Tafheem ul Quran

Surah 28 Al-Qasas, Ayat 14-21

وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَاسۡتَوٰٓى اٰتَيۡنٰهُ حُكۡمًا وَّعِلۡمًا​ ؕ وَكَذٰلِكَ نَجۡزِى الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿28:14﴾ وَدَخَلَ الۡمَدِيۡنَةَ عَلٰى حِيۡنِ غَفۡلَةٍ مِّنۡ اَهۡلِهَا فَوَجَدَ فِيۡهَا رَجُلَيۡنِ يَقۡتَتِلٰنِ  هٰذَا مِنۡ شِيۡعَتِهٖ وَهٰذَا مِنۡ عَدُوِّهٖ​ۚ فَاسۡتَغَاثَهُ الَّذِىۡ مِنۡ شِيۡعَتِهٖ عَلَى الَّذِىۡ مِنۡ عَدُوِّهٖۙ فَوَكَزَهٗ مُوۡسٰى فَقَضٰى عَلَيۡهِ​  قَالَ هٰذَا مِنۡ عَمَلِ الشَّيۡطٰنِ​ ؕ اِنَّهٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِيۡنٌ‏  ﴿28:15﴾ قَالَ رَبِّ اِنِّىۡ ظَلَمۡتُ نَفۡسِىۡ فَاغۡفِرۡ لِىۡ فَغَفَرَ لَهٗ​ؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿28:16﴾ قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَىَّ فَلَنۡ اَكُوۡنَ ظَهِيۡرًا لِّلۡمُجۡرِمِيۡنَ‏  ﴿28:17﴾ فَاَصۡبَحَ فِى الۡمَدِيۡنَةِ خَآئِفًا يَّتَرَقَّبُ فَاِذَا الَّذِى اسۡتَـنۡصَرَهٗ بِالۡاَمۡسِ يَسۡتَصۡرِخُهٗ​ ؕ قَالَ لَهٗ مُوۡسٰٓى اِنَّكَ لَـغَوِىٌّ مُّبِيۡنٌ‏  ﴿28:18﴾ فَلَمَّاۤ اَنۡ اَرَادَ اَنۡ يَّبۡطِشَ بِالَّذِىۡ هُوَ عَدُوٌّ لَّهُمَا ۙ قَالَ يٰمُوۡسٰٓى اَ تُرِيۡدُ اَنۡ تَقۡتُلَنِىۡ كَمَا قَتَلۡتَ نَفۡسًۢا بِالۡاَمۡسِ ​ۖ  اِنۡ تُرِيۡدُ اِلَّاۤ اَنۡ تَكُوۡنَ جَبَّارًا فِى الۡاَرۡضِ وَمَا تُرِيۡدُ اَنۡ تَكُوۡنَ مِنَ الۡمُصۡلِحِيۡنَ‏ ﴿28:19﴾ وَجَآءَ رَجُلٌ مِّنۡ اَقۡصَا الۡمَدِيۡنَةِ يَسۡعٰى قَالَ يٰمُوۡسٰٓى اِنَّ الۡمَلَاَ يَاۡتَمِرُوۡنَ بِكَ لِيَـقۡتُلُوۡكَ فَاخۡرُجۡ اِنِّىۡ لَـكَ مِنَ النّٰصِحِيۡنَ‏  ﴿28:20﴾ فَخَرَجَ مِنۡهَا خَآئِفًا يَّتَرَقَّبُ​ قَالَ رَبِّ نَجِّنِىۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿28:21﴾

