Tafheem ul Quran

Surah 27 An-Naml, Ayat 15-31

وَلَـقَدۡ اٰتَيۡنَا دَاوٗدَ وَ سُلَيۡمٰنَ عِلۡمًا​ ۚ وَقَالَا الۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِيۡرٍ مِّنۡ عِبَادِهِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿27:15﴾ وَوَرِثَ سُلَيۡمٰنُ دَاوٗدَ​ وَقَالَ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمۡنَا مَنۡطِقَ الطَّيۡرِ وَاُوۡتِيۡنَا مِنۡ كُلِّ شَىۡءٍؕ​ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الۡفَضۡلُ الۡمُبِيۡنُ‏  ﴿27:16﴾ وَحُشِرَ لِسُلَيۡمٰنَ جُنُوۡدُهٗ مِنَ الۡجِنِّ وَالۡاِنۡسِ وَالطَّيۡرِ فَهُمۡ يُوۡزَعُوۡنَ‏ ﴿27:17﴾ حَتّٰٓى اِذَاۤ اَتَوۡا عَلٰى وَادِ النَّمۡلِۙ قَالَتۡ نَمۡلَةٌ يّٰۤاَيُّهَا النَّمۡلُ ادۡخُلُوۡا مَسٰكِنَكُمۡ​ۚ لَا يَحۡطِمَنَّكُمۡ سُلَيۡمٰنُ وَجُنُوۡدُهٗۙ وَهُمۡ لَا يَشۡعُرُوۡنَ‏ ﴿27:18﴾ فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنۡ قَوۡلِهَا وَقَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِىۡۤ اَنۡ اَشۡكُرَ نِعۡمَتَكَ الَّتِىۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَىَّ وَعَلٰى وَالِدَىَّ وَاَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًـا تَرۡضٰٮهُ وَاَدۡخِلۡنِىۡ بِرَحۡمَتِكَ فِىۡ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيۡنَ‏ ﴿27:19﴾ وَتَفَقَّدَ الطَّيۡرَ فَقَالَ مَا لِىَ لَاۤ اَرَى الۡهُدۡهُدَ ​ۖ  اَمۡ كَانَ مِنَ الۡغَآئِبِيۡنَ‏ ﴿27:20﴾ لَاُعَذِّبَـنَّهٗ عَذَابًا شَدِيۡدًا اَوۡ لَا۟اَذۡبَحَنَّهٗۤ اَوۡ لَيَاۡتِيَنِّىۡ بِسُلۡطٰنٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿27:21﴾ فَمَكَثَ غَيۡرَ بَعِيۡدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمۡ تُحِطۡ بِهٖ وَ جِئۡتُكَ مِنۡ سَبَاٍۢ بِنَبَاٍ يَّقِيۡنٍ‏ ﴿27:22﴾ اِنِّىۡ وَجَدتُّ امۡرَاَةً تَمۡلِكُهُمۡ وَاُوۡتِيَتۡ مِنۡ كُلِّ شَىۡءٍ وَّلَهَا عَرۡشٌ عَظِيۡمٌ‏ ﴿27:23﴾ وَجَدْتُّهَا وَقَوۡمَهَا يَسۡجُدُوۡنَ لِلشَّمۡسِ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيۡطٰنُ اَعۡمَالَهُمۡ فَصَدَّهُمۡ عَنِ السَّبِيۡلِ فَهُمۡ لَا يَهۡتَدُوۡنَۙ‏  ﴿27:24﴾ اَلَّا يَسۡجُدُوۡا لِلّٰهِ الَّذِىۡ يُخۡرِجُ الۡخَبۡءَ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَيَعۡلَمُ مَا تُخۡفُوۡنَ وَمَا تُعۡلِنُوۡنَ‏ ﴿27:25﴾ اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِيۡمِ ۩‏ ﴿27:26﴾ قَالَ سَنَـنۡظُرُ اَصَدَقۡتَ اَمۡ كُنۡتَ مِنَ الۡكٰذِبِيۡنَ‏ ﴿27:27﴾ اِذۡهَبْ بِّكِتٰبِىۡ هٰذَا فَاَلۡقِهۡ اِلَيۡهِمۡ ثُمَّ تَوَلَّ عَنۡهُمۡ فَانْظُرۡ مَاذَا يَرۡجِعُوۡنَ‏ ﴿27:28﴾ قَالَتۡ يٰۤاَيُّهَا الۡمَلَؤُا اِنِّىۡۤ اُلۡقِىَ اِلَىَّ كِتٰبٌ كَرِيۡمٌ‏  ﴿27:29﴾ اِنَّهٗ مِنۡ سُلَيۡمٰنَ وَاِنَّهٗ بِسۡمِ اللّٰهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِۙ‏  ﴿27:30﴾ اَلَّا تَعۡلُوۡا عَلَىَّ وَاۡتُوۡنِىۡ مُسۡلِمِيۡنَ‏ ﴿27:31﴾

