75. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الحجر، حواشی 8 تا 12 ۔
76. یعنی سورج، جیسا کہ سورہ نوح میں بتصریح فرمایا : وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجاً (آیت 16) ۔
77. یہ دو مراتب ہیں جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے الگ اور اپنے مزاج کے اعتبار سے لازم و ملزوم ہیں ۔ گردش لیل و نہار کے نظام پر غور کرنے کا پہلا نتیجہ یہ ہے کہ آدمی اس سے توحید کا درس لے اور اگر خدا سے غفلت میں پڑا ہوا تھا تو چونک جائے ۔ اور دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ خدا کی ربوبیت کا احساس کر کے سر نیاز جھکا دے اور سراپا امتنان بن جائے ۔
78. یعنی جس رحمان کو سجدہ کرنے کے لیے تم سے کہا جا رہا ہے اور تم اس سے انحراف کر رہے ہو اس کے پیدائشی بندے تو سب ہی ہیں ، مگر اس کے محبوب و پسندیدہ بندے وہ ہیں جو شعوری طور پر بندگی اختیار کر کے یہ اور یہ صفات اپنے اندر پیدا کرتے ہیں ۔ نیز یہ کہ وہ سجدہ جس کی تمہیں دعوت دی جا رہی ہے اس کے نتائج یہ ہیں جو اس کی بندگی قبول کرنے والوں کی زندگی میں نظر آتے ہیں ، اور اس سے انکار کے نتائج وہ ہیں جو تم لوگوں کی زندگی میں عیاں ہیں ۔ اس مقام پر اصل مقصود سیرت و اخلاق کے دو نمونوں کا تقابل ہے ۔ ایک وہ نمونہ جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی قبول کرنے والوں میں پیدا ہو رہا تھا، اور دوسرا وہ جو جاہلیت پر جمے ہوئے لوگوں میں ہر طرف پایا جاتا تھا۔ لیکن اس تقابل کے لیے طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ صرف پہلے نمونے کی نمایاں خصوصیات کو سامنے رکھ دیا، اور دوسرے نمونے کو ہر دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والے ذہن پر چھوڑ دیا کہ وہ آپ ہی مقابل کی تصویر کو دیکھے اور آپ ہی دونوں کا موازنہ کر لے ۔ اس کے بیان کی حاجت نہ تھی، کیونکہ وہ گرد و پیش سارے معاشرے میں موجود تھا۔
79. یعنی تکبر کے ساتھ اکڑتے اور اینٹھتے ہوئے نہیں چلتے ، جبّاروں اور مفسدوں کی طرح اپنی رفتار سے اپنا زور جتانے کی کوشش نہیں کرتے ، بلکہ ان کی چال ایک شریف اور سلیم الطبع اور نیک مزاج آدمی کی سی چال ہوتی ہے ۔ ’’نرم چال‘‘ سے مراد ضعیفانہ اور مریضانہ چال نہیں ہے ، اور نہ وہ چال ہے جو ایک ریا کار آدمی اپنے انکسار کی نمائش کرنے یا اپنی خدا ترسی کا مظاہرہ کرتے کے لیے تصنع سے اختیار کرتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود اس طرح مضبوط قدم رکھتے ہوئے چلتے تھے کہ گویا نشیب کی طرف اتر رہے ہیں ۔ حضرت عمر کے متعلق روایات میں آیا ہے کہ انہوں نے ایک جوان آدمی کو مَریَل چال چلتے دیکھا تو روک کر پوچھا کیا تم بیمار ہو؟ اس نے عرض کیا نہیں ۔ آپ نے درہ اٹھا کر اسے دھمکایا اور بولے ۔ قوت کے ساتھ چلو۔ اس سے معلوم ہوا کہ نرم چال سے مراد ایک بھلے مانس کی سی فطری چال ہے نہ کہ وہ جو بناوٹ سے منکسرانہ بنائی گئی ہو یا جس سے خواہ مخواہ کی مسکنت اور ضعیفی ٹپکتی ہو۔
مگر غور طلب پہلو یہ ہے کہ آدمی کی چال میں آخر وہ کیا اہمیت ہے جس کی وجہ سے اللہ کے نیک بندوں کی خصوصیات گناتے ہوئے سب سے پہلے اس کا ذکر کیا گیا؟ اس سوال کو ذرا تامل کی نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کی چال محض اس کے انداز رفتار ہی کا نام نہیں ہے بلکہ در حقیقت وہ اس کے ذہن اور اس کی سیرت و کردار کی اولین ترجمان بھی ہوتی ہے ۔ ایک عیار آدمی کی چال، ایک غنڈے بد معاش کی چال، ایک ظالم و جابر کی چال، ایک خود پسند متکبر کی چال، ایک با وقار مہذب آدمی کی چال ، ایک غریب مسکین کی چال، اور اسی طرح مختلف اقسام کے دوسرے انسانوں کی چالیں ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہوتی ہیں کہ ہر ایک کو دیکھ کر بآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس چال کے پیچھے کس طرح کی شخصیت جلوہ گر ہے ۔ پس آیت کا مدعا یہ ہے کہ رحمان کے بندوں کو تو تم عام آدمیوں کے درمیان چلتے پھرتے دیکھ کر ہی بغیر کسی سابقہ تعارف کے الگ پہچان لو گے کہ یہ کس طرز کے لوگ ہیں ۔ اس بندگی نے ان کی ذہنیت اور ان کی سیرت کو جیسا کچھ بنا دیا ہے اس کا اثر ان کی چال تک میں نمایاں ہے ۔ ایک آدمی انہیں دیکھ کر پہلی نظر میں جان سکتا ہے کہ یہ شریف اور حلیم اور ہمدرد لوگ ہیں ، ان سے کسی شر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، بنی اسرائیل ، حاشیہ 43 ۔ جلد چہارم، لقمان ، حاشیہ 33) ۔