14 - جب موسیٰؑ اپنی پوری جوانی کو پہنچ گیا اور اُس کا نشوونما مکمل ہوگیا18 تو ہم نے اُسے حکم اور علم عطا کیا،19 ہم نے نیک لوگوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ 15 - (ایک روز) وہ شہر میں ایسے وقت داخل ہوا جبکہ اہلِ شہر غفلت میں تھے۔20 وہاں اُس نے دیکھا کہ دو آدمی لڑ رہے ہیں۔ ایک اُس کی اپنی قوم کا تھا اور دُوسرا اُس کی دشمن قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ اُس کی قوم کے آدمی نے دشمن قوم والے کے خلاف اُسے مدد کے لیے پکارا۔ موسیٰؑ نے اُس کو ایک گھونسا مارا21 اور اُس کا کام تمام کر دیا۔ (یہ حرکت سرزَد ہوتے ہی )موسیٰؑ نے کہا”یہ شیطان کی کار فرمائی ہے، وہ سخت دشمن اور کھُلا گمراہ کُن ہے۔“22 16 - پھر وہ کہنے لگا”اے میرے ربّ، میں نے اپنے نفس پر ظلم کر ڈالا، میری مغفرت فرما دے۔“23 چنانچہ اللہ نے اُس کی مغفرت فرما دی، وہ غفورٌ رحیم ہے۔24 17 - موسیٰؑ نے عہد کیا کہ ”اے میرے ربّ، یہ احسان جو تُو نے مجھ پر کیا ہے25 اِس کے بعد اب میں کبھی مجرموں کا مددگار نہ بنوں گا۔“26 18 - دوسرے روز وہ صبح سویرے ڈرتا اور ہر طرف سے خطرہ بھانپتا ہوا شہر میں جا رہا تھا کہ یکایک کیا دیکھتا ہے کہ وہی شخص جس نے کل اُسے مدد کے لیے پکارا تھا آج پھر اُسے پکاررہا ہے۔ موسیٰؑ نے کہا”تُو تو بڑا ہی بہکا ہوا آدمی ہے۔“27 19 - پھر جب موسیٰؑ نے ارادہ کیا کہ دشمن قوم کے آدمی پر حملہ کرے28 تو وہ پکار اُٹھا29 ”اے موسیٰؑ ، کیا آج تُو مجھے اُسی طرح قتل کرنے لگا ہے جس طرح کل ایک شخص کو قتل کر چکا ہے، تُو اس ملک میں جبّار بن کر رہنا چاہتا ہے، اصلاح کرنا نہیں چاہتا۔“ 20 - اس کے بعد ایک آدمی شہر کے پَرلے سِرے سے دوڑتا ہوا آیا30 اور بولا ”موسیٰؑ ، سرداروں میں تیرے قتل کے مشورے ہو رہے ہیں، یہاں سے نکل جا ، میں تیرا خیر خواہ ہوں۔“ 21 - یہ خبر سُنتے ہی موسیٰؑ ڈرتا اور سہمتا نکل کھڑا ہوا اور اُس نے دُعا کی کہ ”اے میرے ربّ، مجھے ظالموں سے بچا۔“ ؏۲


Notes

18. یعنی جب ان کا جسمانی و ذہنی نشونما مکمل ہو گیا۔ یہودی روایات میں اس وقت حضرت موسیٰؑ کی مختلف عمریں بتائی گئی ہیں۔ کسی نے ۱۸ سال لکھی ہے، کسی نے ۲۰ سال، اور کسی نے ۴۰ سال۔ بائیبل کے نئے عہد نامے میں ۴۰ سال عمر بتائی گئی ہے(اعمال۲۳:۷)۔ لیکن قرآن کسی عمر کی تصریح نہیں کرتا ۔ جس مقصد کے لیے قصّہ بیان کیا جا رہا ہے اس کے لیے بس اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ آگے جس واقعہ کا ذکر ہو رہا ہے وہ اُس زمانے کا ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پورے شباب کو پہنچ چکے تھے۔

19. حکم سے مراد حکمت، دانائی، فہم و فراست اور قوتِ فیصلہ ۔ اور علم سے مراد دینی اور دنیوی علوم دونوں ہیں، کیونکہ اپنے والدین کے ساتھ ربط ضبط قائم رہنے کی وجہ سے ان کو اپنے باپ دادا (حضرت یوسف، یعقوب، اسحاق اور ابراہیم علیہم السلام) کی تعلیمات سے بھی واقفیت حاصل ہو گئی، اور بادشاہِ وقت کے ہاں شاہزادے کی حیثیت سے پرورش پانے کے باعث اُن کو وہ تمام دنیوی علوم بھی حاصل ہوئے جو اُس زمانے کے اہل مصر میں متداول تھے۔ اس حکم اور علم کے عطیہ سے مراد نبوت کا عطیہ نہیں ہے،کیونکہ حضرت موسیٰؑ کو نبوت تو اس کے کئی سال بعد عطا فرمائی گئی، جیسا کہ آگے آرہا ہے اور اس سے پہلے سورہ شعراء (آیت۲۱) میں بھی بیان ہو چکا ہے۔

