29. دونوں معجزوں کی عظمت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ یا تو ایک لمحہ پہلے وہ اپنی رعیت کے ایک فرد کو بر سر دربار رسالت کی باتیں اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ کرتے دیکھ کر پاگل قرار دے رہا تھا (کیونکہ اس کے نزدیک ایک غلام قوم کے فرد کا اس جیسے با جبروت بادشاہ کے حضور ایسی جسارت کرنا پاگل پن کے سوا اور کچھ نہ ہو سکتا تھا) اور اسے دھمکی دے رہا تھا کہ اگر تو نے میرے سوا کسی کو معبود مانا تو جیل میں سڑا سڑا کر مار دوں گا، یا اب ان نشانیوں کو دیکھتے ہی اس پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ اسے اپنی بادشاہی اور اپنا ملک چھننے کا خطرہ لاحق ہو گیا اور بد حواسی میں اسے یہ بھی احساس نہ رہا کہ میں بھرے دربار میں اپنے نوکروں کے سامنے کیسی بے تکی باتیں کر رہا ہوں۔ بنی اسرائیل جیسی دبی ہوئی قوم کے دو افراد وقت کے سب سے بڑے طاقت ور بادشاہ کے سامنے کھڑے تھے۔ کوئی لاؤ لشکر ان کے ساتھ نہ تھا۔ کوئی جان ان کی قوم میں نہ تھی۔ کسی بغاوت کا نام و نشان تک ملک کے کسی گوشے میں نہ تھا۔ ملک سے باہر کسی دوسری حکومت کی طاقت بھی ان کی پشت پر نہ تھی۔ اس حالت میں صرف ایک لاٹھی کا اژدہا بنتے دیکھ کر اور ایک ہاتھ کو چمکتے دیکھ کر یکایک اس کا چیخ اٹھنا کہ یہ دو بے سرو سامان آدمی میری سلطنت کا تختہ الٹ دیں گے اور پورے حکمران طبقے کو اقتدار سے بے دخل کر دیں گے ، آخر کیا معنی رکھتا ہے ؟ اس کا یہ کہنا کہ یہ شخص جادو کے زور سے ایسا کر ڈالے گا، مزید بد حواسی کی دلیل ہے۔ جادو کے زور سے دنیا میں کبھی کوئی سیاسی انقلاب نہیں ہوا، کوئی ملک فتح نہیں ہوا، کوئی جنگ نہیں جیتی گئی۔ جادو گر تو اس کے اپنے ملک میں موجود تھے اور بڑے بڑے کرشمے دکھا سکتے تھے۔ مگر وہ خود جانتا تھا کہ تماشا کر کے انعام لینے سے بڑھ کر ان کی کوئی اوقات نہیں ہے۔ سلطنت تو کجا، وہ بیچارے تو سلطنت کے کسی پولس کانسٹیبل کو بھی چیلنج کرنے کی ہمت نہ کر سکتے تھے۔
30. یہ فقرہ فرعون کی مزید بدحواسی کو ظاہر کرتا ہے۔ کہاں تو وہ الٰہ بنا ہوا تھا اور یہ سب اس کے بندے تھے۔ کہاں اب الٰہ صاحب مارے خوف کے بندوں سے پوچھ رہے ہیں کہ تمہارا حکم کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں گویا وہ یہ کہہ رہا تھا کہ میری عقل تو اب کچھ کام نہیں کرتی، تم بتاؤ کہ اس خطرے کا مقابلہ میں کیسے کروں۔
31. سور طٰہٰ میں گزر چکا ہے کہ اس مقابلے کے لیے قبطیوں کی قومی عید کا دن (یوم الزینۃ) مقرر کیا گیا تھا تاکہ ملک کے گوشے گوشے سے میلوں ٹھیلوں کی خاطر آنے والے سب لوگ یہ عظیم الشان ’’ دنگل‘‘ دیکھنے کے لیے جمع ہو جائیں ، اور اس کے لیے وقت بھی دن چڑھے کا طے ہوا تھا تا کہ روز روشن میں سب کی آنکھوں کے سامنے فریقین کی طاقت کا مظاہرہ ہو اور روشنی کی کمی کے باعث کوئی شک و شبہہ پیدا ہونے کی گنجائش نہ رہے۔
