95. تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، آیات 73 تا 79۔ ہود، 61۔ 68۔ الحجر، 80۔ 84۔ بنی اسرائیل 59۔ مزید تفصیلات کے لیے قرآن مجید کے حسب ذیل مقامات بھی پیش نظر رہیں : النمل، 45۔ 53۔الذاریات، 43۔ 45۔ القمر، 23۔ 31۔ الحاقہ، 4۔5۔ الفجر، 9۔ الشمس، 11۔
اس قوم کے متعلق قرآن مجید میں مختلف مقامات پر جو تصریحات کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ عاد کے بعد جس قوم کو عروج عطا کیا گیا وہ یہی تھی، جَعَلَکُمْ خُلَفَآءَ مَنْ؍ بَعْدِ عَادٍ (الاعراف آیت 74 ) مگر اس کی تمدنی ترقی نے بھی بالآخر وہی شکل اختیار کی جو عاد کی ترقی نے کی تھی، یعنی معیار زندگی بلند سے بلند تر اور معیار آدمیت پست سے پست تر ہوتا چلا گیا۔ ایک طرف میدانی علاقوں میں عالی شان قصر اور پہاڑوں میں ایلورا اور اجنٹہ کے غاروں جیسے مکان بن رہے تھے۔ دوسری طرف معاشرے میں شرک و بت پرستی کا زور تھا اور زمین ظلم و ستم سے لبریز ہو رہی تھی۔ قوم کے بد ترین مفسد لوگ اس کے لیڈر بنے ہوئے تھے۔ اونچے طبقے اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں سرشار تھے۔ حضرت صالح کی دعوت حق نے اگر اپیل کیا تو نچلے طبقے کے کمزور لوگوں کو کیا۔ اونچے طبقوں نے اسے ماننے سے صرف اس لیے انکار کر دیا کہ اِنَّا بِالَّذِیْٓ اٰمَنْتُمْ بِہٖ کٰفِرُوْنَ، ’’ جس چیز پر تم ایمان لائے ہو اس کو ہم نہیں مان سکتے ‘‘۔
96. حضرت صالحؑ کی امانت و دیانت اور غیر معمولی قابلیت کی شہادت خود اس قوم کے لوگوں کی زبان سے قرآن مجید ان الفاظ میں نقل کرتا ہے : قَالُوْ ا یٰصَالِحُ قَدْ کُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوًّ ا قَبْلَ ھٰذَا۔ (ہود۔آیت 62 ) ’’ انہوں نے کہا اے صالحؑ، اس سے پہلے تو تم ہمارے درمیان ایسے آدمی تھے جس سے ہماری بڑی امیدیں وابستہ تھیں ‘‘۔
97. یعنی کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ تمہارا یہ عیش دائمی اور ابدی ہے ؟ کیا اس کو کبھی زوال آنا نہیں ہے ؟ کیا تم سے کبھی ان نعمتوں کا حساب نہ لیا جائے گا اور کبھی ان اعمال کی باز پرس نہ ہو گی جن کا تم ارتکاب کر رہے ہو؟
98. اصل میں لفظ ھَضیْم استعمال ہوا ہے جس سے مراد کھجور کے ایسے خوشے ہیں جو پھلوں سے لد کر جھک گئے ہوں اور جن کے پھل پکنے کے بعد نرمی اور رطوبت کی وجہ سے پھٹے پڑتے ہوں۔
99. جس طرح عاد کے تمدن کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ وہ اونچے اونچے ستونوں والی عمارتیں بناتے تھے ، اس طرح ثمود کے تمدن کی سب سے زیادہ نمایاں خصوصیت، جس کی بنا پر وہ قدیم زمانے کی قوموں میں مشہور تھے ، یہ تھی کہ وہ پہاڑوں کو تراش تراش کر ان کے اندر عمارتیں بناتے تھے۔ چنانچہ سورہ فجر میں جس طرح عاد کو ذَاتُ الْعِمَاد (ستونوں والے ) کا لقب دیا گیا ہے اسی طرح ثمود کا ذکر اس حوالے سے کیا گیا ہے کہ اَلَّذِیْنَ جَا بُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ، ’’ وہ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی ہیں ‘‘۔ اس کے علاوہ قرآن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاں میدانی علاقوں میں بھی بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے تھے ، تَتَّخِذُوْ نَ مِنْ سُھُوْ لِھَا قُصُوْ راً۔ (الاعراف۔آیت 74)۔ اور ان تعمیرات کی غرض و غایت کیا تھی؟ قرآن اس پر لفظ فٰرِھِیْنَ سے روشنی ڈالتا ہے۔ یعنی یہ سب کچھ اپنی بڑائی، اپنی دولت و قوت اور اپنے کمالات فن کی نمائش کے لیے تھا، کوئی حقیقی ضرورت ان کے لیے داعی نہ تھی۔ ایک بگڑے ہوئے تمدن کی شان یہی ہوتی ہے۔ ایک طرف معاشرے کے غریب لوگ سر چھپانے تک کو ڈھنگ کی جگہ نہیں پا تے۔ دوری طرف امراء اور اہل ثروت رہنے کے لیے جب ضرورت سے زیادہ محل بنا چکتے ہیں تو بِلا ضرورت نمائشی یادگاریں تعمیر کرنے لگتے ہیں۔
ثمود کی ان عمارتوں میں سے کچھ اب بھی باقی ہیں جنہیں 1959 ء کے دسمبر میں میں نے خود دیکھا ہے۔ مقابل کے صفحات میں ان کی کچھ تصویریں دی جاری ہیں۔ یہ جگہ مدینہ طیبہ اور تبوک کے درمیان حجاز کے مشہور مقام العُلاء (جسے عہد نبوی میں وادی القریٰ کہا جاتا تھا) سے چند میل کے فاصلے پر بجانب شمال واقع ہے۔ آج بھی اس جگہ کو مقامی باشندے الحجر اور مدائنِ صالح کے ناموں ہی سے یاد کرتے ہیں۔ اس علاقے میں العُلاء تو اب بھی ایک نہایت سر سبز و شاداب وادی ہے جس میں کثرت سے چشمے اور باغات ہیں ، مگر الحجر کے گردو پیش بڑی نحوست پائی جاتی ہے۔ آبادی برائے نام ہے۔ روئیدگی بہت کم ہے۔ چند کنوئیں ہیں۔ انہی میں سے ایک کنوئیں کے متعلق مقامی آبادی میں یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ حضرت صالح کی اونٹنی اسی سے پانی پیتی تھی۔ اب وہ ترکی عہد کی ایک ویران چھوٹی سی فوجی چوکی کے اندر پایا جاتا ہے اور بالکل خشک پڑا ہے (اس کی تصویر بھی مقابل کے صفحات میں دی جا رہی ہے )۔ اس علاقے میں جب ہم داخل ہوئے تو العلاء کے قریب پہنچتے ہی ہر طرف ہمیں ایسے پہاڑ نظر آئے جو بالکل کھِیل کِھیل ہو گئے ہیں۔ صاف محسوس ہوتا تھا کہ کسی سخت ہولناک زلزلے نے انہیں سطح زمین سے چوٹی تک جھنجوڑ کر قاش قاش کر رکھا ہے (ان پہاڑوں کی بھی کچھ تصویریں مقابل کے صفحات پر دی جا رہی ہیں )۔ اسی طرح کے پہاڑ ہمیں مشرق کی طرف العلاء سے خیبر جاتے ہوئے تقریباً 50 میل تک اور شمال کی طرف ریاست اردن کے حدود میں 30۔40۔ میل اندر تک ملتے چلے گئے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تین چار سو میل لمبا اور 100 میل چوڑا ایک علاقہ تھا جسے ایک زلزلہ عظیم نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔
ثمود کی جو عمارتیں ہم نے الحجر میں دیکھی تھیں ، اسی طرح کی چند عمارتیں ہم کو خلیج عقبہ کے کنارے مدین کے مقام پر، اور اردن کی ریاست میں پٹرا ( Petra) کے مقام پر بھی ملیں۔ خصوصیت کے ساتھ پٹرا میں ثمود کی عمارات اور نَبطیوں کی بنائی ہوئی عمارات پہلو بہ پہلو موجود ہیں اور ان کی تراش خراش اور طرز تعمیر میں اتنا نمایاں فرق ہے کہ ہر شخص ایک نظر دیکھ کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ یہ دونوں نہ ایک زمانے کی ہیں اور نہ یہ ایک ہی قوم کا طرز تعمیر ہے (ان کے الگ الگ نمونوں کی تصویریں بھی ہم نے مقابل کے صفحات میں دی ہیں )۔ انگریز مستشرق ڈاٹی( ( Daughty قرآن کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے الحجر کی عمارات کے متعلق یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ثمود کی نہیں بلکہ، نبطیوں کی بنائی ہوئی عمارات ہیں۔ لیکن دونوں قوموں کی عمارات کا فرق اس قدر واضح ہے کہ ایک اندھا ہی انہیں ایک قوم کی عمارات کہہ سکتا ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ پہاڑ تراش کر ان کے اندر عمارتیں بنانے کا فن ثمود سے شروع ہوا، اس کے ہزاروں سال بعد نبطیوں نے دوسری اور پہلی صدی قبل مسیح میں اسے عروج پر پہنچایا، اور پھر ایلورہ میں (جس کے غار پٹرا سے تقریباً سات سو برس بعد کے ہیں ) یہ فن اپنے کمال کو پہنچ گیا۔
100. یعنی اپنے ان امراء و رؤساء اور ان رہنماؤں اور حاکموں کی اطاعت چھوڑ دو جن کی قیادت میں تمہارا یہ فاسد نظام زندگی چل رہا ہے۔ یہ مُسرف لوگ ہیں ، اخلاق کی ساری حدیں پھاند کر شتر بے مہار بن چکے ہیں۔ ان کے ہاتھوں ے کوئی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ یہ جس نظام کو چلائیں گے اس میں بگاڑ ہی پھیلے گا۔ تمہارے لیے فلاح کی کوئی صورت اگر ہے تو صرف یہ کہ اپنے اندر خدا ترسی پیدا کرو اور مفسدوں کی اطاعت چھوڑ کر میری اطاعت کرو، کیونکہ میں خدا کا رسول ہوں ، میری امانت و دیانت کو تم پہلے سے جانتے ہو، اور میں ایک بے غرض آدمی ہوں ، اپنے کسی ذاتی فائدے کے لیے اصلاح کا یہ کام کرنے نہیں اٹھا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تھا وہ مختصر منشور جو حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے پیش کیا۔ اس میں صرف مذہبی تبلیغ ہی نہ تھی، تمدنی و اخلاقی اصلاح اور سیاسی انقلاب کی دعوت بھی ساتھ ساتھ موجود تھی۔
101. ’’سحر زدہ‘‘ یعنی دیوانہ و مجنون، جس کی عقل ماری گئی ہو۔ قدیم تصورات کے مطابق پاگل پن یا تو کسی جِن کے اثر سے لاحق ہوتا تھا یا جادو کے اثر سے۔ اس لیے وہ جسے پاگل کہنا چاہتے تھے اس کو یا تو ’’مجنون‘‘ کہتے تھے یا مسحور اور مستحّر۔
102. یعنی بظاہر تو ہم میں اور تجھ میں کوئی فرق نظر نہیں آتا کہ ہم تجھے خدا کا فرستادہ مان لیں۔ لیکن اگر تو اپنے مامور من اللہ اور مرسل من جانب اللہ ہونے کے دعوے میں سچا ہے تو کوئی ایسا محسوس معجزہ پیش کر جس سے ہمیں یقین آ جائے کہ واقعی کائنات کے خالق اور زمین و آسمان کے مالک نے تجھ کو ہمارے پاس بھیجا ہے۔
