Tafheem ul Quran

Surah 28 Al-Qasas, Ayat 29-42

فَلَمَّا قَضٰى مُوۡسَى الۡاَجَلَ وَسَارَ بِاَهۡلِهٖۤ اٰنَسَ مِنۡ جَانِبِ الطُّوۡرِ نَارًا​ۚ قَالَ لِاَهۡلِهِ امۡكُثُوۡۤا اِنِّىۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًا​ لَّعَلِّىۡۤ اٰتِيۡكُمۡ مِّنۡهَا بِخَبَرٍ اَوۡ جَذۡوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمۡ تَصۡطَلُوۡنَ‏ ﴿28:29﴾ فَلَمَّاۤ اَتٰٮهَا نُوۡدِىَ مِنۡ شَاطِیٴِ الۡوَادِ الۡاَيۡمَنِ فِى الۡبُقۡعَةِ الۡمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ اَنۡ يّٰمُوۡسٰٓى اِنِّىۡۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الۡعٰلَمِيۡنَ ۙ‏ ﴿28:30﴾ وَاَنۡ اَ لۡقِ عَصَاكَ​ ؕ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهۡتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰى مُدۡبِرًا وَّلَمۡ يُعَقِّبۡ​ ؕ يٰمُوۡسٰٓى اَ قۡبِلۡ وَلَا تَخَفۡ​ اِنَّكَ مِنَ الۡاٰمِنِيۡنَ‏ ﴿28:31﴾ اُسۡلُكۡ يَدَكَ فِىۡ جَيۡبِكَ تَخۡرُجۡ بَيۡضَآءَ مِنۡ غَيۡرِ سُوۡٓءٍ وَّاضۡمُمۡ اِلَيۡكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهۡبِ​ فَذٰنِكَ بُرۡهَانٰنِ مِنۡ رَّبِّكَ اِلٰى فِرۡعَوۡنَ وَمَلَا۟ـئِهٖؕ اِنَّهُمۡ كَانُوۡا قَوۡمًا فٰسِقِيۡنَ‏‏‏ ﴿28:32﴾ قَالَ رَبِّ اِنِّىۡ قَتَلۡتُ مِنۡهُمۡ نَفۡسًا فَاَخَافُ اَنۡ يَّقۡتُلُوۡنِ‏  ﴿28:33﴾ وَاَخِىۡ هٰرُوۡنُ هُوَ اَفۡصَحُ مِنِّىۡ لِسَانًا فَاَرۡسِلۡهُ مَعِىَ رِدۡاً يُّصَدِّقُنِىۡٓ​ اِنِّىۡۤ اَخَافُ اَنۡ يُّكَذِّبُوۡنِ‏ ﴿28:34﴾ قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِيۡكَ وَنَجۡعَلُ لَـكُمَا سُلۡطٰنًا فَلَا يَصِلُوۡنَ اِلَيۡكُمَا​​ ۛ ​ۚ بِاٰيٰتِنَاۤ ​ ۛ​ ۚ اَنۡـتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الۡغٰلِبُوۡنَ‏  ﴿28:35﴾ فَلَمَّا جَآءَهُمۡ مُّوۡسٰى بِاٰيٰتِنَا بَيِّنٰتٍ قَالُوۡا مَا هٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّفۡتَـرًى وَمَا سَمِعۡنَا بِهٰذَا فِىۡۤ اٰبَآئِنَا الۡاَوَّلِيۡنَ‏ ﴿28:36﴾ وَقَالَ مُوۡسٰى رَبِّىۡۤ اَعۡلَمُ بِمَنۡ جَآءَ بِالۡهُدٰى مِنۡ عِنۡدِهٖ وَمَنۡ تَكُوۡنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِ​ؕ اِنَّهٗ لَا يُفۡلِحُ الظّٰلِمُوۡنَ‏ ﴿28:37﴾ وَقَالَ فِرۡعَوۡنُ يٰۤـاَيُّهَا الۡمَلَاُ مَا عَلِمۡتُ لَـكُمۡ مِّنۡ اِلٰهٍ غَيۡرِىۡ​ ۚ فَاَوۡقِدۡ لِىۡ يٰهَامٰنُ عَلَى الطِّيۡنِ فَاجۡعَلْ لِّىۡ صَرۡحًا لَّعَلِّىۡۤ اَطَّلِعُ اِلٰٓى اِلٰهِ مُوۡسٰى ۙ وَاِنِّىۡ لَاَظُنُّهٗ مِنَ الۡـكٰذِبِيۡنَ‏ ﴿28:38﴾ وَاسۡتَكۡبَرَ هُوَ وَجُنُوۡدُهٗ فِى الۡاَرۡضِ بِغَيۡرِ الۡحَـقِّ وَظَنُّوۡۤا اَنَّهُمۡ اِلَـيۡنَا لَا يُرۡجَعُوۡنَ‏ ﴿28:39﴾ فَاَخَذۡنٰهُ وَجُنُوۡدَهٗ فَنَبَذۡنٰهُمۡ فِى الۡيَمِّ​ۚ فَانْظُرۡ كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿28:40﴾ وَجَعَلۡنٰهُمۡ اَـئِمَّةً يَّدۡعُوۡنَ اِلَى النَّارِ​ۚ وَيَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ لَا يُنۡصَرُوۡنَ‏ ﴿28:41﴾ وَاَتۡبَعۡنٰهُمۡ فِىۡ هٰذِهِ الدُّنۡيَا لَـعۡنَةً​  ۚ وَيَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ هُمۡ مِّنَ الۡمَقۡبُوۡحِيۡنَ‏ ﴿28:42﴾

