Tafheem ul Quran

Surah 25 Al-Furqan, Ayat 45-60

اَلَمۡ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيۡفَ مَدَّ الظِّلَّ​ ۚ وَلَوۡ شَآءَ لَجَـعَلَهٗ سَاكِنًا​ ۚ ثُمَّ جَعَلۡنَا الشَّمۡسَ عَلَيۡهِ دَلِيۡلًا ۙ‏ ﴿25:45﴾ ثُمَّ قَبَضۡنٰهُ اِلَـيۡنَا قَبۡضًا يَّسِيۡرًا‏ ﴿25:46﴾ وَهُوَ الَّذِىۡ جَعَلَ لَـكُمُ الَّيۡلَ لِبَاسًا وَّالنَّوۡمَ سُبَاتًا وَّجَعَلَ النَّهَارَ نُشُوۡرًا‏ ﴿25:47﴾ وَهُوَ الَّذِىۡۤ اَرۡسَلَ الرِّيٰحَ بُشۡرًۢا بَيۡنَ يَدَىۡ رَحۡمَتِهٖ​ۚ وَاَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوۡرًا ۙ‏ ﴿25:48﴾ لِّـنُحْیِۦَ بِهٖ بَلۡدَةً مَّيۡتًا وَّنُسۡقِيَهٗ مِمَّا خَلَقۡنَاۤ اَنۡعَامًا وَّاَنَاسِىَّ كَثِيۡرًا‏ ﴿25:49﴾ وَلَـقَدۡ صَرَّفۡنٰهُ بَيۡنَهُمۡ لِيَذَّكَّرُوْا ​ ۖ ا فَاَبٰٓى اَكۡثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوۡرًا‏ ﴿25:50﴾ وَلَوۡ شِئۡنَا لَبَـعَثۡنَا فِىۡ كُلِّ قَرۡيَةٍ نَّذِيۡرًا ​ۖ ‏ ﴿25:51﴾ فَلَا تُطِعِ الۡكٰفِرِيۡنَ وَ جَاهِدۡهُمۡ بِهٖ جِهَادًا كَبِيۡرًا‏ ﴿25:52﴾ وَهُوَ الَّذِىۡ مَرَجَ الۡبَحۡرَيۡنِ هٰذَا عَذۡبٌ فُرَاتٌ وَّهٰذَا مِلۡحٌ​ اُجَاجٌ ۚ وَجَعَلَ بَيۡنَهُمَا بَرۡزَخًا وَّحِجۡرًا مَّحۡجُوۡرًا‏ ﴿25:53﴾ وَهُوَ الَّذِىۡ خَلَقَ مِنَ الۡمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّ صِهۡرًا​ ؕ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيۡرًا‏ ﴿25:54﴾ وَيَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنۡفَعُهُمۡ وَلَا يَضُرُّهُمۡ​ؕ وَكَانَ الۡـكَافِرُ عَلٰى رَبِّهٖ ظَهِيۡرًا‏ ﴿25:55﴾ وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِيۡرًا‏ ﴿25:56﴾ قُلۡ مَاۤ اَسۡـئَـلُكُمۡ عَلَيۡهِ مِنۡ اَجۡرٍ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اَنۡ يَّـتَّخِذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيۡلًا‏ ﴿25:57﴾ وَتَوَكَّلۡ عَلَى الۡحَـىِّ الَّذِىۡ لَا يَمُوۡتُ وَسَبِّحۡ بِحَمۡدِهٖ​ ؕ وَكَفٰى بِهٖ بِذُنُوۡبِ عِبَادِهٖ خَبِيۡرَ ا​ ۛۚ ۙ‏ ﴿25:58﴾ اۨلَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَا فِىۡ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰى عَلَى الۡعَرۡشِ ​ۛۚ اَلرَّحۡمٰنُ فَسۡـئَـلۡ بِهٖ خَبِيۡرًا‏ ﴿25:59﴾ وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمُ اسۡجُدُوۡا لِلرَّحۡمٰنِ قَالُوۡا وَمَا الرَّحۡمٰنُ اَنَسۡجُدُ لِمَا تَاۡمُرُنَا وَزَادَهُمۡ نُفُوۡرًا ۩‏ ﴿25:60﴾

