1. ”کتابِ مُبین“کا ایک مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب اپنی تعلیمات اور اپنے احکام اور ہدایات کو بالکل واضح طریقے سے بیان کر تی ہے ۔ دوسرا مطلب یہ کہ وہ حق اور باطل کا فرق نمایاں طریقے سے کھول دیتی ہے ۔ اور ایک تیسرا مطلب یہ بھی ہے کہ اس کا کتابِ الہٰی ہونا ظاہر ہے ، جو کوئی اسے آنکھیں کھول کر پڑھے گا اس پر یہ بات کھل جائیگی کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا گھڑا ہوا کلام نہیں ہے۔
2. یعنی یہ آیات ہدایت اور بشارت ہیں۔”ہدایت کرنے والی“اور ”بشارت دینے والی“کہنے کے بجائے انہیں بجائے خود”ہدایت“اور ”بشارت“کہا گیا جس سے رہنمائی اور بشارت کے وصف میں ان کے کمال کا اظہار مقصود ہے ۔ جیسے کسی کو آپ سخی کہنے کے بجائے مجسم سخاوت اور حسین کہنے کے بجائے از سر تاپا حسن کہیں۔
3. یعنی قرآن مجید کی یہ آیات رہنمائی بھی صرف اُنہی لوگوں کی کرتی ہیں اور انجام نیک کی خوشخبری بھی صرف انہی لوگوں کو دیتی ہیں جن میں دو خصوصیات پائی جاتی ہوں: ایک یہ کہ وہ ایمان لائیں۔ اور ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ وہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول کر لیں، خدائے واحد کو اپنا ایک ہی الٰہ اور رب مان لیں ، قرآن کو خدا کی کتاب تسلیم کر لیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بر حق مان کر اپنا پیشوا بنا لیں، اور یہ عقیدہ بھی اختیار کر لیں کہ اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہے جس میں ہم کو اپنے اعمال کا حساب دینا اور جزائے اعمال سے دو چار ہونا ہے ۔ دوسری خصوصیت ان کی یہ ہے کہ وہ اِن چیزوں کو محض مان کر نہ رہ جائیں بلکہ عملاً اتباع و اطاعت کے لیے آمادہ ہوں۔ اور اس آمادگی کی اوّلین علامت یہ ہے کہ وہ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ یہ دونوں شرطیں جو لوگ پوری کردیں گے انہی کو قرآن کی آیات دنیا میں زندگی کا سیدھا راستہ بتائیں گی، اس راستہ کے ہر مرحلے میں ان کو صحیح اور غلط کا فرق سمجھائیں گی، اس کے ہر موڑ پر انہیں غلط راہوں کی طرف جانے سے بچائیں گی، اور ان کو یہ اطمینان بخشیں گی کہ راست روی کے نتائج دنیا میں خواہ کچھ بھی ہوں، آخر کا ر ابدی اور دائمی فلاح اِسی کی بدولت انہیں حاصل ہوگی اور وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سے سرفراز ہوں گے ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک معلم کی تعلیم سے وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جو اس پر اعتماد کر کے واقعی اس کی شاگردی قبول کر لے اور پھر اس کی ہدایات کے مطابق کام بھی کر ے۔ ایک ڈاکٹر سے استفادہ وہی مریض کر سکتا ہے جو اسے اپنا معالج بنائے اور دوا اور پر ہیز وغیرہ کے معاملہ میں اس کی ہدایات پر عمل کرے۔ اسی صورت میں معلم اور ڈاکٹر یہ اطمینان دلا سکتے ہیں کہ آدمی کو نتائجِ مطلوبہ حاصل ہوں گے۔
