Tafheem ul Quran

Surah 28 Al-Qasas, Ayat 1-13

طٰسٓمٓ‏ ﴿28:1﴾ تِلۡكَ اٰيٰتُ الۡـكِتٰبِ الۡمُبِيۡنِ‏ ﴿28:2﴾ نَـتۡلُوۡا عَلَيۡكَ مِنۡ نَّبَاِ مُوۡسٰى وَفِرۡعَوۡنَ بِالۡحَـقِّ لِقَوۡمٍ يُّؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿28:3﴾ اِنَّ فِرۡعَوۡنَ عَلَا فِى الۡاَرۡضِ وَجَعَلَ اَهۡلَهَا شِيَـعًا يَّسۡتَضۡعِفُ طَآئِفَةً مِّنۡهُمۡ يُذَبِّحُ اَبۡنَآءَهُمۡ وَيَسۡتَحۡىٖ نِسَآءَهُمۡ​ ؕ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الۡمُفۡسِدِيۡنَ‏ ﴿28:4﴾ وَنُرِيۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَى الَّذِيۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَنَجۡعَلَهُمۡ اَـئِمَّةً وَّنَجۡعَلَهُمُ الۡوٰرِثِيۡنَۙ‏ ﴿28:5﴾ وَنُمَكِّنَ لَهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ وَنُرِىَ فِرۡعَوۡنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوۡدَهُمَا مِنۡهُمۡ مَّا كَانُوۡا يَحۡذَرُوۡنَ‏ ﴿28:6﴾ وَاَوۡحَيۡنَاۤ اِلٰٓى اُمِّ مُوۡسٰٓى اَنۡ اَرۡضِعِيۡهِ​ۚ فَاِذَا خِفۡتِ عَلَيۡهِ فَاَ لۡقِيۡهِ فِى الۡيَمِّ وَلَا تَخَافِىۡ وَلَا تَحۡزَنِىۡۚ اِنَّا رَآدُّوۡهُ اِلَيۡكِ وَجٰعِلُوۡهُ مِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَ‏ ﴿28:7﴾ فَالۡتَقَطَهٗۤ اٰلُ فِرۡعَوۡنَ لِيَكُوۡنَ لَهُمۡ عَدُوًّا وَّحَزَنًا ​ ؕ اِنَّ فِرۡعَوۡنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوۡدَهُمَا كَانُوۡا خٰطِـئِيۡنَ‏ ﴿28:8﴾ وَقَالَتِ امۡرَاَتُ فِرۡعَوۡنَ قُرَّتُ عَيۡنٍ لِّىۡ وَلَكَ​ ؕ لَا تَقۡتُلُوۡهُ ​ۖ  عَسٰٓى اَنۡ يَّـنۡفَعَنَاۤ اَوۡ نَـتَّخِذَهٗ وَلَدًا وَّهُمۡ لَا يَشۡعُرُوۡنَ‏  ﴿28:9﴾ وَاَصۡبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوۡسٰى فٰرِغًا​ ؕ اِنۡ كَادَتۡ لَـتُبۡدِىۡ بِهٖ لَوۡلَاۤ اَنۡ رَّبَطۡنَا عَلٰى قَلۡبِهَا لِتَكُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿28:10﴾ وَقَالَتۡ لِاُخۡتِهٖ قُصِّيۡهِ​ فَبَصُرَتۡ بِهٖ عَنۡ جُنُبٍ وَّهُمۡ لَا يَشۡعُرُوۡنَۙ‏  ﴿28:11﴾ وَحَرَّمۡنَا عَلَيۡهِ الۡمَرَاضِعَ مِنۡ قَبۡلُ فَقَالَتۡ هَلۡ اَدُلُّـكُمۡ عَلٰٓى اَهۡلِ بَيۡتٍ يَّكۡفُلُوۡنَهٗ لَـكُمۡ وَهُمۡ لَهٗ نٰصِحُوۡنَ‏ ﴿28:12﴾ فَرَدَدۡنٰهُ اِلٰٓى اُمِّهٖ كَىۡ تَقَرَّ عَيۡنُهَا وَلَا تَحۡزَنَ وَلِتَعۡلَمَ اَنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّلٰـكِنَّ اَكۡثَرَهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿28:13﴾

