58. یہاں لفظ دلیل ٹھیک اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جس میں انگریزی لفظ (Pilot) استعمال ہوتا ہے ۔ ملاحوں کی اصطلاح میں دلیل اس شخص کو کہتے ہیں جو کشتیوں کو راستہ بتاتا ہوا چلے ۔ سائے پر سورج کو دلیل بنانے کا مطلب یہ ہے کہ سائے کا پھیلنا اور سکڑنا سورج کے عروج و زوال اور طلوع و غروب کا تابع ہے ۔
سائے سے مراد روشنی اور تاریکی کے بین بین وہ درمیانی حالت ہے جو صبح کے وقت طلوع آفتاب سے پہلے ہوتی ہے اور دن میں بھی مکانوں میں ، دیواروں کی اوٹ میں اور درختوں کے نیچے رہتی ہے ۔
59. اپنی طرف سمیٹنے سے مرد غائب اور فنا کرنا ہے ، کیونکہ ہر چیز جو فنا ہوتی ہے وہ اللہ ہی کی طرف پلٹتی ہے ۔ ہر شے اسی کی طرف سے آتی ہے اور اسی کی طرف جاتی ہے ۔
اس آیت کے دو رخ ہیں ۔ ایک ظاہری، دوسرا باطنی ۔ ظاہر کے اعتبار سے یہ غفلت میں پڑے ہوئے مشرکین کو بتا رہی ہے کہ اگر تم دنیا میں جانوروں کی طرح نہ جیتے اور کچھ عقل و ہوش کی آنکھوں سے کام لیتے تو یہی سایہ جس کا تم ہر وقت مشاہدہ کرتے ہو، تمہیں یہ سبق دینے کے لیے کافی تھا کہ نبی جس توحید کی تعلیم تمہیں دے رہا ہے وہ بالکل بر حق ہے ۔ تمہاری ساری زندگی اسی سائے کے مد و جزر سے وابستہ ہے ۔ ابدی سایہ ہو جائے تو زمین پر کوئی جاندار مخلوق ، بلکہ نباتات تک باقی نہ رہ سکے ، کیونکہ سورج کی روشنی و حرارت ہی پر ان سب کی زندگی موقوف ہے ۔ سایہ بالکل نہ رہے تب بھی زندگی محال ہے ، کیونکہ ہر وقت سورج کے سامنے رہنے اور اس کی شعاعوں سے کوئی پناہ نہ پا سکنے کی صورت میں نہ جاندار زیادہ دیر تک باقی رہ سکتے ہیں نہ نباتات ، بلکہ پانی تک کی خیر نہیں ۔ دھوپ اور سائے میں یک لخت تغیرات ہوتے رہیں تب بھی زمین کی مخلوقات ان جھٹکوں کو زیادہ دیر تک نہیں سہار سکتی ۔ مگر ایک صانع حکیم اور قادر مطلق ہے جس نے زمین اور سورج کے درمیان ایسی مناسبت قائم کر رکھی ہے جو دائماً ایک لگے بندھے طریقے سے آہستہ آہستہ سایہ ڈالتی اور بڑھاتی گھٹاتی ہے اور بتدریج دھوپ نکالتی اور چڑھاتی اتارتی رہتی ہے ۔ یہ حکیمانہ نظام نہ اندھی فطرت کے ہاتھوں خود بخود قائم ہو سکتا تھا اور نہ بہت سے با اختیار خدا اسے قائم کر کے یوں ایک مسلسل با قاعدگی کے ساتھ چلا سکتے تھے ۔
مگر ان ظاہری الفاظ کے بین السطور سے ایک اور لطیف اشارہ بھی جھلک رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ کفر و شرک کی جہالت کا یہ سایہ جو اس وقت چھایا ہوا ہے ، کوئی مستقل چیز نہیں ہے ۔ آفتاب ہدایت ، قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی صورت میں طلوع ہو چکا ہے ۔ بظاہر سایہ دور دور تک پھیلا نظر آتا ہے ، مگر جوں جوں یہ آفتاب چڑھے گا، سایہ سمٹتا چلا جائے گا۔ البتہ ذرا صبر کی ضرورت ہے ۔ خدا کا قانون کبھی یک لخت تغیرات نہیں لاتا۔ مادی دنیا میں جس طرح سورج آہستہ آہستہ ہی چڑھتا اور سایہ آہستہ آہستہ ہی سکڑتا ہے ۔ اسی طرح فکر و اخلاق کی دنیا میں بھی آفتاب ہدایت کا عروج اور سایہ ضلالت کا زوال آہستہ آہستہ ہی ہو گا۔
