86. اس مختصر سے فقرے میں آخرت کی دو زبر دست دلیلیں بھی ہیں اور نصیحت بھی۔
پہلی دلیل یہ ہے کہ دنیا کی جن قوموں نے بھی آخرت کو نظر انداز کیا ہے وہ مجرم بنے بغیر نہیں رہ سکی ہیں ۔ وہ غیر ذمہ دار بن کر ہیں۔ انہوں نے ظلم و ستم ڈھائے۔ وہ فسق و فجور میں غرق ہو گئیں۔ اور اخلاق کی تباہی نے آخر کار ان کو برباد کر کے چھوڑا۔ یہ تاریخ انسانی کا مسلسل تجربہ، جس پر زمین میں ہر طرف تباہ شدہ قوموں کے آثار شہادت دے رہے ہیں، صاف ظاہر کرتا ہے کہ آخرت کے ماننے اور نہ ماننے کا نہایت گہرا تعلق انسانی رویے کی صحت اور عدم صحت سے ہے۔ اس کو مانا جائے تو رویہ درست رہتا ہے ، نہ مانا جائے تو رویہ غلط ہو جاتا ہے ۔ یہ اس امر کی صریح دلیل ہے کہ اس کا ماننا صریح حقیقت کے خلاف ہے ، اسی وجہ سے یہ گاڑی پٹڑی سے اتر جاتی ہے۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ تاریخ کے اس طویل تجربے میں مجرم بن جانے والی قوموں کا مسلسل تباہ ہونا اس حقیقت پر صاف دلالت کر رہا ہے کہ یہ کائنات بے شعور طاقتوں کی اندھی بہری فرمانروائی نہیں ہے بلکہ یہ ایک حکیمانہ نظام ہے جس کے اندر ایک اٹل قانون مکافات کام کر رہا ہے ۔ جس کی حکومت انسانی قوموں کے ساتھ سراسر اخلاقی بنیادوں پر معاملہ کر رہی ہے ۔ جس میں کسی قوم کو بد کر داریوں کی کھلی چھوٹ نہیں دی جاتی کہ ایک دفعہ عروج پاجانے کے بعد وہ ابد الآ باد تک دادِ عیش دیتی رہے اور ظلم و ستم کے ڈنکے بجائے چلی جائے۔ بلکہ ایک خاص حد کو پہنچ کر ایک زبر دست ہاتھ آگے بڑھتا ہے اور اس کو بامِ عروج سے گرا کر قعِر مذلت میں پھینک دیتا ہے ۔اس حقیقت کو جو شخص سمجھ لے وہ کبھی اس امر میں شک نہی کر سکتا کہ یہی قانونِ مکافات اس دنیوی زندگی کے بعد ایک دوسرے عالم کا تقاضا کرتا ہے جہاں افراد کا اور قوموں کا اور بحیثیت مجموعی پوری نوع انسانی کا انصاف چُکا یا جائے۔ کیونکہ محض ایک ظالم قوم کے تباہ ہوجانے سے تو انصاف کے سارے تقاضے پورے نہیں ہو گے ۔ اس سے اُن مظلوموں کی تو کوئی داد رسی نہیں ہوئی جن کی لاشوں پر انہوں نے اپنی عظمت کا قصر بنا یا تھا۔ اس سے ان ظالموں کوتو کوئی سزا نہیں ملی جو تباہی کے آنے سے پہلے مزے اڑا کر جا چکے تھے۔ اس سے ان بدکاروں پر بھی کوئی مواخذہ نہیں ہو ا جو پشت درپشت اپنے بعد آنے والی نسلوں کے لیے گمراہیوں اور بد اخلاقیوں کی میراث چھوڑتے چلے گئے تھے۔ دنیا میں عذاب بھیج کر تو صرف اُن کی آخری نسل کے مزید ظلم کیا سلسلہ توڑ دیا گیا ۔ ابھی عدالت کا اصل کام تو ہوا ہی نہیں کہ ہر ظالم کو اس کے کیے کا بدلہ دیا جائے اور ہر مظلوم کے نقصان کی تلافی کی جائے، اور اُن سب لوگوں کو انعام دیا جائے جو بدی کے اِس طوفان میں راستی پر قائم اور اصلاح کے لیے کوشاں رہے اور عمر بھی اِس راہ میں اذیتیں سہتے رہے۔ یہ سب لازماً کسی وقت ہونا چاہیے، کیونکہ دنیا میں قانونِ مکافات کی مسلسل کار فرمائی کائنات کی فرمانروا حکومت کا یہ مزاج اور طریقہ کار صاف بتا رہی ہے کہ وہ انسانی اعمال کو ان کی اخلاقی قدر کے لحاظ سے تولتی اور ان کی جزا و سزا دیتی ہے۔
ان دودلیلوں کے ساتھ اس آیت میں نصیحت کا پہلو یہ ہے کہ پچھلے مجرموں کا انجام دیکھ کر اس سے سبق لو اور انکار آخرت کے اُسی احمقانہ عقیدے پر اصرار نہ کیے چلے جاؤ جس نے اُنہیں مجرم بنا کر چھوڑا تھا۔
