Tafheem ul Quran

Surah 26 Ash-Shu'ara, Ayat 105-122

كَذَّبَتۡ قَوۡمُ نُوۡحِ ۨالۡمُرۡسَلِيۡنَ​ ۖ​ۚ‏ ﴿26:105﴾ اِذۡ قَالَ لَهُمۡ اَخُوۡهُمۡ نُوۡحٌ اَلَا تَتَّقُوۡنَ​ۚ‏ ﴿26:106﴾ اِنِّىۡ لَـكُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِيۡنٌۙ‏ ﴿26:107﴾ فَاتَّقُوۡا اللّٰهَ وَ اَطِيۡعُوۡنِ​ۚ‏ ﴿26:108﴾ وَمَاۤ اَسۡـئَلُكُمۡ عَلَيۡهِ مِنۡ اَجۡرٍ​ۚ اِنۡ اَجۡرِىَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ​ۚ‏ ﴿26:109﴾ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡعُوۡنِ ؕ‏ ﴿26:110﴾ قَالُوۡۤا اَنُؤۡمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الۡاَرۡذَلُوۡنَؕ‏ ﴿26:111﴾ قَالَ وَمَا عِلۡمِىۡ بِمَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ​ۚ‏ ﴿26:112﴾ اِنۡ حِسَابُهُمۡ اِلَّا عَلٰى رَبِّىۡ​ لَوۡ تَشۡعُرُوۡنَ​ۚ‏ ﴿26:113﴾ وَمَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ​ۚ‏ ﴿26:114﴾ اِنۡ اَنَا اِلَّا نَذِيۡرٌ مُّبِيۡنٌؕ‏ ﴿26:115﴾ قَالُوۡا لَـئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَهِ يٰـنُوۡحُ لَـتَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡمَرۡجُوۡمِيۡنَؕ‏  ﴿26:116﴾ قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوۡمِىۡ كَذَّبُوۡنِ​ ۖ​ۚ‏ ﴿26:117﴾ فَافۡتَحۡ بَيۡنِىۡ وَبَيۡنَهُمۡ فَتۡحًا وَّنَجِّنِىۡ وَمَنۡ مَّعِىَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏  ﴿26:118﴾ فَاَنۡجَيۡنٰهُ وَمَنۡ مَّعَهٗ فِى الۡـفُلۡكِ الۡمَشۡحُوۡنِ​ۚ‏ ﴿26:119﴾ ثُمَّ اَغۡرَقۡنَا بَعۡدُ الۡبٰقِيۡنَؕ‏ ﴿26:120﴾ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاَيَةً​  ؕ وَّمَا كَانَ اَكۡثَرُهُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿26:121﴾ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿26:122﴾

105 - 74 قومِ نوحؑ نے رسُولوں کو جھُٹلایا۔ 75 106 - یاد کرو جبکہ اُن کے بھائی نوحؑ نے ان سے کہا تھا ”کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ 76 107 - میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسُول ہوں 77 ، 108 - لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ 78 109 - میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں۔ میرا اجر تو ربّ العالمین کے ذمّہ ہے۔ 79 110 - پس تم اللہ سے ڈرو اور (بے کھٹکے)میری اطاعت کرو۔“ 80 111 - انہوں نے جواب دیا ”کیا ہم تجھے مان لیں حالانکہ تیری پیروی رذیل ترین لوگوں نے اختیار کی ہے؟“ 81 112 - نُوحؑ نے کہا ”میں کیا جانوں کہ ان کے عمل کیسے ہیں، 113 - ان کا حساب تو میرے ربّ کے ذمّہ ہے، کاش تم کچھ شعور سے کام لو۔ 82 114 - میرا یہ کام نہیں ہے کہ جو ایمان لائیں ان کو میں دھتکار دوں۔ 115 - میں تو بس ایک صاف صاف متنبّہ کر دینے والا آدمی ہوں۔“ 83 116 - انہوں نے کہا ”اے نُوحؑ ، اگر تُو باز نہ آیا تو پھِٹکارے ہوئے لوگوں میں شامل ہو کر رہے گا۔“ 84 117 - نُوحؑ نے دُعا کی ”اے میرے ربّ، میری قوم نے مجھے جھُٹلا دیا۔ 85 118 - اب میرے اور ان کے درمیان دو ٹوک فیصلہ کر دے اور مجھے اور جو مومن میرے ساتھ ہیں ان کو نجات دے۔“ 86 119 - آخر کار ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو ایک بھری ہوئی کشتی میں بچا لیا۔ 87 120 - اور اس کے بعد باقی لوگوں کو غرق کر دیا۔ 121 - یقیناً اس میں ایک نشانی ہے ، مگر ان میں سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں۔ 122 - اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا ربّ زبر دست بھی ہے اور رحیم بھی۔ ؏۶


