Tafheem ul Quran

Surah 26 Ash-Shu'ara, Ayat 192-227

وَاِنَّهٗ لَـتَنۡزِيۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَؕ‏ ﴿26:192﴾ نَزَلَ بِهِ الرُّوۡحُ الۡاَمِيۡنُۙ‏ ﴿26:193﴾ عَلٰى قَلۡبِكَ لِتَكُوۡنَ مِنَ الۡمُنۡذِرِيۡنَۙ‏ ﴿26:194﴾ بِلِسَانٍ عَرَبِىٍّ مُّبِيۡنٍؕ‏ ﴿26:195﴾ وَاِنَّهٗ لَفِىۡ زُبُرِ الۡاَوَّلِيۡنَ‏ ﴿26:196﴾ اَوَلَمۡ يَكُنۡ لَّهُمۡ اٰيَةً اَنۡ يَّعۡلَمَهٗ عُلَمٰٓؤُا بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَؕ‏  ﴿26:197﴾ وَلَوۡ نَزَّلۡنٰهُ عَلٰى بَعۡضِ الۡاَعۡجَمِيۡنَۙ‏ ﴿26:198﴾ فَقَرَاَهٗ عَلَيۡهِمۡ مَّا كَانُوۡا بِهٖ مُؤۡمِنِيۡنَؕ‏ ﴿26:199﴾ كَذٰلِكَ سَلَكۡنٰهُ فِىۡ قُلُوۡبِ الۡمُجۡرِمِيۡنَؕ‏ ﴿26:200﴾ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِهٖ حَتّٰى يَرَوُا الۡعَذَابَ الۡاَلِيۡمَۙ‏ ﴿26:201﴾ فَيَاۡتِيَهُمۡ بَغۡتَةً وَّهُمۡ لَا يَشۡعُرُوۡنَۙ‏ ﴿26:202﴾ فَيَـقُوۡلُوۡا هَلۡ نَحۡنُ مُنۡظَرُوۡنَؕ‏ ﴿26:203﴾ اَفَبِعَذَابِنَا يَسۡتَعۡجِلُوۡنَ‏ ﴿26:204﴾ اَفَرَءَيۡتَ اِنۡ مَّتَّعۡنٰهُمۡ سِنِيۡنَۙ‏ ﴿26:205﴾ ثُمَّ جَآءَهُمۡ مَّا كَانُوۡا يُوۡعَدُوۡنَۙ‏ ﴿26:206﴾ مَاۤ اَغۡنٰى عَنۡهُمۡ مَّا كَانُوۡا يُمَتَّعُوۡنَؕ‏ ﴿26:207﴾ وَمَاۤ اَهۡلَكۡنَا مِنۡ قَرۡيَةٍ اِلَّا لَهَا مُنۡذِرُوۡنَ​​​​​ ۛ ​ۖ ‏ ﴿26:208﴾ ذِكۡرٰى​ۛ وَمَا كُنَّا ظٰلِمِيۡنَ‏ ﴿26:209﴾ وَمَا تَنَزَّلَتۡ بِهِ الشَّيٰطِيۡنُ‏ ﴿26:210﴾ وَمَا يَنۡۢبَغِىۡ لَهُمۡ وَمَا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَؕ‏ ﴿26:211﴾ اِنَّهُمۡ عَنِ السَّمۡعِ لَمَعۡزُوۡلُوۡنَؕ‏ ﴿26:212﴾ فَلَا تَدۡعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتَكُوۡنَ مِنَ الۡمُعَذَّبِيۡنَ​ۚ‏  ﴿26:213﴾ وَاَنۡذِرۡ عَشِيۡرَتَكَ الۡاَقۡرَبِيۡنَۙ‏ ﴿26:214﴾ وَاخۡفِضۡ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ​ۚ‏ ﴿26:215﴾ فَاِنۡ عَصَوۡكَ فَقُلۡ اِنِّىۡ بَرِىۡٓءٌ مِّمَّا تَعۡمَلُوۡنَ​ۚ‏ ﴿26:216﴾ وَتَوَكَّلۡ عَلَى الۡعَزِيۡزِ الرَّحِيۡمِۙ‏ ﴿26:217﴾ الَّذِىۡ يَرٰٮكَ حِيۡنَ تَقُوۡمُۙ‏ ﴿26:218﴾ وَتَقَلُّبَكَ فِى السّٰجِدِيۡنَ‏ ﴿26:219﴾ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ‏ ﴿26:220﴾ هَلۡ اُنَبِّئُكُمۡ عَلٰى مَنۡ تَنَزَّلُ الشَّيٰـطِيۡنُؕ‏ ﴿26:221﴾ تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِيۡمٍۙ‏ ﴿26:222﴾ يُّلۡقُوۡنَ السَّمۡعَ وَاَكۡثَرُهُمۡ كٰذِبُوۡنَؕ‏ ﴿26:223﴾ وَالشُّعَرَآءُ يَتَّبِعُهُمُ الۡغَاوٗنَؕ‏ ﴿26:224﴾ اَلَمۡ تَرَ اَنَّهُمۡ فِىۡ كُلِّ وَادٍ يَّهِيۡمُوۡنَۙ‏ ﴿26:225﴾ وَاَنَّهُمۡ يَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا يَفۡعَلُوۡنَۙ‏ ﴿26:226﴾ اِلَّا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِيۡرًا وَّانْتَصَرُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا ظُلِمُوۡا​ ؕ وَسَيَـعۡلَمُ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَىَّ مُنۡقَلَبٍ يَّـنۡقَلِبُوۡنَ‏ ﴿26:227﴾

192 - 118 یہ ربّ العالمین کی نازل کردہ چیز ہے۔ 119 193 - اسے لے کر امانت دار رُوح 120 اُتری ہے 194 - تیرے دل پر، تاکہ تُو اُن لوگوں میں شامل ہو جو (خدا کی طرف سے خلقِ خدا کو)متنبّہ کرنے والے ہیں، 195 - صاف صاف عربی زبان میں۔ 121 196 - اور اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی یہ موجود ہے۔ 122 197 - کیا اِن (اہلِ مکّہ) کے لیے یہ کوئی نشانی نہیں ہے کہ اِسے علماءِ بنی اسرائیل جانتے ہیں؟ 123 198 - (لیکن اِن کی ہٹ دھرمی کا حال تو یہ ہے کہ)اگر ہم اسے کسی عجمی پر بھی نازل کر دیتے 199 - اور یہ (فصیح عربی کلام)وہ ان کو پڑھ کر سُناتا تب بھی یہ مان کر نہ دیتے۔ 124 200 - اِسی طرح ہم نے اس (ذکر)کو مجرموں کے دلوں میں گزارا ہے۔ 125 201 - وہ اس پر ایمان نہیں لاتے جب تک کہ عذاب الِیم نہ دیکھ لیں۔ 126 202 - پھر جب وہ بے خبری میں ان پر آپڑتا ہے 203 - اُس وقت وہ کہتے ہیں کہ ”کیا اب ہمیں کچھ مہلت مِل سکتی ہے؟“ 127 204 - تو کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں؟ 205 - تم نے کچھ غور کیا ، اگر ہم انہیں برسوں تک عیش کرنے کی مہلت بھی دے دیں 206 - اور پھر وہی چیز ان پر آجائے جس سے انہیں ڈرایا جا رہا ہے 207 - تو وہ سامانِ زیست جو ان کو ملا ہوا ہے اِن کے کس کام آئے گا؟ 128 208 - (دیکھو)ہم نے کبھی کسی بستی کو اِس کے بغیر ہلاک نہیں کیا کہ اُس کے لیے خبردار کرنے والے موجود تھے۔ 209 - حقِّ نصیحت ادا کرنے کو اور ہم ظالم نہ تھے۔ 129 210 - اِس (کتابِ مبین)کو شیاطین لے کر نہیں اُترے ہیں، 130 211 - نہ یہ کام ان کو سجتا ہے 131 ، اور نہ وہ ایسا کر ہی سکتے ہیں۔ 132 212 - وہ تو اس کی سماعت تک سے دُور رکھے گئے ہیں۔ 133 213 - پس اے محمدؐ ، اللہ کے ساتھ کسی دُوسرے معبُود کو نہ پکارو، ورنہ تم بھی سزا پانے والوں میں شامل ہو جاوٴ گے۔ 134 214 - اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈراوٴ، 135 215 - اور ایمان لانے والوں میں سے جو لوگ تمہاری پیروی اختیار کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آوٴ، 216 - لیکن اگر وہ تمہاری نافرمانی کریں تو ان سے کہہ دو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری الذّمّہ ہوں۔ 136 217 - اور اُس زبر دست اور رحیم پر توکّل کرو 137 218 - جو تمہیں اُس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم اُٹھتے ہو 138 ، 219 - اور سجدہ گزار لوگوں میں تمہاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔ 139 220 - وہ سب کچھ سُننے اور جاننے والا ہے۔ 221 - لوگو، کیا میں تمہیں بتاوٴں کہ شیاطین کس پر اُترا کرتے ہیں؟ 222 - وہ ہر جعل ساز بدکار پر اُترا کرتے ہیں۔ 140 223 - سُنی سُنائی باتیں کانوں میں پھُونکتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھُوٹے ہوتے ہیں۔ 141 224 - رہے شعراء، تو ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ چلا کرتے ہیں۔ 142 225 - کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیں 143 226 - اور ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں ہیں 144 227 - ۔۔۔۔ بجز اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا، اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا 145 ۔۔۔۔ اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ 146 ؏۱۱