بعض لوگوں نے اس آیت میں یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہ اخلاق کی پاکیزگی اختیار کریں۔ لیکن قرآن مجید میں اقامتِ صلٰوۃ کے ساتھ ایتاءِ زکوٰۃ کا لفظ جہاں بھی آیا ہے ، اس سے مراد وہ زکوٰۃ ادا کر نا ہے جو نماز کے ساتھ اسلام کا دوسرا رکن ہے ۔ علاوہ بریں زکوٰۃ کے لیے ایتاء کا لفظ استعمال ہوا ہے جو زکوٰۃِ مال ادا کرنے کے معنی متعین کر دیتا ہے ، کیونکہ عربی زبان میں پاکیزگی اختیار کرنے کے لیے تَزَکّی کا لفظ بولا جاتا ہے نہ کہ ایتاء زکوٰۃ۔ دراصل یہاں جو بات ذہن نشین کر نی مقصود ہے وہ یہ کہ قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ایمان کے ساتھ عملاً اطا عت و اتباع کا رویہ اختیار کرنا بھی ضروری ہے، اور اقامتِ صلوٰۃ و ایتاء زکوٰۃ وہ پہلی علامت ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ آدمی نے واقعی اطاعت قبول کر لی ہے ۔ یہ علامت جہاں غائب ہوئی وہاں فوراً یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی سرکش ہے ، حاکم کو حاکم چاہے اس نے مان لیا ہو، مگر حکم کی پیروی کے لیے وہ تیار نہیں ہے ۔
4. اگر چہ آخرت کا عقیدہ ایمانیات میں شامل ہے، اور اس بنا پر” ایمان لانے والوں“سے مراد ظاہر ہے کہ وہی لوگ ہیں جو توحید اور رسالت کے سا تھ آخرت پر بھی ایمان لائیں، لیکن ایمانیات کے ضمن میں اس کے آپ سے آپ شامل ہونے کے با وجود یہاں اس عقیدے کی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے خاص طور پر زور دے کر اسے الگ بیان کیا گیا ہے ۔ اس سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود ہے کہ جو لوگ آخرت کے قائل نہ ہوں، ان کے لیے اس قرآن کے بتائے ہوئے استے پر چلنا بلکہ اس پر قدم رکھنا بھی محال ہے ۔ کیونکہ اس طرزِ فکر کے لوگ طبعاً اپنا معیارِ خیر و شر صرف اُنہی نتائج سے متعین کرتے ہیں جو اِس دنیا میں ظاہر ہوتے یا ہو سکتے ہیں۔ اور ان کے لیے کسی ایسی نصیحت و ہدایت کو قبول کرنا ممکن نہیں ہوتا جو انجامِ اُخروی کو سودوزیاں اور نفع و نقصان کا معیار قرار دے کر خیر و شر کا تعین کرتی ہو۔ ایسے لوگ اول تو انبیاء علیہم السلام کی تعلیم پر کان ہی نہیں دھرتے ، لیکن اگر کسی وجہ سے وہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں شامل ہو بھی جائیں تو آخرت کا یقین نہ ہونے کے باعث ان کے لیے ایمان و اسلام کے راستے پر ایک قدم چلنا بھی مشکل ہوتا ہے ۔ اس راہ میں پہلی ہی آزمائش جب پیش آئے گی، جہاں دنیوی فائدے اور اُخروی نقصان کے تقاضے انہیں دو مختلف سمتوں میں کھینچیں گے تو وہ بے تکلف دنیا کے فائدے کی طرف کھیچ جائیں گے اور آخرت کے نقصان کی ذرہ برابر پروا نہ کریں گے ، خواہ زبان سے وہ ایمان کے کتنے ہی دعوے کر تے رہیں۔