60. یعنی ڈھانکنے اور چھپانے والی چیز ۔
61. اس آیت کے تین رخ ہیں ۔ ایک رخ سے یہ توحید پر استدلال کر رہی ہے ۔ دوسرے رخ سے یہ روز مرہ کے انسانی تجربہ و مشاہدے سے زندگی بعد موت کے امکان کی دلیل فراہم کر رہی ہے ۔ اور تیسرے رخ سے یہ ایک لطیف انداز میں بشارت دے رہی ہے کہ جاہلیت کی رات ختم ہو چکی ، اب علم و شعور اور ہدایت و معرفت کا روز روشن نمودار ہو گیا ہے اور ناگزیر ہے کہ نیند کے ماتے دیر یا سویر بیدار ہوں ۔ البتہ جن کے لیے رات کی نیند موت کی نیند تھی وہ نہ جاگیں گے ، اور ان کا نہ جاگنا خود انہی کے لیے زندگی سے محرومی ہے ، دن کا کاروبار ان کی وجہ سے بند نہ ہو جائے گا۔
62. یعنی ایسا پانی جو ہر طرح کی گندگیوں سے بھی پاک ہوتا ہے اور ہر طرح کے زہریلے مادوں اور جراثیم سے بھی پاک ۔ جس کی بدولت نجاستیں دھلتی ہیں اور انسان ، حیوان ، نباتات ، سب کو زندگی بخشنے والا جوہر خالص بہم پہنچتا ہے ۔
63. اس آیت کے بھی وہی تین رخ ہیں جو اوپر والی آیت کے تھے ۔ اس میں توحید کے دلائل بھی ہیں اور آخرت کے دلائل بھی۔ اور ان دونوں مضمونوں کے ساتھ اس میں یہ لطیف مضمون بھی پوشیدہ ہے کہ جاہلیت کا دور حقیقت میں خشک سالی اور قحط کا دور تھا جس میں انسانیت کی زمین بنجر ہو کر رہ گئی تھی۔ اب یہ اللہ کا فضل ہے کہ وہ نبوت کا ابر رحمت لے آیا جو علم وحی کا خالص آبِ حیات برسا رہا ہے ، سب نہیں تو بہت سے بندگان خدا تو اس سے فیض یاب ہوں گے ہی ۔
64. اصل الفاظ ہیں لَقَدْ صَرَّفْنَا ہُ ۔ اس کے تین معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ بارش کے اس مضمون کو ہم نے بار بار قرآن میں بیان کر کے حقیقت سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ دوسرے یہ کہ ہم بار بار گرمی و خشکی کے ، موسمی ہواؤں اور گھٹاؤں کے ، اور برسات اور اس سے رونما ہونے والی رونق حیات کے کرشمے ان کو دکھاتے رہتے ہیں ۔ تیسرے یہ کہ ہم بارش کو گردش دیتے رہتے ہیں ۔ یعنی ہمیشہ ہر جگہ یکساں بارش نہیں ہوتی بلکہ کبھی کہیں بالکل خشک سالی ہوتی ہے ، کبھی کہیں کم بارش ہوتی ہے ، کبھی کہیں مناسب بارش ہوتی ہے ، کبھی کہیں طوفان اور سیلاب کی نوبت آ جاتی ہے ، اور ان سب حالتوں کے بے شمار مختلف نتائج ان کے سامنے آتے رہتے ہیں ۔
65. اگر پہلے رخ (یعنی توحید کی دلیل کے نقطہ نظر ) سے دیکھا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ لوگ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو محض بارش کے انتظام ہی میں اللہ کے وجود اور اس کی صفات اور اس کے واحد ربُّ العالمین ہونے پر دلالت کرنے والی اتنی نشانیاں موجود ہیں کہ تنہا وہی ان کو پیغمبر کی تعلیم توحید کے برحق ہونے کا اطمینان دلا سکتی ہیں ۔ مگر باوجود اس کے کہ ہم بار بار اس مضمون کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور باوجود اس کے کہ دنیا میں پانی کی تقسیم کے یہ کرشمے نت نئے انداز سے پے در پے ان کی نگاہوں کے سامنے آتے رہتے ہیں ، یہ ظالم کوئی سبق نہیں لیتے ۔ نہ حق و صداقت کو مان کر دیتے ہیں ، نہ عقل و فکر کی ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں جو ہم نے ان کو دی ہیں ، اور نہ اس احسان کے لیے شکر گزار ہوتے ہیں کہ جو کچھ وہ خود نہیں سمجھ رہے تھے اسے سمجھانے کے لیے قرآن میں بار بار کوشش کی جا رہی ہے ۔
دوسرے رُخ (یعنی آخرت کی دلیل کے نقطہ نظر) سے دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سال ان کے سامنے گرمی و خشکی سے بے شمار مخلوقات پر موت طاری ہونے اور پھر برسات کی برکت سے مردہ نباتات و حشرات کے جی اٹھنے کا ڈراما ہوتا رہتا ہے ، مگر سب کچھ دیکھ کر بھی یہ بے وقوف زندگی بعد موت کو ناممکن ہی کہتے چلے جاتے ہیں ۔ بار بار انہیں اس صریح نشان حقیقت کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے ، مگر کفر و انکار کا جمود ہے کہ کسی طرح نہیں ٹوٹتا ، نعمت عقل و بینائی کا کفران ہے کہ کسی طرح ختم نہیں ہوتا، اور احسان تذکیر و تعلیم کی ناشکری ہے کہ برابر ہوئے چلی جاتی ہے ۔
اگر تیسرے رُخ(یعنی خشک سالی سے جاہلیت کی اور باران رحمت سے وحی و نبوت کی تشبیہ ) کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تاریخ کے دوران میں بار بار یہ منظر سامنے آتا رہا ہے کہ جب کبھی دنیا نبی اور کتاب الہٰی کے فیض سے محروم ہوئی انسانیت بنجر ہو گئی ور فکر و اخلاق کی زمین میں خار دار جھاڑیوں کے سوا کچھ نہ اُگا ۔ اور جب کبھی وحی و رسالت کا آبِ حیات اس سر زمین کو بہم پہنچ گیا، گلشن انسانیت لہلہا اُٹھا ۔ جہالت و جاہلیت کی جگہ علم نے لی۔ ظلم و طغیان کی جگہ انصاف قائم ہوا ۔ فسق و فجور کی جگہ اخلاقی فضائل کے پھول کھلے ۔ جس گوشے میں جتنا بھی اس کا فیض پہنچا، شر کم ہوا اور خیر میں اضافہ ہوا۔ انبیاء کی آمد ہمیشہ ایک خوشگوار اور فائدہ بخش فکری و اخلاقی انقلاب ہی کی موجب ہوئی ہے ، کبھی اس سے برے نتائج رو نما نہیں ہوئے ۔ اور انبیاء کی ہدایت سے محروم یا منحرف ہو کر ہمیشہ انسانیت نے نقصان ہی اٹھایا ہے ، کبھی اس سے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوئے ۔ یہ منظر تاریخ بھی بار بار دکھاتی ہے اور قرآن بھی اس کی طرف بار بار توجہ دلاتا ہے ، مگر لوگ پھر بھی سبق نہیں لیتے ۔ ایک مجرب حقیقت ہے جس کی صداقت پر ہزارہا برس کے انسانی تجربے کی مہر ثبت ہو چکی ہے ، مگر اس کا انکار کیا جا رہا ہے ۔ اور آج خدا نے نبی اور کتاب کی نعمت سے جس بستی کو نوازا ہے وہ اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے الٹی ناشکری کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