Tafheem ul Quran

Surah 27 An-Naml, Ayat 32-44

قَالَتۡ يٰۤاَيُّهَا الۡمَلَؤُا اَفۡتُوۡنِىۡ فِىۡۤ اَمۡرِىۡ​ۚ مَا كُنۡتُ قَاطِعَةً اَمۡرًا حَتّٰى تَشۡهَدُوۡنِ‏ ﴿27:32﴾ قَالُوۡا نَحۡنُ اُولُوۡا قُوَّةٍ وَّاُولُوۡا بَاۡسٍ شَدِيۡدٍ ۙ وَّالۡاَمۡرُ اِلَيۡكِ فَانْظُرِىۡ مَاذَا تَاۡمُرِيۡنَ‏ ﴿27:33﴾ قَالَتۡ اِنَّ الۡمُلُوۡكَ اِذَا دَخَلُوۡا قَرۡيَةً اَفۡسَدُوۡهَا وَجَعَلُوۡۤا اَعِزَّةَ اَهۡلِهَاۤ اَذِلَّةً  ​ۚ وَكَذٰلِكَ يَفۡعَلُوۡنَ‏ ﴿27:34﴾ وَاِنِّىۡ مُرۡسِلَةٌ اِلَيۡهِمۡ بِهَدِيَّةٍ فَنٰظِرَةٌۢ بِمَ يَرۡجِعُ الۡمُرۡسَلُوۡنَ‏  ﴿27:35﴾ فَلَمَّا جَآءَ سُلَيۡمٰنَ قَالَ اَتُمِدُّوۡنَنِ بِمَالٍ فَمَاۤ اٰتٰٮنِۦَ اللّٰهُ خَيۡرٌ مِّمَّاۤ اٰتٰٮكُمۡ​ۚ بَلۡ اَنۡـتُمۡ بِهَدِيَّتِكُمۡ تَفۡرَحُوۡنَ‏  ﴿27:36﴾ اِرۡجِعۡ اِلَيۡهِمۡ فَلَنَاۡتِيَنَّهُمۡ بِجُنُوۡدٍ لَّا قِبَلَ لَهُمۡ بِهَا وَلَـنُخۡرِجَنَّهُمۡ مِّنۡهَاۤ اَذِلَّةً وَّهُمۡ صٰغِرُوۡنَ‏ ﴿27:37﴾ قَالَ يٰۤاَيُّهَا الۡمَلَؤُا اَيُّكُمۡ يَاۡتِيۡنِىۡ بِعَرۡشِهَا قَبۡلَ اَنۡ يَّاۡتُوۡنِىۡ مُسۡلِمِيۡنَ‏ ﴿27:38﴾ قَالَ عِفۡرِيۡتٌ مِّنَ الۡجِنِّ اَنَا اٰتِيۡكَ بِهٖ قَبۡلَ اَنۡ تَقُوۡمَ مِنۡ مَّقَامِكَ​ۚ وَاِنِّىۡ عَلَيۡهِ لَـقَوِىٌّ اَمِيۡنٌ‏ ﴿27:39﴾ قَالَ الَّذِىۡ عِنۡدَهٗ عِلۡمٌ مِّنَ الۡـكِتٰبِ اَنَا اٰتِيۡكَ بِهٖ قَبۡلَ اَنۡ يَّرۡتَدَّ اِلَيۡكَ طَرۡفُكَ​ؕ فَلَمَّا رَاٰهُ مُسۡتَقِرًّا عِنۡدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنۡ فَضۡلِ رَبِّىۡ​ۖ لِيَبۡلُوَنِىۡٓ ءَاَشۡكُرُ اَمۡ اَكۡفُرُ​ؕ وَمَنۡ شَكَرَ فَاِنَّمَا يَشۡكُرُ لِنَفۡسِهٖ​ۚ وَمَنۡ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّىۡ غَنِىٌّ كَرِيۡمٌ‏  ﴿27:40﴾ قَالَ نَكِّرُوۡا لَهَا عَرۡشَهَا نَـنۡظُرۡ اَتَهۡتَدِىۡۤ اَمۡ تَكُوۡنُ مِنَ الَّذِيۡنَ لَا يَهۡتَدُوۡنَ‏ ﴿27:41﴾ فَلَمَّا جَآءَتۡ قِيۡلَ اَهٰكَذَا عَرۡشُكِ​ؕ قَالَتۡ كَاَنَّهٗ هُوَ​ۚ وَاُوۡتِيۡنَا الۡعِلۡمَ مِنۡ قَبۡلِهَا وَ كُنَّا مُسۡلِمِيۡنَ‏ ﴿27:42﴾ وَصَدَّهَا مَا كَانَتۡ تَّعۡبُدُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ​ؕ اِنَّهَا كَانَتۡ مِنۡ قَوۡمٍ كٰفِرِيۡنَ‏ ﴿27:43﴾ قِيۡلَ لَهَا ادۡخُلِى الصَّرۡحَ​ ۚ فَلَمَّا رَاَتۡهُ حَسِبَـتۡهُ لُـجَّةً وَّكَشَفَتۡ عَنۡ سَاقَيۡهَا ​ؕ قَالَ اِنَّهٗ صَرۡحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنۡ قَوَارِيۡرَ ۙ​قَالَتۡ رَبِّ اِنِّىۡ ظَلَمۡتُ نَـفۡسِىۡ وَ اَسۡلَمۡتُ مَعَ سُلَيۡمٰنَ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏  ﴿27:44﴾

