Tafheem ul Quran

Surah 26 Ash-Shu'ara, Ayat 1-9

طٰسٓمّٓ‏ ﴿26:1﴾ تِلۡكَ اٰيٰتُ الۡكِتٰبِ الۡمُبِيۡنِ‏ ﴿26:2﴾ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّـفۡسَكَ اَلَّا يَكُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿26:3﴾ اِنۡ نَّشَاۡ نُنَزِّلۡ عَلَيۡهِمۡ مِّنَ السَّمَآءِ اٰيَةً فَظَلَّتۡ اَعۡنَاقُهُمۡ لَهَا خٰضِعِيۡنَ‏ ﴿26:4﴾ وَمَا يَاۡتِيۡهِمۡ مِّنۡ ذِكۡرٍ مِّنَ الرَّحۡمٰنِ مُحۡدَثٍ اِلَّا كَانُوۡا عَنۡهُ مُعۡرِضِيۡنَ‏ ﴿26:5﴾ فَقَدۡ كَذَّبُوۡا فَسَيَاۡتِيۡهِمۡ اَنۡۢـبٰٓـؤُا مَا كَانُوۡا بِهٖ يَسۡتَهۡزِءُوۡنَ‏  ﴿26:6﴾ اَوَلَمۡ يَرَوۡا اِلَى الۡاَرۡضِ كَمۡ اَنۡۢبَتۡنَا فِيۡهَا مِنۡ كُلِّ زَوۡجٍ كَرِيۡمٍ‏ ﴿26:7﴾ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيَةً​  ؕ وَّمَا كَانَ اَكۡثَرُهُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿26:8﴾ وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿26:9﴾

1 - ط۔س۔م۔ 2 - یہ کتابِ مبین کی آیات ہیں۔ 1 3 - اے محمدؐ ، شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ 2 4 - ہم چاہیں تو آسمان سے ایسی نشانی نازل کر سکتے ہیں کہ اِن کی گردنیں اس کے آگے جُھک جائیں۔ 3 5 - اِن لوگوں کے پاس رحمٰن کی طرف سے جو نئی نصیحت بھی آتی ہے یہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ 6 - اب کہ یہ جھُٹلا چکے ہیں، عنقریب اِن کو اس چیز کی حقیقت (مختلف طریقوں سے )معلوم ہو جائے گی جس کا یہ مذاق اُڑاتے رہے ہیں۔ 4 7 - اور کیا انہوں نے کبھی زمین پر نگاہ نہیں ڈالی کہ ہم نے کتنی کثیر مقدار میں ہر طرح کی عمدہ نباتات اس میں پیدا کی ہیں؟ 8 - یقیناً اس میں ایک نشانی ہے 5 ، مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں۔ 9 - اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا ربّ زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔ 6 ؏۱


Notes

1. یعنی یہ آیات جو اس سورے میں پیش کی جا رہی ہیں ، اس کتاب کی آیات ہیں جو اپنا مدعا صاف صاف کھول کر بیان کرتی ہے۔ جسے پڑھ کر یاسن کر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ وہ کس چیز کی طرف بلاتی ہے ، کس چیز سے روکتی ہے ، کسے حق کہتی ہے اور کسے باطل قرار دیتی ہے۔ ماننا یا نہ ماننا الگ بات ہے ، مگر کوئی شخص یہ بہانہ کبھی نہیں بنا سکتا کہ اس کتاب کی تعلیم اس کی سمجھ میں نہیں آئی اور وہ اس سے یہ معلوم ہی نہ کر سکا کہ وہ اس کو کیا چیز چھوڑنے اور کیا اختیار کرنے کی دعوت دے رہی ہے۔