29 - جب موسیٰؑ نے مدّت پوری کر دی40 اور اپنے اہل و عیال کو لے کر چلا تو طُور کی جانب اُس کو ایک آگ نظر آئی۔41 اُس نے اپنے گھر والوں سے کہا”ٹھہرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے ، شاید میں وہاں سے کوئی خبر لے آوٴں یا اُس آگ سے کوئی انگارا ہی اُٹھا لاوٴں جس سے تم تاپ سکو۔“ 30 - وہاں پہنچا تو وادی کے داہنے کنارے42 پر مبارک خطّے میں43 ایک درخت سے پُکارا گیا کہ”اے موسیٰؑ ، میں ہی اللہ ہوں، سارے جہاں والوں کا مالک۔“ 31 - اور (حکم دیا گیا کہ)پھینک دے اپنی لاٹھی۔ جونہی کہ موسیٰؑ نے دیکھا کہ وہ لاٹھی سانپ کی طرح بَل کھارہی ہے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگا اور اُس نے مُڑ کر بھی نہ دیکھا۔ (اِرشاد ہوا)”موسیٰؑ ، پلٹ آ اور خوف نہ کر ، تُو بالکل محفوظ ہے۔ 32 - اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال، چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے۔44 اور خوف سے بچنے کے لیے اپنا بازُو بھینچ لے۔45 یہ دوروشن نشانیاں ہیں تیرے ربّ کی طرف سے فرعون اور اُس کے درباریوں کے سامنے پیش کر نے کے لیے ، وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں۔“46 33 - موسیٰؑ نے عرض کیا”میرے آقا، میں تو اُن کا ایک آدمی قتل کر چکا ہوں، ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے۔47 34 - اور میرا بھائی ہارون ؑ مجھ سے زیادہ زبان آور ہے، اُسے میرے ساتھ مددگار کے طور پر بھیج تاکہ وہ میری تائید کرے، مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ مجھے جھُٹلائیں گے۔“ 35 - فرمایا”ہم تیرے بھائی کے ذریعہ سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو ایسی سطوت بخشیں گے کہ وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ ہماری نشانیوں کے زور سے غلبہ تمہارا اور تمہارے پیرووں کا ہی ہوگا۔“48 36 - پھر جب موسیٰؑ اُن لوگوں کے پاس ہماری کھُلی کھُلی نشانیاں لے کر پہنچا تو اُنہوں نے کہا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر بناوٹی جادُو۔49 اور یہ باتیں تو ہم نے اپنے باپ دادا کے زمانے میں کبھی سُنی ہی نہیں۔50 37 - موسیٰؑ نے جواب دیا”میرا ربّ اُس شخص کے حال سے خوب واقف ہے جو اُس کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ آخری انجام کِس کا اچھا ہونا ہے، حق یہ ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے۔“51 38 - اور فرعون نے کہا”اے اہلِ دربار، میں تو اپنے سوا تمہارے کسی خدا کو نہیں جانتا۔52ہامان، ذرا اینٹیں پکوا کر میرے لیے ایک اونچی عمارت تو بنوا، شاید کہ اُس پر چڑھ کر میں موسیٰؑ کے خدا کو دیکھ سکوں، میں تو اسے جھُوٹاسمجھتا ہوں۔“53 39 - اُس نے اور اُس کے لشکروں نے زمین میں بغیر کسی حق کے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا54 اور سمجھے کہ اُنہیں کبھی ہماری طرف پلٹنا نہیں ہے۔55 40 - آخر کار ہم نے اُسے اور اُس کے لشکروں کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا۔56 اب دیکھ لو کہ اُن ظالموں کا کیسا انجام ہوا۔ 41 - ہم نے اُنہیں جہنّم کی طرف دعوت دینے والے پیش رو بنا دیا57 اور قیامت کے روز وہ کہیں سے کوئی مدد نہ پا سکیں گے۔ 42 - ہم نے اِس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی اور قیامت کے روز وہ بڑی قباحت میں مبتلا ہوں گے۔58 ؏۴