Notes

118. تاریخی بیان ختم کر کے اب سلسلہ کلام اسی مضمون کی طرف پھرتا ہے جس سے سورۃ کا آغاز فرمایا گیا تھا۔ اس کو سمجھنے کے لیے ایک دفعہ پھر پلٹ کر پہلے رکوع کو دیکھ لینا چاہیے۔

119. یعنی یہ ’’ کتاب مبین ‘‘ جس کی آیات یہاں سنائی جا رہی ہیں ، اور یہ ’’ذکر ‘‘ جس سے لوگ منہ موڑ رہے ہیں کسی انسان کی من گھڑت چیز نہیں ہے ، اسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے خود تصنیف نہیں کر لیا ہے ، بلکہ یہ رب العالمین کی نازل کردہ ہے۔

120. مراد ہیں جبریل علیہ السلام، جیسا کہ دوسری جگہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے : قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلیٰ قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللہِ۔ (البقرہ۔ آیت 97)۔ ’’ کہہ دے کہ جو کوئی دشمن ہے جبریلؑ کا تو اسے معلوم ہو کہ اسی نے یہ قرآن اللہ کے حکم سے تیرے دل پر نازل کیا ہے۔‘‘ یہاں ان کا نام لینے کے بجائے ان کے لیے روح امین (امانت دار روح) کا لقب استعمال کرنے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ رب العالمین کی طرف سے اس تنزیل کو لے کر کوئی مادی طاقت نہیں آئی ہے جس کے اندر تغیر و تبدل کا امکان ہو، بلکہ وہ ایک خالص روح ہے بلا شائبہ مادیت، اور وہ پوری طرح امین ہے ، خدا کا پیغام جیسا اس کے سپرد کیا جاتا ہے ویسا ہی بلا کم و کاست پہنچا دیتی ہے ، اپنی طرف سے کچھ بڑھانا یا گھٹا دینا بطور خود کچھ تصنیف کر لینا اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔

121. اس فقرے کا تعلق ’’امانت دار روح اتری ہے ‘‘ سے بھی ہو سکتا ہے اور ’’متنبہ کرنے والے ہیں ‘‘ سے بھی۔ پہلی صورت میں اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ امانت دار روح اسے صاف صاف عربی زبان میں لائی ہے ، اور دوسری صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان انبیاء میں شامل ہیں جنہیں عربی زبان میں خلق خدا کو متنبہ کرنے کے لیے مامور فرمایا گیا تھا، یعنی ہود، صالح، اسماعیل اور شعیب علیہم السلام۔ دونوں صورتوں میں مقصود کلام ایک ہی ہے ، اور وہ یہ کہ رب العالمین کی طرف سے یہ تعلیم کسی مردہ یا جنّاتی زبان میں نہیں آئی ہے ، نہ اس میں کوئی معمے یا چیستاں کی سی گنجلک زبان استعمال کی گئی ہے ، بلکہ یہ ایسی صاف اور فصیح عربی زبان میں ہے جس کا مفہوم و مدعا ہر عرب اور ہر وہ شخص جو عربی زبان جانتا ہو، بے تکلف سمجھ سکتا ہے۔ اس لیے جو لوگ اس سے منہ موڑ رہے ہیں ان کے لیے یہ عذر کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے کہ وہ اس تعلیم کو سمجھ نہیں سکے ہیں ، بلکہ ان کے اعراض و انکار کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ اسی بیماری میں مبتلا ہیں جس میں فرعون مصر اور قوم ابراہیم اور قوم نوح اور قوم لوط اور عاد و ثمود اور اصحاب الایکہ مبتلا تھے۔

122. یعنی یہ ذکر اور یہی تنزیل اور یہی الہٰی تعلیم سابق کتب آسمانی میں بھی موجود ہے۔ یہی خدائے واحد کی بندگی کا بلاوا، یہی آخرت کی زندگی کا عقیدہ، یہی انبیاء کی پیروی کا طریقہ ان سب میں بھی پیش کیا گیا ہے ، سب کتابیں جو خدا کی طرف سے آئی ہیں شرک کی مذمت ہی کرتی ہیں ، مادہ پرستانہ نظریہ حیات کو چھوڑ کر اسی بر حق نظریہ حیات کی طرف دعوت دیتی ہیں جس کی بنیاد خدا کے حضور انسان کی جواب دہی کے تصور پر ہے ، اور انسان سے یہی مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ اپنی خود مختاری سے دست بردار ہو کر ان الہٰی احکام کی پیروی اختیار کرے جو انبیاء علیہم السلام لائے ہیں۔ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نرالی نہیں جو دنیا میں پہلی مرتبہ قرآن ہی پیش کر رہا ہو اور کوئی شخص یہ کہہ سکے تم وہ بات کر رہے ہو جو اگلوں پچھلوں میں سے کسی نے کبھی نہیں کی۔

یہ آیت منجملہ ان دلائل کے ہے جو امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی اس قدیم رائے کے حق میں پیش کیے جاتے ہیں کہ اگر کوئی شخص نماز میں قرآن کا ترجمہ پڑھ لے تو نماز ہو جاتی ہے ، خواہ وہ شخص عربی میں قرآن پڑھے کی قدرت رکھتا ہو نہ رکھتا ہو۔ بنائے استدلال علامہ ابو بکر جصاص کے الفاظ میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرما رہا ہے کہ قرآن پچھلی کتابوں میں بھی تھا، اور ظاہر ہے کہ ان کتابوں میں وہ عربی الفاظ کے ساتھ نہ تھا۔ لہٰذا کسی دوسری زبان میں اس کے مضامین کو نقل کر دینا اسے قرآن ہونے سے خارج نہیں کر دیتا (احکام القرآن، جلد سوم، صفحہ 429)۔ لیکن اس استدلال کی کم زوری بالکل ظاہر ہے۔ قرآن مجید ہو یا کوئی دوسری آسمانی کتاب، کسی کے نزول کی کیفیت بھی یہ نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے صرف معانی نبی کے دل پر القا کر دیے ہوں اور نبی نے پھر انہیں اپنے الفاظ میں بیان کیا ہو۔ بلکہ ہر کتاب جس زبان میں بھی آئی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے معنی اور لفظ دونوں کے ساتھ آئی ہے۔ اس لیے قرآن کی تعلیم جن پچھلی کتابوں میں تھی، انسانی الفاظ میں نہیں ، خدائی الفاظ ہی میں تھی، اور ان میں سے کسی کے ترجمہ کو بھی کتاب اللہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اصل کا قائم مقام ٹھیرایا جا سکے۔ رہا قرآن تو اس کے متعلق بار بار بصراحت فرمایا گیا ہے کہ وہ لفظاً لفظاً عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے : اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْاٰناً عَرَبِیًّا، (یوسف۔آیت 2) وَکَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰہُ حُکْماً عَرَبِیًّا، (الرعد۔ آیت 37)۔ قُرْاٰناً عَرَبِیًّا غَیْرِ ذِیْ عِوَجٍ، (الزمر۔ آیت 28)۔ اور خود اسی آیت زیر بحث سے پہلے متصلاً فرمایا جا چکا ہے کہ روح الامین اسے زبان عربی میں لے کر اترا ہے۔ اب اس کے متعلق یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس کا کوئی ترجمہ جو کسی انسان نے دوسری زبان میں کیا ہو وہ بھی قرآن ہی ہو گا اور اس کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے الفاظ کے قائم مقام ہوں گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ استدلال کی اس کمزوری کو بعد میں خود امام ممدوح نے ہی محسوس فرما لیا تھا، چنانچہ معتبر روایات سے یہ بات نقل ہوئی ہے کہ انہوں نے اس مسئلے میں اپنی رائے سے رجوع کرکے امام ابو یوسف اور امام محمد کی رائے قبول کر لی تھی، یعنی یہ کہ جو شخص عربی زبان میں قرأت پر قادر نہ ہو وہ اس وقت تک نماز میں قرآن کا ترجمہ پڑھ سکتا ہےجب تک اس کی زبان عربی الفاظ کرے تلفظ کے قابل نہ ہوجائے۔ لیکن جو شخص عربی میں قرآن پڑھ سکتا ہو وہ اگر قرآن کا ترجمہ پڑھے گا تو اس کی نماز نہ ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ صاحبین نے یہ رعایت در اصل ان عجمی نو مسلموں کے لیے تجویز کی تھی جو اسلام قبول کرتے ہی فوراً عربی زبان میں نماز ادا کرنے کے قابل نہ ہو سکتے تھے۔ اور اس میں بنائے استدلال یہ نہ تھی کہ قرآن کا ترجمہ بھی قرآن ہے ، بلکہ ان کا استدلال یہ تھا کہ جس طرح اشارے سے رکوع و سجود کرنا اس شخص کے لیے جائز ہے جو رکوع اور سجدہ کرنے سے عاجز ہو، اسی طرح غیر عربی میں نماز پڑھنا اس شخص کے لیے جائز ہے جو عربی تلفظ پر قادر نہ ہو۔ اور علیٰ ہٰذا القیاس جس طرح عجز رفع ہو جانے کے بعد اشارے سے رکوع و سجود کرنے والے کی نماز نہ ہو گی اسی طرح قرآن کے تلفظ پر قادر ہو جانے کے بعد ترجمہ پڑھنے والے کی نماز بھی نہ ہو گی۔ (اس مسئلے پر مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو مبسوط سَرَخْسی، جلد اول، صفحہ 37۔ فتح القدیر و شرح عنایہ علی الہدایہ جلد 1، صفحہ 190۔ 201 )۔