45 - تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارا ربّ کس طرح سایہ پھیلا دیتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے دائمی سایہ بنا دیتا۔ ہم نے سُورج کو اُس پر دلیل 58 بنایا، 46 - پھر (جیسے جیسے سُورج اُٹھتا جاتا ہے)ہم اس سائے کو رفتہ رفتہ اپنی طرف سمیٹتے چلے جاتے ہیں۔ 59 47 - اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے لباس 60 ، اور نیند کو سکونِ موت، اور دن کو جی اُٹھنے کا وقت بنایا۔ 61 48 - اور وہی ہے جو اپنی رحمت کے آگے آگے ہواوٴں کو بشارت بنا کر بھیجتا ہے۔ پھر آسمان سے پاک 62 پانی نازل کرتا ہے 49 - تاکہ ایک مُردہ علاقے کو اس کے ذریعے زندگی بخشے اور اپنی مخلوق میں سے بہت سے جانوروں اور انسانوں کو سیراب کرے۔ 63 50 - اس کرشمے کو ہم بار بار ان کے سامنے لاتے ہیں 64 تاکہ وہ کچھ سبق لیں، مگر اکثر لوگ کُفر اور ناشکری کے سوا کوئی دُوسرا رویّہ اختیار کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ 65 51 - اگر ہم چاہتے تو ایک ایک بستی میں ایک ایک نذیر اُٹھا کھڑا کرتے 66 ۔ 52 - پس اے نبیؐ ، کافروں کی بات ہر گز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ جہاد کبیر 67 کرو۔ 53 - اور وہی ہے جس نے دوسمندروں کو ملا رکھا ہے۔ ایک لذیذ و شیریں، دُوسرا تلخ و شور۔ اور دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے۔ ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈ مڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔ 68 54 - اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سُسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔ 69 تیرا ربّ بڑا ہی قدرت والا ہے۔ 55 - اس خدا کو چھوڑ کر لوگ اُن کو پُوج رہے ہیں جو نہ ان کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان ، اور اوپر سے مزید یہ کہ کافر اپنے ربّ کے مقابلے میں ہر باغی کا مددگار بنا ہوا ہے۔ 70 56 - اے محمدؐ، تم کو تو ہم نے بس ایک مبشِّر اور نذیر بنا کر  بھیجا 71 ہے۔ 57 - ان سے کہہ دو کہ ”میں اس کام پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا، میری اُجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے ربّ کا راستہ اختیار کر لے۔“ 71الف 58 - اے محمدؐ، اُس خدا پر بھروسہ رکھو جو زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں۔ اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔ اپنے بندوں کے گناہوں سے بس اُسی کا باخبر ہونا کافی ہے۔ 59 - وہ جس نے چھ دنوں میں زمین اور آسمانوں کو اور اُن ساری چیزوں کو بنا کر رکھ دیا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں، پھر آپ ہی (کائنات کے تختِ سلطنت)”عرش“ پر جلوہ فرما 72 ہوا۔ رحمٰن، اس کی شان بس کسی جاننے والے سے پوچھو۔ 60 - اِن لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ اس رحمٰن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں ”رحمٰن کیا ہوتا ہے؟ کیا بس جسے تُو کہہ دے اسی کو سجدہ کرتے پھریں؟“ 73 یہ دعوت ان کی نفرت میں اُلٹا اور اضافہ کر دیتی ہے۔ 74 ؏۵ السجدة


Notes

58. یہاں لفظ دلیل ٹھیک اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جس میں انگریزی لفظ (Pilot) استعمال ہوتا ہے ۔ ملاحوں کی اصطلاح میں دلیل اس شخص کو کہتے ہیں جو کشتیوں کو راستہ بتاتا ہوا چلے ۔ سائے پر سورج کو دلیل بنانے کا مطلب یہ ہے کہ سائے کا پھیلنا اور سکڑنا سورج کے عروج و زوال اور طلوع و غروب کا تابع ہے ۔

سائے سے مراد روشنی اور تاریکی کے بین بین وہ درمیانی حالت ہے جو صبح کے وقت طلوع آفتاب سے پہلے ہوتی ہے اور دن میں بھی مکانوں میں ، دیواروں کی اوٹ میں اور درختوں کے نیچے رہتی ہے ۔

59. اپنی طرف سمیٹنے سے مرد غائب اور فنا کرنا ہے ، کیونکہ ہر چیز جو فنا ہوتی ہے وہ اللہ ہی کی طرف پلٹتی ہے ۔ ہر شے اسی کی طرف سے آتی ہے اور اسی کی طرف جاتی ہے ۔