Notes

74. تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، آیات 59 تا 64۔ یونس، آیات 71 تا 73۔ ہود، آیات 25 تا 48۔ بنی اسرائیل، آیت 3۔ الانبیاء، آیات 76۔ 77۔ المؤمنون، آیات 23 تا 30۔ الفرقان، آیت 37۔ اس کے علاوہ قصہ نوح علیہ السلام کی تفصیلات کے لیے قرآن مجید کے حسب ذیل مقامات بھی پیش نظر رہیں : العنکبوت آیات 14۔ 15۔ الصّٰفّٰت، 75 تا 82۔ القمر، 9۔ 15۔ سورہ نوح مکمل۔

75. اگر چہ انہوں نے ایک ہی رسول کو جھٹلایا تھا، لیکن چونکہ رسول کی تکذیب در حقیقت اس دعوت اور پیغام کی تکذیب ہے جسے لے کر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے ، اس لیے جو شخص یا گروہ کسی ایک رسول کا بھی انکار کر دے وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تمام رسولوں کا منکر ہے۔ یہ ایک بڑی اہم اصولی حقیقت ہے جسے قرآن میں جگہ جگہ مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ حتّیٰ کہ وہ لوگ بھی کافر ٹھیرائے گئے ہیں جو صرف ایک نبی کا انکار کرتے ہوں ، باقی تمام انبیاء کو مانتے ہوں۔ اس لیے کہ جو شخص اصل پیغام رسالت کا ماننے والا ہے وہ تو لازماً ہر رسول کو مانے گا۔ مگر جو شخص کسی رسول کا انکار کرتا ہے وہ اگر دوسرے رسولوں کو مانتا بھی ہے تو کسی عصبیت یا تقلید آبائی کی بنا پر مانتا ہے ، نفس پیغام رسالت کو نہیں مانتا، ورنہ ممکن نہ تھا کہ وہی حق ایک پیش کرے تو یہ اسے مان لے اور وہی دوسرا پیش کرے تو یہ اس کا انکار کر دے۔

76. دوسرے مقامات پر حضرت نوحؑ کا اپنی قوم سے ابتدائی خطاب ان الفاظ میں آیا ہے : اُعْبُدُوا اللہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ (المؤمنون آیت 23 ) ’’ اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے ، تو کیا تم ڈرتے نہیں ہو ‘‘؟ اُعْبُدُ و االلہَ وَا تَّقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ ہ (نوح آیت 3)۔ ’’ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘ اس لیے یہاں حضرت نوحؑ کے اس ارشاد کا مطلب محض خوف نہیں بلکہ اللہ کا خوف ہے۔ یعنی کیا تم اللہ سے بے خوف ہو گئے ؟ اس کے سوا دوسروں کی بندگی کرتے ہوئے تم کچھ نہیں سوچتے کہ اس باغیانہ روش کا انجام کیا ہو گا؟

دعوت کے آغاز میں خوف دلانے کی حکمت یہ ہے کہ جب تک کسی شخص یا گروہ کو اس کے غلط رویے کی بد انجامی کا خطرہ نہ محسوس کرایا جائے ، وہ صحیح بات اور اس کے دلائل کی طرف توجہ کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ راہ راست کی تلاش آدمی کے دل میں پیدا ہی اس وقت ہوتی ہے جب اس کو یہ فکر دامن گیر ہو جاتی ہے کہ کہیں میں کسی ٹیڑھے راستے پر تو نہیں جا رہا ہوں جس میں ہلاکت کا اندیشہ ہو۔