15 - (دُوسری طرف)ہم نے داوٴدؑ و سلیمانؑ کو علم عطا کیا 18اور اُنہوں نے کہا کہ شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہم کو اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا کی۔19 16 - اور داوٴدؑ کا وارث سلیمانؑ ہوا20۔ اور اس نے کہا ”لوگو، ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی ہیں21 اور ہمیں ہر طرح کی چیزیں دی گئی ہیں22، بے شک یہ (اللہ کا)نمایاں فضل ہے۔“ 17 - سلیمانؑ کے لیے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے تھے23 اور وہ پُورے ضبط میں رکھے جاتے تھے۔ 18 - (ایک مرتبہ وہ ان کے ساتھ کُوچ کر رہا تھا)یہاں تک کہ جب یہ سب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا ”اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھُس جاوٴ، کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمانؑ اور اس کے لشکر تمہیں کُچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔“24 19 - سلیمانؑ اس کی بات پر مُسکراتے ہوئے ہنس پڑا اور بولا۔۔۔۔ ”اے میرے ربّ، مجھے قابو میں رکھ25 کہ میں تیرے احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تُو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عملِ صالح کروں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر۔“26 20 - (ایک اور موقع پر)سلیمانؑ نے پرندوں کا جائزہ لیا27 اور کہا ”کیا بات ہے کہ میں فلاں ہُد ہُد کو نہیں دیکھ رہا ہوں۔ کیا وہ کہیں غائب ہو گیا ہے؟ 21 - میں اسے سخت سزا دوں گا، یا ذبح کر دوں گا، ورنہ اسے میرے سامنے معقول وجہ پیش کرنی ہوگی۔28 22 - کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اُس نے آکر کہا ”میں نے وہ معلومات حاصل کی ہیں جو آپ کے عِلم میں نہیں ہیں۔ میں سَبا کے متعلق یقینی اطلاع لے کر آیا ہوں۔29 23 - میں نے وہاں ایک عورت دیکھی جو اس قوم کی حکمراں ہے۔ اُس کو ہر طرح کا سرو سامان بخشا گیا ہے اور اُس کا تخت بڑا عظیم الشان ہے ۔ 24 - میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے سُورج کے آگے سجدہ کرتی ہے30“ ۔۔۔۔ 31شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے32 اور انہیں شاہراہ سے روک دیا، اس وجہ سے وہ یہ سیدھا راستہ نہیں پاتے 25 - کہ اُس خدا کو سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے33 اور سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھُپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو۔ 34 26 - اللہ کہ جس کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں، جو عرشِ عظیم کا مالک ہے۔35 السجدة 27 - سلیمانؑ نے کہا ”ابھی ہم دیکھے لیتے ہیں کہ تُو نے سچ کہا ہے یا تُو جھُوٹ بولنے والوں میں سے ہے۔ 28 - میرا یہ خط لے جا اور اسے ان لوگوں کی طرف ڈال دے، پھر الگ ہٹ کر دیکھ کہ وہ کیا ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں۔“36 29 - ملکہ بولی ”اے اہلِ دربار، میری طرف ایک بڑا اہم خط پھینکا گیا ہے۔ 30 - وہ سلیمانؑ کی جانب سے ہے اور اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے شروع کیا گیا ہے۔ 31 - مضمون یہ ہے کہ ”میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور مسلم ہو کر میرے پاس حاضر ہو جاوٴ۔“37 ؏۲


Notes

18. یعنی حقیقت کا علم۔ اِ س بات کا علم کہ درحقیقت ان کے پا س اپنا کچھ بھی نہیں ہے ، جو کچھ ہے اللہ کا عطیہ ہے ، او ر اُس پر تصرف کرنے کے جو اختیارات بھی ان کو بخشے گئے ہیں انہیں اللہ ہی کی مرضی کے مطابق استعمال کیا جانا چاہیے، اور اس اختیار کے صحیح و غلط استعمال پر انہین مالک حقیقی کے حضور جواب دہی کرنی ہے ۔ یہ علم اُس جہالت کی ضد ہے جس میں فرعون مبتلا تھا۔ اُس جہالت نے جو سیرت تعمیر کی تھی اس کا نمونہ اوپر مذکور ہوا۔ اب بتایا جاتا ہے کہ یہ علم کیسی سیرت کا نمونہ تیار کرتا ہے ۔ بادشاہی، دولت، حشمت، طاقت ،دونوں طرف یکساں ہے ۔ فرعون کو بھی یہ ملی تھی ، اور داؤد و سلیمان علیہما السلام کو بھی۔ لیکن جہالت اور علم کے فرق نے ان کے درمیان کتنا عظیم الشان فرق پیدا کر دیا۔

19. یعنی دوسرے مومن بندے بھی ایسے موجود تھے جن کو خلافت عطا کی جاسکتی تھی۔ لیکن یہ ہماری کوئی ذاتی خوبی نہیں بلکہ محض اللہ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس مملکت کی فرمانروائی کے لیے منتخب فرمایا۔

20. وراثت سے مراد مال و جائداد کی وراثت نہیں بلکہ نبوت اور خلافت میں حضرت داؤدؑ کی جانشینی ہے۔ مال و جائداد کی میراث اگر بالفرض منتقل ہوئی بھی ہو تو وہ تنہا حضرت سلیمان ہی کی طرف منتقل نہیں ہو سکتی تھی ، کیونکہ حضرت داؤد کی دوسری اولاد بھی موجود تھی۔ اس لیے اس آیت کو اُس حدیث کی تردید میں پیش نہیں کیا جا سکتا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ لا نورث ما ترکنا صدقۃ، ”ہم انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی، جو کچھ ہم نے چھوڑاوہ صدقہ ہے “(بخاری، کتاب فرض الخمس) اور ان النبی لا یورث انما میراثہ فی فقراء المسلمین و المساکین،”نبی کا وارث کوئی نہیں ہوتا، جو کچھ وہ چھوڑتا ہے وہ مسلمانوں کے فقراء اور مساکین میں تقسیم کیا جاتا ہے“(مسند احمد، مرویات ابو بکر صدیقؓ، حدیث نمبر۶۰،نمبر۷۸)

حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ ان کا اصل عبرانی نام سولومون تھا جو ”سلیم“ کا ہم معنی ہے ۔ ۹۶۵؁ قبل مسیح میں حضرت داؤد کے جانشین ہوئے اور ۹۶۶؁ ق م تک تقریباً ۴۰ سال فرمانروا رہے۔ ان کے حالات کی تفصیل کے لیےملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الحجر، حاشیہ ۷۔جلد سوم، الانبیاء، حواشی۷۴۔۷۵۔ ان کے حدودِ سلطنت کے متعلق ہمارے مفسرین نے بہت مبالغہ سے کام لیا ہے ۔ وہ انہیں دنیا کے بہت بڑے حصے کا حکمراں بتاتے ہیں، حالانکہ ان کی مملکت صرف موجودہ فلسطین و شرقِ اردن پر مشتمل تھی اور شام کا ایک حصہ بھی اس میں شامل تھا۔ (ملاحظہ ہو نقشۂ ملک سلیمان، تفہیم القرآن جلد دوم ص۵۹۸)۔

21. بائیبل اس ذکر سے خالی ہے کہ حضرت سلیمان کو پرندوں اور جانوروں کی بولیوں کا علم دیا گیا تھا۔ لیکن بنی اسرائیل کی روایات میں اس کی صراحت موجود ہے(جیوش انسائکلو پیڈیا۔ جلد ۱۱۔ص۴۳۹)۔

22. یعنی اللہ کا دیا ہمارے پاس سب کچھ موجود ہے ۔ اس بات کو لفظی معنوں میں لینا درست نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد اللہ کے بخشے ہوئے مال و دولت اور سازو سامان کی کثرت ہے ۔ یہ بات حضرت سلیمانؑ نے فخریہ نہیں فرمائی تھی بلکہ اللہ کے فضل اور اس کی عطا و بخشش کا شکریہ ادا کرنا مقصود تھا۔