123. یعنی علمائے بنی اسرائیل اس بات سے واقف ہیں کہ جو تعلیم قرآن مجید میں دی گئی ہے وہ ٹھیک وہی تعلیم ہے جو سابق کتب آسمانی میں دی گئی تھی۔ اہل مکہ خود علم کتاب سے نا آشنا سہی، بنی اسرائیل کے اہل علم تو گرد و پیش کے علاقوں میں کثرت سے موجود ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ کوئی انوکھا اور نرالا ’’ذکر‘‘ نہیں ہے جو آج پہلی مرتبہ محمدؐ بن عبد اللہ نے لا کر تمہارے سامنے رکھ دیا ہو، بلکہ ہزارہا برس سے خدا کے نبی یہی ذکر پے در پے لاتے رہے ہیں۔ کیا یہ بات اس امر کا اطمینان کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ یہ تنزیل بھی اسی رب العالمین کی طرف سے ہے جس نے پچھلی کتابیں نازل کی تھیں ؟

سیرت ابن ہشام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات کے زمانہ نزول سے قریب ہی یہ واقعہ پیش آ چکا تھا کہ حبش سے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی دعوت سن کر 20 آدمیوں کا ایک وفد مکہ آیا اور اس نے مسجد حرام میں کفار قریش کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مل کر دریافت کیا کہ آپ کیا تعلیم لائے ہیں۔ حضورؐ نے جواب میں ان کو قرآن کی کچھ آیات سنائیں۔ اس پر ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ اسی وقت آپ کے رسول برحق ہونے کی تصدیق کر کے آپ پر ایمان لے آئے۔ پھر جب وہ حضورؐ کے پاس سے اٹھے تو ابو جہل قریش کے چند لوگوں کے ساتھ ان سے ملا اور انہیں سخت ملامت کی۔ اس نے کہا’’ تم سے زیادہ احمق قافلہ یہاں کبھی نہیں آیا۔ نامراد و، تمہارے ہاں کے لوگوں نے تو تمہیں اس لیے بھیجا تھا کہ اس شخص کے حالات کی تحقیق کر کے آؤ، مگر تم ابھی اس سے ملے ہی تھے کہ اپنا دین چھوڑ بیٹھے ‘‘۔ وہ شریف لوگ ابو جہل کی اس زجر و توبیخ پر الجھنے کے بجائے سلام کر کے ہٹ گئے اور کہنے لگے کہ ہم آپ سے بحث نہیں کرنا چاہتے ، آپ اپنے دین کے مختار ہیں اور ہم اپنے دین کے مختار ہمیں جس چیز میں اپنی خیر نظر آئی اسے ہم نے اختیار کر لیا (جلد دوم۔ صفحہ 32)۔ اسی واقعہ کا ذکر سورہ قصص میں آیا ہے کہ : اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِہٖ ھُمْ بِہٖ یُؤْ مِنُوْنَ ہ وَاِذَ ا یُتْلیٰ عَلَیْہِمْ قَا لُؤ آ اٰمَنَّا بِہٖٓ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَا اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِمِیْنَ O .......... وَاِذَ سَمِعُوا الْلَّغْوَاَ عْرَضُوْا عَنْہُ وَقَا لُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ، سَلَامٌ عَلَیْکُمْ ، لَا نَبْتَغِی الْجَاھِلِیْنَ O (آیات 52۔ 55)۔ ’’ جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی وہ اس قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور جب وہ انہیں سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے ، یہ حق ہے ہمارے رب کی طرف سے ، ہم اس سے پہلے بھی اسی دین اسلام پر تھے ................ اور جب انہوں نے بیہودہ باتیں سنیں تو الجھنے سے پرہیز کیا اور بولے ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ، تم کو سلام ہو، ہم جاہلوں کا طریقہ پسند نہیں کرتے (کہ چار باتیں تم ہمیں سناؤ تو ہم تمہیں سنائیں )‘‘۔

124. یعنی اب ان ہی کی قوم کا ایک آدمی انہیں عربی مبین میں یہ کلام پڑھ کر سنا رہا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے اسے خود تصنیف کر لیا ہے ، عرب کی زبان سے عربی تقریر ادا ہونے میں آخر معجزے کی کیا بات ہے کہ ہم اسے خدا کا کلام مان لیں۔ لیکن اگر یہی فصیح عربی کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی غیر عرب پر بطور معجزہ نازل کر دیا جاتا اور وہ ان کے سامنے آ کر نہایت صحیح عربی لہجہ میں اسے پڑھتا تو یہ ایمان نہ لانے کے لیے دوسرا بہانہ تراشتے ، اس وقت یہ کہتے کہ اس پر کوئی جن آ گیا ہے جو عجمی کی زبان سے عربی بولتا ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، حٰم السجدہ، حواشی 54 تا 58 )۔ اصل چیز یہ ہے کہ جو شخص حق پسند ہوتا ہے وہ اس بات پر غور کرتا ہے جو اس کے سامنے پیش کی جا رہی ہو اور ٹھنڈے دل سے سوچ سمجھ کر رائے قائم کرتا ہے کہ یہ معقول بات ہے یا نہیں۔ اور جو شخص ہٹ دھرم ہوتا ہے اور نہ ماننے کا ارادہ کر لیتا ہے وہ اصل مضمون پر توجہ نہیں دیتا بلکہ اسے رد کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے تلاش کرتا ہے۔ اس کے سامنے بات خواہ کسی طریقے سے پیش کی جائے۔ وہ بہر حال اسے جھٹلانے کے لیے کوئی نہ کوئی وجہ پیدا کر لے گا۔ کفار قریش کی اس ہٹ دھرمی کا پردہ قرآن مجید میں جگہ جگہ فاش کیا گیا ہے اور ان سے صاف صاف کہا گیا ہے کہ تم ایمان لانے کے لیے معجزہ دکھانے کی شرط آخر کس منہ سے لگاتے ہو، تم تو وہ لوگ ہو کہ تمہیں خواہ کوئی چیز دکھا دی جائے تم اسے جھٹلانے کے لیے کوئی بہانہ نکال لو گے کیونکہ در اصل تمہیں حق بات مان کر نہیں دینی ہے : وَلَوْ نَزَّ لْنَا عَلَیْکَ کِتَا باً فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْہُ بَاَیْدِ یْھِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُ ؤٓ ا اِنْ ھٰذَ آ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ O (الانعام۔ آیت 7)۔ ’’ اگر ہم تیرے اوپر کاغذ میں لکھی ہوئی کوئی کتاب نازل کر دیتے اور یہ لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تو جن لوگوں نے نہیں مانا وہ کہتے کہ یہ تو کھلا جادو ہے ‘‘۔ وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَا باً مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوْ ا فِیْہِ یَعْرُجُوْنَ لَقَا لُوْ آ اِنَّمَا سُکِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ (الحجر۔ آیات 14۔15)۔ ’’ اور اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ بھی کھول دیتے اور یہ اس میں چڑھنے لگتے تو یہ کہتے کہ ہماری آنکھوں کو دھوکا ہو رہا ہے ، بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے ‘‘۔