32 - (خط سُنا کر)ملکہ نے کہا ”اے سردارانِ قوم، میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو، میں کسی معاملہ کا فیصلہ تمہارے بغیر نہیں کرتی ہوں۔“38 33 - اُنہوں نے جواب دیا” ہم طاقت ور اور لڑنے والے لوگ ہیں۔ آگے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ خود دیکھ لیں کہ آپ کو کیا حکم دینا ہے۔“ 34 - ملکہ نے کہا کہ ”بادشاہ جب کسی ملک میں گھُس آتے ہیں تو اسے خراب اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں39۔ یہی کچھ وہ کیا کرتے ہیں40۔ 35 - میں اِن لوگوں کی طرف ایک ہدیہ بھیجتی ہوں، پھر دیکھتی ہوں کہ میرے ایلچی کیا جواب لے کر پلٹتے ہیں۔“ 36 - جب وہ (ملکہ کا سفیر)سلیمانؑ کے ہاں پہنچا تو اس نے کہا ”کیا تم لوگ مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ جو کچھ خدا نے مجھے دے رکھا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو تمہیں دیا ہے۔41 تمہارا ہدیہ تمہی کو مبارک رہے۔ 37 - (اے سفیر) واپس جا اپنے بھیجنے والوں کی طرف ۔ ہم ان پر ایسے لشکر لے کر آئیں گے42 جن کا مقابلہ وہ نہ کر سکیں گے اور ہم انہیں ایسی ذلّت کے ساتھ وہاں سے نکالیں گے کہ وہ خوار ہو کر رہ جائیں گے۔“ 38 - 43سلیمانؑ نے کہا ”اے اہلِ دربار، تم میں سے کون اس کا تخت میرے پاس لاتا ہے قبل اس کے کہ وہ لوگ مطیع ہو کر میرے پاس حاضر ہوں؟44 39 - جِنوں میں سے ایک قوی ہیکل نے عرض کیا میں اسے حاضر کر دوں گا قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اُٹھیں۔45 میں اس کی طاقت رکھتا ہوں اور امانتدار ہوں۔“46 40 - جس شخص کے پاس کتاب کا ایک علم تھا وہ بولا ”میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے لائے دیتا ہوں۔47“ جُونہی کہ سلیمانؑ نے وہ تخت اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا، وہ پکار اُٹھا ”یہ میرے ربّ کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کافرِ نعمت بن جاتا ہوں48۔ اور جو کوئی شکر کرتا ہے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، ورنہ کوئی نا شکری کرے تو میرا ربّ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ بزرگ ہے49۔“ 41 - 50سلیمانؑ نے کہا ”انجان طریقے سے اس کا تخت اس کے سامنے رکھ دو، دیکھیں وہ صحیح بات تک پہنچتی ہے یا اُن لوگوں میں سے ہے جو راہِ راست نہیں پاتے۔“51 42 - ملکہ جب حاضر ہوئی تو اس سے کہا گیا کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے؟ وہ کہنے لگی ”یہ تو گویا وہی ہے52۔ ہم تو پہلے ہی جان گئے تھے اور ہم نے سرِ اطاعت جُھکا دیا تھا۔ (یا ہم مسلم ہو چکے تھے)۔“53 43 - اُس کو (ایمان لانے سے)جس چیز نے روک رکھا تھا وہ اُن معبُودوں کی عبادت تھی جنہیں وہ اللہ کے سوا پُوجتی تھی، کیونکہ وہ ایک کافر قوم سے تھی۔54 44 - اس سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہو۔ اس نے جو دیکھا تو سمجھی کہ پانی کا حوض ہے اور اُترنے کے لیے اس نےاپنے پائینچے اُٹھا لیے۔ سلیمانؑ نے کہا یہ شیشے کا چکنا فرش ہے۔55 اس پروہ پکار اُٹھی ”اے میرے ربّ (آج تک)میں اپنے نفس پر بڑا ظلم کرتی رہی، اور اب میں نے سلیمانؑ کے ساتھ اللہ ربّ العالمین کی اطاعت قبول کر لی۔“56 ؏۳


Notes

38. اصل الفاظ ہیں حَتّٰی تَشْھَدُوْنَ، جب تک کہ تم حاضر نہ ہو ، یا تم گواہ نہ ہو ۔ یعنی اہم معاملات میں فیصلہ کرتے وقت تم لوگوں کی موجودگی میرے نزدیک ضروری ہے ، اور یہ بھی کہ جو فیصلہ میں کروں اس کے صحیح ہونے کی تم شہادت دو۔ اس سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ قوم سبا میں بادشاہی نظام تو تھا مگر وہ استبدادی نظام نہ تھا ، بلکہ فرماں روائے وقت معاملات کے فیصلے اعیان سلطنت کے مشورے سے کرتا تھا۔