Notes

40. حضرت حسن علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰؑ نے آٹھ کے بجائے دس سال کی مدت پوری کی تھی۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ یہ بات خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(قضٰی موسیٰ اتم الاجلین و اطیبھما عشر سنین۔ ”موسیٰؑ نے دونوں مدتوں میں سے وہ مدت پوری کی جو زیادہ کامل اور ان کے خسر کے لیے زیادہ خوشگوار تھی، یعنی دس سال“۔

41. اس سفر کا رُخ طور کی جانب ہونے سے یہ خیال ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰؑ اپنے اہل وعیال کو لے کر مصر ہی جانا چاہتے ہوں گے۔ اس لیے کہ طور اُس راستے پر ہے جو مَدْیَن سے مصر کی طرف جاتا ہے ۔ غالباً حضرت موسیٰؑ نے خیال کیا ہوگا کہ دس سال گزر چکے ہیں۔ فرعون بھی مر چکا ہے جس کی حکومت کے زمانے میں وہ مصر سے نکلے تھے۔ اب اگر خاموشی کے ساتھ وہاں چلا جاؤں اور اپنے خاندان والوں کے ساتھ رہ پڑوں تو شاید کسی کو میرا پتہ بھی نہ چلے ۔

بائیبل کا بیان یہاں واقعات کی ترتیب میں قرآن کے بیان سے بالکل مختلف ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ حضرت موسیٰؑ اپنے خسر کی بکریاں چَراتے ہوئے ”بیا بان کے پرلی طرف سے خدا کے پہاڑ حورب کے نزدیک“آ نکلے تھے۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے ان سے کلام کیا اور انہیں رسالت کے منصب پر مامور کر کے مصر جانے کا حکم دیا۔ پھر وہ اپنے خسر کے پاس واپس آگئے اور ان سے اجازت لے کر اپنے بال بچوں کےساتھ مصر روانہ ہوئے(خروج۱:۳۔۱۸:۴)۔ اس کے برعکس قرآن کہتا ہے کہ حضرت موسیٰؑ مدت پوری کرنے کے بعد اپنے اہل عیال کو لے کر مدین سے روانہ ہوئے اور اس سفر میں اللہ تعالیٰ کی مخاطبت اور منصب نبوت پر تقرر کا معاملہ پیش آیا۔

بائیبل اور تلمود دونوں کا متفقہ بیان ہے کہ حضرت موسیٰؑ کے زمانہ قیامِ مدین میں وہ فرعون مر چکا تھا جس کے ہاں انہوں نے پرورش پائی تھی اور اب ایک دوسرا فرعون مصر کا فرمانروا تھا۔

42. یعنی اُس کنارے پر جو حضر ت موسیٰؑ کے داہنے ہاتھ کی طرف تھا۔

43. یعنی اُس خطے میں جو نورِ تجلی سے روشن ہو رہا تھا۔

44. یہ دونوں معجزے اس وقت حضرت موسیٰؑ کو اس لیے دکھائے گئے کہ اول تو انہیں خود پوری طرح یقین ہو جائے کہ فی الواقع وہی ہستی ان سے مخاطب ہے جو کائنات کے پورے نظام کی خالق و مالک اور فرماں روا ہے۔ دوسرے وہ ان معجزوں کو دیکھ کر مطمئن ہو جائیں کہ جس خطر ناک مشن پر انہیں فرعون کی طرف بھیجا جا رہا ہے اس کا سامنا کرنے کے لیے وہ بالکل نہتے نہیں جائیں گے بلکہ دو زبر دست ہتھیار لے کر جائیں گے۔