125. یعنی یہ اہل حق کے دلوں کی طرح تسکین روح اور شفائے قلب بن کر ان کے اندر نہیں اترتا بلکہ ایک گرم لوہے کہ سلاخ بن کر اس طرح گزر تا ہے کہ وہ سیخ پا ہو جاتے ہیں اور اس کے مضامین پر غور کرنے کے بجائے اس کی تردید کے لیے حربے دھونڈنے میں لگ جاتے ہیں۔

126. ویسا ہی عذاب جیسا وہ قومیں دیکھ چکی ہیں جن کا ذکر اوپر اس سورے میں گزرا ہے۔

127. یعنی عذاب سامنے دیکھ کر ہی مجرموں کو یقین آیا کرتا ہے کہ واقعی پیغمبر نے جو کچھ کہا تھا وہ سچ تھا۔ اس وقت وہ حسرت کے ساتھ ہاتھ مل مل کر کہتے ہیں کہ کاش اب ہمیں کچھ مہلت مل جائے ، حالانکہ مہلت کا وقت گزر چکا ہوتا ہے۔

128. اس فقرے اور اس سے پہلے کے فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے سامع کا ذہن تھوڑا سا غور کر کے خود بھر سکتا ہے۔ عذاب کے لیے ان کے جلدی مچانے کی وجہ یہ تھی کہ وہ عذاب کے آنے کا کوئی اندیشہ نہ رکھتے تھے۔ انہیں بھروسا تھا کہ جیسی چین کی بنسری آج تک ہم بجاتے رہے ہیں اسی طرح ہمیشہ بجاتے رہیں گے۔ اسی اعتماد پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو چیلنج دیتے تھے کہ اگر واقعی تم خدا کے رسول ہو اور ہم تمہیں جھٹلا کر عذاب الٰہی کے مستحق ہو رہے ہیں تو لو ہم نے تمہیں جھٹلا دیا، اب لے آؤ اپنا وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے ، اچھا اگر بالفرض ان کا یہ بھروسا صحیح ہی ہو، اگر ان پر فوراً عذاب نہ آئے ، اگر انہیں دنیا میں مزے کرنے کے لیے ایک لمبی ڈھیل بھی مل جائے جس کی توقع پر یہ پھول رہے ہیں ، تو سوال یہ ہے کہ جب بھی ان پر عاد و ثمود یا قوم لوط اور اصحاب الایکہ کی سی کوئی آفت ناگہانی ٹوٹ پڑی جس سے محفوظ رہنے کی کسی کے پاس کوئی ضمانت نہیں ہے یا اور کچھ نہیں تو موت کی آخری گھڑی آن پہنچی جس سے بہر حال کسی کو مفر نہیں ، تو اس وقت عیش دنیا کے یہ چند سال آخر ان کے لیے کیا مفید ثابت ہوں گے ؟

129. یعنی جب انہوں نے خبر دار کرنے والوں کی تنبیہ اور سمجھانے والوں کی نصیحت قبول نہ کی اور ہم نے انہیں ہلاک کر دیا، تو ظاہر ہے کہ یہ ہماری طرف سے ان پر کوئی ظلم نہ تھا۔ ظلم تو اس وقت ہوتا جب کہ ہلاک کرنے سے پہلے انہیں سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوئی کوشش نہ کی گئی ہوتی۔

130. پہلے اس معاملے کا مثبت پہلو ارشاد ہوا تھا کہ یہ رب العالمین کی نازل کردہ ہے اور اسے روح الامین لے کر اترا ہے۔ اب اس کا منفی پہلو بیان کیا جا رہا ہے کہ اسے شیاطین لے کر نہیں اترے ہیں جیسا کہ حق کے دشمنوں کا الزام ہے۔ کفار قریش نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے جھوٹ کی جو مہم چلا رکھی تھی اس میں سب سے بڑی مشکل انہیں یہ پیش آ رہی تھی کہ اس حیرت انگیز کلام کی کیا توجیہ کی جائے جو قرآن کی شکل میں لوگوں کے سامنے آ رہا تھا اور دلوں میں اترتا چلا جا رہا تھا۔ یہ بات تو ان کے بس میں نہ تھی کہ لوگوں تک اس کے پہنچنے کو روک سکیں۔ اب پریشان کن مسئلہ ان کے لیے یہ تھا کہ لوگوں کو اس سے بد گمان کرنے اور اس کی تاثیر سے بچانے کے لیے کیا بات بنائیں۔ اس گھبراہٹ میں جو الزامات انہوں نے عوام میں پھیلائے تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ محمد صلی الہ علیہ و سلم معاذ اللہ کاہن ہیں اور عام کاہنوں کی طرح ان پر بھی یہ کلام شیاطین القا کرتے ہیں۔ اس الزام کو وہ اپنا سب سے زیادہ کار گر ہتھیار سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کسی کے پاس اس بات کو جانچنے کے لیے آخر کیا ذریعہ ہو سکتا ہے کہ یہ کلام کوئی فرشتہ لاتا ہے یا شیطان اور شیطانی القاء کی تردید آخر کوئی کرے گا تو کیسے۔

131. یعنی یہ کلام اور یہ مضامین شیاطین کے منہ پر پھبتے بھی تو نہیں ہیں۔ کوئی عقل رکھتا ہو تو خود سمجھ سکتا ہے کہ کہیں یہ باتیں ، جو قرآن میں بیان ہو رہی ہیں ، شیاطین کی طرف سے بھی ہو سکتی ہیں ؟ کیا تمہاری بستیوں میں کاہن موجود نہیں ہیں اور شیاطین سے ربط ضبط رکھ کر جو باتیں وہ کرتے ہیں وہ تم نے کبھی نہیں سنیں ؟ کیا کبھی تم نے سنا ہے کہ کسی شیطان نے کسی کاہن کے ذریعہ سے لوگوں کو خد پرستی اور خدا ترسی کی تعلیم دی ہو؟ شرک و بت پرستی سے روکا ہو؟ آخرت کی باز پرس کا خوف دلایا ہو؟ ظلم اور بد کاری اور بد اخلاقیوں سے منع کیا ہو؟ نیکو کاری اور راستبازی اور خلق خدا کے ساتھ احسان کی تلقین کی ہو؟ شیاطین کا یہ مزاج کہاں ہے ؟ ان کا مزاج تو یہ ہے کہ لوگوں میں فساد ڈلوائیں اور انہیں برائیوں کی طرف رغبت دلائیں۔ ان سے تعلق رکھنے والے کاہنوں کے پاس تو لوگ یہ پوچھنے جاتے ہیں کہ عاشق کو معشوق ملے گا یا نہیں ؟ جوئے میں کونسا داؤں مفید رہے گا؟ دشمن کو نیچا دکھانے کے لیے کیا چال چلی جائے ؟ اور فلاں شخص کا اونٹ کس نے چرایا ہے ؟ یہ مسائل اورمعاملات چھوڑ کر کاہنوں اور ان کے سرپرست شیاطین کو خلق خدا کی اصلاح، بھلائیوں کی تعلیم اور برائیوں کے استیصال کی کب سے فکر لاحق ہو گئی؟