39. اس ایک فقرے میں امپیر یلزم اور اس کے اثرات و نتائج پر مکمل تبصرہ کردیا گیا ہے ۔ بادشاہوں کی ملک گیری اور فاتح قوموں کی دوسری قوموں پر دست درازی کبھی اصلاح اور خیر خواہی کے لیے نہیں ہوتی۔ اس کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ دوسری قوم کو خدا نے جو رزق دیا ہے اور جو وسائل و ذرائع عطا کیے ہیں ان سے وہ خود متمتع ہوں اور اس قوم کو اتنا بے بس کر دیں کہ وہ کبھی ان کے مقابلے میں سر اٹھاکر اپنا حصہ نہ مانگ سکے۔ اس غرض کے لیے وہ اس کی خوشحالی اور طاقت اور عزت کے تمام ذرائع ختم کر دیتے ہیں، اس کے جن لوگوں میں بھی اپنی خودی کا دم داعیہ ہوتا ہے انہیں کچل کر رکھ دیتے ہیں، اس کے افراد میں غلامی ، خوشامد، ایک دوسرے کی کاٹ، ایک دوسرے کی جاسوسی ، فاتح کی نقالی، اپنی تہذیب کی تحقیر، فاتح تہذیب کی تعظیم اور ایسے ہی دوسرے کمینہ اوصاف پیدا کر دیتے ہیں، اور انہیں بتدریج اس بات کا خوگر بنا دیتےہیں کہ وہ اپنی کسی مقدس سے مقدس چیز کو بھی بیچ دینے میں تامل نہ کریں اور اجرت پر ہر ذلیل سے ذلیل خدمت انجام دینے کے لیے تیار ہوجائیں۔

40. اس فقرے میں دو برابر کے احتمال ہیں۔ ایک یہ کہ یہ ملکہ سبا ہی کا قول ہو اور اس نے اپنے پچھلے قول پر بطورِ تاکید اس کا اضافہ کیا ہو۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہو جو ملکہ کے قول کی تائید کے لیے جملہ معترضہ کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہو۔

41. اس جملے سے مقصود اظہار فخر و تکبر نہیں ہے۔ اصل مدعا یہ ہے کہ مجھے تمہارا مال مطلوب نہیں ہے بلکہ تمہارا ایمان مطلوب ہے ۔ یا پھر کم سے کم جو چیز میں چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم ایک صالح نظام کے تابع ہو جاؤ۔ اگر تم ان دونوں باتوں میں سے کسی کے لیے راضی نہیں ہو تو میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ مال و دولت کی رشوت لے کر تمہیں اس شرک اور اس فاسد نظامِ زندگی کے معاملہ میں آزاد چھوڑدوں۔ مجھے میرے رب نے جو کچھ دے رکھا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے کہ میں تمہارے مال کا لالچ کروں۔

42. پہلے فقرے اور اس فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جو کلام پر غور کرنے سے خود بخود سمجھ میں آجاتا ہے ۔ یعنی پوری بات یوں ہے کہ : اے سفیر، یہ ہدیہ واپس لے جا اپنے بھیجنے والوں کی طرف ، انہیں یا تو ہماری پہلی بات ماننی پڑے گی کہ مسلم ہو کر ہمارے پاس حاضر ہو جائیں، ورنہ ہم ان پر لشکر لے کر آئیں گے۔

43. بیچ میں یہ قصہ چھوڑ دیا گیا ہے کہ سفارت ملکہ کا ہدیہ واپس لے کر پہنچی اور جو کچھ اس نے دیکھا اور سنا تھا وہ عرض کر دیا۔ ملکہ نے اس سے حضرت سلیمانؑ کے جو حالات سنے ان کی بنا پر اس نے یہی مناسب سمجھا کہ خود ان کی ملاقات کے لیے بیت المقدس جائے۔ چنانچہ وہ خدم وحشم اور شاہی سازو سامان کے ساتھ سبا سے فلسطین کی طرف روانہ ہوئی اور اس نے دربار سلیمانی میں اطلاع بھیج دی کہ میں آپ کی دعوت خود آپ کی زبان سے سننے اور بالمشافہہ گفتگو کرنے کے لیے حاضر ہو رہی ہوں۔ ان تفصیلات کو چھوڑ کر اب اُس وقت کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے جب ملکہ بیت المقدس کے قریب پہنچ گئی تھی اور ایک دو ہی دن میں حاضر ہونے والی تھی۔

