Tafheem ul Quran

Surah 26 Ash-Shu'ara, Ayat 69-104

وَاتۡلُ عَلَيۡهِمۡ نَبَاَ اِبۡرٰهِيۡمَ​ۘ‏ ﴿26:69﴾ اِذۡ قَالَ لِاَبِيۡهِ وَقَوۡمِهٖ مَا تَعۡبُدُوۡنَ‏ ﴿26:70﴾ قَالُوۡا نَـعۡبُدُ اَصۡنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عٰكِفِيۡنَ‏ ﴿26:71﴾ قَالَ هَلۡ يَسۡمَعُوۡنَكُمۡ اِذۡ تَدۡعُوۡنَۙ‏ ﴿26:72﴾ اَوۡ يَنۡفَعُوۡنَكُمۡ اَوۡ يَضُرُّوۡنَ‏ ﴿26:73﴾ قَالُوۡا بَلۡ وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا كَذٰلِكَ يَفۡعَلُوۡنَ‏ ﴿26:74﴾ قَالَ اَفَرَءَيۡتُمۡ مَّا كُنۡتُمۡ تَعۡبُدُوۡنَۙ‏ ﴿26:75﴾ اَنۡـتُمۡ وَاٰبَآؤُكُمُ الۡاَقۡدَمُوۡنَ ​ۖ ‏ ﴿26:76﴾ فَاِنَّهُمۡ عَدُوٌّ لِّىۡۤ اِلَّا رَبَّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ‏ ﴿26:77﴾ الَّذِىۡ خَلَقَنِىۡ فَهُوَ يَهۡدِيۡنِۙ‏ ﴿26:78﴾ وَ الَّذِىۡ هُوَ يُطۡعِمُنِىۡ وَيَسۡقِيۡنِۙ‏ ﴿26:79﴾ وَاِذَا مَرِضۡتُ فَهُوَ يَشۡفِيۡنِ ۙ‏ ﴿26:80﴾ وَالَّذِىۡ يُمِيۡتُنِىۡ ثُمَّ يُحۡيِيۡنِۙ‏ ﴿26:81﴾ وَالَّذِىۡۤ اَطۡمَعُ اَنۡ يَّغۡفِرَ لِىۡ خَطِٓیْـئَـتِىۡ يَوۡمَ الدِّيۡنِ ؕ‏ ﴿26:82﴾ رَبِّ هَبۡ لِىۡ حُكۡمًا وَّاَلۡحِقۡنِىۡ بِالصّٰلِحِيۡنَۙ‏ ﴿26:83﴾ وَاجۡعَلْ لِّىۡ لِسَانَ صِدۡقٍ فِى الۡاٰخِرِيۡنَۙ‏ ﴿26:84﴾ وَاجۡعَلۡنِىۡ مِنۡ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيۡمِۙ‏ ﴿26:85﴾ وَاغۡفِرۡ لِاَبِىۡۤ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّآلِّيۡنَۙ‏ ﴿26:86﴾ وَلَا تُخۡزِنِىۡ يَوۡمَ يُبۡعَثُوۡنَۙ‏ ﴿26:87﴾ يَوۡمَ لَا يَنۡفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوۡنَۙ‏ ﴿26:88﴾ اِلَّا مَنۡ اَتَى اللّٰهَ بِقَلۡبٍ سَلِيۡمٍؕ‏ ﴿26:89﴾ وَاُزۡلِفَتِ الۡجَـنَّةُ لِلۡمُتَّقِيۡنَۙ‏ ﴿26:90﴾ وَبُرِّزَتِ الۡجَحِيۡمُ لِلۡغٰوِيۡنَۙ‏ ﴿26:91﴾ وَقِيۡلَ لَهُمۡ اَيۡنَمَا كُنۡتُمۡ تَعۡبُدُوۡنَۙ‏ ﴿26:92﴾ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِؕ هَلۡ يَنۡصُرُوۡنَكُمۡ اَوۡ يَنۡتَصِرُوۡنَؕ‏ ﴿26:93﴾ فَكُبۡكِبُوۡا فِيۡهَا هُمۡ وَالۡغَاوٗنَۙ‏ ﴿26:94﴾ وَجُنُوۡدُ اِبۡلِيۡسَ اَجۡمَعُوۡنَؕ‏ ﴿26:95﴾ قَالُوۡا وَهُمۡ فِيۡهَا يَخۡتَصِمُوۡنَۙ‏ ﴿26:96﴾ تَاللّٰهِ اِنۡ كُنَّا لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍۙ‏ ﴿26:97﴾ اِذۡ نُسَوِّيۡكُمۡ بِرَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿26:98﴾ وَمَاۤ اَضَلَّنَاۤ اِلَّا الۡمُجۡرِمُوۡنَ‏ ﴿26:99﴾ فَمَا لَـنَا مِنۡ شٰفِعِيۡنَۙ‏ ﴿26:100﴾ وَلَا صَدِيۡقٍ حَمِيۡمٍ‏ ﴿26:101﴾ فَلَوۡ اَنَّ لَـنَا كَرَّةً فَنَكُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿26:102﴾ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيَةً​  ؕ وَّمَا كَانَ اَكۡثَرُهُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿26:103﴾ وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿26:104﴾