23. بائیبل میں اس کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے کہ جن حضرت سلیمانؑ کے لشکروں میں شامل تھے اور وہ ان سے خدمت لیتے تھے۔ لیکن تَلمود اور ربیوں کی روایات میں اس کا تفصیلی ذکر ملتا ہے (جیوش انسائکلو پیڈیا جلد ۱۱ صفحہ ۴۴۰) موجودہ زمانہ کے بعض لوگوں نے یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے کہ جِن اور طَیر سے مراد جِنّات اور پرندے نہیں ہیں بلکہ انسان ہی ہیں جو حضرت سلیمان ؑ کے لشکر میں مختلف کام کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ جِن سے مراد پہاڑی قبائل کےوہ لوگ ہیں جنہیں حضرت سلیمان ؑ نے مسخر کیا تھا اور وہ ان کے ہاں حیرت انگیز طاقت اور محنت کے کام کرتے تھے۔ اور طیر سے مراد گھوڑ سواروں کے دستے ہیں جو پیدل دستوں کی بہ نسبت بہت زیادہ تیزی سے نقل و حرکت کرتے تھے۔ لیکن یہ قرآن مجید میں بے جا تاویل کی بد ترین مثالیں ہیں۔ قرآن یہاں جِن، انس اور طَیر، تین الگ الگ اقسام کے لشکر بیان کر رہا ہے اور تینوں پر الف ل تعریف جنس کے لیے لایا گیا ہے ۔ اس لیے لامحالہ الجن اور الطیر، الانس میں شامل نہیں ہو سکتے بلکہ وہ اس سے مختلف دو الگ اجناس ہی ہو سکتی ہیں۔ علاوہ بریں کوئی شخص جو عربی زبان سے ذرہ برابر بھی واقفیت رکھتا ہو، یہ تصور نہیں کر سکتا کہ اس زبان سے محض لفظ الجِن بول کر انسانوں کا کوئی گروہ یا محض الطیر بول کر سواروں کارسالہ کبھی مراد لیا جا سکتا ہے اور کوئی عرب ان الفاظ کو سن کر ان کے یہ معنی سمجھ سکتا ہے۔ محض محاورے میں کسی انسان کو اس کے فوق العادۃ کام کی وجہ سے جِن، یا کسی عورت کو اس کے حسن کی وجہ سے پری، اور کسی تیز رفتار آدمی کو پرندہ کہہ دینا یہ معنی نہیں رکھتا کہ اب جِن کے معنی طاقت ور آدمی اور پری کے معنی حسین عورت اور پرندے کے معنی تیز رفتار انسان ہی کے ہو جائیں۔ ان الفاظ کے یہ معنی تو مجاز ی ہیں نہ کہ حقیقی، اور کسی کلام میں کسی لفظ کو حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی معنوں میں صرف اُسی وقت استعمال کیا جا سکتا ہے، اور سننے والے بھی ان کو مجاز ی معنوں میں صرف اُسی وقت لے سکتے ہیں جب کہ آس پاس کوئی واضح قرینہ ایسا موجود ہو جو اس کے مجاز ہونے پر دلالت کر تا ہو۔ یہاں آخر کونساقرینہ پایا جاتا ہے جس سے یہ گمان کیا جا سکے کہ جِن اور طیر کے الفاظ اپنے حقیقی لغوی معنوں میں نہیں بلکہ مجازی معنوں میں استعمال کیے گئے ہیں ؟ بلکہ آگے ان دونوں گروہوں کے ایک ایک فرد کا جو حال اور کام بیان کیا گیا ہے وہ تو اس تاویل کے بالکل خلاف معنی پر صریح دلالت کر رہا ہے ۔ کسی شخص کا دل اگر قرآن کی بات پر یقین نہ کرنا چاہتا ہو تو اسے صاف کہنا چاہیے کہ میں اس بات کو نہیں مانتا۔ لیکن یہ بڑی اخلاقی بزدلی اور علمی خیانت ہے کہ آدمی قرآن کے صاف صاف الفاظ کو توڑ مروڑ کر اپنے من مانے معنی پر ڈھالے اور یہ ظاہر کرے کہ وہ قرآن کے بیان کو مانتا ہے، حالانکہ دراصل قرآن نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اسے نہیں بلکہ خود اپنے زبردستی گھڑے ہوئے مفہوم کو مانتا ہے۔

24. اس آیت کو بھی آج کل کے بعض مفسرین نے تاویل کے خراد پر چڑھایا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ وادی النمل سے مراد چیونٹیوں کی وادی نہیں ہے بلکہ یہ ایک وادی کا نام ہے جو شام کے علاقے میں تھی اور نملۃ کے معنی ایک چیونٹی کے نہیں ہیں بلکہ یہ ایک قبیلہ کا نام ہے ۔ اس طرح وہ آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ”جب حضرت سلیمانؑ وادی النمل میں پہنچے تو ایک نملی نے کہا کہ اے قبیلہ نمل کے لوگو.....“۔ لیکن یہ بھی ایسی تاویل ہے جس کا ساتھ قرآن کے الفاظ نہیں دیتے ۔ اگر بالفرض وادی النمل کو اُس وادی کا نام مان لیا جائے ، اور یہ بھی مان لیا جائے کہ وہاں بنی النمل نام کا کوئی قبیلہ رہتا تھا، تب بھی یہ بات عربی زبان کے استعمالات کے بالکل خلاف ہے کہ قبیلہ نمل کے ایک فرد کو نملہ کیا جائے۔ اگرچہ جانوروں کے نام پر عرب کے بہت سے قبائل کے نام ہیں، مثلاً کلب، اسد وغیرہ ۔ لیکن عرب قبیلہ کلب کے کسی فرد کے متعلق قال کلب( ایک کتے نے یہ کہا) یا قبیلہ اسد کے کسی شخص کے متعلق قَالَ اَسَدٌ ( ایک شیر نے کہا) ہر گز نہیں بولے گا۔ اس لیے بنی النمل کے ایک فرد کے متعلق یہ کہنا کہ قَالَتْ نَمْلَۃٌ، ( ایک چیونٹی یہ بولی) قطعاً عربی محاورہ و استعمال کے خلاف ہے ۔ پھر قبیلہ نمل کے ایک فرد کا بنی النمل کو پکار کر یہ کہنا کہ”اے نمیلو، اپنے گھروں میں گُھس جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان کے لشکر تم کو کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو“بالکل بے معنی ہے۔ انسانوں کے کسی گروہ کو انسانوں کا کوئی لشکر بے خبری میں نہیں کچلا کرتا ۔ اگر وہ اُن پر حملے کی نیت سے آیا ہو تو اُن کا اپنے گھروں میں گھس جانا لا حاصل ہے۔ حملہ آور اُن کے گھروں میں گھس کا انہیں اور زیادہ اچھی طرح کچلیں گے۔ اور اگر وہ محض کوچ کرتا ہوا گزر رہا ہو تو اس کے لیے بس راستہ صاف چھوڑد ینا کافی ہے ۔ کوچ کرنے والوں کی لپیٹ میں آکر انسانوں کو نقصان تو پہنچ سکتا ہے ، مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ چلتے ہوئے انسان بے خبری میں انسانوں کو کچل ڈالیں۔لہذا اگر بنی النمل کو ئی انسانی قبیلہ ہوتا اور اس کا کوئی فرد اپنے قبیلے کے لوگوں کو خبر دار کر نا چاہتا تو حملے کے خطرے کی صورت میں وہ کہتا کہ ”اے نمیلو، راستہ سے ہٹ جاؤ تا کہ تم میں سے کوئی شخص سلیمانؑ کے لشکروں کی جھپیٹ میں نہ آجائے“۔