44. یعنی وہی تخت جس کے متعلق ہُد ہُد نے بتایا تھا کہ ”اس کا تخت بڑا عظیم الشان ہے“۔ بعض مفسرین نے غضب کیا ہے کہ ملکہ کے آنے سے پہلے اس کا تخت منگوانے کی وجہ یہ قرار دی ہے کہ حضرت سلیمانؑ اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، انہیں اندیشہ ہوا کہ اگر ملکہ مسلمان ہو گئی تو پھر اس کے مال پر اس کی مرضی کے بغیر قبضہ کر لینا حرام ہو جائے گا ، اس لیے انہوں نے اس کے آنے سے پہلے تخت منگا لینے کی جلدی کی، کیونکہ اس وقت ملکہ کا مال مباح تھا۔ استغفر اللہ! ایک نبی کی نیت کے متعلق یہ تصور بڑا ہی عجیب ہے ۔ آخر یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام تبلیغ کے ساتھ ساتھ ملکہ اور اس کے درباریوں کو ایک معجزہ بھی دکھا نا چاہتے تھے تاکہ اسے معلوم ہو کہ اللہ رب العالمین اپنے انبیاء کو کیسی غیر معمولی قدرتیں عطا فرماتا ہے اور اسے یقین آجائے کہ حضرت سلیمان واقعی اللہ کے نبی ہیں۔ اس سے بھی کچھ زیادہ غضب بعض جدید مفسرین نے کیا ہے ۔ وہ آیت کا ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ ”تم میں سے کون ہے جو ملکہ کےلیے ایک تخت مجھے لا دے“۔حالانکہ قرآن یاتینی بعرش لھا نہیں بلکہ بعرشھا کہہ رہا ہے جس کے معنی ”اس کا تخت“ہیں نہ کہ ”اس کے لیے ایک تخت“۔ یہ بات صرف اس لیے بنائی گئی ہے کہ قرآن کے اس بیان سے کسی طرح پیچھا چھڑا یا جائے کہ حضرت سلیمانؑ اس ملکہ ہی کا تخت یمن سے بیت المقدس اُٹھوا منگانا چاہتے تھے اور وہ بھی اسی طرح کہ ملکہ کے پہنچنے سے پہلے پہلے وہ آجائے۔

45. اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس جو جن تھے وہ آیا موجودہ زمانے کے بعض عقل پر ست مفسرین کی تاویلوں کے مطابق بنی نوع انسان میں سے تھے یا عرفِ عام کے مطابق اُسی پوشیدہ مخلوق میں سے جو جِن کے نام سے معروف ہے۔ ظاہر ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے دربار کی نشست زیادہ سے زیادہ تین چار گھنٹے کی ہوگی۔ اور بیت المقدس سے سبا کے پایہ تخت مارِب کا فاصلہ پرندے کی اڑان کے لحاظ سے بھی کم از کم ڈیڑھ ہزار میل کا تھا۔ اتنے فاصلہ سے ایک ملکہ کا عظیم الشان تخت اتنی کم مدت میں اٹھالانا کسی انسان کا کام نہیں ہو سکتا تھا، خواہ وہ عَمالِقہ میں سے کتنا ہی موٹا تازہ آدمی کیوں نہ ہو۔ یہ کام تو آج کل کا جِٹ طیارہ بھی انجام دینے پر قادر نہیں ہے۔ مسئلہ اتنا ہی نہیں ہے کہ تخت کہیں جنگل میں رکھا ہواور اسے اٹھا لایا جائے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ تخت ایک ملکہ کے محل میں تھا جس پر یقیناً پہرہ دار متعین ہو ں گے اور وہ ملکہ کی غیر موجودگی میں ضرور محفوظ جگہ رکھا گیا ہو گا۔ انسان جا کر اٹھا لانا چاہتا تو اس کے ساتھ ایک چھاپہ مار دستہ ہونا چاہیے تھا کہ لڑ بھڑا کر اسے پہرہ داروں سے چھین لائے۔ یہ سب کچھ آخر دربار بر خاست ہونے سے پہلے کیسے ہو سکتا تھا۔ اس چیزکا تصور اگر کیا جا سکتا ہے تو ایک حقیقی جِن ہی کے بارے میں کیا جاسکتا ہے۔

46. یعنی آپ مجھ پر یہ بھروسا کرسکتے ہیں کہ میں اسے خود اُڑا نہ لے جاؤں گا۔ یا اس میں سے کوئی قیمتی چیز نہ چُرا لوں گا۔

47. اس شخص کے بار ے میں قطعی طور پر یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کون تھا، اور اس کے پاس وہ کس خاص قسم کا علم تھا، اور اس کتاب سے کونسی کتاب مراد ہے جس کا علم اس کے پاس تھا۔ ان امور کی کوئی وضاحت نہ قرآن میں ہے نہ کسی حدیث صحیح میں۔ مفسرین میں سے بعض کہتے کہ وہ فرشتہ تھا اور بعض کہتے ہیں کہ وہ کوئی انسان تھا۔ پھر اُس انسان کی شخصیت کے تعین میں بھی ان کے درمیان اختلاف ہے ۔ کوئی آصف بن برخیاہ(Asaf-B- Barchiah ) کا نام لیتا ہے جو یہودی ربّیوں کی روایات کے مطابق رئیس الرجال(Prince of Men ) تھے، کوئی کہتا ہے کہ وہ حضرت خضر تھے، کوئی کسی اور کانام لیتا ہے ، اور امام رازی کو اصرار ہے کہ وہ خود حضرت سلیمانؑ تھے۔ لیکن ان میں سے کسی کا بھی کوئی قابلِ اعتماد ماخذ نہیں ہے ، اور امام رازی کی بات تو قرآن کے سیاق و سباق سے بھی مطابقت نہیں رکھتی۔ اسی طرح کتاب کے بارے میں بھی مفسرین کے اقول مختلف ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اس سے مراد لوحِ محفوظ ہے اور کوئی کتابِ شریعت مراد لیتا ہے ۔ لیکن یہ سب محض قیاسات ہیں۔ اور ایسے ہی قیاسات اُس علم کے بارے میں بھی بلا دلیل و ثبوت قائم کر لیے گئے ہیں جو کتاب سے اس شخص کو حاصل تھا۔ ہم صرف اُتنی ہی بات جانتے اور مانتے ہیں جتنی قرآن میں فرمائی گئی ہے ، یا جو اس کے الفاظ سے مترشح ہوتی ہے ۔ وہ شخص بہر حال جِن کی نوع میں سے نہ تھآ اور بعید نہیں کہ وہ کوئی انسان ہی ہو۔ ا سکے پاس کوئی غیر معمولی علم تھا اور وہ اللہ کی کسی کتاب(الکتابِ) سے ماخوذ تھا۔ جِن اپنے وجوہ کی طاقت سے اس تخت کو چند گھنٹوں میں اٹھا لانے کا دعوٰی کر رہا تھا۔ یہ شخص علم کی طاقت سے اس کو ایک لحظہ میں اٹھا لایا۔