69 - اور اِنہیں ابراہیمؑ کا قصہ سُناوٴ 50 70 - جبکہ اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے پُوچھا تھا کہ ”یہ کیا چیزیں ہیں جن کو تم پُوجتے ہو؟“ 51 71 - انہوں نے جواب دیا ”کچھ بُت ہیں جن کی ہم پُوجا کرتے ہیں اور انہی کی سیوا میں ہم لگے رہتے ہیں۔“ 52 72 - اس نے پوچھا ”کیا یہ تمہاری سُنتے ہیں جب تم انہیں پکارتے ہو؟ 73 - یا یہ تمہیں کچھ نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں؟“ 74 - انہوں نے جواب دیا ”نہیں، بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا ہے۔“ 53 75 - اس پر ابراہیمؑ نے کہا ”کبھی تم نے (آنکھیں کھول کر)اُن چیزوں کو دیکھا بھی جن کی بندگی بجا لاتے رہے؟ 76 - تم اور تمہارے پچھلے باپ دادا 54 77 - میرے تو یہ سب دشمن ہیں 55 ، بجز ایک ربّ العالمین 56 کے، 78 - جس نے مجھے پیدا کیا 57 ، پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے۔ 79 - جو مجھے کھلاتا اور پِلاتا ہے 80 - اور جب بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ 58 81 - جو مجھے موت دے گا اور پھر دوبارہ مجھ کو زندگی بخشے گا۔ 82 - اور جس سے میں اُمید رکھتا ہوں کہ روزِ جزا میں وہ میری خطا معاف فرما دے گا۔“ 59 83 - (اِس کے بعد ابراہیمؑ نے دُعا کی) ”اے میرے ربّ، مجھے حکم عطا کر۔ 60 اور مجھ کو صالحوں کے ساتھ مِلا۔ 61 84 - اور بعد کے آنے والوں میں مجھ کو سچی ناموری عطا کر۔ 62 85 - اور مجھے جنّتِ نعیم کے وارثوں میں شامل فرما۔ 86 - اور میرے باپ کو معاف کر دے کہ بے شک وہ گمراہ لوگوں میں سے ہے 63 87 - اور مجھے اُس دن رُسوا نہ کر جبکہ سب لوگ زندہ کر کے اُٹھائے جائیں گے 64 88 - جبکہ نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد، 89 - بجز اس کے کہ کوئی شخص قلبِ سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو۔“ 65 90 - ۔۔۔۔(اُس روز 66 )جنّت پرہیز گاروں کے قریب لے آئی جائے گی۔ 91 - اور دوزخ بہکے ہوئے لوگوں کے سامنے کھول دی جائے گی 67 92 - اور ان سے پوچھا جائے گا کہ ”اب کہاں ہیں وہ جن کی تم عبادت کرتے تھے؟ 93 - خدا کو چھوڑ کر، کیا وہ تمہاری کچھ مدد کر رہے ہیں یا خود اپنا بچاوٴ کر سکتے ہیں؟“ 94 - پھر وہ معبُود اور یہ بہکے ہوئے لوگ اس میں اُوپر تلے دھکیل دیے جائیں گے۔، 95 - اور ابلیس کے لشکر سب کے سب 68 96 - وہاں یہ سب آپس میں جھگڑیں گے اور یہ بہکے ہوئے لوگ (اپنے معبُودوں سے)کہیں گے 97 - کہ ”خدا کی قسم، ہم تو صریح گمراہی میں مبتلا تھے 98 - جبکہ تم کو ربّ العالمین کی برابری کا درجہ دے رہے تھے ۔ 99 - اور وہ مجرم لوگ ہی تھے جنہوں نے ہم کو اس گمراہی میں ڈالا۔ 69 100 - اب نہ ہمارا کوئی سفارشی ہے 70 101 - اور نہ کوئی جگری دوست۔ 71 102 - کاش ہمیں ایک دفعہ پھر پلٹنے کا موقع مل جائے تو ہم مومن ہوں۔“ 72 103 - یقیناً اس میں ایک بڑی نشانی ہے 73 ، مگر ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ۔ 104 - اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا ربّ زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔ ؏ ۵


Notes

50. یہاں حضرت ابراہیمؑ کی حیات طیبہ کے اس دور کا قصہ بیان ہوا ہے جب کہ نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد شرک و توحید کے مسئلے پر آپ کی اپنے خاندان اور اپنی قوم سے کشمکش شروع ہوئی تھی۔ اس دور کی تاریخ کے مختلف گوشے قرآن مجید میں حسب ذیل مقامات پر بیان ہوئے ہیں : البقرہ رکوع 35۔ الانعام رکوع 9۔ مریم رکوع 3۔ الانبیاء رکوع 5۔ الصّٰفّٰت رکوع 3۔ الممتحنہ رکوع 1 )۔

سیرت ابراہیمی کے اس دور کی تاریخ خاص طور پر جس وجہ سے قرآن مجید بار بار سامنے لاتا ہے وہ یہ ہے کہ عرب کے لوگ بالعموم اور قریش بالخصوص اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا پیرو سمجھتے اور کہتے تھے اور یہ دعویٰ رکھتے تھے کہ ملت ابراہیمی ہی ان کا مذہب ہے۔ مشرکین عرب کے علاوہ نصاریٰ اور یہود کا بھی یہ دعویٰ تھا کہ حضرت ابراہیمؑ ان کے دین کے پیشوا ہیں۔ اس پر قرآن مجید جگہ جگہ ان لوگوں کو متنبہ کرتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام جو دین لے کر آئے تھے وہ یہی خالص اسلام تھا جسے نبی عربی محمد صلی اللہ علیہ و سلم لائے ہیں اور جس سے آج تم لوگ بر سر پیکار ہو۔ وہ مشرک نہ تھے بلکہ ان کی ساری لڑائی شرک ہی کے خلاف تھی اور اسی لڑائی کی بدولت انہیں اپنے باپ، خاندان، قوم، وطن سب کو چھوڑ کر شام و فلسطین اور حجاز میں غریب الوطنی کی زندگی بسر کرنی پڑی تھی۔ اسی طرح وہ یہودی و نصرانی بھی نہ تھے بلکہ یہودیت و نصرانیت تو ان کے صدیوں بعد وجود میں آئیں۔ اس تاریخی استدلال کا کوئی جواب نہ مشرکین کے پاس تھا نہ یہود و نصاریٰ کے پاس، کیونکہ مشرکین کو بھی یہ تسلیم تھا کہ عرب میں بتوں کی پرستش حضرت ابراہیمؑ کے کئی صدی بعد شروع ہوئی تھی، اور یہود و نصاریٰ بھی اس سے انکار نہ کر سکتے تھے کہ حضرت ابراہیمؑ کا زمانہ یہودیت اور عیسائیت کی پیدائش سے بہت پہلے تھا۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ جن مخصوص عقائد اور اعمال پر یہ لوگ اپنے دین کا مدار رکھتے ہیں وہ اس دین قدیم کے اجزاء نہیں ہیں جو ابتدا سے چلا آ رہا تھا، اور صحیح دین وہی ہے جو ان آمیزشوں سے پاک ہو کر خالص خدا پرستی پر مبنی ہو۔ اسی بنیاد پر قرآن کہتا ہے :