اس آیت کے دو رخ ہیں ۔ ایک ظاہری، دوسرا باطنی ۔ ظاہر کے اعتبار سے یہ غفلت میں پڑے ہوئے مشرکین کو بتا رہی ہے کہ اگر تم دنیا میں جانوروں کی طرح نہ جیتے اور کچھ عقل و ہوش کی آنکھوں سے کام لیتے تو یہی سایہ جس کا تم ہر وقت مشاہدہ کرتے ہو، تمہیں یہ سبق دینے کے لیے کافی تھا کہ نبی جس توحید کی تعلیم تمہیں دے رہا ہے وہ بالکل بر حق ہے ۔ تمہاری ساری زندگی اسی سائے کے مد و جزر سے وابستہ ہے ۔ ابدی سایہ ہو جائے تو زمین پر کوئی جاندار مخلوق ، بلکہ نباتات تک باقی نہ رہ سکے ، کیونکہ سورج کی روشنی و حرارت ہی پر ان سب کی زندگی موقوف ہے ۔ سایہ بالکل نہ رہے تب بھی زندگی محال ہے ، کیونکہ ہر وقت سورج کے سامنے رہنے اور اس کی شعاعوں سے کوئی پناہ نہ پا سکنے کی صورت میں نہ جاندار زیادہ دیر تک باقی رہ سکتے ہیں نہ نباتات ، بلکہ پانی تک کی خیر نہیں ۔ دھوپ اور سائے میں یک لخت تغیرات ہوتے رہیں تب بھی زمین کی مخلوقات ان جھٹکوں کو زیادہ دیر تک نہیں سہار سکتی ۔ مگر ایک صانع حکیم اور قادر مطلق ہے جس نے زمین اور سورج کے درمیان ایسی مناسبت قائم کر رکھی ہے جو دائماً ایک لگے بندھے طریقے سے آہستہ آہستہ سایہ ڈالتی اور بڑھاتی گھٹاتی ہے اور بتدریج دھوپ نکالتی اور چڑھاتی اتارتی رہتی ہے ۔ یہ حکیمانہ نظام نہ اندھی فطرت کے ہاتھوں خود بخود قائم ہو سکتا تھا اور نہ بہت سے با اختیار خدا اسے قائم کر کے یوں ایک مسلسل با قاعدگی کے ساتھ چلا سکتے تھے ۔

مگر ان ظاہری الفاظ کے بین السطور سے ایک اور لطیف اشارہ بھی جھلک رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ کفر و شرک کی جہالت کا یہ سایہ جو اس وقت چھایا ہوا ہے ، کوئی مستقل چیز نہیں ہے ۔ آفتاب ہدایت ، قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی صورت میں طلوع ہو چکا ہے ۔ بظاہر سایہ دور دور تک پھیلا نظر آتا ہے ، مگر جوں جوں یہ آفتاب چڑھے گا، سایہ سمٹتا چلا جائے گا۔ البتہ ذرا صبر کی ضرورت ہے ۔ خدا کا قانون کبھی یک لخت تغیرات نہیں لاتا۔ مادی دنیا میں جس طرح سورج آہستہ آہستہ ہی چڑھتا اور سایہ آہستہ آہستہ ہی سکڑتا ہے ۔ اسی طرح فکر و اخلاق کی دنیا میں بھی آفتاب ہدایت کا عروج اور سایہ ضلالت کا زوال آہستہ آہستہ ہی ہو گا۔

60. یعنی ڈھانکنے اور چھپانے والی چیز ۔

61. اس آیت کے تین رخ ہیں ۔ ایک رخ سے یہ توحید پر استدلال کر رہی ہے ۔ دوسرے رخ سے یہ روز مرہ کے انسانی تجربہ و مشاہدے سے زندگی بعد موت کے امکان کی دلیل فراہم کر رہی ہے ۔ اور تیسرے رخ سے یہ ایک لطیف انداز میں بشارت دے رہی ہے کہ جاہلیت کی رات ختم ہو چکی ، اب علم و شعور اور ہدایت و معرفت کا روز روشن نمودار ہو گیا ہے اور ناگزیر ہے کہ نیند کے ماتے دیر یا سویر بیدار ہوں ۔ البتہ جن کے لیے رات کی نیند موت کی نیند تھی وہ نہ جاگیں گے ، اور ان کا نہ جاگنا خود انہی کے لیے زندگی سے محرومی ہے ، دن کا کاروبار ان کی وجہ سے بند نہ ہو جائے گا۔

