Tafheem ul Quran

Surah 28 Al-Qasas, Ayat 22-28

وَلَـمَّا تَوَجَّهَ تِلۡقَآءَ مَدۡيَنَ قَالَ عَسٰى رَبِّىۡۤ اَنۡ يَّهۡدِيَنِىۡ سَوَآءَ السَّبِيۡلِ‏ ﴿28:22﴾ وَلَـمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدۡيَنَ وَجَدَ عَلَيۡهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسۡقُوۡنَ  وَوَجَدَ مِنۡ دُوۡنِهِمُ امۡرَاَتَيۡنِ تَذُوۡدٰنِ​ ۚ قَالَ مَا خَطۡبُكُمَا​ ؕ قَالَـتَا لَا نَسۡقِىۡ حَتّٰى يُصۡدِرَ الرِّعَآءُ​ وَاَبُوۡنَا شَيۡخٌ كَبِيۡرٌ‏  ﴿28:23﴾ فَسَقٰى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلّٰٓى اِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّىۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَىَّ مِنۡ خَيۡرٍ فَقِيۡرٌ‏ ﴿28:24﴾ فَجَآءَتۡهُ اِحۡدٰٮہُمَا تَمۡشِىۡ عَلَى اسۡتِحۡيَآءٍ  قَالَتۡ اِنَّ اَبِىۡ يَدۡعُوۡكَ لِيَجۡزِيَكَ اَجۡرَ مَا سَقَيۡتَ لَـنَا​ ؕ فَلَمَّا جَآءَهٗ وَقَصَّ عَلَيۡهِ الۡقَصَصَ ۙ قَالَ لَا تَخَفۡ​ نَجَوۡتَ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَ‏  ﴿28:25﴾ قَالَتۡ اِحۡدٰٮہُمَا يٰۤاَبَتِ اسْتَاْجِرۡهُ​ اِنَّ خَيۡرَ مَنِ اسۡتَـاْجَرۡتَ الۡقَوِىُّ الۡاَمِيۡنُ‏ ﴿28:26﴾ قَالَ اِنِّىۡۤ اُرِيۡدُ اَنۡ اُنۡكِحَكَ اِحۡدَى ابۡنَتَىَّ هٰتَيۡنِ عَلٰٓى اَنۡ تَاۡجُرَنِىۡ ثَمٰنِىَ حِجَجٍ​ۚ فَاِنۡ اَتۡمَمۡتَ عَشۡرًا فَمِنۡ عِنۡدِكَ​ۚ وَمَاۤ اُرِيۡدُ اَنۡ اَشُقَّ عَلَيۡكَ​ؕ سَتَجِدُنِىۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰلِحِيۡنَ‏  ﴿28:27﴾ قَالَ ذٰ لِكَ بَيۡنِىۡ وَبَيۡنَكَ​ ؕ اَيَّمَا الۡاَجَلَيۡنِ قَضَيۡتُ فَلَا عُدۡوَانَ عَلَـىَّ​ ؕ وَاللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوۡلُ وَكِيۡلٌ‏ ﴿28:28﴾

