Tafheem ul Quran

Surah 26 Ash-Shu'ara, Ayat 123-140

كَذَّبَتۡ عَادُ اۨلۡمُرۡسَلِيۡنَ ​ۖ ​ۚ‏ ﴿26:123﴾ اِذۡ قَالَ لَهُمۡ اَخُوۡهُمۡ هُوۡدٌ اَلَا تَتَّقُوۡنَ​ۚ‏ ﴿26:124﴾ اِنِّىۡ لَـكُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِيۡنٌ​ۙ‏ ﴿26:125﴾ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡعُوۡنِ​ ۚ‏ ﴿26:126﴾ وَمَاۤ اَسۡـئَـلُكُمۡ عَلَيۡهِ مِنۡ اَجۡرٍ​ۚ اِنۡ اَجۡرِىَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ ؕ‏ ﴿26:127﴾ اَتَبۡنُوۡنَ بِكُلِّ رِيۡعٍ اٰيَةً تَعۡبَثُوۡنَۙ‏ ﴿26:128﴾ وَ تَتَّخِذُوۡنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمۡ تَخۡلُدُوۡنَ​ۚ‏ ﴿26:129﴾ وَاِذَا بَطَشۡتُمۡ بَطَشۡتُمۡ جَبَّارِيۡنَ​ۚ‏ ﴿26:130﴾ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡعُوۡنِ​ ۚ‏ ﴿26:131﴾ وَاتَّقُوۡا الَّذِىۡۤ اَمَدَّكُمۡ بِمَا تَعۡلَمُوۡنَ​ۚ‏ ﴿26:132﴾ اَمَدَّكُمۡ بِاَنۡعَامٍ وَّبَنِيۡنَ ​ۚۙ‏ ﴿26:133﴾ وَجَنّٰتٍ وَّعُيُوۡنٍ​ۚ‏ ﴿26:134﴾ اِنِّىۡۤ اَخَافُ عَلَيۡكُمۡ عَذَابَ يَوۡمٍ عَظِيۡمٍؕ‏ ﴿26:135﴾ قَالُوۡا سَوَآءٌ عَلَيۡنَاۤ اَوَعَظۡتَ اَمۡ لَمۡ تَكُنۡ مِّنَ الۡوٰعِظِيۡنَۙ‏  ﴿26:136﴾ اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّا خُلُقُ الۡاَوَّلِيۡنَۙ‏ ﴿26:137﴾ وَمَا نَحۡنُ بِمُعَذَّبِيۡنَ​ۚ‏ ﴿26:138﴾ فَكَذَّبُوۡهُ فَاَهۡلَـكۡنٰهُمۡ​ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَاَيَةً​ ؕ وَ مَا كَانَ اَكۡثَرُهُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿26:139﴾ وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿26:140﴾

123 - عاد نے رسُولوں کو جھُٹلایا۔ 88 124 - یاد کرو جبکہ ان کے بھائی ہُودؑ نے اُن سے کہا تھا ” 89 کیا تم ڈرتے نہیں؟ 125 - میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسُول ہوں۔ 126 - لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ 127 - میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں۔ میرا اجر تو ربّ العالمین کے ذمّہ ہے۔ 128 - یہ تمہارا کیا حال ہے کہ ہر اُونچے مقام پر لاحاصل ایک یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو 90 ، 129 - اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو گویا تمہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ 91 130 - اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو جبّار بن کر ڈالتے ہو۔ 92 131 - پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ 132 - ڈرو اُس سے جس نے وہ کچھ تمہیں دیا ہے جو تم جانتے ہو۔ 133 - تمہیں جانور دیے، اولادیں دیں، 134 - باغ دیے اور چشمے دیے۔ 135 - مجھے تمہارے حق میں ایک بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔“ 136 - انہوں نے جواب دیا ”تُو نصیحت کر یا نہ کر، ہمارے لیے سب یکساں ہے۔ 137 - یہ باتیں تو یونہی ہوتی چلی آئی ہیں۔ 93 138 - اور ہم عذاب میں مبتلا ہونے والے نہیں ہیں۔“ 139 - آخر کار انہوں نے اُسے جھُٹلا دیا اور ہم نے ان کو ہلاک کر دیا۔ 94، یقیناً اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں ہیں۔ 140 - اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا ربّ زبر دست بھی ہے اور رحیم بھی۔ ؏۷


Notes

88. تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، آیات 65 تا 72۔ ہود، 50 تا 60۔ مزید براں اس قصے کی تفصیلات کے لیے قرآن مجید کے حسب ذیل مقامات بھی نگاہ میں رہیں : حٰم السجدہ آیات 13۔ 16۔ الاحقاف، 21۔ 26 الذاریات، 41۔ 45۔ القمر 18۔ 22۔ الحاقہ 4۔8۔ الفجر 6۔ 8۔