77. اس کے دو مفہوم ہیں۔ ایک یہ کہ میں اپنی طرف سے کوئی بات بنا کر یا کم و بیش کر کے بیان نہیں کرتا بلکہ جو کچھ خدا کی طرف سے مجھ پر نازل ہوتا ہے وہی بے کم و کاست تم تک پہنچا دیتا ہوں۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ میں ایک ایسا رسول ہوں جسے تم پہلے سے ایک امین اور راستباز آدمی کی حیثیت سے جانتے ہو۔ جب میں خلق کے معاملے میں خیانت کرنے والا نہیں ہوں تو خدا کے معاملے میں کیسے خیانت کر سکتا ہوں ،۔ لہٰذا تمہیں باور کرنا چاہیے کہ جو کچھ میں خدا کی طرف سے پیش کر رہا ہوں اس میں بھی ویسا ہی امین ہوں جیسا دنیا کے معاملات میں آج تک تم نے مجھے امین پایا ہے۔

78. یعنی میرے رسول امین ہونے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تم دوسرے سب مطاعوں کی اطاعت چھوڑ کر صرف میری اطاعت کرو اور جو احکام میں تمہیں دیتا ہوں ان کے آگے سر تسلیم خم کر دو، کیونکہ میں خداوند عالم کی مرضی کا نمائندہ ہوں ، میری اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور میری نافرمانی محض میری ذات کی نا فرمانی نہیں بلکہ براہ راست خدا کی نا فرمانی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول کا حق صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ جن لوگوں کی طرف وہ رسول بنا کر بھیجا گیا ہے وہ اس کی صداقت تسلیم کر لیں اور اسے رسول بر حق مان لیں۔ بلکہ اس کو خدا کا سچا رسول مانتے ہی آپ سے آپ یہ بھی لازم آ جاتا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور ہر دوسرے قانون کو چھوڑ کر صرف اسی کے لائے ہوئے قانون کا اتباع کیا جائے۔ رسول کو رسول نہ ماننا، یا رسول مان کر اس کی اطاعت نہ کرنا، دونوں صورتیں در اصل خدا سے بغاوت کی ہم معنی ہیں اور دونوں کا نتیجہ خدا کے غضب میں گرفتار ہونا ہے۔ اسی لیے ایمان اور اطاعت کے مطالبے سے پہلے ’’ اللہ سے ڈرو‘‘ کا تنبیہی فقرہ ارشاد فرمایا گیا تاکہ ہر مخاطب اچھی طرح کان کھول کر سن لے کہ رسول کی رسالت تسلیم نہ کرنے یا اس کی اطاعت قبول نہ کرنے کا نتیجہ کیا ہو گا۔

79. یہ اپنی صداقت پر حضرت نوح کی دوسری دلیل ہے۔ پہلی دلیل یہ تھی کہ دعوائے نبوت سے پہلے میری ساری زندگی تمہارے درمیان گزری ہے اور آج تک تم مجھے ایک امین آدمی کی حیثیت سے جانتے رہے ہو۔ اور دوسری دلیل یہ ہے کہ میں ایک بے غرض آدمی ہوں ، تم کسی ایسے ذاتی فائدے کی نشان دہی نہیں کر سکتے جو اس کام سے مجھے حاصل ہو رہا ہو یا جس کے حصول کی میں کوشش کر رہا ہوں۔ اس بے غرضانہ طریقہ سے کسی ذاتی نفع کے بغیر جب میں اس دعوت حق کے کام میں شب و روز اپنی جان کھپا رہا ہوں ، اپنے اوقات اور اپنی محنتیں صرف کر رہا ہوں ور ہر طرح کی تکلیفیں اٹھا رہا ہوں ، تو تمہیں باور کرنا چاہیے کہ میں اس کام میں مخلص ہوں ، ایمانداری کے ساتھ جس چیز کو حق جانتا ہوں اور جس کی پیروی میں خلق خد کی فلاح دیکھتا ہوں وہی پیش کر رہا ہوں ، کوئی نفسانی جذبہ اس کا محرّک نہیں ہے کہ اس کی خاطر میں جھوٹ گھڑ کر لوگوں کو دھوکا دوں۔