اِس زمانہ شاہزادگی کی تعلیم و تربیت کے متعلق بائیبل کی کتاب الاعمال میں بتایا گیا ہے کہ ”موسیٰ نے مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی اور وہ کام اور کلام میں قوت والا تھا“(۲۲:۷) ۔ تلمود کا بیان ہے کہ موسیٰ علیہ السلام فرعون کے گھر میں ایک خوبصورت جوان بن کر اُٹھے۔ شاہزادوں کا سا لباس پہنتے ، شاہزادوں کی طرح رہتے ،اور لوگ ان کی نہایت تعظیم و تکریم کرتے تھے۔ وہ اکثر جُشَن کے علاقے میں جاتے جہاں اسرائیلیوں کی بستیاں تھیں۔ اور ان تمام سختیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے جو ان کی قوم کے ساتھ قِبطی حکومت کے ملازمین کرتے تھے۔ انہی کی کوشش سے فرعون نے اسرائیلیوں کے لیے ہفتہ میں ایک دن کی چھٹی مقرر کی۔ انہوں نے فرعون سے کہا کہ دائماً مسلسل کام کرنے کی وجہ سے یہ لوگ کمزور ہو جائیں گے اور حکومت ہی کے کام کا نقصان ہوگا۔ ان کی قوت بحال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ہفتے میں ایک دن آرام کا دیا جائے۔ اسی طرح اپنی دانائی سے انہوں نے اور بہت سے ایسے کام کیے جن کی وجہ سے تمام ملک مصر میں ان کی شہرت ہوگئی تھی۔(اقتباسات تلمود۔ صفحہ۱۲۹)۔

20. ہو سکتا ہے کہ وہ صبح سویرے کا وقت ہو، یا گرمی میں دوپہر کا ، یا سردیوں میں رات کا۔ بہر حال مراد یہ ہے کہ جب سڑکیں سنسان تھیں اور شہر میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔

”شہر میں داخل ہوا“، ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دارالسطنت کے شاہی محلات عام آبادی سے باہر واقع تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام چونکہ شاہی محل میں رہتے تھے اس لیے”شہر میں نکلے“کہنے کے بجائے”شہر میں داخل ہوئے“فرمایا گیا ہے۔

21. اصل میں لفظ”وکز“استعمال ہوا ہے جس کے معنی تھپڑ مارنے کے بھی ہیں اور گھونسا مارنے کے بھی ۔ ہم نے اس خیال سے کہ تھپڑ سے موت واقع ہو جانا گھونسے کی بہ نسبت بعید تر ہے، اس کا ترجمہ گھونسا مارنا کیا ہے۔

22. اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گھونسا کھآ کر جب مصری گرا ہوگا اور اس نے دم توڑ دیا ہوگا تو کیسی سخت ندامت اور گھبراہٹ کی حالت میں یہ الفاظ حضرت موسیٰؑ کی زبان سے نکلے ہوں گے۔ ان کا کوئی ارادہ قتل کا نہ تھا۔ نہ قتل کے لیے گھونسا مارا جاتا ہے۔ نہ کوئی شخص یہ توقع رکھتا ہے کہ ایک گھونسا کھاتے ہی ایک بھلا چنگا آدمی پِرَان چھوڑ دے گا۔ اس بنا پر حضرت موسیٰؑ نے فرمایا کہ یہ شیطان کا کوئی شریر انہ منصوبہ معلوم ہوتا ہے ۔ اس نے ایک بڑا فساد کھڑا کرنے کے لیے مجھ سے یہ کام کرایا ہے تا کہ ایک اسرائیلی کی حمایت میں ایک قبطی کو مار ڈالنے کا الزام مجھ پر عائد ہو اور صرف میرے ہی خلاف نہیں بلکہ تمام بنی اسرائیل کے خلاف مصر میں ایک طوفانِ عظیم اُٹھ کھڑا ہو۔ اس معاملہ میں بائیبل کا بیان قرآن سے مختلف ہے۔ وہ حضرت موسیٰؑ کو قتلِ عمد کا مجرم ٹھیراتی ہے۔ اس کی روایت یہ ہے کہ مصری اور اسرائیلی کو لڑتے دیکھ کر حضرت موسیٰؑ نے ”ادھر اُدھر نگاہ کی اور جب دیکھا کہ وہاں کوئی دوسرا آدمی نہیں ہے تو اس مصری کو جان سے مار کر اسے ریت میں چھپا دیا“(خروج۱۲:۲)۔ یہی بات تلمود میں بھی بیان کی گئی ہے۔ اب یہ ہے شخص دیکھ سکتا ہے کہ بنی اسرائیل اپنے اکابر کی سیرتوں کوخود کس طرح داغدار کرتے ہیں اور قرآن کس طرح ان کی پوزیشن صاف کرتا ہے ۔ عقل بھی یہی کہتی ہے کہ ایک حکیم و دانا آدمی، جسے آگے چل کر ایک اولو العزم پیغمبر ہونا تھا اور جسے انسان کو عدل و انصاف کا ایک عظیم الشان قانون دینا تھا، ایسا اندھا قوم پرست نہیں ہو سکتا کہ اپنی قوم کے ایک فرد سے دوسری قوم کے کسی شخص کو لڑتے دیکھ کر آپے سے باہر ہو جائے اور جان بوجھ کر اسے قتل کر ڈالے۔ ظاہر ہے کہ اسرائیلی کو مصری کے پنچے سے چھڑا نے کے لیے اسے قتل کر دینا تو روانہ ہو سکتا تھا۔

