71. یہاں سے دوسر اخطبہ شروع ہوتا ہے اور یہ فقرہ اس کی تمہید ہے ۔اس تمہید سے یہ سبق سکھایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی تقریر کا آغاز کس طرح کرنا چاہیے۔ اسی بنا پر صحیح اسلامی ذہنیت رکھنے والے لوگ ہمیشہ سے اپنی تقریریں اللہ کی حمد اور اس کے نیک بندوں پر سلام سے شروع کرتے رہے ہیں۔ مگر اب اسے ملائیت سمجھا جانے لگا ہے اور موجودہ زمانے کے مسلمان مقررین اس سے کلام کی ابتدا کرنے کا تصور تک اپنے ذہن میں نہیں رکھتے ، یا پھر اس میں شرم محسوس کرتے ہیں۔
73. مشرکوں میں سے کوئی بھی اس سوال کا یہ جواب نہ دے سکتا تھا کہ یہ کام اللہ کے سوا کسی اور کے ہیں، یا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی ان میں شریک ہے ۔ قرآن مجید دوسرے مقامات پر کفارِ مکّہ اور مشرکین عرب کے متعلق کہتا ہے ، وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ خَلَقَھُنَّ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُ، وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ، ”اگر تم ان سے پوچھو کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے تو وہ ضرور کہیں گے اُس زبردست ، علم والے نے ہی ان کو پیدا کیا ہے“ (الزخرف آیت۹) وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللہُ،”اور اگر ان سے پوچھو کہ خود انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے“(الزخرف۔ آیت۸۷) وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآ ءً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا لَیَقُوْلُنَّ اللہُ،”اور اگر ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اور مردہ پڑی ہوئی زمین کو جِلا اٹھایا تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے “(العنکبوت۔آیت۶۳)قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالاَرْضَ۔۔۔۔ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللہ ،” ان سے پوچھو کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون جاندار کو بے جان میں سے اور بے جان کو جاندار میں سے نکالتا ہے؟ کون اس نظام ِ عالم کی تدبیر کر رہا ہے ؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ “(یونس۔ آیت۳۱)۔ عرب کے مشرکین ہی نہیں ، دنیا بھر کے مشرکین بالعموم یہی مانتے تھے اور آج بھی مانتے ہیں کہ کائنات کا خالق اور نظامِ کائنات کا مدبّر اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ اس لیے قرآن مجید کے اس سوال کا یہ جواب اُن میں سے کوئی شخص ہٹ دھرمی کی بنا پر برائے بحث بھی نہ دے سکتا تھا کہ ہمارے معبود خدا کے ساتھ اِن کاموں میں شریک ہیں، کیونکہ اگر وہ ایسا کہتا تو اس کی اپنی ہی قوم کے ہزار ہا آدمی اس کو جھٹلا دیتے اور صاف کہتے کہ ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے۔
اس سوال اور اس کے بعد کے سوالات میں صرف مشرکین ہی کے شرک کا ابطال نہیں ہے بلکہ دہریوں کی دہریت کا ابطال بھی ہے ۔ مثلاً اسی پہلے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ یہ بارش برسانے والا اور اس کے ذریعہ سے ہر طرح کی نباتات اُگانے والا کون ہے ؟ اب غور کیجیے، زمین میں اُس مواد کا ٹھیک سطح پریا سطح سے متصل موجود ہونا جو بے شمار مختلف اقسام کی نباتی زندگی کے لیے درکار ہے ، اور پانی کے اندر ٹھیک وہ اوصاف موجود ہونا جو حیوانی اور نباتی زندگی کی ضروریات کے مطابق ہیں، اور اس پانی کا پے در پے سمندروں سے اُٹھایا جانا اور زمین کے مختلف حصوں میں وقتاً فوقتاً ایک باقاعدگی کے ساتھ برسایا جانا، اور زمین ، ہوا ، پانی اور درجہ حرارت وغیرہ مختلف قوتوں کے درمیان ایسا متناسب تعاون قائم کرنا کہ اس سے نباتی زندگی کو نشوونما نصیب ہوا اور وہ ہر طرح کی حیوانی زندگی کے لیے اس کی بے شمار ضروریات پوری کرے، کیا یہ سب کچھ ایک حکیم کی منصوبہ بندی اور دانشمندانہ تدبیر اور غالب قدرت و ارادہ کے بغیر خود بخود اتفاقاً ہو سکتا ہے ؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ یہ اتفاقی حادثہ مسلسل ہزار ہا برس بلکہ لاکھوں کروڑوں برس تک اسی باقاعدگی سے رونما ہوتا چلا جائَے؟ صرف ایک ہٹ دھرم آدمی ہی ، جو تعصب میں اندھا ہو چکا ہو، اسے ایک امر اتفاقی کہہ سکتا ہے ۔کسی راستی پسند عاقل انسان کے لئے ایسا لغو دعویٰ کرنا اور ماننا ممکن نہیں ہے۔