قرآن کو الکِتَابُ الْمُبِیْن کہنے کا ایک دوسرا مفہوم بھی ہے ، اور وہ یہ کہ اس کا کتاب الہیٰ ہونا ظاہر و باہر ہے۔ اس کی زبان، اس کا بیان، اس کے مضامین، اس کے پیش کردہ حقائق، اور اس کے حالاتِ نزول، سب کے سب صاف صاف دلالت کر رہے ہیں کہ یہ خدا وند عالم ہی کی کتاب ہے۔ اس لحاظ سے ہر فقرہ جو اس کتاب میں آیا ہے ایک نشانی اور ایک معجزہ (آیت) ہے۔ کوئی شخص عقل و خرد سے کام لے تو اسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کا یقین کرنے کے لیے کسی اور نشانی کی حاجت نہیں ، کتاب مبین کی یہی آیات (نشانیاں ) اسے مطمئن کرنے کے لیے کافی ہیں۔

یہ مختصر تمہیدی فقرہ اپنے دونوں معنوں کے لحاظ سے اس مضمون کے ساتھ پوری مناسبت رکھتا ہے جو آگے اس سورہ میں بیان ہوا ہے۔ کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے معجزہ مانگتے تھے تاکہ اس نشانی کو دیکھ کر انہیں اطمینان ہو کہ واقعی آپ یہ پیغام خدا کی طرف سے لائے ہیں۔ فرمایا گیا کہ اگر حقیقت میں کسی کو ایمان لانے کے لیے نشانی کی طلب ہے تو کتاب مبین کی یہ آیات موجود ہیں۔ اسی طرح کفار نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر الزام رکھتے تھے کہ آپ شاعر یا کاہن ہیں۔ فرمایا گیا کہ یہ کتاب کوئی چیستاں اور معما تو نہیں ہے۔ صاف صاف کھول کر اپنی تعلیم پیش کر رہی ہے۔ خود ہی دیکھ لو کہ یہ تعلیم کسی شاعر یا کاہن کی ہو سکتی ہے ؟

2. نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اس حالت کا ذکر قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ کہف میں فرمایا : قَلَعَلَّکَ بَا خِعٌ نَّفْسَکَ عَلیٰٓ اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّم یُؤْ مِنُوْ ا لِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفاًO ‘‘شاید تم ان کے پیچھے غم کے مرے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے ‘‘۔ (آیت 6)۔ اور سورہ فاطر میں ارشاد ہوا فَلَا تَذْھَبْ نَفْسُکَ عَلَیْھِمْ حَسَرَاتٍO ’’ ان لوگوں کی حالت پر رنج و افسوس میں تمہاری جان نہ گھلے ‘‘ (آیت 8)۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور میں اپنی قوم کی گمراہی و ضلالت، اس کی اخلاقی پستی، اس کی ہٹ دھرمی، اور اصلاح کی ہر کوشش کے مقابلے میں اس کی مزاحمت کا رنگ دیکھ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم برسوں اپنے شب و روز کس دل گداز و جاں گُسِل کیفیت میں گزارتے رہے ہیں۔ بَخع کے اصل معنی پوری طرح ذبح کر ڈالنے کے ہیں۔ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ کے لغوی معنی یہ ہوئے کہ تم اپنے آپ کو قتل کیے دے رہے ہو۔

