Tafheem ul Quran

Surah 26 Ash-Shu'ara, Ayat 176-191

كَذَّبَ اَصۡحٰبُ لْئَيۡكَةِ الۡمُرۡسَلِيۡنَ ​ۖ​ۚ‏ ﴿26:176﴾ اِذۡ قَالَ لَهُمۡ شُعَيۡبٌ اَلَا تَتَّقُوۡنَ​ۚ‏ ﴿26:177﴾ اِنِّىۡ لَـكُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِيۡنٌۙ‏ ﴿26:178﴾ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡعُوۡنِ​ۚ‏ ﴿26:179﴾ وَمَاۤ اَسۡـئَـلُكُمۡ عَلَيۡهِ مِنۡ اَجۡرٍ​ۚ اِنۡ اَجۡرِىَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ ؕ‏ ﴿26:180﴾ اَوۡفُوا الۡـكَيۡلَ وَلَا تَكُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُخۡسِرِيۡنَ​ۚ‏ ﴿26:181﴾ وَزِنُوۡا بِالۡقِسۡطَاسِ الۡمُسۡتَقِيۡمِ​ۚ‏ ﴿26:182﴾ وَلَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡيَآءَهُمۡ وَلَا تَعۡثَوۡا فِى الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِيۡنَ​ۚ‏  ﴿26:183﴾ وَاتَّقُوا الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ وَالۡجِـبِلَّةَ الۡاَوَّلِيۡنَؕ‏ ﴿26:184﴾ قَالُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مِنَ الۡمُسَحَّرِيۡنَۙ‏ ﴿26:185﴾ وَمَاۤ اَنۡتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُـنَا وَ اِنۡ نَّظُنُّكَ لَمِنَ الۡكٰذِبِيۡنَ​ۚ‏  ﴿26:186﴾ فَاَسۡقِطۡ عَلَيۡنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ اِنۡ كُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِيۡنَؕ‏  ﴿26:187﴾ قَالَ رَبِّىۡۤ اَعۡلَمُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿26:188﴾ فَكَذَّبُوۡهُ فَاَخَذَهُمۡ عَذَابُ يَوۡمِ الظُّلَّةِ​ؕ اِنَّهٗ كَانَ عَذَابَ يَوۡمٍ عَظِيۡمٍ‏ ﴿26:189﴾ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاَيَةً ​ ؕ وَمَا كَانَ اَكۡثَرُهُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿26:190﴾ وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿26:191﴾

176 - اصحابُ الایکہ نے رسُولوں کو جھُٹلایا۔ 115 177 - یاد کرو جبکہ شعیبؑ نے ان سے کہا تھا ”کیا تم ڈرتے نہیں؟ 178 - میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسُول ہوں۔ 179 - لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ 180 - میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں۔ میرا اجر تو ربّ العالمین کے ذمّہ ہے ۔ 181 - پیمانے ٹھیک بھرو اور کسی کو گھاٹا نہ دو۔ 182 - صحیح ترازو سے تولو 183 - اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو۔ زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو 184 - اور اُس ذات کا خوف کرو جس نے تمہیں اور گزشتہ نسلوں کو پیدا کیا ہے۔“ 185 - انہوں نے کہا ”تُو محض ایک سحر زدہ آدمی ہے، 186 - اور تُو کچھ نہیں ہے مگر ایک انسان ہم ہی جیسا ، اور ہم تو تجھے بالکل جھُوٹا سمجھتے ہیں۔ 187 - اگر تُو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے۔“ 188 - شعیبؑ نے کہا ”میرا ربّ جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔“ 116 189 - انہوں نے اُسے جھُٹلا دیا، آخر کار چھتری والے دن کا عذاب ان پر آگیا 117 ، اور وہ بڑے ہی خوفناک دن کا عذاب تھا۔ 190 - یقیناً اس میں ایک نشانی ہے ، مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں۔ 191 - اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا ربّ زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔ ؏۱۰