1 - ط۔س۔م۔ 2 - یہ کتاب مبین کی آیات ہیں۔ 3 - ہم موسیٰؑ اور فرعون کا کچھ حال ٹھیک ٹھیک تمہیں سُناتے ہیں،1 ایسے لوگوں کے فائدے کے لیے جو ایمان لائیں۔2 4 - واقعہ یہ کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی 3اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ 4 ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کر تا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔5 فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔ 5 - اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنا دیں6 اور انہی کو وارث بنائیں7 6 - اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان8 اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دِکھلا دیں جس کا انہیں ڈر تھا۔ 7 - 9ہم نے موسیٰؑ کی ماں کو اشارہ کیا کہ ” اِس کو دُودھ پلا، پھر جب تجھے اُس کی جان کا خطرہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور کچھ خوف اور غم نہ کر، ہم اسے تیرے ہی پاس واپس لے آئیں گے اور اس کو پیغمبروں میں شامل کریں گے۔“10 8 - آخر کار فرعون کے گھر والوں نے اسے (دریا سے )نکال لیا تاکہ وہ ان کا دشمن اور ان کے لیے سببِ رنج بنے،11 واقعی فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر (اپنی تدبیر میں)بڑے غلط کار تھے۔ 9 - فرعون کی بیوی نے (اس سے)کہا”یہ میرے اور تیرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، کیا عجب کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو، یا ہم اسے بیٹا ہی بنا لیں۔“12 اور وہ (انجام سے)بے خبر تھے۔ 10 - اُدھر موسیٰؑ کی ماں کا دل اُڑا جا رہا تھا۔ وہ اس کا راز فاش کر بیٹھتی اگر ہم اس کی ڈھارس نہ بندھا دیتے تاکہ وہ (ہمارے وعدے پر)ایمان لانے والوں میں سے ہو۔ 11 - اُس نے بچے کی بہن سے کہا اس کے پیچھے پیچھے جا۔ چنانچہ وہ الگ سے اس کو اس طرح دیکھتی رہی کہ (دشمنوں کو)اس کا پتہ نہ چلا۔13 12 - اور ہم نے بچے پر پہلے ہی دُودھ پِلانے والیوں کی چھاتیاں حرام کر رکھی تھیں۔14 (یہ حالت دیکھ کر)اُس لڑکی نے اُن سے کہا” میں تمہیں ایسے گھر کا پتہ بتاوٴں جس کے لوگ اس کی پرورش کا ذمّہ لیں اور خیر خواہی کے ساتھ اسے رکھیں؟15 13 - اس طرح ہم موسیٰؑ کو16 اس کی ماں کے پاس پلٹا لائے تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غمگین نہ ہو اور جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا تھا،17 مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔ “ ؏۱


Notes

1. تقابل کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ (رکوع۶)۔ الاعراف(رکوع۱۳ تا ۱۶) یونس (رکوع۸۔۹)۔ ہود (رکوع۹)۔ بنی اسرائیل(رکوع۱۲)۔ مریم (رکوع۴)۔ طٰہٰ(رکوع۱۔۴)۔ المومنون(رکوع۳)الشعراء(رکوع۲۔۴)۔ النمل(رکوع۱)۔ العنکبوت(رکوع۴)۔ المومن(رکوع۳۔۵) الزخرف (رکوع۵) ۔الدخان(رکوع۱)۔الذاریات (رکوع۲)۔النازعات(رکوع۱)۔