80. جاہل سے مراد ان پڑھ یا بے علم آدمی نہیں ، بلکہ وہ شخص ہے جو جہالت پر اتر آئے اور کسی شریف آدمی سے بد تمیزی کا برتاؤ کرنے لگے ۔ رحمان کے بندوں کا طریقہ یہ ہے کہ گالی کا جواب گالی سے اور بہتان سے اور اسی طرح کی ہر بیہودگی کا جواب ویسی ہی بیہودگی سے نہیں دیتے بلکہ جوان کے ساتھ یہ رویہ اختیار کرتا ہے وہ اس کو سلام کر کے الگ ہو جاتے ہیں ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا: وَاِذَ ا سَمِعُو ا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْ اعَنْہُ وَقَالُوْ الَنَا اَعْمَا لُنا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ، سَلَامٌ عَلَیْکُمْ لَا نَبْتَغِی الْجَاھِلِیْنَ O (القصص آیت 55) ’’ اور جب وہ کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں تو اسے نظر انداز کر دیتے ہیں ، کہتے ہیں بھائی ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ، سلام ہے تم کو ، ہم جاہلوں کے منہ نہیں لگتے ‘‘۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم ، القصص، حواشی 72 ۔ 78 )۔
81. یعنی وہ ان کے دن کی زندگی تھی اور یہ ان کی راتوں کی زندگی ہے ۔ ان کی راتیں نہ عیاشی میں گزرتی ہیں نہ ناچ گانے میں ، نہ لہو و لعب میں ، نہ گپوں اور افسانہ گوئیوں میں ، اور نہ ڈاکے مارنے اور چوریاں کرنے میں ۔ جاہلیت کے ان معروف مشاغل کے برعکس یہ اس معاشرے کے وہ لوگ ہیں جن کی راتیں خدا کے حضور کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے دعا و عبادت کرتے گزرتی ہیں ۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ ان کی زندگی کے اس پہلو کو نمایاں کر کے پیش کیا گیا ہے ۔ مثلاً سورہ سجدہ میں فرمایا : تَتَجَا فٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفاً وَّ طَمَعاً ، ’’ ان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں ، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے رہتے ہیں ‘‘ (آیت 16) ۔ اور سورہ ذاریات میں فرمایا کَانُوْا اَلَیْلاً مِّنَ الَّیْلِ مَایَھْجَعُوْنَ ہ وَ بِالْاَسْحَارِ ھُمْ یَسْتَغْفِرُون ، ’’یہ اہل جنت وہ لوگ تھے جو راتوں کو کم ہی سوتے تھے اور سحر کے اوقات میں مغفرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے ‘‘ (آیات 17۔18 )۔ اور سورہ زمر میں ارشاد ہوا : اَمَّنْھُوَقَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیْلِ سَاجِداًوَّقَآئِماً یَّحْذَرُالْاٰخِرَۃَوَیَرْ جُوْا رَحْمَۃ۔ رَبِّہٖ ، ’’ کیا اس شخص کا انجام کسی مشرک جیسا ہو سکتا ہے جو اللہ کا فرماں بردار ہو، رات کے اوقات میں سجدے کرتا اور کھڑا رہتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی آس لگائے ہوئے ہو ؟‘‘ (آیت 9)
82. یعنی یہ عبادت ان میں کوئی غرور پیدا نہیں کرتی۔ انہیں اس بات کا کوئی زعم نہیں ہوتا کہ ہم تو اللہ کے پیارے اور اس کے چہیتے ہیں ، بھلا آگ ہمیں کہاں چھو سکتی ہے ۔ بلکہ اپنی ساری نیکیوں اور عبادتوں کے باوجود وہ اس خوف سے کانپتے رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے عمل کی کوتاہیاں ہم کو مبتلائے عذاب نہ کر دیں ۔ وہ اپنے تقویٰ کے زور سے جنت جیت لینے کا پندار نہیں رکھتے ، بلکہ اپنی انسانی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے عذاب سے بچ نکلنے ہی کو غنیمت سمجھتے ہیں ، اور اس کے لیے بھی ان کا اعتماد اپنے عمل پر نہیں بلکہ اللہ کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ۔