یہ دونوں دلیلیں ان اہم دلائل میں سے ہیں جو قرآن مجید نے بار بار انبیاء علیہم السلام کی صداقت کے ثبوت میں پیش کی ہیں اور جن کو وہ نبوت کے پرکھنے کی کسوٹی قرار دیتا ہے۔ نبوت سے پہلے جو شخص ایک معاشرے میں برسوں زندگی بسر کر چکا ہو اور لوگوں نے ہمیشہ ہر معاملہ میں اسے سچا اور راستباز آدمی پایا ہو، اس کے متعلق کوئی غیر متعصب آدمی مشکل ہی سے یہ شک کر سکتا ہے کہ وہ یکایک خدا کے نام سے اتنا بڑا جھوٹ بولنے پر اتر آئے گا کہ اسے نبی نہ بنایا گیا ہو اور وہ کہے کہ خدا نے مجھے نبی بنایا ہے۔ پھر دوسری اس سے بھی اہم تر بات یہ ہے کہ ایسا سفید جھوٹ کوئی شخص نیک نیتی کے ساتھ تو ن ہیں گھڑا کرتا۔ لا محالہ کوئی نفسانی غرض ہی اس فریب کاری کی محرک ہوتی ہے۔ اور جب کوئی شخص اپنی اغراض کے لیے اس طرح کی فریب کاری کرتا ہے تو اخفا کی تمام کوششوں کے باوجود اس کے آثار نمایاں ہو کر رہتے ہیں۔ اسے اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے پڑتے ہیں جن کے گھناؤنے پہلو گرد و پیش کے معاشرے میں چھپائے نہیں چھپ سکتے۔ اور مزید برآں وہ اپنی پیری کی دکان چمکا کر کچھ نہ کچھ اپنا بھلا کرتا نظر آتا ہے۔ نذرانے وصول کیے جاتے ہیں ، لنگر جاری ہوتے ہیں ، جائدادیں بنتی ہیں ، زیور گھڑے جاتے ہیں ، اور فقیری کا آستانہ دیکھتے دیکھتے شاہی دربار بنتا چلا جاتا ہے۔ لیکن جہاں اس کے بر عکس نبوت کا دعویٰ کرنے والے شخص کی ذاتی زندگی ایسے فضائل اخلاق سے لبریز نظر آئے کہ اس میں کہیں ڈھونڈے سے بھی کسی فریب کارانہ ہتھکنڈے کا نشان نہ مل سکے ، اور اس کام سے کوئی ذاتی فائدہ اٹھانا تو در کنار، وہ اپنا سب کچھ اسی خدمت بے مزد کی نذر کر دے ، وہاں جھوٹ کا شبہ کرنا کسی معقول انسان کے لیے ممکن نہیں رہتا۔کوئی شخص جو عقل بھی رکھتا ہو اور بے انصاف بھی نہ ہو، یہ تصور نہیں کر سکتا کہ آخر ایک اچھا بھلا آدمی، جو اطمینان کی زندگی بسر کر رہا تھا، کیوں بلا وجہ ایک جھوٹا دعویٰ لے کر اٹھے جب کہ اسے کوئی فائدہ اس جھوٹ سے نہ ہو، بلکہ وہ الٹا اپنا مال، اپنا وقت اور اپنی ساری قوتیں اور محنتیں اس کام میں کھپا رہا ہو اور بدلے میں دنیا بھر کی دشمنی مول لے رہا ہو۔ ذاتی مفاد کی قربانی آدمی کے مخلص ہونے کی سب سے زیادہ نمایاں دلیل ہوتی ہے۔ یہ قربانی کرتے جس کو سالوں بیت جائیں اسے بد نیت یا خود غرض سمجھنا خود اس شخص کی اپنی بد نیتی کا ثبوت ہوتا ہے جو ایسے آدمی پر یہ الزام لگائے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، المؤمنون، حاشیہ 70)۔