62. یعنی ایسا پانی جو ہر طرح کی گندگیوں سے بھی پاک ہوتا ہے اور ہر طرح کے زہریلے مادوں اور جراثیم سے بھی پاک ۔ جس کی بدولت نجاستیں دھلتی ہیں اور انسان ، حیوان ، نباتات ، سب کو زندگی بخشنے والا جوہر خالص بہم پہنچتا ہے ۔

63. اس آیت کے بھی وہی تین رخ ہیں جو اوپر والی آیت کے تھے ۔ اس میں توحید کے دلائل بھی ہیں اور آخرت کے دلائل بھی۔ اور ان دونوں مضمونوں کے ساتھ اس میں یہ لطیف مضمون بھی پوشیدہ ہے کہ جاہلیت کا دور حقیقت میں خشک سالی اور قحط کا دور تھا جس میں انسانیت کی زمین بنجر ہو کر رہ گئی تھی۔ اب یہ اللہ کا فضل ہے کہ وہ نبوت کا ابر رحمت لے آیا جو علم وحی کا خالص آبِ حیات برسا رہا ہے ، سب نہیں تو بہت سے بندگان خدا تو اس سے فیض یاب ہوں گے ہی ۔

64. اصل الفاظ ہیں لَقَدْ صَرَّفْنَا ہُ ۔ اس کے تین معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ بارش کے اس مضمون کو ہم نے بار بار قرآن میں بیان کر کے حقیقت سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ دوسرے یہ کہ ہم بار بار گرمی و خشکی کے ، موسمی ہواؤں اور گھٹاؤں کے ، اور برسات اور اس سے رونما ہونے والی رونق حیات کے کرشمے ان کو دکھاتے رہتے ہیں ۔ تیسرے یہ کہ ہم بارش کو گردش دیتے رہتے ہیں ۔ یعنی ہمیشہ ہر جگہ یکساں بارش نہیں ہوتی بلکہ کبھی کہیں بالکل خشک سالی ہوتی ہے ، کبھی کہیں کم بارش ہوتی ہے ، کبھی کہیں مناسب بارش ہوتی ہے ، کبھی کہیں طوفان اور سیلاب کی نوبت آ جاتی ہے ، اور ان سب حالتوں کے بے شمار مختلف نتائج ان کے سامنے آتے رہتے ہیں ۔

65. اگر پہلے رخ (یعنی توحید کی دلیل کے نقطہ نظر ) سے دیکھا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ لوگ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو محض بارش کے انتظام ہی میں اللہ کے وجود اور اس کی صفات اور اس کے واحد ربُّ العالمین ہونے پر دلالت کرنے والی اتنی نشانیاں موجود ہیں کہ تنہا وہی ان کو پیغمبر کی تعلیم توحید کے برحق ہونے کا اطمینان دلا سکتی ہیں ۔ مگر باوجود اس کے کہ ہم بار بار اس مضمون کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور باوجود اس کے کہ دنیا میں پانی کی تقسیم کے یہ کرشمے نت نئے انداز سے پے در پے ان کی نگاہوں کے سامنے آتے رہتے ہیں ، یہ ظالم کوئی سبق نہیں لیتے ۔ نہ حق و صداقت کو مان کر دیتے ہیں ، نہ عقل و فکر کی ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں جو ہم نے ان کو دی ہیں ، اور نہ اس احسان کے لیے شکر گزار ہوتے ہیں کہ جو کچھ وہ خود نہیں سمجھ رہے تھے اسے سمجھانے کے لیے قرآن میں بار بار کوشش کی جا رہی ہے ۔

دوسرے رُخ (یعنی آخرت کی دلیل کے نقطہ نظر) سے دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سال ان کے سامنے گرمی و خشکی سے بے شمار مخلوقات پر موت طاری ہونے اور پھر برسات کی برکت سے مردہ نباتات و حشرات کے جی اٹھنے کا ڈراما ہوتا رہتا ہے ، مگر سب کچھ دیکھ کر بھی یہ بے وقوف زندگی بعد موت کو ناممکن ہی کہتے چلے جاتے ہیں ۔ بار بار انہیں اس صریح نشان حقیقت کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے ، مگر کفر و انکار کا جمود ہے کہ کسی طرح نہیں ٹوٹتا ، نعمت عقل و بینائی کا کفران ہے کہ کسی طرح ختم نہیں ہوتا، اور احسان تذکیر و تعلیم کی ناشکری ہے کہ برابر ہوئے چلی جاتی ہے ۔