5. یعنی خدا کا قانونِ فطرت یہ ہے ، نفسیاتِ انسانی کی فطری منطق یہی ہے کہ جب آدمی زندگی اور اس کی سعی و عمل کے نتائج کو صرف اسی دنیا تک محدود سمجھے گا، جب وہ کسی ایسی عدالت کا قائل نہ ہو گا جہاں انسان کے پورے کارنامہ حیات کی جانچ پڑتال کر کے اس کے حُسن وقبح کا آخری اور قطعی فیصلہ کیا جانے والا ہو، اور جب وہ موت کے بعد کسی ایسی زندگی کا قائل نہ ہوگا جس میں حیاتِ دنیا کے اعمال کی حقیقی قدر و قیمت کے مطابق ٹھیک ٹھیک جزا و سزا دی جانے والی ہو، تو لازماً اس کے اندر ایک مادہ پرستانہ نقطۂ نظر نشو نما پائے گا۔ اسے حق اور باطل، شرک اور توحید، نیکی اور بدی، اخلاق اور بد اخلاقی کی ساری بحثیں سراسر بے معنی نظر آئیں گی۔ جو کچھ اُسے اِس دنیا میں لذت و عیش اور مادی ترقی و خوشحالی اور قوتِ و اقتدار سے ہمکنار کرے وہی اس کے نزدیک بھلائی ہوگی قطع نظر اس سے کہ وہ کوئی فلسفہ حیات اور کوئی طرزِ زندگی اور نظامِ اخلاق ہو۔ اس کو حقیقت اور صداقت سے دراصل کوئی غرض ہی نہ ہوگی۔ اس کی اصل مطلوب صرف حیات ِ دنیا کی زینتیں اور کامرانیاں ہوں گی جن کے حصول کی فکر اسے ہر وادی میں لیے بھٹکتی پھرے گی۔ اور اس مقصد کے لیے جو کچھ بھی وہ کرے گا اسے اپنے نزدیک بڑی خوبی کی بات سمجھے گا اور اُلٹا اُن لوگوں کو بیوقوف سمجھے گا جوا ُس کی طرح دنیا طلبی میں منہمک نہیں ہیں اور اخلاق و بد اخلاقی سے بے نیاز ہو کر ہر کام کر گزرنے میں بےباک نہیں ہیں۔
کسی کے اعمال بد کو اس کے لیے خوشنما بنا دینے کا یہ فعل قرآن مجیدمیں کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور کبھی شیطان کی طرف۔ جب اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تو اس سے مراد، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، یہ ہوتی ہے کہ جو شخص یہ نقطۂ نظر اختیار کرتا ہےاسے فطرۃ زندگی کا یہی ہنجار خوش آئند محسوس ہوتا ہے۔ جب یہ فعل شیطان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اس طرزِ فکر اور طرزِ عمل کو اختیار کرنے والے آدمی کے سامنے شیطان ہر وقت ایک خیالی جنت پیش کرتا رہتا ہے اور اسے خوب اطمینان دلاتا ہے کہ شاباش بر خوردار بہت اچھے جا رہے ہو۔
6. اس بُری سزا کی صورت، وقت اور جگہ کا تعین نہیں کیا گیا ہے، کیونکہ یہ اس دنیا میں بھی مختلف افراد گروہوں اور قوموں کو بے شمار مختلف طریقوں سے ملتی ہے ، اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت عین موت کے دروازے پر بھی اس کا ایک حصہ ظالموں کو پہنچتا ہے ، موت کے بعد عالم برزخ میں بھی اس سے آدمی دو چار ہوتا ہے،اور پھر روز حشر سے تو اس کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا جو پھر کہیں جا کر ختم نہ ہوگا۔
7. یعنی یہ کوئی ہوائی باتیں نہیں ہیں جو اس قرآن میں کی جا رہی ہیں، اور نہ یہ کسی انسان کے قیاس ورائے پر مبنی ہیں، بلکہ انہیں ایک حکیم و علیم ذات القا کر رہی ہے جو حکمت ودانائی اور علم و دانش میں کامل ہے ، جسے اپنی خلق کے مصالح اور ان کے ماضی و حال اور مستقبل کا پورا علم ہے ، اور جس کی حکمت بندوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے بہترین تدابیر اختیار کر تی ہے۔