22 - (مصر سے نکل کر)جب موسیٰؑ نے مَدیَن کا رُخ کیا31 تو اُس نے کہا”اُمید ہے کہ میرا ربّ مجھے ٹھیک راستے پر ڈال دے گا۔“32 23 - اور جب وہ مَدیَن کے کنوئیں پر پہنچا33 تو اُس نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اپنے جانوروں کو پانی پِلا رہے ہیں اور اُن سے الگ ایک طرف دو عورتیں اپنے جانوروں کو روک رہی ہیں۔ موسیٰؑ نے ان عورتوں سے پوچھا”تمہیں کیا پریشانی ہے؟“ اُنہوں نے کہا”ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پِلا سکتیں جب تک یہ چرواہے اپنے جانور نہ نکال لے جائیں، اور ہمارے والد ایک بہت بُوڑھے آدمی ہیں۔“34 24 - یہ سُن کر موسیٰؑ نے اُن کے جانوروں کو پانی پِلا دیا، پھر ایک سائے کی جگہ جا بیٹھا اور بولا”پروردگار، جو خیر بھی تُو مجھ پر نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں۔“ 25 - (کچھ دیر نہ گزری تھی کہ)اُن دونوں عورتوں میں سے ایک شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اُس کے پاس آئی35 اور کہنے لگی”میرے والد آپ کو بُلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے لیے جانوروں کو پانی جو پلایا ہے اس کا اجر آپ کو دیں۔“36 موسیٰؑ جب اُس کے پاس پہنچا اور اپنا سارا قصہ اُسے سُنایا تو اُس نے کہا ”کچھ خوف نہ کرو، اب تم ظالم لوگوں سے بچ نِکلے ہو۔“ 26 - ان دونوں عورتوں میں سے ایک نے اپنے باپ سے کہا”ابّا جان، اِس شخص کو نوکر رکھ لیجیے، بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھیں وہی ہو سکتا ہے جو مضبوط اور امانتدار ہو۔“37 27 - اس کے باپ نے (موسیٰؑ سے)کہا”38 میں چاہتا ہوں کہ اپنی اِن دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تمہارے ساتھ کر دوں بشرطیکہ تم آٹھ سال تک میرے ہاں ملازمت کرو اور اگر دس سال تک پُورے کر دو تو یہ تمہاری مرضی ہے۔ میں تم پر سختی نہیں کرنا چاہتا۔ تم انشاءاللہ مجھے نیک آدمی پاوٴ گے۔“ 28 - موسیٰؑ نے جواب دیا”یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہوگئی۔ ان دونوں مدّتوں میں سے جو بھی میں پُوری کر دوں اُس کے بعد پھر کوئی زیادتی مجھ پر نہ ہو، اور جو کچھ قول قرار ہم کر رہے ہیں اللہ اُس پر نگہبان ہے۔“39 ؏ ۳


Notes

31. بائیبل کا بیان اس امر میں قرآن سے متفق ہے کہ حضرت موسیٰؑ نے مصر سے نکل کر مَدْیَن کا رُخ کیا تھا۔ لیکن تلمود یہ بے سرو پا قصہ بیان کرتی ہے کہ حضرت موسیٰؑ مصر سے بھاگ کر حبش چلے گئے، اور وہاں بادشاہ کے مقرب ہوگئے۔ پھر اس کے مرنے پر لوگوں نے ان کو اپنا بادشاہ بنا لیا اور اس کی بیوہ سے ان کی شادی کر دی۔ ۴۰ سال انہوں نے وہاں حکومت کی۔ مگر اس پوری مدت میں اپنی حبشی بیوی سے کبھی مقاربت نہ کی۔ ۴۰ سال گزرنے جانے کے بعد اس عورت نے حبش کے باشندوں سے شکایت کی کہ اس شخص نے آج تک نہ تو مجھ سے زن و شَو کا تعلق رکھا ہے اور نہ کبھی حبش کے دیوتاؤں کی پرستش کی ہے ۔ اس پر امرائے سلطنت نے انہیں معزول کر کے اور بہت سامال دے کر ملک سے باحترام رخصت کر دیا۔ تب وہ حبش سے مدین پہنچے اور وہ واقعات پیش آئے جو آگے بیان ہو رہے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر ۶۷ سال تھی۔

اس قصے کے بے سرو پا ہونے کی ایک کھلی ہوئی دلیل یہ ہے کہ اسی قصے میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اُس زمانے میں اسیر یا(شمالی عراق) پر حبش کی حکومت تھی۔ ، اور اسیریا والوں کی بغاوتیں کچلنے کے لیے حضرت موسیٰؑ نے بھی اور ان کے پیش رو بادشاہ نے بھی فوجی چڑھائیاں کی تھیں۔ اب جو شخص بھی تاریخ و جغرافیہ سے کوئی واقفیت رکھتا ہو وہ نقشے پر ایک نگاہ ڈال کر دیکھ سکتا ہے کہ اسیریا پر حبش کا تسلط اور حبشی فوج کا حملہ یا تو اس صورت میں ہو سکتا تھا کہ مصر اور فلسطین و شام پر اس کا قبضہ ہو تا، یا پورا ملک عرب اس کے زیر نگین ہوتا، یا پھر حبش کا بیڑا ایسا زبردسست ہو تا کہ وہ بحرِ ہند اور خلیج فارس کو عبور کر کے عراق فتح کر لیتا۔ تاریخ اس ذکر سے خالی ہے کہ کبھی حبشیوں کو ان ممالک پر تسلط حاصل ہوا ہو یا ان کی بحری طاقت اتنی زبر دست رہی ہو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کا علم خود اپنی تاریخ کے بارے میں کتنا ناقص تھا اور قرآن ان کی غلطیوں کی تصحیح کر کے صحیح واقعات کیسی منقّح صورت میں پیش کر تا ہے ۔ لیکن عیسائی اور یہودی مستشرقین کو یہ کہتے ذرا شرم نہیں آتی کہ قران نے یہ قصّے بنی اسرائیل سے نقل کر لیے ہیں۔