2. یعنی جو لوگ ماننے کے لیے تیار ہی نہ ہوں ان کو سنانا تو بےکار ہے ۔ البتہ جنہوں نے ہٹ دھرمی کا قفل اپنے دلوں پر چڑھا نہ رکھا ہو وہ اس گفتگو کے مخاطب ہیں۔

3. اصل لفظ عَلَا فِی الْاَرْضِ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے زمین میں سراُٹھایا، باغیانہ روش اختیار کی ، اپنی اصل حیثیت یعنی بندگی کے مقام سے اُٹھ کر خود مختاری اور خدا وندی کا روپ دھار لیا، ماتحت بن کر رہنے کے بجائے بالا دست بن بیٹھا، اور جبار و متکبّر بن کر ظلم ڈھانے لگا۔

4. یعنی اس کی حکومت کا قاعدہ یہ نہ تھا کہ قانون کی نگاہ میں ملک کے سب باشندے یکساں ہوں اور سب کو برابر کے حقوق دیے جائیں، بلکہ اس نے تمدّن و سیاست کا یہ طرز اختیار کیا کہ ملک کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کیا جائے، کسی کو مراعات و امتیازات دے کر حکمراں گروہ ٹھیرا یا جائے اور کسی کو محکوم بنا کر دبا یا اور پیسا اور لُوٹا جائے۔

یہاں کسی کو یہ شبہ لاحق نہ ہو کہ اسلامی حکومت بھی تو مسلم اور ذمّی کے درمیان تفریق کرتی ہے اور ان کے حقوق و اختیارات ہر حیثیت سے یکساں نہیں رکھتی ۔ یہ شبہ اس لیے غلط ہے کہ اس فرق کی بنیاد فرعونی تفریق کے بر عکس نسل، رنگ ، زبان، یا طبقاتی امتیاز پر نہیں ہے بلکہ اُصول اور مسلک کے اختلاف پر ہے ۔ اسلامی نظامِ حکومت میں ذمّیوں اور مسلمانوں کے درمیان قانونی حقوق میں قطعاً کوئی فرق نہیں ہے۔ تمام تر فرق صرف سیاسی حقوق میں ہے ۔ اور اس فرق کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک اصولی حکومت میں حکمراں جماعت صرف وہی ہو سکتی ہے جو حکومت کے بنیادی اصولوں کی حامی ہو۔ اس جماعت میں ہر وہ شخص داخل ہو سکتا ہے جو اس کے اصولوں کو مان لے ، اور ہر وہ شخص اس سے خارج ہو جاتا ہے جو ان اصولوں کا منکر ہو جائے۔ آخر اس تفریق میں اور اُس فرعونی طرزِ تفریق میں کیا وجہ مشابہت ہے جس کی بنا پر محکوم نسل کا کوئی فرد کبھی حکمراں گروہ شامل نہیں ہو سکتا۔ جس میں محکوم نسل کے لوگوں کو سیاسی اور قانونی حقوق تو درکنار بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں ہوتے، حتّٰی کہ زندہ رہنے کا حق بھی ان سے چھین لیا جاتا ہے۔ جس میں محکوموں کے لیے کسی حق کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہوتی، تمام فوائد و منافع اور حسنات و درجات صرف حکمراں قوم کے لیے مختص ہوتے ہیں، اور یہ مخصوص حقوق صرف اسی شخص کو حاصل ہوتے ہیں جو حکمراں قوم میں پیدا ہو جائے۔

5. بائیبل میں اس کی جو تشریح ملتی ہے وہ یہ ہے:

تب مصر میں ایک نیا بادشاہ ہوا جو یوسف کو نہیں جانتا تھا۔ اور اس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ دیکھو اسرائیلی ہم سے زیادہ اور قوی ہو گئے ہیں سو آؤ ہم ان کے ساتھ حکمت سے پیش آئیں ایسانہ ہو کہ جب وہ اور زیادہ ہو جائیں اور اس وقت جنگ چھڑ جائے تو وہ ہمارے دشمنوں سے مل کر ہم سے لڑیں اور ملک سے نکل جائیں۔ اس لیے انہوں نے ان پر بیگار لینے والے مقرر کیے جو ان سے سخت کام لے کر انہیں ستائیں۔ سو انہوں نے فرعون کے لیے ذخیرے کے شہر پتُوم اور رَعمسَیس بنائے۔۔۔۔ اور مصریوں نے بنی اسرائیل پر تشدد کر کے ان سے کام کروایا اور انہوں نے ان سے سخت محنت سے گارا اور اینٹ بنوا بنوا کر اور کھیت میں ہر قسم کی خدمت لے کر ان کی زندگی تلخ کی۔ ان کی سب خدمتیں جو وہ ان سے کراتے تھے تشدد کی تھیں۔۔۔۔ تب مصر کے بادشاہ عبرانی دائیوں سے ۔۔۔۔ باتیں کیں اور کہا کہ جب عبرانی(یعنی اسرائیلی)عورتوں کے تم بچہ جناؤ اور ان کو پتھر کی بیٹھکوں پر بیٹھی دیکھو تو اگر بیٹا ہو تو اسے مار ڈالنا اور اگر بیٹی ہو تو جیتی رہے“۔(خروج ، باب۱۔ آیت۸۔۱۶)۔

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا دور گزر جانے کے بعد مصر میں ایک قوم پر ستانہ انقلاب ہوا تھا اور قبطیوں کے ہاتھ میں جب دوبارہ اقتدار آیا تو نئی قوم پرست حکومت نے بنی اسرائیل کا زور توڑنے کی پوری کوشش کی تھی۔ اس سلسلے میں صرف اتنے ہی پر اکتفا نہ کیا گیا کہ اسرائیلیوں کو ذلیل و خوا ر کیا جاتا اور انہیں ادنیٰ درجے کی خدمات کے لیے مخصوص کر لیا جاتا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ پالیسی اختیار کی گئی کہ بنی اسرائیل کی تعداد گھٹائی جائے اور ان کے لڑکوں کو قتل کر کے صرف ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے تا کہ رفتہ رفتہ ان کی عورتیں قبطیوں کے تصرف میں آتی جائیں اور ان سے اسرائیل کے بجائے قبطی نسل پیدا ہو ۔ تلمود اس کی مزید تفصیل یہ دیتی ہے کہ حضرت یوسف کی وفات پر ایک صدی سے کچھ زیادہ مدّت گزر جانے کے بعد یہ انقلاب ہوا تھا۔ وہ بتاتی ہے کہ نئی قوم پر ست حکومت نے پہلے تو بنی اسرائیل کو ا ن کی زرخیز زمینوں اور ان کے مکانات اور جائدادوں سے محروم کیا۔ پھر انہیں حکومت کے تمام مناسب سے بے دخل کیا۔ اس کے بعد بھی جب قبطی حکمرانوں نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل اور ان کے ہم مذہب مصری کافی طاقت ور ہیں تو انہوں نے اسرائیلیوں کو ذلیل و خوار کرنا شروع کیا اور ان سے سخت محنت کے کام قلیل معاوضوں پر یا بلا معاوضہ لینے لگے ۔ یہ تفسیر ہے قرآن کے اس بیان کی کہ مصر کی آبادی کے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا۔ اور سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی آلِ فرعون بنی اسرائیل کو سخت عذاب دیتے تھے۔(یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوٓ ْءَ الْعَذَابِ)

مگر بائیبل اور قرآن دونوں اس ذکر سے خالی ہیں کہ فرعون سے کسی نجومی نے یہ کہا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں فرعونی اقتدار کا تختہ اُلٹ جائے گا اور اسی خطرے کو روکنے کے لیے فرعون نے اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ یا فرعون نے کوئی خوفناک خواب دیکھا تھا اور اس کی تعبیر یہ دی گئی تھی کہ ایک لڑکا بنی اسرائیل میں ایسا اور ایسا پیدا ہونے والا ہے ۔ یہ افسانہ تلمود اور دوسری اسرائیلی روایات سے ہمارے مفسرین نے نقل کیا ہے (ملاحظہ ہو جیوش انسائیکلو پیڈیا، مضمون”موسیٰ“اور (The Talmud Selection s.p. 124-23 )۔