80. اس فقرے کی تکرار بے وجہ نہیں ہے۔ پہلے یہ ایک اور مناسبت سے فرمایا گیا تھا اور یہاں ایک دوسری مناسبت سے اس کو دہرایا گیا ہے۔ اوپر اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْن ٌ سے فَاتَّقُو ا اللہَ کے فقرے کی مناسبت یہ تھی کہ جو شخص اللہ کی طرف سے ایک امانت دار رسول ہے ، جس کی صفت امانت سے تم لوگ خود بھی واقف ہو، اسے جھٹلاتے ہوئے خدا سے ڈرو۔ اور یہاں مَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ سے اس فقرے کی مناسبت یہ ہے کہ جو شخص اپنے کسی ذاتی فائدے کے بغیر محض اصلاح خلق کے لیے پورے اخلاص کے ساتھ کام کر رہا ہے اس کی نیت پر حملہ کرتے ہوئے خدا سے ڈرو۔ اس بات کو اتنا زور دے کر بیان کرنے کی وجہ یہ تھی کہ قوم کے سردار حضرت نوح کی مخلصانہ دعوت حق میں کیڑے ڈالنے کے لیے ان پر یہ الزام لگاتے تھے کہ یہ شخص در اصل یہ ساری دوڑ دھوپ اپنی بڑائی کے لیے کر رہا ہے : یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ (المؤمنون، آیت 24)۔ ’’ یہ چاہتا ہے کہ تم پر فضیلت حاصل کرے ‘‘۔

81. یہ لوگ جنہوں نے حضرت نوح کی دعوت حق کا یہ جواب دیا، ان کی قوم کے سردار، شیوخ اور اشراف تھے ،جیسا کہ دوسرے مقام پر اسی قصے کے سلسلے میں بیان ہوا ہے : فَقَالَالْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَا نَرٰ کَ اِلَّا بَشَراً مِّثْلَنَا وَمَا نَرٰکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا ا لَّذِیْنَ ھُمْ اَرَاذِ لُنَا بَادِیَ الرَّ أ یِ، وَمَا نَریٰ لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ (ہود، آیت 27)۔ ’’ اس کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا ہمیں تو تم اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتے کہ بس ایک انسان ہو ہم جیسے ، اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ تمہاری پیروی صرف ان لوگوں نے بے سمجھے بوجھے اختیار کر لی ہے جو ہمارے ہاں کے اراذل ہیں ، اور ہم کوئی چیز بھی ایسی نہیں پاتے جس میں تم لوگ ہم سے بڑھے ہوئے ہو ‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت نوح پر ایمان لانے والے زیادہ تر غریب لوگ، چھوٹے چھوٹے پیشہ ور لوگ، یا ایسے نوجوان تھے جن کی قوم میں کوئی حیثیت نہ تھی۔ رہے اونچے طبقہ کے با اثر اور خوش حال لوگ، تو وہ ان کی مخالفت پر کمر بستہ تھے اور وہی اپنی قوم کے عوام کو طرح طرح کے فریب دے دے کر اپنے پیچھے لگائے رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں جو دلائل وہ حضرت نوحؑ کے خلاف پیش کرتے تھے ان میں سے ایک استدلال یہ تھا کہ اگر نوح کی دعوت میں کوئی وزن ہوتا تو قوم کے امراء علماء، مذہبی پیشوا، معززین اور سمجھ دار لوگ اسے قبول کرتے۔ لیکن ان میں سے تو کوئی بھی اس شخص پر ایمان نہیں لایا ہے۔ اس کے پیچھے لگے ہیں ادنیٰ طبقوں کے چند نادان لوگ جو کوئی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ اب کیا ہم جیسے بلند پایہ لوگ ان بے شعور اور کمین لوگوں کے زمرے میں شامل ہو جائیں ؟

