Tafheem ul Quran

Surah 26 Ash-Shu'ara, Ayat 160-175

كَذَّبَتۡ قَوۡمُ لُوۡطٍ اۨلۡمُرۡسَلِيۡنَ​ ۖ ​ۚ‏ ﴿26:160﴾ اِذۡ قَالَ لَهُمۡ اَخُوۡهُمۡ لُوۡطٌ اَلَا تَتَّقُوۡنَ​ۚ‏ ﴿26:161﴾ اِنِّىۡ لَـكُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِيۡنٌۙ‏ ﴿26:162﴾ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡعُوۡنِ​ۚ‏ ﴿26:163﴾ وَمَاۤ اَسۡـئَـلُكُمۡ عَلَيۡهِ مِنۡ اَجۡرٍ​ۚ اِنۡ اَجۡرِىَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ ؕ‏ ﴿26:164﴾ اَتَاۡتُوۡنَ الذُّكۡرَانَ مِنَ الۡعٰلَمِيۡنَۙ‏ ﴿26:165﴾ وَ تَذَرُوۡنَ مَا خَلَقَ لَـكُمۡ رَبُّكُمۡ مِّنۡ اَزۡوَاجِكُمۡ​ؕ بَلۡ اَنۡـتُمۡ قَوۡمٌ عٰدُوۡنَ‏ ﴿26:166﴾ قَالُوۡا لَـئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَهِ يٰلُوۡطُ لَـتَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُخۡرَجِيۡنَ‏  ﴿26:167﴾ قَالَ اِنِّىۡ لِعَمَلِكُمۡ مِّنَ الۡقَالِيۡنَؕ‏ ﴿26:168﴾ رَبِّ نَجِّنِىۡ وَاَهۡلِىۡ مِمَّا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿26:169﴾ فَنَجَّيۡنٰهُ وَ اَهۡلَهٗۤ اَجۡمَعِيۡنَۙ‏ ﴿26:170﴾ اِلَّا عَجُوۡزًا فِى الۡغٰبِرِيۡنَ​ۚ‏ ﴿26:171﴾ ثُمَّ دَمَّرۡنَا الۡاٰخَرِيۡنَ​ۚ‏ ﴿26:172﴾ وَاَمۡطَرۡنَا عَلَيۡهِمۡ مَّطَرًا​ۚ فَسَآءَ مَطَرُ الۡمُنۡذَرِيۡنَ‏ ﴿26:173﴾ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاَيَةً​  ؕ وَمَا كَانَ اَكۡثَرُهُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿26:174﴾ وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿26:175﴾

160 - لُوطؑ کی قوم نے رسُولوں کو جھُٹلایا۔ 107 161 - یاد کرو جبکہ ان کے بھائی لُوطؑ نے ان سے کہا تھا ”کیا تم ڈرتے نہیں؟ 162 - میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسُول ہوں۔ 163 - لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ 164 - میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں، میرا اجر تو ربّ العالمین کے ذمّہ ہے۔ 165 - کیا تم دنیا کی مخلوق میں سے مردوں کے پاس جاتے ہو 108 166 - اور تمہاری بیویوں میں تمہارے ربّ نے تمہارے لیے جو کچھ پیدا کیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہو؟ 109 بلکہ تم لوگ تو حد سے ہی گزر گئے ہو۔“ 110 167 - انہوں نے کہا ”اے لُوطؑ ، اگر تُو اِن باتوں سے باز نہ آیا تو جو لوگ ہماری بستیوں سے نکالے گئے ہیں اُن میں تُو بھی شامل ہو کر رہے گا۔“ 111 168 - اس نے کہا ”تمہارے کرتُوتوں پر جو لوگ کُڑھ رہے ہیں میں اُن میں شامل ہوں۔ 169 - اے پروردگار، مجھے اور میرے اہل و عیال کو ان کی بد کرداریوں سے نجات دے۔“ 112 170 - آخر کار ہم نے اسے اور اس کے سب اہل و عیال کو بچا لیا، 171 - بجز ایک بُڑھیا کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔ 113 172 - پھر باقی ماندہ لوگوں کو ہم نے تباہ کر دیا 173 - اور ان پر برسائی ایک برسات، بڑی ہی بُری بارش تھی جو اُن ڈرائے جانے والوں پر نازل ہوئی۔ 114 174 - یقیناً اس میں ایک نشانی ہے ، مگر اِن میں سے اکثر ماننے والے نہیں۔ 175 - اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا ربّ زبر دست بھی ہے اور رحیم بھی۔ ؏۹


