7. اوپر کی مختصر تمہیدی تقریر کے بعد اب تاریخی بیان کا آغاز ہو رہا ہے جس کی ابتدا حضرت موسیٰ اور فرعون کے قصے سے کی گئی ہے۔ اس سے خاص طور پر جو سبق دینا مقصود ہے وہ یہ کہ :
اولاً، حضرت موسیٰ کو جن حالات سے سابقہ پیش آیا تھا وہ ان حالات کی بہ نسبت بدر جہا زیادہ سخت تھے جن سے نبی صلی اللہ یہ و سلم کو سابقہ در پیش تھا۔ حضرت موسیٰ ایک غلام قوم کے فرد تھے جو فرعون اور اس کی قوم سے بری طرح دبی ہوئی تھی، بخلاف اس کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم قریش کے ایک فرد تھے اور آپ کا خاندان قریش کے دوسرے خاندانوں کے ساتھ بالکل برابر کی پوزیشن رکھتا تھا۔ حضرت موسیٰ نے خود اس فرعون کے گھر میں پرورش پائی تھی اور ایک قتل کے الزام میں دس برس روپوش رہنے کے بعد انہیں حکم دیا گیا تھا کہ اسی بادشاہ کے دربار میں جا کھڑے ہو جس کے ہاں سے وہ جان بچا کر فرار ہوئے تھے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ایسی کسی نازک صورت حال سے سابقہ نہ تھا۔ پھر فرعون کی سلطنت اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت ور سلطنت تھی۔ قریش کی طاقت کو اس کی طاقت سے کوئی نسبت نہ تھی۔ اس کے باوجود فرعون حضرت موسیٰ کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور آخر کار ان سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔اس سے اللہ تعالیٰ کفار قریش کو یہ سبق دینا چاہتا ہے کہ جس کی پشت پر اللہ کا ہاتھ ہو اس کا مقابلہ کر کے کوئی جیت نہیں سکتا۔ جب فرعون کی موسیٰ علیہ السلام کے سامنے کچھ پیش نہ گئی تو تم بیچارے کیا ہستی ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلہ میں بازی جیت لے جاؤ گے۔
ثانیاً جو نشانیاں حضرت موسیٰ کے ذریعہ سے فرعون کو دکھائی گئیں اس سے زیادہ کھلی نشانیاں اور کیا ہو سکتی ہیں۔ پھر ہزارہا آدمیوں کے مجمع میں فرعون ہی کے چیلنج پر علی الاعلان جادو گروں سے مقابلہ کرا کے یہ ثابت بھی کر دیا گیا کہ جو کچھ حضرت موسیٰ دکھا رہے ہیں وہ جادو نہیں ہے۔ فن سحر کے جو ماہرین فرعون کی اپنی قوم سے تعلق رکھتے تھے اور اس کے اپنے بلائے ہوئے تھے۔ انہوں نے خود یہ تصدیق کر دی کہ حضرت موسیٰ کی لاٹھی کا اژدھا بن جانا ایک حقیقی تغیر ہے اور یہ صرف خدائی معجزے سے ہو سکتا ہے ، جادو گری کے ذریعہ سے ایسا ہونا کسی طرح ممکن نہیں۔ ساحروں نے ایمان لاکر اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اس امر میں کسی شک کی گنجائش بھی باقی نہ چھوڑی کہ حضرت موسیٰ کی پیش کردہ نشانی واقعی معجزہ ہے ، جادو گری نہیں ہے۔ لیکن اس پر بھی جو لوگ ہٹ دھرمی میں مبتلا تھے انہوں نے نبی کی صداقت تسلیم کر کے نہ دی۔ اب تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ تمہارا ایمان لانا در حقیقت کوئی حسّی معجزہ اور مادی نشان دیکھنے پر موقوف ہے۔ تعصب، حمیتِ جاہلیہ، اور مفاد پرستی سے آدمی پاک ہو اور کھلے دل سے حق اور باطل کا فرق سمجھ کر غلط بات کو چھوڑنے اور صحیح بات قبول کرنے کے لیے کوئی شخص تیار ہو تو اس کے لیے وہی نشانیاں کافی ہیں جو اس کتاب میں اور اس کے لانے والے کی زندگی میں اور خدا کی وسیع کائنات میں ہر آنکھوں والا ہر وقت دیکھ سکتا ہے۔ ورنہ ایک ہٹ دھرم آدمی جسے حق کی جستجو ہی نہ ہو اور اغراض نفسانی کی بندگی میں مبتلا ہو کر جس نے فیصلہ کر لیا ہو کہ کسی ایسی صداقت کو قبول نہ کرے گا جس سے اس کی اغراض پر ضرب لگتی ہو، وہ کوئی نشانی دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے گا خواہ زمین اور آسمان ہی اس کے سامنے کیوں نہ الٹ دیے جائیں۔ ثانیاً، اس ہٹ دھرمی کا جو انجام فرعون نے دیکھا وہ کوئی ایسا انجام تو نہیں ہے جسے دیکھنے کے لیے دوسرے لوگ بے تاب ہوں۔ اپنی آنکھوں سے خدائی طاقت کے نشانات دیکھ لینے کے بعد جو نہیں مانتے وہ پھر ایسے ہی انجام سے دو چار ہوتے ہیں۔ اب کیا تم لوگ اس سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے اس کا مزا چکھنا ہی پسند کرتے ہو؟
تقابل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الاعراف، آیات 103 تا 137۔ یونس، 75 تا 92۔ بنی اسرائیل، 101 تا 104۔ جلد سوم طٰہٰ، 0 تا 79۔
8. یہ انداز بیان قوم فرعون کے انتہائی ظلم کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کا تعارف ہی ’’ظالم قوم ‘‘ کے لقب سے کرایا گیا ہے۔ گویا اس کا اصل نام ظالم قوم ہے اور قوم فرعون اس کا ترجمہ و تفسیر۔
9. یعنی اے موسیٰ، دیکھو کیسی عجیب بات ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو مختار مطلق سمجھتے ہوئے دنیا میں ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں اور اس بات سے بے خوف ہیں کہ اوپر کوئی خدا بھی ہے جو ان سے باز پرس کرنے والا ہے۔
10. سورہ طٰہٰ رکوع 2، اور سورہ قصص رکوع 4 میں اس کی جو تفصیل آئی ہے اسے ان آیات کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اول تو اتنے بڑے مشن پر تنہا جاتے ہوئے گھبراتے تھے (میرا سینہ گھٹتا ہے کے الفاظ اسی کی نشان دہی کرتے ہیں )، دوسرے ان کو یہ بھی احساس تھا کہ وہ روانی کے ساتھ تقریر نہیں کرسکتے۔ اس لیے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ حضرت ہارون کو ان کے ساتھ مدد گار کی حیثیت سے نبی بنا کر بھیجا جائے کیونکہ وہ زیادہ زبان آور ہیں ، جب ضرورت پیش آئے گی تو وہ ان کی تائید و تصدیق کر کے ان کی پشت مضبوط کریں گے۔ ممکن ہے کہ ابتداءً حضرت موسیٰ کی درخواست یہ رہی ہو کہ آپ کے بجائے حضرت ہارون کو اس منصب پر مامور کیا جائے ، اور بعد میں جب آپ نے محسوس کیا ہو کہ مرضی الٰہی آپ ہی کو مامور کرنے کی ہے تو پھر یہ درخواست کی ہو کہ انہیں آپ کا وزیر اور مدد گار بنایا جائے۔ یہ شبہہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ یہاں حضرت موسیٰ ان کو وزیر بنانے کی درخواست نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ عرض کر رہے ہیں یہ : فَاَرْسِلْ لِّیْ اِلیٰ ھَارُوْنَ، ’’ آپ ہارون کی طرف رسالت بھیجیں ‘‘۔ اور سورہ طٰہٰ میں وہ یہ گزارش کرتے ہیں کہ وَجْعَلْ لِّیْ وَزِیْراً مِّنْ اَھْلِیْھَارُوْنَ اَخِیْ، ’’ میرے لیے میرے خاندان میں سے ایک وزیر مقرر فرما دیجیے ، میرے بھائی ہارون کو ‘‘۔ نیز سورہ قصص میں وہ یہ عرض کرتے ہیں کہ : وَاَخِیْ ھٰرُوْنَ ھُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَاناً فَاَرْسِلْہُ مَعِیَ رِدْ اءً یُّصَدِّ قُنِیْ، ’’میرے بھائی ہارون مجھ سے زیادہ زبان آور ہیں لہٰذا آپ انہیں مدد گار کے طور پر میرے ساتھ بھیجیے تاکہ وہ میری تصدیق کریں ‘‘۔ اس سے خیال ہوتا ہے کہ غالباً یہ مؤخر الذکر دونوں درخواستیں بعد کی تھیں ، اور پہلی بات وہی تھی جو حضرت موسیٰ سے اس سورے میں نقل ہوئی ہے۔
بائیبل کا بیان اس سے مختلف ہے۔ وہ کہتی ہے کہ حضرت موسیٰ نے قوم فرعون کی تکذیب کا خوف اور اپنی زبان کے کند ہونے کا عذر پیش کر کے یہ منصب قبول کرنے سے بالکل ہی نکار کر دیا تھا : ’’ اے خداوند میں تیری منت کرتا ہوں۔ کسی اور کے ہاتھ سے جسے تو چاہے یہ پیغام بھیج ‘‘۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بطور خود حضرت ہارون کو ان کے لیے مدد گار مقرر فرما کر انہیں اس بات پر راضی کیا کہ دونوں بھائی مل کر فرعون کے پاس جائیں (خروج باب 4۔ آیات ا تا 71 ) مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، طٰہٰ، حاشیہ 19۔
11. یہ اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جو سورہ قصص رکوع 2 میں بیان ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ نے قوم فرعون کے ایک شخص کو ایک اسرائیلی سے لڑتے دیکھ کر ایک گھونسا مار دیا تھا جس سے وہ مر گیا۔ پھر جب حضرت موسیٰ کو معلوم ہوا کہ اس وقعہ کی اطلاع قوم فرعون کے لوگوں کو ہو گئی ہے اور وہ بدلہ لینے کی تیاری کر رہے ہیں۔
ملک چھوڑ کر مَدْیَن کی طرف فرار ہو گئے تھے۔ اب جو آٹھ دس سال کی روپوشی کے بعد یکایک انہیں یہ حکم دیا گیا کہ تم پیغام رسالت لے کر اسی فرعون کے دربا ر میں جا کھڑے ہو جس کے ہاں تمہارے خلاف قتل کا مقدمہ پہلے سے موجود ہے تو حضرت موسیٰ کو بجا طور پر یہ خطرہ ہوا کہ پیغام سنانے کی نوبت آنے سے پہلے ہی وہ تو مجھے اس قتل کے الزام میں پھانس لے گا۔
12. نشانیوں سے مراد عصا اور ید بیضاء کے معجزے ہیں جن کے عطا کیے جانے کی تفصیل سورہ الاعراف رکوع 13۔ 14، طٰہٰ رکوع 1، سورہ نمل رکوع 1، اور سورہ قصص رکوع 4 میں بیان ہوئی ہے۔