بعینہٖ یہی بات قریش کے کفار نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق کہتے تھے کہ ان کے پیرو یا تو غلام اور غریب لوگ ہیں یا چند نادان لڑکے ، قوم کے اکابر اور معززین میں سے کوئی بھی ان کے ساتھ نہیں ہے۔ ابوسفیان نے ہرقل کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے بھی یہی کہا تھا کہ : تَبِعَہٗ مِنا الضعفآء والمَسَاکین (محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی ہمارے غریب اور کمزور لوگوں نے قبول کی ہے ) گویا ان لوگوں کا طرز فکر یہ تھا کہ حق صرف وہ ہے جسے قوم کے بڑے لوگ حق مانیں کیونکہ وہی عقل اور سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ، رہے چھوٹے لوگ، تو ان کا چھوٹا ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بے عقل اور ضعیف الرائے ہیں ، اس لیے ان کا کسی بات کو مان لینا اور بڑے لوگوں کا رد کر دینا صاف طور پر یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ ایک بے وزن بات ہے۔ بلکہ کفار مکہ تو اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ دلیل لاتے تھے کہ پیغمبر بھی کوئی معمولی آدمی نہیں ہو سکتا، خدا کو اگر واقعی کوئی پیغمبر بھیجنا منظور ہوتا تو کسی بڑے رئیس کو بناتا، وَقَالُوْا لَوْ لَا نُزِّ لَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلیٰ رَجُلٍ مِّنَالْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ (الزخرف، آیت 3) ’’ وہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن ہمارے دونوں شہروں (مکہ اور طائف) کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل کیا گیا‘‘۔

82. یہ ان کے اعتراض کا پہلا جواب ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا، ان کے اعتراض کی بنیاد اس مفروضے پر تھی کہ جو لوگ غریب، محنت پیشہ اور ادنیٰ درجے کی خدمات انجام دینے والے ہیں یا معاشرے کے پست طبقات سے تعلق رکھتے ہیں ، ان میں کوئی ذہنی صلاحیت نہیں ہوتی، اور وہ علم و عقل اور سمجھ بوجھ سے عاری ہوتے ہیں ، اس لیے نہ ان کا ایمان کسی فکر و بصیرت پر مبنی، نہ انکا اعتقاد لائق اعتبار، اور نہ ان کے اعمال کا کوئی وزن۔ حضرت نوحؑ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ میرے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ جو شخص میرے پاس آ کر ایمان لاتا ہے اور ایک عقیدہ قبول کر کے اس کے مطابق عمل کرنے لگتا ہے ،اس کے اس فعل کی تہ میں کیا محرکات کام کر رہے ہیں اور وہ کتنی کچھ قدر و قیمت رکھتے ہیں۔ ان چیزوں کا دیکھنا اور ان کا حساب لگانا تو خدا کا کام ہے ، میرا ور تمہارا کام نہیں ہے۔

83. یہ ان کے اعتراض کا دوسرا جواب ہے۔ ان کے اعتراض میں یہ بات بھی مضمر تھی کہ ایمان لانے والوں کا جو گروہ حضرت نوحؑ کے گرد جمع ہو رہا ہے یہ چونکہ ہمارے معاشرے کے ادنیٰ طبقات پر مشتمل ہے ، اس لیے اونچے طبقوں میں سے کوئی شخص اس زمرے میں شامل ہونا گوارا نہیں کر سکتا۔ دوسرے الفاظ میں گویا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ اے نوحؑ کیا تم پر ایمان لا کر ہم اپنے آپ کو اراذل اور سفہاء میں شمار کرائیں ؟ کیا ہم غلاموں ، نوکروں ، مزدوروں اور کام پیشہ لوگوں کی صف میں آ بیٹھیں ؟ حضرت نوحؑ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ میں آخر یہ غیر معقول طرز عمل کیسے اختیار کر سکتا ہوں کہ جو لوگ میری بات نہیں مانتے ان کے تو پیچھے پھرتا رہوں اور جو میری بات مانتے ہیں انہیں دھکے دے کر نکال دوں۔ میری حیثیت تو ایک ایسے بے لاگ آدمی کی ہے جس نے علی الاعلان کھڑے ہو کر پکار دیا ہے کہ جس طریقے پر تم لوگ چل رہے ہو یہ باطل ہے اور اس پر چلنے کا انجام تباہی ہے ، اور جس طریقے کی طرف میں رہنمائی کر رہا ہوں اسی میں تم سب کی نجات ہے۔ اب جس کا جی چاہے میری اس تنبیہ کو قبول کر کے سیدھے راستے پر آئے اور جس کا جی چاہے آنکھیں بند کر کے تباہی کی راہ چلتا رہے۔ میں یہ نہیں کر سکتا کہ جو اللہ کے بندے میری اس تنبیہ کو سن کر سیدھا راستہ اختیار کرنے کے لیے میرے پاس آئیں ان کی ذات، برادری، نسب اور پیشہ پوچھوں اور اگر وہ آپ لوگوں کی نگاہ میں ’’کمین‘‘ ہوں تو ان کو واپس کر کے اس انتظار میں بیٹھا رہوں کہ ’’شریف‘‘ حضرات کب تباہی کا راستہ چھوڑ کر نجات کی راہ پر قدم رنجہ فرماتے ہیں۔