یہ تو وہ غلطی ہے جو اس تاویل میں عربی زبان اور مضمون عبارت کے اعتبار سے ہے۔ رہی یہ بات کہ وادی النمل دراصل اس وادی کا نام تھا، اور وہاں بنی النمل نامی کوئی قبیلہ رہتا تھا، یہ محض ایک مفروضہ ہے جس کے لیے کوئی علمی ثبوت موجود نہیں ہے ۔ جن لوگوں نے اسے وادی کا نام قرار دیا ہے انہوں نے خو د یہ تصریح کی ہے کہ اسے چیونٹیوں کی کثرت کے باعث یہ نام دیا گیا تھا۔ قَتَادہ اور مُقاتل کہتے ہیں کہ واد با رض الشامِ کثیر النمل ” وہ ایک وادی ہے سرزمینِ شام میں جہاں چیونٹیاں بہت ہیں“۔ لیکن تاریخ و جغرافیہ کی کسی کتاب میں اور آثار قدیمہ کی کسی تحقیقات میں یہ مذکور نہیں ہے کہ اس وادی میں بنی النمل نامی کوئی قبیلہ بھی رہتا تھا۔ یہ صرف ایک من گھڑت ہے جو اپنی تاویل کی گاڑی چلانے کے وضع کر لی گئی ہے۔

بنی اسرائیل کی روایات میں بھی یہ قصہ پایا جاتا ہے ۔ مگر اس کا آخری حصہ قرآن کے خلاف ہے اور حضڑت سلیمانؑ کی شان کے خلاف بھی ہے ۔ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت سلیمان ؑ جب ایک وادی سے گزر رہے تھے جس میں چیونٹیاں بہت تھیں تو انہوں نے سنا کہ ایک چیونٹی پکار کردوسری چیونٹیوں سے کہہ رہی ہے کہ ”اپنے گھروں میں داخل ہو جاؤ ورنہ سلیمانؑ کے لشکر تمہیں کچل ڈالیں گے“۔اس پر حضرت سلیمانؑ نے اس چیونٹی کے سامنے بڑے تکبر کا اظہار کیا اور جواب میں اس چیونٹی نے ان سے کہا کہ تمہاری حقیقت کیا ہے ، ایک حقیر بوند سے تو تم پیدا ہوئے ہو ۔ یہ سن کر حضرت سلیمانؑ شرمندہ ہو گئے(جیوش انسائکلو پیڈیا، ج۱۱، ص۴۴۰)۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کس طرح بنی اسرائیل کی غلط روایا ت کی تصحیح کرتا ہے اور ان گندگیوں کو صاف کرتا ہے جو انہوں نے خود اپنے پیغمبروں کی سیرتوں پر ڈال دی تھیں۔ اِ ن روایات کے متعلق مغربی مستشرقین بے شرمی کے ساتھ یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ قرآن نے سب کچھ ان سے سر قہ کر لیا ہے۔

عقلی حیثیت سے یہ بات کچھ بھی بعید نہیں ہے کہ ایک چیونٹی اپنی جنس کے افراد کو کسی آتے ہوئے خطرے سے خبر دار کرے اور بلوں میں گھس جانے کے لیے کہے۔ رہی یہ بات کہ حضرت سلیمانؑ نے اس کی بات کیسے سُن لی، تو جس شخص کے حواس کلامِ وحی جیسی لطیف چیزکا ادراک کر سکتے ہوں، اس کے لیے چیونٹی کے کلام جیسی کثیف (Crude ) چیز کا ادراک کر لینا کوئی بڑی مشکل بات نہیں ہے۔

25. اصل الفاظ ہیں رَبِّ اَوْ زِعْنِیْ ۔ وزع کے اصل معنی عرب زبان میں روکنے کے ہیں۔ اس موقع پر حضڑت سلیمانؑ کا یہ کہنا کہ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ ( مجھے روک کہ میں تیرے احسان کا شکر ادا کروں) ہمارے نزدیک دراصل یہ معنی دیتا ہے کہ اے میرے رب جو عظیم الشان قوتیں اور قابلیتیں تو نے مجھے دی ہیں وہ ایسی ہیں کہ اگر میں ذرا سی غفلت میں بھی مبتلا ہو جاؤں تو حدِّ بندگی سے خارج ہو کر اپنی کبریائی کے خبط میں نہ معلوم کہاں سے کہاں نکل جاؤں۔ اس لیے اے میرے پر وردگار، تو مجھے قابو میں رکھ تا کہ میں کافرِ نعمت بننے کے بجائے شکرِ نعمت پر قائم رہوں۔