74. زمین کا اپنی بے حدو حساب مختلف النوع آبادی کے لیے جائے قرار ہونا بھی کوئی سادہ سی بات نہیں ہے ۔ اس کرہ خاکی کو جِن حکیمانہ مناسبتوں کےساتھ قائم کیا گیا ہے ، ان کی تفصیلات پر آدمی غور کرے تو اس کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مناسبتیں ایک حکیم و دانا قادرِ مطلق کی تدبیر کے بغیر قائم نہ ہو سکتی تھیں۔ یہ کُرَہ فضائے بسیط میں معلق ہے ، کسی چیز پر ٹِکا ہوا نہی ہے ۔ مگر اس کے با وجود اس میں کوئی اضطراب اور اہتزاز نہیں ہے ۔ اگر اس میں ذرا سا بھی اہتزاز ہوتا، جس کے خطر ناک نتائج کا ہم کبھی زلزلہ آجانے سے بآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں، تو یہاں کوئی آبادی ممکن نہ تھی۔ یہ کرہ با قاعدگی کے ساتھ سورج کے سامنے رہتا اور دوسرا رُخ ہر وقت چھپا رہتا تو یہاں کوئی آبادی ممکن نہ ہوتی کیونکہ ایک رُخ کو سردی اور بے نوری نباتات اور حیوانات کی پیدائش کے قابل نہ رکھتی اور دوسرے رُخ کو گرمی کی شدت بے آب و گیا ہ اور غیر آباد بنا دیتی۔ اس کرہ پر پانچ سو میل کی بلندی تک ہوا کا ایک کثیف ردّا چڑھا دیا گیا ہے جو شہابوں کی خوفناک بم باری سے اسے بچائے ہوئے ہے ۔ ورنہ روزانہ دو کروڑ شہاب، جو ۳۰ میل فی سکینڈ کی رفتار سے زمین کی طرف گرتے ہیں، یہاں وہ تباہی مچاتے کہ کوئی انسان ، حیوان یا درخت جیتا نہ رہ سکتا تھا۔ یہی ہوا درجۂ حرارت کو قابو میں رکھتی ہے ، یہی سمندروں سے بادل اٹھاتی اور زمین کے مختلف حصوں تک آب رسانی کی خدمت انجام دیتی ہے اور یہی انسان اور حیوان اور نباتات کی زندگی کو مطلوبہ گیسیں فراہم کرتی ہے۔ یہ نہ ہوتی تب بھی زمین کسی آبادی کے لیے جائے قرار نہ بن سکتی ۔ اس کُرے کی سطح سے بالکل متصل وہ معدنیات اور مختلف قسم کے کیمیاوی اجزاء بڑے پیمانے پر فراہم کر دیے گئے ہیں جو نباتی، حیوانی اور انسانی زندگی کے لیے مطلوب ہیں۔ جس جگہ بھی یہ سرو سامان مفقود ہوتا ہے وہاں کی زمین کسی زندگی کو سہارنے کے لائق نہیں ہوتی۔ اس کُرے پر سمندروں ، دریاؤں، جھیلوں، چشموں اور زیر زمین سوتوں کی شکل میں پانی کا بڑا عظیم الشان ذخیرہ فراہم کر دیا گیا ہے ، اور پہاڑوں پر بھی اس کے بڑے بڑے ذخائر کو منجمد کرنے اور پھر پگھلا کر بہانے کا انتظام کیا گیا ہے ۔ اس تدبیر کے بغیر یہاں کسی زندگی کا امکان نہ تھا۔ پھر اس پانی ، ہوا اور تمام اُن اشیاء کو جو زمین پر پائی جاتی ہیں ، سمیٹیے رکھنے کے لیے اس کُرے میں نہایت ہی مناسب کشش رکھ دی گئی ہے ۔ یہ کشش اگر کم ہوتی تو ہوا اور پانی ، دونوں کو نہ روک سکتی اور درجۂ حرارت اتنا زیادہ ہوتا کہ زندگی یہاں دشوار ہو جاتی۔ یہ کشش اگر زیادہ ہوتی تو ہوا بہت کثیف ہو جاتی ، اس کا دباؤ بہت بڑھ جاتا، بخارات آبی کا اُٹھنا مشکل ہوتا اور بارشیں نہ ہو سکتیں، سردی زیادہ ہوتی ، زمین کے بہت کم رقبے آبادی کے قابل ہوتے، بلکہ کششِ ثقل بہت زیادہ ہونے کی صورت میں انسان اور حیوانات کی جسامت بہت کم ہوتی اور ان کا وزن اتنا زیادہ ہوتا کہ نقل و حرکت بھی ان کے لیے مشکل ہوتی۔ علاوہ بریں ، اس کرے کو سورج سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے جو آبادی کے لے مناسب ترین ہے ۔ اگر اس کا فاصلہ زیادہ ہوتا تو سورج سے اس کو حرارت کم ملتی، سردی بہت زیادہ ہوتی، موسم بہت لمبے ہوتے ، اور مشکل ہی سے یہ آبادی کے قابل ہوتا۔ اور اگر فاصلہ کم ہوتا تو اس کے بر عکس گرمی کی زیادتی اور دوسری بہت سی چیزیں مل جل کر اسے انسان جیسی مخلوق کی سکونت کے قابل نہ رہنے دیتیں۔
یہ صرف چند وہ مناسبتیں ہیں جن کی بدولت زمین اپنی موجودہ آبادی کے لیے جائے قرار بنی ہے ۔ کوئی شخص عقل رکھتا ہو اور ان امور کو نگاہ میں رکھ کر سوچے تو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی نہ یہ تصور کر سکتا ہے کہ کسی خالق حکیم کی منصوبہ سازی کے بغیر یہ مناسبتیں محض ایک حادثہ کے نتیجے میں خود بخود قائم ہو گئی ہیں، اور نہ یہ گمان کر سکتا ہے کہ اس عظیم الشان تخلیقی منصوبے کو بنانے اور روبعمل لانے میں کسی دیوی یا دیوتا، یا جن ، یا نبی و ولی، یا فرشتے کا کوئی دخل ہے۔