مَا کَانَاِبْرَاھِیْمُ یَھُوْدِیاً وَّ لَا نَصْرَا نِیاً وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفاً مُّسْلِماً وَّ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ہ اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰھِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَھٰذَ ا النَّبِیُّ وَا لَّذِیْنَ اٰمِنُوْ ا مَعَہٗ۔ (آل عمران۔ آیات 67۔ 68 )۔

ابراہیم نہ یہودی تھا نہ عیسائی بلکہ وہ تو ایک مسلم یکسو تھا۔ اور وہ مشرکوں میں سے بھی نہ تھا۔ در حقیقت ابراہیمؑ سے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق ان ہی لوگوں کو پہنچتا ہے جنہوں نے اس کے طریقے کی پیروی کی (اور اب یہ حق) اس نبی اور اس کے ساتھ ایمان لانے والوں کو (پہنچتا ہے )۔

51. حضرت ابراہیمؑ کے اس سوال کا مدعا یہ معلوم کرنا نہ تھا کہ وہ کن چیزوں کی عبادت کرتے ہیں ، کیونکہ ان بتوں کو تو وہ خود بھی دیکھ رہے تھے جن کی پرستش وہاں ہوتی تھی۔ ان کا مدعا دراصل ان لوگوں کو اس طرف متوجہ کرنا تھا کہ ان معبودوں کی حقیقت کی ہے جن کے آگے وہ سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اسی سوال کو سورہ انبیاء میں بایں الفاظ نقل کیا گیا ہے۔

’’یہ کیسی مورتیں ہیں جن کے تم گرویدہ ہو رہے ہو‘‘؟

52. یہ جواب بھی محض یہ خبر دینے کے لیے نہ تھا کہ ہم بتوں کی پوجا کرتے ہیں ، کیونکہ سائل و مسئول دونوں کے سامنے یہ امر واقعہ عیاں تھا۔ اس جواب کی اصل روح اپنے عقیدے پر ان کا ثبات اور اطمینان تھا۔ گویا دراصل وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہاں ، ہم بھی جانتے ہیں کہ یہ لکڑی اور پتھر کے بت ہیں جن کی ہم پوجا کر رہے ہیں ، مگر ہمارا دین و ایمان یہی ہے کہ ہم ان کی پرستش اور خدمت میں لگے رہیں۔

53. یعنی ہماری اس عبادت کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ ہماری مناجاتیں اور دعائیں اور فریادیں سنتے ہیں یا ہمیں نفع اور نقصان پہنچاتے ہیں اس لیے ہم نے ان کو پوجنا شروع کر دیا ہے ، بلکہ اصل وجہ اس عبادت کی یہ ہے کہ باپ دادا کے وقتوں سے یوں ہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اس طرح انہوں نے خود یہ اعتراف کر لیا کہ ان کے مذہب کے لیے باپ دادا کی اندھی تقلید کے سوا کوئی سند نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں گویا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ آخر تم نئی بات ہمیں کیا بتانے چلے ہو؟ کیا ہم خود نہیں دیکھتے کہ یہ لکڑی اور پتھر کی مورتیں ہیں ؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ لکڑیاں سنا نہیں کرتیں اور پتھر کسی کا کام بنانے یا بگاڑنے کے لیے نہیں اٹھا کرتے ؟ مگر یہ ہمارے بزرگ جو صدیوں سے نسلاً بعد نسل ان کی پوجا کرتے چلے آ رہے ہیں تو کیا وہ سب تمہارے نزدیک بے وقوف تھے ؟ ضرور کوئی وجہ ہو گی کہ وہ ان بے جان مورتیوں کی پوجا کرتے رہے۔ لہٰذا ہم بھی ان کے اعتماد پر یہ کام کر رہے ہیں۔

54. یعنی کیا ایک مذہب کی صداقت کے لیے بس یہ دلیل کافی ہے کہ وہ باپ دادا کے وقتوں سے چلا آ رہا ہے ؟ کیا نسل پر نسل بس یوں ہی آنکھیں بند کر کے مکھی پر مکھی مارتی چلی جائے اور کوئی آنکھیں کھول کر نہ دیکھے کہ جن کی بندگی ہم بجا لا رہے ہیں ان کے اندر واقعی خدائی کی کوئی صفت پائی بھی جاتی ہے یا نہیں اور وہ ہماری قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کے کچھ اختیارات رکھتے بھی ہیں یا نہیں ؟

55. یعنی میں جب غور کرتا ہوں تو مجھے یہ نظر آتا ہے کہ اگر میں ان کی پرستش کروں گا تو میری دنیا و آخرت دونوں برباد ہو جائیں گی۔ میں ان کی عبادت کو محض بے نفع اور بے ضرر ہی نہیں سمجھتا بلکہ الٹا نقصان دہ سمجھتا ہوں ، اس لیے میرے نزدیک تو ان کو پوجنا دشمن کو پوجنا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت ابراہیمؑ کے اس قول میں اس مضمون کی طرف بھی اشارہ ہے جو سورہ مریم میں ارشاد ہوا کہ وَتَّخَذُوْ امِنْدُوْنِ اللہِ اٰلِھَۃً لِّیَکُوْنُوْ ا لَھُمْ عِزًّا ہ کَلَّا سَیَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَ تِہَمْ وَیَکُوْنُوْنَ عَلَیْھِمْ ضِدًّا۔ (آیت 81۔ 82 ) انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا لیے ہیں تاکہ وہ ان کے لیے ذریعہ قوت ہوں۔ ہر گز نہیں۔ عنقریب وہ وقت آئے گا جب کہ وہ ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے اور الٹے ان کے مخالف ہوں گے ‘‘۔ یعنی قیامت کے روز وہ ان کے خلاف گواہی دیں گے اور صاف کہہ دیں گے کہ نہ ہم نے ان سے کبھی کہا کہ ہماری عبادت کرو، نہ ہمیں خبر کہ یہ ہماری عبادت کرتے تھے۔