3. یعنی کوئی ایسی نشانی نازل کر دینا جو تمام کفار کو ایمان و طاعت کی روش اختیار کرنے پر مجبور کر دے ، اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ کام اس کی قدرت سے باہر ہے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کا جبری ایمان اس کو مطلوب نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ عقل و خرد سے کام لے کر ا ن آیات کی مدد سے حق کو پہچانیں جو کتاب الہیٰ میں پیش کی گئی ہیں ، جو تمام آفاق میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں ، جو خود ان کی اپنی ہستی میں پائی جاتی ہیں۔ پھر جب ان کا دل گواہی دے کہ واقعی حق وہی ہے جسے انبیاء علیہم السلام نے پیش کیا ہے ، اور اس کے خلاف جو عقیدے اور طریقے رائج ہیں وہ باطل ہیں ، تو جان بوجھ کر باطل کو چھوڑیں اور حق کو اختیار کریں۔ یہی اختیاری ایمان اور ترک باطل اور اتباع حق وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ انسان سے چاہتا ہے۔ اس لیے اس نے انسان کو ارادے اور اختیار کی آزادی دی ہے۔ اسی بنا پر اس نے انسان کو یہ قدرت عطا کی ہے کہ صحیح اور غلط، جس راہ پر بھی وہ جانا چاہے جاسکے۔ اسی وجہ سے اس نے انسان کے اندر خیر اور شر کے دونوں رجحانات رکھ دیے ہیں ، فجور اور تقویٰ کی دونوں راہیں اس کے آگے کھول دی ہیں ، شیطان کو بہکانے کی آزادی عطا کی ہے ، نبوت اور وحی اور دعوت خیر کا سلسلہ راہ راست دکھانے کے لیے قائم کیا ہے ، اور انسان کو انتخاب راہ کے لیے ساری مناسبِ حال صلاحیتیں دے کر اس امتحان کے مقام پر کھڑا کر دیا ہے کہ ہو کفر و فسق کا راستہ اختیار کرتا ہے یا ایمان و طاعت کا۔ اس امتحان کا سارا مقصد ہی فوت ہو جائے اگر اللہ تعالیٰ کوئی ایسی تدبیر اختیار فرمائے جو انسان کو ایمان اور اطاعت پر مجبور کر دینے والی ہو۔ جبری ایمان ہی مطلوب ہوتا تو نشانیاں نازل کر کے مجبور کرنے کیا حاجت تھی، اللہ تعالیٰ انسان کو اسی فطرت اور ساخت پر پیدا فرما سکتا تھا جس میں کفر، نافرمانی اور بدی کا کوئی امکان ہی نہ ہوتا، بلکہ فرشتوں کی طرح انسان بھی پیدائشی فرماں بردار ہوتا۔ یہی حقیقت ہے جس کی طرف متعدد مواقع پر قرآن مجید میں اشارہ کیا گیا ہے۔ مثلاً فرمایا : وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰ مَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّھُمْ جَمِیْعاً اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّیٰ یَکُوْنُوْ ا مُؤْمِنِیْنَ O ۔ ’’ اگر تمہارا رب چاہتا تو زمین کے رہنے والے سب کے سب لوگ ایمان لے آتے۔ اب کیا تم لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کرو گے ‘‘؟ (یونس، آیت 99)۔ اور : وَلَوْ شَآ ءَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ وَلِذٰلِکَ خَلَقَھُمْ۔’’اگر تیرا رب چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی امت بنا سکتا تھا۔ وہ تو مختلف راہوں پر ہی چلتے رہیں گے (اور بے راہ رویوں سے ) صرف وہی بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے۔ اسی لیے تو اس نے ان کو پیدا کیا تھا ‘‘۔ (ہود۔ آیت 119)۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم (یونس، حواشی 101۔ 102۔ ہود، حاشیہ 116 )۔

4. یعنی جن لوگوں کا حال یہ ہو کہ معقولیت کے ساتھ ان کو سمجھانے اور راہ راست دکھانے کی جو کوشش بھی جائے اس کا مقابلہ بے رخی و بے التفاتی سے کریں ، ان کا علاج یہ نہیں ہے کہ ان کے دل میں زبردستی ایمان اتارنے کے لیے آسمان سے نشانیاں نازل کی جائیں ، بلکہ ایسے لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ جب ایک طرف انہیں سمجھانے کا حق پورا پورا ادا کر دیا جائے اور دوسری طرف وہ بے رخی سے گزر کر قطعی اور کھلی تکذیب پر، اس سے بھی آگے بڑھ کر حقیقت کا مذاق اڑانے پر اتر آئیں ، تو ان کا انجام بد انہیں دکھا دیا جائے۔ یہ انجام بد اس شکل میں بھی انہیں دکھایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں وہ حق ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی ساری مزاحمتوں کے باوجود غالب آ جائے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ اس کی شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان پر ایک عذاب الیم نازل ہو جائے اور وہ تباہ و بر باد کر کے رکھ دیے جائیں۔ اور وہ اس شکل میں بھی ان کے سامنے آسکتا ہے کہ چند سال اپنی غلط فہمیوں میں مبتلا رہ کر وہ موت کی ناگزیر منزل سے گزریں اور آخر کار ان پر ثابت ہو جائے کہ سراسر باطل تھا جس کی راہ میں انہوں نے اپنی تمام سرمایہ زندگانی کھپا دیا اور حق وہی تھا جسے انبیاء علیہم السلام پیش کرتے تھے اور جسے یہ عمر بھر ٹھٹھوں میں اڑاتے رہے۔ اس انجام بد کے سامنے آنے کی چونکہ بہت سی شکلیں ہیں اور مختلف لوگوں کے سامنے وہ مختلف صورتوں سے آسکتا ہے اور آتا رہا ہے، اسی لیے آیت میں نَبَاء کے بجائے اَنْبَاء بصیغہ جمع فرمایا گیا، یعنی جس چیز کا یہ مذاق اڑا رہے ہیں اس کی حقیقت آخر کار بہت سی مختلف شکلوں میں انہیں معلوم ہو گی۔