75. یعنی میٹھے اور کھاری پانی کے ذخیرے ، جو اسی زمین پر موجود ہیں ، مگر وہ خلط ملط نہیں ہوتے۔ زیر زمین پانی کی سوتیں بسا اوقات ایک ہی علاقے میں کھاری پانی الگ اور میٹھا پانی الگ لے کر چلتی ہیں۔ کھاری پانی کے سمندر تک میں بعض مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے رواں ہوتے ہیں اور ان کی دھار سمندر کے پانی سے اس طرح الگ ہوتی ہے کہ بحری مسافر اس میں سے پینے کے لیے پانی حاصل کر سکتے ہیں۔(تفصیلی بحث کےلیے ملاحظہ ہوں تفہیم القرآن، سورہ الفرقان، حاشیہ ۶۸)
76. مشرکین عرب خود اس بات کو جانتے اور مانتے تھے کہ مصیبت کو ٹالنے والا حقیقت میں اللہ ہی ہے چنانچہ قرآن مجید جگہ جگہ انہیں یاد دلاتا ہے کہ جب تم پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو تم خدا ہی سے فریاد کرتے ہو، مگر جب وہ وقت ٹل جاتا ہے تو خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگتے ہو(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول الانعام، حواشی۲۹۔۴۱۔جلد دوم،یونس،آیات۲۱۔۲۲۔حاشیہ۳۱۔النحل،حاشیہ۴۶۔بنی اسرائیل حاشیہ،۸۴۔ )اور یہ بات صرف مشرکین عرب ہی تک محدود نہیں ہے دنیا بھر کے مشرکین کا بالعموم یہی حال ہے ۔ حتٰی کے روس کے منکرین خدا جنہوں نے خدا پرستی کے خلاف ایک باقاعدہ مہم چلا رکھی ہے ، ان پر بھی جب گزشتہ جنگ عظیم میں جرمن فوجوں کا نرغہ سخت ہو گیا تو انہیں خدا کو پکار نے کی ضرورت محسوس ہوگئی تھی۔
77. اس کے دو معنی ہیں ۔ ایک یہ کہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل اور ایک قوم کے بعد دوسری قوم اٹھاتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ تم کو زمین میں تصرف اور فرما نروائی کے اختیارات عطا کرتا ہے
78. یعنی جس نے ستاروں کے ذریعے سے ایسا انتظام کر دیا ہے کہ تم رات کے اندھیرے میں بھی اپنا راستہ تلاش کر سکتے ہو۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکیمانہ تدبیروں میں سے ایک ہے کہ اس نے بحری اور بری سفروں میں انسان کی رہنمائی کے لیے وہ ذرائع پیدا کر دیے ہیں جن سے وہ اپنی سمت سفر ، اور منزلِ مقصود کی طرف اپنی راہ متعین کر تا ہے ۔ دن کے وقت زمین کی مختلف علامتیں اور آفتا ب کے طلوع و غروب کی سمتیں اس کی مدد کرتی ہیں اور تاریک راتوں میں تارے اس کی رہنمائی کرتے ہیں ۔ سورہ نحل میں ان سب کو اللہ تعالی ٰکے احسانات میں شمار کیا گیا ہے:وَعَلَامَاتٍ وَّ بِالنَّجْمِ ھُمْ یَھْتَدُوْنَ،(آیت۱۶)۔
79. رحمت سے مراد ہے بارش، جس کے آنے سے پہلے ہوائیں اس کی آمدآمد کی خبر دے دیتی ہیں۔
80. یہ سادہ سی بات جس کو ایک جملے میں بیان کر دیا گیا ہے ، اپنے اندر ایسی تفصیلات رکھتی ہے کہ آدمی ان کی گہرائی میں جتنی دور تک اُترتا جاتا ہے اتنے ہی وجودِ الٰہ اور وحدتِ الٰہ کے شواہد اسے ملتے چلے جاتے ہیں۔ پہلے تو بجائے خود تخلیق ہی کو دیکھیے۔ انسان کا علم آج تک یہ راز نہیں پاسکا ہے کہ زندگی کیسے اور کہاں سے آتی ہے ۔ اس وقت تک مُسلم سائنٹیفک حقیقت یہی ہے کہ بے جان مادّے کی محض ترکیب سے خود بخود جان پیدا نہیں ہو سکتی۔ حیات کی پیدائش کے لیے جتنے عوامل درکار ہیں ان سب کا ٹھیک تناسب کے ساتھ بالکل اتفاقاً جمع ہو کر زندگی کا آپ سے آپ وجود میں آجانا دہریوں کا ایک غیرعلمی مفروضہ تو ضرور ہے، لیکن اگر ریاضی کے قانون بخت و اتفاق(law of Change ) کو اس پر منطبق کیا جائے تو اس کے وقوع کا امکان صفر سے زیادہ نہیں نکلتا۔ اب تک تجربی طریقے پر سائنس کے معمولوں (labo ratories ) میں بے جان مادے سے جاندار مادہ پیدا کرنے کی جتنی کوششیں بھی کی گئی ہیں، تمام ممکن تدابیر استعمال کرنے کے با وجود وہ سب قطعی ناکام ہو چکی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ جو چیز پیدا کی جا سکی ہے وہ صرف وہ مادہ ہے جسے اصطلاح میں (D.N.A ) کہا جاتا ہے ۔ یہ وہ مادہ ہے جو زندہ خلیوں میں پایا جاتا ہے ۔ یہ جو ہرِ حیات تو ضرور ہے مگر خودجاندار نہیں ہے ۔ زندگی اب بھی بجائے خود ایک معجزہ ہی ہے جس کی کوئی علمی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جا سکی ہے کہ یہ ایک خالق کے امر و ارادہ اور منصوبہ کا نتیجہ ہے ۔