8. یہ اُس وقت کا قصہ ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مَدْیَن میں آٹھ دس سال گزارنے ک بعد اپنے اہل وعیان کو ساتھ لے کر کوئی ٹھکانہ تلاش کرنے جا رہے تھے۔ مدین کا علاقہ خلیج عَقَبہ کے کنارے عرب اور جزیرہ نمائے سینا کے سوا حل پر واقع تھا(ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم الشُعراء، حاشیہ ۱۱۵)۔ وہاں سے چل کر حضرت موسیٰ جزیرہ نمائے سینا کے جنوبی حصے میں اُس مقام پر پہنچے جواب کوہِ سینا اور جبلِ موسیٰ کہلاتا ہے اور نزولِ قرآن کے زمانہ میں طُور کے نام سے مشہور تھا۔ اسی کے دامن میں وہ واقعہ پیش آیا جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے۔
9. فحوائے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رات کا وقت اور جاڑے کا موسم تھا۔ اور حضڑت موسیٰ علیہ السلام ایک اجنبی علاقے سے گزر رہے تھے جس سے انہیں کچھ زیادہ واقفیت نہ تھی۔ اس لیے انہوں نے اپنے گھر والوں سے فرمایا کہ میں جا کر معلوم کرتا ہوں یہ کونسی بستی ہے جہاں آگ جل رہی ہے ، آگے کدھر کدھر راستے جاتے ہیں اور کون کون سی بستیاں قریب ہیں۔ تاہم اگر وہ بھی ہماری ہی طرح کوئی چلتے پھرتے مسافر ہوئے جن سے کوئی معلومات حاصل نہ ہو سکیں تو کم ازکم میں کچھ انگارے ہی لے آؤں گاکہ تم لوگ آگ جلا کر کچھ گرمی حاصل کر سکو۔
یہ مقام جہاں حضرت موسیٰ نے جھاڑی میں آگ لگی ہوئی دیکھی تھی، کوہ ِ طور کے دامن میں سطح سمندر سے تقریباً ۵ ہزار فیٹ کی بلندی پر واقع ہے ۔ یہاں رومی سلطنت کے پہلے عیسائی بادشاہ قُسطَنِطین نے ۳۶۵ ء کے لگ بھگ زمانے میں ٹھیک اُس مقام پر ایک کنیسہ تعمیر کروایا تھا جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ اس کے دو سو برس بعد قیصر حَسٹِینین نے یہاں ایک دَیر ( Monastery ) تعمیر کروایا جس کے اندر قسطنطین کے بنائے ہوئے کنیسہ کو بھی شامل کر لیا۔ یہ دیر اور کنیسہ دونوں آج تک موجود ہیں اور یونانی کلیسا ( Greek Orthodox Church ) کے راہبوں کا ان پر قبضہ ہے ۔ میں نے جنوری ۱۹۶۰ء میں اس مقام کی زیارت کی ہے ۔ مقابل کے صفحہ پر اس مقام کی کچھ تصاویر ملاحظہ ہوں۔
10. سورۂ قصص میں ہے کہ ندا ایک درخت سے آرہی تھی،فِی الْبُقْعَۃِ الْمُبَا رَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ۔ اس سے جو صورت معاملہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ وادی کے کنارے ایک خطے میں آگ سی لگی ہوئی تھی مگر نہ کچھ جل رہا تھا نہ کوئی دھواں اٹھ رہا تھا اور اس آگ کے اندر ایک ہرا بھرا درخت کھڑا تھا جس پر سے یکایک یہ ندا آنی شروع ہوئی۔
یہ ایک عجیب معاملہ ہے جو انبیاء علیہم السلام کے ساتھ پیش آتا رہا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلی مرتبہ نبوت سے سرفراز کیے گئے تو غارِ حرا ء کی تنہائی میں یکایک ایک فرشتہ آیا اور اس نے اللہ کا پیغام پہنچانا شروع کر دیا ۔ حضرت موسیٰ کے ساتھ بھی یہی صورت پیش آئی کہ ایک شخص سفر کرتا ہوا ٹھیرا ہے، دُور سے آگ دیکھ کر راستہ پوچھنے یا انگارا چننے کی غرض سے آتا ہے اور یکلخت اللہ رب العالمین کی ہر قیاس و گمان سے بالا ذات اس سے مخاطب ہو جاتی ہے ۔ ان مواقع پر درحقیقت ایک ایسی غیر معمولی کیفیت خارج میں بھی اور انبیاء علیم السلام کے نفس میں بھی موجود ہوتی ہے جس کی بنا پر انہیں اس امر کا یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ کسی جِن یا شیطان یا خود ان کے اپنے ذہن کا کوئی کرشمہ نہیں ہے ، نہ اُن کے حواس کوئی دھوکا کھار ہے ہیں، بلکہ فی الواقع یہ خدا وندِ عالم یا اس کا فرشتہ ہی ہے جو ان سے ہم کلام ہے ۔( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ، النجم، حاشیہ۱۰)۔