132. یعنی شیاطین اگر کرنا چاہیں بھی تو یہ کام ان کے بس کا نہیں ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے بھی اپنے آپ کو انسانوں کے سچے معلم اور حقیقی مزکّی کے مقام پر رکھ کر خالص حق اور خالص خیر کی وہ تعلیم دے سکیں جو قرآن دے رہا ہے۔ وہ دھوکا دینے کی خاطر بھی اگر یہ روپ دھاریں تو ان کا کام ایسی آمیزشوں سے خالی نہیں ہو سکتا جو ان کی جہالت اور ان کے اندر چھپی ہوئی شیطانی فطرت کی غمازی نہ کر دیں۔ نیت کی خرابی، ارادوں کی نا پاکی، مقاصد کی خباثت لازماً اس شخص کی زندگی میں بھی اور اس کی تعلیم میں بھی جھلک کر رہے گی جو شیاطین سے الہام حاصل کر کے پیشوا بن بیٹھا ہو۔ بے آمیز راستی اور خالص نیکی نہ شیاطین القاء کر سکتے ہیں اور نہ ان سے ربط ضبط رکھنے والے اس کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ پھر تعلیم کی بلندی و پاکیزگی پر مزید وہ فصاحت و بلاغت اور وہ علم حقائق ہے جو قرآن میں پایا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر قرآن میں بار بار یہ چیلنج دیا گیا ہے کہ انسان اور جن مل کر بھی چاہیں تو اس کتاب کے مانند کوئی چیز تصنیف کر کے نہیں لا سکتے : قُلْ لَّائِنِ ا جْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلیٰٓ اَنْ یَّاْ تُوْ ا بِمِثْلِ ھٰذَ االْقُرْاٰنِ لَا یَاْ تُوْنَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْراً (بنی اسرائیل۔ آیت 88) قُلْ فَاْ تُوْ ابِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْکُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ O (یونس۔ آیت 38)۔

133. یعنی اس قرآن کے القاء میں دخیل ہونا تو در کنار، جس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے روح الامین اس کو لے کر چلتا ہے اور جس وقت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے دل پر وہ اس کو نازل کرتا ہے ، اس پورے سلسلے میں کسی جگہ بھی شیاطین کو کان لگا کر سننے تک کا موقع نہیں ملتا۔ وہ آس پاس کہیں پھٹکنے بھی نہیں پاتے کہ سن گن لے کر ہی کوئی بات اچک لے جائیں اور جا کر اپنے دوستوں کو بتا سکیں کہ آج محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) یہ پیغام سنانے والے ہیں ، یا ان کی تقریر میں فلاں بات کا بھی ذکر آنے والا ہے (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الحجر، حواشی 8 تا 12۔ جلد چہارم، الصافات، حواشی 5 تا 7 اور سورہ جن، آیات 8۔9۔27 )۔

134. اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے شرک کا کوئی خطرہ تھا اور اس بنا پر آپ کو دھمکا کر اس سے روکا گیا۔ در اصل اس سے مقصود کفار و مشرکین کو متنبہ کرنا ہے۔ کلام کا مدعا یہ ہے کہ قرآن مجید میں جو تعلیم پیش کی جا رہی ہے یہ چونکہ خالص حق ہے فرمانروائے کائنات کی طرف سے ، او ر اس میں شیطانی آلائشوں کا ذرہ برابر بھی دخل نہیں ہے ، اس لیے یہاں حق کے معاملے میں کسی کے ساتھ رو رعایت کا کوئی کام نہیں۔ خدا کو سب سے بڑھ کر اپنی مخلوق میں کوئی عزیز و محبوب ہو سکتا ہے تو وہ اس کا رسول پاک ہے۔ لیکن بالفرض اگر وہ بھی بندگی کی راہ سے بال برابر ہٹ جائے اور خدائے واحد کے سوا کسی اور کو معبود کی حیثیت سے پکار بیٹھے تو پکڑ سے نہیں بچ سکتا۔ تا بدیگراں چہ رسد۔ اس معاملہ میں جب خود محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہیں تو اور کون ہے جو خدا کی خدائی میں کسی اور کو شریک ٹھیرانے کے بعد یہ امید کر سکتا ہو کہ خود بچ نکلے گا یا کسی کے بچانے سے بچ جائے گا۔

135. یعنی خدا کے اس بے لاگ دین میں جس طرح نبی کی ذات کے لیے کوئی رعایت نہیں اسی طرح نبی کے خاندان اور اس کے قریب ترین عزیزوں کے لیے بھی کسی رعایت کی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں جس کے ساتھ بھی کوئی معاملہ ہے اس کے اوصاف( (Merits کے لحاظ سے ہے۔ کسی کا نسب اور کسی کے ساتھ آدمی کا تعلق کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا۔ گمراہی و بد عملی پر خدا کے عذاب کا خوف سب کے لیے یکساں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اور سب تو ان چیزوں پر پکڑے جائیں ، مگر نبی کے رشتہ دار بچے رہ جائیں۔ اس لیے حکم ہوا کہ اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو بھی صاف صاف متنبہ کر دو۔ اگر وہ اپنا عقیدہ اور عمل درست نہ رکھیں گے تو یہ بات ان کے کسی کام نہ آ سکے گی کہ وہ نبی کے رشتہ دار ہیں۔

معتبر روایات میں آیا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سب سے پہلے اپنے دادا کی اولاد کو خطاب فرمایا اور ایک ایک کو پکار کر صاف صاف کہہ دیا کہ یا بنی عبد المطلب، یاعباس، یا صفیۃ عمۃ رسول اللہ، یا فاطمۃ بنت محمد، انقذوا انفسکم من النار، فانی لا املک لکم من اللہ شیئاً، سلونی من مالی ماشئتم۔ ’’ اے نبی عبد المطلب، اے عباس، اے صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی، اے فاطمہ محمدؐ کی بیٹی، تم لوگ آگ کے عذاب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کر لو، میں خدا کی پکڑ سے تم کو نہیں بچا سکتا، البتہ میرے مال میں سے تم لوگ جو کچھ چاہو مانگ سکتے ہو‘‘۔ پھر آپ نے صبح سویرے صفا کے سب سے اونچے مقام پر کھڑے ہو کر پکارا یا صباحاہ (ہائے صبح کا خطرہ)، اے قریش کے لوگو، اے بنی کعب بن لُؤَیّ، اے بنی مرّہ، اے آل قُصَیّ، اے بنی عبد مَناف، اے بنی عبدشمس، اے بنی ہاشم، اے آل عبد المطلب۔ اس طرح قریش کے ایک ایک قبیلے اور خاندان کا نام لے لے کر آپ نے آواز دی۔ عرب میں قاعدہ تھا کہ جب صبح تڑکے کسی اچانک حملے کا خطرہ ہوتا تو جس شخص کو بھی اس کا پتہ چل جاتا وہ اسی طرح پکارنا شروع کر دیتا اور لوگ اس کی آواز سنتے ہی ہر طرف سے دوڑ پڑتے۔ چنانچہ حضورؐ کی اس آواز پر سب لوگ گھروں سے نکل آئے ، اور جو خود نہ آ سکا اس نے اپنی طرف سے کسی کو خبر لانے کے لیے بھیج دیا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپؐ نے فرمایا : ’’ لوگو، اگر میں تمہیں بتاؤں کہ اس پہاڑ کے دوسری طرف ایک بھاری لشکر ہے جو تم پر ٹوٹ پڑنا چاہتا ہے تو تم میری بات سچ مانو گے ؟ سب نے کہا ہاں، ہمارے تجربے میں تم کبھی جھوٹ بولنے والے نہیں رہے ہو۔ آپ نے فرمایا، ’’ اچھا تو میں خدا کا سخت عذاب آنے سے پہلے تم کو خبردار کرتا ہوں۔ اپنی جانوں کو اس کی پکڑ سے بچانے کی فکر کرو۔ میں خدا کے مقابلے میں تمہارے کسی کام نہیں آ سکتا۔ قیامت میں میرے رشتہ دار صرف متقی ہوں گے۔ ایسا نہ ہو کہ دوسرے لوگ نیک اعمال لے کر آئیں اور تم لوگ دنیا کا وبال سر پر اٹھائے ہوئے آؤ۔ اس وقت تم پکارو گے یا محمدؐ، مگر میں مجبور ہوں گا کہ تمہاری طرف سے منہ پھیر لوں۔ البتہ دنیا میں میرا اور تمہارا خون کا رشتہ ہے اور یہاں میں تمہارے ساتھ ہر طرح کی صلہ رحمی کروں گا ‘‘۔ (اس مضمون کی متعدد روایات بخاری، مسلم، مسند احمد، ترمذی، نسائی اور تفسیر ابن جریر میں حضرت عائشہ، حضرت ابو ہریرہ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت زہیر بن عمرو اور حضرت قبیصہ بن مخارق سے مروی ہیں )۔