اگر تیسرے رُخ(یعنی خشک سالی سے جاہلیت کی اور باران رحمت سے وحی و نبوت کی تشبیہ ) کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تاریخ کے دوران میں بار بار یہ منظر سامنے آتا رہا ہے کہ جب کبھی دنیا نبی اور کتاب الہٰی کے فیض سے محروم ہوئی انسانیت بنجر ہو گئی ور فکر و اخلاق کی زمین میں خار دار جھاڑیوں کے سوا کچھ نہ اُگا ۔ اور جب کبھی وحی و رسالت کا آبِ حیات اس سر زمین کو بہم پہنچ گیا، گلشن انسانیت لہلہا اُٹھا ۔ جہالت و جاہلیت کی جگہ علم نے لی۔ ظلم و طغیان کی جگہ انصاف قائم ہوا ۔ فسق و فجور کی جگہ اخلاقی فضائل کے پھول کھلے ۔ جس گوشے میں جتنا بھی اس کا فیض پہنچا، شر کم ہوا اور خیر میں اضافہ ہوا۔ انبیاء کی آمد ہمیشہ ایک خوشگوار اور فائدہ بخش فکری و اخلاقی انقلاب ہی کی موجب ہوئی ہے ، کبھی اس سے برے نتائج رو نما نہیں ہوئے ۔ اور انبیاء کی ہدایت سے محروم یا منحرف ہو کر ہمیشہ انسانیت نے نقصان ہی اٹھایا ہے ، کبھی اس سے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوئے ۔ یہ منظر تاریخ بھی بار بار دکھاتی ہے اور قرآن بھی اس کی طرف بار بار توجہ دلاتا ہے ، مگر لوگ پھر بھی سبق نہیں لیتے ۔ ایک مجرب حقیقت ہے جس کی صداقت پر ہزارہا برس کے انسانی تجربے کی مہر ثبت ہو چکی ہے ، مگر اس کا انکار کیا جا رہا ہے ۔ اور آج خدا نے نبی اور کتاب کی نعمت سے جس بستی کو نوازا ہے وہ اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے الٹی ناشکری کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔

66. یعنی ایسا کرنا ہماری قدرت سے باہر نہ تھا، چاہتے تو جگہ جگہ نبی پیدا کر سکتے تھے ، مگر ہم نے ایسا نہیں کیا اور دنیا بھر کے لیے ایک ہی نبی مبعوث کر دیا ۔ جس طرح ایک سورج سارے جہان کے لیے کافی ہو رہا ہے اسی طرح یہ اکیلا آفتابِ ہدایت ہی سب جہان والوں کے لیے کافی ہے ۔

67. جہاد کبیر کے تین معنی ہیں ۔ ایک ، انتہائی کوشش جس میں آدمی سعی و جاں فشانی کا کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھے ۔ دوسرے ، بڑے پیمانے پر جد و جہد جس میں آدمی اپنے تمام ذرائع لاکر ڈال دے ۔ تیسرے ، جامع جدوجہد جس میں آدمی کوشش کا کوئی پہلو اور مقابلے کا کوئی محاذ نہ چھوڑے ، جس جس محاذ پر غنیم کی طاقتیں کام کر رہی ہوں اس پر اپنی طاقت بھی لگا دے ، اور جس جس پہلو سے بھی حق کی سر بلندی کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہو کرے ۔ اس میں زبان و قلم کا جہاد بھی شامل ہے اور جان و مال کا بھی اور توپ و تفنگ کا بھی۔