Notes

107. تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، آیات 80 تا 84۔ ہود، 74 تا 83۔ الحجر 57 تا 77۔ الانبیاء 71 تا 75 النمل 54 تا 58۔ العنکبوت 28۔35۔ الصافات 133 تا 138۔ القمر 33 تا 39۔

108. اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں : ایک یہ کہ ساری مخلوق میں سے صرف مردوں کو تم نے اس غرض کے لیے چھانٹ لیا ہے کہ ان سے خواہش نفس پوری کرو حالانکہ دنیا میں بکثرت عورتیں موجود ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر میں ایک تم ہی ایسے لوگ ہو جو شہوت رانی کے لیے مردوں کے پاس جاتے ہو، ورنہ انسانوں میں کوئی دوسری قوم ایسی نہیں ہے ، بلکہ حیوانات میں سے بھی کوئی جانور یہ کام نہیں کرتا۔ اس دوسرے مفہوم کی صراحت سورہ اعراف اور سورہ عنکبوت میں یوں کی گئی ہے : اَتَاْ تَوْنَ الْفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَکُمْ بِھَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ O ’’ کیا تم وہ بے حیائی کا کام کرتے ہو جو دنیا کی مخلوق میں سے کسی نے تم سے پہلے نہیں کیا؟‘‘

109. اس کے بھی دو مطلب ہو سکتے ہیں : ایک یہ کہ اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے جو بیویاں خدا نے پیدا کی تھیں انہیں چھوڑ کر تم غیر فطری ذریعے یعنی مردوں کو اس غرض کے لیے استعمال کرتے ہو۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود ان بیویوں کے اندر خدا نے اس خواہش کی تکمیل کا جو فطری راستہ رکھا تھا اسے چھوڑ کر تم غیر فطری راستہ اختیار کرتے ہو۔ اس دوسرے مطلب میں یہ اشارہ نکلتا ہے کہ وہ ظالم لوگ اپنی عورتوں سے بھی خلاف وضع فطری فعل کا ارتکاب کرتے تھے۔ بعید نہیں کہ وہ یہ حرکت خاندانی منصوبہ بندی کی خاطر کرتے ہوں۔

110. یعنی تمہارا صرف یہی ایک جرم نہیں ہے۔ تمہاری زندگی کا تو سارا ہنجار ہی حد سے زیادہ بگڑ چکا ہے۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان کے اس عام بگاڑ کی کیفیت اس طرح بیان کی گئی ہے : اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ O (النمل آیت 54)۔ ’’ کیا تمہارا یہ حال ہو گیا ہے کہ کھلم کھلا دیکھنے والوں کی نگاہوں کے سامنے فحش کام کرتے ہو؟’’ اَئِنَّکُمْ لَتَاْ تُوْنَ الرِّ جَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ وَتَاْتُوْ نَ فِیْ نَا دِیْکُمُ الْمُنْکَرَ (العنکبوت آیت 29) ’’ کیا تم ایسے بگڑے گئے ہو کہ مردوں سے مباشرت کرتے ہو، راستوں پر ڈاکے مارتے ہو، اور اپنی مجلسوں میں علانیہ برے کام کرتے ہو؟‘‘(مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الحجر، حاشیہ 39)۔

111. یعنی تجھے معلوم ہے کہ اس سے پہلے جس نے بھی ہمارے خلاف زبان کھولی ہے یا ہماری حرکتوں پر احتجاج کیا ہے ،یا ہماری مرضی کے خلاف کام کیا ہے ، وہ ہماری بستیوں سے نکالا گیا ہے۔ اب اگر تو یہ باتیں کرے گا تو تیرا حشر بھی ایسا ہی ہو گا۔ سورہ اعراف اور سورہ نمل میں بیان ہوا ہے کہ حضرت لوطؑ کو یہ نوٹس دینے سے پہلے اس شریر قوم کے لوگ آپس میں یہ طے کر چکے تھے کہ اَخْرِجُوْٓ ا اٰلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْ یَتِکُمْ اِنَّھُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَھَّرُوْنَ O ’’لوطؑ اور اس کے خاندان والوں اور ساتھیوں کو اپنی بستی سے نکال باہر کرو۔ یہ لوگ بڑے پاک باز بنتے ہیں۔ ان ’’صالحین‘‘ کو باہر کا راستہ دکھاؤ‘‘۔

112. اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہمیں ان کے اعمال بد کے بُرے انجام سے بچا۔ اور یہ مطلب بھی لیا جا سکتا ہے کہ اس بد کر دار بستی میں جو اخلاقی گندگیاں پھیلی ہوئی ہیں ان کی چھوت کہیں ہماری آل اولاد کو نہ لگ جائے ، اہل ایمان کی اپنی نسلیں کہیں اس بگڑے ہوئے ماحول سے متاثر نہ ہو جائیں ، اس لیے اے پروردگار، ہمیں اس ہر وقت کے عذاب سے نجات دے جو اس نا پاک معاشرے میں زندگی بسر کرنے سے ہم پر گزر رہا ہے۔

113. اس سے مراد حضرت لوطؑ کی بیوی ہے۔ سورہ تحریم میں حضرت نوحؑ اور حضرت لوط کی بیویوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِ نَا صَالِحَیْنِ فَخَا نَتٰھُمَا (آیت 10)۔ ’’ یہ دونوں عورتیں ہمارے دو صالح بندوں کے گھر میں تھیں مگر انہوں نے ان کے ساتھ خیانت کی‘‘۔ یعنی دونوں ایمان سے خالی تھیں اور اپنے نیک شوہروں کا ساتھ دینے کے بجائے ان دونوں نے اپنی کافر قوم کا ساتھ دیا۔ اسی بنا پر جب اللہ تعالیٰ نے قوم لوطؑ پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ فرمایا اور حضرت لوطؑ کو حکم دیا کہ اپنے اہل و عیال کو لے کر اس علاقے سے نِکل جائیں تو ساتھ ہی یہ بھی ہدایت فرما دی کہ اپنی بیوی کو ساتھ نہ لے جاؤ، فَاَسْرِبِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اَحَدُ اِلَّا امْرَاَتَکَ اِنَّہٗ مُصِیْبُھَا مَآ اَصَابَھُمْ (ہود آیت 81 )۔ ‘‘پس تو کچھ رات رہے اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر نکل جا اور تم میں سے کوئی پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے۔ مگر اپنی بیوی کو ساتھ نہ لے جا، اس پر وہی کچھ گزرنی ہے جو ان لوگوں پر گزرنی ہے ‘‘۔

114. اس بارش سے مراد پانی کی بارش نہیں بلکہ پتھروں کی بارش ہے۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اس عذاب کی جو تفصیل بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت لوط جب رات کے پچھلے پہر اپنے بال بچوں کو لے کر نکل گئے تو صبح پو پھٹتے ہی یکایک ایک زور کا دھماکا ہوا (فَاَ خَذَ تْھُمُ الصَّیْحَۃُمُشْرِقِیْنَ O )، ایک ہولناک زلزلے نے ان کی بستیوں کو تل پٹ کر کے رکھ دیا (جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا )، ایک زبردست آتش فشانی اِنفجار سے ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر بر سائے گئے (وَاَمْطَرْ نَا عَلَیْھَا حِجَا رَ ۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ O ) اور ایک طوفانی ہو سے بھی ان پر پتھراؤ کیا گیا (اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ حَاصِباً)۔

بائیبل کے بیانات، قدیم یونانی اور لاطینی تحریروں ، جدید زمانے کی طبقات الارضی تحقیقات اور آثار قدیمہ کے مشاہدات سے اس عذاب کی تفصیلات پر جو روشنی پڑتی ہے اس کا خلاصہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں :

بحیرہ مردار (Dead Sea) کے جنوب اور مشرق میں جو علاقہ آج انتہائی ویران اور سنسان حالت میں پڑا ہوا ہے ، اس میں بکثرت پرانی بستیوں کے کھنڈروں کی موجودگی پتہ دیتی ہے کہ یہ کسی زمانہ میں نہایت آباد علاقہ رہا تھا۔ آج وہاں سینکڑوں برباد شدہ قریوں کے آثار ملتے ہیں ، حالانکہ اب یہ علاقہ اتنا شاداب نہیں ہے کہ اتنی آبادی کا بوجھ سہار سکے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس علاقے کی آبادی و خوشحالی کا دور 2400 قبل مسیح سے 1900 قبل مسیح تک رہا ہے ، اور حضرت ابراہیمؑ کے متعلق مؤرخین کا اندازہ یہ ہے کہ وہ دو ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں گزرے ہیں۔ اس لحاظ سے آثار کی شہادت اس بات کی تائید کرتی ہے کہ یہ علاقہ حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بھتیجے حضرت لوطؑ کے عہد ہی میں برباد ہوا ہے۔

اس علاقے کا سب سے زیادہ آباد اور سر سبز و شاداب حصہ وہ تھا جسے بائیبل میں ’’ سِدّیم کی وادی‘‘ کہا گیا ہے ، جس کے متعلق بائیبل کا بیان ہے کہ ’’ وہ اس سے پیشتر خداوند نے سَدُوم اور عمورہ کو تباہ کیا، خداوند کے باغ (عدن) اور مصر کے مانند خوب سیراب تھی‘‘ (پیدائش، باب 13۔ آیت 10 )۔ موجودہ زمانے کے محققین کی عام رائے یہ ہے کہ وہ وادی اب بحیرہ مردار کے اندر غرق ہے ، اور یہ رائے مختلف آثار کی شہادتوں سے قائم کی گئی ہے۔ قدیم زمانہ میں ، بحیرہ مردار جنوب کی طرف اتنا وسیع نہ تھا جتنا اب ہے۔ شرق اُردن کے موجودہ شہر الکرک کے سامنے مغرب کی جانب اس بحیرے میں جو ایک چھوٹا سا جزیرہ نما’’اللّسان‘‘ پایا جاتا ہے ، قدیم زمانے میں بس یہی پانی کی آخری سرحد تھی۔ اس کے نیچے کا حصہ جہاں اب پانی پھیل گیا ہے (جسے ملحقہ نقشے میں ہم نے آڑی لکیروں سے نمایاں کیا ہے ) پہلے ایک سر سبز وادی کی شکل میں آباد تھا اور یہی وہ وادی سدیم تھی جس میں قوم لوطؑ کے بڑے بڑے شہر سدوم، عمورہ، ادمہ، ضبوئیم اور ضُغر واقع تھے۔ دو ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ زمانہ میں ایک زبردست زلزلے کی وجہ سے یہ وادی پھٹ کر دب گئی اور بحیرہ مردار کا پانی اس کے اوپر چھا گیا۔ آج بھی یہ بحیرے کا سب سے زیادہ اُتھلا حصہ ہے ، مگر رومی عہد میں یہ اتنا اُتھلا تھا کہ لوگ اللّسان سے مغربی ساحل تک چل کر پانی میں سے گزر جاتے تھے۔ اس وقت تک جنوبی ساحل کے ساتھ ساتھ پانی میں ڈوبے ہوئے جنگلات صاف نظر آتے ہیں۔ بلکہ یہ شبہہ بھی کیا جاتا ہے کہ پانی میں کچھ عمارات ڈوبی ہوئی ہیں۔

بائیبل اور قدیم یونانی و لاطینی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقہ میں جگہ جگہ نفط (پٹرول) اور اسفالٹ کے گڑھے تھے اور بعض بعض زمین سے آتش گیر گیس بھی نکلتی تھی۔ اب بھی وہاں زیر زمین پٹرول اور گیسوں کا پتہ چلتا ہے۔ طبقات الارض مشاہدات سے اندازہ کیا گیا ہے کہ زلزلے کے شدید جھٹکوں کے ساتھ پٹرول، گیس اور اسفالٹ زمین سے نکل کر بھڑک اٹھے اور سارا علاقہ بھک سے اڑ گیا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ اس تباہی کی اطلاع پاکر حضرت ابراہیمؑ جب حبرون سے اس وادی کا حال دیکھنے آئے تو زمین سے دھواں اس طرح اٹھ رہا تھا جیسے بھٹی کا دھواں ہوتا ہے (پیدائش باب 19۔ آیت 28)۔