23. مغفرت کے معنی در گزر کرنے اور معاف کر دینے کے بھی ہیں ، اور ستر پوشی کرنے کے بھی۔ حضرت موسیٰؑ کی دعا کا مطلب یہ تھا کہ میرے اس گناہ کو (جسے تو جانتا ہے کہ میں عمداً نہیں کیا ہے ) معاف بھی فرمادے اور اس کا پردہ بھی ڈھانک دے تا کہ دشمنوں کو اس کا پتہ نہ چلے۔

24. اس کے بھی دو مطلب ہیں، اور دونوں یہاں مراد ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ قصور معاف بھی فرمادیا اور حضرت موسیٰؑ کا پردہ بھی ڈھانک دیا، یعنی قبطی قوم کے کسی فرد اور قبطی حکومت کے کسی آدمی کا اُس وقت اُن کے آس پاس کہیں گزر نہ ہوا کہ وہ قتل کے اس واقعہ کو دیکھ لیتا۔ اس طرح حضرت موسیٰؑ کو خاموشی کے ساتھ موقع واردات سے نکل جانے کا موقع مل گیا۔

25. یعنی یہ احسان کہ میرا فعل چھپا رہ گیا ، اور دشمن قوم کے کسی فرد نے مجھ کو نہیں دیکھا، اور مجھے بچ نکلنے کا موقع مل گیا۔

26. یعنی حضرت موسیٰؑ کا یہ عہد بہت وسیع الفاظ میں ہے۔ اس سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ میں کسی مجرم فرد کا مدد گار نہیں بنوں گا، بلکہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ میری امداد و اعانت کبھی ان لوگوں کے ساتھ نہ ہوگی جو دنیا میں ظلم وستم کرتے ہیں۔ ابن جریر اور متعدد دوسرے مفسرین نے اس کا یہ مطلب بالکل ٹھیک لیا ہے کہ اسی روز حضرت موسیٰؑ نے فرعون اور اس کی حکومت سے قطع تعلق کر لینے کا عہد کر لیا، کیونکہ وہ ایک ظالم حکومت تھی اور اس نے خدا کی زمین پر ایک مجرمانہ نظام قائم کر رکھا تھا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ کسی ایمان دار آدمی کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ ایک ظالم سلطنت کا کَل پُرزہ بن کر رہے اور اس کی حشمت و طاقت میں اضافے کا موجب بنے۔

علماء اسلام نے بالعموم حضرت موسی کے اس عہد سے یہ استدلال کیا ہے کہ ایک مومن کو ظالم کی اعانت سے کامل اجتناب کرنا چاہیے، خواہ وہ ظالم فرد ہو، یا گروہ، یا حکومت و سلطنت۔مشہور تابعی حضرت عطا ءبن رباح سے ایک صاحب نے عرض کیا کہ میرا بھائی بنی امیہ کی حکومت میں کوفے کے گورنرکا کاتب (سکریٹری) ہے۔معاملات کے فیصلے کرنا اس کا کام نہیں ہے۔ البتہ جو فیصلے کئے جاتے ہیں اس کے قلم سے جاری ہوتے ہیں۔یہ نوکری وہ نہ کرے تو مفلس ہوجائے۔حضرت عطا نے جواب میں یہی آیت پڑھی اور فرمایا تیرے بھائی کو چاہیے کہ اپنا قلم پھینک دے، رزق دینے والا اللہ ہے۔