یہاں حکمت تبلیغ کا بھی ایک نکتہ قابل توجہ ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ تمہارے دشمن ہیں ، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ وہ میرے دشمن ہیں۔ اگر وہ کہتے کہ یہ تمہارے دشمن ہیں تو مخاطب کے لیے ضد میں مبتلا ہو جانے کا زیادہ موقع تھا۔ وہ اس بحث میں پڑ جاتا کہ بتاؤ، وہ ہمارے دشمن کیسے ہو گئے۔ بخلاف اس کے جب انہوں نے کہا کہ وہ میرے دشمن ہیں تو اس سے مخاطب کے لیے یہ سوچنے کا موقع پیدا ہو گیا کہ وہ بھی اسی طرح اپنے بھلے اور برے کی فکر کرے جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے کی ہے۔ اس طریقہ سے حضرت ابراہیمؑ نے گویا ہر انسان کے اس فطری جذبے سے اپیل کی جس کی بنا پر وہ خود اپنا خیر خواہ ہوتا ہے اور جان بوجھ کر کبھی اپنا برا نہیں چاہتا۔ انہوں نے اسے بتایا کہ میں تو ان کی عبادت میں سراسر نقصان دیکھتا ہوں ، اور دیدہ و دانستہ میں اپنی بد خواہی نہیں کر سکتا، لہٰذا دیکھ لو کہ میں خود ان کی بندگی و پرستش سے قطعی اجتناب کرتا ہوں۔ اس کے بعد مخاطب فطرۃً یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ اس کی اپنی بھلائی کس چیز میں ہے ، کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ نا دانستہ اپنی بد خواہی کر رہا ہو۔

56. یعنی تمام ان معبودوں میں سے ، جن کی دنیا میں بندگی و پرستش کی جاتی ہے ، صرف ایک اللہ رب العالمین ہے جس کی بندگی میں مجھے اپنی بھلائی نظر آتی ہے ، اور جس کی عبادت میرے نزدیک ایک دشمن کی نہیں بلکہ اپنے اصل مربی کی عبادت ہے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیمؑ چند فقروں میں وہ وجوہ بیان کرتے ہیں جن کی بنا پر صرف اللہ رب العالمین ہی عبادت کا مستحق ہے ، اور اس طرح پنے مخاطبوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمہارے پاس تو معبود ان غیر اللہ کی عبادت کے لیے کوئی معقول وجہ بجز تقلید آبائی کے نہیں ہے جسے تم بیان کر سکو، مگر میرے پاس صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کے لیے نہایت معقول وجوہ موجود ہیں جن سے تم بھی انکار نہیں کر سکتے۔

رابعًا، اس سے پیروانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سبق دینا مقصُود ہے کہ وہ اس انحطاط کے گڑھے میں گرنے سے بچیں جس میں پچھلے انبیا کے پیرو گر گئے۔ یہودیوں کی اخلاقی کمزوریوں ، مذہبی غلط فہمیوں اور اعتقادی و عملی گمراہیوں میں سے ایک ایک کی نشان دہی کر کے اس کے بالمقابل دینِ حق کے مقتضیات بیان کیے گئے ہیں تاکہ مسلمان اپنا راستہ صاف دیکھ سکیں اور غلط راہوں سے بچ کر چلیں۔ اس سلسلے میں یہُود و نصاریٰ پر تنقید کرتے ہوئے قرآن جو کچھ کہتا ہے اس کو پڑھتے وقت مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یاد رکھنی چاہیے جس میں آپ ؐ نے فرمایا ہے کہ تم بھی آخر کار پچھلی اُمتوں ہی کی روش پر چل رہو گے حتّٰی کہ اگر وہ کسی گوہ کے بِل میں گُھسے ہیں، تو تم بھی اسی میں گُھسو گے۔ صحابہ ؓ نے پُوچھا: یا رسول اللہ ، کیا یہُود و نصاریٰ مراد ہیں؟ آپ ؐ نے فرمایا، اور کون؟ نبی اکرم ؐ کا ارشاد محض ایک تَو بِیخ نہ تھا بلکہ اللہ کی دی ہوئی بصیرت سے آپ یہ جانتے تھے کہ انبیا کی اُمتوں میں بگاڑ کن کن راستوں سے آیا اور کن کن شکلوں میں ظہُور کرتا رہا ہے۔

57. یہ اولین وجہ ہے جس کی بنا پر اللہ اور صرف ایک اللہ ہی عبادت کا مستحق ہے۔ مخاطب بھی اس حقیقت کو جانتے اور مانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کا خالق ہے ، اور انہیں یہ بھی تسلیم تھا کہ ان کے پیدا کرنے میں کسی دوسرے کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ حتّیٰ کہ اپنے معبودوں کے بارے میں بھی حضرت ابراہیمؑ کی قوم سمیت تمام مشرکین کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ وہ خود اللہ تعالیٰ کے مخلوق ہیں۔ بجز دہریوں کے اور کسی کو بھی دنیا میں اللہ کے خالق کائنات ہونے سے انکار نہیں رہا۔ اس لیے حضرت ابراہیمؑ کی پہلی دلیل یہ تھی کہ میں صرف اس کی عبادت کو صحیح و بر حق سمجھتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ دوسری کوئی ہستی میری عبادت کی کیسے مستحق ہو سکتی ہے جب کہ میرے پیدا کرنے میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ مخلوق کو اپنے خالق کی بندگی تو کرنی ہی چاہیے ، لیکن غیر خالق کی بندگی وہ کیوں کرے ؟