Notes

115. اصحاب الایکہ کا مختصر ذکر سورہ الحجر آیت 78۔ 84 میں پہلے گزر چکا ہے۔ یہاں اس کی تفصیل بیان ہو رہی ہے۔ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا مِدْیَن اور اصحاب الایکہ الگ الگ قومیں ہیں یا ایک ہی قوم کے دو نام ہیں۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ یہ دو الگ قومیں ہیں اور اس کے لیے سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ سورہ اعراف میں حضرت شعیبؑ کو اہل مدین کا بھائی فرمایا گیا ہے (وَاِلیٰ مَدْیَنَ اَخَا ھُمْ شُعَیْباً )، اور یہاں اصحاب الایکہ کے ذکر میں صرف یہ ارشاد ہوا ہے کہ اِذْقَالَ لَھُمْ شُعَیبٌ (جب کہ ان سے شعیب نے کہا)، ’’ان کے بھائی ‘‘ (اَخُوْ ھُمْ) کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ اس کے بر عکس بعض مفسرین دونوں کو ایک ہی قوم قرار دیتے ہیں ، کیونکہ سورہ اعراف اور سورہ ہود میں جو امراض اور اوصاف اصحاب مدین کے بیان ہوئے ہیں وہی یہاں اصحاب الایکہ کے بیان ہو رہے ہیں ، حضرت شعیب کی دعوت و نصیحت بھی یکساں ہے ، اور آخر کار ان کے انجام میں بھی فرق نہیں ہے۔

تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں اقوال اپنی جگہ صحیح ہیں۔ اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ بلا شبیہ دو الگ قبیلے ہیں مگر ہیں ایک ہی نسل کی دو شاخیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جو اولاد ان کی بیوی یا کنیز قطورا کے بطن سے تھی وہ عرب اور اسرائیل کی تاریخ میں بنی قطُورا کے نام سے معروف ہے۔ ان میں سے ایک قبیلہ جو سب سے زیادہ مشہور ہوا، مدیان بن ابراہیم کی نسبت سے مدیانی، یا اصحاب مدین کہلایا، اور اس کی آبادی شمالی حجاز سے فلسطین کے جنوب تک اور وہاں سے جزیرہ نمائے سینا کے آخری گوشے تک بحر قلزم اور خلیج عقبہ کے سوا حل پر پھیل گئی۔ اس کا صدر مقام شہر مدین تھا جس کی جائے وقوع ابوالفدا نے خلیج عقبہ کے مغربی کنارے اَیلَہ (موجودہ عقبہ) سے پانچ دن کی راہ پر بتائی ہے۔ باقی بنی قطورا جن میں بنی ودان (Dedanites)نسبۃً زیادہ مشہور ہیں ، شمالی عرب میں تَیماء اور تبوک اور العُلاء کے درمیان آباد ہوئے اور ان کا صدر مقام تبوک تھا جسے قدیم زمانے میں ایکہ کہتے تھے۔ (یا قوت نے معجم البلد ان میں لفظ ایکہ کے تحت بتایا ہے کہ یہ تبوک کا پرانا نام ہے اور اہل تبوک میں عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ یہی جگہ کسی زمانے میں ایکہ تھی)۔

اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ کے لیے ایک ہی پیغمبر مبعوث کیے جانے کی وجہ غالباً یہ تھی کہ دونوں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے تھے ،ایک ہی زبان بولتے تھے ، اور ان کے علاقے بھی بالکل ایک دوسرے سے متصل تھے۔ بلکہ بعید نہیں کہ بعض علاقوں میں یہ ساتھ ساتھ آباد ہوں اور آپس کے شادی بیاہ سے ان کا معاشرہ بھی باہم گھل مل گیا ہو۔ اس کے علاوہ بنی قطور کی ان دونوں شاخوں کا پیشہ بھی تجارت تھا۔ اور دونوں میں ایک ہی طرح کی تجارتی بے ایمانیاں اور مذہبی و اخلاقی بیماریاں پائی جاتی تھیں۔ بائیبل کی ابتدائی کتابوں میں جگہ جگہ یہ ذکر ملتا ہے کہ یہ لوگ بعل فغور کی پرستش کرتے تھے اور بنی اسرائیل جب مصر سے نکل کر ان کے علاقے میں آئے تو ان کے اندر بھی انہوں نے شرک اور زنا کاری کی وبا پھیلا دی (گنتی، باب 25 آیت 1۔5، باب 31 آیت 16۔17)۔ پھر یہ لوگ بین الاقوامی تجارت کی ان دو بڑی شاہراہوں پر آباد تھے جو یمن سے شام اور خلیج فارس سے مصر کی طرف جاتی تھیں۔ ان شاہراہوں پر واقع ہونے کی وجہ سے انہوں نے بڑے پیمانے پر رہزنی کا سلسلہ چلا رکھا تھا۔ دوسری قوموں کے تجارتی قافلوں کو بھاری خراج لیے بغیر نہ گزرنے دیتے تھے ، اور بین الاقوامی تجارت پر خود قابض رہنے کی خاطر انہوں نے راستوں کا امن خطرے میں ڈال رکھا تھا۔ قرآن مجید میں ان کی اس پوزیشن کو یوں بیان کیا گیا ہے : اِنَّھُمَا لِبَاِ مَامٍ مُّبِیْنٍ O ’’ یہ دونوں (قوم لوط اور اصحاب الایکہ) کھلی شاہراہ پر آباد تھے ‘‘، اور ان کی رہزنی کا ذکر سورہ اعراف میں اس طرح کیا گیا ہے : وَلَا تَقْعُدُوْ ا بِکلِ صِرَاطٍ تُوْ عِدُوْنَ O ’’ اور ہر راستے پر لوگوں کو ڈرانے نہ بیٹھو‘‘۔ یہی اسباب تھے جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں قبیلوں کے لیے ایک ہی پیغمبر بھیجا اور ان کو ایک ہی طرح کی تعلیم دی۔

حضرت شعیبؑ اور اہل مدین کے قصے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، آیات 85۔ 93۔ ہود 84۔ 95۔ العنکبوت 36۔ 37۔

116. یعنی عذاب نازل کرنا میرا کام نہیں ہے۔ یہ تو اللہ رب العالمین کے اختیار میں ہے اور وہ تمہارے کرتوت دیکھ ہی رہا ہے۔ اگر وہ تمہیں اس عذاب کا مستحق سمجھے گا تو خود نازل فرما دے گا۔ اصحاب الایکہ کے اس مطالبے اور حضرت شعیب کے اس جواب میں کفار قریش کے لیے بھی ایک تنبیہ تھی۔ وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہی مطالبے کرتے تھے ، اَوْتُسْقِطَ السَّمَآءَ کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفاً، ’’ یا پھر گرا دے ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے ‘‘۔ (بنی اسرائیل۔ آیت 92 )۔ اس لیے ان کو سنایا جا رہا کہ ایسا ہی مطالبہ اصحاب الایکہ نے اپنے پیغمبر سے کیا تھا، اس کا جو جواب انہیں ملا وہی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے تمہاری طلب کا جواب بھی ہے۔

117. اس عذاب کی کوئی تفصیل قرآن مجید میں یا کسی صحیح حدیث میں مذکور نہیں ہے۔ ظاہر الفاظ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے چونکہ آسمانی عذاب مانگا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک بادل بھیج دیا اور وہ چھتری کی طرح ان پر اس وقت تک چھایا رہا جب تک باران عذاب نے ان کو بالکل تباہ نہ کر دیا۔ قرآن سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ اصحاب مدین کے عذاب کی کیفیت اصحاب الایکہ کے عذاب سے مختلف تھی۔ یہ جیسا کہ یہاں بتایا گیا ہے ، چھتری والے عذاب سے ہلاک ہوئے ، اور ان پر عذاب ایک دھماکے اور زلزلے کی شکل میں آیا (فَاَخَذَ تْھُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْ فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ، اور وَاَخَذَ تِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا الصَّیْحَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِ ھِمْ جٰثِمِیْنَ O )۔ اس لیے ان دونوں کو ملا کر ایک داستان بنانے کی کوشش درست نہیں ہے۔ بعض مفسرین نے عذاب یوم الظُّلہ کی کچھ تشریحات بیان کی ہیں ، مگر ہمیں نہیں معلوم کہ ان کی معلومات کا ماخذ کیا ہے۔ ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے۔ کہ من حدثک من العلماء ما عذاب یوم الظلۃ فکذبہ، ’’ علماء میں سے جو کوئی تم سے بیان کرے کہ یوم الظُّلہ کا عذاب کیا تھا اس کو درست نہ سمجھو‘‘۔