یہ معاملہ صرف اس حد تک نہ تھا کہ قرآن میں اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ کا حکم آیا اور حضورؐ نے اپنے رشتہ داروں کو جمع کر کے بس اس کی تعمیل کر دی۔ در اصل اس میں جو اصول واضح کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ دین میں نبی اور اس کے خاندان کے لیے کوئی امتیازی مراعات نہیں ہیں جن سے دوسرے محروم ہوں۔ جو چیز زہر قاتل ہے وہ سب ہی کے لیے قاتل ہے ، نبی کا کام یہ ہے کہ سب سے پہلے اس سے خود بچے اور اپنے قریبی لوگوں کو اس سے ڈرائے ، پھر ہر خاص و عام کو متنبہ کر دے کہ جو بھی اسے کھائے گا، ہلاک ہو جائے گا۔ اور جو چیز نافع ہے وہ سب ہی کے لیے نافع ہے ، نبی کا منصب یہ ہے کہ سب سے پہلے اسے خود اختیار کرے اور اپنے عزیزوں کو اس کی تلقین کرے ، تاکہ ہر شخص دیکھ لے کہ یہ وعظ و نصیحت دوسروں ہی کے لیے نہیں ہے ، بلکہ نبی اپنی دعوت میں مخلص ہے۔ اسی طریقے پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم زندگی بھر عامل رہے۔ فتح مکہ کے روز جب آپ شہر میں داخل ہوئے تو آپ نے اعلان کیا کہ کل ربا فی الجاھلیۃ موضوع تحت قدمی ھاتین و اول ما اضعہ ربا العباس۔ ’’زمانہ جاہلیت کا ہر سود جو لوگوں کے ذمے تھا میرے ان قدموں تلے روند ڈالا گیا۔ اور سب سے پہلے جس سود کو میں ساقط کرتا ہوں وہ میرے چچا عباسؓ کا ہے ‘‘ (واضح رہے کہ سود کی حرمت کا حکم آنے سے پہلے حضرت عباس سود پر روپیہ چلاتے تھے اور ان کا بہت سا سود اس وقت لوگوں کے ذمے وصول طلب تھا )۔ ایک مرتبہ چوری کے جرم میں قریش کی ایک عورت فاطمہ نامی کا ہاتھ کاٹنے کا آپ نے حکم دیا۔ حضرت اسامہ بن زید نے اس کے حق میں سفارش کی۔ اس پر آپ نے فرمایا خدا کی قسم، اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔

136. اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ تمہارے رشتہ داروں میں سے جو لوگ ایمان لا کر تمہاری پیروی اختیار کریں ان کے ساتھ نرمی اور ملاطفت اور تواضع کا رویہ اختیار کرو، اور جو تمہاری بات نہ مانیں ان سے اعلان براءت کر دو۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ارشاد صرف ان رشتہ داروں سے متعلق نہ ہو جنہیں متنبہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا، بلکہ سب کے لیے عام ہو۔ یعنی جو بھی ایمان لا کر تمہارا اتباع کرے اس کے ساتھ تواضع برتو اور جو بھی تمہاری نا فرمانی کرے اس کو خبر دار کر دو کہ تیرے اعمال سے میں بری الذمّہ ہوں۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت قریش اور آس پاس کے اہل عرب میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت کے قائل ہو گئے تھے ، مگر انہوں نے عملاً آپ کی پیروی اختیار نہ کی تھی، بلکہ وہ بد ستور اپنی گمراہ سوسائٹی میں مل جل کر اسی طرح کی زندگی بس کر رہے تھے جیسی دوسرے کفار کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے ماننے والوں کو ان اہل ایمان سے الگ قرار دیا جنہوں نے حضورؐ کی صداقت تسلیم کرنے کے بعد آپ کا اتباع بھی اختیار کر لیا تھا۔ تواضع برتنے کا حکم صرف اسی مؤخر الذکر گروہ کے لیے تھا۔ باقی رہے وہ لوگ جو حضورؐ کی فرماں برداری سے منہ موڑے ہوئے تھے ، جن میں آپ کی صداقت کو ماننے والے بھی شامل تھے اور آپ کا انکار کر دینے والے بھی، ان کے متعلق حضورؐ کو ہدایت کی گئی کہ ان سے بے تعلقی کا اظہار کر دو اور صاف صاف کہہ دو کہ اپنے اعمال کا نتیجہ تم خود بھگتو گے ، تمہیں خبر دار کر دینے کے بعد اب مجھ پر تمہارے کسی فعل کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

137. یعنی دنیا کی کسی بڑی سے بڑی طاقت کی بھی پروا نہ کرو اور اس ذات کے بھروسے پر اپنا کام کیے چلے جاؤ جو زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔ اس کا زبردست ہونا اس بات کی ضمانت ہے کہ جس کی پشت پر اس کی تائید ہوا سے دنیا میں کوئی نیچا نہیں دکھا سکتا۔ اور اس کا رحیم ہونا اس اطمینان کے لیے کافی ہے کہ جو شخص اس کی خاطر اعلائے کلمۃ الحق کے کام میں جان لڑائے گا اس کی کوششوں کو وہ کبھی رائیگاں نہ جانے دے گا۔

138. اٹھنے سے مراد راتوں کو نماز کے لیے اُٹھنا بھی ہو سکتا ہے اور فریضۂ رسالت ادا کرنے کے لیے اٹھنا بھی۔

139. اس سے کئی مراد ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ جب نماز با جماعت میں اپنے مقتدیوں کے ساتھ اُٹھتے اور بیٹھتے اور رکوع و سجود کرتے ہیں اس وقت اللہ تعالیٰ آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ دوسرے جب راتوں کو اٹھ کر آپ اپنے ساتھیوں کو (جن کے لیے ’’ سجدہ گزار‘‘ کا لفظ امتیازی صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے ) دیکھتے پھرتے ہیں کہ وہ اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے کیا کچھ کر رہے ہیں ، اس وقت آپ اللہ کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہوتے۔ تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ اس تمام دوڑ دھوپ اور تگ و دو سے واقف ہے جو آپ اپنے سجدہ گزار ساتھیوں کی معیت میں اس کے بندوں کی اصلاح کے لیے کر رہے ہیں چوتھے یہ کہ سجدہ گزار لوگوں کے گروہ میں آپ کے تمام تصرفات اللہ کی نگاہ میں ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ آپ کس طرح ان کی تربیت کر رہے ہیں ،کیسا کچھ ان کا تزکیہ آپ نے کیا ہے اور کس طرح مس خام کو کندن بنا کر رکھ دیا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کرام کی ان صفات کا ذکر یہاں جس غرض کے لیے کیا گیا ہے اس کا تعلق اوپر کے مضمون سے بھی ہے اور آگے کے مضمون سے بھی۔ اوپر کے مضمون سے اس کا تعلق یہ ہے کہ آپ حقیقت میں اللہ کی رحمت اور اس کی زبردست تائید کے مستحق ہیں ، اس لیے کہ اللہ کوئی اندھا بہرا معبود نہیں ہے ، دیکھنے اور سننے والا فرمانروا ہے ، اس کی راہ میں آپ کی دوڑ دھوپ اور اپنے سجدہ گزار ساتھیوں میں آپ کی سرگرمیاں ، سب کچھ اس کی نگاہ میں ہیں۔ بعد کے مضمون سے اس کا تعلق یہ ہے کہ جس شخص کی زندگی یہ کچھ ہو جیسی کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ہے ، اور جس کے ساتھیوں کی صفات وہ کچھ ہوں جیسی کہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ہیں اس کے متعلق کوئی عقل کا اندھا ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس پر شیاطین اترتے ہیں یا وہ شاعر ہے۔ شیطان جن کاہنوں پر اترتے ہیں اور شعراء اور ان کے ساتھ لگے رہنے والوں کے جیسے کچھ رنگ ڈھنگ ہیں ، وہ آخر کس سے پوشیدہ ہیں۔ تمہارے اپنے معاشرے میں ایسے لوگ کثرت سے پائے ہی جاتے ہیں۔ کیا کوئی آنکھوں والا ایمانداری کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ اسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے اصحاب کی زندگی میں اور شاعروں اور کاہنوں کی زندگی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا؟ ا ب یہ کیسی ڈھٹائی ہے کہ ان خدا کے بندوں پر کھلم کھلا کہانت اور شاعری کی پھبتی کسی جاتی ہے اور کسی کو اس پر شرم بھی نہیں آتی۔