103. معجزے کے مطالبے پر اونٹنی پیش کرنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محض ایک عام اونٹنی نہ تھی جیسی ہر عرب کے پاس وہاں پائی جاتی تھی، بلکہ ضرور اس کی پیدائش اور اس کے ظہور میں یا اس کی خلقت میں کوئی ایسی چیز تھی جسے معجزے کی طلب پر پیش کرنا معقول ہوتا۔ اگر حضرت صالح اس مطالبے کے جواب میں یوں ہی کسی اونٹنی کو پکڑ کے کھڑا کر دیتے تو ظاہر ہے کہ یہ ایک نہایت فضول حرکت ہوتی جس کی کسی پیغمبر تو در کنار، ایک عام معقول آدمی سے بھی توقع نہیں کی جا سکتی۔ یہ بات یہاں تو صرف سیاق کلام ہی کے اقتضاء سے سمجھ میں آتی ہے ، لیکن دوسرے مقامات پر قرآن میں صراحت کے ساتھ اس اونٹنی کے وجود کو معجزہ کہا گیا ہے۔ سورہ اعراف اور سورہ ہود میں فرمایا گیا ھٰذِہٖ نَا قَۃُ اللہِ لَکُمْ ایٰۃً، ’’ یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی کے طور پر ہے ’’۔ اور سورہ بنی اسرائیل میں اس سے بھی زیادہ پر زور الفاظ میں ارشاد ہوا ہے :
وَمَا مَنَعَنآ اَنْ نُّرْ سِلَ بِا لْایٰٰتٍ اِلَّا اَنْ کَذَّب َ بِھَا الْاَوَّلُوْ نَ، وَ اٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَۃَ مُبْصِرَۃً فَظَلَمُوْ ا بِھَا وَمَا نُرْ سِلُ بِالْایٰٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفاً ہ (آیت 59)
ہم کو نشانیاں بھیجنے سے کسی چیز نے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ پہلے لوگ ان کو جھٹلا چکے ہیں اور ہم ثمود کے سامنے آنکھوں دیکھتے اونٹنی لے آئے پھر بھی انہوں نے اس کے ساتھ ظلم کیا۔ نشانیاں تو ہم خوف دلانے ہی کے لیے بھیجتے ہیں (تماشا دکھانے کے لیے تو نہیں بھیجتے )۔
اس پر مزید وہ چیلنج ہے جو اونٹنی کو میدان میں لے آنے کے بعد اس کافر قوم کو دیا گیا۔ اس کی نوعیت ہی ایسی تھی کہ صرف ایک معجزہ ہی پیش کر کے ایسا چیلنج دیا جا سکتا تھا۔
104. یعنی ایک دن تنہا یہ اونٹنی تمہارے کنوؤں اور چشموں سے پانی پیے گے اور ایک دن ساری قوم کے آدمی اور جانور پیئیں گے۔ خبر دار، اس کی باری کے دن کوئی شخص پانی لینے کی جگہ پھٹکنے نہ پائے۔ یہ چیلنج بجائے خود نہایت سخت تھا۔ لیکن عرب کے مخصوص حالات میں تو کسی قوم کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی دوسرا چیلنج ہو نہیں سکتا تھا۔ وہاں تو پانی ہی کے مسئلے پر خون خرابے ہو جاتے تھے ، قبیلہ قبیلے سے لڑ جاتا تھا اور جان جوکھوں کی بازی لگا کر کسی کنوئیں یا چشمے سے پانی لینے کا حق حاصل کیا جاتا تھا۔ اس سر زمین میں کسی شخص کا اَٹھ کر یہ کہہ دینا کہ ایک دن میری اکیلی اونٹنی پانی پیے گی اور باقی ساری قوم کے آدمی اور جانور صرف دوسرے دن ہی پانی لے سکیں گے ، یہ معنی رکھتا تھا کہ وہ در اصل پوری قوم کو لڑائی کا چیلنج دے رہا ہے۔ ایک زبر دست لشکر کے بغیر کوئی آدمی عرب میں یہ بات زبان سے نہ نکال سکتا تھا اور کوئی قوم یہ بات اس وقت تک نہ سن سکتی تھی جب تک وہ اپنی آنکھوں سے یہ نہ دیکھ رہی ہو کہ چیلنج دینے والے کی پشت پر اتنے شمشیر زن اور تیر انداز موجود ہیں جو مقابلے پر اُٹھنے والوں کو کچل کر رکھ دیں گے۔ لیکن حضرت صالح نے بغیر کسی لاؤ لشکر کے تنہا اٹھ کر یہ چیلنج اپنی قوم کو دیا اور قوم نے نہ صرف یہ کہ اس کو کان لٹکا کر سنا بلکہ بہت دنوں تک ڈر کے مارے وہ اس کی تعمیل بھی کرتی رہی۔