6. یعنی انہیں دنیا میں قیادت و رہنمائی کا مقام عطا کریں۔

7. یعنی ان کو زمین کی وراثت بخشیں اور وہ حکمران و فرمانروا ہوں۔

8. مغربی مستشرقین نے اس بات پر بڑی لے دے کی ہے کہ ہا مان تو ایران کے بادشاہ اخسویرس یعنی خشیار شاہ(Xerxes ) کے دربار کا ایک امیر تھا، اور اس بادشاہ کا زمانہ حضرت موسیٰ کے سینکڑوں برس بعد ۴۸۶؁ اور ۴۶۵؁ قبل مسیح میں گزرا ہے ، مگر قرآن نے اسے مصر لے جا کر فرعون کا وزیر بنا دیا۔ کیا اخسویرس کے دربار ی ہامان سے پہلے دینا میں کوئی شخص کبھی اس نام کا نہیں گزرا ہے۔ جس فرعون کا ذکر یہاں ہو رہا ہے اگر اس کے تمام وزراء اور امراء اور اہلِ دربار کی کوئی مکمل فہرست بالکل مستند ذریعے سے کسی مستشرق صاحب کو مل گئی ہے جس میں ہامان کا نام مفقود ہے تو وہ اسے چھپائے کیوں بیٹھے ہیں؟ انہیں اس کا فوٹو فوراً شائع کر دینا چاہیے، کیونکہ قرآن کی تکذیب کے لیے اس سے زیادہ مو ثر ہتھیار انہیں کوئی اور نہ ملے گا۔

9. بیچ میں یہ ذکر چھوڑ دیا گیا ہے کہ انہی حالات میں ایک اسرائیلی والدین کے ہاں وہ بچہ پیدا ہو گیا جس کو دنیا نے موسیٰؑ علیہ السلام کے نام سے جانا۔ بائیبل اور تلمود کے بیان کے مطابق یہ خاندان حضرت یعقوبؑ کے بیٹے لاوِی کی اولاد میں سے تھا۔ حضرت موسیٰ ؑ کے والد کا نام ان دونوں کتابوں میں عمرام بتایا گیا ہے ، قرآن اسی کا تلفظ عمران کرتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ان کے ہاں دو بچے ہو چکے تھے۔ سب سے بڑی لڑکی مریم (Miriam ) نامی تھیں جن کا ذکر آگے آرہا ہے۔ ان سے چھوٹے حضرت ہارونؑ تھے۔ غالباً یہ فیصلہ کہ بنی اسرائیل کے ہاں جو بیٹا پیدا ہوا سے قتل کر دیا جائے، حضرت ہارونؑ کی پیدائش کے زمانے میں نہیں ہوا تھا، اس لیے وہ بچ گئے۔ پھر یہ قانون جاری ہوا اور اس خوفناک زمانے میں تیسرے بچے کی پیدا ئش ہوئی ۔