ٹھیک یہی معاملہ ان آیات کے نزول کے زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور کفار مکہ کے درمیان چل رہا تھا اور اسی کو نگاہ میں رکھنے سے یہ سمجھ میں آ سکتا ہے کہ حضرت نوح اور ان کی قوم کے سرداروں کی یہ گفتگو یہاں کیوں سنائی جا رہی ہے۔ کفار مکہ کے بڑے بڑے سردار نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے کہ ہم آخر بلال اور عَمار ادر صہیب جیسے غلاموں اور کام پیشہ لوگوں کے ساتھ کیسے بیٹھ سکتے ہیں۔ گویا ان کا مطلب یہ تھا کہ ایمان لانے والوں کی صف سے یہ غریب لوگ نکالے جائیں تب کوئی امکان اس کا نکل سکتا ہے کہ اشراف ادھر کا رخ کریں ، ورنہ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ محمود اور ایاز ایک صف میں کھڑے ہو جائیں۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بالکل صاف اور دو ٹوک الفاظ میں یہ ہدایت دی گئی کہ حق سے منہ موڑنے والے متکبروں کی خاطر ایمان قبول کرنے والے غریبوں کو دھکے نہیں دیے جا سکتے :

اَمَّا مَنِاسْتَغْنیٰ ۙ فَاَنْتَ لَہٗتَصَدّٰ ی ؕ وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّیٰ ؕ وَاَ مَّا مَنْ جَآ ءَکَ یَسْعٰ ۙ وَھُوَیَخْشیٰ ۙ فَاَ نْتَ عَنْہُ تَلَھّیٰ کَلَّآ اِنَّھَا تَذْکِرَۃً فَمَنْ شَآءَ ذَکَرَہٗ ‏۔ (آیات 5 تا 13 )

اے محمدؐ، جس نے بے نیازی برتی تم اس کے پیچھے پڑتے ہو؟ حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ داری ہے۔ اور جو تمہارے پاس دوڑا آتا ہے اس حال میں کہ وہ اللہ سے ڈر رہا ہے ،تم اس سے بے رخی برتتے ہو؟ ہر گز نہیں ، یہ تو ایک نصیحت ہے جس کا جی چاہے اسے قبول کرے۔

وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْ عُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوَۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجُھَہٗ ؕ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَمَا مَنْ حِسَابِکَ عَلُیْھِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطُرُ دَھُمْٰ فَتَکُوْ نَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ۵ وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْ لُوْٓ ا اَھٰٓؤُ لَآءِ مَنَّ اللہُ عَلَیْھِمْ مِّنْ‏‏ ؍ بَیْنِنَا ؕ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِا شّٰکِرِیْنَ ہ (الانعام۔ آیت 52 )۔

نہ دور پھینکو ان لوگوں کو جو شب و روز اپنے رب کو پکارتے ہیں محض اس کی خوشنودی کی خاطر۔ ان کا کوئی حساب تمہارے ذمہ نہیں اور تمہارا کوئی حساب ان کے ذمہ نہیں۔ اس پر بھی اگر تم انہیں دور پھینکو گے تو ظالموں میں شمار ہو گے۔ ہم نے تو اس طرح ن لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعے آزمائش میں ڈال دیا ہے تاکہ وہ کہیں ’’ کیا ہمارے درمیان بس یہی لوگ رہ گئے تھے جن پر اللہ کا فضل و کرم ہوا؟‘‘ ہاں ، کیا اللہ اپنے شاکر بندوں کو ان سے زیادہ نہیں جانتا۔