سورہ اعراف اور سورہ ہود میں اس پر اتنا اضافہ اور ہے کہ : ھٰذِہٖ نَاقَۃُ اللہِ لَکُمْ ایٰۃً فَذَرُوْھَا تَاْ کُلُ فِیْ اَرْضِ اللہِ وَ لَا تَمَسُّوَھَا بِسُوْٓءٍ، ’’ یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی کے طور پر ہے ، چھوڑ دو اسے کہ خدا کی زمین میں چرتی پھرے ، ہر گز اسے بُرے ارادے سے نہ چھونا‘‘۔ یعنی چیلنج صرف اتنا ہی نہ تھا کہ ہر دوسرے روز اکیلی یہ اونٹنی دن بھر سارے علاقے کے پانی کی اجارہ دار رہے گی، بلکہ اس پر مزید یہ چیلنج بھی تھا کہ یہ تمہارے کھیتوں اور باغوں اور نخلستانوں اور چراگاہوں میں دندناتی پھرے گی، جہاں چاہے گی جائے گی، جو کچھ چاہے گی کھائے گی، خبر دار جو کسی نے اسے چھیڑا۔
105. یہ مطلب نہیں ہے کہ جس وقت انہوں نے حضرت صالح سے یہ چیلنج سنا اسی وقت وہ اونٹنی پر پل پڑے اور اس کونچیں کاٹ ڈالیں ، بلکہ کافی مدت تک یہ اونٹنی ساری قوم کے لیے ایک مسئلہ بنی رہی، لوگ اس پر دلوں میں اونٹتے رہے ، مشورے ہوتے رہے ، اور آخر کار ایک من چلے سردار نے اس کام کا بیڑا اٹھایا کہ وہ قوم کو اس سے نجات دلائے گا۔ سورہ شمس میں اس شخص کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے : اِذِنٰبَعَثَ اَشْقَا ھَا، ’’ جب کہ اٹھا اس قوم کا سب سے زیادہ شقی آدمی‘‘۔ اور سورہ قمر میں فرمایا گیا ہے : فَنَا دَوْا صَاحِبَھُمْ فَتَعَا طیٰ فَعَقَرَ ’’ انہوں نے اپنے رفیق سے اپیل کی، آخر کار وہ یہ کام اپنے ذمہ لے کر اٹھا اور اس نے کونچیں کاٹ ڈالیں ‘‘۔
106. قرآن میں دوسرے مقامات پر اس عذاب کی جو تفصیل بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جب اونٹنی مار ڈالی گئی تو حضرت صالحؑ نے اعلان کیا : تَمَتَّعُوْا فِیْ دَار ِ کُمْ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ، ’’ تین دن اپنے گھروں میں مزے کر لو ‘‘(ہود، آیت 65 )۔ اس نوٹس کی مدت ختم ہونے پر رات کے پچھلے پہر صبح کے قریب ایک زبر دست دھماکا ہوا اور اس کے ساتھ ایسا سخت زلزلہ آیا جس نے آن کی آن میں پوری قوم کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ صبح ہوئی تو ہر طرف اس طرح کچلی ہوئی لاشیں پڑی تھیں جیسے باڑے کی باڑھ میں لگی ہوئی سوکھی جھاڑیاں جانوروں کی آمد و رفت سے پا مال ہو کر رہ گئی ہوں۔ نہ ان کے سنگین قصر انہیں اس آفت سے بچا سکے نہ پہاڑوں میں کھو دے ہوئے غار۔ اِنَّآ اَر ْ سَلْنَا عَلَیْہِمْ صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَکَا نُوْ اَکَھَشِیْمِ الْمُحْتَظِرِ (القمر، آیت 31) فَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَا رِھِمْ جٰثِمِیْنَ (اعراف، آیت 78) فَاَ خَذَ ثھُمُ الصَّیْحَہُ مُصْبِحِنَ ہ فَمَآ اَغْنیٰ عَنْہُمْ مَّا کَا نُوْا یَکْسِبُوْنَ O (الحجر، آیات 83۔ 84 )۔