68. یہ کیفیت ہر اس جگہ رونما ہوتی ہے جہاں کوئی بڑا دریا سمندر میں آ کر گرتا ہے ۔ اس کے علاوہ خود سمندر میں بھی مختلف مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں جن کا پانی سمندر کے نہایت تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس پر قائم رہتا ہے ۔ ترکی امیر البحر سیدی علی رئیس (کاتب رومی) اپنی کتاب مرآۃالمالک میں ، جو سولہویں صدی عیسوی کی تصنیف ہے خلیج فارس کے اندر ایسے ہی ایک مقام کی نشان دہی کرتا ہے ۔ اس نے لکھا ہے کہ وہاں آب شور کے نیچے آب شیریں کے چشمے ہیں ، جن سے میں خود اپنے بیڑے کے لیے پینے کا پانی حاصل کرتا رہا ہوں ۔ موجودہ زمانے میں جب امریکن کمپنی نے سعودی عرب میں تیل نکالنے کا کام شروع کیا تو ابتداءً وہ بھی خلیج فارس کے ان ہی چشموں سے پانی حاصل کرتی تھی۔ بعد میں ظہران کے پاس کنوئیں کھود لیے گئے اور ان سے پانی لیا جانے لگا ۔ بحرین کے قریب بھی سمندر کی تہ میں آب شیرین کے چشمے ہیں جن سے لوگ کچھ مدت پہلے تک پینے کا پانی حاصل کرتے رہے ہیں ۔

یہ تو ہے آیت کا ظاہری مضمون، جو اللہ کی قدرت کے ایک کرشمے سے اس کے الٰہ واحد اور رب واحد ہونے پر استدلال کر رہا ہے ۔ مگر اس کے بین السطور سے بھی ایک لطیف اشارہ ایک دوسرے مضمون کی طرف نکلتا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ انسانی معاشرے کا سمندر خواہ کتنا ہی تلخ و شور ہو جائے ، اللہ جب چاہے اس کی تہ سے ایک جماعت صالحہ کا چشمہ شیریں نکال سکتا ہے ، اور سمندر کے آب تلخ کی موجیں خواہ کتنا ہی زور مار لیں وہ اس چشمے کو ہڑپ کر جانے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں ۔

69. یعنی بجائے خود یہی کرشمہ کیا کم تھا کہ وہ ایک حقیر پانی کی بوند سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق بنا کھڑی کرتا ہے ، مگر اس پر مزید کرشمہ یہ ہے کہ اس نے انسان کا بھی ایک نمونہ نہیں بلکہ دو الگ نمونے (عورت اور مرد) بنائے جو انسانیت میں یکساں مگر جسمانی و نفسانی خصوصیات میں نہایت مختلف ہیں ، اور اس اختلاف کی وجہ سے باہم مخالف و متضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے کا پورا جوڑ ہیں ۔ پھر ان جوڑوں کو ملا کر وہ عجیب توازن کے ساتھ (جس میں کسی دوسرے کی تدبیر کا ادنیٰ دخل بھی نہیں ہے ) دنیا میں مرد بھی پیدا کر رہا ہے اور عورتیں بھی، جن سے ایک سلسلہ تعلقات بیٹوں اور پوتوں کا چلتا ہے جو دوسرے گھروں سے بہوئیں لاتے ہیں ، اور ایک دوسرا سلسلہ تعلقات بیٹیوں اور نواسیوں کا چلتا ہے جو دوسرے گھروں کی بہوئیں بن کر جاتی ہیں ۔ اس طرح خاندان سے خاندان جڑ کر پورے پورے ملک ایک نسل اور ایک تمدن سے وابستہ ہو جاتے ہیں ۔

یہاں بھی ایک لطیف اشارہ اس مضمون کی طرف ہے کہ اس سارے کارخانہ حیات میں جو حکمت کام کر رہی ہے اس کا انداز کار ہی کچھ ایسا ہے کہ یہاں اختلاف ، اور پھر مختلفین کے جوڑ سے ہی سارے نتائج برآمد ہوتے ہیں ۔ لہٰذا جس اختلاف سے تم دو چار ہو اس پر گھبراؤ نہیں ۔ یہ بھی ایک نتیجہ خیز چیز ہے ۔

70. یعنی اللہ کا کلمہ بلند کرنے اور اس کے احکام و قوانین کو نافذ کرنے کے لیے جو کوشش بھی کہیں ہو رہی ہو ، کافر کی ہمدردیاں اس کوشش کے ساتھ نہیں بلکہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گی جو اسے نیچا دکھانے کے در پے ہوں ۔ اسی طرح اللہ کی فرماں برداری و اطاعت سے نہیں بلکہ اس کی نافرمانی ہی سے کافر کی ساری دلچسپیاں وابستہ ہوں گی۔ نافرمانی کا کام جو جہاں بھی کر رہا ہو کافر اگر عملاً اس کا شریک نہ ہو سکے گا تو کم از کم زندہ باد کا نعرہ ہی مار دے گا تاکہ خدا کے باغیوں کی ہمت افزائی ہو ۔ بخلاف اس کے اگر کوئی فرماں برداری کا کام کر رہا ہو تو کافر اس کی مزاحمت میں ذرا دریغ نہ کرے گا ۔ خود مزاحمت نہ کر سکتا ہو تو اس کی ہمت شکنی کے لیے جو کچھ بھی کر سکتا ہے کر گزرے گا، چاہے وہ ناک بھوں چڑھانے کی حد تک ہی سہی۔ نافرمانی کی ہر خبر اس کے لیے مژدہ جانفزا ہو گی اور فرماں برداری کی ہر اطلاع اسے تیر بن کر لگے گی۔