26. صالح بندوں میں داخل کرنے سے مراد غالباً یہ ہے کہ آخرت میں میراانجام صالح بندوں کے ساتھ ہو اور میں ان کے ساتھ جنت میں داخل ہوں ۔ اس لیے کہ آدمی جب عمل صالح کر ے گا تو صالح تو وہ آپ سے آپ ہوگا ہی، البتہ آخرت میں کسی کا جنت میں داخل ہونا محض اس کے عمل صالح کے بل بوتے پر نہیں ہو سکتا بلکہ یہ اللہ کی رحمت پر موقوف ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لن ید خل احد کم الجنۃ عملہ”تم میں سے کسی کو بھی محض اس کا عمل جنت میں نہیں پہنچا دے گا“۔غرض کیا گیا کہ ولا انت یا رسُول اللہ”کیا حضورؐ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے“؟فرمایا ولا انا الا ان یتغمد فی اللہ تعالیٰ برحمتہ” ہاں، میں بھی محض اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں نہ چلا جاؤں گا جب تک اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے مجھے نہ ڈھانک لے“۔

حضرت سلیمانؑ کی یہ دعا اس موقع پر بالکل بے محل ہو جاتی ہے اگر النمل سے مراد انسانوں کا کوئی قبیلہ لے لیا جائے اور نملۃ کے معنی قبیلہ نمل کے ایک فرد کے لے لیے جائیں ۔ ایک بادشاہ کے لشکر جرار سے ڈر کر کسی انسانی قبیلہ کے ایک فرد کا اپنے قبیلے کو خطرہ سے خبر دار کرنا آخر کونسی ایسی غیر معمولی بات ہے کہ وہ جلیل القدر بادشاہ اس پر خدا سے یہ دعا کرنے لگے۔ البتہ ایک شخص کو اتنی زبردست قوتِ ادراک حاصل ہونا کہ وہ دور سے ایک چیونٹی کی آواز بھی سُن لے اور اس کا مطلب بھی سمجھ جائے ضرور ایسی بات ہے جس سے آدمی کے غرورِ نفس میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو۔ اسی صورت میں حضرت سلیمانؑ کی یہ دعا بر محل ہو سکتی ہے۔

27. یعنی اُن پرندوں کا جن کے متعلق اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ جِن اور انس کی طرح ان کے لشکر بھی حضرت سلیمان کے عسا کر میں شامل تھے۔ ممکن ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ان سے خبررسانی ، شکار اور اسی طرح کے دوسرے کام لیتے ہوں۔

28. موجودہ زمانے کے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہُد ہُد سے مراد وہ پرندہ نہیں ہے جو عربی اور اُردو زبان میں اس نام سے معروف ہے بلکہ یہ ایک آدمی کا نام ہے جو حضرت سلیمانؑ کی فوج میں ایک افسر تھا ۔ اس دعوے کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ تاریخ میں کہیں ہُد ہُد نام کا کوئی شخص اِن حضرات کو سلیمان علیہ السلام کی حکومت کے افسروں کی فہرست میں مل گیا ہے، بلکہ یہ عمارت صرف اس استدلال پر کھڑی کی گئی ہے کہ جانوروں کے ناموں پر انسانوں کے نام رکھنے کا رواج تمام زبانوں کی طرح عربی زبان میں بھی پایا جاتا ہے اور عبرانی میں بھی تھا۔ نیز یہ کہ آگے اس ہُد ہُد کا جو کام بیان کیا گیا ہے اور حضرت سلیمانؑ سے اس کی گفتگو کا جو ذکر ہے وہ ان کے نزدیک صرف ایک انسان ہی کر سکتا ہے۔ لیکن قرآن مجید کے سیاق ِ کلام کو آدمی دیکھے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن کی تفسیرنہیں بلکہ اس کی تحریف، اور اس سے بھی کچھ بڑھ کر اس کی تغلیظ ہے۔ آخر قرآن کو انسان کی عقل و خرد سے کیا دشمنی ہے کہ وہ کہنا تو یہ چاہتا ہو کہ حضرت سلیمان کے رسالے یا پلٹن یا محکمہ خبر رسانی کا ایک آدمی غائب تھا جسے انہوں نے تلاش کیا اور اس نے حاضر ہو کر یہ خبر دی اور اسے حضرت موصوف نے اِس خدمت پر بھیجا ، لیکن اسے وہ مسلسل ایسی چسیتان کی زبان میں بیان کرے کہ پڑھنے والا اول سے لے کر آخر تک اسے پرندہ ہی سمجھنے پر مجبور ہو۔ اس سلسلہ میں ذرا قرآن مجید کے بیان کی ترتیب ملا حظہ فرمائیے۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے اللہ کے اس فضل پر اظہارِ امتنانِ کیا کہ ”ہمیں منطق الطیر کا علم دیا گیا ہے“۔ اس فقرے میں اوّل تو طیر کا لفظ مطلق ہے جسے ہر عرب اور عربی دان پرندے ہی کے معنی میں لے گا۔ کیونکہ کوئی قرینہ اس کے استعارہ و مجاز ہونے پر دلالت نہیں کر رہا ہے۔ دوسرے ، اگر طیر سے مراد پرندہ نہیں بلکہ انسانوں کا کوئی گروہ ہو تو اس کے لیے منطق (بولی) کے بجائے لغت یا لسان (یعنی زبان) کا لفظ زیادہ صحیح ہوتا ۔ اور پھر کسی شخص کا کسی دوسرے انسانی گروہ کی زبان جاننا کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے کہ وہ خاص طور پر اس کا ذکر کرے۔ آج ہمارے درمیان ہزار ہا آدمی بہت سی غیر زبانوں کے بولنے اور سمجھنے والے موجود ہیں۔ یہ آخر کونسا بڑا کمال ہے جسے اللہ تعالیٰ کا غیر معمولی عطیہ قرار دیا جا سکے۔

اس کے بعد فرمایاگیا کہ ”سلیمان کے لیے جِن اور انس اور طیر کے لشکر جمع کیے گئے تھے“۔ اس فقرے میں اوّل تو جِن اور انس اور طیر، تین معروف اسمائے جنس استعمال ہوئے ہیں جو تین مختلف اور معلوم اجناس کے لیے عربی زبان میں مستعمل ہیں۔ پھر انہیں مطلق استعمال کیا گیا ہے اور کوئی قرینہ ان میں سے کسی کے استعارہ و مجاز یا تشبیہ ہونے کا موجود نہیں ہے جس سے ایک آدمی لغت کے معروف معنوں کے سوا کسی اور معنی میں انہیں لے۔ پھر انس کا لفظ جِن اور طَیر کے درمیان آیا ہے جو یہ معنی لینے میں صریحاً مانع ہے کہ جِن اور طَیر دراصل انس ہی کی جنس کے دو گروہ تھے۔ یہ معنی مراد ہوتے تو الجن و الطیر من الانس کہا جاتا نہ کہ من الجن و الانس و الطیر۔

آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ طَیر کا جائزہ لے رہے تھے اور ہُدہُد کو غائب دیکھ کر انہوں نے یہ بات فرمائی۔ اگر یہ طَیر انسان تھا اور ہُد ہُد بھی کسی آدمی کا نام ہی تھا تو کم از کم کوئی لفظ تو ایسا کہہ دیا جاتا کہ بے چارہ پڑھنے والا اس کو جانور نہ سمجھ بیٹھتا۔ گروہ کا نام پرندہ اور اور اس کے ایک فرد کا نام ہُدہُد ، پھر بھی ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہم آپ سے آپ اسے انسان سمجھ لیں گے۔

پھر حضرت سلیمانؑ فرماتے ہیں کہ ہُدہُد یا تو اپنے غائب ہونے کی کوئی معقول وجہ بیان کرے ورنہ میں اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح کر دوں گا۔ انسان کو قتل کیا جاتا ہے ، پھانسی دی جاتی ہے ، سزائے موت دی جاتی ہے، ذبح کون کرتا ہے؟ کوئی بڑا ہی سنگدل اور بے درد آدمی جو شِ انتقام میں اندھا ہو چکا ہو تو شاید کسی آدمی کو ذبح بھی کر دے، مگر کیا پیغمبر سے ہم یہ توقع کریں کہ وہ اپنی فوج کے ایک آدمی کو محض غیر حاضر(Deserter ) ہونے کے جرم میں ذبح کر دینے کا اعلان کر ے گا، اور اللہ میاں سے یہ حُسنِ ظن رکھیں کہ وہ ایسی سنگین بات کا ذکر کر کے اس پر مذمت کا ایک لفظ بھی نہ فرمائیں گے؟

کچھ دور آگے چل کر ابھی آپ دیکھیں گے کہ حضرت سلیمانؑ اسی ہُد ہُد کو ملکہ سبا کے نام خط دے کر بھیجتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اسے ان کی طرف ڈال دے یا پھینک دے (اَلْقِہْ اِلَیْھِمْ)۔ ظاہر ہے کہ یہ ہدایت پرندے کو تو دی جا سکتی ہے لیکن کسی آدمی کو سفیر یا ایلچی یا قاصد بنا کر بھیجنے کی صورت میں یہ انتہائی غیرموزوں ہے ۔ کسی کی عقل ہی خبط ہوگئی ہو تو وہ مان لے گا کہ ایک ملک کا بادشاہ دوسرے ملک کی ملکہ کے نام خط دے کر اپنے سفیر کو اس ہدایت کے ساتھ بھیج سکتا ہے کہ اسے لے جا کر اس کے آگے ڈال دے یا اس کی طرف پھینک دے ۔ کیا تہذیب و شائستگی کے اُس ابتدائی مرتبے سے بھی حضرت سلیمان کو گرا ہوا فرض کر لیا جائے جس کا لحاظ ہم جیسے معمولی لوگ بھی اپنے کسی ہمسائے کے پاس اپنے ملازم کو بھیجتے ہوئے رکھتے ہیں؟ کیا کوئی شریف آدمی اپنے ملازم سے یہ کہہ سکتا ہے کہ میرا یہ خط لے جا کر فلاں صاحب کے آگے پھینک آ؟

یہ تمام قرائن صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں ہُدہُد کا مفہوم وہی ہے جو ازرو ئے لغت اس لفظ کا مفہوم ہے، یعنی یہ کہ وہ انسان نہیں بلکہ ایک پرندہ تھا۔ اب اگر کوئی شخص یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ایک ہُدہُد وہ باتیں کر سکتا ہے جو قرآن اس کی طرف منسوب کر رہا ہے تو اسے صاف صاف کہنا چاہیے کہ میں قرآن کی اس بات کو نہیں مانتا۔ اپنے عدمِ ایمان کو اس پردے میں چھپانا کہ قرآن کے صاف اور صریح الفاظ میں اپنے من مانے معنی بھرے جائیں ، گھٹیا درجے کی منافقت ہے۔

29. سبا جنوبی عرب کی مشہور تجارت پیشہ قوم تھی جس کا دارالحکومت مارِب ، موجودہ یمن کے دارالسطنت صنعاء سے ۵۵ میل بجانب شمال مشرق واقع تھا۔ اس کا زمانہ عروج مَعِین کی سلطنت کے زوال کے بعد تقریباً ۱۱۰۰؁ ق م سے شروع ہوا اور ایک ہزار سال تک یہ عرب میں اپنی عظمت کے ڈنکے بجاتی رہی۔ پھر ۱۱۵؁ ق م میں جنوبی عرب کی دوسری مشہور قوم حِمْیَر نے اس کی جگہ لے لی۔ عرب میں یمن اور حضرموت، اور افریقہ میں حبش کے علاقے پر اس کا قبضہ تھا۔ مشرقی افریقہ، ہندوستان، مشرق بعید اور خود عرب کی جتنی تجارت مصر و شام اور یونان وروم کے ساتھ ہوتی تھی وہ زیادہ تر انہی سبا ئیوں کے ہاتھ میں تھی۔ اسی وجہ سے یہ قوم قدیم زمانہ میں اپنی دولت کے لیے نہایت مشہور تھی۔ بلکہ یونانی مورخین تو اسے دنیا کی سب سے زیادہ مالدار قوم کہتے ہیں ۔ تجارت کے علاوہ ان کی خوشحالی کا بڑا سبب یہ تھا کہ انہوں نے اپنے ملک میں جگہ جگہ بند باندھ کر ایک بہترین نظامِ آب پاشی قائم کر رکھا تھا جس سے اُن کا پورا علاقہ جنت بنا ہوا تھا۔ اُن کے ملک کی اس غیر معمولی سر سبزی و شادابی کا ذکر یونانی مورخین نے بھی کیا ہے اور سورہ سبا کے دوسرے رکوع میں قرآن مجید بھی اس کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