58. یہ دوسری وجہ ہے اللہ اور اکیلے اللہ ہی کے مستحق عبادت ہونے کی۔ اگر اس نے انسان کو بس پیدا ہی کر کے چھوڑ دیا ہوتا اور آگے اس کی خبر گیری سے وہ بالکل بے تعلق رہتا، تب بھی کوئی معقول وجہ اس امر کی ہو سکتی تھی کہ انسان اس کے علاوہ کسی دوسری طرف بھی سہارے ڈھونڈنے کے لیے رجوع کرتا۔ لیکن اس نے تو پیدا کرنے کے ساتھ رہنمائی، پرورش، نگہداشت، حفاظت اور حاجت روائی کا ذمہ بھی خود ہی لے لیا ہے۔ جس لمحے انسان دنیا میں قدم رکھتا ہے اسی وقت ایک طرف اس کی ماں کے سینے میں دودھ پیدا ہو جاتا ہے تو دوسری طرف کوئی ان دیکھی طاقت اسے دودھ چوسنے اور حلق سے اتارنے کا طریقہ سکھا دیتی ہے۔ پھر اس تربیت و رہنمائی کا سلسلہ اول روز پیدائش سے شروع ہو کر موت کی آخری ساعت تک برابر جاری رہتا ہے۔ زندگی کے ہر مرحلے میں انسان کو اپنے وجود اور نشو و نما اور بقاء و ارتقاء کے لیے جس جس نوعیت کے سر و سامان کی حاجت پیش آتی ہے وہ سب اس کے پیدا کرنے والے نے زمین سے لے کر آسمان تک ہر طرف مہیا کر دیا ہے۔ اس سر و سامان سے فائدہ اٹھانے اور کام لینے کے لیے جن جن طاقتوں اور قابلیتوں کی اس کو حاجت پیش آتی ہے وہ سب بھی اس کی ذات میں ودیعت کر دی ہیں۔ اور ہر شعبہ حیات میں جس جس طرح کی رہنمائی اس کو درکار ہوتی ہے اس کا بھی پورا انتظام اس نے کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ اس نے انسانی وجود کی حفاظت کے لیے اور اس کو آفات سے ، بیماریوں سے ، مہلک جراثیم سے اور زہریلے اثرات سے بچانے کے لیے خود اس کے جسم میں اتنے زبردست انتظامات کیے ہیں کہ انسان کا علم ابھی تک ان کا پورا احاطہ بھی نہیں کر سکا ہے۔ اگر یہ قدرتی انتظامات موجود نہ ہوتے تو ایک معمولی کانٹا چبھ جانا بھی انسان کے لیے مہلک ثابت ہوتا اور اپنے علاج کے لیے آدمی کی کوئی کوشش بھی کامیاب نہ ہو سکتی۔ خالق کی یہ ہمہ گیر رحمت و ربوبیت جب ہر آن ہر پہلو سے انسان کی دست گیری کر رہی ہے تو اس سے بڑی حماقت و جہالت اور کیا ہو سکتی ہے ، اور اس سے بڑھ کر احسان فراموشی بھی اور کونسی ہو سکتی ہے کہ انسان اس کو چھوڑ کر کسی دوسری ہستی کے آگے سر نیاز جھکائے اور حاجت روائی و مشکل کشائی کے لیے کسی اور کا دامن تھامے۔

59. یہ تیسری وجہ ہے جس کی بنا پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت درست نہیں ہو سکتی۔ انسان کا معاملہ اپنے خدا کے ساتھ صرف اس دنیا اور اس کی زندگی تک محدود نہیں ہے کہ وجود کی سرحد میں قدم رکھنے سے شروع ہو کر موت کی آخری ہچکی پر وہ ختم ہو جائے ، بلکہ اس کے بعد اس کا انجام بھی سراسر خدا ہی کے ہاتھ میں ہے ، وہی خدا جو اس کو وجود میں لایا ہے ، آخر کار اسے اس دنیا سے واپس بلا لیتا ہے اور کوئی طاقت دنیا میں ایسی نہیں ہے جو انسان کی اس واپسی کو روک سکے۔ آج تک کسی دوا یا طبیب یا دیوی دیوتا کی مداخلت اس ہاتھ کو پکڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے جو انسان کو یہاں سے نکال لے جاتا ہے ، حتیٰ کہ وہ بہت سے انسان بھی جنہیں معبود بنا کر انسانوں نے پوج ڈالا ہے ، خود اپنی موت کو نہیں ٹال سکے ہیں۔ صرف خدا ہی اس امر کا فیصلہ کرنے ولا ہے کہ کس شخص کو کب اس جہان سے واپس طلب کرنا ہے ، اور جس وقت جس کی طلبی بھی اس کے ہاں سے آ جاتی ہے اسے چارو نا چار جانا ہی پڑتا ہے۔ پھر وہی خدا ہے جو اکیلا اس امر کا فیصلہ کرے گا کہ کب ان تمام انسانوں کو جو دنیا میں پیدا ہوئے تھے دوبارہ وجود میں لائے اور ان سے ان کی حیات دنیا کا محاسبہ کرے۔ اس وقت بھی کسی کی یہ طاقت نہ ہو گی کہ بعث بعد الموت سے کسی کو بچا سکے یا خود بچ سکے۔ہر ایک کو اس کے حکم پر اٹھنا ہی ہو گا اور اس کی عدالت میں حاضر ہونا پڑے گا۔ پھر وہی اکیلا خدا اس عدالت کا قاضی و حاکم ہو گا۔ کوئی دوسرا اس کے اختیارات میں ذرہ برابر بھی شریک نہ ہو گا۔ سزا دینا یا معاف کرنا بالکل اس کے اپنے ہی ہاتھ میں ہو گا۔ کسی کی یہ طاقت نہ ہو گی کہ جسے وہ سزا دینا چاہے اس کو بخشوا لے جائے ، یا جسے وہ بخشنا چاہے اسے سزا دلوا سکے۔ دنیا میں جن کو بخشوا لینے کا مختار سمجھا جاتا ہے وہ خود اپنی بخشش کے لیے بھی اسی کے فضل و کرم کی آس لگائے بیٹھے ہوں گے۔ ان حقائق کی موجودگی میں جو شخص خدا کے سوا کسی کی بندگی کرتا ہے وہ اپنی بد انجامی کا خود سامان کرتا ہے۔ دنیا سے لے کر آخرت تک آدمی کی ساری قسمت تو ہو خدا کے اختیار میں ، اور اسی قسمت کے بناؤ کی خاطر آدمی رجوع کرے ان کی طرف جن کے اختیار میں کچھ نہیں ہے ! اس سے بڑھ کر شامت اعمال اور کیا ہو سکتی ہے۔