45. یعنی جب کبھی کوئی خطر ناک موقع ایسا آئے جس سے تمہارے دل میں خوف پیدا ہوا تو اپنابازو بھینچ لیا کرو، اس سے تمہار دل قوی ہو جائے گا اور رعب و دہشت کی کوئی کیفیت تمہارے اندر باقی نہ رہے گی۔

بازو سے مراد غالباً سیدھا بازو ہے، کیونکہ مطلقاً ہاتھ بول کر سیدھا ہاتھ ہی مراد لیا جا تا ہے ۔ بھینچنے کی دو شکلیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ بازو کو پہلو کے ساتھ لگا کر دبا لیا جائے۔ دوسری یہ کہ ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ کی بغل میں رکھ دبایا جائے۔ اغلب یہ ہے کہ پہلی شکل ہی مراد ہوگی۔ کیونکہ اس صورت میں دوسرا کوئی شخص یہ محسوس نہیں کر سکتا کہ آدمی اپنے دل کا خوف دور کرنے کے لیے کوئی خاص عمل کر رہا ہے۔

حضرت موسیٰؑ کو یہ تدبیر اس لیےبتائی گئی کہ وہ ایک ظالم حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی لاؤ لشکر اور دنیوی سازو سامان کے بغیر بھیجے جا رہے تھے۔ بار ہا ایسے خوفناک مواقع پیش آنے والے تھے جن میں ایک ا ولو العزم نبی تک دہشت سے محفوظ نہ رہ سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب کوئی ایسی صورت پیش آئے ، تم بس یہ عمل کر لیا کرو، فرعون اپنی پوری سلطنت کا زور لگا کر بھی تمہارے دل کی طاقت کو متزلزل نہ کر سکے گا۔

46. ان الفاظ میں یہ مفہوم آپ سے آپ شامل ہے کہ یہ نشانیاں لے کر فرعون کے پاس جاؤ اور اللہ کے رسول کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کر کے اسے اور اس کے اعیانِ سلطنت کو اللہ رب ّ العالمین کی اطاعت و بندگی کی طرف دعوت دو۔ اسی لیے یہاں اس ماموریت کی تصریح نہیں کی گئی ہے ۔ البتہ دُوسرے مقامات پر صراحت کے ساتھ یہ مضمون بیان کیا گیا ہے ۔ سورہ طٰہٰ اور سورہ نازعات میں فرمایا اِذْھَبْ اِلیٰ فِرْعَوْنَ اِنَّہُ طَغیٰ، ”فرعون کے پاس جا کہ وہ سرکش ہو گیا ہے“۔ اور الشعراء میں فرمایا اِذْ نَا دٰی رَبُّکَ مُوْسیٰٓ اَنِ ائتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ قَوْمَ فِرْعَوْنَ، ”جب کہ پکارا تیرے رب نے موسیٰ ؑ کو کہ جا ظالم قوم کے پاس، فرعون کی قوم کے پاس“۔

47. اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس ڈر سے وہاں نہیں جانا چاہتا ۔ بلکہ مطلب یہ تھا کہ حضور کی طرف سے ایسا کوئی انتظام ہونا چاہیے کہ میرے پہنچتے ہی کسی بات چیت اور ادائے رسالت کی نوبت آنے سے پہلے وہ لوگ مجھے الزامِ قتل میں گرفتار نہ کر لیں، کیونکہ اس صورت میں تو وہ مقصد ہی فوت ہو جائے گا جس کے لیے مجھے اس مہم پر بھیجا جا رہا ہے ۔ بعد کی عبارت سے یہ بات خود واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت موسیٰؑ کی اس گزارش کا یہ مدعا ہر گز نہیں تھا کہ وہ ڈر کے مارے نبوت کا منصب قبول کرنے اور فرعون کے ہاں جانے سے انکار کرنا چاہتے تھے۔

48. اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضرت موسیٰؑ کی اس ملاقات اور گفتگو کا حال اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ سورہ طٰہٰ( آیت۹ تا ۴۸) میں بیان ہوا ہے۔ قرآن مجید کے اس بیان کا جو شخص بھی اُس داستان سے مقابلہ کر ے گا جو اس سلسلہ میں بائیبل کی کتاب خروج(باب۴،۳) میں بیان کی گئی ہے ، وہ اگر کچھ ذوقِ سلیم رکھتا ہو تو خود محسوس کر لے گا کہ ان دونوں میں سے کلامِ الہٰی کو نسا ہے اور انسانی داستان گوئی کا اطلاق کس پر ہوتا ہے ۔ نیز وہ اس معاملہ میں بھی بآسانی رائے قائم کر سکے گا کہ آیا قرآن کی یہ روایت معاذ اللہ بائیبل اور اسرائیلی روایات کی نقل ہے ، یا وہ خدا خود اصل واقعہ بیان فرمارہا ہے جس نے حضرت موسیٰؑ کو باریاب فرمایا تھا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، طٰہٰ حاشیہ ۱۹)۔

49. اصل الفاظ ہیں سِحْرٌ مُّفْتَرًی ”افترا کیا ہوا جادو“۔اس افترا کو اگر جھوٹ کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ لاٹھی کا اژدہا بننا اور ہاتھ کا چمک اٹھنانفس شے میں حقیقی تغیر نہیں ہے بلکہ محض ایک نمائشی شعبدہ ہے جسے یہ شخص معجزہ کہہ کر ہمیں دھوکا دے رہا ہے ۔ اور اگر اسے بناوٹ کے معنی میں لیا جائے تو مراد یہ ہوگی کہ یہ شخص کسی کر تب سے ایک ایسی چیز بنا لا یا ہے جو دیکھنے میں لاٹھی معلوم ہوتی ہے مگر جب یہ اسے پھینک دیتا ہے تو سانپ نظر آنے لگتی ہے ۔ اور اپنے ہاتھ پر بھی اس نے کوئی ایسی چیز مل لی ہے کہ اس کی بغل سے نکلنے کے بعد وہ یکایک چمک اٹھتا ہے ۔ یہ مصنوعی طلسم اس نے خود تیار کیا ہے، اور ہمیں یقین یہ دلارہا ہے کہ معجزے ہیں جو خدا نے اسے عطا کیے ہیں۔

50. اشارہ ہے اُن باتوں کی طرف جو تبلیغ رسالت کے سلسلے میں حضرت موسیٰؑ نے پیش کی تھیں ۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان باتوں کی تفصیل دی گئی ہے۔ النازعات میں ہے کہ حضرت موسیٰؑ نے اس سے کہا: ھَلْ لَّکَ اِلٰی اَنْ تَزَکّٰی، وَاَھْدِیَکَ اِلیٰ رَبِّکَ فَتَحْشٰی، ”کیا تو پاکیزہ روش اختیار کرنے پر آمادہ ہے ؟ اور میں تجھے تیرے رب کی راہ بتاؤں تو خثیت اختیار کر ے گا“؟ سورہ طٰہٰ میں ہے کہ قَدْ جِئْنَا کَ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَبِّکَ وَالسَّلَامُ عَلیٰ مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی، اِنَّا قَدْ اُوْحِیَ اِلَیْنَآ اَنَّ الْعَذَابَ عَلیٰ مَنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی، ”ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لائے ہیں، اور سلامتی ہے اس کے لیے جو راہِ راست کی پیروی کرے اور ہم پر وحی کی گئی ہے کہ سزا ہے اس کے لئے جوجھٹلائے اور منہ موڑے “۔ اور اِنَّا رَسُوْلَارَبِّکَ فَاَ رْ سِلْ مَعَنَا بِنِیْ اِسْرَآءِیْلَ”ہم تیرے رب کی پیغمبر ہیں ، تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو جانے دے“۔ انہی باتوں سے متعلق فرعون نے کہا کہ ہمارے باپ دادا نے بھی کبھی یہ نہیں سنا تھا کہ فرعونِ مصر سے اوپر بھی کوئی ایسی مقتدر ہستی ہے جو اس کو حکم دینے کی مجاز ہو ، جو اسے سزا دے سکتی ہو ، جو اسے ہدایات دینے کے لیے کسی آدمی کو اس کے دربار میں بھیجے، اور جس سے ڈرنے کے لیے مصر کے بادشاہ سے کہاجائے۔یہ تو نرالی باتیں ہیں جو آج ہم ایک شخص کی زبان سے سُن رہے ہیں۔