ہُدہُد کا یہ بیان کہ”میں نے وہ معلومات حاصل کی ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہیں“۔یہ معنی نہیں رکھتا کہ حضرت سلیمانؑ سبا سے بالکل ناواقف تھے۔ ظاہر ہے کہ فلسطین و شام کے جس فرمانروا کی سلطنت بحرِ احمر کے شمال کنارے (خلیج عقبہ) تک پہنچی ہوئی تھی وہ اسی بحر احمر کے جنوبی کنارے(یمن) کی ایک ایسی قوم سے ناواقف نہ ہو سکتا تھا جو بین الاقوامی تجارت کے ایک اہم حصے پر قابض تھی۔ علاوہ ازیں زَبُور سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ سے بھی پہلے اُن کے والد ماجد حضرت داؤد سبا سے واقف تھے۔ اُن کی دعا کہ یہ الفاظ زبور میں ہمیں ملتے ہیں:

”اے خدا ، بادشاہ(یعنی خود حضرت داؤدؑ) کو اپنے احکام اور شاہزادے(یعنی حضرت سلیمانؑ) کو اپنی صداقت عطا فرما..... تر سیس اور جزیروں کے بادشاہ نذریں گزرانیں گے۔ سبا اور شیبا(یعنی سبا کی یمنی اور حبش شاخوں )کے بادشاہ ہدیے لائیں گے“۔(۷۲:۱۔۲و۱۰۔۱۱)۔

اس لیے ہُدہُد کے قول کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قوم سبا کے مرکز میں جو چشم دید حالات میں دیکھ کر آیا ہوں وہ ابھی تک آپ کو نہیں پہنچے ہیں۔

30. اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم اس زمانے میں آفتاب پرستی کے مذہب کی پیرو تھی۔ عرب کے قدیم روایات سے بھی اس کا یہی مذہب معلوم ہوتا ہے ، چنانچہ ابن اسحاق علمائے انساب کا یہ قول نقل کرتا ہے کہ سبا کی قوم دراصل ایک مورثِ اعلیٰ کی طرف منسوب ہے جس کا نام عبدِ شمس (بندہ آفتاب یا سورج کا پرستار) اور لقب سبا تھا۔ بنی اسرائیل کی روایات بھی اسی کی تائید کرتی ہیں۔ان میں بیان کیا گیا ہے کہ ہُدہُد جب حضرت سلیمان کا خط لے کر پہنچا تو ملکہ سبا سورج دیوتا کی پرستش کے لیے جا رہی تھی۔ ہُدہُد نے راستے ہی میں وہ خط ملکہ کے سامنے پھینک دیا۔

31. اندازِ کلام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں سے آخر پیر اگر اف تک کی عبارت ہُدہُد کے کلام کا جُز نہیں ہے بلکہ ”سورج کے آگے سجدہ کرتی ہے“ پر اس کی بات ختم ہوگئی اور اس کے بعد اب یہ ارشاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر بطور اضافہ ہے ۔ اس قیاس کو جو چیز تقویت دیتی ہے وہ یہ فقرہ ہے وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ،”اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو“۔ان الفاظ سے یہ گمان غالب ہوتا ہے کہ متکلم ہُدہُد اور مخاطب حضرت سلیمانؑ اور ان کے اہلِ دربار نہیں ہیں، بلکہ متکلم اللہ تعالیٰ اور مخاطب مشرکین ِ مکہ ہیں جن کو نصیحت کرنے ہی کے لیے یہ قصہ سنا یا جا رہا ہے۔ مفسرین میں سے علامہ آلوسی، صاحبِ روح المعانی بھی اسی قیاس کو ترجیح دیتے ہیں۔

32. یعنی دنیا کی دولت کمانے اور اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ شاندار بنا نے کے جس کام میں وہ منہمک تھے، شیطان نے اُن کو سُجھا دیا کہ بس یہی عقل و فکر کا ایک مصرف اور قوائے ذہنی و جسمانی کا ایک استعمال ہے ، اِس سے زیادہ کسی چیز پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی حاجت ہی نہیں ہے کہ تم خواہ مخواہ اِس فکر میں پڑو کہ اس ظاہر حیاتِ دنیا کے پیچھے حقیقتِ واقعی کیا ہے اور تمہارے مذہب، اخلاق، تہذیب اور نظامِ حیات کی بنیاد یں اُس حقیقت سے مطابقت رکھتی ہیں یا سراسر اس کے خلاف جا رہی ہیں۔ شیطان نے ان کو مطمئن کر دیا کہ جب تم دنیا میں دولت اور طاقت اور شان و شوکت کے لحاظ سے بڑھتے ہی چلے جا رہے ہو تو پھر تمہیں یہ سوچنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ ہمارے یہ عقائد اور فلسفے اور نظر یے ٹھیک ہیں یا نہیں۔ ان کے ٹھیک ہونے کی تو یہی ایک دلیل کافی ہے کہ تم مزے سے دولت کما رہے ہو اور عیش اُڑا رہے ہو۔

33. یعنی جوہر آن اُن چیزوں کو ظہور میں لا رہا ہے جو پیدائش سے پہلے نہ معلوم کہاں پوشیدہ تھیں۔ زمین کے پیٹ سے ہر آن بے شمار نباتات نکال رہا ہے اور طرح طرح کے معدنیات خارج کر رہا ہے ۔ عالم بالا کی فضاؤں سے وہ وہ چیزیں سامنے لا رہا ہے جن کے ظہور میں آنے سے پہلے انسان کا وہم و گمان بھی ان تک نہ پہنچ سکتا تھا۔

34. یعنی اس کا علم ہر چیز پر حاوی ہے ۔ اس کے لیے ظاہر اور مخفی سب یکساں ہیں۔ اس پر سب کچھ عیاں ہے۔

اللہ تعالیٰ کی ان دوصفات کو بطورِ نمونہ بیان کرنے سے مقصود دراصل یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ اگر وہ لوگ شیطان کے دھوکے میں نہ آتے تو یہ سیدھا راستہ انہیں صاف نظر آ سکتا تھا کہ آفتاب نامی ایک دہکتا ہوا کُرہ ، جو بیچارہ خود اپنے وجود کا ہوش بھی نہیں رکھتا، کسی عبادت کا مستحق نہیں ہے ، بلکہ صرف وہ ہستی اس کا استحقاق رکھتی ہے جو علیم و خبیر ہے اور جس کی قدرت ہر لحظہ نئے نئے کرشمے ظہور میں لا رہی ہے۔