89. حضرت ہود کی اس تقریر کو سمجھنے کے یے ضروری ہے کہ اس قوم کے متعلق وہ معلومات ہماری نگاہ میں رہیں جو قرآن مجید نے مختلف مقامات پر ہمیں بہم پہنچائی ہیں ان میں بتایا گیا ہے کہ :

قومِ نوح کی تباہی کے بعد دنیا میں جس قوم کو عروج عطا کیا گیا وہ یہ تھی :

وَاذْکُرُ وْ آ اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآ ءَ مَنْ؍ بَعْدِ قَوْ مِ نُوْحٍ۔ (الاعراف۔ آیت 69)

یاد کرو (اللہ کے اس فضل و انعام کو کہ ) نوح کی قوم کے بعد اس نے تم کو خلیفہ بنایا۔

جسمانی حیثیت سے یہ بڑے تنو مند اور زور آور لوگ تھے :

وَزَا دَ کُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْطَۃً (الاعراف، آیت 69 ) اور تمہیں جسمانی ساخت میں خوب تنو مند کیا۔

اپنے دور میں یہ بے نظیر قوم تھی۔ کوئی دوسری قوم اس کی ٹکر کی نہ تھی:

اَلَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلَا دِ ۃ (الفجر، آیت 8) جس کے مانند ملکوں میں کوئی قوم پیدا نہیں کی گئی۔

اس کا تمدن بڑا شاندار تھا، اونچے اونچے ستونوں کی بلند و بالا عمارتیں بنانا اس کی وہ خصوصیت تھی جس کے لیے وہ اس وقت کی دنیا میں مشہور تھی :

اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ ہ اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِO (الفجر، آیات 6۔7 )

تو نے دیکھا نہیں کہ تیرے رب نے کیا کیا ستونوں والے عادِ ارم کے ساتھ؟

اس مادی ترقی اور جسمانی زور آوری نے ان کو سخت متکبر بنا دیا تھا اور انہیں اپنی طاقت کا بڑا گھمنڈ تھا:

فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَکْبَرُوْ ا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الحَقِّ وَقَالُوْ ا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّ ۃً۔ (حٰم السجدہ۔ آیت 15)

رہے عاد، تو انہوں نے زمین میں حق کی راہ سے ہٹ کر تکبر کی روش اختیار کی اور کہنے لگے کہ کون ہے ہم سے زیادہ زور آور۔

ان کا سیاسی نظام چند بڑے بڑے جباروں کے ہاتھ میں تھا جن کے آگے کوئی دم نہ مار سکتا تھا :

وَاتَّبَعُوْ آاَمْرَ کُلِّ جَبَّارً عَنِیْدً O (ہود۔ آیت 59) اور انہوں نے ہر جبار دشمن حق کے حکم کی پیروی کی۔

مذہبی حیثیت سے یہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے منکر نہ تھے ، بلکہ شرک میں مبتلا تھے۔ ان کو اس بات سے انکار تھا کہ بندگی صرف اللہ کی ہونی چاہیے :

قَالُوْ آ اَجِئْتَنَا لَنَعْبُدَ اللہَ وَحْدَہٗ وَنَذَرَ مَا کَا نَ یَعْبُدُ اٰبَآ ؤْنَا۔ (الاعراف آیت 70) انہوں نے (ہود سے ) کہا کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہم صرف ایک اللہ کی بندگی کریں اور ان کو چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے تھے ؟

ان خصوصیات کو نظر میں رکھنے سے حضرت ہودؑ کی یہ تقریر دعوت اچھی طرح سمجھ میں آ سکتی ہے۔

90. یعنی محض اپنی عظمت و خوشحالی کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایسی عالی شان عمارتیں تعمیر کرتے ہو جن کا کوئی مصرف نہیں ، جن کی کوئی حاجت نہیں ، جن کا کوئی فائدہ اس کے سوا نہیں کہ وہ بس تمہاری دولت و شوکت کی نمود کے لیے ایک نشانی کے طور پر کھڑی رہیں۔

91. یعنی تمہاری دوسری قسم کی تعمیرات ایسی ہیں جو اگر چہ استعمال کے لیے ہیں ، مگر انکو شاندار، مزیَّن اور مستحکم بنانے میں تم اس طرح اپنی دولت، محنت اور قابلیتیں صرف کرتے ہو جیسے دنیا میں ہمیشہ رہنے کا سامان کر رہے ہو، جیسے تمہاری زندگی کا مقصد بس یہیں کے عیش کا اہتمام کرنا ہے اور اس کے ماوراء کوئی چیز نہیں ہے۔ جس کی تمہیں فکر ہو۔