51. یعنی تو مجھے ساحرا ور افترا پرداز قرار دیتا ہے ، لیکن میرا رب میرے حال سے خوب واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جو شخص اس کی طرف سے رسول مقرر کیا گیا ہے وہ کیسا آدمی ہے۔ اور آخری انجام کا فیصلہ اس کے ہاتھ میں ہے۔ میں جھوٹا ہوں تو میرا انجام بُرا ہو گا اور تو جھوٹا ہے تو پھر خوب جان لے کے تیرا انجام اچھا نہیں ہے ۔ بہر حال یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ ظالم کے لیے فلاح نہیں ہے ۔ جو شخص خدا کا رسول نہ ہو اور جھوٹ موٹ کا رسول بن کر اپنا کوئی مفاد حاصل کر نا چاہے وہ بھی ظالم ہے اور فلاح سے محروم رہے گا، اور جو طرح طرح کے جھوٹے الزامات لگا کر سچے رسول کو جھٹلا ئے اور مکاریوں سے صداقت کو دبانا چاہے وہ بھی ظالم ہے اور اسے کبھی فلاح نصیب نہ ہوگی۔

52. اس قول سے فرعون کا مطلب ظاہر ہے کہ یہ نہیں تھا اور نہیں ہو سکتا تھا کہ میں ہی تمہارا اور زمین و آسمان کا خالق ہوں ، کیونکہ ایسی بات صرف ایک پاگل ہی کے منہ سے نکل سکتی تھی۔ اور اسی طرح اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ میرے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، کیونکہ اہلِ مصر کے مذہب میں بہت سے معبودوں کی پرستش ہوتی تھی اور خود فرعون کو جس بنا پر معبود یت کا مرتبہ دیا گیا تھا وہ بھی صرف یہ تھی کہ اسے سُورج دیوتا کا اوتار مانا جاتا تھا۔ سب سے بڑی شہادت قرآن مجید کی موجود ہے کہ فرعون خود بہت سے دیوتاؤں کا پرستار تھا: وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسیٰ وَقَوْمَہٗ لِیُفْسِدُوْ ا فِی الْاَرْضِ وَیَذَرَکَ وَاٰلِھَتَکَ،”اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے کہا کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوٹ دے دیگا کہ ملک میں فساد برپا کر یں اور تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں ؟(الاعراف،آیت۱۲۷)۔ اس لیے لامحالہ یہاں فرعون نے لفظ”خدا“ اپنے لیے بمعنی خالق و معبود نہیں بلکہ بمعنی مطاع و حاکمِ مطلق استعمال کیا تھا۔ اس کا مدعا یہ تھا کہ اس سر زمین ِ مصر کا مالک میں ہوں ، یہاں میرا حکم چلے گا۔ میرا ہی قانون یہاں قانون مانا جائے گا۔ میری ذات ہی یہاں امر ونہی کا سرچشمہ تسلیم کی جائے گی۔ کوئی دوسرا یہاں حکم چلانے کا مجاز نہیں ہے ۔ یہ موسیٰ کون ہے جو رب العالمین کا نمائندہ بن کر آکھڑا ہوا ہے اور مجھے اس طرح احکام سنا رہا ہے کہ گویا اصل فرمانروا یہ ہے اور میں اس کا تابع فرمان ہوں ۔ اسی بنا پر اس نے اپنے دربار کے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا تھا یٰقَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَھٰذِہٖ الْاَنْھَا رُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ،”اے قوم، کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے ، اور یہ نہریں میرے تحت جاری نہیں ہیں“؟(الزخرف، آیت۵۱) اور اسی بنا پر وہ حضرت موسیٰؑ سے بار بار کہتا تھا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدُنَا عَلَیْہِ اٰبَآ ءَنَا وَتَکُوْنَ لَکُمَا الْکِبْرِیَآ ءُ فِی الْاَرْضِ، ”کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اُس طریقے سے ہٹا دے جو ہمارے باپ دادا کے زمانے سے چلا آرہا ہے اور اس ملک میں بڑائی تم دونوں بھائیوں کی ہو جائے“؟(یونس، آیت۷۸) اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِ کَ یٰمُوْسٰی،” اے موسیٰ کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اپنے جادو کے زور سے ہماری زمین سے بے دخل کر دے“؟(طٰہٰ۔آیت۵۷)۔ اِنِّیْٓ اَخَا فُ اَنْ یُّبْدِّ لَ دِیْنَکُمْ اَوْ اَنْ یُّظْھِرَ فِی الْارْضِ الْفَسَادَ، ” میں ڈرتا ہوں کہ یہ شخص تم لوگوں کا دین بدل ڈالیگا، یا ملک میں فساد برپا کرے گا“(المومن۔ آیت۲۶)۔