60. ’’حکم‘‘ سے مراد ’’نبوت‘‘ یہاں درست نہیں ہے ، کیونکہ جس وقت کی یہ دعا ہے اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نبوت عطا ہو چکی تھی۔ اور اگر بالفرض یہ دعا اس سے پہلے کی بھی ہو تو نبوت کسی کی طلب پر اسے عطا نہیں کی جاتی بلکہ وہ ایک وہبی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ خود ہی جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ اس لیے یہاں حکم سے مراد علم، حکمت، فہم صحیح اور قوت فیصلہ ہی لینا درست ہے ، اور حضرت ابراہیمؑ کی یہ دعا قریب قریب اسی معنی میں ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ دعا منقول ہے کہ :اَرِنَا الْاَ شْیَآءَ کَمَا ھِیَ یعنی ہم کو اس قابل بنا کہ ہم ہر چیز کو اسی نظر سے دیکھیں جیسی کہ وہ فی الواقع ہے اور ہر معاملہ میں وہی رائے قائم کریں جیسی کہ اس کی حقیقت کے لحاظ قائم کی جانی چاہیے۔

61. یعنی دنیا میں مجھے صالح سوسائٹی دے اور آخرت میں میرا حشر صالحوں کے ساتھ کر۔ جہاں تک آخرت کا تعلق ہے ، صالح لوگوں کے ساتھ کسی کا حشر ہونا اور اس کا نجات پانا گویا ہم معنی ہیں ، اس لیے یہ تو ہر اس انسان کی دعا ہونی ہی چاہیے جو حیات بعد الموت اور جزا اور سزا پر یقین رکھتا ہو۔ لیکن دنیا میں بھی ایک پاکیزہ روح کی دلی تمنا یہی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ایک بد اخلاق فاسق و فاجر معاشرے میں زندگی بسر کرنے کی مصیبت سے نجات دے اور اس کو نیک لوگوں کے ساتھ ملائے۔ معاشرے کا بگاڑ جہاں چاروں طرف محیط ہو وہاں ایک آدمی کے لیے صرف یہی چیز ہمہ وقت اذیت کی موجب نہیں ہوتی کہ وہ اپنے گردو پیش گندگی ہی گندگی پھیلی ہوئی دیکھتا ہے ، بلکہ اس کے لیے خود پاکیزہ رہنا اور اپنے آپ کو گندگی کی چھینٹوں سے بچا کر رکھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے ایک صالح آدمی اس وقت تک بے چین ہی رہتا ہے جب تک یا تو اس کا اپنا معاشرہ پاکیزہ نہ ہو جائے ، یا پھر اس سے نکل کر وہ کوئی دوسری ایسی سوسائیٹی نہ پالے جو حق و صداقت کے اصولوں پر چلنے والی ہو۔

62. یعنی بعد کی نسلیں مجھے خیر کے ساتھ یاد کریں۔ میں دنیا سے وہ کام کر کے نہ جاؤں کہ نسل انسانی میرے بعد میرا شمار ان ظالموں میں کرے جو خود بگڑے ہوئے تھے اور دنیا کو بگاڑ کر چلے گئے ، بلکہ مجھ سے وہ کارنامے انجام پائیں جن کی بدولت رہتی دنیا تک میری زندگی خلق خدا کے لیے روشنی کا مینار بنی رہے ور مجھے انسانیت کے محسنوں میں شمار کیا جائے۔ یہ محض شہرت و ناموری کی دعا نہیں ہے بلکہ سچی شہرت اور حقیقی ناموری کی دعا ہے جو لازماً ٹھوس خدمات اور بیش قیمت کارناموں ہی کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔ کسی شخص کو اس چیز کا حاصل ہونا اپنے اندر دو فائدے رکھتا ہے۔ دنیا میں اس کا فائدہ یہ ہے کہ انسانی نسلوں کو بُری مثالوں کے مقابلے میں ایک نیک مثال ملتی ہے جس سے وہ بھلائی کا سبق حاصل کرتی ہیں اور ہر سعید روح کو راہ راست پر چلنے میں اس سے مدد ملتی ہے۔ اور آخرت میں اس کا فائدہ یہ ہے کہ ایک آدمی کی چھوڑی ہوئی نیک مثال سے قیامت تک جتنے لوگوں کو بھی ہدایت نصیب ہوئی ہو ان کا ثواب اس شخص کو بھی ملے گا اور قیامت کے روز اس کے اپنے اعمال کے ساتھ کروڑوں بندگان خدا کی یہ گواہی بھی اس کے حق میں موجود ہو گی کہ وہ دنیا میں بھلائی کے چشمے رواں کر کے آیا ہے جن سے نسل پر نسل سیراب ہوتی رہی ہے۔