32. یعنی ایسے راستہ پر جس سے میں بخیریت مدین پہنچ جاؤں۔

واضح رہے کہ اُس زمانے میں مدین فرعون کی سلطنت سے باہر تھا۔ مصر کی حکومت پورے جزیرہ نما ئے سینا پر نہ تھی بلکہ صرف اس کے مغربی اور جنوبی علاقے تک محدود تھی۔ خلیج عَقَبہ کے مشرقی اور مغربی سواحل ، جن پر بنی مدیان آباد تھے، مصری اثر واقتدار سے بالکل آزاد تھے۔ اسی بنا پر حضرت موسیٰؑ نے مصر سے نکلتے ہی مدین کا رُخ کیا تھا، کیونکہ قریب ترین آزاد اور آباد علاقہ وہی تھا۔ لیکن وہاں جانے کے لیے انہیں گزرنا بہر حال مصر کے مقبوضہ علاقوں ہی سے تھا، اور مصر کی پولیس اور فوجی چوکیوں سے بچ کر نکلنا تھا۔ اسی لیے انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے ایسے راستے پر ڈال دے جس سے میں صحیح و سلامت مَدْین پہنچ جاؤں۔

33. یہ مقام جہاں حضرت موسیٰ ؑ پہنچے تھے، عربی روایات کے مطابق خلیج عقبہ کے غربی ساحل پر مَقْنا سے چند میل بجانب شمال واقع تھا ۔ آج کل اسے البِدْع کہتے ہیں اور وہاں ایک چھوٹا سا قصبہ آباد ہے۔میں نے دسمبر۱۹۵۹؁ میں تَبوک سے عَقَبہ جاتے ہوئے اس جگہ کو دیکھا ہے ۔ مقامی باشندوں نے مجھے بتایا کہ ہم باپ داد سے یہی سنتے چلے آئے ہیں کہ مَدْین اِسی جگہ واقع تھا۔ یوسیفوس سے لے کر برٹن تک قدیم و جدید سیاحوں اور جغرافیہ نویسوں نے بھی بالعموم مدین کی جائے وقوع یہی بتائی ہے ۔ اس کے قریب تھوڑے فاصلے پر وہ جگہ ہے جسے اب مغائر شعیب یا مغارات شیعب کہا جاتا ہے ۔ اس جگہ ثمودی طرز کی کچھ عمارات موجود ہیں۔ اور اس سے تقریباً میل ڈیڑھ میل کے فاصلے پر کچھ قدیم کھنڈر ہیں جن میں دواندھے کنویں ہم نے دیکھے۔ مقامی باشندوں نے ہمیں بتایا کہ یقین کے ساتھ تو ہم نہیں کہہ سکتے، لیکن ہمارے ہاں روایات یہی ہیں کہ ان دونوں میں سے ایک کنواں وہ تھا جس پر حضرت موسیٰؑ نے بکریوں کو پانی پلایا ہے ۔ یہی بات ابو الفِداء ( متوفی ۷۲۳؁ ھح) نے تقویم البُلدان میں اور یا قوت نے مُعْجم البُلدان میں ابو زید انصاری (متوفی۲۱۶؁ ھح) کے حوالے سے لکھی ہے کہ اس علاقے کے باشندے اسی مقام پر حضرت موسیٰؑ کے اس کنویں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت صدیوں سے وہاں کے لوگوں میں متوارث چلی آرہی ہے اور اس بنا پر اعتماد کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں جس مقام کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہی ہے ۔ مقابل کے صفحہ پر اس مقام کی کچھ تصاویر ملاحظہ ہوں۔