اس لحاظ سے اگر غور کیا جائے تو فرعون کی پوزیشن اُن ریاستوں کی پوزیشن سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے جو خدا کے پیغمبر کی لائی ہوئی شریعت سے آزاد خود مختار ہو کر اپنی سیاسی اور قانونی حاکمیت کی مدعی ہیں۔ وہ خواہ سرچشمہ قانون اور صاحبِ امر ونہی کسی بادشاہی کو مانیں یا قوم کی مرضی کو، بہر حال جب تک وہ یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ ملک میں خدا اور اس کے رسول کا نہیں بلکہ ہمارا حکم چلے گا اس وقت تک ان کے اور فر عون کے موقف میں کوئی اصولی فرق نہیں ہے ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ بے شعور لوگ فرعون پر لعنت بھیجتے رہیں اوراِن کو سندِ جواز عطا کرتے رہیں۔ حقائق کی سمجھ بوجھ رکھنے والا آدمی تو معنی اور روح کو دیکھے گا نہ کہ الفاظ اور اصطلاحات کو۔ آخر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ فرعون نے اپنے لیے ”اِلٰہ“کالفظ استعمال کیا تھا، اور یہ اس معنی میں ”حاکمیت “کی اصطلاح استعمال کرتی ہیں۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ، سورہ طٰہٰ ۔ حاشیہ ۲۱)۔

53. یہ اسی قسم کی ذہنیت تھی جیسی موجودہ زمانے کے روسی کمیونسٹ ظاہر کر رہے ہیں ۔ یہ اسپٹنک اور ٹونِک چھوڑ کر دنیا کو خبر دیتے ہیں کہ ہماری اِن گیندوں کو اوپر کہیں خدا نہیں ملا۔ وہ بے وقوف ایک مینار ے پر چڑھ کر خدا کو جھانکنا چاہتا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ گمراہ لوگوں کے ذہن کی پرواز ساڑھے تین ہزار برس پہلے جہاں تک تھی آج بھی وہیں تک ہے۔ اس اعتبار سے ایک اُنگل بھر ترتی بھی وہ نہیں کر سکتے ہیں۔ معلوم نہیں کس احمق نے اِن کو یہ خبر دی تھی کہ خدا پرست لوگ جس ربّ العالمین کو مانتے ہیں وہ اُن کے عقیدے کی رو سے اوپر کہیں بیٹھا ہوا ہے، اور اِس اتھاہ کائنات میں زمین سے چند ہزار فیٹ یا چند لاکھ میل اوپر اُٹھ کر اگر وہ انہیں نہ ملے تو یہ بات گویا بالکل ثابت ہو جائے گی کہ وہ کہیں موجود نہیں ہے۔

قرآن یہاں یہ نہیں کہتا کہ فرعون نے فی الواقع ایک عمارت اس غر ض کے لیے بنوائی تھی اور اس پر چڑھ کر خدا کو جھانکنے کی کوشش بھی کی تھی۔ بلکہ وہ اُس کے صرف اس قول کو نقل کرتا ہے۔ اِس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے عملاً یہ حماقت نہیں کی تھی۔ اِن باتوں سے اس کا مدعا صرف بے وقوف بنا نا تھا۔

