102. یعنی تمہارے جھٹلانے کی وجہ یہ ہر گز نہیں تھی کہ کسی علمی ذریعہ سے تحقیق کر کے تمہیں معلوم ہو گیا تھا کہ یہ آیات جھوٹی ہیں۔ تم نے تحقیق اور غور و فکر کے بغیر بس یونہی ہماری آیات کو جھٹلا دیا؟
103. یعنی اگر ایسا نہیں ہے تو کیا تم یہ ثابت کر سکتے ہو کہ تم نے تحقیق کے بعد ان آیات کو جھوٹا ہی پایا تھا اور تمہیں واقعی یہ علم حاصل ہو گیا تھا کہ حقیقت نفس الامری وہ نہیں ہے جو ان آیات میں بیان کی گئی ہے؟
104. یعنی بے شمار نشانیوں میں سے یہ دو نشانیاں تو ایسی تھیں جن کا وہ سب ہر وقت مشاہدہ کر رہے تھے، جن کے فوائد سے ہر آن متمتع ہو رہے تھے، جو کسی اندھے بہرے اور گونگے تک سے چھپی ہو ئی نہ تھیں۔ کیوں نہ رات کے آرام اور دن کے مواقع سے فائدہ اٹھاتے وقت انہوں نے کبھی سوچا کہ یہ ایک حکیم کا بنایا ہوا نظام ہے جس نے ٹھیک ٹھیک ان کی ضروریات کے مطابق زمین اور سورج کا تعلق قائم کیا ہے۔ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہو سکتا ، کیونکہ اس میں مقصدیت ،حکمت اور منصوبہ بندی علا نیہ نظر آرہی ہے جو اندھے قوائےفطرت کی صفت نہیں ہو سکتی۔ اور یہ بہت سے خداؤں کی کار فرمائی بھی نہیں ہے ، کیونکہ یہ نظام لا محالہ کسی ایک ہی ایسے خالق و مالک اور مدبّر کا قائم کیا ہوا ہو سکتا ہے جو زمین، چاند ، سورج اور تمام دوسرے سیاروں پر فرمانروائی کر رہا ہو۔ صرف اسی ایک چیز کو دیکھ کر وہ جان سکتے تھے کہ ہم نے اپنے رسول اور اپنی کتاب کے ذریعہ سے جو حقیقت بتائی ہے یہ رات اور دن کی گردش اس کی تصدیق کر رہی ہے۔
105. یعنی یہ کوئی نہ سمجھ میں آسکنے والی بات بھی نہیں تھی۔ آخر انہی کے بھائی بند ، انہی کے قبیلے اور برادری کے لوگ، انہی جیسے انسان ایسے موجود تھے جو یہی نشانیاں دیکھ کر مان گئے تھے کہ نبی جس خدا پر ستی اور توحید کی طرف بلا رہا ہے وہ بالکل مطابقِ حقیقت ہے۔
106. نفخ صور پر مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، سورہ انعام حاشیہ ۴۷۔ ابراہیم،حاشیہ۵۷۔سورہ طٰہٰ حاشیہ۷۸۔سورہ حج، حاشیہ۱۔ یٰسین، حواشی۴۶۔۴۷۔ الزمر، حاشیہ۷۹۔
107. یعنی ایسے خدا سے تم یہ توقع نہ رکھو کہ اپنی دنیا میں تم کو عقل و تمیز اور تصرف کے اختیارات دے کر وہ تمہارے اعمال افعال سے بے خبر رہے گا اور یہ نہ دیکھے گا کہ اس کی زمین میں تم ان اختیارات کو کیسے استعمال کرتے رہے ہو۔
108. یعنی وہ اس لحاظ سے بھی بہتر ہوگا کہ جتنی نیکی اس نے کی ہوگی اس سے زیادہ انعام اسے دیا جائے گا۔ اور اس لحاظ سے بھی کہ اس کی نیکی تو وقتی تھی اور اس کے اثرات بھی دنیا میں ایک محدود زمانے کے لیے تھے، مگر اس کا اجر دائمی اور ابدی ہوگا۔
109. یعنی قیامت اور حشر و نشر کی وہ ہولناکیاں جو منکرینِ حق کے حواس باختہ کیے دے رہی ہوں گی، ان کے درمیان یہ لوگ مطمئن ہوں گے۔ اس لیے کہ یہ سب کچھ ان توقعات کے مطابق ہو گا۔ وہ پہلے سے اللہ اور اسکے رسولوں کی دی ہوئی خبروں کے مطابق اچھی طرح جانتے تھے کہ قیامت قائم ہو نی ہے ، ایک دوسری زندگی پیش آنی ہے اور اس میں یہی سب کچھ ہونا ہے ۔ اس لیے ان پر وہ سب بد حواسی اور گھبراہٹ طاری نہ ہوگی جو مرتے دم تک اس چیزکا انکار کرنے والوں اور اس سے غافل رہنے والوں پر طاری ہوگی۔ پھر ان کے اطمینان کی وجہ یہ بھی ہو گی کہ انہوں نے اس دن کی توقع پر اس کے لیے فکر کی تھی اور یہاں کی کامیابی کے لیے کچھ سامان کر کے دنیا سے آئے تھے۔ اس لیے اُن پر وہ گھبراہٹ طاری نہ ہوگی جوان لوگوں پر طاری ہو گی جنہوں نے اپنا سارا سرمایہ حیات دنیا ہی کی کامیابیاں حاصل کرنے پر لگا دیا تھا اور کبھی نہ سوچا تھا کہ کوئی آخرت بھی ہے جس کےلیے کچھ سامان کرنا ہے ۔ منکرین کے بر عکس یہ مومنین اب مطمئن ہوں گے کہ جس دن کے لیے ہم نے ناجائز فائدوں اور لذتوں کو چھوڑا تھا، اور صعوبتیں اور مشقتیں برداشت کی تھیں، وہ دن آگیا ہے اور اب یہاں ہماری محنتوں کا اجر ضائع ہونے والا نہیں ہے۔