41. اوپر کے واقعات کے بعد ہجرت کا ذکر شروع ہو جانے سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اس کے بعد بس فوراً ہی حضرت موسیٰ کو بنی اسرائیل سمیت مصر سے نکل جانے کے احکام دے دیے گئے۔ در اصل یہاں کئی سال کی تاریخ بیچ میں چھوڑ دی گئی ہے جسے سورہ عراف رکوع 15۔16، اور سورہ یونس رکوع 9 میں بیان کیا جا چکا ہے ، اور جس کا ایک حصہ آگے سورہ مومن رکوع 2۔ 5 اور الزُّخرف رکوع 5 میں آ رہا ہے۔ یہاں چونکہ سلسلہ کلام کی مناسبت سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ جس فرعون نے صریح نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود یہ ہٹ دھرمی دکھائی تھی اس کا انجام آخر کار کیا ہوا۔ اور جس دعوت کی پشت پر اللہ تعالیٰ کی طاقت تھی وہ کس طرح کامیابی سے ہمکنار ہوئی، اس لیے فرعون اور حضرت موسیٰ کی کشمکش کے ابتدائی مرحلے کا ذکر کرنے کے بعد اب قصہ مختصر کر کے اس کا آخری منظر دکھایا جا رہا ہے۔
42. واضح رہے کہ بنی اسرائیل کی آبادی مصر میں کسی ایک جگہ مجتمع نہ تھی بلکہ ملک کے تمام شہروں اور بستیوں میں بٹی ہوئی تھی اور خصوصیت کے ساتھ منف (Memphis) سے رَعْمَسِیْس تک اس علاقے میں ان کی بڑی تعداد آباد تھی جسے جُشن کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا (ملاحظہ ہو ’’نقشہ خروج بنی اسرائیل‘‘، تفہیم القرآن جلد دوم، صفحہ 76)۔ لہٰذا حضرت موسیٰ کو جب حکم دیا گیا ہو گا کہ اب تمہیں بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکل جانا ہے تو انہوں نے بنی اسرائیل کی تمام بستیوں میں ہدایات بھیج دی ہوں گی کہ سب لوگ اپنی اپنی جگہ ہجرت کے لیے تیار ہو جائیں ، اور ایک خاص رات مقرر کر دی ہو گی کہ اس رات ہر بستی کے مہاجرین نکل کھڑے ہوں۔ یہ ارشاد کہ ’’ تمہارا پیچھا کیا جائے گا‘‘ اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہجرت کے لیے رات کو نکلنے کی ہدایت کیوں کی گئی تھی۔ یعنی قبل اس کے کہ فرعون لشکر لے کر تمہارے تعاقب میں نکلے تم راتوں رات اپنا راستہ اس حد تک طے کر لو کہ اس سے بہت آگے نکل چکے ہو۔
43. یہ باتیں فرعون کی اس چھپی ہوئی خوف زدگی کو ظاہر کرتی ہیں جس پر وہ بے خوفی کا نمائشی پردہ ڈل رہا تھا۔ ایک طرف وہ جگہ جگہ سے فوجیں بھی فوری امداد کے لیے بلا رہا تھا جو اس بات کی کھلی علامت تھی کہ اسے بنی اسرائیل سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ دوسری طرف وہ اس بات کی چھپانا بھی چاہتا تھا کہ مدت ہائے دراز کی دبی اور پسی ہوئی قوم، جو انتہائی ذلت کی غلامی میں زندگی بسر کر رہی تھی، اس سے فرعون جیسا قاہر فرماں روا کوئی خطرہ محسوس کر رہا ہے حتّیٰ کہ اسے فوری امداد کے لیے فوجیں طلب کرنے کی ضرورت پیش آ گئی ہے۔ اس لیے وہ اپنا پیغام اس انداز میں بھجتا ہے کہ یہ بنی اسرائل بیچارے چیز ہی کیا ہیں ، کچھ مٹھی بھر لوگ ہیں جو ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے ، لیکن انہوں نے ایسی حرکتیں کی ہیں کہ ہمیں ان پر غصہ آ گیا ہے اس لیے ہم انہیں سزا دینا چاہتے ہیں ، اور فوجیں ہم کسی خوف کی وجہ سے جمع نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ صرف ایک احتیاطی کار روائی ہے ، ہماری دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ کوئی بعید سے بعید بھی امکانی خطرہ ہو تو ہم بر وقت اس کی سر کوبی کرنے کے لیے تیار رہیں۔