13. حضرت موسیٰ و ہارون کی دعوت کے دو جز تھے : ایک، فرعون کو اللہ کی بندگی کی طرف بلانا، جو تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا اصل مقصود رہا ہے۔ دوسرے ، بنی اسرائیل کو فرعون کے بند غلامی سے نکالنا، جو مخصوص طور پر انہیں دونوں حضرات کا مشن تھا۔ قرآن مجید میں کسی جگہ صرف پہلے جزء کا ذکر کیا گیا ہے۔ (مثلاً سورہ نازعات میں ) اور کسی جگہ صرف دوسرے جز کا۔
14. اس سے ایک اشارہ اس خیال کی تائید میں نکلتا ہے کہ یہ فرعون وہ فرعون نہ تھا جس کے گھر میں حضرت موسیٰ نے پرورش پائی تھی، بلکہ یہ اس کا بیٹا تھا۔ اگر یہ وہی فرعون ہوتا تو کہتا کہ میں نے تجھے پالا تھا۔ لیکن یہ کہتا ہے کہ ہمارے ہاں تو رہا ہے اور ہم نے تیری پرورش کی ہے۔ (اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم الاعراف، حواشی 85۔ 93 )۔
15. اشارہ ہے اسی واقعہ قتل کی طرف جو حضرت موسیٰ سے سر زد ہو گیا تھا۔
16. اصل الفاظ ہیں : وَاَنَا مِنَ الضَّآ لِّیْنَ، ’’ میں اس وقت ضلالت میں تھا‘‘۔ یا ’’ میں نے اس وقت یہ کام ضلالت کی حالت میں کیا تھا‘‘۔ یہ لفظ ضلالت لازماً ’’گمراہی‘‘ کا ہی ہم معنی نہیں ہے۔ بلکہ عربی زبان میں اسے نا واقفیت، نادانی، خطا، نسیان، نادانستگی وغیرہ معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جو واقعہ سورہ قصص میں بیان ہوا ہے اس پر غور کرنے سے یہاں ضلالت بمعنی خطا یا نا دانستگی ہی لینا زیادہ صحیح ہے۔ حضرت موسیٰ نے اس قبطی کو ایک اسرائلی پر ظلم کرتے دیکھ کر صرف ایک گھونسا مارا تھا۔ ظاہر ہے کہ گھونسے سے بالعموم آدمی مرتا نہیں ہے ، نہ قتل کی نیت سے گھونسا مارا جاتا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس سے وہ شخص مرگیا۔ اس لیے صحیح صورت واقعہ یہی ہے کہ یہ قتل عمد نہیں بلکہ قتل خطا تھا۔ قتل ہوا ضرور، مگر بالارادہ قتل کی نیت سے نہیں ہوا، نہ کوئی ایسا آلہ یا ذریعہ استعمال کیا گیا جو قتل کی غرض سے استعمال کیا جاتا ہے یا جس سے قتل واقع ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
17. یعنی علم و دانش اور پروانہ نبوت۔ حکم کے معنی حکمت و دانش کے بھی ہیں ، اور اس سند اقتدار (Authority) کے بھی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کو عطا کی جاتی ہے ، جس کی بنا پر وہ اختیار کے ساتھ بولتا ہے۔
18. یعنی تیرے گھر میں پرورش پانے کے لیے میں کیوں آتا اگر تو نے بنی اسرائیل پر ظلم نہ ڈھایا ہوتا۔ تیرے ہی ظلم کی وجہ سے تو میری ماں نے مجھے ٹوکری میں ڈال کر دریا میں بہایا تھا۔ ورنہ کیا میری پرورش کے لیے میرا اپنا گھر موجود نہ تھا؟ اس لیے اس پرورش کا احسان جتانا تجھے زیب نہیں دیتا۔
19. بیچ میں یہ تفصیل چھوڑ دی گئی ہے کہ حضرت موسیٰ نے اپنے آپ کو ربّ العالمین کے رسول کی حیثیت سے پیش کر کے فرعون کو وہ پیغام پہنچایا جس کے لیے وہ بھیجے گئے تھے۔ یہ بات آپ سے آپ ظاہر ہے کہ نبی نے ضرور وہ پیغام پہنچا دیا ہو گا جس پر وہ مامور کیے گئے تھے ، اس لیے اس کا ذکر کرنے کی حاجت نہ تھی۔ اسے چھوڑ کر اب وہ گفتگو نقل کی جاتی ہے جو اس پیغام کی تبلیغ کے بعد فرعون اور موسیٰ کے درمیان ہوئی۔