32. یعنی صرف اعلان و اشتہار ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ آدمی اس غرض کے لیے چھوڑے گئے کہ لوگوں کو اکسا اُکسا کر یہ مقابلہ دیکھنے کے لیے لائیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھرے دربار میں جو معجزات حضرت موسیٰ نے دکھائے تھے ان کی خبر عام لوگوں میں پھیل چکی تھی اور فرعون کو یہ اندیشہ ہو گیا تھا کہ اس سے ملک کے باشندے متاثر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس لیے اس نے چاہا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ جمع ہوں اور خود دیکھ لیں کہ لاٹھی کا سانپ بن جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے ، ہمارے ملک کا ہر جادوگر یہ کمال دکھا سکتا ہے۔
33. یہ فقرہ اس خیال کی تصدیق کرتا ہے کہ جن حاضرین دربار نے حضرت موسیٰ کا معجزہ دیکھا تھا اور باہر جن لوگوں تک اس کی معتبر خبریں پہنچی تھیں ان کے عقیدے اپنے دین آبائی پر سے متزلزل ہوئے جا رہے تھے ، اور اب ان کے دین کا دارو مدار بس اس پر رہ گیا تھا کہ کسی طرح جادو گر بھی وہ کام کر دکھائیں جو موسیٰ علیہ السلام نے کیا ہے۔ فرعون اور اس کے اعیان سلطنت اسے خود ایک فیصلہ کن مقابلہ سمجھ رہے تھے۔ ان کے اپنے بھیجے ہوئے آدمی عوام الناس کے ذہن میں یہ بات بٹھاتے پھرتے تھے کہ اگر جادو گر کامیاب ہو گئے تو ہم موسیٰ کے دین میں جانے سے بچ جائیں گے ورنہ ہمارے دین و ایمان کی خیر نہیں ہے۔
34. یہ تھے وہ حامیان دین مشرکین جو موسیٰ علیہ السلام کے حملے سے اپنے دین کو بچانے کے لیے اس فیصلہ کن مقابلے کے وقت ان پاکیزہ جذبات کے ساتھ آئے تھے کہ ہم نے پالا مار لیا تو سرکار سے کچھ انعام مل جائے گا۔
35. اور یہ تھا وہ بڑے سے بڑا اجر جو ان خادمان دین و ملت کو بادشاہ وقت کے ہاں سے مل سکتا تھا۔ یعنی روپیہ پیسہ ہی نہیں ملے گا، دربار میں کرسی بھی نصیب ہو جائے گی۔ اس طرح فرعون اور اس کے ساحروں نے پہلے ہی مرحلے پر نبی اور جادو گر کا عظیم اخلاقی فرق خود کھول کر رکھ دیا۔ ایک طرف وہ حوصلہ تھا کہ بنی اسرائیل جیسی پسی ہوئی قوم کا ایک فرد دس سال تک قتل کے الزام میں رو پوش رہنے کے بعد فرعون کے دربار میں درّانہ آ کھڑا ہوتا ہے اور دھڑلّے کے ساتھ کہتا ہے کہ میں اللہ رب العالمین کا بھیجا ہوا ہوں ، بنی اسرائیل کو میرے حوالے کر۔ فرعون سے دو بدو بحث کرنے میں ادنیٰ سی جھجک بھی محسوس نہیں کرتا۔ اس کی دھمکیوں کو وہ پر کاہ کے برابر بھی وقعت نہیں دیتا۔ دوسری طرف یہ کم حوصلگی ہے کہ اسی فرعون کے ہاں باپ دادا کے دین کو بچانے کی خدمت پر بلائے جا رہے ہیں ، پھر بھی ہاتھ جوڑ کر کہتے ہیں کہ سرکار، کچھ انعام تو مل جائے گا نا؟ اور جواب میں یہ سن کر پھولے نہیں سماتے کہ پیسہ بھی ملے گا اور قرب شاہی سے بھی سرفراز کیے جائیں گے۔ یہ دو مقابل کے کردار آپ سے آپ ظاہر کر رہے تھے کہ نبی کس شان کا انسان ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں جادوگروں کی کیا ہستی ہوتی ہے۔ جب تک کوئی شخص بے حیائی کی ساری حدوں کو نہ پھاند جائے ، وہ نبی کو جادو گر کہنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔
36. یہاں یہ ذکر چھوڑ دیا ہے کہ حضرت موسیٰ کی زبان سے یہ فقرہ سنتے ہی جب جادو گروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں تو یکایک وہ بہت سے سانپوں کی شکل میں حضرت موسیٰ کی طرف لپکتی نظر آئیں۔ اس کی تفصیل قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بیان ہو چکی ہے۔ سورہ اعراف میں ہے : فَلَمَّآ اَلْقَوْ ا سَحَرُوْ ا اَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْھَبُوْھُمْ وَجَآ ءُ وْ ا بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ، ’’ جب انہوں نے اپنے اَنچھر پھینکے تو لوگوں کی آنکھوں کو مسحور کر دیا، سب کو دہشت زدہ کر کے رکھ دیا،اور بڑا بھاری جادو بنا لائے ‘‘۔ سورہ طٰہٰ میں اس وقت کا نقشہ یہ کھینچا گیا ہے کہ :فَاِذا حِبَا لُھُمْ وَعِصِیُّھُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعیٰ ہ فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْ سیٰ O ’’یکایک ان کے سحر سے حضرت موسیٰ کو یوں محسوس ہوا کہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں دوڑی چلی آ رہی ہیں ، اس سے موسیٰؑ اپنے دل میں ڈر سے گئے ‘‘۔
37. یہ حضرت موسیٰ کے مقابلے میں انکی طرف سے محض شکست کا اعتراف نہیں تھا کہ کوئی شخص یہ کہہ کر پیچھا چھڑا لیتا کہ ایک بڑے جادوگر نے چھوٹے جادو گروں کو نیچا دکھا دیا، بلکہ ان کا سجدے میں گر کر اللہ رب العالمین پر ایمان لے آنا گویا بر سر عام ہزارہا باشندگان مصر کے سامنے اس بات کا و اعلان تھا کہ موسیٰ جو کچھ لائے ہیں یہ ہمارے فن کی چیز ہی نہیں ہے ، یہ کام تو صرف اللہ رب العالمین ہی کی قدرت سے ہو سکتا ہے۔
38. یہاں چونکہ سلسلہ کلام کی مناسبت سے صرف یہ دکھانا ہے کہ ایک ضدی اور ہٹ دھرم آدمی کس طرح ایک صریح معجزہ دیکھ کر، اور اس کے معجزہ ہونے پر خود جادو گروں کی شہادت سن کر بھی اسے جادو کہے جاتا ہے ،اس لیے فرعون کا صرف اتنا ہی فقرہ نقل کر نے پر اکتفا کیا گیا ہے ، لیکن سورہ اعراف میں تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ فرعون نے بازی ہرتی دیکھ کر فوراً ہی ایک سیاسی سازش کا افسانہ گھڑ لیا۔ اس نے کہا :اِنَّ ھٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْ تُمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ لِتُخْرِ جُوْ ا مِنْھَآ اَھْلَھَا ’’ یہ ایک سازش ہے جو تم لوگوں نے مل کر اس دارالسلطنت میں تیار کی ہے تا کہ اس کے مالکوں کو اقتدار سے بے دخل کر دو‘‘۔ اس طرح فرعون نے عام الناس کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ جادو گروں کا یہ ایمان معجزے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ محض ملی بھگت ہے ، یہاں آنے سے پہلے ان کے اور موسیٰ کے درمیان معاملہ طے ہو گیا تھا کہ یوں وہ موسیٰ کے مقابلے میں آ کر شکست کھائیں گے ، اور نتیجے میں جو سیاسی انقلاب ہو گا اس کے مزے وہ اور یہ مل کر لوٹیں گے۔
39. یہ خوفناک دھمکی فرعون نے اپنے اس نظریے کو کامیاب کرنے کے لیے دی تھی کہ جادو گر در اصل موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ سازش کر کے آئے ہیں۔ اس کے پیش نظر یہ تھا کہ اس طرح یہ لوگ جان بچانے کے لیے سازش کا اعتراف کر لیں گے اور وہ ڈرامائی اثر کافور ہو جائے گا جو شکست کھاتے ہی ان کے سجدے میں گر کر ایمان لے آنے سے ان ہزارہا ناظرین پر مترتب ہوا تھا جو خود اس کی دعوت پر یہ فیصلہ کن مقابلہ دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے اور جنہیں خود اس کے بھیجے ہوئے لوگوں نے یہ خیال دلایا تھا کہ مصری قوم کا دین و ایمان بس ان جادو گروں کے سہارے لٹک رہا ہے ، یہ کامیاب ہوں تو قوم اپنے دین آبائی پر قائم رہ سکے گی ورنہ موسیٰ کی دعوت کا سیلاب اسے اور اس کے ساتھ فرعون کی سلطنت کو بھی بہا لے جائے گا۔