83. یعنی نہ تو ان کا حال یہ ہے کہ عیاشی، اور قمار بازی ، اور شراب نوشی ، اور یار باشی، اور میلوں ٹھیلوں ، اور شادی بیاہ میں بے دریغ روپیہ خرچ کریں اور اپنی حیثیت سے بڑھ کر اپنی شان دکھانے کے لیے غذا مکان، لباس اور تزئین و آرائش پر دولت لٹائیں ۔ اور نہ ان کی کیفیت یہ ہے کہ ایک زر پرست آدمی کی طرح پیسہ جوڑ جوڑ کر رکھیں ، نہ خود کھائیں ، نہ بال بچوں کی ضروریات اپنی استطاعت کے مطابق پوری کریں ، اور نہ کسی راہ خیر میں خوش دلی کے ساتھ کچھ دیں ۔ عرب میں یہ دونوں قسم کے نمونے کثرت سے پائے جاتے تھے ۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو خوب دل کھول کر خرچ کرتے تھے ، مگر ان کے ہر خرچ کا مقصود یا تو ذاتی عیش و تَنَعُّم تھا، یا برادری میں ناک اونچی رکھنا اور اپنی فیاضی و دولت مندی کے ڈنکے بجوانا ۔ دوسری طرف وہ بخیل تھے جن کی کنجوسی مشہور تھی۔ اعتدال کی روش بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی تھی اور ان کم لوگوں میں اس وقت سب سے زیادہ نمایاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے اصحاب تھے ۔
اس موقع پر یہ جان لینا چاہیے کہ اسراف کیا چیز ہے اور بخل کیا چیز۔ اسلامی نقطۂ نظر سے اسراف تین چیزوں کا نام ہے ۔ ایک، ناجائز کاموں میں دولت صرف کرنا ، خواہ وہ ایک پیسہ ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرے ، جائز کاموں میں خرچ کرتے ہوئے حد سے تجاوز کر جانا، خواہ اس لحاظ سے کہ آدمی اپنی استطاعت سے زیادہ خرچ کرے ، یا اس لحاظ سے کہ آدمی کو جو دولت اس کی ضرورت سے بہت زیادہ مل گئی ہو اسے وہ اپنے ہی عیش اور ٹھاٹ باٹ میں صرف کرتا چلا جائے ۔ تیسرے ، نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا، مگر اللہ کے لیے نہیں بلکہ ریا اور نمائش کے لیے اس کے برعکس بخل کا اطلاق دو چیزوں پر ہوتا ہے ۔ ایک یہ کہ آدمی اپنی اور اپنے بال بچوں کی ضروریات پر اپنی مقدرت اور حیثیت کے مطابق خرچ نہ کرے ۔ دوسرے یہ کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں اس کے ہاتھ سے پیسہ نہ نکلے ۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال کی راہ اسلام کی راہ ہے جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ : من فقہ الرجل قصدہ فی معیشتہ، ’’اپنی معیشت میں توسط اختیار کرنا آدمی کے فقیہ (دانا) ہونے کی علامتوں میں سے ہے ‘‘ (احمد و طبرنی، بروایت ابی الدرداء) ۔
84. یعنی وہ ان تین بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے ہیں جن میں اہل عرب کثرت سے مبتلا ہیں ۔ ایک شرک باللہ ، دوسرے قتل ناحق ، تیسرے زنا۔ اسی مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بکثرت احادیث میں بیان فرمایا ہے ۔ مثلاً عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ سے پوچھا گیا، سب سے بڑا گناہ کیا ہے ۔ فرمایا : اَنْ تَجْعَلَ لِلہِ نِدًّ ا وَّ ھُوَخَلَقَکَ ’’ یہ کہ تو کسی کو اللہ کا مد مقابل اور ہمسر ٹھیرائے ، حالانکہ تجھے پیدا اللہ نے کیا ہے ‘‘ ۔ پوچھا گیا اس کے بعد فرمایا ان تقتل ولد کا خشیۃ ان یطعَمَ معک، ’’ یہ کہ تو اپنے بچے کو اس خوف سے قتل کر ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھانے میں شریک ہو جائے گا‘‘۔ پوچھا گیا پھر۔ فرمایا اَنْ تزانی حلیلۃ جارک، ’’ یہ کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے ‘‘ (بخاری، مسلم ، ترمذی، نسائی، احمد )۔ اگرچہ کبیرہ گناہ اور بھی بہت سے ہیں ، لیکن عرب کی سوسائیٹی پر اس وقت سب سے زیادہ تسلط انہی تین گناہوں کا تھا، اس لیے مسلمانوں کی اس خصوصیت کو نمایاں کیا گیا کہ پورے معاشرے میں یہ چند لوگ ہیں جو ان برائیوں سے بچ گئے ہیں ۔
یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ مشرکین کے نزدیک تو شرک سے پرہیز کرنا ایک بہت بڑا عیب تھا ، پھر اسے مسلمانوں کی ایک خوبی کی حیثیت سے ان کے سامنے پیش کرنے کی کونسی معقول وجہ ہو سکتی تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل عرب اگرچہ شرک میں مبتلا تھے اور سخت تعصب کی حد تک مبتلا تھے ، مگر در حقیقت اس کی جڑیں اوپری سطح ہی تک محدود تھیں ، کچھ گہری اتری ہوئی نہ تھیں ، اور دنیا میں کبھی کہیں بھی شرک کی جڑیں انسانی فطرت میں گہری اتری ہوئی نہیں ہوتیں ۔ اس کے برعکس خالص خدا پرستی کی عظمت ان کے ذہن کی گہرائیوں میں رچی ہوئی موجود تھی جس کو ابھارنے کے لیے اوپر کی سطح کو بس ذرا زور سے کھرچ دینے کی ضرورت تھی۔ جاہلیت کی تاریخ کے متعدد واقعات ان دونوں باتوں کی شہادت دیت ہیں ۔ مثلاً اَبرہہ کے حملے کے موقع پر قریش کا بچہ بچہ یہ جانتا تھا کہ اس بلا کو وہ بت نہیں ٹال سکتے جو خانۂ کعبہ میں رکھے ہوئے ہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ٹال سکتا ہے جس کا یہ گھر ہے ۔ آج تک وہ اشعار اور قصائد محفوظ ہیں جو اصحاب الفیل کی تباہی پر ہم عصر شعراء نے کہے تھے ۔ ان کا لفظ لفظ گواہی دیتا ہے کہ وہ لوگ اس واقعہ کو محض اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ سمجھتے تھے اور اس امر کا ادنیٰ سا گمان بھی نہ رکھتے تھے کہ اس میں ان کے معبودوں کا کوئی دخل ہے ۔ اسی موقع پر شرک کا یہ بد ترین کرشمہ بھی قریش اور تمام مشرکین عرب کے سامنے آیا تھا کہ ابرہہ جب مکے کی طرف جاتے ہوئے طائف کے قریب پہنچا تو اہل طائف نے اس اندیشے سے کہ یہ کہیں ان کے معبود ’’لات‘‘ کے مندر کو بھی نہ گرا دے ، اپنی خدمات کعبے کو منہدم کرنے کے لیے اس کے آگے پیش کر دیں اور اپنے بدرقے اس کے ساتھ کر دیے تاکہ وہ پہاڑی راستوں سے اس کے لشکر کو بخیریت مکہ تک پہنچا دیں ۔ اس واقعہ کی تلخ یاد مدتوں تک قریش کو ستاتی رہی اور سالہا سال تک وہ اس شخص کی قبر پر سنگ باری کرتے رہے جو طائف کے بدرقے کا سردار تھا۔ علاوہ بریں قریش اور دوسرے اہل عرب اپنے دین کو حضرت ابراہیم کی طرف منسوب کرتے تھے ، اپنے بہت سے مذہبی اور معاشرتی مراسم اور خصوصاً مناسک حج کو دین ابراہیمی ہی کے اجزا قرار دیتے تھے ، اور یہ بھی مانتے تھے کہ حضرت ابراہیم خالص خدا پرست تھے ، بتوں کی پرستش انہوں نے کبھی نہیں کی ۔ ان کے ہاں کی روایات میں یہ تفصیلات بھی محفوظ تھیں کہ بت پرستی ان کے ہاں کب سے رائج ہوئی اور کون سا بت کب ، کہاں سے ، کون لایا ۔ اپنے معبودوں کی جیسی کچھ عزت ایک عام عرب کے دل میں تھی اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ جب کبھی اس کی دعاؤں اور تمناؤں کے خلاف کوئی واقعہ ظہور میں آ جاتا تو بسا اوقات وہ معبود صاحب کی توہین بھی کر ڈالتا تھا اور اس کی نذر و نیاز سے ہاتھ کھینچ لیتا تھا۔ ایک عرب اپنے باپ کے قاتل سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔ ذولْخَلَصَہ نامی بت کے آستانے پر جا کر اس نے فال کھلوائی۔ جواب نکلا یہ کام نہ کیا جائے۔اس پر عرب طیش میں آگیا۔ کہنے لگا :
لو کنت یا ذالخلص الموتورا مثلی وکان شیخک المقبورا
لم تنہ عن قتل العداۃ زورا
یعنی اے ذولخلصہ ! اگر میری جگہ تو ہوتا اور تیرا باپ مارا گیا ہوتا تو ہر گز تو یہ جھوٹی بات نہ کہتا کہ ظالموں سے بدلہ نہ لیا جائے ۔ ایک اور عرب صاحب اپنے اونٹوں کا گلہ اپنے معبود سعد نامی کے آستانے پر لے گئے تاکہ ان کے لیے ء برکت حاصل کریں ۔ یہ ایک لمبا تڑنگا بت تھا جس پر قربانیوں کا خون لتھڑا ہوا تھا۔ اونٹ اسے دیکھ کر بھڑک گئے اور ہر طرف بھاگ نکلے ۔ عرب اپنے اونٹوں کو اس طرح تتر بتر ہوتے دیکھ کر غصے میں آگیا۔ بت پر پتھر مارتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ ’’ خدا تیرا ستیاناس کرے ۔ میں آیا تھا برکت لینے کے لیے اور تو نے میرے رہے سہے اونٹ بھی بھگا دیے ‘‘۔ متعدد بت ایسے تھے جن کی اصلیت کے متعلق نہایت گندے قصے مشہور تھے ۔ مثلاً اَساف اور نائلہ جن کے مجسمے صفا اور مروہ پر رکھے ہوئے تھے ، ان کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ دونوں در اصل ایک عورت اور ایک مرد تھے جنہوں نے خانہ کعبہ میں زنا کا ارتکاب کیا تھا اور خدا نے ان کو پتھر بنا دیا ۔ یہ حقیقت جن معبودوں کی ہو، ظاہر ہے کہ ان کی کوئی حقیقی عزت تو عابدوں کے دلوں میں نہیں ہو سکتی ۔ ان مختلف پہلوؤں کو نگاہ میں رکھا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ خالص خدا پرستی کی ایک گہری قدر و منزلت تو دلوں میں موجود تھی، مگر ایک طرف جاہلانہ قدامت پرستی نے اس کو دبا رکھا تھا، اور دوسری طرف قریش کے پروہت اس کے خلاف تعصبات بھڑکاتے رہتے تھے ، کیونکہ بتوں کی عقیدت ختم ہو جانے سے ان کو اندیشہ تھا کہ عرب میں ان کو جو مرکزیت حاصل ہے وہ ختم ہو جائے گی اور ان کی آمدنی میں بھی فرق آ جائے گا۔ ان سہاروں پر جو مذہب شرک قائم تھا وہ توحید کی دعوت کے مقابلے میں کسی وقار کے ساتھ کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی لیے قرآن نے خود مشرکین کو خطاب کر کے بے تکلف کہا کہ تمہارے معاشرے میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پیروؤں کو جن وجوہ سے برتری حاصل ہے ان میں سے ایک اہم ترین وجہ ان کا شرک سے پاک ہونا اور خالص کدا پرستی پر قائم ہو جاتا ہے ۔ اس پہلو سے مسلمانوں کی برتری حاصل ہے ان میں سے ایک اہم ترین وجہ ان کا شرک سے پاک ہونا اور خالص خدا پرستی پر قائم ہو جانا ہے ۔ اس پہلو سے مسلمانوں کی برتری کو زبان سے ماننے کے لیے چاہے مشرکین تیار نہ ہوں ، مگر دلوں میں وہ اس کا وزن محسوس کرتے تھے ۔
85. اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ عذاب کا سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے گا، بلکہ پے در پے جاری رہے گا۔ دوسرے یہ کہ جو شخص کفر یا شرک یا دہریت و الحاد کے ساتھ قتل اور زنا اور دوسری معصیتوں کا بوجھ لیے ہوئے جائے گا اس کو بغاوت کی سزا الگ ملے گی اور ایک ایک جرم کی سزا الگ الگ ۔ اس کا ہر چھوٹا بڑا قصور حساب میں آئے گا۔ کوئی ایک خطا بھی معاف نہ ہو گی۔ قتل کی سزا ایک نہیں ہو گی بلکہ ہر فعل قتل کی الگ سزا اس کو بھگتنی ہو گی۔ زنا کی سزا بھی ایک نہیں ہو گی بلکہ جتنی بار وہ اس جرم کا مرتکب ہوا ہے اس کی جدا گانہ سزا پائے گا۔ اور یہی حال دوسرے تمام جرائم اور معاصی کے معاملے میں بھی ہو گا۔
86. یہ بشارت ہے ان لوگوں کے لیے جن کی زندگی پہلے طرح طرح کے جرائم سے آلودہ رہی ہو اور اب وہ اپنی اصلاح پر آمادہ ہوں ۔ یہی عام معافی (General Amnesty) کا اعلان تھا جس نے اس بگڑے ہوئے معاشرے کے لاکھوں افراد کو سہارا دے کر مستقل بگاڑ سے بچا لیا ۔ اسی نے ان کو امید کی روشنی دکھائی اور اصلاح حال پر آمادہ کیا۔ ورنہ اگر ان سے یہ کہا جاتا کہ جو گناہ تم کر چکے ہو ان کی سزا سے اب تم کسی طرح نہیں بچ سکتے ، تو یہ انہیں مایوس کر کے ہمیشہ کے لیے بدی کے بھنور میں پھنسا دیتا اور کبھی ان کی اصلاح نہ ہو سکتی ۔ مجرم انسان کو صرف معافی کی امید ہی جرم کے چکر سے نکال سکتی ہے ۔ مایوس ہو کر وہ ابلیس بن جاتا ہے ۔
توبہ کی اس نعمت نے عرب کے بگڑے ہوئے لوگوں کو کس طرح سنبھالا ، اس کا اندازہ ان بہت سے واقعات سے ہوتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں پیش آئے ۔ مثال کے طور پر ایک واقعہ ملاحظہ ہو جسے ابن جریر اور طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک روز میں مسجد نبوی سے عشا کی نماز پڑھ کر پلٹا تو دیکھا کہ ایک عورت میرے دروازے پر کھڑی ہے ۔ میں اس کو سلام کر کے اپنے حجرے میں چلا گیا اور دروازہ بند کر کے نوافل پڑھنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا اور پوچھا کیا چاہتی ہے ؟ وہ کہنے لگی میں آپ سے ایک سوال کرنے آئی ہوں ۔ مجھ سے زنا کا ارتکاب ہوا۔ ناجائز حمل ہوا۔ بچہ پیدا ہوا تو میں نے اسے مار ڈالا۔ اب میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ میرا گناہ معاف ہونے کی بھی کوئی صورت ہے ؟ میں نے کہا ہر گز نہیں ۔ وہ بڑی حسرت کے ساتھ آہیں بھرتی ہوئی واپس چلی گئی ، اور کہنے لگی ’’افسوس، یہ حسن آگ کے لیے پیدا ہوا تھا‘‘۔ صبح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھ کر جب میں فارغ ہوا تو میں نے حضورؐ کو رات کا قصہ سنایا۔ آپ نے فرمایا، بڑا غلط جواب دیا ابو ہریرہ تم نے ، کیا یہ آیت قرآن میں تم نے نہیں پڑھی : وَالَّذِیْنَ لَا یَدْ عُوْنَ مَعَ اللہِ اِلٰھاً اٰخَرَ ..........اِلّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمَلاً صَالِحاً ؟ حضور کا یہ جواب سن کر میں نکلا اور اس عورت کو تلاش کرنا شروع کیا۔ رات کو عشا ہی کے وقت وہ ملی ۔ میں نے اسے بشارت دی اور بتایا کہ سرکار رسالت مآبؐ نے تیرے سوال کا یہ جواب دیا ہے ۔ وہ سنتے ہی سجدے میں گر گئی اور کہنے لگی شکر ہے اس خدائے پاک کا جس نے میرے لیے معافی کا دروازہ کھولا ۔ پھر اس نے گناہ سے توبہ کی اور اپنی لونڈی کو اس کے بیٹے سمیت آزاد کر دیا۔ اس سے ملتا جلتا واقعہ احادیث میں ایک بڈھے کا آیا ہے جس نے آ کر حضورؐ سے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ، ساری زندگی گناہوں میں گزری ہے ۔ کوئی گناہ ایسا نہیں جس کا ارتکاب نہ کر چکا ہوں ۔ اپنے گناہ تمام روئے زمین کے باشندوں پر بھی تقسیم کر دوں تو سب کو لے ڈوبیں ۔کیا اب بھی میری معافی کی کوئی صورت ہے ؟ فرمایا کیا تو نے اسلام قبول کر لیا ہے ؟ اس نے عرض کیا میں گواہی دیتا ہو ں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں ۔ فرمایا جا، اللہ معاف کرنے والا اور تیری برائیوں کو بھلائی سے بدل دینے والا ہے ۔ اس نے عرض کیا میرے سارے جرم اور قصور؟ فرمایا ہاں ، تیرے سارے جرم اور قصور (ابن کثیر، بحوالہ ابن ابی حاتم)۔
87. اس کے دو مطلب ہیں ۔ایک یہ کہ جب وہ توبہ کر لیں گے تو کفر کی زندگی میں جو برے افعال وہ پہلے کیا کرتے تھے ان کی جگہ اب طاعت اور ایمان کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے نیک افعال کرنے لگیں گے اور تمام برائیوں کی جگہ بھلائیاں لے لیں گی۔ دوسرے یہ کہ توبہ کے نتیجہ میں صرف اتنا ہی نہ ہو گا کہ ان کے نامۂاعمال سے وہ تمام قصور کاٹ دیے جائیں گے جو انہوں نے کفر وہ گناہ کی زندگی میں کیے تھے ، بلکہ ان کی جگہ ہر ایک کے نامہ اعمال میں یہ نیکی لکھ دی جائے گی کیونکہ یہ وہ بندہ ہے جس نے بغاوت اور نافرمانی کو چھوڑ کر طاعت و فرمانبرداری اختیار کر لی۔ پھر جتنی بار بھی وہ اپنی سابقہ زندگی کے برے اعمال کو یاد کر کے نادم ہو گا اور اس نے اپنے خدا سے استغفار کیا ہو گا ۔ اس کے حساب میں اتنی ہی نیکیاں لکھ دی جائیں گی، کیونکہ خطا پر شرمسار ہونا اور معافی مانگنا بجائے خود ایک نیکی ہے ۔ اس طرح اس کے نامہ اعمال میں تمام پچھلی برائیوں کی جگہ بھلائیاں لے لیں گی ور اس کا انجام صرف سزا سے بچ جانے تک ہی محدود نہ رہے گا بلکہ وہ الٹا انعامات سے سرفراز ہو گا۔
88. یعنی فطرت کے اعتبار سے بھی بندے کا اصلی مرجع اسی کی بارگاہ ہے ، اور اخلاقی حیثیت سے بھی وہی ایک بار گاہ ہے جس کی طرف اسے پلٹنا چاہیے ، اور نتیجے کے اعتبار سے بھی اس بارگاہ کی طرف پلٹنا مفید ہے ، ورنہ کوئی دوسری جگہ ایسی نہیں ہے جدھر رجوع کر کے وہ سزا سے بچ سکے یا ثواب پا سکے ۔ علاوہ بریں اس کا مطلب یہ بھی کہ وہ پلٹ کر ایک ایسی بارگاہ کی طرف جاتا ہے جو واقعی ہے ہی پلٹنے کے قابل جگہ، بہترین بارگاہ، جہاں سے تمام بھلائیاں ملتی ہیں ، جہاں سے قصوروں پر شرمسار ہونے والے دھتکارے نہیں جاتے بلکہ معافی اور انعام سے نوازے جاتے ہیں ، جہاں معافی مانگنے والے کے جرم نہیں گنے جاتے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس نے توبہ کر کے اپنی اصلاح کتنی کر لی ، جہاں بندے کو وہ آقا ملتا ہے جو انتقام پر خار کھائے نہیں بیٹھا ہے بلکہ اپنے ہر شرمسار غلام کے لیے دامن رحمت کھولے ہوئے ہے ۔