11. اس موقع پر ”سبحان اللہ “ارشاد فرمانے سے دراصل حضرت موسیٰ کو اس بات پر متنبہ کر نا مقصود تھا کہ یہ معاملہ کمال درجہ تنزیہ کے ساتھ پیش آرہا ہے ۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اللہ رب العالمین اس درخت پر بیٹھا ہو ، یا اس میں حلول کر آیا ہو، یا اس کا نورِ مطلق تمہاری بینائی کے حدود میں سما گیا ہو، یا کوئی زبان کسی منہ میں حرکت کر کے یہاں کلام کر رہی ہو، بلکہ ان تمام محدودیتوں سے پاک اور منزہ ہوتے ہوئے وہ بذاتِ خود تم سے مخاطب ہے۔
12. سورہ اعراف اور سورہ شعراء میں اس کے لیے ثُعبان (اژدہے) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور یہاں اسے ”جان “کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے جو چھوٹے سانپ کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسامت میں وہ اژدہا تھا، مگر اس کی حرکت کی تیزی ایک چھوٹے سانپ جیسی تھی۔ اسی مفہوم کو سورہ طٰہٰ میں حَیَّۃٌ تَسْعٰی (دوڑتے ہوئے سانپ) کے الفاظ میں ادا کیا گیا ہے۔
13. یعنی میرے حضور اس امر کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ رسول کو کوئی گزند پہنچے۔ رسالت کے منصبِ عظیم پر مقرر کرنے کے لیے جب میں کسی کو اپنی پیشی میں بلاتا ہوں تو اس کی حفاظت کا خود ذمہ دار ہوتا ہوں۔ اس لیے خواہ کیسا ہی کوئی غیر معمولی معاملہ پیش آئے رسول کو بے خوف اور مطمئن رہنا چاہیے کہ اُس کے لیے وہ کسی طرح ضرر رساں نہ ہوگا۔
14. یہ استثناء متصل بھی ہو سکتا ہے اور منقطع بھی۔ متصل ہونے کی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ خوف کی معقول وجہ اگر ہو سکتی ہے تو یہ کہ رسول سے کوئی قصور سرزد ہوا ہو۔ اور منقطع ہونے کی صورت میں مراد یہ ہوگی کے میرے حضور تو کسی کو بھی کوئی خطرہ نہیں ہے جب تک کہ آدمی قصور وار نہ ہو۔
15. یعنی قصور کرنے والا بھی اگر توبہ کر کے اپنے رویے کی اصلاح کرلے اور بُرے عمل کے بجائے نیک عمل کرنے لگے تو میرے ہاں اس کے لیے عفو و درگزر کا دروازہ کھلا ہے ۔ اس موقع پر یہ بات ارشاد فرمانے سے مقصود ایک تنبیہ بھی تھی اور بشارت بھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نادانستگی میں ایک قبطی کو قتل کر کے مصر سے نکلتے تھے۔ یہ ایک قصور تھا جس کی طرف لطیف اشارہ فرما دیا گیا۔ پھر جس وقت یہ قصور اچانک بلا ارادہ ان سے سر زد ہوا تھا اس کے بعد فوراً ہی انہوں نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لی تھی کہ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِی۔ (اے پر وردگار ، میں اپنے نفس پر ظلم کر گزرا مجھے معاف فرمادے) اور اللہ تعالیٰ نے اسی وقت انہیں معاف فرمادیا تھا، فَغَفَرَلَہٗ ( القصص، آیت۱۶) اب یہاں اُسی معافی کی بشارت انہیں دی گئی ہے۔ گویا مطلب اس تقریر کا یہ ہوا کہ اے موسیٰ، میرے حضور تمہارے لیے ڈرنے کی ایک وجہ تو ضرور ہوسکتی تھی، کیونکہ تم سے ایک قصور سر زد ہو گیا تھا، لیکن جب تم اس برائی کو بھلائی سے بدل چکے ہو تو میرے پاس تمہارے لیے اب مغفرت اور رحمت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کوئی سزا دینے کے لیے اس وقت میں نے تمہیں نہیں بلایا ہے بلکہ بڑے بڑے معجزے دے کر میں تمہیں ایک کارِ عظیم پر بھیجنے والا ہوں۔
16. سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا گیا ہے کہ موسیٰ کو ہم نے صریح طور پر نظر آنے والی نونشانیاں (تِسْعَ اٰیٰتٍ مبَیِّنٰتٍ) عطا فرمائی تھیں۔ اور سورہ اعراف میں ان کی تفصیل یہ بیان کی گئی ہے :(۱)لاٹھی جو اژدھا بن جاتی تھی(۲) ہاتھ جو بغل سے سورج کی طرح چمکتا ہوا نکلتا تھا۔(۳)جا دو گروں کو بر سرِ عام شکست دینا۔(۴) حضرت موسیٰ کے پیشگی اعلان کے مطابق سارے ملک میں قحط۔(۵) طوفان(۶)ٹڈی دل۔(۷) تمام غَلّے کے ذخیروں میں سُرسُر یاں اور انسان و حیوان میں جوئیں۔(۸) مینڈکوں کا طوفان۔(۹)اور خون۔(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الزخرف، حاشیہ ۴۳)۔
17. قرآن میں دوسرے مقامات پر بیان کیا گیا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام کے اعلان کے مطابق کوئی بلائے عام مصر پر نازل ہوتی تھی تو فرعون حضرت موسیٰ سے کہتا تھا کہ تم اپنے خدا سے دعا کر کے اس بلا کو ٹلوا دو، پھر جو کچھ تم کہتے ہو وہ ہم مان لیں گے۔ مگر جب وہ بلا ٹل جاتی تھی تو فرعون اپنی اُسی ہٹ دھرمی پر تُل جاتا تھا(الاعراف، آیت ۱۳۴۔ الزخرف، آیت۴۹۔۵۰) ۔ بائیبل میں بھی اس کا ذکر موجود ہے (خروج، باب ۸ تا ۱۰) ۔ اور ویسے بھی یہ بات کسی طرح تصوّر میں نہ آسکتی تھی کہ ایک پورے ملک پر قحط اور طوفان اور ٹڈی دلوں کا ٹوٹ پڑنا اور مینڈکوں اور سُرسُر یوں کے بے شمار لشکروں کا اُمنڈ آنا کسی جادو کا کرشمہ ہو سکتا ہے۔یہ ایسے کُھلے ہوئے معجزے تھے جن کو دیکھ کر ایک بیوقوف سے بیوقوف آدمی بھی یہ سمجھ سکتا تھا کہ پیغمبر کے کہنے پر ایسی ملک گیر بلاؤں کا آنا اور پھر اس کے کہنے پر ان کا دَور ہو جانا صرف اللہ ربّ العالمین ہی کے تصرف کا نتیجہ ہو سکتا ہے ۔ اسی بنا پر حضرت موسیٰ نے فرعون سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ ھٰٓؤُلَآءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ،”تو خوب جان چکا ہے کہ یہ نشانیاں مالک زمین و آسمان کے سوا کسی اور نے نازل نہیں کی ہیں“(بنی اسرائیل، آیت ۱۰۲)۔ لیکن جس وجہ سے فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں نے جان بوجھ کر ان کا انکار کیا وہ یہ تھی کہ اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَ یْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُھُمَا لَنَا عَا بِدُوْنَ،”کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں کی بات مان لیں حالانکہ ان کی قوم ہماری غلام ہے“؟(المومنون، آیت۴۷)۔