20. یہ اس کا سوال حضرت موسیٰ کے اس قول پر تھا کہ میں رب العالمین (تمام جہان والوں کے مالک و آقا اور فرماں روا) کی طرف سے بھیجا گیا ہوں اور اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دے۔ اس پیغام کی نوعیت صریح طور پر سیاسی تھی۔ اس کے صاف معنی یہ تھے کہ حضرت موسیٰ جس کی نمائندگی کے مدعی ہیں وہ سارے جہاں والوں پر حاکمیت و اقتدار اعلیٰ رکھتا ہے اور فرعون کو اپنا تابع قرار دے کر اس کے دائرہ حکومت و اقتدار میں ایک بالا تر فرمانروا کی حیثیت سے نہ صرف یہ کہ مداخلت کر رہا ہے بلکہ اس کے نام یہ فرمان بھیج رہا ہے کہ تو اپنی رعایا کے ایک حصے کو میرے نامزد کردہ نمائندے کے حوالے کر دے تاکہ وہ اسے تیری سلطنت سے نکال کر لے جائے۔ اس پر فرعون پوچھتا ہے کہ یہ سارے جہاں والوں کا مالک و فرمانروا ہے کون جو مصر کے بادشاہ کو اس کی رعایا کے ایک ادنی فرد کے ہاتھوں یہ حکم بھیج رہا ہے۔
21. یعنی میں زمین پر بسنے والے کسی مخلوق اور فانی مدعی ملوکیت کی طرف سے نہیں آیا ہوں ، بلکہ اس کی طرف سے آیا ہوں جو آسمان و زمین کا مالک ہے۔ اگر تم اس بات کا یقین رکھتے ہو کہ اس کائنات کا کوئی خالق اور مالک و فرمانروا ہے تو تمہیں یہ سمجھنے میں کوئی زحمت نہیں ہونی چاہیے کہ سارے جہاں والوں کا رب کون ہے۔
22. حضرت موسیٰ کا یہ خطاب فرعون کے درباریوں سے تھا۔ جن سے فرعون نے کہا تھا کہ ’’ سنتے ہو‘‘۔ حضرت موسیٰ نے ان سے فرمایا کہ میں ان جھوٹے ارباب کا قائل نہیں ہوں جو آج ہیں اور کل نہ تھے ، اور کل تھے مگر آج نہیں ہیں۔ تمہارا یہ فرعون جو آج تمہارا رب بنا بیٹھا ہے کل نہ تھا اور کل تمہارے باپ دادا جن فرعونوں کو رب بنائے بیٹھے تھے وہ آج نہیں ہیں۔ میں صرف اس رب کی حاکمیت و فرماں روائی مانتا ہوں جو آج بھی تمہارا اور اس فرعون کا رب ہے ، اور اس سے پہلے جو تمہارے اور اس کے باپ دادا گزر چکے ہیں ان سب کا رب بھی تھا۔
23. یعنی مجھے تو پاگل قرار دیا جا رہا ہے ، لیکن آپ لوگ اگر عاقل ہیں تو خود سوچیے کہ حقیقت میں رب یہ بیچارا فرعون ہے جو زمین کے ایک ذرا سے رقبے پر بادشاہ بنا بیٹھا ہے ، یا وہ جو مشرق و مغرب کا مالک اور مصر سمیت ہر اس چیز کا مالک ہے جو مشرق و مغرب سے گھری ہوئی ہے۔ میں تو فرماں روائی اسی کی مانتا ہوں اور اسی کی طرف سے یہ حکم اس کے ایک بندے کو پہنچا رہا ہوں۔