اس سلسلے میں یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ بلا ضرورت یا ضرورت سے زیادہ شاندار عمارتیں بنانا کوئی منفرد فعل نہیں ہے جس کا ظہور کسی قوم میں اس طرح ہو سکتا ہو کہ اس کی اور سب چیزیں تو ٹھیک ہوں اور بس یہی ایک کام وہ غلط کرتی ہو۔ یہ صورت حال تو ایک قوم میں رونما ہی اس وقت ہوتی ہے جب ایک طرف اس میں دولت کی ریل پیل ہوتی اور دوسری طرف اس کے اندر نفس پرستی و مادہ پرستی کی شدت بڑھتے بڑھتے جنون کی حد کو پہنچ جاتی ہے۔ اوریہ حالت جب کسی قوم میں پیدا ہوتی ہے تو اس کا سارا ہی نظام تمدن فاسد ہو جاتا ہے۔ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کی تعمیرات پر جو گرفت کی اس سے مقصود یہ نہیں تھا کہ ان کے نزدیک صرف یہ عمارتیں ہی بجائے خود قابل اعتراض تھیں ، بلکہ در اصل وہ بحیثیت مجموعی ان کے فساد تمدن و تہذیب پر گرفت کر رہے تھے اور ان عمارتوں کا ذکر انہوں نے اس حیثیت سے کیا تھا کہ سارے ملک میں ہر طرف یہ بڑے بڑے پھوڑے اس فساد کی نمایاں ترین علامت کے طور پر ابھرے نظر آتے تھے۔

92. یعنی اپنا معیار زندگی بلند کرنے میں تو تم اس قدر غلو کر گئے ہو کہ رہنے کے لیے تم کو مکان نہیں محل اور قصر درکار ہیں ، اور ان سے بھی جب تمہاری تسکین نہیں ہوتی تو بلا ضرورت عالی شان عمارتیں بنا ڈالتے ہو جن کا کوئی مصرف اظہار قوت و ثروت کے سوا نہیں ہے۔ لیکن تمہارا معیار انسانیت اتنا گرا ہوا ہے کہ کمزوروں کے لیے تمہارے دلوں میں کوئی رحم نہیں ، غریبوں کے لیے تمہاری سر زمین کوئی انصاف نہیں ، گرد و پیش کی ضعیف قومیں ہوں یا خود اپنے ملک کے پست طبقات، سب تمہارے جبر اور ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور کوئی تمہاری چیرہ دستیوں سے بچا نہیں رہ گیا ہے۔

93. اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں یہ آج کوئی نئی چیز نہیں ہے ، صدیوں سے ہمارے باپ ددا یہی کچھ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہی ان کا دین تھا، یہی ان کا تمدن تھا اور ایسے ہی ان کے اخلاق اور معاملات تھے۔ کون سی آفت ان پر ٹوٹ پڑی تھی کہ اب ہم اس کے ٹوٹ پڑنے کا اندیشہ کریں۔ اس طرز زندگی میں کوئی خرابی ہوتی تو پہلے ہی وہ عذاب آ چکا ہوتا جس سے تم ڈراتے ہو۔ دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ جو باتیں تم کر رہے ہو ایسی ہی باتیں پہلے بھی بہت سے مذہبی خبطی اور اخلاق کی باتیں بگھارنے والے کرتے رہے ہیں ، مگر دنیا کی گاڑی جس طرح چل رہی تھی اسی طرح چلے جا رہی ہے۔ تم جیسے لوگوں کی باتیں نہ ماننے کا یہ نتیجہ کبھی بر آمد نہ ہوا کہ یہ گاڑی کسی صدمہ سے دو چار ہو کر الٹ گئی ہوتی۔

94. اس قوم کے ہلاک ہونے کی جو تفصیل قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اچانک زور کی آندھی اُٹھی۔ یہ لوگ دور سے اس کو اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھ کر سمجھے کہ گھٹا چھائی ہے۔ خوشیاں منانے لگے کہ اب خوب بارش ہو گی۔ مگر وہ تھا خدا کا عذاب۔ آٹھ دن اور سات راتوں تک مسلسل ایسی طوفانی ہوا چلتی رہی جس نے ہر چیز کو تباہ کر ڈالا۔ اس کے زور کا یہ عالم تھا کہ اس نے آدمیوں کو اُٹھا اُٹھا کر پھینک دیا۔ اس کی گرمی و خشکی کا یہ حال تھا کہ جس چیز پر گزر گئی اسے بوسیدہ کر کے رکھ دیا۔ اور یہ طوفان اس وقت تک نہ تھما جب تک اس ظالم قوم کا ایک ایک متنفس ختم نہ ہو گیا۔ بس ان کی بستیوں کے کھنڈر ہی ان کے انجام کی داستان سنانے کے لیے کھڑے رہ گئے۔ اور آج کھنڈر بھی باقی نہیں ہیں۔ اَحقاف کا پورا علاقہ ایک خوفناک ریگستان بن چکا ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہم القرآن، جلد چہارم، الاحقاف، حاشیہ 25 )۔