اس کے بعد آگے دیکھیے ۔ زندگی محض ایک مجرد صورت میں نہیں بلکہ بے شمارمتنّوع صورتوں میں پائِی جاتی ہے ۔ اس وقت تک روئے زمین پر حیوانات کی تقریباً دس لاکھ اور نباتات کی تقریباً دو لاکھ انواع کا پتہ چلا ہے ۔ یہ لکھو کھا انواع اپنی ساخت اور نوعی خصوصیات میں ایک دوسرے سے ایسا واضح اور قطعی امتیاز رکھتی ہے ، اور قدیم ترین معلوم زمانے سے اپنی اپنی صورتِ نوعیہ کو اس طرح برقرار رکھتی چلی آرہی ہے کہ ایک خدا کے تخلیقی منصوبے (Design ) کے سوا زندگی کے ایک عظیم تنّوع کی کوئی اور معقول توجیہ کرد ینا کسی ڈراون کے بس کی بات نہیں ہے۔ آج تک کہیں بھی دو نوعوں کے درمیان کی کوئی ایک کڑی بھی نہیں مل سکتی ہے جو ایک نوع کی ساخت اور خصوصیات کا ڈھانچہ توڑ کر نکل آئی ہو اور ابھی دوسری نوع کی ساخت اور خصوصیات تک پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہو۔ متحجرات(Fossils ) کا پورا ریکارڈ اس کی نظیر سے خالی ہے اور موجودہ حیوانات میں بھی یہ خنثٰی مشکل نہیں ملا ہے ۔ آج تک کسی نوع کا جو فرد بھی ملا ہے ، اپنی پوری صورتِ نوعیہ کے ساتھ ہی ملا ہے ، اور ہر وہ افسانہ جو کسی مفقود کڑی کے بہم پہنچ جانے کا وقتاً فوقتاً سنا دیا جاتا ہے ، تھوڑی مدت بعد حقائق اس کی ساری پھونک نکال دیتے ہیں۔ اس وقت تک یہ حقیقت اپنی جگہ بالکل اٹل ہے کہ ایک صانع حکیم، ایک خالق الباری المصور ہی نے زندگی کو یہ لاکھوں متنوع صورتیں عطا کی ہیں۔
یہ تو ہے ابتداء خلق کا معاملہ ۔ اب ذرا اعادہ خلق پر غور کیجیے۔ خالق نے ہر نوع حیوانی اور نباتی کی ساخت و تقریب میں وہ حیرت انگیز نظام العمل(Mechanism ) رکھ دیا ہے جو اس کے بے شمار افراد میں سے بے حدو حساب نسل کی اسی کی صورتِ نوعیہ اور مزاج و خصوصیات کے ساتھ نکالتا چلا جاتا ہے اور کبھی جھوٹوں بھی ان کروڑ ہا کروڑ چھوٹے چھوٹے کا رخانوں میں یہ بھول چوک نہیں ہوتی کہ ایک نوع کا کوئی کا رخانہ تنا سل کسی دوسری نوع کا ایک نمونہ نکال کر پھینک دے ۔ جدید علم تناسل (Genetics ) کے مشاہدات اس معاملے میں حیرت انگیز حقائق پیش کرتے ہیں ۔ ہرپودے میں یہ صلاحیت رکھی گئی ہے کہ اپنی نوع کا سلسلہ آگے کی نسلوں تک جاری رکھنے کا ایسا مکمل انتظا م کرے جس سے آنے والی نسل اس کی نوع کی تمام امتیازی خصوصیات کی حامل ہو اور اس کا ہر فرد دوسری تمام انواع کے افراد سے اپنی صورت نوعیہ میں ممیز ہو۔ یہ بقائے نوع اور تناسل کا سامان ہر پودے کے ایک خلیے(Cell ) کے ایک حصہ میں ہوتا ہے جسے مشکل انتہائی طاقت ور خورد بین سے دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہ چھوٹاسا انجینیر پوری صحت کے ساتھ پودے کے سارے نشوونما کو حتماً اُسی راستے پر ڈالتا ہے جو اس کی اپنی صورتِ نوعیہ کا راستہ ہے ۔ اسی کی بدولت گیہوں کے ایک دانہ سے آج تک جتنے پودے بھی دنیا میں کہیں پیدا ہوئے ہیں انہوں نے گیہوں ہی پیدا کیا ہے ، کسی آب و ہوا اور کسی ماحول میں یہ حادثہ کبھی رونما نہیں ہوا کہ دانہ گندم کی نسل سے کوئی ایک ہی دانہ جَو پیدا ہو جاتا۔ ایسا ہی معاملہ حیوانات اور انسان کا بھی ہے کہ ان میں سے کسی کی تخلیق بھی بس ایک دفعہ ہو کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ ناقابلِ تصور وسیع پیمانے پر ہر طرف اعادہ خلق کا ایک عظیم کارخانہ چل رہا ہے جو ہر نوع کے افراد سے پیہم اُسی نوع کے بے شمار افراد وجود میں لاتا چلا جا رہا ہے ۔ اگر کوئی شخص توالدُو تناسُل کے اُس خوردبینی تخم کو دیکھے جو تمام نوعی امتیازات اور موروثی خصوصیات کو اپنے ذرا سے وجود کے بھی محض ایک حصے میں لیے ہوئے ہوتا ہے ، اور پھر اس انتہائی نازک اور پیچیدہ عضوی نظام اور بے انتہا لطیف و پُر پیچ عملیات(Progresses ) کو دیکھے جن کی مدد سے ہر نوع کے ہر فرد کا تخمِ تناسُل اُسی نوع کا فرد وجود میں لاتا ہے ، تو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ تصور نہیں کر سکتا کہ ایسا نازک اور پیچیدہ نظام العمل کبھی خود بخود بن سکتا ہے اور پھر مختلف انواع کے اربوں ملین افراد میں آپ سے آپ ٹھیک چلتا بھی رہ سکتا ہے ۔ یہ چیز نہ صرف اپنی ابتدا کے لیے ایک صانع حکیم چاہتی ہے ، بلکہ ہرآن اپنے درست طریقہ پر چلتے رہنے کے لیے بھی ایک ناظم و مدّبر اور ایک حیّ و قیوم کی طالب ہے جو ایک لحظہ کے لیے بھی اِن کارخانوں کی نگرانی و رہنمائی سے غافل نہ ہو۔