24. اس گفتگو کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ آج کی طرح قدیم زمانے میں بھی ’’ معبود‘‘ کا تصور صرف مذہبی معنوں تک محدود تھا۔ یعنی یہ کہ اسے بس پوجا پاٹ اور نذر و نیاز کا استحقاق پہنچتا ہے ، اور اپنے فوق الفطری غلبہ و اقتدار کی وجہ سے اس کا یہ منصب بھی ہے کہ انسان اپنے معاملات میں اس سے استمداد و استعانت کے لیے دعائیں مانگیں۔ لیکن کسی معبود کی یہ حیثیت کہ وہ قانونی اور سیاسی معنوں میں بھی بالا دست ہے ، اور اسے یہ حق بھی پہنچتا ہے کہ معاملات دنیا میں وہ جو حکم چاہے دے ، اور انسانوں کا یہ فرض ہے کہ اس کے امر و نہی کو قانون بر تر مان کر اس کے آگے جھک جائیں ، یہ چیز زمین کے مجازی فرمانرواؤں نے نہ پہلے کبھی مان کر دی تھی، نہ آج وہ اسے ماننے کے لیے تیار ہیں۔ وہ ہمیشہ سے یہی کہتے چلے آئے ہیں کہ دنیا کے معاملات میں ہم مختار مطلق ہیں ، کسی معبود کو ہماری سیاست اور ہمارے قانون میں دخل دینے کا حق نہیں ہے۔ دنیوی حکومتوں اور بادشاہوں سے انبیا علیہم السلام اور ان کی پیروی کرنے والے مصلحین کے تصادم کی اصل وجہ یہی رہی ہے۔ انہوں نے ان سے خداوند عالم کی حاکمیت و بالا دستی تسلیم کرانے کی کوشش کی ہے ، اور یہ اس کے جواب میں نہ صرف یہ کہ اپنی حاکمیت مطلقہ کا دعویٰ پیش کرتی رہی ہیں بلکہ انہوں نے ہر اس شخص کو مجرم اور باغی ٹھیرایا ہے جو ان کے سوا کسی اور کو قانون و سیاست کے میدان میں معبود مانے۔ اس تشریح سے فرعون کی اس گفتگو کا صحیح مفہوم اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ اگر معاملہ پوجا پاٹ اور نذر و نیاز کا ہوتا تو اس کو اس سے کوئی بحث نہ تھی کہ حضرت موسیٰ دوسرے دیوتاؤں کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ رب العالمین کو اس کا مستحق سمجھتے ہیں۔ اگر صرف اسی معنی میں توحید فی العبادت کی دعوت موسیٰ علیہ السلام نے اس کو دی ہوتی تو اسے غضب ناک ہونے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ زیادہ سے زیادہ اگر وہ کچھ کرتا تو بس یہ کہ اپنا دین آبائی چھوڑنے سے انکار کر دیتا، یا حضرت موسیٰ سے کہتا کہ میرے مذہب کے پنڈتوں سے مناظرہ کر لو۔ لیکن جس چیز نے اس کو غضبناک کر دیا وہ یہ تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے رب العالمین کے نمائندے کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کر کے اسے اس طرح ایک سیاسی حکم پہنچایا کہ گویا وہ ایک ماتحت حاکم ہے اور ایک حاکم بر تر کا پیغامبر آ کر اس سے اطاعت امر کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس معنی میں وہ اپنے اوپر کسی کی سیاسی و قانونی برتری ماننے کے لیے تیار نہ تھا، بلکہ وہ یہ بھی گوارا نہ کر سکتا تھا کہ اس کی رعایا میں سے کوئی فرد اس کے بجائے کسی اور کو حاکم بر تر مانے۔ اسی لیے اس نے پہلے ’’رب العالمین‘‘ کی اصطلاح کو چیلنج کیا، کیونکہ اس کی طرف سے لائے ہوئے پیغام میں محض مذہبی معبودیت کا نہیں بلکہ کھلا کھلا سیاسی اقتدار اعلیٰ کا رنگ نظر آتا تھا۔ پھر جب حضرت موسیٰ نے بار بار تشریح کر کے بتایا کہ جس رب العالمین کا پیغام وہ لائے ہیں وہ کون ہے ، تو اس نے صاف صاف دھمکی دی کہ ملک مصر میں تم نے میرے اقتدار اعلیٰ کے سوا کسی اور کے اقتدار کا نام بھی لیا تو جیل کی ہوا کھاؤ گے۔