35. اس مقام پر سجدہ واجب ہے ۔ یہ قرآن کے اُن مقامات میں سے ہے جہاں سجدہ تلاوت واجب ہونے پر فقہاء کا اتفاق ہے ۔ یہاں سجدہ کرنے سے مقصود یہ ہے کہ ایک مومن اپنے آپ کو آفتاب پرستوں سے جدا کرے اور اپنے عمل سے اس بات کا اقرار و اظہار کرے کہ وہ آفتاب کو نہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا مسجود و معبود مانتا ہے۔

36. یہاں پہنچ کر ہُد ہُد کا کردار ختم ہوتا ہے ۔ عقلیت کے مدعی حضرات نے جس بنا پر اسے پرندہ ماننے سےا نکار کیا ہے وہ یہ ہے کہ انہیں ایک پرندے کا اِس قوتِ مشاہدہ ، قوت تمیز اور قوتِ بیان سے بہرہ ور ہونا بعید از امکان معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ملک پر گزرے اور یہ جان لے کہ یہ قوم سبا کا ملک ہے، اس ملک کا نظامِ حکومت یہ ہے، اس کی فرمانروا فلاں عورت ہے ، اس کا مذہب آفتاب پرستی ہے، اس کو خدائے واحد کا پرستا ر ہونا چاہیے تھا مگر یہ گمراہی میں مبتلا ہے ، اور اپنے یہ سارے مشاہدات وہ آکر اس وضاحت کے ساتھ حضرت سلیمانؑ سے بیان کر دے۔ انہی وجوہ سے کھلے کھلے ملا حدہ قرآن پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ کَلِیلَہ دِمْنَہ کی سی باتیں کرتا ہے ، اور قرآن کی عقلی تفسیریں کرنے والے اس کے الفاظ کو ان کے صریح معنی سے پھیر کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ حضرت ہُدہُد تو سرے سے کوئی پرندے تھے ہی نہیں۔ لیکن ان دونوں قسم کے حضرات کے پاس آخر وہ کیا سائنٹیفک معلومات ہیں جن کی بنا پر وہ قطعیت کے ساتھ کہہ سکتے ہوں کہ حیوانات اور ان کی مختلف انواع اور پھر ان کے مختلف افراد کی قوتیں اور استعداد یں کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں۔ جن چیزوں کو وہ معلومات سمجھتے ہیں وہ درحقیقت اُس نہایت ناکافی مشاہدے سے اخذ کردہ نتائج ہیں جو محض سر سری طور پر حیوانات کی زندگی اور ان کے برتاؤ کا کیا گیا ہے ۔ انسان کو آج تک کسی یقینی ذریعہ سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ مختلف قسم کے حیوانات کیا جانتے ہیں، کیا کچھ دیکھتے اور سنتے ہیں، کیا محسوس کرتے ہیں، کیا سوچتے اور سمجھتے ہیں ، اور ان میں سے ہر ایک کا ذہن کس طرح کام کرتا ہے۔ پھر بھی جو تھوڑا بہت مشاہدہ مختلف انواع حیوانی کی زندگی کا کیا گیا ہے اس سے ان کی نہایت حیرت انگیز استعدادوں کا پتہ چلا ہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ ، جو اِن حیوانات کا خالق ہے ، ہم کو یہ بتاتا ہے کہ اس نے اپنے ایک نبی کو جانوروں کی منطق سمجھنے اور ان سے کلام کرنے کی قابلیت عطا کی تھی، اور اس نبی کے پاس سدھائے جانے اور تربیت پانے سے ایک ہُدہُد اس قابل ہو گیا تھا کہ دوسرے ملکوں سے یہ کچھ مشاہدے کر کے آتا اور پیغمبر کو ان کی خبر دیتا تھا، تو بجائے اس کے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اِس بیان کی روشنی میں حیوانات کے متعلق اپنے آج تک کے تھوڑے سے علم اور بہت سے قیاسات پر نظر ثانی کریں، یہ کیا عقلمندی ہے کہ ہم اپنے اس ناکافی علم کو معیار قرار دے کر اللہ تعالیٰ کے اس بیان کی تکذیب یا اس کی معنوی تحریف کرنے لگیں۔

37. یعنی خط کی اہمیت کئی وجوہ سے ہے۔ ایک یہ کہ وہ عجیب غیر معمولی طریقے سے آیا ہے ۔ بجائے اس کے کہ کوئی سفارت اسے لا کر دیتی ، ایک پرندے نے اسے لا کر مجھ پر ٹپکا دیا ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ فلسطین و شام کے عظیم فرمانروا سلیمانؑ کی جانب سے ہے۔ تیسرے یہ کہ اسے اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے شروع کیا گیا ہے، حالانکہ دنیا میں کہیں کسی سلطنت کے مراسلوں میں یہ طریقہ استعمال نہیں کیا جاتا۔ پھر سب دیوتاؤں کو چھوڑ کر صرف خدائے بزرگ و برتر کے نام پر خط لکھنا بھی ہماری دنیا میں ایک غیر معمولی بات ہے ۔ ان سب باتوں کے ساتھ یہ امر اس کی اہمیت کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے کہ اس میں بالکل صاف صاف ہم کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ ہم سرکشی چھوڑ کر اطاعت اختیار کر لیں اور تابع فرمان بن کر یا مسلمان ہو کر سلیمانؑ کے آگے حاضر ہوجائیں۔

”مسلم“ہو کرحاضر ہونے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ مطیع بن کر حاضر ہو جاؤ، دوسرے یہ کہ دینِ اسلام قبول کر کے حاضر ہو جاؤ۔ پہلا مفہوم حضرت سلیمانؑ کی شان ِ فرماں روائی سے مطابقت رکھتا ہے اور دوسرا مفہوم ان کی شان پیغمبری سے ۔ غالباً یہ جامع لفظ اسی لیے استعمال کیا گیا ہے کہ خط میں یہ دونوں مقاصد شامل تھے۔ اسلام کی طرف سے خود مختار قوموں اور حکومتوں کو ہمیشہ یہی دعوت دی گئی ہے کہ یا تودینِ حق قبول کر و اور ہمارے ساتھ نظامِ اسلامی میں برابر کے حصہ دار بن جاؤ، یا پھر اپنی سیاسی خود مختاری سے دست بردار ہو کر اسلامی نظام کی ماتحتی قبول کرو اور سیدھے ہاتھ سے جزیہ دو۔