140. مراد ہیں کاہن، جوتشی، فال گیر، رمّال، اور ’’عامل‘‘ قسم کے لوگ جو غیب دانی کا ڈھونگ رچاتے پھرتے ہیں۔ گول مول لچھے دار باتیں بنا کر لوگوں کی قسمتیں بتاتے ہیں ، یا سیانے بن کر جنوں اور روحوں اور مؤکلوں کے ذریعہ سے لوگوں کی بگڑی بنانے کا کاروبار کرتے ہیں۔

141. اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ شیاطین کچھ سن گن لے کر اپنے اولیاء پر القاء کرتے ہیں اور اس میں تھوڑی سی حقیقت کے ساتھ بہت سا جھوٹ ملا دیتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جھوٹے لپاٹیے کاہن شیاطین سے کچھ باتیں سن لیتے ہیں اور پھر اپنی طرف سے بہت سا جھوٹ ملا کر لوگوں کے کانوں میں پھونکتے پھرتے ہیں۔ اس کی تشریح ایک حدیث میں بھی آئی ہے جو بخاری نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ بعض لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کاہنوں کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے فرمایا وہ کچھ نہیں ہیں۔ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ بعض اوقات تو وہ ٹھیک بات بتا دیتے ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا وہ ٹھیک بات جو ہوتی ہے اسے کبھی کبھار جن لے اڑتے ہیں اور جاکر اپنے دوست کے کان میں پھونک دیتے ہیں ، پھر وہ اس کے ساتھ جھوٹ کی بہت سی آمیزش کر کے ایک داستان بنا لیتا ہے۔

142. یعنی شاعروں کے ساتھ لگے رہنے والے لوگ اپنے اخلاق، عادات و خصائل اور اُفتادِ مزاج میں ان لوگوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تمہیں نظر آتے ہیں۔ دونوں گروہوں کا فرق ایسا کھلا ہوا فرق ہے کہ ایک نظر دیکھ کر ہی آدمی جان سکتا ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں اور وہ کیسے۔ ایک طرف انتہائی سنجیدگی، تہذیب، شرافت، راستبازی اور خدا ترسی ہے۔ بات بات میں ذمہ داری کا احساس ہے۔ برتاؤ میں لوگوں کے حقوق کا پاس و لحاظ ہے۔ معاملات میں کمال درجہ کی دیانت و امانت ہے اور زبان جب کھلتی ہے خیر ہی کے لیے کھلتی ہے ، شر کا کلمہ کبھی اس سے ادا نہیں ہوتا۔ سب سے زیادہ یہ کہ ان لوگوں کو دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے ، ایک بلند اور پاکیزہ نصب العین ہے جس کی دھن میں یہ رات دن لگے ہوئے ہیں اور ان کی ساری زندگی ایک مقصد عظیم کے لیے وقف ہے۔ دوسری طرف حال یہ ہے کہ کہیں عشق بازی اور شراب نوشی کے مضامین بیان ہو رہے ہیں اور حاضرین اچھل اچھل کر ان پر داد دے رہے ہیں۔ کہیں کسی زن بازاری یا کسی گھر کی بہو بیٹی کا حسن موضوع سخن ہے اور سننے والے اس پر مزے لے رہے ہیں۔ کہیں جنسی مواصلت کی حکایت بیان ہو رہی ہے اور پورے مجمع پر شہوانیت کا بھوت مسلط ہے۔ کہیں ہزل بکا جا رہا ہے یا مسخرہ پن کی باتیں ہو رہی ہیں اور مجمع میں ہر طرف ٹھٹھے لگ رہے ہیں۔ کہیں کسی کی ہجو اڑائی جا رہی ہے اور لوگ اس سے لطف لے رہے ہیں۔ کہیں کسی کی بے جا تعریف ہو رہی ہے اور اس پر تحسین و آفرین کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں۔ اور کہیں کسی کے خلاف نفرت، عداوت اور انتقام کے جذبات بھڑکائے جا رہے ہیں اور سننے والوں کے دلوں میں ان سے آگ سی لگی جاتی ہے۔ ان مجلسوں میں شاعروں کے کلام سننے کے لیے جو ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگتے ہیں ، اور بڑے بڑے شاعروں کے پیچھے جو لوگ لگے پھرتے ہیں ان کو دیکھ کر کوئی شخص یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ اخلاق کی بندشوں سے آزاد، جذبات و خواہشات کی رو میں بہنے والے ، اور لطف و لذت کے پرستار، نیم حیوان قسم کے لوگ ہیں جن کے ذہن کو کبھی یہ خیال چھو بھی نہیں گیا ہے کہ دنیا میں انسان کے لیے زندگی کا کوئی بلند تر مقصد و نصب العین بھی ہو سکتا ہے۔ ان دونوں گروہوں کا کھلا کھلا فرق و امتیاز اگر کسی کو نظر نہیں آتا تو وہ اندھا ہے ، اور اگر سب کچھ دیکھ کر بھی کوئی محض حق کو نیچا دکھانے کے لیے ایمان نگل کر یہ کہتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے گرد جمع ہونے والے اسی قبیل کے لوگ ہیں جیسے شعراء اور ان کے پیچھے لگے رہنے والے لوگ ہوتے ہیں ، تو وہ جھوٹ بولنے میں بے حیائی کی ساری حدیں پار کر گیا ہے۔

143. یعنی کوئی ایک متعین راہ نہیں ہے جس پر وہ سوچتے اور اپنی قوت گویائی صرف کرتے ہوں ، بلکہ ان کا تو سَنِ فکر ایک بے لگام گھوڑے کی طرح ہر وادی میں بھٹکتا پھرتا ہے اور جذبات یا خواہشات و اغراض کی ہر نئی رَو ان کی زبان سے ایک نیا مضمون ادا کراتی ہے جسے سوچنے اور بیان کرنے میں اس بات کا کوئی لحاظ سرے سے ہوتا ہی نہیں کہ یہ بات حق اور صدق بھی ہے۔ کبھی ایک لہر اٹھی تو حکمت و موعظت کی باتیں ہونے لگیں اور کبھی دوسری لہر آئی تو اسی زبان سے انتہائی گندے سفلی جذبات کا ترشح شروع ہو گیا۔ کبھی کسی سے خوش ہوئے تو اسے آسمان پر چڑھا دیا اور کبھی بگڑ بیٹھے تو اسی کو تحت الثریٰ میں جا گرایا۔ ایک بخیل کو حاتم اور ایک بزدل کو رستم و اسفندیار پر فضیلت دینے میں انہیں ذرا تامل نہیں ہوتا اگر اس سے کوئی غرض وابستہ ہو۔ اس کے برعکس کسی سے رنج پہنچ جائے تو اس کی پاک زندگی پر دھبہ لگانے اور اس کی عزت پر خاک پھینکنے میں ، بلکہ اس کے نسب پر طعن کرنے میں بھی ان کو شرم محسوس نہیں ہوتی۔ خدا پرستی اور دہریت، مادہ پرستی اور روحانیت، حسن اخلاق اور بد اخلاقی، پاکیزگی اور گندگی، سنجیدگی اور ہزل، قصیدہ اور ہجو سب کچھ ایک ہی شاعر کے کلام میں آپ کو پہلو بہ پہلو مل جائے گا۔ شعراء کی ان معروف خصوصیات سے جو شخص واقف ہو اس کے دماغ میں آخر یہ بے تکی بات کیسے اتر سکتی ہے کہ اس قرآن کے لانے والے پر شاعری کی تہمت رکھی جائے جس کی تقریر جچی تلی، جس کی بات دو ٹوک، جس کی راہ بالکل واضح اور متعین ہے اور جس نے حق اور راستی اور بھلائی کی دعوت سے ہٹ کر کبھی ایک کلمہ بھی زبان سے نہیں نکالا ہے۔

قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ آپ کے مزاج کو تو شاعری کے ساتھ سرے سے کوئی مناسبت ہی نہیں ہے : وَمَا عَلَّمْنَا ہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہٗ، (یٰسٓ۔آیت 69 ) ’’ہم نے اس کو شعر نہیں سکھایا ہے نہ یہ اس کے کرنے کا کام ہے ‘‘۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت تھی کہ جو لوگ بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ذاتی واقفیت رکھتے تھے وہ سب اسے جانتے تھے۔ معتبر روایات میں آیا ہے کہ کوئی شعر حضورؐ کو پورا یاد نہ تھا۔ دوران گفتگو میں کبھی کسی شاعر کا کوئی اچھا شعر زبان مبارک پر آتا بھی تو غیر موزوں پڑھ جاتے تھے ، یا اس میں الفاظ کا الٹ پھیر ہو جاتا تھا۔ حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ دوران تقریر میں آپ نے شاعر کا مصرعہ یوں نقل کیا :