40. یعنی ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا تو بہر حال ایک نہ ایک دن ضرور ہے۔ اب اگر تو قتل کر دے گا تو اس سے زیادہ کچھ نہ ہو گا کہ وہ دن جو کبھی آنا تھا، آج آ جائے گا۔ اس صورت میں ڈرنے کا کیا سوال؟ ہمیں تو الٹی مغفرت اور خطا بخشی کی امید ہے کیونکہ آج اس جگہ حقیقت کھلتے ہی ہم نے مان لینے میں ایک لمحے کی تاخیر بھی نہ کی اور اس پورے مجمع میں سب سے پہلے پیش قدمی کر کے ہم ایمان لے آئے۔
جادو گروں کے اس جواب نے دو باتیں تمام اس خلقت کے سامنے واضح کر دیں جسے فرعون نے ڈھنڈورے پیٹ پیٹ کر جمع کیا تھا۔
اول یہ کہ فرعون نہایت جھوٹا، ہٹ دھرم اور مکار ہے۔ جو مقابلہ اس نے خود فیصلے کے لیے کرایا تھا اس میں موسیٰ علیہ السلام کی کھلی کھلی فتح کو سیدھی طرح مان لینے کے بجائے اس نے فوراً ایک جھوٹی سازش کا افسانہ گھڑ لیا اور قتل و تعذیب کی دھمکی دے کر زبر دستی اس کا اقرار کرانے کی کوشش کی۔ اس افسانے میں ذرہ برابر بھی کوئی صداقت ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ جادو گر ہاتھ پاؤں کٹوانے اور سولی پر چڑھ جانے کے لیے یوں تیار ہو جاتے۔ ایسی کسی سازش سے اگر کوئی سلطنت مل جانے کا لالچ تھا تو اب اس کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، کیونکہ سلطنت کے مزے تو جو لوٹے گا سو لوٹے گا، ان غریبوں کے حصے میں تو صرف کٹ کٹ کر جان دینا ہی رہ گیا ہے۔ اس ہولناک خطرے کو انگیز کر کے بھی ان جادو گروں کا اپنے ایمان پا قائم رہنا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ سازش کا الزام سراسر جھوٹا ہے اور سچی بات یہی ہے کہ جادو گر اپنے فن میں ماہر ہونے کی وجہ سے ٹھیک ٹھیک جان گئے ہیں کہ جو کچھ موسیٰ علیہ السلام نے دکھایا ہے وہ ہر گز جادو نہیں ہے بلکہ واقعی اللہ رب العالمین ہی کی قدرت کا کرشمہ ہے۔
دوسری بات جو اس وقت ملک کے گوشے گوشے سے سمٹ کر آئے ہوئے ہزارہا آدمیوں کے سامنے کھل کر آ گئی وہ یہ تھی کہ اللہ رب العالمین پر ایمان لاتے ہی ان جادوگروں میں کیسا زبردست اخلاقی انقلاب واقع ہو گیا۔ کہاں تو ان کی پستی ذہن و فکر کا یہ حال تھا کہ دین آبائی کی نصرت کے لیے آئے تھے اور فرعون کے آگے ہاتھ جوڑ جوڑ کر انعام مانگ رہے تھے ، اور کہاں اب آن کی آن میں ان کی بلندی ہمت و عزم اس درجے کو پہنچ گئی کہ وہی فرعون ان کی نگاہ میں ہیچ ہو گیا، اس کی بادشاہی کی ساری طاقت کو انہوں نے ٹھوکر مار دی اور اپنے ایمان کی خاطر وہ موت اور بد ترین جسمانی تعذیب تک برداشت کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ اس سے بڑھ کر مصریوں کے دین شرک کی تذلیل اور موسیٰ علیہ السلام کے لائے ہوئے دین حق کی مؤثر تبلیغ اس نازک نفسیاتی موقع پر شاید ہی کوئی اور ہو سکتی تھی۔