34. یعنی ہم عورتیں ہیں، ان چرواہوں سے مزاحمت اور کشمکش کر کے اپنے جانوروں کو پانی پلانا ہمارے بس میں نہیں ہے۔ والد ہمارےاس قدر سن رسیدہ ہیں کہ وہ خود یہ مشقت اُٹھا نہیں سکتے۔ گھر میں کوئی دوسرا مرد بھی نہیں ہے۔ اس لیے ہم عورتیں ہی یہ کام کرنے نکلتی ہیں اور جب تک سب چروا ہے اپنے جانوروں کو پانی پلا کر چلے نہیں جاتے ، ہم کو مجبوراً انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ اس سارے مضمون کو ا ن خواتین نے صرف ایک مختصر سے فقرے میں ادا کر دیا، جس سے ان کی حیا داری کا اندازہ ہوتا ہے کہ ایک غیر مرد سے زیادہ بات بھی نہ کرنا چاہتی تھیں، مگر یہ بھی پسند نہ کرتی تھی کہ یہ اجنبی ہمارے خاندان کے متعلق کوئی غلط رائے قائم کر لے اور اپنے ذہن میں یہ خیال کر ے کہ کیسے لوگ ہیں جن کے مرد گھر بیٹھے رہے اور اپنی عورتوں کو اس کام کے لیے باہر بھیج دیا۔

ان خواتین کے والد کے متعلق ہمارے ہاں کی روایات میں یہ بات مشہور ہو گئی ہے کہ وہ حضرت شعیب علیہ السلام تھے۔ لیکن قرآن مجید میں اشارۃ وکنا یتہً بھی کوئی بات ایسی نہیں کہی گئی ہے جس سے یہ سمجھا جا سکے کہ وہ حضرت شعیبؑ ہی تھے۔ حالانہ شعیب علیہ السلام کی شخصیت قرآن میں ایک معروف شخصیت ہے ۔ اگر ان خواتین کے والد وہی ہوتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ یہاں اس کی تصریح نہ کر دی جاتی۔ بلا شبہ بعض احادیث میں ان کے نام کی تصریح ملتی ہے ، لیکن علامہ ابن جریر اور ابن کثیر دونوں اس پر متفق ہیں کہ ان میں سے کسی کی سند بھی صحیح نہیں ہے۔ اسی لیے ابن عباس ، حسن بصری، ابو عبیدہ اور سعید جُبَیر جیسے اکا بر مفسرین نے بنی اسرائیل کی روایات پر اعتماد کر کے ان بزرگ کے وہی نام بتائے ہیں جو تلمود وغیرہ میں آئے ہیں ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسم ِ شعیب کی تصریح ہوتی تو یہ حضرات کوئی دوسرا نام نہ لے سکتے تھے۔

بائیبل میں ایک جگہ ان بزرگ کا نام رعوایل اور دوسری جگہ یَتْر و بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ مَدْین کے کاہن تھے۔ (خروج باب۱۶:۲۔۱۸۔باب۱:۳۔باب۵:۱۸)۔تلمودی لڑیچر میں رعوایل ، یتھرو اور حوباب تین مختلف نام بتائے گئے ہیں۔ موجودہ زمانے کے علاما ئے یہود کا خیال یہ ہے کہ یتھرو ہزاکسیلنسی کا ہم معنی لقب تھا اور اصل نام رعوایل یا حوباب تھا۔ اسی طرح لفظ کا ہن(Kohen Midian ) کی تشریح میں بھی علماء یہود کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض اس کو پر وہت(Priest ) کا ہم معنی بتاتے ہیں اور بعض رئیس یا امیر (Prince ) کا۔