44. یعنی فرعون نے تو یہ کام اپنے نزدیک بڑی عقلمندی کا کیا تھا کہ دور دور سے فوجیں طلب کر کے بنی اسرائیل کو دنیا سے مٹا دینے کا سامان کیا، لیکن خدائی تدبیر نے اس کی چال اس پر یوں الٹ دی کہ دولت فرعونیہ کے بڑے بڑے ستون اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر اس جگہ جا پہنچے جہاں انہیں اور ان کے سارے لاؤ لشکر کو ایک ساتھ غرق ہونا تھا۔ اگر وہ بنی اسرائیل کا پیچھا نہ کر تے تو نتیجہ صرف اتنا ہی ہوتا کہ ایک قوم ملک چھوڑ کر نکل جاتی۔ اس سے بڑھ کر ان کا کوئی نقصان نہ ہوتا اور وہ حسب سابق اپنے عیش کدوں میں بیٹھے زندگی کے مزے لوٹتے رہتے۔ لیکن انہوں نے کمال درجہ کی ہوشیاری دکھانے کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ بنی اسرائیل کو بخیریت نہ گزر جانے دیں بلکہ ان کے مہاجر قافلوں پر یک بارگی حملہ کر کے ہمیشہ کے لیے ان کا قلع قمع کر دیں۔ اس غرض کے لیے ان کے شہزادے اور بڑے بڑے سردار اور اعیان سلطنت خود بادشاہ ذی جاہ سمیت اپنے محلوں سے نکل آئے ، اور اسی دانائی نے یہ دوہرا نتیجہ دکھایا کہ بنی اسرائیل مصر سے نکل بھی گئے اور مصر کی ظالم فرعونی سلطنت کا مکھن نذر دریا بھی ہو گیا۔
45. بعض مفسرین نے اس آیت کا یہ مطلب لیا ہے کہ جن باغوں ، چشموں ، خزانوں اور بہترین قیام گاہوں سے یہ ظالم لوگ نکلے تھے ان ہی کا وارث اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو کر دیا۔ یہ مطلب اگر لیا جائے تو اس کے معنی لازماً یہ ہونے چاہییں کہ فرعون کے غرق ہو جانے پر بنی اسرائیل پھر مصر واپس پہنچ گئے ہوں اور آل فرعون کی دولت و حشمت ان کے قبضے میں آ گئی ہو۔ لیکن یہ چیز تاریخ سے بھی ثابت نہیں ہے اور خود قرآن مجید کی دوسری تصریحات سے بھی اس آیت کا یہ مفہوم مطابقت نہیں رکھتا۔ سورہ بقرہ، سورہ مائدہ، سورہ اعراف اور سورہ طٰہٰ میں جو حالات بیان کیے گئے ہیں ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل مصر کی طرف پلٹنے کے بجائے اپنی منزل مقصود (فلسطین) ہی کی طرف آگے روانہ ہو گئے اور پھر حضرت داؤد کے زمانے (1013، 973 ق م ) تک ان کی تاریخ میں جو واقعات بھی پیش آئے وہ سب اس علاقے میں پیش آئے جو آج جزیرہ نمائے سینا، شمالی عرب، شرق اُردُن اور فلسطین کے ناموں سے موسوم ہے۔ اس لیے ہمارے نزدیک آیت کا صحیح مفہوم یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہی باغ اور چشمے اور خزانے اور محلات بنی اسرائیل کو بخش دیے جن سے فرعون اور اس کی قوم کے سردار اور امراء نکالے گئے تھے ، بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف آل فرعون کو ان نعمتوں سے محروم کیا اور دوسری طرف بنی اسرائیل کو یہی نعمتیں عطا فرما دیں ، یعنی وہ فلسطین کی سر زمین میں باغوں ، چشموں ، خزانوں اور عمدہ قیام گاہوں کے مالک ہوئے۔ اسی مفہوم کی تائید سورہ اعراف کی یہ آیت کرتی ہے : فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَاَغْرَقْنٰھُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّہُمْ کَذَّ بُوْ ا بِایٰٰتِنَا وَکَانُوْ ا عَنْھَا غٰفِلِیْنَ ہ وَاَ وْرَثْنَا الْقَوْمَ ا لَّذِیْنَ کَا نُوْ ا یَسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَھَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا، (آیات 136۔ 137)۔ ’’ تب ہم نے ان سے انتقام لیا اور انہیں سمندر میں غرق کر دیا کیونکہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور ان سے بے پروا ہو گئے تھے۔ اور ان کے بجائے ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے اس ملک کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا‘‘۔ یہ برکتوں سے مالا مال سر زمین کا استعارہ قرآن مجید میں عموماً فلسطین ہی کے لیے استعمال ہوا ہے اور کسی علاقے کا نام لیے بغیر جب اس کی یہ صفت بیان کی جاتی ہے تو اس سے یہی علاقہ مراد ہوتا ہے۔ مثلاً سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ۔ اور سورہ انبیاء میں ارشاد ہوا : وَنَجَّیْنٰہُ وَلُوْطاً اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْھَا لِلْعٰلَمِیْنَ ہ اور وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَصِفَۃً تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ اِلَی الْاَ رْضِ الَّتِیْ بٰرَ کْنَا فِیْھَا۔ اسی طرح سورہ سبا میں بھی اَرلْقُرَی الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا کے الفاظ سرزمین شام و فلسطین ہی کی بستیوں کے متعلق استعمال ہوئے ہیں۔