یہ حقائق ایک دہریے کے انکارِ خدا کی بھی اسی طرح جڑ کاٹ دیتے ہیں جس طرح ایک مشرک کے شرک کی۔ کون احمق یہ گمان کر سکتا ہے کہ خدائی کے اس کام میں کوئی فرشتہ یا جن یا نبی یا ولی ذرہ برابر بھی کوئی حصہ رکھتا ہے ۔ اور کون صاحبِ عقل آدمی تعصب سے پاک ہو کر یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سارا کارخانہ خلق و اعادہ خلق اِ س کمال حکمت و نظم کے ساتھ اتفاقاً شروع ہوا اور آپ سے آپ چلے جا رہا ہے۔
81. رزق دینے کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، جتنا سر سری طور پر ان مختصر سے الفاظ کو پڑھ کو کوئی شخص محسوس کرتا ہے ۔ اس زمین پر لاکھوں انواع حیوانات کی اور لاکھوں ہی نباتات کی پائی جاتی ہیں جن میں سے ہر ایک کے اربوں افراد موجود ہیں، اور ہر ایک کی غذائی ضروریات الگ ہیں ۔ خالق نے ان میں سے ہر نوع کی غذا کا سامان اس کثرت سے اور ہر ایک کی دسترس کے اس قدر قریب فراہم کیا ہے کہ کسی نوع کے افراد بھی یہاں غذا پانے سے محروم نہیں رہ جاتے۔ پھر اس انتظام میں زمین اور آسمان کی اتنی مختلف قوتیں مل جل کر کام کرتی ہیں جن کا شمار مشکل ہے ۔ گرمی، روشنی ، ہوا ، پانی ، اور زمین کے مختلف الاقسام مادوں کے درمیان ایک ٹھیک تناسب کے ساتھ تعلق نہ ہوتو غذا کا ایک ذرہ بھی وجود میں نہیں آسکتا ۔
کون شخص تصور کر سکتا ہے کہ یہ حکیما نہ انتظام ایک مدبر کی تدبیر اور سوچے سمجھے منصو بے کے بغیر یونہی اتفاقاً ہو سکتا ہے ؟ اور کون اپنے ہوش وحواس میں رہتے ہوئے یہ خیال کر سکتا ہے کہ اس انتظام میں کسی جن یا فرشتے یا کسی بزرگ کی روح کا کوئی دخل ہے؟
82. یعنی یا تو اس بات پر دلیل لاؤ کہ ان کاموں میں واقعی کوئی اور بھی شریک ہے ، یا نہیں تو پھر کسی معقول دلیل سے یہی بات سمجھا دو کہ یہ سارے کام تو ہوں صرف ایک اللہ کے مگر بندگی و عبادت کا حق پہنچے اس کے سوا کسی اور کو ، یا اس کے ساتھ کسی اور کو بھی۔
83. اوپر تخلیق ، تدبیر اور رزاقی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے الٰہِ واحد( یعنی اکیلے خدا اور اکیلے مستحق عبادت) ہونے پر استدلال کیا گیا تھا ۔ اب خدا کی ایک اور اہم صفت ، یعنی علم کے لحاظ سے بتایا جا رہا ہے کہ اس میں بھی اللہ تعالیٰ لا شریک ہے۔ آسمان و زمین میں جو بھی مخلوقات ہیں ، خواہ فرشتے ہو یا جن یا انبیاء اور اولیاء یا دوسرے انسان اور غیر انسان، سب کا علم محدود ہے ۔ سب سے کچھ نہ کچھ پوشیدہ ہے سب کچھ جاننے والا اگر کوئی ہے تو وہ صرف اللہ تعالی ٰ ہے جس سے اس کائنات کی کوئی چیز اور کوئی بات پوشیدہ نہیں ، جو ماضی و حال اور مستقبل سب کو جانتا ہے۔
غیب کے معنی مخفی ، پوشیدہ اور مستور کے ہیں۔ اصطلاحاً اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو معلوم نہ ہو ، جس تک ذرائع معلومات کی رسائی نہ ہو۔ دنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو فرداً فرداً بعض انسانوں کے علم میں اور بعض کے علم میں نہیں ہیں۔ اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو بحیثیت مجموعی پوری نوعِ انسانی کے علم میں نہ کبھی تھی ، نہ آج ہیں نہ آئندہ کبھی آئیں گی۔ ایسا ہی معاملہ جنوں اور فرشتوں اور دوسری مخلوقات کا ہے کے بعض چیزیں ان میں سے کسی سے مخفی اور کسی کو معلوم ہیں ، اور بے شمار چیزیں ایسی ہیں جو ان سب سے مخفی ہیں اور کسی کو بھی معلوم نہیں ۔ یہ تمام اقسام کے غیب صرف ایک ذات پر روشن ہیں ، اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ اس کے لیے کوئی چیز غیب نہیں، سب شہادت ہی شہادت ہے۔
