت اونچا دعویٰ کر دیا تھا ۔ دوسری بات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کے دلائل کی قوت اور آپ کی شخصیت کا لوہا مان رہے ہیں اور بے ساختہ اعتراف کرتے ہیں کہ اگر اہم تعصب اور ہٹ دھرمی سے کام لے کر اپنے خداؤں کی بندگی پر جم نہ گئے ہوتے تو یہ شخص ہمارے قدم اکھاڑ چکا ہوتا ۔ یہ متضاد باتیں خود بتا رہی ہیں کہ اسلامی تحریک نے ان لوگوں کو کس قدر بوکھلا دیا تھا۔ کھسیانے ہو کر مذاق بھی اڑاتے تھے تو احساس کمتری بِلا ارادہ ان کی زبان سے وہ باتیں نکلوا دیتا تھا جن سے صاف ظاہر ہو جاتا تھا کہ دلوں میں وہ اس طاقت سے کس قدر مرعوب ہیں ۔
56. خواہش نفس کو خدا بنا لینے سے مراد اس کی بندگی کرنا ہے ، اور یہ بھی حقیقت کے اعتبار سے ویسا ہی شرک ہے جیسا بُت کو پوجنا یا کسی مخلوق کو معبود بنانا ۔ حضرت ابو امامہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ماتحت ظل السمآء من الٰہ یعبد من دون اللہ تعالیٰ اعظم عند اللہ عزوجل من ھوی یتبع، ’’اس آسمان کے نیچے اللہ تعالیٰ کے سوا جتنے معبود بھی پوجے جا رہے ہیں ان میں اللہ کے نزدیک بد ترین معبود وہ خواہش نفس ہے جس کی پیروی کی جا رہی ہو‘‘۔ (طبرانی) ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الکہف، حاشیہ 50 ۔ جو شخص اپنی خواہش کو عقل کے تابع رکھتا ہو اور عقل سے کام لے کر فیصلہ کرتا ہو کہ اس کے لیے صحیح راہ کون سی ہے اور غلط کونسی، وہ اگر کسی قسم کے شرک یا کفر میں مبتلا بھی ہو تو اس کو سمجھا کر سیدھی راہ پر لایا جا سکتا ہے ، اور یہ اعتماد بھی کیا جا سکتا ہے کہ جب وہ راہ راست اختیار کرنے کا فیصلہ کر لے گا تو اس پر ثابت قدم رہے گا۔ لیکن نفس کا بندہ اور خواہشات کا غلام ایک شتر بے مہار ہے ۔ اسے تو اس کی خواہشات جدھر جدھر لے جائیں گی وہ ان کے ساتھ ساتھ بھٹکتا پھرے گا۔ اس کو سرے سے یہ فکر ہی نہیں ہے کہ صحیح و غلط اور حق و باطل میں تمیز کرے اور ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرے ۔ پھر بھلا کون اسے سمجھا کر راستی کا قائل کر سکتا ہے ۔ اور بالفرض اگر وہ بات مان بھی لے تو اسے کسی ضابطہ اخلاق کا پابند بنا دینا تو کسی انسان کے بس میں نہیں ہے ۔
57. یعنی جس طرح بھیڑ بکریوں کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ ہانکنے والا انہیں چراگاہ کی طرف لے جا رہا ہے یا بوچڑ خانے کی طرف ۔ وہ بس آنکھیں بند کر کے ہانکنے والے کے اشاروں پر چلتی رہتی ہیں ۔ اسی طرح یہ عوام الناس بھی اپنے شیطان نفس اور اپنے گمراہ کن لیڈروں کے اشاروں پر آنکھیں بند کیے چلے جار ہے ہیں ، کچھ نہیں جانتے کہ وہ انہیں فلاح کی طرف ہانک رہے ہیں یا تباہی و بر بادی کی طرف ۔ اس حد تک تو ان کی حالت بھیڑ بکریوں کے مشابہ ہے ۔ لیکن بھیڑ بکریوں کو خدا نے عقل و شعور سے نہیں نوازا ہے ۔ وہ اگر چرواہے اور قصائی میں امتیاز نہیں کرتیں تو کچھ عیب نہیں ۔ البتہ حیف ہے ان انسانوں پر جو خدا سے عقل و شعور کی نعمتیں پاکر بھی اپنے آپ کو بھیڑ بکریوں کی سی غفلت و بے شعوری میں مبتلا کر لیں ۔
کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ اس تقریر کا منشا تبلیغ کو لا حاصل قرار دینا ہے ، اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کر کے یہ باتیں اس لیے فرمائی جا رہی ہیں کہ لوگوں کو سمجھانے کی فضول کوشش چھوڑ دیں ۔ نہیں ، اس تقریر کے اصل مخاطب سامعین ہی ہیں ، اگر چہ روئے سخن بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہے ۔ دراصل سنانا ان کو مقصود ہے کہ غافلو ، یہ کس حال میں پڑے ہوئے ہو۔ کیا خدا نے تمہیں سمجھ بوجھ اس لیے دی تھی کہ دنیا میں جانوروں کی طرح زندگی بسر کرو؟