25. یعنی کیا تو اس صورت میں بھی میری بات ماننے سے انکار کرے گا اور مجھے جیل بھیجے گا جب کہ میں اس امر کی ایک صریح علامت پیش کر دوں کہ میں واقعی اس خدا کا فرستادہ ہوں جو رب العالمین، رب السمٰوات و الارض اور رب المشرق و المغرب ہے ؟
26. حضرت موسیٰ کے سوال پر فرعون کا یہ جواب خود ظاہر کرتا ہے کہ اس کا حال قدیم و جدید زمانے کے عام مشرکین سے مختلف نہ تھا۔ وہ دوسرے تمام مشرکین کی طرح فوق الفطری معنوں میں اللہ کے الٰہٰ الالٰہہ ہونے کو مانتا تھا اور ان ہی کی طرح یہ بھی تسلیم کرتا تھا کہ کائنات میں اس کی قدرت سب دیوتاؤں سے بر تر ہے۔ اسی وجہ سے حضرت موسیٰ نے اس سے کہا کہ اگر تجھے میرے مامور من اللہ ہونے کا یقین نہیں ہے تو میں ایسی صریح نشانیاں پیش کروں جن سے ثابت ہو جائے کہ میں اسی کا بھیجا ہوا ہوں۔ اور اسی وجہ سے اس نے بھی جواب دیا کہ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو تو لاؤ کوئی نشانی۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی ہستی یا اس کے مالک کائنات ہونے ہی میں اسے کلام ہوتا تو نشانی کا سوال پیدا ہی نہ ہو سکتا تھا۔ نشانی کی بات تو اسی صورت میں درمیان آسکتی تھی جب کہ اللہ تعالیٰ کا وجود اور اس کا قادر مطلق ہونا تو مسلم ہو، اور بحث اس امر میں ہو کہ حضرت موسیٰ اس کے بھیجے ہوئے ہیں یا نہیں۔
27. قرآن مجید میں کسی جگہ اس کے لیے حَیَّۃٌ (سانپ) اور کسی جگہ جَآن (جو بالعموم چھوٹے سانپ کے لیے بولا جاتا ہے ) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، اور یہاں اسے ثُعْبَانٌ (اژدہا) کہا جا رہا ہے۔ اس کی توجیہ امام رازی اس طرح کرتے ہیں کہ : حَیَّۃٌ عربی زان میں سانپ کی جنس کے لیے مشترک نام ہے ، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ اور ثُعْبَانٌ کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا کہ جسامت کے اعتبار سے وہ اژدھے کی طرح تھا۔ اور جَانّ کا لفظ اس بنا پر استعمال کیا گیا کہ اس کی پھرتی اور تیزی چھوٹے سانپ جیسی تھی۔
28. بعض مفسرین نے یہودی روایات سے متاثر ہو کر بَیْضَاء کے معنی ’’سفید‘‘ کیے ہیں اور اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ بغل سے نکالتے ہی بھلا چنگا ہاتھ برص کے مریض کی طرح سفید ہو گیا۔ لیکن ابن جریر، ابن کثیر، زَمَخْشَری، رازی، ابو السعود عمادی، آلوسی اور دوسرے بڑے بڑے مفسرین اس پر متفق ہیں کہ یہاں بَیْضَآءُ بمعنی روشن اور چمکدار ہے۔ جونہی کہ حضرت موسیٰ نے بغل سے ہاتھ نکالا یکایک سارا ماحول جگمگا اٹھا اور یوں محسوس ہو اجیسے سورج نکل آیا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، طٰہٰ حاشیہ 13 )۔