کفی بالا سلام و الشیب اللمرء ناھیا

حضرت ابو بکرؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ اصل مصرع یوں ہے :

کفی الشیب والاسلام للمرء ناھیا

ایک مرتبہ عباس بن مرداس سُلَمی سے آپ نے پوچھا، کیا تم ہی نے یہ شعر کہا ہے :

اتجعل نھبی و نھب العبید و بین الاقرع و عیینہ

انہوں نے عرض کیا آخری فقرہ یوں نہیں ہے بلکہ یوں ہے بینا عُیَیْنَۃَ والاقرء۔ آپ نے فرمایا معنی میں تو دونوں یکساں ہیں۔

حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ حضورؐ کبھی اشعار بھی اپنی تقریروں میں استعمال فرماتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا شعر سے بڑھ کر آپ کو کسی چیز سے نفرت نہ تھی۔ البتہ کبھی کبھار بنی قیس کے شاعر کا یک شعر پڑھتے تھے مگر اول کو آخر اور آخر کو اول پڑھ جاتے تھے۔ حضرت ابو بکر عرض کرتے یا رسول اللہ یوں نہیں بلکہ یوں ہے ، تو آپ فرماتے کہ ’’ بھائی میں شاعر نہیں ہوں اور نہ شعر گوئی میرے کرنے کا کام ہے ‘‘ جس قسم کے مضامین سے عرب کی شاعری لبریز تھی وہ یا تو شہوانیت اور عشق بازی کے مضامین تھے ، یا شراب نوشی کے ، یا قبائلی منافرت اور جنگ و جدل کے ، یا نسلی فخر و غرور کے۔ نیکی اور بھلائی کی باتیں ان میں بہت ہی کم پائی جاتی تھیں۔ پھر جھوٹ، مبالغہ، بہتان، ہجو، بے جا تعریف، ڈینگیں ، طعن، پھبتیاں ، اور مشرکانہ خرافات تو اس شاعری کی رگ رگ میں پیوست تھیں۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رائے اس شاعری کے متعلق یہ تھی کہ : لان یمتلئ جوف احد کم قیحا خیر لہ من ان یمتلئ شعراً، ’’ تم میں سے کسی شخص کا خول پیپ سے بھر جانا اس سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھرے ‘‘۔ تا ہم جس شعر میں کوئی اچھی بات ہوتی تھی آپ اس کی داد بھی دیتے تھے اور آپ کا ارشاد تھا کہ : ان من الشعر لحکمۃ۔’’بعض اشعار حکیمانہ ہوتے ہیں ‘‘۔ امیہ بن ابی الصلْٰت کا کلام سن کر آپ نے فرمایا : اٰمن شعرہ و کفر قلبہ۔ ’’اس کا شعر مومن ہے مگر اس کا دل کافر ہے ‘‘۔ ایک مرتبہ ایک صحابی نے سو (100) کے قریب عمدہ عمدہ اشعار آپ کو سنائے اور آپ فرماتے گئے "ھیۃ" اور سناؤ‘‘۔

144. یہ شاعروں کی ایک اور خصوصیت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے طرز عمل کی عین ضد تھی۔ حضورؐ کے متعلق آپ کا ہر جاننے والا جانتا تھا کہ آپ جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں اور جو کرتے ہیں وہی کہتے ہیں۔ آپ کے قول اور فعل کی مطابقت ایسی صریح حقیقت تھی جس سے آپ کے گرد و پیش کے معاشرے میں کوئی انکار نہ کر سکتا تھا۔ اس کے برعکس شعراء کے متعلق کس کو معلوم نہ تھا کہ ان کے ہاں کہنے کی باتیں اور ہیں اور کرنے کی اور۔ سخاوت کا مضمون اس زور شور سے بیان کریں گے کہ آدمی سمجھے شاید ان سے بڑھ کر دریا دل کوئی نہ ہو گا۔ مگر عمل میں کوئی دیکھے تو معلوم ہو گا کہ سخت بخیل ہیں۔ بہادری کی باتیں کریں گے مگر خود بزدل ہوں گے۔ بے نیازی اور قناعت و خود داری کے مضامین باندھیں گے مگر خود حرص و طمع میں ذلت کی آخری حد کو پار کر جائیں گے۔ دوسروں کی ادنیٰ کمزوریوں پر گرفت کریں گے مگر خود بد ترین کمزوریوں میں مبتلا ہوں گے۔

145. یہاں شعراء کی اس عام مذمت سے جو اوپر بیان ہوئی، ان شعراء کو مستثنیٰ کیا گیا ہے جو چار خصوصیات کے حامل ہوں :

اول یہ کہ وہ مومن ہوں ، یعنی اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتابوں کو سچے دل سے مانتے ہوں اور آخرت پر یقین رکھتے ہوں۔

دوسرے یہ کہ اپنی عملی زندگی میں صالح ہوں ، بد کار اور فاسق و فاجر نہ ہوں ، اخلاق کی بندشوں سے آزاد ہو کر جھک نہ مارتے پھریں۔

تیسرے یہ کہ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہوں ، اپنے عام حالات اور اوقات میں بھی، اور اپنے کلام میں بھی۔ یہ نہ ہو کہ شخصی زندگی تو زہد و تقویٰ سے آراستہ ہے مگر کلام سراسر رندی و ہوسناکی سے لبریز۔ اور یہ بھی نہ ہو کہ شعر میں تو بڑی حکمت و معرفت کی باتیں بگھاری جا رہی ہیں مگر ذاتی زندگی کو دیکھیے تو یاد خدا کے سارے آثار سے خالی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں حالتیں یکساں مذموم ہیں۔ ایک پسندیدہ شاعر وہی ہے جس کی نجی زندگی بھی خدا کی یاد سے معمور ہو اور شاعرانہ قابلیتیں بھی اس راہ میں وقف رہیں جو خدا سے غافل لوگوں کی نہیں بلکہ خدا شناس، خدا دوست اور خدا پرست لوگوں کی راہ ہے۔

چوتھی صفت ان مستثنیٰ قسم کے شاعروں کی یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ شخصی اغراض کے لیے تو کسی کی ہجو نہ کریں ، نہ ذاتی یا نسلی و قومی عصبیتوں کی خاطر انتقام کی آگ بھڑکائیں ، مگر جب ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کے لیے ضرورت پیش آئے تو پھر زبان سے وہی کام لیں جو ایک مجاہد تیر و شمشیر سے لیتا ہے۔ ہر وقت گھگھیاتے ہی رہنا اور ظلم کے مقابلے میں نیاز مندانہ معروضات ہی پیش کرتے رہنا مومنوں کا شیوہ نہیں ہے۔ اسی کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ کفار و مشرکین کے شاعر اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف الزامات کا جو طوفان اٹھاتے اور نفرت و عداوت کا جو زہر پھیلاتے تھے اس کا جواب دینے کے لیے حضورؐ خود شعرائے اسلام کی ہمت افزائی فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ کعب بن مالکؓ سے آپ نے فرمایا : اھجھم فوالذی نفسی بیدہ لہوا شد علیہم من النبل، ’’ ان کی ہجو کہہ، کیونکہ اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، تمہارا شعر ان کے حق میں تیر سے زیادہ تیز ہے ‘‘۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا اھجھم وجبریل معک، اور قلو روح القدس معک، ’’ ان کی خبر لو اور جبریل تمہارے ساتھ ہے ‘‘۔ ’’کہو اور روح القدس تمہارے ساتھ ہے ‘‘ آپ کا ارشاد تھا کہ : ان المؤمن یجاھد بسیفہٖ و لسانہٖ۔ ’’مومن تلوار سے بھی لڑتا ہے اور زبان سے بھی‘‘۔

146. ظلم کرنے والوں سے مراد یہاں وہ لوگ ہیں جو حق کو نیچا دکھانے کے لیے سراسر ہٹ دھرمی کی راہ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر شاعری اور کہانت اور ساحری اور جنون کی تہمتیں لگاتے پھرتے تھے تاکہ نا واقف لوگ آپ کی دعوت سے بد گمان ہوں اور آپ کی تعلیم کی طرف توجہ نہ دیں۔