48. قرآن مجید کا اندازِ بیان اس معاملہ میں بالکل صاف ہے کہ اُس ویو ہیکل جن کے دعوے کی طرح اِس شخص کا دعویٰ صرف دعوٰی ہی نہ رہا بلکہ فی الواقع جس وقت اِس نے دعویٰ کیا اسی وقت ایک ہی لحظہ میں وہ تخت حضرت سلیمانؑ کے سامنے رکھا نظر آیا۔ ذرا ان الفاظ پر غور کیجیے:

”اس شخص نے کہا میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے لے آتا ہوں۔ جونہی کہ سلیمانؑ سے اسے اپنے پاس رکھا دیکھا“۔

جو شخص واقعہ کے عجیب و غریب ہونے کا تصور ذہن سے نکال کر بجائے خود اس عبارت کو پڑھے گا وہ اس سے یہی مفہوم لے گا کہ اس شخص کے یہ کہتے ہی دوسرے لمحہ میں وہ واقعہ پیش آگیا جس کا اس نے دعویٰ کیا تھا۔ اس سیدھی سی بات کو خواہ مخواہ تاویل کے خراد پر چڑھانے کی کیا ضرورت ہے ؟ پھر تخت کو دیکھتے ہی حضرت سلیمانؑ کا یہ کہنا کہ ”یہ میرے رب کا فضل ہے تا کہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کافرِ نعمت بن جاتا ہوں،اسی صورت میں برمحل ہوسکتا ہےجب کہ یہ کوئی غیر معمولی واقعہ ہو۔ ورنہ اگر واقعہ یہ ہوتا کہ ان کا ایک ہوشیار ملازم ملکہ کے لیے جلدی سے ایک تخت بنا لایا یا بنوا لایا، تو ظاہر ہے کہ یہ ایسی کوئی نادر بات نہ ہو سکتی تھی کہ اس پر حضرت سلیمان ؑ بے اختیار ھٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ پکار اٹھتے اور ان کو یہ خطرہ لاحق ہو جاتا کہ اتنے جلدی مہمانِ عزیز کےلیے تخت تیار ہو جانے سے کہیں میں شاکرِ نعمت بننے کے بجائے کافرِ نعمت نہ بن جاؤں۔ آخر اتنی سی بات پر کسی مومن فرمانروا کو اتنا غرور اور کبر نفس لاحق ہو جانے کا کیا خطرہ ہو سکتا ہے، خصوصاً جبکہ وہ ایک معمولی مومن نہ ہو بلکہ اللہ کا نبی ہو۔

اب رہی یہ بات کہ ڈیڑھ ہزار میل سے ایک تختِ شاہی پلک چھپکتے کس طرح اُٹھ کا آگیا، تو اس کا مختصر جوا ب یہ ہے کہ زمان و مکان اور مادہ و حرکت کے جو تصورات ہم نے اپنے تجربات او ر مشاہدات کی بنا پر قائم کیے ہیں ان کے جملہ حدود صرف ہم ہی پر منطبق ہوتے ہیں۔ خدا کے لیے نہ یہ تصورات صحیح ہیں اور نہ وہ ان حدود سے محدود ہے۔ اس کی قدرت ایک معمولی تخت تو درکنار ، سورج اور اس سے بھی زیادہ بڑے سیاروں کو آن کی آن میں لاکھوں میل کا فاصلہ طے کر ا سکتی ہے ۔ جس خدا کے صرف ایک حکم سے یہ عظیم کائنات وجود میں آگئی ہے اس کا ایک ادنٰی اشارہ ہی ملکہ سبا کے تخت کو روشنی کی رفتار سے چلا دینے کےلیے کافی تھا۔ آخر اسی قرآن میں یہ ذکر بھی تو موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ رات اپنے بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے بیت المقدس لے بھی گیا اور واپس بھی لے آیا۔

49. یعنی وہ کسی کے شکر کا محتاج نہیں ہے۔ اس کی خدائی میں کسی کی شکر گزاری سے نہ ذرہ برابر کوئی اضافہ ہوتا ہے اور نہ کسی کی ناشکری و احسان فراموشی سے یک سِر مو کوئی کمی آتی ہے ۔ وہ آپ اپنے ہی بل بوتے پر خدائی کر رہا ہے، بندوں کے ماننے یا نہ ماننے پر اس کی خدائی منحصر نہیں ہے۔ یہی بات قرآن مجید میں ایک جگہ حضرت موسیٰ ؑ کی زبان سے نقل کی گئی ہےکہ اِنْ تَکْفُرُوْٓ ا اَنْتُمْ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا فَاِنَّ اللہَ لَغَنِیٌ حَمِیْدٌ۔”اگر تم اور ساری دنیا والے مل کر بھی کفر کریں تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے “۔(ابراہیم۔ آیت۸)۔ اور یہی مضمون اس حدیث قدسی کا ہے جو صحیح مسلم میں وارد ہوئی ہے کہ :