ایک اور کاتب نے عامر شَعبِی سے پوچھا”اے ابو عمر و ، میں بس احکام لکھ کر جاری کرنے کا ذمہ دار ہوں ، فیصلے کرنے کا ذمہ دار نہیں ہوں، کیا یہ رزق میرے لیے جائز ہے“؟ انہوں نے کہا”ہو سکتا ہے کہ کسی بے گناہ کے قتل کا فیصلہ کیا جائے اور وہ تمہارے قلم سے جاری ہو۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کا مال ناحق ضبط کیا جائے ، یا کسی کا گھر گرانے کا حکم دیا جائے اور وہ تمہارے قلم سے جاری ہو“۔ پھر امام موصوف نے یہ آیت پڑھی جسے سنتے ہی کاتب نے کہا”آج کے بعد میرا قلم بنی امیّہ کے احکام جاری کرنے میں استعمال نہ ہوگا“۔امام نے کہا”پھر اللہ بھی تمہیں رزق سے محروم نہ فرمائے گا“۔

ضَحّاک کو تو عبد الرحمٰن بن مسلم نے صرف اس خدمت پر بھیجنا چاہا تھا کہ وہ بخارا کے لوگوں کی تنخواہیں جا کر بانٹ آئیں، مگر انہوں نے اس سے بھی انکار کر دیا۔ ان کے دوستوں نے کہا آخر اس میں کیا حرج ہے؟ انہوں نے کہا میں ظالموں کے کسی کام میں بھی مدد گار نہیں بننا چاہتا (روحالمعافی، ج۲۰،ص۴۹)۔

امام ابو حنیفہ کا یہ واقعہ ان کے تمام مستند سوانح نگاروں ۔ الموفَّق الملکی، ابن البَزَّاز الکَرْوَرِی، ملّا علی قاری دغیر ہم نے لکھا ہے کہ انہی کی تلقین پر منصور کے کمانڈر انچیف حسن بن قَحطُبہ نے یہ کہہ کر اپنے عہد ے سے استعفا دے دیا تھا کہ آج تک میں نے آپ کی سلطنت کی حمایت کے لیے جو کچھ کیا ہے یہ اگر خدا کی راہ میں تھا تو میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے ، لیکن اگر یہ ظلم کی راہ میں تھا تو میں اپنے نامہ اعمال میں مزید جرائم کا اضافہ نہیں کرنا چاہتا۔

27. یعنی تو جھگڑا لو آدمی معلوم ہوتا ہے ۔ روز تیرا کسی نہ کسی سے جھگڑا ہوتا رہتا ہے ۔ کل ایک شخص سے بھڑ گیا تھا، آج ایک دوسرے شخص سے جا بھڑا۔

28. بائیبل کا بیان یہاں قرآن کے بیان سے مختلف ہے۔ بائیبل کہتی ہے کہ دوسرے دن کا جھگڑا دو اسرائیلیوں کے درمیان تھا۔ لیکن قرآن کہتا ہے کہ یہ جھگڑا بھی اسرائیلی اور مصری کے درمیان ہی تھا۔ قرینِ قیاس بھی یہی دوسرا بیان معلوم ہوتا ہے، کیونکہ پہلے دن کے قتل کا راز فاش ہونے کی جو صورت آگے بیان ہو رہی ہے وہ اسی طرح رونما ہو سکتی تھی کہ مصری قوم کے ایک شخص کو اُس واقعہ کی خبر ہو جاتی۔ ایک اسرائیلی کے علم میں اس کے آجانے سے یہ امکان کم تھا کہ اپنی قوم کے پشتیبان شہزادے کے اتنے بڑے قصور کی اطلاع پاتے ہی وہ جا کر فرعونی حکومت میں اس کی مخبری کر دیتا۔

29. یہ پکارنے والا وہی اسرائیلی تھا جس کی مدد کے لیے حضرت موسیٰؑ آگے بڑھے تھے۔ اس کو ڈانٹنے کے بعد جب آپ مصری کو مارنے کے لیے چلے تو اُس اسرائیلی نے سمجھا کہ یہ مجھے مارنے آرہے ہیں ، اس لیے اس نے چیخنا شروع کر دیا اور اپنی حماقت سے کل کے قتل کا راز فاش کر ڈالا۔

30. یعنی اس دوسرے جھگڑے میں جب قتل کا راز فاش ہو گیا اور اس مصری نے جا کر مخبری کر دی تب یہ واقعہ پیش آیا۔