تلمود میں ان کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں کہ حضرت موسیٰؑ کی پیدائش سے پہلے فرعون کے ہاں ان کی آمدروفت تھی اور وہ ان کے علم اور اصابت رائے پر اعتماد رکھتا تھا۔ مگر جب بنی اسرائیل کا استیصال کرنے کے لیے مصر کی شاہی کو نسل میں مشورے ہونے لگے اور ان کے لڑکوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کر دینے کا فیصلہ کیا گیا تو انہوں نے فرعون کو اس غلط کام سے روکنے کی کوشش کی، اسے اس ظلم کے بُرے نتائج سے ڈرایا اور رائے دی کہ اگر ان لوگوں کا وجود آپ کے لیے ناقابلِ برداشت ہے تو انہیں ان کے باپ دادا کے ملک کنعان کی طرف نکال دیجیے۔ اس پر فرعون ان سے ناراض ہوگیا اور اس نے انہیں ذلت کے ساتھ اپنے دربار سے نکلوادیا۔ اس وقت سے وہ اپنے ملک مدین ہی میں اقامت گُزیں ہوگئے تھے۔

ان کے مذہب کے متعلق قیاس یہی ہے کہ حضرت موسیٰؑ کی طرح وہ بھی دینِ ابراہیمی کے پیرو تھے۔ کیونکہ جس طرح حضرت موسیٰ اسحاق بن ابراہیم(علیھما السلام) کی اولاد تھے اسی طرح وہ مدیان بن ابراہیم کی اولاد میں سے تھے۔ یہی تعلق غالباً اس کا موجب ہوا ہوگا کہ انہوں نے فرعون کو بنی اسرائیل پر ظلم کرنے سے روکا اور اس کی ناراضی مول لی۔ مفسر نیسا بوری نے حضرت حسن بصر ی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ انہ کان رجلا مسلما قَبِل الدین مِن شعیب۔(وہ ایک مسلما ن آدمی تھے۔ حضرت شعیبؑ کا دین انہوں نے قبول کر لیا تھا) ۔ تلمود بیان کیا گیا ہے کہ وہ مدیانیوں کی بت پرستی کو علانیہ حماقت قرار دیتے تھے، اس وجہ سے اہل ِ مدین ان کے مخالف ہوگئے تھے۔

35. حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس فقرے کی تشریح کی ہے : جاءت تمشی علی استحیاء قائلۃ بثوبھا علی وجھھا لیست بسلفع من النساء دلاجۃ ولاجۃ خراجۃ۔”وہ شرم حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اپنا منہ گھونگھٹ سے چھپائے ہوئے آئی۔ ان بے باک عورتوں کی طرح دّرانہ نہیں چلی آئی جو ہر طرف نکل جاتی اور ہر جگہ جا گھستی ہیں“۔ اس مضمون کی متعدد روایات سعید بن منصور، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن المنذر نے معتبر سندوں کے ساتھ حضرت عمرؓ سے نقل کی ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے عہد میں حیا داری کا اسلامی تصور، جو قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت سے ان بزرگوں سے سمجھا تھا، چہرے کو اجنبیوں کے سامنے کھولے پھرنے اور گھر سے باہر بے باکانہ چلت پھرت دکھانے کے قطعاً خلاف تھا۔ حضرت عمرؓ صاف الفاظ میں یہاں چہرہ ڈھانکنے کو حیا کی علامت اور اسے اجانب کے سامنے کھولنے کو بے حیائی قرار دے رہے ہیں۔

36. یہ بات شرم و حیا ہی کی وجہ سے انہوں نے کہی، کیونکہ ایک غیر مرد کے پاس اکیلی جگہ آنے کی کوئی معقول وجہ بتانی ضرور ی تھی۔ ورنہ ظاہر ہے کہ ایک شریف آدمی نے اگر عورت ذات کو پریشانی میں مبتلا دیکھ کر اس کی کوئی مدد کی ہو تو اس کا بدلا دینے کے لیے کہنا کوئی اچھی بات نہ تھی۔ اور پھراس بدلے کا نام سن لینے کے باوجود حضرت موسیٰؑ جیسے عالی ظرف انسان کا چل پڑنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس وقت انتہائی اضطرار کی حالت میں تھے۔ بے سرو سامانی کے عالم میں یکایک مصر سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ مدین تک کم از کم آٹھ دن میں پہنچے ہوں گے۔ بھوک پیاس اور سفر کی تکان سے بُرا حال ہوگا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ فکر ہوگی کہ اس دیارِ غیر میں کوئی ٹھکانہ میسر آئے اور کوئی ایسا ہمدرد ملے جس کی پناہ میں رہ سکیں۔ اسی مجبوری کی وجہ سے یہ لفظ سُن لینے کے باوجود کہ اس ذرا سی خدمت کا اجر دینے کے لیے بلایا جا رہا ہے ، حضرت موسیٰؑ نے جا نے میں تامل نہ کیا۔ انہوں نے خیال فرمایا ہوگا کہ خدا سے ابھی ابھی جو دعا میں نے مانگی ہے ، اسے پورا کرنے کا یہ سامان خدا ہی کی طرف سے ہوا ہے اس لیے اب خواہ مخواہ خودداری کا مظاہر ہ کر کے اپنے رب کے فراہم کر دہ سامان میزبانی کو ٹھکرانا مناسب نہیں ہے۔