10. یعنی پیدا ہوتے ہی دریا میں ڈال دینے کا حکم نہ تھا ، بلکہ ارشاد یہ ہوا کہ جب تک خطرہ نہ ہو بچے کو دودھ پلاتی رہو۔ جب راز فاش ہوتا نظر آئے اور اندیشہ ہو کہ بچے کی آواز سُن کر یا اور کسی طرح دشمنوں کو اس کی پیدائش کا علم ہو جائیگا، یا خود بنی اسرائیل ہی میں سے کوئی کمینہ آدمی مخبری کر بیٹھے گا ، تو بے خوف و خطرا سے ایک تابوت میں رکھ کر دریا میں ڈال دینا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ پیدائش کے بعد تین مہینے تک حضرت موسیٰؑ کی والدہ ان کو چھپائے رہیں۔ تلمود اس پر اضافہ کرتی ہے کہ فرعون کی حکومت نے اس زمانے میں جاسوس عورتیں چھوڑ رکھی تھیں جو اسرائیلی گھروں میں اپنے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے لے جاتی تھیں اور وہاں کسی نہ کسی طرح ان بچوں کو رُلا دیتی تھیں تا کہ اگر کسی اسرائیلی نے اپنے ہاں کوئی بچہ چھپا رکھا ہو تو وہ بھی دوسرے بچے کی آواز سن کر رونے لگے۔ اس نئے طرز جاسوسی سے حضرت موسیٰؑ کی والدہ پریشان ہو گئیں اور انہوں نے اپنے بچے کی جان بچانے کے لیے پیدائش کے تین مہینے بعد اسے دریا میں ڈال دیا۔ اس حد تک ان دونوں کتابوں کا بیان قرآن کے مطابق ہے۔ اور دریا میں ڈالنے کی کیفیت بھی انہوں نے وہی بتائی ہے جو قرآن میں بتائی گئی ہے ۔ سورہ طٰہٰ میں ارشاد ہوا ہے اِقْذِفِیْہِ فِی التَّابُوْتِ فَاقْذِفِیْہِ فِی الْیَمِّ،”بچے کو ایک تابوت میں رکھ کر دریا میں ڈال دے“۔ اسی کی تائید بائیبل اور تلمود بھی کرتی ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ حضرت موسیٰؑ کی والد ہ نے سرکنڈوں کا ایک ٹوکرا بنا یا اور اسے چکنی مٹی اور رال سے لیپ کر پانی سے محفوظ کر دیا، پھر اس میں حضرت موسیٰ کو لٹا کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔ لیکن سب سے بڑی بات جو قرآن میں بیان کی گئی ہے اس کا کوئی ذکر اسرائیلی روایات میں نہیں ہے ، یعنی یہ کہ حضرت موسیٰ کی والدہ نے یہ کام اللہ تعالیٰ کے اشارے پر کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی ان کو یہ اطمینان دلادیا تھا کہ اس طریقے پر عمل کرنے میں نہ صرف یہ کہ تمہارے بچے کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے، بلکہ ہم بچے کو تمہارے پاس ہی پلٹا لائیں گے، اور یہ کہ تمہارا یہ بچہ آگے چل کر ہمارا رسول ہونے والا ہے۔

11. یہ ان کا مقصد نہ تھا بلکہ یہ ان کے اس فعل کا انجامِ مقدر تھا ۔ وہ اُس بچے کو اُٹھا رہے تھے جس کے ہاتھوں آخر کار انہیں تباہ ہوناتھا۔