71. یعنی تمہارا کام نہ کسی ایمان لانے والے کو جزا دینا ہے ، نہ کسی انکار کرنے والے کو سزا دینا ۔ تم کسی کو ایمان کی طرف کھینچ لانے اور انکار سے زبردستی روک دینے پر مامور نہیں کیے گئے ہو۔ تمہاری ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ جو راہ راست قبول کرے اسے انجام نیک کی بشارت دے دو، اور جو اپنی بد راہی پر جما رہے اس کو اللہ کی پکڑ سے ڈرا دو۔

اس طرح کے ارشادات قرآن مجید میں جہاں بھی آئے ہیں ان کا اصل روئے سخن کفار کی طرف ہے ، اور مقصد در اصل ان کو یہ بتانا ہے کہ نبی ایک بے غرض مصلح ہے جو خلق خدا کی بھلائی کے لیے خدا کا پیغام پہنچاتا ہے اور انہیں ان کے انجام کا نیک و بد بتا دیتا ہے ۔ وہ تمہیں زبر دستی تو اس پیغام کے قبول کرنے پر مجور نہیں کرتا کہ تم خواہ مخواہ اس پر بگڑنے اور لڑنے پر تل جاتے ہو۔ تم مانو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے ، اسے کچھ نہ دے دو گے ۔ نہ مانو گے تو اپنا نقصان کرو گے ، اس کا کچھ نہ بگاڑو گے ۔ وہ پیغام پہنچا کر سبکدوش ہو چکا ، اب تمہارا معاملہ ہم سے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بسا اوقات لوگ اس غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ مسلمانوں کے معاملے میں بھی نبی کا کام بس خدا کا پیغام پہنچا دینے اور انجام نیک کا مژدہ سنا دینے تک محدود ہے ۔ حالانکہ قرآن جگہ جگہ اور بار بار تصریح کرتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے نبی صرف مبشر ہی نہیں ہے بلکہ معلم اور مزکّی اور نمونہ عمل بھی ہے ، حاکم اور قاضی اور امیر مطاع بھی ہے ، اور اس کی زبان سے نکلا ہوا ہر فرمان ان کے حق میں قانون کا حکم رکھتا ہے جس کے آگے ان کو دل کی پوری رضا مندی سے سر تسلیم خم کرنا چاہیے ۔ لہٰذا سخت غلطی کرتا ہے وہ شخص جو : مَاعَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلَاغ ۔ اور۔ مَٓا اَرْسَلْنٰکَ اَلَّا مُبَشِّراً وَّ نَذِیْراً ، اور اسی مضمون کی دوسری آیات کو نبی اور اہل ایمان کے باہمی تعلق پر چسپاں کرتا ہے ۔

71. یعنی تمہارا کام نہ کسی ایمان لانے والے کو جزا دینا ہے ، نہ کسی انکار کرنے والے کو سزا دینا ۔ تم کسی کو ایمان کی طرف کھینچ لانے اور انکار سے زبردستی روک دینے پر مامور نہیں کیے گئے ہو۔ تمہاری ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ جو راہ راست قبول کرے اسے انجام نیک کی بشارت دے دو، اور جو اپنی بد راہی پر جما رہے اس کو اللہ کی پکڑ سے ڈرا دو۔