37. ضروری نہیں کہ یہ بات لڑکی نے اپنے باپ سے حضرت موسیٰؑ کی پہلی ملاقات کے وقت ہی کہہ دی ہو۔ اغلب یہ ہے کہ اس کے والد نے اجنبی مسافر کو ایک دو روز اپنے پاس ٹھیرا لیا ہوگا اور اس دوران میں کسی وقت بیٹی نے باپ کو یہ مشورہ دیا ہوگا ۔ اس مشورے کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی کبر سنی کے باعث مجبوراً ہم لڑ کیوں کوکام کے لئے نکلنا پڑتا ہے۔ ہمارا کوئی بھائی نہیں کہ باہر کے کام سنبھالے۔ آپ اس شخص کو ملازم رکھ لیں۔مظبوط آدمی ہے، ہر طرح کی مشقت کرلے گا۔ اور بھروسے کے قابل آدمی ہے ۔ محض اپنی شرافت کی بنا پر اس نے ہم عورتوں کو بے بس کھڑا دیکھ کر ہماری مدد کی۔ اور کبھی ہماری طرح نظر اُٹھا کر نہ دیکھا۔

38. یہ بھی ضروری نہیں کہ بیٹی کی بات سنتے ہی باپ نے فوراً حضرت موسیٰؑ سے یہ بات کہہ دی ہو۔ قیاس چاہتا ہے کہ انہوں نے بیٹی کے مشورے پر غور کرنے کے بعد یہ رائے قائم کی ہوگی کہ آدمی شریف سہی، مگر جوان بیٹیوں کے گھر میں ایک جوان، تندرست و توانا آدمی کو یونہی ملازم رکھ چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔ جب یہ شریف ، تعلیم یافتہ، مہذب اور خاندانی آدمی ہے(جیسا کہ حضرت موسیٰؑ کا قصہ انہیں معلوم ہو چکا ہوگا) تو کیوں نہ اسے داماد بنا کر ہی گھر میں رکھا جائے۔ اس رائے پر پہنچنے کے بعد انہوں نے کسی مناسب وقت پر حضرت موسیٰؑ سے یہ بات کہی ہوگی۔