46. یعنی مجھے اس آفت سے بچنے کی راہ بتائے گا۔
47. اصل الفاظ ہیں کَا لطَّوْدِ الْعَظِیْمِ۔ طود عربی زبان میں کہتے ہی بڑے پہاڑ کو ہیں۔ لسان العرب میں ہے الطود، الجبل العظیم۔ اس کے لیے پھر عظیم کی صفت لانے کے معنی یہ ہوئے کہ پانی دونوں طرف بہت اونچے پہاڑوں کی طرح کھڑا ہو گیا تھا۔ پھر جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ سمندر حضرت موسیٰ کے عصا مارنے سے پھٹا تھا، اور یہ کام ایک طرف بنی اسرائیل کے پورے قافلے کو گزارنے کے لیے کیا گیا تھا اور دوسری طرف اس سے مقصود فرعون کے لشکر کو غرق کرنا تھا، تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عصا کی ضرب لگنے پر پانی نہایت بلند پہاڑوں کی شکل میں کھڑا ہو گیا اور اتنی دیر تک کھڑا رہا کہ ہزاروں لاکھوں بنی اسرائیل کا مہاجر قافلہ اس میں سے گزر بھی گیا اور پھر فرعون کا پورا لشکر ان کے درمیان پہنچ بھی گیا۔ ظاہر ہے کہ عام قانون فطرت کے تحت جو طوفانی ہوائیں چلتی ہیں وہ خواہ کیسی ہی تند و تیز ہوں ، ان کے اثر سے کبھی سمندر کا پانی اس طرح عالی شان پہاڑوں کی طرح اتنی دیر تک کھڑا نہیں رہا کرتا۔ اس پر مزید سورہ طٰہٰ کا یہ بیان ہے کہ : فَا ضْرِبْ لَہُمْ طَرِیْقاً فِی الْبَحْرِ یَبَساً، ’’ ان کے لیے سمندر میں سوکھا راستہ بنا دے ‘‘۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سمندر پر عصا مارنے سے صرف اتنا ہی نہیں ہوا کہ سمندر کا پانی ہٹ کر دونوں طرف پہاڑوں کی طرح کھڑا ہو گیا، بلکہ بیچ میں جو راستہ نکلا وہ خشک بھی ہو گیا، کوئی کیچڑ ایسی نہ رہی جو چلنے میں مانع ہوتی۔ اس کے ساتھ سورہ دُخان آیت 24 کے یہ الفاظ بھی قابل غور ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو ہدایت فرمائی کہ سمندر پار کر لینے کے بعد ’’ اس کو اسی حال پر رہنے دے ، لشکر فرعون یہاں غرق ہونے والا ہے ‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ اگر دوسرے ساحل پر پہنچ کر سمندر پر عصا مار دیتے تو دونوں طرف کھڑا ہوا پانی پھر مل جاتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا تا کہ لشکر فرعون اس راستے میں اتر آئے اور پھر پانی دونوں طرف سے آ کر اسے غرق کر دے۔ یہ صریحاً ایک معجزے کا بیان ہے اور اس سے ان لوگوں کے خیال کی غلطی بالکل واضح ہو جاتی ہے جو اس واقعے کی تعبیر عام قوانین فطرت کے تحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، طٰہٰ، حاشیہ 53 )۔
48. یعنی فرعون اور اس کے لشکر کو۔
49. یعنی قریش کے لیے اس میں یہ سبق ہے کہ ہٹ دھرم لوگ کھلے کھلے معجزات دیکھ کر بھی کس طرح ایمان لانے سے انکار ہی کیے جاتے ہیں اور پھر اس ہٹ دھرمی کا انجام کیسا درد ناک ہوتا ہے۔ فرعون اور اس کی قوم کے تمام سرداروں اور ہزارہا لشکر یوں کی آنکھوں پر ایسی پٹی بندھی ہوئی تھی کہ سالہا سال تک جو نشانیاں ان کو دکھائی جاتی رہیں ان کو تو وہ نظر انداز کرتے ہی رہے تھے ، آخر میں عین غرق ہونے کے وقت بھی ان کو یہ نہ سوجھا کہ سمندر اس قافلے کے لیے پھٹ گیا ہے ، پانی پہاڑوں کی طرح دونوں طرف کھڑا ہے اور بیچ میں سوکھی سڑک سی بنی ہوئی ہے۔ یہ صریح علامتیں دیکھ کر بھی ان کو عقل نہ آئی کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ خدائی طاقت کام کر رہی ہے اور وہ اس طاقت سے لڑنے جا رہے ہیں۔ ہوش ان کو آیا بھی تو اس وقت جب پانی نے دونوں طرف سے ان کو دبوچ لیا تھا اور وہ خدا کے غضب میں گھر چکے تھے۔ اس وقت فرعون چیخ اٹھا کہ : اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْٓ اِسْرَآءِیْلَ وَ اَنَا مِنَالْمُسْلِمِیْنَ O (یونس۔ آیت 90)۔
دوسری طرف اہل ایمان کے لیے بھی اس میں یہ نشانی ہے کہ ظلم اور اس کی طاقتیں خواہ بظاہر کیسی ہی چھائی ہوئی نظر آتی ہوں ، آخر کار اللہ تعالیٰ کی مدد سے حق کا یوں بول بالا ہوتا ہے اور باطل اس طرح سرنگوں ہو کر رہتا ہے۔