5. یعنی جستجوئے حق کے لیے کسی کو نشانی کی ضرورت ہو تو کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ، آنکھیں کھول کر ذرا اس زمین ہی کی روئیدگی کو دیکھ لے ، اسے معلوم ہو جائے گا کہ نظام کائنات کی جو حقیقت (توحید الہٰ ) انبیاء علیہم السلام پیش کرتے ہیں وہ صحیح ہے ، یا وہ نظریات صحیح ہیں جو مشرکین یا منکرین خدا بیان کرتے ہیں۔ زمین سے اگنے والی بے شمار انواع و اقسام کی چیزیں جس کثرت سے اگ رہی ہیں ، جن مادوں اور قوتوں کی بدولت اگ رہی ہیں ، جن قوانین کے تحت اگ رہی ہیں ، پھر ان کی خواص اور صفات میں اور بے شمار مخلوقات کی ان گنت ضرورتوں میں جو صریح مناسبت پائی جاتی ہے ، ان ساری چیزوں کو دیکھ کر صرف ایک احمق ہی اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی حکیم کی حکمت، کسی علیم کے علم، کسی قادر و توانا کی قدرت اور کسی خالق کے منصوبہ تخلیق کے بغیر بس یونہی آپ سے آپ ہو رہا ہے۔ یا اس سارے منصوبے کو بنانے اور چلانے والا کوئی ایک خدا نہیں ہے بلکہ بہت سے خداؤں کی تدبیر نے زمین اور آفتاب و ماہتاب اور ہوا اور پانی کے درمیان یہ ہم آہنگی، اور ان وسائل سے پیدا ہونے والی نباتات اور بے حد و حساب مختلف النوع جانداروں کی حاجات کے درمیان یہ منا سبت پیدا کر رکھی ہے۔ ایک ذی عقل انسان تو، اگر وہ کسی ہٹ دھرمی اور پیشگی تعصب میں مبتلا نہیں ہے ، اس منظر کو دیکھ کر بے اختیار پکار اٹھے گا کہ یقیناً یہ خدا کے ہونے اور ایک ہی خدا کے ہونے کی کھلی کھلی علامات ہیں۔ ان نشانیوں کے ہوتے اور کس معجزے کی ضرورت ہے جسے دیکھے بغیر آدمی کو توحید کی صداقت کا یقین نہ آسکتا ہو؟

6. یعنی اس کی قدرت تو ایسی زبردست ہے کہ کسی کو سزا دینا چاہے تو پل بھر میں مٹا کر رکھ دے۔ مگر اس کے باوجود یہ سراسر اس کا رحم ہے کہ سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ برسوں اور صدیوں ڈھیل دیتا ہے ، سوچنے اور سمجھنے اور سنبھلنے کی مہلت دیے جاتا ہے ، اور عمر بھر کی نا فرمانیوں کو ایک توبہ پر معاف کر دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