84. اصل الفاظ ہیں لَتَکُوْ نَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْ مِیْنَ۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ایک یہ کہ تم کو رجم کیا جائے گا، یعنی پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جائے گا۔ دوسرے معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ تم پر ہر طرف سے گالیوں کی بوچھاڑ کی جائے گی، جہاں جاؤ گے دھتکارے اور پھٹکارے جاؤگے۔ عربی محاورے کے لحاظ سے ان الفاظ کے یہ دونوں معنی لیے جا سکتے ہیں۔

85. یعنی آخری اور قطعی طور پر جھٹلا دیا ہے جس کے بعد اب کسی تصدیق و ایمان کی امید باقی نہیں رہی۔ ظاہر کلام سے کوئی شخص اس شبہ میں نہ پڑے کہ بس پیغمبر اور سرداران قوم کے درمیان اوپر کی گفتگو ہوئی اور ان کی طرف سے پہلی ہی تکذیب کے بعد پیغمبر نے اللہ تعالیٰ کے حضور رپورٹ پیش کر دی کہ یہ میری نبوت نہیں مانتے ، اب آپ میرے اور ان کے مقدمہ کا فیصلہ فرما دیں۔قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اس طویل کشمکش کا ذکر کیا گیا ہے جو حضرت نوحؑ کی دعوت اور ان کی قوم کے اصرار علی الکفر کے درمیان صدیوں برپا رہی۔ سورہ عنکبوت میں بتایا گیا ہے کہ اس کشمکش کا زمانہ ساڑھے نو سو برس تک ممتد رہا ہے۔ فَلَبِثَ فِیْہِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَاماً (آیت 14 )۔ حضرت نوحؑ نے اس زمانہ میں پشت در پشت ان کے اجتماعی طرز عمل کو دیکھ کر نہ صرف یہ اندازہ فرما لیا کہ ان کے اندر قبول حق کی کوئی صلاحیت باقی نہیں رہی ہے ، بلکہ یہ رائے بھی قائم کر لی کہ آئندہ ان کی نسلوں سے بھی نیک اور ایماندار آدمیوں کے اٹھنے کی توقع نہیں ہے۔ اِنَّکَ اِنْ تَذَرْ ھُمْ یُضِلُّوْ ا عِبَا دَک َ وَ لَا یَلِدُوْ آ اِلَّا فَا جِراً کَفَّا راً (نوح، آیت 27)۔ ’’ اے رب اگر تو نے انہیں چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہو گا فاجر اور سخت منکر حق ہو گا‘‘۔ خود اللہ تعالیٰ نے بھی حضرت نوحؑ کی اس رائے کو درست قرار دیا اور اپنے علم کامل و شامل کی بنا پر فرمایا : لَنْ یُّؤْ مِنَ مِنْ قَوْ مِکَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰ مَنَ فَلَاَ تَبْتَئِسْ بِمَا کَا نُوْ ا یَفْعَلُوْنَ ہ (ہود،آیت 36 )۔ ’’ تیری قوم میں سے جو ایمان لا چکے بس وہ لا چکے ، اب کوئی ایمان لانے والا نہیں ہے۔ لہٰذا اب ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑ دے۔ ‘‘

86. یعنی صرف یہی فیصلہ نہ کر دے کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون، بلکہ وہ فیصلہ اس شکل میں نافذ فرما کہ باطل پرست تباہ کر یئے جائیں اور حق پرست بچا لیے جائیں۔ یہ الفاظ کہ ’’ مجھے اور میرے مومن ساتھیوں کو بچا لے ‘‘ خود بخود اپنے اندر یہ مفہوم رکھتے ہیں کہ باقی لوگوں پر عذاب نازل کر اور انہیں حرف غلط کی طرح مٹا کر رکھ دے۔

87. ’’ بھری ہوئی کشتی‘‘ سے مراد یہ ہے ہ وہ کشتی ایمان لانے والے انسانوں اور تمام جانوروں سے بھر گئی تھی جن کا ایک ایک جوڑا ساتھ رکھ لینے کی ہدایت فرمائی گئی تھی۔ اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ ہود، آیت 40۔