یہاں پھر بنی اسرائیل کی ایک کرم فرمائی ملاحظہ ہو جو انہوں نے اپنے جلیل القدر نبی، اپنے سب سے بڑے محسن اور قومی ہیرو پر کی ہے۔ تلمود میں کہا گیا ہے کہ ”موسیٰؑ رعویل کے ہاں رہنے لگے، اور وہ اپنے میزبان کی بیٹی صفورہ پر نظرِ عنایت رکھتے تھے، یہاں تک کہ آخر کار انہوں نے اس سے بیاہ کر لیا“۔ ایک اور یہودی روایت جو جیوش انسائیکلو پیڈیا میں نقل کی گئی ہے، یہ ہے کہ ”حضرت موسیٰؑ نے جب یتھرو کو اپنا سارا ماجرا سنایا تو اس نے سمجھ لیا کہ یہی وہ شخص ہے جس کے ہاتھوں فرعون کی سلطنت تباہ ہونے کی پیشن گوئیاں کی گئی تھیں۔ اس لیے اس نے فوراً حضرت موسیٰؑ کو قید کر لیا تا کہ انہیں فرعون کے حوالہ کر کے انعام حاصل کر ے۔ سات یا دس سال تک وہ اس کی قید میں رہے ۔ ایک تاریک تہ خانہ تھا جس میں وہ بند تھے۔ مگر یتھرو کی بیٹی زفورا(صفورا) جس سے کنویں پر ان کی پہلی ملاقات ہوئی تھی، چپکے چپکے ان سے قید خانے میں ملتی رہی اور انہیں کھانا پانی بھی پہنچاتی رہی۔ ان دونوں میں شادی کی خفیہ قرار داد ہو چکی تھی۔ سات یا دس سال کے بعد زفورا نے اپنے باپ سے کہا کہ اتنی مدت ہوئی آپ نے ایک شخص کو قید میں ڈال دیا تھا اور پھر اس کی خبر تک نہ لی۔ اب تک اسے مرجانا چاہییے تھا ۔ لیکن اگر وہ اب بھی زندہ ہو تو ضرور کوئی خدا رسیدہ آدمی ہے۔ یتھرو اس کی یہ بات سن کر جب قید خانے میں گیا تو حضرت موسیٰؑ کو زندہ دیکھ کر اسے یقین آگیا کہ وہ معجزے سے زندہ ہیں ۔ تب اس نے زفورا سے ان کی شادی کر دی“۔

جو مغربی مستشرقین قرآنی قصّوں کے مآخذ ڈھونڈتے پھرتے ہیں انہیں کہیں یہ کھلا فرق بھی نظر آتا ہے جو قرآن کے بیان اور اسرائیلی روایات میں پایا جاتا ہے؟

39. بعض لوگوں نے حضرت موسیٰؑ اور لڑکی کےوالد کی اس گفتگو کو نکاح کا ایجاب و قبول سمجھ لیا ہے اور یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا باپ کی خدمت بیٹی کے نکاح کا مہر قرار پا سکتی ہے؟ اور کیا عقدِ نکاح میں اس طرح کی خارجی شرائط شامل ہو سکتی ہیں؟ حالانکہ آیاتِ زیر بحث کی عبارت سے خود ہی یہ بات ظاہر ہو رہی ہے کہ عقدِ نکاح نہ تھا بلکہ وہ ابتدائی بات چیت تھی جو نکاح سے پہلے تجویز نکا ح کے سلسلے میں بالعموم دنیا میں ہوا کرتی ہے ۔ آخر یہ نکاح کا ایجاب و قبول کیسے ہو سکتا ہے جبکہ یہ تعیُّن بھی اس میں نہ کیا گیا تھا کہ دونوں لڑکیوں میں سے کونسی نکاح میں دی جا رہی ہے ۔ اس گفتگو کا ماحصل تو صرف یہ تھآ کہ لڑکی کے باپ نے کہا میں اپنی لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح تم سے کر دینے کے لیے تیار ہوں، بشرطیکہ تم مجھ سے وعدہ کرو کہ آٹھ دس سال میرے ہاں رہ کر میرے گھر کے کام کاج میں میرا ہاتھ بٹاؤ گے۔ کیونکہ اس رشتے سے میری اصل غرض یہی ہے کہ میں بوڑھا آدمی ہوں، کوئی بیٹا میرے ہاں نہیں ہے جو میری جائداد کا انتظام سنبھالے ، لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں جنہیں مجبوراً باہر نکالتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ داماد میرا دست وبازو بن کر رہے ، یہ ذمہ داری اگر تم سنبھالنے کے لیے تیار ہو اور شادی کے بعد ہی بیوی کو لے کر چلے جانے کا ارادہ نہ رکھتے ہو، تو میں اپنی ایک لڑکی کا نکاح تم سےکر دوں گا۔ حضرت موسیٰؑ اس وقت خود ایک ٹھکانے کے طالب تھے۔ انہوں نے اس تجویز کو قبول کر لیا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک معاہدے کی صورت تھی جو نکاح سے پہلے فریقین میں طے ہوئی تھی۔ اس کے بعد اصل نکاح قاعدے کے مطابق ہوا ہوگا اور اس میں مہر بھی باندھا گیا ہو گا۔ اُس عقد میں خدمت کی شرط شامل ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