یہ امر بھی واضح طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ فرعون آیا فی الواقع خدا وندِ عالم کی ہستی کا منکر تھا یا محض ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر دہریت کی باتیں کرتا تھا۔ اس کے اقوال اس معامہ میں اُسی ذہنی الجھاؤ کی نشان دہی کرتی ہیں جو روسی کمیونسٹوں کی باتوں میں پایا جاتا ہے ۔ کبھی تو وہ آسمان پر چڑھ کر دنیا کو بتانا چاہتا تھا کہ میں اوپر دیکھ آیا ہوں، موسیٰ کا خدا کہیں نہیں ہے ۔ اور کبھی وہ کہتا ہے فَلَوْْلَآ اُلْقِیَ عَلَیْہِ اَسْوِ رَۃ مِّنْ ذَھَب اَوْجَآ ءَ مَعَہُ الْمَلٰئِکَۃُ مُقْتَرِنِیْنَ”اگر موسیٰ واقعی خدا کا بھیجا ہوا ہے تو کیوں نہ اُ س کے لیے سونے کے کنگن اتارے گئے، یا اس کی اردلی میں ملائکہ نہ آئے“؟ یہ باتیں روس کے ایک سابق وزیر اعظم خرو شچیف کی باتوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں جو کبھی خدا کا انکار کرتا اور کبھی بار بار خدا کا نام لیتا اور اس کے نام کی قسمیں کھاتا تھا۔ ہمارا قیاس یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے خلفاء کا دورِ اقتدار گزر جانے کے بعد جب مصر میں قبطی قوم پرستی کا زور ہوا اور ملک میں اِسی نسلی و وطنی تعصّب کی بنیاد پر سیاسی انقلاب رونما ہو گیا تو نئے لیڈروں نے اپنے قوم ستانہ جوش میں اُس خدا کے خلاف بھی بغاوت کر دی جس کو ماننے کی دعوت حضرت یوسفؑ اور ان کے پیرو اسرائیلی اور مصری مسلمان دیتے تھے ۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ خدا کو مان کر ہم یوسفی تہذیب کے اثر سے نہ نکل سکیں گے، اور یہ تہذیب باقی رہی تو ہمارا سیاسی اثر بھی مستحکم نہ ہو سکے گا۔ وہ خدا کے اقرار اور مُسْلم اقتدار کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے، اس لیے ایک سے پیچھا چھڑانے کی خاطر دوسرے کا انکار ان کے نزدیک ضرور ی تھا، اگر چہ اس کا اقرار ان کے دل کی گہرائیوں سے کسی طرح نکالے نہ نکلتا تھا۔

54. یعنی بڑائی کا حق تو اس کائنات میں صرف اللہ رب العالمین کو ہے ۔ مگر فرعون اور اس کے لشکر زمین کے ایک ذرا سے خطے میں تھوڑا سا اقتدار پا کر یہ سمجھ بیٹھے کہ یہاں بڑے بس وہی ہیں۔

55. یعنی انہوں نے اپنے آپ کو غیر مسئول سمجھ لیا اور یہ فرض کر کے خود مختارا نہ کام کرنے لگے کہ انہیں جا کر کسی کے سامنے جواب دہی نہیں کرنی ہے ۔

56. ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے جھوٹے تکبر کے مقابلے میں ان کی بے حقیقتی اور ہیچ میرزی کی تصویر کھینچ دی ہے ۔ وہ اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھ بیٹھے تھے۔ مگر جب وہ مہلت جو خدا نے ان کو راہِ راست پر آنے کے لیے دی تھی ختم ہوگئی تو انہیں اِس طرح اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا گیا جیسے کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے۔

57. یعنی وہ بعد کی نسلوں کے لیے ایک مثال قائم کر گئے ہیں کہ ظلم یوں کیا جاتا ہے، انکارِ حق پر ڈٹ جانے اورآخر وقت تک ڈٹے رہنے کی شان یہ ہوتی ہے ، اور صداقت کے مقابلے میں باطل پر لوگ ایسے ایسے ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ سب راستے دنیا کو دکھا کر وہ جہنم کی طرف جا چکے ہیں اور ان کے اَخلاف اب اُنہی کے نقشِ قدم پر چل کر اُسی منزل کے رُخ لپکے جا رہے ہیں۔

58. اصل الفاظ ہیں قیامت کے روزوہ ”مقبوحین“میں سےہوں گے۔ اس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں۔ وہ مردود و مطرود ہونگے۔ اللہ کی رحمت سے بالکل محروم کر دیے جائیں گے۔ ان کی بُری گت بنائی جائے گی اور ان کے چہرے بگاڑ دیے جائیں گے۔