یقول اللہ تعالیٰ عبادی لو انّ اولکم و اٰخر کم و انسکم و جنکم کانوا علی اتقی قلب رجل منکم ما زاد ذٰلک فی ملکی شیئا ۔ یا عبادی لو ان اولکم واٰخر کم و انسکم و جنکم کانوا علے افجر قلب رجل منکم مانقص ذٰلک فی ملکی شیئا۔ یا عبادی انما ھی اعمالکم احصیھا لکم ثم او فیکم ایا ھا۔ فمن وجد خیر افلیحمد اللہ ومن وجد غیر ذٰلک فلا یومن الا نفسہ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو، اگر اول سے آخر تک تم سب انس اور جِن اپنے سب سے زیادہ متقی شخص کے دل جیسے ہو جاؤ تو اس سے میری بادشاہی میں کوئی اضافہ نہ ہو جائیگا۔ اے میرے بندو، اگر اول سے آخر تک تم سب انس اور جن اپنے سب سے زیادہ بدکار شخص کے دل جیسے ہو جاؤ تو میری بادشاہی میں اس سے کوئی کمی نہ ہوجائے گی۔ اے میرے بندو، یہ تمہارے اپنے اعمال ہی ہیں جن کا میں تمہارے حساب میں شمار کرتا ہوں ، پھر ان کی پوری پوری جزا تمہیں دیتا ہوں۔ پس جسے کوئی بھلائی نصیب ہوا سے چاہیے کہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جسے کچھ اور نصیب ہو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔

50. بیچ میں یہ تفصیل چھوڑ دی گئی ہے کہ ملکہ کیسے بیت المقدس پہنچی اور کس طرح اس کا استقبال ہوا ۔ اسے چھوڑ کر اب اس وقت کا حال بیا ن کی اجا رہا ہے جب وہ حضرت سلیمانؑ کی ملاقات کے لیے ان کے محل میں پہنچ گئی۔

51. ذو معنی فقرہ ہے۔اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ وہ یکایک اپنے ملک سے اتنی دور اپنا تخت موجود پا کر یہ سمجھ جاتی ہے یا نہیں کہ یہ اسی کا تخت اٹھا لایا گیا ہے ۔ اور یہ مطلب بھی ہے کہ وہ اس حیرت انگیز معجزے کو دیکھ کر ہدایت پاتی ہے یا اپنی گمراہی پر قائم رہتی ہے ۔

اس سے ان لوگوں کے خیال کی تردید ہوجاتی ہے جو کہتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ اس تخت پر قبضہ کرنے کی نیت رکھتے تھے۔ یہاں وہ خود اس مقصد کا اظہار فرما رہے ہیں کہ انہوں نے یہ کام ملکہ کی ہدایت کے لیے کیا تھا۔

52. اس سے ان لوگوں کے خیالات کی بھی تردید ہو جاتی ہے جنہوں نے صورتِ واقعہ کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے کہ گویا حضرت سلیمانؑ اپنی مہمان ملکہ کے لیے ایک تخت بنوانا چاہتے تھے، اس غرض کے لیے انہوں نے ٹینڈر طلب کیے، ایک ہٹے کٹے کاریگر نے کچھ زیادہ مدت میں تخت بنا دینے کی پیش کش کی۔ مگر ایک دوسرے ماہر استاد نے کہا میں تُرت پُھرت بنائے دیتا ہوں۔ اس سارے نقشے کا تارو پود اس بات سے بکھر جاتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے خود ملکہ ہی کا تخت لانے کے لیے فرمایا تھا(اَیُّکُمْ یَاْتِیَنِیْ بِعَرْشِھَا)، اور اس کی آمد پر اپنے ملازموں کو اسی کا تخت انجان طریقے سے اس کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا تھا(نَکِرُّوْ الَھَا عَرْشَھَا)، پھر جب وہ آئی تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے (اَھٰکَذَا عَرْشُکِ) او ر اس نے کہا گویا یہ وہی ہے (کَاَنَّہُ ھُوَ)۔ اس صاف بیان کی موجودگی میں اُن لا طائل تاویلات کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے ۔ اس پر بھی کسی کو شک رہے تو بعد کا فقرہ اسے مطمئن کرنے کے لیے کافی ہے۔

53. یعنی یہ معجزہ دیکھنے سے پہلے ہی سلیمان علیہ السلام کے جو اوصاف اور حالات ہمیں معلوم ہو چکے تھے ان کی بنا پر ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ وہ اللہ کے نبی ہیں ، محض ایک سلطنت کے فرمانروا نہیں ہیں۔ تخت کو دیکھنے اور ”گویا یہ وہی ہے “کہنے کے بعد اس فقرے کا اضافہ کرنے میں آخر کیا معنویت باقی رہ جاتی ہے اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ حضرت سلیمانؑ نے اس کے لیے ایک تخت بنوا کر رکھ دیا تھا؟ بالفرض اگر وہ تخت ملکہ کے تخت سے مشابہ ہی تیار کرا لیا گیا ہو تب بھی اس میں آخر وہ کیا کمال ہو سکتا تھا کہ ایک آفتاب پر ست ملکہ اسے دیکھ کر یہ بول اٹھتی کہ اُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِھَا وَ کُنَّا مُسْلِمِیْنَ،”ہم کو پہلے ہی علم نصیب ہو گیا تھا اور ہم مسلم ہو چکے تھے“۔