12. اس بیان سے جو صورتِ معاملہ صاف سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ تابوت یا ٹوکرا دریا میں بہتا ہوا جب اس مقام پر پہنچا جہاں فرعون کے محلات تھے، تو فرعون کے خدّام نے اسے پکڑ لیااور لے جا کر بادشاہ اور ملکہ کے سامنے پیش کر دیا۔ ممکن ہے کہ بادشاہ اور ملکہ خود اس وقت دریا کے کنارے سیر میں مشغول ہوں اور ان کی نگاہ اس ٹوکرے پر پڑی ہو اور انہی کے حکم سے وہ نکالا گیا ہو۔ اس میں ایک بچہ پڑا ہوا دیکھ کر بآسانی یہ قیاس کیا جا سکتا تھا کہ یہ ضرور کسی اسرائیلی کا بچہ ہے ، کیونکہ وہ اُن محلوں کی طرف سے آرہا تھا جن میں بنی اسرائیل رہتے تھے، اور انہی کے بیٹے اس زمانے میں قتل کیے جا رہے تھے، اور انہی کے متعلق یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ کسی نے بچے کو چھپا کر کچھ مدت تک پالا ہے اور پھر جب وہ زیادہ دیر چُھپ نہ سکا تو اب اسے اس امید پر دریا میں ڈال دیا ہے کہ شاید اسی طرح اس کی جان بچ جائے اور کوئی اسے نکال کر پال لے۔ اسی بنا پر کچھ ضرورت سے زیادہ وفادار غلاموں نے عرض کیا کہ حضور اسے فوراً قتل کر ا دیں، یہ بھی کوئی بچہ افعیٰ ہی ہے ۔ لیکن فرعون کی بیوی آخر عورت تھی، اور بعید نہیں کہ بے اولاد ہو۔ پھر بچہ بھی بہت پیاری صورت کا تھا، جیسا کہ سورہ طٰہٰ میں اللہ تعالیٰ خود حضرت موسیٰؑ کو بتاتا ہے کہ وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ،(میں نے اپنی طرف سے تیرے اوپر محبت ڈالی دی تھی)یعنی تجھے ایسی موہنی صورت دی تھی کہ دیکھنے والوں کو بے اختیار تجھ پر پیا رآجاتا تھا ۔ اس لیے اس عورت سے نہ رہا گیا اور اس نے کہا کہ اسے قتل نہ کرو بلکہ لے کر پال لو۔ یہ جب ہمارے ہاں پرورش پائے گا اور ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں گے تو اسے کیا خبر ہوگی کہ میں اسرائیلی ہوں۔ یہ اپنے آپ کو آلِ فرعون ہی کا ایک فرد سمجھے گا اور اس کی قابلیتیں بنی اسرائیل کے بجائے ہمارے کا م آئیں گی۔

بائیبل اور تلمود کا بیان ہے کہ وہ عورت جس نے حضرت موسیٰ ؑ کو پالنے اور بیٹا بنانے کے لیے کہا تھا فرعون کی بیٹی تھی۔ لیکن قرآن صاف الفاظ میں اسے ”امرأ ۃ فرعون “(فرعون کی بیوی)کہتا ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ صدیوں بعد مرتب کی ہوئی زبانی روایات کے مقابلے میں براہِ راست اللہ تعالیٰ کا بیان ہی قابلِ اعتماد ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ خواہ مخواہ اسرائیلی روایات سے مطابقت پیدا کرنے کی خاطر عربی محاورہ استعمال کے خلاف امرأ ۃ فرعون کے معنی ”فرعون کے خاندان کی عورت “کیے جائیں۔

13. یعنی لڑکی نے اس طریقے سے ٹوکرے پر نگاہ رکھی کہ بہتے ہوئے ٹوکرے کے ساتھ ساتھ وہ اس کو دیکھتی ہوئی چلتی بھی رہی اور دشمن یہ نہ سمجھ سکے کہ اس کا کوئی تعلق اس ٹوکرے والے بچے کے ساتھ ہے ۔اسرائیلی روایات کے مطابق حضرت موسیٰؑ کی یہ بہن اس وقت۱۰۔۱۲ برس کی تھیں۔ ان کی ذہانت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ انہوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ بھائی کا پیچھا کیا اور یہ پتہ چلا لیا کہ وہ فرعون کے محل میں پہنچ چکا ہے۔

14. یعنی فرعون کی بیوی جس انّا کو بھی دودھ پانے کے لیے بلاتی تھی ، بچہ اس کی چھاتی کو منہ نہ لگاتا تھا

15. ہوشیاری کے ساتھ محل کے آس پاس چکر لگاتی رہی۔ پھر جب اسے پتہ چلا کہ بچہ کسی کا دودھ نہیں پی رہا ہے اور ملکہ عالیہ پریشان ہیں کہ کوئی ایسی انّا ملے جو بچے کو پسند آئے تو وہ ذہین لڑکی سیدھی محل میں پہنچ گئی اور جا کر کہا کہ میں ایک اچھی انّا کا پتہ بتاتی ہوں جو اس بچے کو بڑی شفقت کے ساتھ پالے گی۔

اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قدیم زمانے میں ان ممالک کے بڑے اور خاندانی لوگ بچوں کو اپنے ہاں پالنے کے بجائے عموماً انّا ؤں کے سپر د کر دیتے تھے اور وہ اپنے ہاں ان کی پرورش کرتی تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں بھی یہ ذکر آتا ہے کہ مکّہ میں وقتاً فوقتاً اطراف و نواح کی عورتیں انّا گیری کی خدمت کے لیے آتی تھیں اور سرداروں کے بچےدودھ پلانے کے لیے اچھے اچھے معاوضوں پر حاصل کر کے ساتھ لے جاتی تھیں۔ حضور ؐ نے خود بھی حلیمہ سعدیہ کے ہاں صحرا میں پرورش پائی ہے ۔ یہی طریقہ مصر میں بھی تھا ۔ اسی بنا پر حضرت موسیٰؑ کی بہن نے یہ نہیں کہا کہ میں ایک اچھی انّا لا کر دیتی ہوں ، بلکہ یہ کہا کہ میں ایسے گھر کا پتہ بتاتی ہوں جس کے لوگ اس کی پرورش کا ذمہ لیں گے اور اسے خیر خواہی کے ساتھ پالیں گے۔

16. بائیبل اور تلمود سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے کا نام”موسیٰ“فرعون کے گھر میں رکھا گیا تھا۔ یہ عبرانی زبان کا نہیں بلکہ قِبْطی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں”میں نے اسے پانی سے نکالا“۔قدیم مصری زبان سے بھی حضرت موسیٰؑ کے نام کی یہ تخریج صحیح ثابت ہوتی ہے۔اس زبان میں ”مو“پانی کو کہتے تھے اور ”اوشے“کا مطلب تھا”بچا یا ہوا“۔

17. اور اللہ کی اس حکیمانہ تدبیر کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ حضرت موسیٰ فی الواقع فرعون کے شاہزادے نہ بن سکے بلکہ اپنے ہی ماں باپ اور بہن بھائیوں میں پرورش پا کر انہیں اپنی اصلیت اچھی طرح معلوم ہو گئی۔ اپنی خاندانی روایات سے ، اپنے آبائی مذہب سے ، اور اپنی قوم سے ان کا رشتہ نہ کٹ سکا۔ وہ آلِ فرعون کے ایک فرد بننے کے بجائے اپنے دلی جذبات اور خیالات کے اعتبار سے پوری طرح بنی اسرائیل کے ایک فرد بن کر اُٹھے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیث میں فرماتے ہیں مثل الذی یعمل و یحتسب فی صنعتہ الخیر کمثل ام موسیٰ ترضع ولدھا و تاخذا جر ھا۔”جو شخص اپنی روزی کمانے کے لیے کام کرے اور اس کام میں اللہ کی خوشنودی پیش نظر رکھے اس کی مثال حضرت موسیٰؑ کی والدہ کی سی ہے کہ انہوں نے اپنے ہی بیٹے کو دودھ پلایا اورا س کی اجرت بھی پائی“۔ یعنی ایسا شخص اگرچہ اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کام کرتا ہے لیکن چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی پیش نظر رکھ کر ایمانداری سے کام کرتا ہے جس کے ساتھ بھی معاملہ کرتا ہے اس کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کرتا ہے ، اور رزق حلال سے اپنے نفس اور اپنے بال بچوں کی پرورش اللہ کی عبادت سمجھتے ہوئے کرتا ہے ، اس لیے وہ اپنی روزی کمانے پر بھی اللہ کے ہاں اجر کا مستحق ہوتا ہے ۔ گویا روزی بھی کمائی اور اللہ سے اجر وثواب بھی پایا۔