اس طرح کے ارشادات قرآن مجید میں جہاں بھی آئے ہیں ان کا اصل روئے سخن کفار کی طرف ہے ، اور مقصد در اصل ان کو یہ بتانا ہے کہ نبی ایک بے غرض مصلح ہے جو خلق خدا کی بھلائی کے لیے خدا کا پیغام پہنچاتا ہے اور انہیں ان کے انجام کا نیک و بد بتا دیتا ہے ۔ وہ تمہیں زبر دستی تو اس پیغام کے قبول کرنے پر مجور نہیں کرتا کہ تم خواہ مخواہ اس پر بگڑنے اور لڑنے پر تل جاتے ہو۔ تم مانو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے ، اسے کچھ نہ دے دو گے ۔ نہ مانو گے تو اپنا نقصان کرو گے ، اس کا کچھ نہ بگاڑو گے ۔ وہ پیغام پہنچا کر سبکدوش ہو چکا ، اب تمہارا معاملہ ہم سے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بسا اوقات لوگ اس غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ مسلمانوں کے معاملے میں بھی نبی کا کام بس خدا کا پیغام پہنچا دینے اور انجام نیک کا مژدہ سنا دینے تک محدود ہے ۔ حالانکہ قرآن جگہ جگہ اور بار بار تصریح کرتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے نبی صرف مبشر ہی نہیں ہے بلکہ معلم اور مزکّی اور نمونہ عمل بھی ہے ، حاکم اور قاضی اور امیر مطاع بھی ہے ، اور اس کی زبان سے نکلا ہوا ہر فرمان ان کے حق میں قانون کا حکم رکھتا ہے جس کے آگے ان کو دل کی پوری رضا مندی سے سر تسلیم خم کرنا چاہیے ۔ لہٰذا سخت غلطی کرتا ہے وہ شخص جو : مَاعَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلَاغ ۔ اور۔ مَٓا اَرْسَلْنٰکَ اَلَّا مُبَشِّراً وَّ نَذِیْراً ، اور اسی مضمون کی دوسری آیات کو نبی اور اہل ایمان کے باہمی تعلق پر چسپاں کرتا ہے ۔

72. اللہ تعالیٰ کے عرش پر جلوہ گر ہونے کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الاعراف، حواشی 41 ۔42 ، یونس، حاشیہ 4، ھود ، حاشیہ 7 ۔

زمین و آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کرنے کا مضمون متشابہات کے قبیل سے ہے جس کا مفہوم متعین کرنا مشکل ہے ۔ ممکن ہے کہ ایک دن سے مراد ایک دَور ہو۔ اور ممکن ہے کہ اس سے مراد وقت کی اتنی ہی مقدار ہو جس پر ہم دنیا میں لفظ دن کا اطلاق کرتے ہیں ۔ (مفصل تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، حٰم السجدہ، حواشی 11 تا 15 )۔

73. یہ بات در اصل وہ محض کافرانہ شوخی اور سراسر ہٹ دھرمی کی بنا پر کہتے تھے ، جس طرح فرعون نے حضرت موسیٰ سے کہا تھا : وَمَارَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ۔’’ رب العا لمین کیا ہوتا ہے ؟‘‘حالانکہ نہ کفار مکہ خدائے رحمان سے بے خبر تھے اور نہ فرعون ہی اللہ رب العالمین سے نا واقف تھا۔ بعض مفسرین نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ اہل عرب کے ہاں اللہ تعالیٰ کے لیے ’’رحمان‘‘ کا اسم مبارک شائع نہ تھا اس لیے انہوں نے یہ اعتراض کیا ۔ لیکن آیت کا انداز کلام خود بتا رہا ہے کہ یہ اعتراض نا واقفیت کی بنا پر نہیں بلکہ طغیان جاہلیت کی بنا پر تھا، ورنہ اس پر گرفت کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ نرمی کے ساتھ انہیں سمجھا دیتا کہ یہ بھی ہمارا ہی ایک نام ہے ، اس پر کان نہ کھڑے کرو۔ علاوہ بریں یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ عرب میں اللہ تعالیٰ کے لیے قدیم زمانے سے رحمان کا لفظ معروف و مستعمل تھا۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، السجدہ، حاشیہ 5 ۔ سباء، حاشیہ 35 ۔

74. اس جگہ سجدہ تلاوت مشروع ہے اور اس پر تمام اہل علم متفق ہیں ۔ ہر قاری اور سامع کو اس مقام پر سجدہ کرنا چاہیے ۔ نیز یہ بھی مسنون ہے کہ آدمی جب اس کو سنے تو جواب میں کہے : زَادَنا اللہُ خُضُوْعاً مَّا زَادَلِلْاَعْدَآءِ نُفُوْراً ، ’’ اللہ کرے ہمارا خضوع اتنا ہی بڑھے جتنا دشمنوں کا نفور بڑھتا ہے ‘‘۔