54. یہ فقرہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی پوزیشن واضح کرنے کے لیے ارشاد ہوا ہے ۔ یعنی اس میں ضد اور ہٹ دھرمی نہ تھی۔ وہ اس وقت تک صرف اس لیے کافر تھی کہ کافر قوم میں پیدا ہوئی تھی۔ ہوش سنبھالنے کے بعد سے اس کو جس چیز کے آگے سجدہ ریز ہونے کی عادت پڑی ہوئی تھی، بس وہی اس کے راستے میں ایک رکاوٹ بن گئی تھی۔ حضرت سلیمانؑ سے سابقہ پیش آنے پر جب اس کی آنکھیں کھلیں تو اس رکاوٹ کے ہٹ جانے میں ذرا سی دیر بھی نہ لگی۔

55. یہ آخری چیز تھی جس نے ملکہ کی آنکھیں کھول دیں۔ پہلی چیز حضرت سلیمانؑ کا وہ خط تھا جو عام بادشاہوں کے طریقے سے ہٹ کر اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے شروع کیا گیا تھا۔ دوسری چیز اس کے بیش قیمت ہدیوں کو رد کرنا تھا جس سے ملکہ کو اندازہ ہوا کہ یہ بادشاہ کسی اور طرز کا ہے ۔ تیسری چیز ملکہ کی سفارت کا بیان تھا جس سے اس کو حضرت سلیمانؑ کی متقیانہ زندگی، ان کی حکمت اور ان کی دعوتِ حق کا علم ہوا۔ اسی چیز نے اسے آمادہ کیا کہ خود چل کر ان سے ملاقات کرے، اور اسی کی طرف اس نے اپنے قول میں اشارہ کیا کہ ”ہم تو پہلے ہی جان گئے تھے اور ہم مسلم ہو چکےتھے“۔چوتھی چیز اس عظیم الشان تخت کا آناً فاناً مارِب سے بیت المقدس پہنچ جانا تھا جس سے ملکہ کو معلوم ہوا کہ اس شخص کی پشت پر اللہ تعالیٰ کی طاقت ہے ۔ اور اب آخری چیز یہ تھی کہ اس نے دیکھا جو شخص یہ سامانِ عیش وتنعُّم رکھتا ہے اور ایسے شاندار محل میں رہتا ہے وہ کس قدر غرورِ نفس سے پاک ہے، کتنا خدا ترس اور نیک نفس ہے ، کس طرح بات بات پر اس کا سر خدا کے آگے شکر گزاری میں جھکا جاتا ہے، اور اس کی زندگی فریفتگانِ حیاتِ دنیا کی زندگی سے کتنی مختلف ہے۔ یہی چیز تھی جس نے اسے وہ کچھ پکار اُٹھنے پر مجبور کر دیا جو آگے اس کی زبان سے نقل کیا گیا ہے۔

56. حضرت سلیمان ؑ اور ملکہ سبا کا یہ قصہ بائیبل کے عہدِ عتیق و جدید اور رروایات یہود، سب میں مختلف طریقوں سے آیا ہے ، مگر قرآن کا بیان ان سب سے مختلف ہے ۔ عہد عتیق میں اس قصّے کا خلاصہ یہ ہے:

”او جب سبا کی ملکہ نے خدا وند کے نام کی بابت سلیمان کی شہرت سنی تو وہ آئی تا کہ مشکل سوالوں سے اسے آزمائے۔ اور وہ بہت بڑی جِلَو کے ساتھ یروشلم میں آئی۔۔۔۔ جب وہ سلیمان کے پا س پہنچی تو اُس نے ان سب باتوں کے بارہ میں جو اس کے دل میں تھیں اس سے گفتگو کی۔ سلیمان نے ان سب کا جواب دیا۔۔۔۔ اور جب سبا کی ملکہ نے سلیمان کی ساری حکمت اور اس محل کی جو اس نے بنایا تھا اور اس کے دسترخوان کی نعمتوں اور اس کے ملازموں کی نشست اور اس کے خادموں کی حاضر باشی اور ان کی پوشاک اور اس کے ساقیوں اور اس سیڑھی کو جس سے وہ خداوند کے گھر جاتا تھا دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے اور اس نے بادشاہ سے کہا کہ وہ سچی خبر تھی جو میں نے تیرے کاموں اور تیری حکمت کی بابت اپنے ملک میں سنی تھی۔ تو بھی میں نے وہ باتیں باور نہ کیں جب تک خود آکر اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیا ۔ اور مجھے تو آدھا بھی نہیں بتایا گیا تھا کیونکہ تیری حکمت اور اقبال مندی اُ س شہرت سے جو میں نے سنی بہت زیادہ ہے ۔ خوش نصیب ہیں تیرے لوگ اور خوش نصیب ہیں تیرے یہ ملازم جو برابر تیرے حضور کھڑے رہتے اور تیری حکمت سنتے ہیں۔ خدا وند تیرا خدا مبارک ہو جو تجھ سے ایسا خوشنود ہوا کہ تجھے اسرائیل کے تخت پر بٹھایا۔۔۔۔ اور اس نے بادشاہ کو ایک سو بیس قنطار سونا اور مسالے کا بہت بڑا انبار اور بیش بہا جواہر دیے اور جیسے مسالےسبا کی ملکہ نے سلیمان بادشاہ کو دیے ویسے پھر کبھی ایسی بہتات کے ساتھ نہ آئے ۔۔۔۔ اور سلیمان بادشاہ نے سبا کی ملکہ کو سب کچھ جس کی وہ مشتاق ہوئی اور جوکچھ اس نے مانگا دیا۔ پھر وہ اپنے ملازموں سمیت اپنی مملکت کو لوٹ گئی “۔(۱۔سلاطین۱۰:۱۔۱۳۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون۲۔تواریخ۹:۱۔۱۲میں بھی ہے)۔