87. یعنی تم نے سمجھانے کا حق ادا کر دیا۔ اب اگر یہ نہیں مانتے اور اپنی حماقت پر اصرار کر کے عذابِ الہٰی کے مستحق بننا ہی چاہتے ہیں تو تم خواہ مخواہ ان کے حال پر کُڑھ کُڑھ کر اپنی جان کیوں ہلکان کرو۔ پھر یہ حقیقت و صداقت سے لڑنے اور تمہاری اصلاحی کوششوں کو نیچا دکھانے کے لیے جو گھٹیا درجے کی چالیں چل رہے ہیں اُن پر کبیدہ خاطر ہونے کی تمہیں کیا ضرورت ہے ۔ تمہاری پشت پر خدا کی طاقت ہے ۔ یہ تمہاری بات نہ مانیں گے تو اپنا ہی کچھ بگاڑیں گے۔ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
88. اس سے مراد وہی دھمکی ہے جو اوپر کی آیت میں پوشیدہ ہے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ اس فقرے میں ہماری خبر لینے کی جو درپردہ دھمکی دی جا رہی ہے یہ آخر کب عمل میں لائی جائے گی؟ ہم تو تمہاری بات رد بھی کر چکے ہیں اور تمہیں نیچا دکھانے کے لیے اپنی تدبیروں میں بھی ہم نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے ۔ اب کیوں ہماری خبر نہیں لی جاتی؟
89. یہ شاہانہ کلام کا انداز ہے ۔ قادر مطلق کے کلام میں جب”شاید“اور ”کیاعجب“اور”کیا بعید ہے“ جیسے الفاظ آتے ہیں تو ان میں شک کا کوئی مفہوم نہیں ہوتا بلکہ ان سے شان بے نیازی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کی قدرت ایسی غالب ہے کہ اس کا کسی چیز کو چاہنا اور اس چیز کا ہوجانا گویا ایک ہی بات ہے ۔ اس کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کوئی کام کرنا چاہے اور نہ ہو سکے۔ اس لیے اس کا یہ فرمانا کہ ”کیا عجب ایسا ہو“یہ معنی رکھتا ہے کہ ایسا ہو کر رہے گا اگر تم سیدھے نہ ہوئے۔ ایک معمولی تھا نہ دار بھی اگر بستی کے کسی شخص سے کہہ دے کہ تمہاری شامت پکا ر رہی ہے تو اسے رات کو نیند نہیں آتی۔ کجا کہ قادرِ مطلق کسی سے کہہ دے کہ تمہار بُرا وقت کچھ دور نہیں ہے اور پھر وہ بے خوف رہے۔
90. یعنی یہ تو اللہ رب العالمین کی عنایت ہے کہ وہ لوگوں کو قصور سرزد ہوتے ہی نہیں پکڑ لیتا بلکہ سنبھلنے کی مہلت دیتا ہے ۔ مگر اکثر لوگ اس پر شکر گزار ہو کر اس مہلت کو اپنی اصلاح کےلیے استعمال نہیں کرتے بلکہ مواخذہ میں دیر ہونے کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ یہاں کوئی گرفت کرنے والا نہیں ہے اس لیے جو جی میں آئے کرتے رہو اور کسی سمجھانے والے کی بات مان کر نہ دو۔
91. یعنی وہ اِن کی علانیہ حرکات ہی سے واقف نہیں ہے بلکہ جو شدید بغض اور کینہ ان کے سینوں میں چھپا ہوا ہے اور جو چالیں یہ اپنے دلوں میں سوچتے ہیں، ان سے بھی وہ خوب واقف ہے۔ اس لیے جب ان کی شامت آنے کا وقت آن پہنچے گا تو کوئی چیز چھوڑی نہیں جائے گی جس پر ان کی خبر نہ لی جائے۔ یہ اندازِ بیان اسی طرح کا ہے جیسے ایک حاکم اپنے علاقے کے کسی بدمعاش سے کہے، مجھے تیرے سب کرتوتوں کی خبر ہے ۔ اس کا صرف یہی مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اپنے باخبر ہونے کی اسے اطلاع دے رہا ہے ، بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ تو اپنی حرکتوں سے باز آجا، ورنہ یاد رکھ کہ جب پکڑا جائے گا تو تیرے ایک ایک جرم کی پوری سزا دی جائے گی۔
92. یہاں کتاب سے مراد قرآن نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا وہ ریکارڈ ہے جس میں ذرہ ذرہ ثبت ہے۔