89. اس کے بھی دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ کسی جھوٹی بات کی گواہی نہیں دیتے اور کسی ایسی چیز کو واقعہ اور حقیقت قرار نہیں دیتے جس کے واقعہ اور حقیقت ہونے کا انہیں علم نہ ہو، یا جس کے خلاف واقعہ و حقیقت ہونے کا انہیں اطمینان ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ جھوٹ کا مشاہدہ نہیں کرتے ، اس کے تماشائی نہیں بنتے ، اس کو دیکھنے کا قصد نہیں کرتے ۔ اس دوسرے مطلب کے اعتبار سے ’’جھوٹ ‘‘ کا لفظ باطل اور شر کا ہم معنی ہے ۔ انسان جس برائی کی طرف بھی جاتا ہے ، لذت یا خوشنمائی یا ظاہری فائدے کے اس جھوٹے ملمع کی وجہ سے جاتا ہے جو شیطان نے اس پر چڑھا رکھا ہے یہ ملمع اتر جائے تو ہر بدی سراسر کھوٹ ہی کھوٹ ہے جس پر انسان کبھی نہیں ریجھ سکتا۔ لہٰذا ہر باطل، ہر گناہ اور ہر بدی اس لحاظ سے جھوٹ ہے کہ وہ اپنی جھوٹی چمک دمک کی وجہ ہی سے اپنی طرف لوگوں کو کھنچتی ہے ۔ مومن چونکہ حق کی معرفت حاصل کر لیتا ہے ، اس لیے وہ اس جھوٹ کو ہر روپ میں پہچان جاتا ہے ، خواہ وہ کیسے ہی دلفریب دلائل ، یا نظر فریب آرٹ ، یا سماعت فریب خوش آوازیوں کا جامہ پہن کر آئے
90. ’’ لغو‘‘ کا لفظ اس ’’جھوٹ ‘‘ پر بھی حاوی ہے جس کی تشریح اوپر کی جاچکی ہے ، اور اس کے ساتھ تمام فضول، لا یعنی اور بے فائدہ باتیں اور کام بھی اس کے مفہوم میں شامل ہیں ۔ اللہ کے صالح بندوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جان بوجھ کر اس طرح کی چیزیں دیکھنے یا سننے یا ان میں حصہ لینے کے لیے نہیں جاتے ، اور اگر کبھی ان کے راستے میں ایسی کوئی چیز آ جائے تو ایک نگاہ غلط انداز تک ڈالے بغیر اس پر سے اس طرح گزر جاتے ہیں جیسے ایک نفیس مزاج آدمی گندگی کے ڈھیر سے گزر جاتا ہے ۔ غلاظت اور تعفُّن سے دلچسپی ایک بد ذوق اور پلید آدمی تو لے سکتا ہے مگر ایک خوش ذوق اور مہذب انسان مجبوری کے بغیر اس کے پاس سے بھی گزرنا گوارا نہیں کر سکتا، کجا کہ وہ بدبو سے مستفید ہونے کے لیے ایک سانس بھی وہاں لے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، المومنون حاشیہ 4 )۔
91. اصل میں الفاظ ہیں لَمْ یَخِرُّ وْا عَلَیھَا صُمّاً وَّ عَمْیَاناً ، جن کا لفظی ترجمہ یہ ہے : ’’ وہ ان پر اندھے بہرے بن کر نہیں گرتے ‘‘۔ لیکن یہاں ’’ گرنے ‘‘ کا لفظ اپنے لغوی معنی کے لیے نہیں بلکہ محاورے کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔ جیسے ہم اردو میں کہتے ہیں ’’ جہاد کا حکم سن کر بیٹھے رہ گئے ‘‘۔ اس میں بیٹھنے کا لفظ اپنے لغوی معنی میں نہیں بلکہ جہاد کے لیے شرکت نہ کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے لوگ نہیں ہیں جو اللہ کی آیات سن کر ٹس سے مس نہ ہوں ، بلکہ وہ ان کا گہرا اثر قبول کرتے ہیں ۔ جو ہدایت ان آیات میں آئی ہو اس کی پیروی کرتے ہیں ، جس چیز کو فرض قرار دیا گیا ہو اسے بجا لاتے ہیں ، جس چیز کی مذمت بیان کی گئی ہو اس سے رک جاتے ہیں ، اور جس عذاب سے ڈرایا گیا ہو اس کے تصور سے کانپ اٹھتے ہیں ۔
92. یعنی ان کو ایمان اور عمل صالح کی توفیق دے اور پاکیزہ اخلاق سے آراستہ کر ، کیونکہ ایک مومن کو بیوی بچوں کے حسن و جمال اور عیش و آرام سے نہیں بلکہ ان کی نیک خصالی سے ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے ۔ اس کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز تکلیف دہ نہیں ہو سکتی کہ جو دنیا میں اس کو سب سے زیادہ پیارے ہیں انہیں دوزخ کا ایندھن بننے کے لیے تیار ہوتے دیکھے ۔ ایسی صورت میں تو بیوی کا حسن اور بچوں کی جوانی و لیاقت اس کے لیے اور بھی زیادہ سوہان روح ہو گی، کیونکہ وہ ہر وقت اس رنج میں مبتلا رہے گا کہ یہ سب اپنی ان خوبیوں کے باوجود اللہ عذاب میں گرفتار ہونے والے ہیں ۔