عہدِ جدید میں حضرت عیسٰی کی ایک تقریر کا صرف یہ فقرہ ملکہ سبا کے متعلق منقول ہوا ہے:

”دکھن کی ملکہ عدالت کے دن اس زمانہ کے لوگوں کے ساتھ اٹھ کر ان کو مجرم ٹھیرائے گی،کیونکہ وہ دنیا کے کنارے سے سلیمانؑ کی حکمت سننے کو آئی اور دیکھو یہاں وہ ہے جو سلیمان سے بھی بڑا ہے“۔(متی۱۲:۴۳۔لوقا۱۱:۳۱)۔

یہودی ربیوں کی روایات میں حضرت سلیمانؑ اور ملکہ سبا کا قصّہ اپنی بیشتر تفصیلات میں قرآن سے ملتا جلتا ہے۔ ھُدھُد کا غائب ہونا، پھر آکر سبا اور اس کی ملکہ کے حالات بیان کرنا، حضرت سلیمانؑ کا اس کے ذیعے سے خط بھیجنا، ھُدھُد کا عین اُس وقت وہ خط ملکہ کے آگے گرانا جبکہ وہ آفتاب کی پرستش کرنے جارہی تھی، ملکہ کا اس خط کو دیکھ کر اپنے وزراء کی کونسل منعقد کرنا، پھر ملکہ کا ایک قیمتی ہدیہ حضرت سلیمانؑ کے پاس بھیجنا ، خود یروشلم پہنچ کر ان سے ملنا، ان کے محل میں پہنچ کر یہ خیال کرنا کہ حضرت سلیمانؑ پانی کے حوض میں بیٹھے ہیں ، اور اس میں اترنے کے لیے پائینچے چڑھا لینا، یہ سب ان روایات میں اسی طرح مذکور ہے جس طرح قرآن میں بیان ہوا ہے ۔ مگر یہ ہدیہ وصول ہونے پر حضرت سلیمان کا جواب ، ملک کے تخت کو اُٹھوا منگانا، ہر موقع پر ان کا خدا کے آگے جھکنا ، اور آخر کار ملکہ کا ان کے ہاتھ پر ایمان لانا، یہ سب باتیں ، بلکہ خدا پرستی اور توحید کی ساری باتیں ہی ان روایات میں ناپید ہیں ۔ سب سے بڑھ کر غضب یہ ہے کہ ان ظالموں نے حضرت سلیمانؑ پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے ملکہ سبا کے ساتھ معاذ اللہ زنا کا ارتکاب کیا اور اسی حرامی نسل سے بابل کا بادشاہ بخت نصَّر پیدا ہوا جس نے بیت المقدس کو تباہ کیا(جیوش انسائیکلو پیڈیا ج۱۱۔ صفحہ۴۴۳) ۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ یہودی علما ء کا ایک گروہ حضرت سلیمان کا سخت مخالف رہا ہے ۔ ان لوگوں نے ان پر توراۃ کے احکام کی خلاف ورزی ، غرورِ حکومت ، غرور عقل و دانش ، زن مریدی، عیش پرستی اور شرک وبت پرستی کے گھناؤ نے الزامات لگائے ہیں(جیوش انسائیکلو پیڈیا ج ۱۱ ص۴۳۹۔۴۴۱)اور یہ اسی پر پیگنڈے کا اثر ہے کہ بائیبل انہیں نبی کے بجائے محض ایک بادشاہ کی حیثیت سے پیش کر تی ہے اور بادشاہ بھی ایسا جو معاذ اللہ احکامِ الہٰی ے خلاف مشرک عورتوں کے عشق میں گم ہو گیا ، جس کا دل خدا سے پھر گیا اور جو خدا کے سوا دوسرے معبودوں کی طرف مائل ہوگیا(۱۔سلاطین۱۱:۱۔۱۱)ان چیزوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن نے بنی اسرائیل پر کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے اکا بر کا دامن خود ا ن کی پھینکی ہوئی گندگیوں سے صاف کیا، اور یہ بنی اسرائیل کتنے احسان فراموش ہیں کہ اس پر بھی یہ قرآن اور اس کے لانے والے کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