93. اس فقرے کا تعلق مضمون سابق سے بھی ہے اور مضمون ما بعد سے بھی۔ مضمون سابق سے اس کا تعلق یہ ہے کہ اسی عالم الغیب خدا کے علم کا ایک کرشمہ یہ ہے کہ اُمّی کی زبان سے اس قرآن میں اُن واقعات کی حقیقت کھولی جا رہی ہے جو بنی اسرائیل کی تاریخ میں گزرے ہیں، حالانکہ خود علمائے بنی اسرائیل کے درمیان ان کی اپنی تاریخ کے ان واقعات میں اختلاف ہے (اس کے نظائر اسی سورہ نمل کے ابتدائی رکوعوں میں گزر چکے ہیں جیسا کہ ہم نے اپنے حواشی میں واضح کیا ہے)۔اور مضمونِ ما بعد سے اس کا تعلق یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن اختلافات کا فیصلہ فرمایا ہے اسی طرح وہ اُس اختلاف کا بھی فیصلہ کر دے گا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے مخالفین کے درمیان برپا ہے۔ وہ کھول کر رکھ دے گا کہ دونوں میں سے حق پر کون ہے اور باطل پر کون۔ چنانچہ اِن آیات کے نزول پر چند ہی سال گزرے تھے کہ فیصلہ ساری دنیا کے سامنے آگیا۔ اُسی عرب کی سر زمین میں ، اور اسی قبیلہ قریش میں ایک متنفس بھی ایسا نہ رہا جو اس بات کا قائل نہ ہو گیا ہو کہ حق پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے نہ کہ ابو جہل اور ابو لہب۔ ان لوگوں کی اپنی اولاد تک مان گئی کہ ان کے باپ غلطی پر تھے۔
94. یعنی اُن لوگوں کے لیے جو اس قرآن کی دعوت کو قبول کر لیں اور وہ بات ما ن لیں جسے یہ پیش کر رہا ہے ۔ ایسے لوگ اُن گمراہیوں سے بچ جائیں گے جن میں ان کی قوم مبتلا ہے۔ ان کو اس قرآن کی بدولت زندگی کا سیدھا راستہ مل جائے گا اور ان پر خدا کی وہ مہر بانیاں ہوں گی جن کا تصور بھی کفارِ قریش آج نہیں کر سکتے ۔ اس رحمت کی بارش کو بھی چند ہی سال بعد دنیا نے دیکھ لیا کہ وہی لوگ جو ریگ زارِ عرب کے ایک گوشہ گمنامی میں پڑے ہوئے تھے اور کفر کی حالت میں زیادہ سے زیادہ ایک کامیاب چھا پہ مار بن سکتے تھے، اس قرآن پر ایمان لانے کے بعد یکایک وہ دنیا کے پیشوا ، قوموں کے امام، تہذیب انسانی کے استاد اور روئے زمین کے ایک بڑے حصّے پر فرمانروا ہو گئے۔
95. یعنی قریش کے کفار اور اہل ایمان کے درمیان۔
96. یعنی نہ اس کے فیصلے کو نافذ ہونے سے کوئی طاقت روک سکتی ہے ۔ اور نہ اس کے فیصلے میں غلطی کا کوئی احتمال ہے۔
97. یعنی ایسے لوگوں کو جن کے ضمیر مر چکے ہیں اور جن میں ضد اور ہٹ دھرمی اور رسم پرستی نے حق و باطل کا فرق سمجھنے کی کوئی صلاحیت باقی نہیں چھوڑ ی ہے۔
98. یعنی جو تمہاری بات کے لیے صرف اپنے کان بند کر لینے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ اُس جگہ سے کترا کر نکل جاتے ہیں جہاں انہیں اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں تمہاری بات ان کے کان میں نہ پڑجائے۔
99. یعنی ان کا ہاتھ پکڑ کر زبر دستی انہیں سیدھے راستے پر کھینچ لانا اور گھسیٹ کر لے چلنا تو تمہار کام نہیں ہے۔ تم تو صرف زبان اور اپنی مثال ہی سے بتا سکتے ہو کہ یہ سیدھا راستہ ہے اور وہ راستہ غلط ہے جس پر یہ لوگ چل رہے ہیں۔ مگر جس نے اپنی آنکھیں بند کر لی ہوں اور جو دیکھنا ہی نہ چاہتا ہو اس کی رہنمائی تم کیسے کر سکتے ہو۔
100. یعنی قیامت قریب آجائے گی جس کا وعدہ ان سے کیا جا رہا ہے۔