اس حقیقت کو بیان کر نے میں سوال کا وہ طریقہ اختیار نہیں کیا گیا جو اوپر تخلیق و تدبیر کائنات اور رزّاقی کے بیان میں اختیار کیا گیا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن صفات کے آثار تو بالکل نمایا ں ہیں جنہیں ہر شخص دیکھ رہا ہے ، اور ان کے بارے میں کفار و مشرکین تک یہ مانتے تھے اور مانتے ہیں کہ یہ سارے کام اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں۔ اس لیے وہاں طرزِ استدلال یہ تھا کہ جب یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں اور کوئی ان میں اس کا شریک نہیں ہے تو پھر خدائی میں تم نے دوسروں کو کیسے شریک بنا لیا اور عبادت کے مستحق وہ کس بنا پر ہو گئے ؟لیکن علم کی صفت اپنے کوئی محسوس آثار نہیں رکھتی جن کی طرف اشارہ کیا جا سکے۔ یہ معاملہ صرف غور و فکر ہی سے سمجھ میں آسکتا ہے ۔ اس لیے اس کو سوال کے بجائے دعوے کے انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ اب یہ ہر صاحبِ عقل کا کام ہے کہ وہ اپنی جگہ اس امر پر غور کرے کہ فی الحقیقت کیا یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا عالم الغیب ہو؟ یعنی تمام اُن احوال اور اشیاء اور حقائق کا جاننے والا ہو جو کائنات میں کبھی تھیں، یا اب ہیں، یا آئندہ ہوں گی۔ اور اگر کوئی دوسرا عالم الغیب نہیں ہے اور نہیں ہو سکتا تو پھر کیا یہ بات عقل میں آتی ہے کہ جو لوگ پوری طرح حقائق اور احوال سے واقف ہی نہیں ہیں ان میں سے کوئی بندوں کا فریا درس اور حاجت رو ا اور مشکل کشا ہو سکے؟
الوہیت اور علمِ غیب کے درمیان ایک ایسا گہرا تعلق ہے کہ قدیم ترین زمانے سے انسان جس ہستی میں بھی خدائی کے کسی شائبے کا گمان کیا ہے اُس کے متعلق یہ خیال ضرور کیا ہے کہ اس پر سب کچھ روشن ہے اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ گویا انسان کا ذہن اِس حقیقت سے بالکل بد یہی طور پر آگاہ ہے کہ قسمتوں کا بنا نا اور بگاڑنا، دعاؤں کا سُننا، حاجتیں پوری کرنا اور ہر طالبِ امداد کی مدد کو پہنچنا صرف اُسی ہستی کا کام ہو سکتا ہے جو سب کچھ جانتی ہو اور جس سے کچھ بھی پوشیدہ نہ ہو۔ اِسی بنا پر تو انسان جس کو بھی خدائی اختیارات کا حامل سمجھتا ہے اُسے لازماً عالم الغیب بھی سمجھتا ہے ، کیونکہ اس کی عقل بلا ریب شہادت دیتی ہے کہ علم اور اختیارات باہم لازم و ملزوم ہیں۔ اب اگر یہ حقیقت ہے کہ خالق اور مدبر اور مجیب الدعوات اور رزاق خدا کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے ، جیسا کہ اوپر کی آیات میں ثابت کیا گیا ہے ، تو آپ سے آپ یہ بھی حقیقت ہے کہ عالم الغیب بھی خدا کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے۔ آخر کون اپنے ہوش و حواس میں یہ تصور کر سکتا ہے کہ کسی فرشتے یا جِن یا نبی یا ولی کو، یا کسی مخلوق کو بھی یہ معلوم ہوگا کہ سمندر میں اور ہوا میں اور زمین کی تہوں میں اور سطح زمین کے اوپر کس کس قسم کے کتنے جانور کہاں کہاں ہیں؟ اور عالمِ بالا کے بے حد وحساب سیاروں کی ٹھیک تعداد کیا ہے؟ اور ان میں سے ہر ایک میں کس کس طرح کی مخلوقات موجود ہیں؟ اور ان مخلوقات کا ایک ایک فرد کہاں ہے اور کیا اس کی ضروریات ہیں؟ یہ سب کچھ اللہ کو تولازماً معلوم ہونا چاہیے ، کیونکہ اس نے انہیں پیدا کیا ہے ، اور اسی کو ان کے معاملات کی تدبیر اور ان کے حالات کی نگہبانی کرنی ہے ، اور وہی ان کے رزق کا انتظام کرنے والا ہے ۔ لیکن دوسرا کوئی اپنے محدود وجود میں یہ وسیع و محیط علم رکھ کیسے سکتا ہے اور اس کا کیا تعلق اِس کا رِ خلّاقی و رزّاقی سے ہے کہ وہ اِن چیزوں کو جانے؟
پھر یہ صفت قابل تجزیہ بھی نہیں ہے کہ کوئی بندہ مثلاً صرف زمین کی حد تک ، اور زمین میں بھی صرف انسانوں کی حد تک عالم الغیب ہو۔ یہ اُسی طرح قابلِ تجزیہ نہیں ہے جس طرح خدا کی خلّاقی ورزّاقی اور قیومی و پروردگاری قابلِ تجزیہ نہیں ہے۔ ابتدائے آفرنیش سے آج تک جتنے انسان دنیا میں پیدا ہوئے ہیں اور قیامت تک پیدا ہونگے، رحمِ مادر میں استقرار کے وقت سے آخری ساعتِ حیات تک ان سب کے تمام حالات و کیفیات کو جاننا آخر کس بندے کا کام ہو سکتا ہے؟ اور وہ کیسے اور کیوں اس کو جانے گا؟ کیا وہ اس بے حدو حساب خلقت کا خالق ہے ؟ کیا اس نے ان کے باپوں کے نطفے میں ان کے جر ثومے کو وجود بخشا تھا؟ کیا اس نے ان کی ماؤں کے رحم میں ان کی صورت گری کی تھی؟ کیا اس نے ان کی زندہ ولادت کا انتظام کیا تھآ؟ کیا اس نے ان میں سےا یک ایک شخص کی قسمت بنائی تھی؟ کیا وہ ان کی موت اور حیات، ان کی صحت اور مرض، ان کی خوشحالی اور بد حالی اور ان کے عروج اور زوال کے فیصلے کرنے کا ذمہ دار ہے ؟ اور آخر یہ کام کب سے اس کے ذمے ہوا؟ اس کی اپنی ولادت سے پہلے یا اس کے بعد؟ اور صرف انسانوں کی حدتک یہ ذمہ داریاں محدود کیسے ہو سکتی ہیں؟ یہ کام تولازماً زمین اور آسمانوں کے عالمگیر انتظام کا ایک جز ہے ۔ جو ہستی ساری کائنات کی تدبیر کر رہی ہے وہی تو انسانوں کی پیدائش و موت اور ان کے رزق کے تنگی و کشادگی اور ان کی قسمتوں کے بناؤ اور بگاڑ کی ذمہ دار ہو سکتی ہے۔