63. بعض مفسرین نے حضرت ابراہیمؑ کی اس دعائے مغفرت کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ مغفرت بہر حال اسلام کے ساتھ مشروط ہے اس لیے آں جناب کا اپنے والد کی مغفرت کے لیے دعا کرنا گویا اس بات کی دعا کرنا تھا کہ اللہ تعالیٰ اسے اسلام لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ لیکن قرآن مجید میں اس کے متعلق مختلف مقامات پر جو تصریحات ملتی ہیں وہ اس توجیہ سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اپنے والد کے ظلم سے تنگ آ کر جب گھر سے نکلنے لگے تو انہوں نے رخصت ہوتے وقت فرمایا : سَلٰمٌ عَلَیْکَ سَاَ سْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیٓ اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا (مریم، آیت 47 ) ’’ آپ کو سلام ہے ، میں آپ کے لیے اپنے رب سے بخشش کی دعا کروں گا، وہ میرے اوپر نہایت مہربان ہے ‘‘۔ اسی وعدے کی بنا پر انہوں نے یہ دعائے مغفرت نہ صرف اپنے باپ کے لیے کی بلکہ ایک دوسرے مقام پر بیان ہوا ہے کہ ماں اور باپ دونوں کے لیے کی : رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ (ابرہیم۔ آیت 41 )۔ لیکن بعد میں انہیں خود یہ احساس ہو گیا کہ ایک دشمن حق، چاہے وہ ایک مومن کا باپ ہی کیوں نہ ہو، دعائے مغفرت کا مستحق نہیں ہے۔ وَمَا کَانَ ابْتِغْفَا رُ اِبْرٰھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّ عَدَھَآ اِیَّا ہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ اَنَّہٗ عَدُ وٌّ لِلہِ تَبَرَّأ مِنْہُ (التوبہ۔ آیت 114) ’’ ابراہیم کا پنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کرنا محض اس وعدے کی وجہ سے تھا جو اس نے اس سے کیا تھا۔ مگر جب یہ بات اس پر کھل گئی کہ وہ خدا کا دشمن ہے تو اس نے اس سے اظہار بیزاری کر دیا‘‘۔

64. یعنی قیامت کے روز یہ رسوائی مجھے نہ دکھا کہ میدان حشر میں تمام اوّلین و آخرین کے سامنے ابراہیمؑ کا باپ سزا پا رہا ہو اور ابراہیمؑ کھڑا دیکھ رہا ہو۔

65. ان دو فقروں کے متعلق یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ یہ حضرت ابراہیمؑ کی دعا کا حصہ ہیں یا انہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے قول پر اضافہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے۔ اگر پہلی بات مانی جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ اپنے باپ کے لیے یہ دعا کرتے وقت خود بھی ان حقائق کا احساس رکھتے تھے۔ اور دوسری بات تسلیم کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کی دعا پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ قیامت کے دن آدمی کے کام اگر کوئی چیز آ سکتی ہے تو وہ مال اور اولاد نہیں بلکہ صرف قلب سلیم ہے ، ایسا دل جو کفر و شرک و نافرمانی اور فسق و فجور سے پاک ہو۔ مال اور اولاد بھی قلب سلیم ہی کے ساتھ نافع ہو سکتے ہیں ، اس کے بغیر نہیں۔ مال صرف اس صورت میں وہاں مفید ہو گا جب کہ آدمی نے دنیا میں ایمان و اخلاص کے ساتھ اسے اللہ کی راہ میں صرف کیا ہو، ورنہ کروڑ پتی اور ارب پتی آدمی بھی وہاں کنگال ہو گا۔ اولاد بھی صرف اسی حالت میں وہاں کام آ سکے گی جب کہ آدمی نے دنیا میں اسے اپنی حد تک ایمان اور حسن عمل کی تعلیم دی ہو، ورنہ بیٹا اگر نبی بھی ہو تو وہ باپ سزا پانے سے نہیں بچ سکتا جس کا اپنا خاتمہ کفر و معصیت پر ہوا ہو اور اولاد کی نیکی میں جس کا اپنا کوئی حصہ نہ ہو۔

66. یہاں سے آخری پیرا گراف تک کی پوری عبارت حضرت ابراہیمؑ کے کلام کا جز نہیں معلوم ہوتی بلکہ اس کا مضمون صاف ظاہر کر رہا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا ارشاد ہے۔

67. یعنی ایک طرف متقی لوگ جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہی یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ کیسی نعمتوں سے لبریز جگہ ہے جہاں اللہ کے فضل سے ہم جانے والے ہیں۔ اور دوسری طرف گمراہ لوگ ابھی میدان حشر ہی میں ہوں گے کہ ان کے سامنے اس جہنم کا ہولناک منظر پیش کر دیا جائے گا جس میں انہیں جانا ہے۔

68. اصل میں لفظ : کُبْکِبُوْا فرمایا گیا ہے جس میں دو مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ ایک کے اوپر ایک دھکیل دیا جائے گا، دوسرے یہ کہ وہ قعر جہنم تک لڑھکتے چلے جائیں گے۔

69. یہ پیروؤں اور معتقدوں کی طرف سے ان لوگوں کی تواضع ہو رہی ہو گی جنہیں یہی لوگ دنیا میں بزرگ، پیشوا اور رہنما مانتے رہے تھے ، جن کے ہاتھ پاؤں چومے جاتے تھے ، جن کے قول و عمل کو سند مانا جاتا تھا، جن کے حضور نذریں گزرانی جاتی تھیں۔ آخرت میں جا کر جب حقیقت کھلے گی اور پیچھے چلنے والوں کو معلوم ہو جائے گا کہ آگے چلنے والے خود کہاں آئے ہیں اور ہمیں کہاں لے آئے ہیں تو یہی معتقدین ان کو مجرم ٹھیرائیں گے اور ان پر لعنت بھیجیں گے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ عالم آخرت کا یہ عبرت ناک نقشہ کھینچا گیا ہے تاکہ اندھی تقلید کرنے والے دنیا میں آنکھیں کھولیں اور کسی کے پیچھے چلنے سے پہلے دیکھ لیں کہ وہ ٹھیک بھی جا رہا ہے یا نہیں۔ سورہ اعراف میں فرمایا :

کُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّۃٌ لَّعَنَتْ اُخْتَھَا ؕ حَتّیٰٓ اِذَا ادَّارَکُوْ ا فِیْھَا جَمِیْعاً ۙ قَالَتْ اُ خْرٰ ھُمْ لِاُوْلٰھُمْ رَبَّنَا ھٰٓؤُ لَآ ءِ اَضَلُّوْ نَا فَاٰتِھِمْ عَذَاباً ضِعْفاً مِّنَالنَّارِ ؕ۵ قَا لَ لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ O (آیت 38 )

ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہو گا تو اپنے ساتھ کے گروہ پر لعنت کرتا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب سب وہاں جمع ہو جائیں گے تو ہر بعد والا گروہ پہلے گروہ کے متعلق کہے گا کہ اے ہمارے رب، یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا، اب انہیں آگ کا دوہرا عذاب دے۔ رب فرمائے گا سب ہی کے لیے دوہرا عذاب ہے مگر تم جانتے نہیں ہو۔

سورہ حٰم السجدہ میں ارشاد ہوا ہے :

وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا رَبَّنَا اَرِنَا لَّذ یْنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ نَجْعَلْھُمَا تَحْتَ اَقدَامِنا لِیَکُوْ نَا مِنَ الْاَسْفَلِیْنَ O (آیت 29)۔

اور کافر اس وقت کہیں گے کہ اے پروردگار، ان جنوں اور انسانوں کو ہمارے سامنے لا جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا تاکہ ہم انہیں پاؤں تلے روند ڈالیں اور وہ پست و ذلیل ہو کر ہیں۔

یہی مضمون سورہ احزاب میں ارشاد ہوا ہے :

وَقَا لُوْ ا رَبَّنَآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَآ ءَ نَا فَاَ ضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا ۵ رَبَّنَآ اٰوِھِمْ ضِعفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْھُمْ لَعْناً کَبِیْراً O (آیات 67۔ 68 )

اور وہ کہیں گے اے رب، ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہم کو سیدھے راستے سے بھٹکا دیا۔ اے رب، ان کو دو گنا عذاب دے اور ان پر سخت لعنت کر۔

70. یعنی جنہیں ہم دنیا میں سفارشی سمجھتے تھے اور جن کے متعلق ہمارا یہ عقیدہ تھا کہ ان کا دامن جس نے تھام لیا بس اس کا بیڑا پار ہے ، ان میں سے آج کوئی بھی سعی سفارش کے لیے زبان کھولنے والا نہیں ہے۔

71. یعنی کوئی ایسا بھی نہیں ہے جو ہمارا غم خوار اور ہمارے لیے کُڑھنے والا ہو، چاہے ہم کو چھڑا نہ سکے مگر کم از کم اسے ہمارے ساتھ کوئی ہمدردی ہی ہو۔ قرآن مجید یہ بتاتا ہے کہ آخرت میں دو ستیاں صرف اہل ایمان ہی کی باقی رہ جائیں گی۔ رہے گمراہ لوگ، تو وہ دنیا میں چاہے کیسے ہی جگری دوست رہے ہوں ، وہاں پہنچ کر ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوں گے ، ایک دوسرے کو مجرم ٹھیرائیں گے اور اپنی بربادی کا ذمہ دار قرار دے کر ہر ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ سزا دلوانے کی کوشش کرے گا۔ اَلْاَخِلَّآ ءُ یَوْمَئِذٍ‏ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ الَّا الْمُتَّقِیْنَ O (الزخرف۔ آیت 67 ) ’’ دوست اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر متقین (کی دوستیاں قائم رہیں گی)‘‘۔

72. اس تمنا کا جواب بھی قرآن میں دے دیا گیا ہے کہ وَلَوْرُدُّ وْ ا لَعَا دُوْ ا لِمَا نُھُوْ ا عَنْہٗ۔ (الانعام۔ آیت 28 ) ’’ اگر انہیں سابق زندگی کی طرف واپس بھیج دیا جائے تو وہی کچھ کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا ہے ‘‘۔ رہا یہ سوال کہ انہیں واپسی کا موقع کیوں نہ دیا جائے گا، اس کے وجوہ پر مفصل بحث ہم سورہ مؤمنون حواشی 90 تا 92 میں کر چکے ہیں۔

73. حضرت ابراہیمؑ کے اس قصے میں نشانی کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ مشرکین عرب اور بالخصوص قریش کے لوگ ایک طرف تو حضرت ابراہیمؑ کی پیروی کا دعویٰ اور ان کے ساتھ انتساب پر فخر کرتے ہیں مگر دوسری طرف اسی شرک میں مبتلا ہیں جس کے خلاف جدو جہد کرتے ان کی عمر بیت گئی تھی، اور ان کے لائے ہوئے دین کی دعوت آج جو نبی پیش کر رہا ہے اس کے خلاف ٹھیک وہی کچھ کر رہے ہیں جو حضرت ابراہیمؑ کی قوم نے ان کے ساتھ کیا تھا۔ ان کو یاد دلایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ تو شرک کے دشمن اور دعوت توحید کے علم بردار تھے ، تم خود بھی جانتے اور مانتے ہو کہ حضرت ممدوح مشرک نہ تھے ، مگر پھر بھی تم اپنی ضد پر قائم ہو۔ دوسرا پہلو اس قصہ میں نشانی کا یہ ہے کہ قوم ابراہیمؑ دنیا سے مٹ گئی اور ایسی مٹی کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا، اس میں سے اگر کسی کو بقا نصیب ہوا تو صرف ابراہیم علیہ السلام اور ان کے مبارک فرزندوں (اسماعیلؑ و اسحاقؑ ) کی اولاد ہی کو نصیب ہوا۔ قرآن میں اگر چہ اس عذاب کا ذکر نہیں کیا گیا ہے جو حضرت ابراہیمؑ کے نکل جانے کے بعد ان کی قوم پر آیا، لیکن اس کا شمار معذب قوموں ہی میں کیا گیا ہے ، : اَلَمْ یَاْ تِھِمْ نَبَاءُ الَّذِیْنَ مِنْ قَٓبْلِھِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَوَ قَوْمِ اِبْرٰھِیْمَ وَاَصْحٰبِ مَدْیَنَ وَ الْمُؤْ تَفِکٰتِ (التوبہ۔ آیت 70)۔