101. ابن عمر ؓ کا قول ہے کہ یہ اس وقت ہو گا جب زمین میں کوئی نیکی کا حکم کرنے والا اور بدی سے روکنے والا باقی نہ رہے گا۔ ابن مَردُویہ نے ایک حدیث ابو سعید خُدری سے نقل کی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ یہی بات انہوں نے خود حضورؐ سے سنی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب انسان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دیں گے تو قیامت قائم ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ ایک جانور کے ذریعہ سے آخری مرتبہ حجت قائم فرمائے گا۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ ایک ہی جانور ہوگا یا ایک خاص قسم کی جنسِ حیوان ہوگی جس کے بہت سے افراد روئے زمین پر پھیل جائیں گے۔۔۔۔ دابۃ من الارض کے الفاظ میں دونوں معنوں کا احتمال ہے ۔ بہر حال جو بات وہ کہے گا وہ یہ ہوگی کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ان آیات پر یقین نہیں کرتے تھے جن میں قیامت کے آنے اور آخرت برپا ہونے کی خبریں دی گئی تھیں، تو لو اب اس کا وقت آن پہنچا ہے اور جان لو کہ اللہ کی آیات سچی تھیں۔ یہ فقرہ کہ ”لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے“یا تو اس جانور کے اپنے کلام کی نقل ہے، یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے کلام کی حکایت۔ اگر یہ اُسی کے الفاظ کی نقل ہے تو ”ہماری“کا لفظ وہ اُسی طرح استعمال کرے گا جس طرح ایک حکومت کا ہر کارندہ”ہم“کا لفظ اس معنی میں بولتا ہے کہ وہ اپنی حکومت کی طرف سے بات کر رہا ہے نہ کہ اپنی شخصی حیثیت میں ۔ دوسری صورت میں بات صاف ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے کلام کو چونکہ اپنے الفاظ میں بیان فرمارہا ہے اس لیے اس نے ”ہماری آیات“کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔
اس جانور کے نکلنے کا وقت کونسا ہوگا؟ اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یہ ہے کہ ”آفتاب مغرب سے طلوع ہوگا اور ایک روز دن دہاڑے یہ جانور نکل آئے گا۔ ان میں سے جو نشانی بھی پہلے ہو وہ بہر حال دوسری کے قریب ہی ظاہر ہوگی“(مسلم) دوسری روایات جو مسلم، ابن ماجہ، ترمذی اور مُسند احمد وغیرہ میں آئی ہیں، ان میں حضورؐ نے بتایا ہے کہ قیامت کے قریب زمانے میں دجال کا خروج، دابۃ الارض کا ظہور،دُخان(دھواں) اور آفتاب کا مغرب سے طلوع وہ نشانیاں ہیں جو یکے بعد دیگرے ظاہر ہوں گی۔
اس جانور کی ماہیت، شکل و صورت، نکلنے کی جگہ، اور ایسی ہی دوسری تفصیلات کے متعلق طرح طرح کی روایات نقل کی گئ ہیں جو باہم بہت مختلف اور متضاد ہیں۔ ان چیزوں کے ذکر سے بجز ذہن کی پر اگندگی کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا، اور ان کے جاننے کا کوئی فائدہ بھی نہیں کیونکہ جس مقصد کے لیے قرآن میں یہ ذکر کیا گیا ہے اس سےا ن تفصیلات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
رہا کسی جانور کا انسانوں سے انسانی زبان میں کلام کرنا ، تو یہ اللہ کی قدرت کا ایک کرشمہ ہے ۔ وہ جس چیز کو چاہے نطق کی طاقت بخش سکتا ہے ۔ قیامت سے پہلے تو وہ ایک جانور ہی کو نطق بخشے گا ۔ مگر جب وہ قیامت قائم ہو جائے گی تو اللہ کی عدالت میں انسان کی آنکھ اور کان اور اس کے جسم کی کھال تک بول اٹھے گی ، جیسا کہ قرآن میں تبصریح بیان ہوا ہے۔ حَتّٰیٓ اِذَا مَا جَآ ءُ وْ ھَا شَھِدَ عَلَیْھِمْ سَمْعُھُمْ وَاَبْصَا رُھُمْ وَجُلُوْدُھُمْ بِمَا کَانُوْ ا یَعْمَلُوْنَ۔۔۔۔ وَ قَالُوْ لِجُلُوْ دِھِمْ لِمَ شَھِدْ تُّمْ عَلَیْنَا قَا لُوْٓ ا اَنْطَقَنَا اللہُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ کُلَّ شَیءٍ (حٰم السجدہ۔ آیات۲۰۔۲۱)