یہاں خاص طور پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ جس وقت یہ آیات نازل ہوئی ہیں وہ وقت وہ تھا جب کہ مکہ کے مسلمانوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جس کے محبوب ترین رشتہ دار کفر و جاہلیت میں مبتلا نہ ہوں ۔ کوئی مرد ایمان لے آیا تھا تو اس کی بیوی ابھی کافر تھی۔ کوئی عورت ایمان لے آئی تھی تو اس کا شوہر ابھی کافر تھا۔ کوئی نوجوان ایمان لے آیا تھا تو اس کے ماں باپ اور بھائی بہن ، سب کے سب کفر میں مبتلا تھے ۔ اور کوئی باپ ایمان لے آیا تھا تو اس کے اپنے جوان جوان بچے کفر پر قائم تھے ۔ اس حالت میں ہر مسلمان ایک شدید روحانی اذیت میں مبتلا تھا اور اس کے دل سے وہ دعا نکلتی تھی جس کی بہترین ترجمانی اس آیت میں کی گئی ہے ۔’’ آنکھوں کی ٹھنڈک‘‘ نے اس کیفیت کی تصویر کھینچ دی ہے کہ اپنے پیاروں کو کفر و جاہلیت میں مبتلا دیکھ کر ایک آدمی کو ایسی اذیت ہو رہی ہے جیسے اس کی آنکھیں آشوب چشم سے ابل آئی ہوں اور کھٹک سے سوئیاں سی چبھ رہی ہوں ۔ اس سلسلہ کلام میں ان کی اس کیفیت کو در اصل یہ بتانے کے لیے بیان کیا گیا ہے کہ وہ جس دین پر ایمان لائے ہیں پورے خلوص کے ساتھ لائے ہیں ۔ ان کی حالت ان لوگوں کی سی نہیں ہے جن کے خاندان کے لوگ مختلف مذہبوں اور پارٹیوں میں شامل رہتے ہیں اور سب مطمئن رہتے ہیں کہ چلو، ہر بینک میں ہمارا کچھ نہ کچھ سرمایہ موجود ہے ۔
93. یعنی ہم تقویٰ اور طاعت میں سب سے بڑھ جائیں ، بھلائی اور نیکی میں سب سے آگے نکل جائیں محض نیک ہی نہ ہوں بلکہ نیکوں کے پیشوا ہوں اور ہماری بدولت دنیا بھر میں نیکی پھیلے ۔ اس چیز کو بھی یہاں در اصل یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مال و دولت اور شوکت و حشمت میں نہیں بلکہ نیکی و پرہیز گاری میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔مگر ہمارے زمانے میں کچھ اللہ کے بندے ایسے ہیں جنہوں نے اس آیت کو بھی امامت کی امیدواری اور ریاست کی طلب کے لیے دلیل جواز کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ ان کے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’’ یا اللہ متقی لوگوں کو ہماری رعیت اور ہم کو ان کا حکمراں بنا دے ‘‘۔ اس سخن فہمی کی داد ’’امیدواروں ‘‘ کے سوا اور کون دے سکتا ہے ۔
94. صبر کا لفظ یہاں اپنے وسیع ترین مفہوم میں استعمال ہوا ہے ۔ دشمنان حق کے مظالم کو مردانگی کے ساتھ برداشت کرنا ۔ دین حق کو قائم اور سربلندی کرنے کی جدو جہد میں ہر قسم کے مصائب اور تکلیفوں کو سہہ جانا ۔ ہر خوف اور لالچ کے مقابلے میں راہ راست پر ثابت قدم رہنا ۔ شیان کی تمام ترغیبات اور نفس کی ساری خواہشات کے علی الرغم فرض کو بجا لانا، حرام سے پرہیز کرنا اور حدود اللہ پر قائم رہنا ۔ گناہ کی ساری لذتوں اور منفعتوں کو ٹھکرا دینا اور نیکی و دوستی کے ہر نقصان اور اس کی بدولت حاصل ہونے والی ہر محرومی کو انگیز کر جانا۔ غرض اس ایک لفظ کے اندر دین اور دینی رویے اور دینی اخلاق کی ایک دنیا کی دنیا سمو کر رکھ دی گئی ہے ۔
95. اصل میں لفظ غُرْفَہ استعمال ہوا ہے جس کے معنی بلند و بالا عمارت کے ہیں ۔ اس کا ترجمہ عام طور پر ’’بالا خانہ‘‘ کیا جاتا ہے جس سے آدمی کے ذہن میں ایک دو منزلہ کوٹھے کی سی تصویر آ جاتی ہے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں انسان جو بڑی سے بڑی اور اونچی سے اونچی عمارتیں بناتا ہے ، حتّیٰ کہ ہندوستان کا روضہ تاج اور امریکہ کے ’‘ فلک شگاف‘‘ (Sky-scrapers)تک جنت کے ان محلات کی محض ایک بھونڈی سی نقل ہیں جن کا ایک دھندلا سا نقشہ اولاد آدم کے لا شعور میں محفوظ چلا آتا ہے ۔
96. یعنی اگر تم اللہ سے دعائیں نہ مانگو ، اور اس کی عبادت نہ کرو، اور اپنی حاجات کے لیے اس کو مدد کے لیے نہ پکارو، تو پھر تمہارا کوئی وزن بھی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ پر کاہ کے برابر بھی تمہاری پروا کرے ۔ محض مخلوق ہونے کی حیثیت سے تم میں اور پتھروں کوئی فرق نہیں ۔ تم سے اللہ کی کوئی حاجت اٹکی ہوئی نہیں ہے کہ تم بندگی نہ کرو گے تو اس کا کوئی کام رکا رہ جائے گا۔ اس کی نگاہ التفات کو جو چیز تمہاری طرف مائل کرتی ہے وہ تمہارا اس کی طرف ہاتھ پھیلانا اور اس سے دعائیں مانگنا ہی ہے ۔ یہ کام نہ کرو گے تو کوڑے کرکٹ کی طرح پھینک دیے جاؤ گے ۔