اسی بنا پر یہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ عالم الغیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اور جس قدر چاہے اپنی معلومات کا کوئی گوشہ کھول دے، اور کسی غیب یا بعض غیوب کو ا س پر روشن کر دے ، لیکن علمِ غیب بحیثیت مجموعی کسی کو نصیب نہیں اور عالم الغیب ہونے کی صفت صرف اللہ رب العالمین کے لیے مخصوص ہے۔ وَعِنْدَ ہٗ مَفَا تِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ اِلَّا ھُوَ، ” اور اُسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں، انہیں کوئی نہیں جانتا اُس کے سوا “(الانعام، آیت۵۹)۔ اِنَّ اللہ َ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّا عَۃِ ج وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ ج وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَ رْحَامِ ط وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَکْسِبُ غَدًا ط وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌم بِاَیِّ اَرْض تَمُوْتُ ط ”اللہ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم اور وہی بارش نازل کرنے والا ہے ۔ اور وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے رحم میں کیا (پر ورش پا رہا )ہے۔ اور کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرے گا۔ اور کسی متنفس کو خبر نہیں ہے کہ کس سر زمین میں اس کو موت آئے گی“(لقمان ۔ آیت۳۴)۔ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْ ءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآءَ،”وہ جانتا ہے جو کچھ مخلوقات کے سامنے ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے ، اور اس کے علم میں سے کسی چیز پر بھی وہ احاطہ نہیں کر سکتے اِلّا یہ کہ وہ جس چیز کا چاہے انہیں علم دے“(البقرہ۔آیت۲۵۵)۔
قرآن مجید مخلوقات کے لیے علم غیب کی اس عام اور مطلق نفی پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ خاص طور پر انبیاء علیم السلام ، اور خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس امر کی صاف صاف تصریح کرتا ہے کہ وہ عالم الغیب نہیں ہیں اور اُن کو غیب کا صرف اُتنا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے جو رسالت کی خدمت انجام دینے کے لیے درکار تھا۔ سور ہ انعام آیت ۵۰، الاعراف آیت۱۸۷، التوبہ، آیت ۱۰۱، ہود ، آیت۳۱۔ احزاب ، آیت۶۳، الاحقاف آیت۹، التحریم، آیت۳، اور الجن آیات ۲۶ تا ۲۸ اس معاملہ میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں چھوڑتیں۔
قرآن کی یہ تمام تصریحات زیر بحث آیت کی تائید و تشریح کرتی ہیں جن کے بعد اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو عالم الغیب سمجھنا اور یہ سمجھنا کہ کوئی دوسرا بھی جمیع ماکان و مایکون کا علم رکھتا ہے ، قطعاً ایک غیر اسلامی عقیدہ ہے ۔ شیخین، ترمذی، نَسائی ، امام احمد، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے صحیح سندوں کے ساتھ حضرت عائشہؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ من زعم انہ (ای النبی صلی اللہ علیہ وسلم )یعلم ما یکون فی غد اعظم علی اللہ الفریۃ واللہ یقول قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَا لْاَ رْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللہ۔ یعنی”جس نے یہ دعویٰ کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے اس نے اللہ پر سخت الزام لگایا، کیونکہ اللہ تو فرماتا ہے اے نبی تم کہہ دو کہ غیب کا علم اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں میں سے کسی کو بھی نہیں ہے “۔ ابن المنذر حضرت عبد اللہ بن عباس کے مشہور شاگرد عِکْرِ مہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا”اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم، قیامت کب آئے گی؟ اور ہمارے علاقے میں قحط برپا ہے، بارش کب ہوگی؟ اور میری بیوی حاملہ ہے، وہ لڑکا جنے گی یا لڑکی؟ اور یہ تو مجھے معلوم ہے کہ میں نے آج کیا کمایا ہے ، کل کیا کماؤں گا؟ اور یہ تو مجھے معلوم ہے کہ میں کہاں پیدا ہوا ہوں، مروں گا کہاں“؟ ان سوالات کے جواب میں سورہ لقمان کی وہ آیت حضورؐ نے سنائی جو اوپر ہم نے نقل کی ہے اِنَّ اللہ َ عِنْدَ ہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ۔۔۔۔ پھر بخاری و مسلم اور دوسری کتبِ حدیث کی وہ مشہور روایت بھی اسی کی تائید کرتی ہے جس میں ذکر ہے کہ صحابہ کے مجمع میں حضرت جبریلؑ نے انسانی شکل میں آکر حضورؐ سے جو سوالات کیے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ قیامت کب آئے گی؟ حضورؐ نے جواب دیا ما المسْئول عنھا باعلم من السّائل۔(جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ خود پوچھنے والے سے زیاد ہ اس بارے میں کوئی علم نہیں رکھتا)۔ پھر فرمایا یہ اُن پانچ چیزوں میں سے ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، اور یہی مذکورہ بالا آیت حضورؐ نے تلاوت فرمائی۔
84. یعنی دوسرے ، جن کے متعلق یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ عالم الغیب ہیں، اور اسی بنا پر جِن کو تم لوگوں نے خدائی میں شریک ٹھیرا لیا ہے، اُن بیچاروں کو تو خود اپنے مستقبل کی بھی خبر نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ کب قیامت کی وہ گھڑی آئے گی جب اللہ تعالیٰ اُن کو دوبارہ اُٹھا کھڑا کرے گا۔
85. الو ہیت کے بارے میں ان لوگوں کی بنیادی غلطیوں پر متنبہ کرنے کے بعد اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ جو ان شدید گمراہیوں میں پڑے ہوئے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ غور فکر کرنے کے بعد یہ کسی دلیل و برہان سے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ خدائی میں درحقیقت کچھ دوسری ہستیاں اللہ تعالیٰ کی شریک ہیں ۔ بلکہ اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کبھی سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر ہی نہیں کیا ہے۔ چونکہ یہ لوگ آخرت سے بے خبر ہیں۔ یا اس کی طرف سے شک میں ہیں۔ یا اس سے اندھے بنے ہوئے ہیں، اس لیے فکرِ عقبٰی سے بے نیازی نے ان کے اندر سراسر ایک غیر ذمہ دارانہ رویّہ پیدا کر دیا ہے۔ یہ کائنات اور خود اپنی زندگی کے حقیقی مسائل کے بارے میں سرے سے کوئی سنجیدگی رکھتے ہی نہیں۔ ان کو اس کی پروا ہی نہیں ہے کہ حقیقت کیا ہے اور ان کا فلسفہ حیات اُس حقیقت سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک آخر کار مشرک اور دہریے اور موحد اور مُشکک سب کو مر کر مٹی ہو جانا ہے اور کسی چیز کا بھی کوئی نتیجہ نکلنا نہیں ہے۔
آخرت کا یہ مضمون اس سے پہلے کی آیت کے اِس فقرے سے نکلا ہے کہ ”وہ نہیں جانتے کہ کب وہ اُٹھائے جائیں گے“۔اُس فقرے میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ جن کو معبود بنایا جاتا ہے۔۔۔۔اور ان میں فرشتے ، جِن ، انبیاء، اور اولیاء سب شامل تھے۔۔۔۔ ان میں سے کوئی بھی آخرت کے وقت سے واقف نہیں ہے کہ وہ کب آئے گی۔ اس کے بعد اب عام مشرکین و کفار کے بارے میں تین باتیں ار شاد ہوئی ہیں۔ اوّل یہ کہ وہ سرے سے یہی نہیں جانتے کہ آخرت کبھی ہو گی بھی یا نہیں ۔ دوسرے یہ کہ ان کی یہ بے خبری اس بنا پر نہیں ہے کہ انہیں اس کی اطلاع ہی کبھی نہ دی گئی ہو،بلکہ اس بنا پر ہے کہ جو خبر انہیں دی گئی اس پر انہوں نے یقین نہیں کیا بلکہ اس کی صحت میں شک کرنے لگے ۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے کبھی غور و خوض کر کے اُن دلائل کو جانچنے کی زحمت ہی نہیں اٹھائی جو آخرت کے وقوع کے بارے میں پیش کیے گئے ، بلکہ اس کی طرف سے اندھے بن کر رہنے ہی کو انہوں نے ترجیح دی۔